اس دھاگے میں صرف کتاب پوسٹ کی جائے گی تبصرے اور تجاویز کےلیے یہاں کلک کریں۔
انکارِ حدیث کا فتنہ اسلامی تاریخ میں سب سے پہلے دوسری صدی ہجری میں اٹھا تھا۔ اور اس کے اٹھانے والے خوارج اور معتزلہ تھے۔ خوارج کو اس کی ضرورت اس لیے پیش آئی تھی کہ مسلم معاشرے میں جو انارکی وہ پھیلانا چاہتے تھے، اس کی راہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی وہ سنت حائل تھی جس نے اس معاشرے کو ایک نظم و ضبط پر قائم کیا تھا۔ اور اس کی راہ میں حضورؐ کے وہ ارشادات حائل تھے جن کی موجودگی میں خوارج کے انتہا پسندانہ نظریات نہ چل سکتے تھے۔ اس بنا پر انہوں نے احادیث کی صحت میں شک اور سنت کے واجب الاتباع ہونے سے انکار کی دوگونہ پالیسی اختیار کی۔ معتزلہ کو اس کی ضرورت اس لیے لاحق ہوئی کہ عجمی اور یونانی فلسفوں سے پہلا سابقہ پیش آتے ہی اسلامی عقائد او ر اصول و احکام کے بارے میں جو شکوک و شبہات ذہنوں میں پیدا ہونے لگے تھے انہیں پوری طرح سمجھنے سے پہلے وہ کسی نہ کسی طرح انہیں حل کر دینا چاہتے تھے۔ خود ان فلسفوں میں ان کو وہ بصیرت حاصل نہ ہوئی تھی کہ ان کا تنقیدی جائزہ لے کر ان کی صحت و قوت جانچ سکتے۔ انہوں نے ہر اس بات کو جو فلسفے کے نام سے آئی، سراسر عقل کا تقاضا سمجھا اور یہ چاہا کہ اسلام کی عقائد اور اصولوں کی ایسی تعبیر کی جائے جس سے وہ ان نام نہاد عقلی تقاضوں کے مطابق ہو جائیں۔ اس راہ میں پھر وہی حدیث و سنت مانع ہوئی۔ اس لیے انہوں نے بھی خوارج کی طرح حدیث کو مشکوک ٹھیرایا اور سنت کو حجت ماننے سے انکار کیا۔
ان دونوں فتنوں کی غرض اور ان کی تکنیک مشترک تھی۔ ان کی غرض یہ تھی کہ قرآن کو اس کے لانے والے کی قولی و عملی تشریح و توضیح سے، اور اس نظامِ فکر و عمل سے جو خدا کے پیغمبر نے اپنی راہنمائی میں قائم کر دیا تھا، الگ کر کے مجرد ایک کتاب کی حیثیت سے لے لیا جائے، اور پھر اس کی من مانی تاویلات کر کے ایک دوسرا نظام بنا ڈالا جائے جس پر اسلام کا لیبل چسپاں ہو۔ اس غرض کے لیے جو تکنیک انہوں نے اختیار کی اس کے دو حربے تھے۔ ایک یہ کہ احادیث کے بارے میں یہ شک دلوں میں ڈالا جائے کہ وہ فی الواقع حضورؐ کی ہیں بھی یا نہیں۔ دوسرے، یہ اصولی سوال اٹھایا جائے کہ کوئی قول یا فعل حضورؐ کا ہو بھی تو ہم اس کی اطاعت و اتباع کے پابند کب ہیں۔ ان کا نقطہ نظر یہ تھا کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ہم تک قرآن پہنچانے کے لیے مامور کیے گئے تھے، سو انہوں نے وہ پہنچا دیا۔ اس کے بعد محمدؐ بن عبد اللہ ویسے ہی ایک انسان تھے جیسے ہم ہیں۔ انہوں نے جو کہا اور کیا وہ ہمارے لیے حجت کیسے ہو سکتا ہے۔
یہ دونوں فتنے تھوڑی مدت چل کر اپنی موت آپ مر گئے اور تیسری صدی کے بعد پھر صدیوں تک اسلامی دنیا میں ان کا نام و نشان باقی نہ رہا۔ جن بڑے بڑے اسباب نے اس وقت ان فتنوں کا قلع قمع کر ڈالا، وہ حسب ذیل تھے:
