شاہد شاہنواز
لائبریرین
سنا تھا نام جو تیرا وہی تحریر ہے دل میں
ترا چہرہ ہے آنکھوں میں تری تصویر ہے دل میں
کسی کو درد ہوتا ہے تو اکثر کھنچ سی جاتی ہے
زمانہ جوڑ دیتی ہے کوئی زنجیر ہے دل میں
کوئی آنکھوں سے اپنی وار کرکے بھول جاتا ہے
کوئی راتوں کو اٹھ کر چیختا ہے تیر ہے دل میں
یہاں میں ہوں نہ جانے اب مرا پیارا کہاں ہوگا؟
تصور ذہن میں ہے فکر دامن گیر ہے دل میں
نکالیں بھی تو چاہت کو نکالیں کس قدر دل سے؟
محبت جب عطائے کاتبِ تقدیر ہے دل میں
عوام الناس تو ویران کرکے جا چکے جلسہ
کھلا ہے منہ، سو اَب تک خواہشِ تقریر ہے دل میں
علاجِ درد شاہدکون چاہے ایسے عالم میں؟
کہ وجہِ درد ہو کر بھی کوئی اکسیر ہے دل میں
ترا چہرہ ہے آنکھوں میں تری تصویر ہے دل میں
کسی کو درد ہوتا ہے تو اکثر کھنچ سی جاتی ہے
زمانہ جوڑ دیتی ہے کوئی زنجیر ہے دل میں
کوئی آنکھوں سے اپنی وار کرکے بھول جاتا ہے
کوئی راتوں کو اٹھ کر چیختا ہے تیر ہے دل میں
یہاں میں ہوں نہ جانے اب مرا پیارا کہاں ہوگا؟
تصور ذہن میں ہے فکر دامن گیر ہے دل میں
نکالیں بھی تو چاہت کو نکالیں کس قدر دل سے؟
محبت جب عطائے کاتبِ تقدیر ہے دل میں
عوام الناس تو ویران کرکے جا چکے جلسہ
کھلا ہے منہ، سو اَب تک خواہشِ تقریر ہے دل میں
علاجِ درد شاہدکون چاہے ایسے عالم میں؟
کہ وجہِ درد ہو کر بھی کوئی اکسیر ہے دل میں