" گستاخ رسول کی سزا موت ہے اور اسکی توبہ بھی اسکو سزائے موت سے نہیں بچا سکتی"محترم ساجد بھائی آپ کو میری پوسٹ نمبر 11 میں کس بات پر اتفاق نہیں ، میں آپ کی رائے جاننا چاہتا ہوں۔
" گستاخ رسول کی سزا موت ہے اور اسکی توبہ بھی اسکو سزائے موت سے نہیں بچا سکتی"محترم ساجد بھائی آپ کو میری پوسٹ نمبر 11 میں کس بات پر اتفاق نہیں ، میں آپ کی رائے جاننا چاہتا ہوں۔
شکریہ، ویسے پاکستان کا قانون یہی ہے، اس بات کے مقابل آپکی رائے کیا ہے؟" گستاخ رسول کی سزا موت ہے اور اسکی توبہ بھی اسکو سزائے موت سے نہیں بچا سکتی"
آپ فرما رہے تھے کہ یہ علماء کا فتوی ہے ۔ بہر حال مجھے علم نہیں کہ یہ پاکستان کا قانون بھی ہے یا نہیں ۔ اگر یہ فتوی ہے یا پھرقانون میں اسے دونوں صورتوں میں درست نہیں سمجھتا ۔ یہ اسلامی تعلیمات کے خلاف ہے کہ کسی شخص کو ،سوائے قصاص کے ، توبہ اور اصلاح کا موقع دئیے بغیر قتل کر دیا جائے ۔شکریہ، ویسے پاکستان کا قانون یہی ہے، اس بات کے مقابل آپکی رائے کیا ہے؟
http://en.wikipedia.org/wiki/Blasphemy_law_in_Pakistanآپ فرما رہے تھے کہ یہ علماء کا فتوی ہے ۔ بہر حال مجھے علم نہیں کہ یہ پاکستان کا قانون بھی ہے یا نہیں ۔ اگر یہ فتوی ہے یا پھرقانون میں اسے دونوں صورتوں میں درست نہیں سمجھتا ۔ یہ اسلامی تعلیمات کے خلاف ہے کہ کسی شخص کو ،سوائے قصاص کے ، توبہ اور اصلاح کا موقع دئیے بغیر قتل کر دیا جائے ۔
اس روایت میں دو قتل ہوئے ہیں۔ ایک لونڈی اور ایک اس کے پیٹ میں موجود بچہ، جیسا کہ یہ الفاظ بتا رہے ہیں:نبى صلى اللہ عليہ وسلم كى توہين كرنے والى لونڈى كو قتل كرنے والے اندھے شخص كى حديث كے متعلق اشكال
سوال؟
برائے مہربانى سنن ابو داود كى اس حديث كى شرح اور سبب بيان كريں جس ميں رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى توہين كرنے والے غلام كو اس كے مالك نے قتل كر ديا تھا، اور اسے اس كى سزا نہيں دى گئى، كيا اس كا سبب يہ تھا كہ كفار كے اولياء كو جو مسلمانوں كو اذيت ديں ديت نہيں دى جائيگى ؟
جواب:
الحمد للہ:
سوال ميں مقصود قصہ وہ ہے جسے ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہما بيان كرتے ہوئے فرماتے ہيں:
" ايك اندھے كى لونڈى تھى جو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم پر سب و شتم اور توہين كرتى تھى، اس نے اسے ايسا كرنے سے منع كيا ليكن وہ نہ ركى، اور وہ اسے ڈانٹتا ليكن وہ باز نہ آئى.
