محمد امین
لائبریرین
احمد فراز مرحوم کی زمین میں محترم امیر الاسلام ہاشمی کی غزل۔۔۔ بزرگشاعر نے اس میں سنجیدہ مضامین بھی باندھے ہیں اور مزاحیہ بھی، جناب کا میدان مزاح ہی ہے اسلیے مزاح کے زمرے میں ڈالنا مناسب سمجھا۔ میری رائے میں ہاشمی صاحب کی یہ پیروڈی نما غزل بجائے خود ایک بہترین غزل ہے۔
سنا ہے اسکو بہت سے اچکےدیکھتے ہیں،
سو ہم بھی دامنِ تقویٰ جھٹک کے دیکھتے ہیں،
سنا ہے وہ تو بھڑکتا ہے بات کرنے سے،
سو پیار اس پہ ذرا سا چھڑک کے دیکھتے ہیں،
نظر میں اسکی کھٹکتے ہیں چاہنے والے،
سو اسکی آنکھوں میں ہم بھی کھٹک کے دیکھتے ہیں،
سنا ہے اوجِ ثریا پہ ہے دماغ اسکا،
سو آج حوصلے ہم بھی فلک کے دیکھتے ہیں،
کوئی تو بات ہے اسکی غزالی آنکھوں میں،
غزالِ دشت جبھی تو ٹھٹک کے دیکھتے ہیں،
سنا ہے وہ تو قیامت کی چال چلتا ہے،
تو آؤ چلتے ہیں اسکو لپک کے دیکھتے ہیں،
وہ جب بھی جھوم کے چلتا ہے اسکے پیکر سے،
وہ موج اٹھتی ہے ساغر چھلک کے دیکھتے ہیں،
سنا ہے وہ تو بدکتا ہے رِیش والوں سے،
جبھی تو شیخ جی اسکو تھپک کے دیکھتے ہیں،
سنا ہے وہ تو سبھی موسموں کی ملکہ ہے،
سو اس سے رنگ ملا کے دھنک کے دیکھتے ہیں،
سنا ہے بھول بھلیاں ہیں اسکی قربت میں،
سو جان بوجھ کے ہم بھی بھٹک کے دیکھتے ہیں،
سنا ہے موڈ میں بارہ بجے وہ آتا ہے،
سو اسکے موڈ سے پہلے کھسک کے دیکھتے ہیں،
وہ گود لیتا ہے یا گود میں وہ لیتا ہے،
سو اسکے سامنے ہم بھی ہمک کے دیکھتے ہیں،
سنا ہے اسکی تو آنکھیں بھی بات کرتی ہیں،
سو بے جھجک بھی اسے کچھ جھجک کے دیکھتے ہیں،
سنا ہے اسکو ہمارا خیال رہتا ہے،
سو ہم خیال کا دامن جھٹک کے دیکھتے ہیں،
یہ بات راز کی ہے راز ہی میں رہنے دیں،
کہ وہ جھجکتا ہے یا ہم جھجک کے دیکھتے ہیں،
سنا ہے حسنِ تکلم پہ ناز ہے ا سکو،
سو اس کے لہجے میں ہم بھی لہک کے دیکھتے ہیں،
الٹ پلٹ کے اسے دیکھنا تو مشکل ہے،
سو آج پیڑ سے الٹا لٹک کے دیکھتے ہیں،
فراز تک تو پہنچنے میں وقت لگتا ہے،
تو پھر نشیب کی جانب لڑھک کے دیکھتے ہیں۔
میرے پاس الفاظ نہیں ہیں اس غزل کی تعریف کے لیے۔۔۔۔
سنا ہے اسکو بہت سے اچکےدیکھتے ہیں،
سو ہم بھی دامنِ تقویٰ جھٹک کے دیکھتے ہیں،
سنا ہے وہ تو بھڑکتا ہے بات کرنے سے،
سو پیار اس پہ ذرا سا چھڑک کے دیکھتے ہیں،
نظر میں اسکی کھٹکتے ہیں چاہنے والے،
سو اسکی آنکھوں میں ہم بھی کھٹک کے دیکھتے ہیں،
سنا ہے اوجِ ثریا پہ ہے دماغ اسکا،
سو آج حوصلے ہم بھی فلک کے دیکھتے ہیں،
کوئی تو بات ہے اسکی غزالی آنکھوں میں،
غزالِ دشت جبھی تو ٹھٹک کے دیکھتے ہیں،
سنا ہے وہ تو قیامت کی چال چلتا ہے،
تو آؤ چلتے ہیں اسکو لپک کے دیکھتے ہیں،
وہ جب بھی جھوم کے چلتا ہے اسکے پیکر سے،
وہ موج اٹھتی ہے ساغر چھلک کے دیکھتے ہیں،
سنا ہے وہ تو بدکتا ہے رِیش والوں سے،
جبھی تو شیخ جی اسکو تھپک کے دیکھتے ہیں،
سنا ہے وہ تو سبھی موسموں کی ملکہ ہے،
سو اس سے رنگ ملا کے دھنک کے دیکھتے ہیں،
سنا ہے بھول بھلیاں ہیں اسکی قربت میں،
سو جان بوجھ کے ہم بھی بھٹک کے دیکھتے ہیں،
سنا ہے موڈ میں بارہ بجے وہ آتا ہے،
سو اسکے موڈ سے پہلے کھسک کے دیکھتے ہیں،
وہ گود لیتا ہے یا گود میں وہ لیتا ہے،
سو اسکے سامنے ہم بھی ہمک کے دیکھتے ہیں،
سنا ہے اسکی تو آنکھیں بھی بات کرتی ہیں،
سو بے جھجک بھی اسے کچھ جھجک کے دیکھتے ہیں،
سنا ہے اسکو ہمارا خیال رہتا ہے،
سو ہم خیال کا دامن جھٹک کے دیکھتے ہیں،
یہ بات راز کی ہے راز ہی میں رہنے دیں،
کہ وہ جھجکتا ہے یا ہم جھجک کے دیکھتے ہیں،
سنا ہے حسنِ تکلم پہ ناز ہے ا سکو،
سو اس کے لہجے میں ہم بھی لہک کے دیکھتے ہیں،
الٹ پلٹ کے اسے دیکھنا تو مشکل ہے،
سو آج پیڑ سے الٹا لٹک کے دیکھتے ہیں،
فراز تک تو پہنچنے میں وقت لگتا ہے،
تو پھر نشیب کی جانب لڑھک کے دیکھتے ہیں۔
میرے پاس الفاظ نہیں ہیں اس غزل کی تعریف کے لیے۔۔۔۔