۱۔ محدثین کا زبردست تحقیقی کام، جس نے مسلمانوں کے تمام سوچنے سمجھنے والے لوگوں کو مطمئن کر دیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت جن روایات سے ثابت ہوتی ہے، وہ ہرگز مشتبہ نہیں ہیں بلکہ نہایت معتبر ذرائع سے امت کو پہنچی ہیں، اور ان کو مشتبہ روایات سے الگ کرنے کے لیے بہترین علمی ذرائع موجود ہیں۔
۲۔ قرآن کی تصریحات، جن سے اس زمانے کے اہل علم نے عام لوگوں کے سامنے یہ بات ثابت کر دی کہ دین کے نظام میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی وہ حیثیت ہر گز نہیں ہے جو منکرین حدیث حضورؐ کو دینا چاہتے ہیں، بلکہ آپ کو خدا نے معلم، رہنما، مفسر قرآن، شارع، قانون، اور قاضی و حاکم بھی مقرر کیا تھا۔ لہٰذا خود قرآن ہی کی رو سے آپ کی اطاعت و پیروی ہم پر فرض ہے اور اس سے آزاد ہو کر جو شخص قرآن کی پیروی کا دعوٰی کرتا ہے وہ دراصل قرآن کا پیرو بھی نہیں ہے۔
۳۔ منکرین سنت کی اپنی تاویلات، جن کا کھلونا قرآن کو بنا کر انہوں نےعام مسلمانوں کے سامنے یہ حقیقت بالکل برہنہ کر دی کہ سنت رسول اللہؐ سے جب کتاب اللہ کا تعلق توڑ دیا جائے تو دین کا حلیہ کس بری طرح بگڑتا ہے، خدا کی کتاب کے ساتھ کیسے کیسے کھیل کھیلے جاتے ہیں، اور اس کی معنوی تحریف کے کیسے مضحکہ انگیز نمونے سامنے آتے ہیں۔
۴۔ امت کا اجتماعی ضمیر، جو کسی طرح یہ بات قبول کرنے کے لیے تیار نہ تھا کہ مسلمان کبھی رسولؐ کی اطاعت و پیروی سے آزاد بھی ہو سکتا ہے۔ چند سرپھرے انسان تو ہر زمانے میں اور ہر قوم میں ایسے نکلتے ہیں جو بے تکی باتوں ہی میں وزن محسوس کرتے ہوں۔ مگر پوری امت کا سرپھرا ہو جانا بہت مشکل ہے۔ عام مسلمانوں کے ذہنی سانچے میں یہ غیر معقول بات کبھی ٹھیک نہ بیٹھ سکی کہ آدمی رسولؐ کی رسالت پر ایمان بھی لائے اور پھر اس کی اطاعت کا قلاوہ اپنی گردن سے اتار بھی پھینکے۔ ایک سیدھا سادھا مسلمان جس کےدماغ میں ٹیڑھ نہ ہو، عملًا نافرمانی کا مرتکب تو ہو سکتا ہے، لیکن یہ عقیدہ اختیار کبھی نہیں کر سکتا کہ جس رسول پر وہ ایمان لایا ہے اس کی اطاعت کا وہ سرے سے پابند ہی نہیں ہے۔ یہ سب سے بڑی بنیادی چیز تھی جس نے آخرکار منکرین سنت کی جڑ کاٹ کر رکھ دی۔ اس پر مزید یہ کہ مسلمان قوم کا مزاج اتنی بڑی بدعت کو ہضم کرنے کے لیے کسی طرح تیار نہ ہو سکا کہ اس پورے نظامِ زندگی کو، اس کے تمام قاعدون اور ضابطوں اور اداروں سمیت، رد کر دیا جائے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد سے شروع ہو کر خلفائے راشدین، صحابہ کرام، تابعین، ائمہ مجتہدین اور فقہائے امت کی رہنمائی میں مسلسل ایک ہموار طریقے سے ارتقاء کرتا چلا آ رہا تھا، اور اسے چھوڑ کر آئے دن ایک نیا نطام ایسے لوگوں کے ہاتھوں بنوایا جائے جو دنیا کے ہر فلسفے اور ہر تخیل سے متاثر ہو کر اسلام کا ایک جدید ایڈیشن نکالنا چاہتے ہوں۔