راوى كہتے ہيں: ايك رات جب وہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى توہين كرنے لگى اور سب و شتم كيا تو اس اندھے نے خنجر لے كر اس كے پيٹ پر ركھا اور اس پر وزن ڈال كر اسے قتل كر ديا، اس كى ٹانگوں كے پاس بچہ گرگيا، اور وہاں پر بستر خون سے لت پت ہو گيا، جب صبح ہوئى تو اس كا ذكر رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے كيا گيا اور لوگ جمع ہو گئے تو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" ميں اس شخص كو اللہ كى قسم ديتا ہوں جس نے بھى يہ كام كيا ہے اس پر ميرا حق ہے وہ كھڑا ہو جائے، تو وہ نابينا شخص كھڑا ہوا اور لوگوں كو پھلانگتا اور حركت كرتا ہوا نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے سامنے بيٹھ گيا اور كہنے لگا:
اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم ميں اس كا مالك ہوں! وہ آپ پر سب و شتم اور آپ كى توہين كيا كرتى تھى، اور ميں اسے روكتا ليكن وہ باز نہ آتى، ميں اسے ڈانٹتا ليكن وہ قبول نہ كرتى، ميرے اس سے موتيوں جيسے دو بيٹے بھى ہيں اور وہ ميرے ساتھ بڑى نرم تھى، رات بھى جب اس نے آپ كى توہين كرنا اور سب و شتم كرنا شروع كيا تو ميں نے خنجر لے كر اس كے پيٹ ميں ركھا اور اوپر وزن ڈال كر اسے قتل كر ديا.
تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
خبردار گواہ رہو اس كا خون رائيگاں ہے اس كى كوئى قدر و قيمت نہيں "
سنن ابو داود حديث نمبر ( 4361 ).
سوال نمبر ( 103739 ) كے جواب ميں اس قصہ كے صحيح ہونے كى بيان كيا جا چكا ہے، اور يہ بھى بيان ہوا ہے كہ يہ كئى ايك الفاظ اور واقعات كے ساتھ مروى ہے جو سب اس حادثہ كے واقع ہونے پر دلالت كرتے ہيں باوجود اس كے كہ بعض جملے اور عبارات ميں تردد ہے.
اور اس عورت كا قتل اس ليے نہيں كہ وہ ذمى تھى بلكہ اس ليے قتل كى گئى كہ وہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى توہين كرتى اور سب و شتم كرتى تھى، تو اس بنا پر وہ قتل كى مستحق ٹھرى، اور اگرچہ وہ مسلمان بھى ہوتى تو اس سب و شتم كى بنا پر كافر ہو كر بھى قتل كى مستحق تھى.
صنعانى رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى توہين كرنے اور سب و شتم كرنے والے كو قتل كرنے كى دليل اور اس كے خون كى كوئى قدر و قيمت نہيں كى دليل يہ ہے اگرچہ وہ مسلمان بھى ہو تو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم پر سب و شتم كرنا اور آپ كى توہين كرنا يہ اتداد ہے يعنى اس سے مرتد ہو جاتا ہے اس بنا پر وہ قتل ہو گا، ابن بطال كہتے ہيں كہ بغير توبہ كرائے ہى اسے قتل كيا جائيگا.
ديكھيں: سبل السلام ( 3 / 501 ).
اس نابينا شخص كا اس عورت ۔ جو قتل كى مستحق تھى ۔ كو قتل كرنے والے قصہ ميں حكمران اور امام كى اجازت كے بغير قتل كرنے كا جو اشكال پيدا ہوتا ہے اس ميں ہم شيخ الاسلام كا جواب نقل كر چكے ہيں، اس كى تفصيل ديكھنے كے ليے آپ سوال نمبر ( 103739 ) كے جواب كا مطالعہ كريں.
اس قصہ ميں مسلمانوں كے اہل كتاب كے ساتھ عدل كى بھى دليل پائى جاتى ہے جو ان كے ساتھ كيا جاتا تھا، اور جسے شريعت جہانوں كے ليے رحمت بنا كر لائى، معاہدہ كرنے والے يہوديوں كے حقوق محفوظ ہيں اور ان كا خيال ركھا جاتا ہے، اور كسى كے ليے بھى جائز نہيں كہ انہيں تكليف اور اذيت ديں، اسى ليے جب لوگوں نے يہودى عورت كو مقتول پايا تو اس كا معاملہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم تك لے كر گئے، جنہوں نے انہيں معاہدہ اور امان دے ركھى تھى، اور ان سے جزيہ نہيں ليتے تھے.
چنانچہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم غضبناك ہوئے اور مسلمانوں كو اللہ كى قسم دى كہ وہ ايسا عمل كرنے والوں كو سامنے لائيں، تا كہ وہ اس كى سزا ديكھيں، اور اس كے معاملے كا فيصلہ كريں، ليكن جب انہيں معلوم ہوا كہ اس نے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى توہين اور سب و شتم كر كے معاہدہ بار بار توڑا تو وہ سب حقوق سے محروم ہو گئى، اور اس حدقتل كى مستحق ٹھرى جو شريعت ہر اس شخص پر لاگو كرتى ہے جو نبى صلى اللہ عليہ وسلم كى توہين كرے، چاہے وہ ذمى ہو يا مسلمان، يا معاہدہ والا، كيونكہ انبياء كرام كى توہين كرنا اور ان پر سب و شتم كرنا اللہ كے ساتھ كفر ہے، اور ہر حرمت اور حق اور معاہدہ كو توڑ ديتا اور ختم كر ديتا ہے، اور يہ عظيم خيانت ہے جو شديد ترين سزا كى مستوجب ہے.
اہل ذمہ كے احكام ديكھنے كے ليے آپ ہمارى اسى ويب سائٹ پر سوال نمبر ( 22809 ) كے جواب كا مطالعہ كريں.
اس قصہ كى صحيح توجيہ اور فہم سليم يہى ہے، نہ كہ وہ جو حقد و بغض سے بھرے ہوئے اور شريعت كے حكم ميں طعن و تشنيع كرنے اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے خلاف باتيں بنانے والے نشر كرتے پھرتے ہيں، نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اس عورت كو اس طريقہ سے قتل نہيں كيا، ليكن جب وہ معاہدہ توڑنے اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى توہين كرنے كى پاداش ميں بطور حد قتل كى مستحق ٹھرى تو اسے قتل كرنے والے سے قصاص نہيں ليا گيا، وہ اسے بہت زيادہ اور بار بار نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم پر سب و شتم سنا چكى تھى حتى كہ وہ اس كے روكنے اور منع كرنے كے باوجود نہيں ركى حتى كہ اس كے صبر كا پيمانہ لبريز ہو گيا اور وہ صبر نہ كر سكا اور اس نے اپنى دين اور نبى كے سلسلہ ميں اذيت دينے والى آواز كو خاموش كر كے ركھ ديا.
اور ناحق ذمى كو قتل كرنا كبيرہ گناہ ہے، اور اس ميں شديد وعيد آئى ہے، جيسا كہ صحبح بخارى ميں عبد اللہ بن عمرو رضى اللہ تعالى عنہ سے حديث مروى ہے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" جس كسى نے بھى كسى معاہد كو قتل كيا وہ جنت كى خوشبو نہيں پائيگا، حالانكہ اس كى خوشبو چاليس برس كى مسافت سے پائى جاتى ہے "
صحيح بخارى حديث نمبر ( 3166 ) امام بخارى نے اس حديث پر صحيح بخارى ميں " بغير كسى جرم كے معاہد كو قتل كرنا " كا باب باندھا ہے.
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ كہتے ہيں:
امام بخارى نے باب كے عنوان ميں اسى طرح قيد لگائى ہے حديث ميں قيد نہيں، ليكن يہ شرعى قواعد اور اصول سے حاصل كردہ ہے، اور ابو معاويہ كى آنے والى حديث ميں بيان ہے جس ميں " بغير حق " كے لفظ ذكر ہوئے ہيں، اور نسائى اور ابو داود كى حديث جو ابو بكرہ سے مروى ہے اس ميں يہ الفاظ ہيں:
" جس كسى نے بھى كسى معاہد كو بغير حلال كے قتل كيا اللہ تعالى اس پر جنت كو حرام كر ديتا ہے " اھ۔
واللہ اعلم .
