سنبھالنے سے طبیعت کہاں سنبھلتی ہے

صائمہ شاہ

محفلین
سنبھالنے سے طبیعت کہاں سنبھلتی ہے
وہ بے کَسی ہے کہ دُنیا رگوں میں چلتی ہے

یہ سرد مِہر اُجالا ' یہ جیتی جاگتی رات
تِرے خیال سے تصویر ِ ماہ جَلتی ہے

وہ چال ہو کہ بدن ہو ' کمان جیسی کشِش
قدم سے گھات ' ادا سے ادا نکلتی ہے

تمہیں خیال نہیں ' کس طرح بتائیں تمہیں
کہ سانس چلتی ہے ' لیکِن اُداس چلتی ہے

تمہارے شہر کا اِنصاف ہے' عجب انصاف
اِدھر نگاہ ' اُدھر زندگی بدلتی ہے

کبھی کہا کہ یہاں جان جلتی ہے اپنی
تو پُوچھتے ہیں ، بَھلا جان کیسے جَلتی ہے ؟

بکھر گئے مجھے سانچے میں ڈھالنے والے
یہاں تو ذات بھی سانچے سمیت ڈھلتی ہے

خزاں ہے حاصِل ِ ہنگامہ ء بہار و خزاں
بہار پُھولتی ہے ' کائنات پَھلتی ہے

محبوب خزاں
 

نایاب

لائبریرین
اک خوبصورت انتخاب ۔۔۔
تمہیں خیال نہیں ' کس طرح بتائیں تمہیں
کہ سانس چلتی ہے ' لیکِن اُداس چلتی ہے

بہت دعائیں
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
سنبھالنے سے طبیعت کہاں سنبھلتی ہے
وہ بے کَسی ہے کہ دُنیا رگوں میں چلتی ہے

واہ کیا ہی زبردست انتخاب ہے۔۔۔۔ لاجواب۔۔۔
 

صائمہ شاہ

محفلین
واہ واہ واہ

لاجواب غزل انتخاب کی ہے صائمہ صاحبہ ۔۔۔۔!

خوش رہیے۔ :)
سنبھالنے سے طبیعت کہاں سنبھلتی ہے
وہ بے کَسی ہے کہ دُنیا رگوں میں چلتی ہے

واہ کیا ہی زبردست انتخاب ہے۔۔۔۔ لاجواب۔۔۔
شکریہ
 
Top