جھوٹے پر اللہ کی لعنت ہوراوى كہتے ہيں: ايك رات جب وہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى توہين كرنے لگى اور سب و شتم كيا تو اس اندھے نے خنجر لے كر اس كے پيٹ پر ركھا اور اس پر وزن ڈال كر اسے قتل كر ديا، اس كى ٹانگوں كے پاس بچہ گرگيا، اور وہاں پر بستر خون سے لت پت ہو گيا، جب صبح ہوئى تو اس كا ذكر رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے كيا گيا اور لوگ جمع ہو گئے تو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
1 . نبى صلى اللہ عليہ وسلم كى توہين كرنے والى لونڈى كو قتل كرنے والے اندھے شخص كى حديث كے متعلق اشكال 111252اس روایت میں دو قتل ہوئے ہیں۔ ایک لونڈی اور ایک اس کے پیٹ میں موجود بچہ، جیسا کہ یہ الفاظ بتا رہے ہیں:
جھوٹے پر اللہ کی لعنت ہو
قانون کے مطابق تو اس کی گردن سرخ ہوگی، چہرہ نہیںیہ بات تو کم و بیش ہر شخص کو سمجھ آتی ہی ہے کہ جب کوئی قانون کسی ملک کے دستور کا حصہ بن جائے ، پھر چاہے اپ اُس سے متفق ہوں یا نہ ہو اُسے تسلیم کرنا آپ کی اخلاقی ذمہ داری ہے ، اور یوں بھی کسی عام سے کسی بھی قانون کوکہ جو آپ کے خیال میں درست نہ ہو یوں سر عام تنقید کا نشانہ کے بجائے ، مناسب طریقے سے ، یعنی عدلیہ اور مقننہ کے زریعے تبدیل یا منسوخ کیا جاسکتا ہے ، چہ جائیکہ ایسا قانون کہ جس سے لاکھوں لوگ جذباتی وابستگی رکھتے ہوں ، کو یوں سر عام تنقید کا نشانہ بنایا جائے ۔
اور دوسری طرف ملک میں قانون کے موجود ہوتے ہوئے کسی بھی شخص کے لیے یہ مناسب نہ تھا کہ وہ اپنے طور پر کوئی کاروائی کرتا ( اس سے میری یہ مراد ہر گز نہیں کہ مسلمانوں کو غیرت کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہیے ، بلکہ بہتر یہ ہوتا کہ علماء اکرام سلمان تاثیر کے خلاف یا ہر اُس شخص کے خلاف کہ جو کسی قانون پر تنقید کرتا ہوں ملک مین موجود عدلیہ کا دروازہ کھٹکھٹاتے ۔
بہر حال غازی ممتاز قادری کو اللہ استقامت عطا فرمائے اور اُنہیں قانونی طریقے سے سرخرو کرے ۔ آمین ۔
اس سے اندازہ لگائیے کہ یہ احباب کتنی تیاری سے آتے ہیں کہ دھاگے کو اپنے رنگ میں لے جانا ہے۔ نہ صرف سوالات جوابات تیار بلکہ ان کے لنکس تک تیار، تاکہ دھاگے کو "گمراہ" کرنے میں کوئی کمی نہ رہ جائے
جس موضوع پر بات ہو رہی ہے، اسی پر محدود رہیئے۔ زیادہ اگر آپ چاہ رہے ہیں تو اس موضوع پر نیا دھاگہ کھول کر اس پر گفتگو کر لیجئےکیوں قیصرانی بھائی
سمجھنا ، جاننا نہیں چاہتے کیا، حدیث کو نہ ماننے سے میرا کیا بگڑے گا۔
اسلام اپنی جگہہ قائم ہے اور آپ اور ہم اپنی جگہہ جس نے بھی اس رسی کو قرآن اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے طریق
سے پایا اور حاصل کیا اسپر عمل کیا وہ فائدے میں ہے، مجھے افسوس صرف اس بات پر ہے کہ تاریخ کی کتابوں میں درج
صحیح عبارتوں کو آپ نے جھٹ سے جھوٹ کہدیا،
اللہ ہم سب کا پروردگارہے اور میں نے کوئی جھوٹ نہیں باندھا۔
الحمدللہ
آپ مزید کہہ رہے ہیں کہ گمراہ ، یوم الحساب میں صرف زبان بند رہے گی باقی سب اعضاء بولیں گے۔اس سے اندازہ لگائیے کہ یہ احباب کتنی تیاری سے آتے ہیں کہ دھاگے کو اپنے رنگ میں لے جانا ہے۔ نہ صرف سوالات جوابات تیار بلکہ ان کے لنکس تک تیار، تاکہ دھاگے کو "گمراہ" کرنے میں کوئی کمی نہ رہ جائے
سیاست کے زمرے میں مذہب کا پرچار کرنے کی اجازت محفل کے قوانین نہیں دیتےجس موضوع پر بات ہو رہی ہے، اسی پر محدود رہیئے۔ زیادہ اگر آپ چاہ رہے ہیں تو اس موضوع پر نیا دھاگہ کھول کر اس پر گفتگو کر لیجئے
بات تو آپ لمبی کررہےہیںجس موضوع پر بات ہو رہی ہے، اسی پر محدود رہیئے۔ زیادہ اگر آپ چاہ رہے ہیں تو اس موضوع پر نیا دھاگہ کھول کر اس پر گفتگو کر لیجئے
پھر نہ کہا کیجئے ، انا للہ وانا الیہ راجعونسیاست کے زمرے میں مذہب کا پرچار کرنے کی اجازت محفل کے قوانین نہیں دیتے
آپ نے بے موقع ایک بات بیان کی تھی جس کا بظاہر مقصد یہی تھا کہ بات کو غلط سمت لے جایا جائے۔ اب آپ اتنے چُنے کاکے بھی نہیں یہ بات سمجھ نہ آ سکے کہ یہ سیاسی زمرہ ہے اور اس میں ایک سیاسی شخصیت کے قتل اور اس سے متعلقہ قانون کی بات ہو رہی ہے۔ مذہب کو بیچ میں مت لائیےبات تو آپ لمبی کررہےہیں
موضوع تو وہی یے شتم کا۔
ملکی قانون پر اعتراض کرنے پر کوئی حرج نہیں البتہ اس پر عمل کرنا ضروری ہے یہ ایک قانونی ذمہ داری ہے۔ پاکستان کے آئین کے مطابق صدر اور گورنر پر کوئی فوجداری مقدمہ نہیں ہوسکتا جب تک کہ وہ اس عہدے پر رہے۔ علماء نے سلمان تاثیر کو گستاخ قرار دیا تھا اور حکومت سے اس کے خلاف مقدمہ دائر کرنے کا مطالبہ کیا تھا لیکن حکومت نے اس مطالبے پر کان نہیں دھرے۔ اگر حکومت تاثیر کو برطرف کر کے گرفتار کر لیتی اور مقدمہ شروع کر دیتی تو تا ثیر کسی کی جذباتیت کا شکار نا ہوتا۔ اور لوگوں کا اعتماد بھی قانون کی عملداری پر بڑھ جاتا۔یہ بات تو کم و بیش ہر شخص کو سمجھ آتی ہی ہے کہ جب کوئی قانون کسی ملک کے دستور کا حصہ بن جائے ، پھر چاہے اپ اُس سے متفق ہوں یا نہ ہو اُسے تسلیم کرنا آپ کی اخلاقی ذمہ داری ہے ، اور یوں بھی کسی عام سے کسی بھی قانون کوکہ جو آپ کے خیال میں درست نہ ہو یوں سر عام تنقید کا نشانہ کے بجائے ، مناسب طریقے سے ، یعنی عدلیہ اور مقننہ کے زریعے تبدیل یا منسوخ کیا جاسکتا ہے ، چہ جائیکہ ایسا قانون کہ جس سے لاکھوں لوگ جذباتی وابستگی رکھتے ہوں ، کو یوں سر عام تنقید کا نشانہ بنایا جائے ۔
اور دوسری طرف ملک میں قانون کے موجود ہوتے ہوئے کسی بھی شخص کے لیے یہ مناسب نہ تھا کہ وہ اپنے طور پر کوئی کاروائی کرتا ( اس سے میری یہ مراد ہر گز نہیں کہ مسلمانوں کو غیرت کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہیے ، بلکہ بہتر یہ ہوتا کہ علماء اکرام سلمان تاثیر کے خلاف یا ہر اُس شخص کے خلاف کہ جو کسی قانون پر تنقید کرتا ہوں ملک مین موجود عدلیہ کا دروازہ کھٹکھٹاتے ۔
بہر حال غازی ممتاز قادری کو اللہ استقامت عطا فرمائے اور اُنہیں قانونی طریقے سے سرخرو کرے ۔ آمین ۔
جب مجھے اپنے مذہب کی تصدیق آپ سے کرانے کی ضرورت ہوگی تو ضرور خدمات حاصل کروں گا۔ فی الوقت ہماری پیاری اردو کی محفل کو تباہ کرنے میں وقت ضائع مت کیجیئےپھر نہ کہا کیجئے ، انا للہ وانا الیہ راجعون
پھر نہ کہا کیجئے السلام علیکم
پھر نہ کہا کیجئے جزاک اللہ
بھول جائے ساری دینیات۔