اس طرح فنا کے گھاٹ اتر کر یہ انکار سنت کا فتنہ کئی صدیوں تک اپنی شمشان بھومی میں پڑا رہا، یہاں تک کہ تیرھویں صدی ہجری (انیسویں صدی عیسوی) میں وہ پھر جی اٹھا۔ اس نے پہلا جنم عراق میں لیا تھا۔ اب یہ دوسرا جنم اس نے ہندوستان میں لیا۔ یہاں اس کی ابتداء کرنے والے سرسید احمد خاں اور مولوی چراغ علی تھے۔ پھر مولوی عبد اللہ چکڑالوی اس کے علمبردار بنے۔ اسے کے بعد مولوی احمد الدین امرتسری نے اس کا بیڑا اٹھایا۔ پھر مولانا اسلم جیراج پوری اسے لے کر آگے بڑھے اور آخرکار اس کی ریاست چودھری غلام احمد پرویز کے حصے میں آئی جنہوں نے اس کو ضلالت کی انتہا تک پہنچا دیا ہے۔
اس کی دوسری پیدائش کا سبب بھی وہی تھا جو دوسری صدی میں پہلی مرتبہ اس کی پیدائش کا سبب بنا تھا، یعنی بیرونی فلسفوں اور غیر اسلامی تہذیبوں سے سابقہ پیش آنے پر ذہنی شکست خوردگی میں مبتلا ہو جانا، اور تنقید کیے بغیر باہر کی ان ساری چیزوں کو سراسر تقاضائے عقل مان کر اسلام کو ان کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کرنا۔ لیکن دوسری صدی کی بہ نسبت تیرھویں صدی کے حالات بہت مختلف تھے۔ اس وقت مسلمان فاتح تھے، ان کو فوجی و سیاسی غلبہ حاصل تھا، اور جن فلسفوں سے انہیں سابقہ پیش آیا تھا، وہ مفتوح و مغلوب قوموں کے فلسفے تھے۔اس وجہ سے ان کے ذہن پر ان فلسفوں کا حملہ بہت ہلکا ثابت ہوا اور بہت جلدی رد کر دیا گیا۔اس کے برعکس تیرھویں صدی میں یہ حملہ ایسے وقت ہوا جبکہ مسلمان ہر میدان میں پٹ چکے تھے۔ ان کے اقتدار کی اینٹ سے اینٹ بجائی جا چکی تھی۔ ان کے ملک پر دشمنوں کا قبضہ ہو چکا تھا۔ ان کو معاشی حیثیت سے بری طرح کچل ڈالا گیا تھا، ان کا نطام تعلیم درہم برہم کر دیا گیا تھا، اور ان پر فاتح قوم نے اپنی تعلیم، اپنی تہذیب، اپنی زبان، اپنے قوانین، اور اپنے اجتماعی و سیاسی اور معاشی اداروں کو پوری طرح مسلط کر دیا تھا۔ ان حالات میں جب مسلمانوں کو فاتحوں کے فلسفے اور سائنس سے اور ان کے قوانین اور تہذیبی اصولوں سے سابقہ پیش آیا تو قدیم زمانے کے معتزلہ کی بہ نسبت ہزار درجہ زیادہ سخت مرعوب ذہن رکھنے والے معتزلہ ان کے اندر پیدا ہونے لگے۔ انہوں نے یہ سمجھ لیا کہ مغرب سے جو نطریات، جو افکار و تخیلات، جو اصول تہذیب و تمدن اور جو قوانینِ حیات آ رہے ہیں، وہ سراسر معقول ہیں، ان پر اسلام کے نقطہ نظر سے تنقید کر کے حق و باطل کا فیصلہ کرنا محض تاریک خیالی ہے۔ زمانے کے ساتھ چلنے کی صورت بس یہ ہے کہ اسلام کو کسی نہ کسی طرح ان کے مطابق ڈھال دیا جائے۔
اس غرض سے جب انہوں نے اسلام کی مرمت کرنی چاہی تو انہیں بھی وہی مشکل پیش آئی جو قدیم زمانے کے معتزلہ کو پیش آئی تھی۔ انہوں نے محسوس کیا کہ اسلام کے نظام حیات کو جس چیز نے تفصیلی اور عملی صورت میں قائم کیا ہے۔ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے۔ اسی سنت نے قرآن کی ہدایات کا مقصد و منشا متعین کر کے مسلمانوں کے تہذیبی تصورات کی تشکیل کی ہے۔ اور اسی نے ہر شعبہ زندگی میں اسلام کے عملی ادارے مضبوط بنیادوں پر تعمیر کر دیے ہیں۔ لہٰذا اسلام کی کوئی مرمت اس کے بغیر ممکن نہیں ہے کہ اس سنت سے پیچھا چھڑا لیا جائے۔ اس کے بعد صرف قرآن کے الفاظ رہ جاتے ہیں۔ جن کےپیچھے نہ کوئی عملی نمونہ ہو گا، نہ کوئی مستند تعبیر و تشریح ہو گی اور نہ کسی قسم کی روایات اور نظیریں ہوں گی۔ ان کو تاویلات کا تختہ مشق بنانا آسان ہو گا اور اس طرح اسلام بالکل ایک موم کا گولہ بن کر رہ جائے گا جسے دنیا کے ہر چلتے ہوئے فلسفے کے مطابق ہر روز ایک نئی صورت دی جا سکے گی۔
اِس مقصد کےلیے انہوں نے پھر وہی تکنیک، انہی دو حربوں کے ساتھ اختیار کیا جو قدیم زمانے میں اختیار کیا گیا، یعنی ایک طرف ان روایات کی صحت میں شک ڈالا جائے جن سے سنت ثابت ہوتی ہے، اور دوسری طرف سنت کو بجائے خود حجت و سند ہونے سے انکار کر دیا جائے۔ لیکن یہاں پھر حالات کے فرق نے اس ٹیکنیک اور اس کے حربوں کی تفصیلی صورت میں بڑا فرق پیدا کر دیا ہے۔ قدیم زمانے میں جو لوگ اس فتنے کا عَلم لے کر اٹھے تھے وہ ذی علم لوگ تھے۔ عربی زبان و ادب میں بڑا پایہ رکھتے تھے۔ قرآن، حدیث اور فقہ کے علوم میں کافی درک رکھتے تھے۔ اور ان کو سابقہ بھی اس مسلمان پبلک سے تھا جس کی علمی زبان عربی تھی، جس میں عام لوگوں کا تعلیمی معیار بہت بلند تھا، جس میں علوم دینی کے ماہرین بہت بری تعداد میں ہر طرف پھیلے ہوئے تھے اور ایسی پبلک کے سامنے کوئی کچی پکی بات لا کر ڈال دینے سے خود اس شخص کی ہوا خیزی ہو جانے کا خطرہ تھا جو ایسی بات لے کر آئے۔ اسی وجہ سے قدیم زمانے کے معتزلہ بہت سنبھل کر بات کرتے تھے۔ اس کے برعکس ہمارے دور میں جو لوگ اس فتنے کو ہوا دینے کے لیے اٹھے ہیں ان کا اپنا علمی پایہ بھی سرسید کے زمانہ سے لے کر آج تک درجہ بدرجہ ایک دوسرے سے فروتر ہوتا چلا گیا ہے، اور ان کو سابقہ بھی ایسی پبلک سے پیش آیا ہے جس میں عربی زبان اور دینی علوم جاننے والے کا نام “تعلیم یافتہ” نہیں ہے اور “تعلیم یافتہ” اس شخص کا نام ہے جو دنیا میں اور چاہے سب کچھ جانتا ہو، مگر قرآن پر بہت مہربانی کرے تو کبھی اس کو ترجموں ۔ ۔ ۔ اور وہ بھی انگریزی ترجموں ۔ ۔ ۔ کی مدد سے پڑھ لے، حدیث اور فقہ کے متعلق حد سے حد کچھ سنی سنائی معلومات ۔ ۔ ۔ اور وہ بھی مشتشرقین کی پہنچائی ہوئی معلومات ۔ ۔ ۔ پر اکتفا کرے، اسلامی روایات پر زیادہ سے زیادہ ایک اچٹتی ہوئی نگاہ ڈال لے اور وہ بھی اس حیثیت سے کہ یہ کچھ بوسیدہ ہڈیوں کا مجموعہ ہے جسے ٹھکرا کر زمانہ بہت آگے نکل چکا ہے، پھر اس ذخیرہ علم دین کے بل بوتے پر وہ اس زعم میں مبتلا ہو کہ اسلام کے بارے میں آخری اور فیصلہ کن رائیں قائم کرنے کہ وہ پوری اہلیت اپنے اندر رکھتا ہے۔ ایسے حالات میں پرانے اعتزال کی بہ نسبت نئے اعتزال کا معیار جیسا کچھ گھٹیا ہو سکتا ہے ظاہر ہے۔ یہاں علم کم اور بے علمی کی جسارت بہت زیادہ ہے۔
اب جو ٹیکنیک اس فتنے کو فروغ دینے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے، اس کے اہم اجزاء ہیں:
۱۔ حدیث کو مشتبہ ثابت کرنے کےلیے مغربی مستشرقین نے جتنے حربے استعمال کیے ہیں ان پر ایمان لانا اور اپنی طرف سے حواشی کا اضافہ کر کےانہیں عام مسلمانوں میں پھیلا دینا تا کہ ناواقف لوگ اس غلط فہمی میں مبتلا جائیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے قرآن کے سوا کوئی چیز بھی امت کو قابلِ اعتماد ذرائع سے نہیں ملی ہے۔
۲۔ احادیث کے مجموعوں کو عیب چینی کی غرض سے کھنگالنا، ٹھیک اسی طرح جیسے آریہ سماجیوں اور عیسائی مشنریوں نے کبھی قرآن کو کھنگالا تھا، اور ایسی چیزیں نکال نکال کر، بلکہ بنا بنا کر عوام کے سامنے پیش کرنا، جن سے یہ تاثر دیا جا سکے کہ حدیث کی کتابیں نہایت شرمناک یا مضحکہ خیز مواد سے لبریز ہیں، پھر آنکھوں میں آنسو بھر کر یہ اپیل کرنا کہ اسلام کو رسوائی سے بچانا ہے تو اس سارے دفتر بے معنی کو غرق کر دو۔
۳۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے منصب رسالت کو محض ایک ڈاکیے کا منصب قرار دینا جس کا کام بس اس قدر تھا کہ لوگوں کو قرآن پہنچا دے۔
۴۔ صرف قرآن کو اسلامی قانون کا ماخذ قرار دینا اور سنتِ رسولؐ کو اسلام کے قانونی نظام سے خارج کر دینا۔
۵۔ امت کے تمام فقہاء، محدثین، مفسرین اور ائمہ لغت کو ساقط الاعتبار قرار دینا تا کہ مسلمان قرآن مجید کو سمجھنے کے لیے ان کی طرف رجوع نہ کریں بلکہ ان کے متعلق اس غلط فہمی میں پڑ جائیں کہ ان سب نے قرآن کی حقیقی تعلیمات پر پردے ڈالنے کے لیے ایک سازش کر رکھی تھی۔
۶۔ خود ایک نئی لغت تصنیف کر کے قرآن کی تمام اصطلاحات کے معنی بدل ڈالنا اور آیاتِ قرآنی کو وہ معانی پہنانا جن کی کوئی گنجائش دنیا کے کسی عربی دان آدمی کو قرآن میں نظر نہ آئے۔ (لطف یہ ہے کہ جو صاحب یہ کام کر رہے ہیں ان کے سامنے اگر قرآن کی چند آیتیں اعراب کے بغیر لکھ دی جائیں تو وہ انہیں صحیح پڑھ بھی نہیں سکتے۔ لیکن ان کا دعوٰی یہ ہےکہ اب خود عرب بھی عربی نہیں جانتے اس لیے اگر ان کے بیان کردہ معنوں کی گنجائش کسی عرب کو قرآن کے الفاظ میں نظر نہ آئے تو قصور اس عرب ہی کا ہے)۔
اس تخریبی کام کے ساتھ ساتھ ایک نئے اسلام کی تعبیر بھی ہو رہی ہے جس کے بنیادی اصول تعداد میں صرف تین ہیں، مگر دیکھیے کہ کیسے بے نظیر اصول ہیں:
اس کا پہلا اصول یہ ہے کہ تمام شخصی املاک کو ختم کر کے ایک مرکزی حکومت کے تصرف میں دے دیا جائے اور وہی حکومت افراد کے درمیان تقسیمِ رزق کی مختارِ کُل ہو۔ اس کا نام ہے “نظامِ ربوبیت” اور کہا جاتا ہے کہ قرآن کا اصل مقصود یہی نظام قائم کرنا تھا۔ مگر پچھلے تیرہ سو سال میں کسی کو اسے سمجھنے کی توفیق میسر نہ ہوئی، صرف حضرت مارکس اور ان کے خلیفہ خاص حضرت اینجلز قرآن کے اس مقصدِ اصل کو پا سکے۔
اس کا دوسرا اصول یہ ہے کہ تمام پارٹیاں اور جماعتیں توڑ دی جائیں اور مسلمانوں کو قطعًا کوئی جماعت بنانے کی اجازت نہ دی جائے، تا کہ وہ معاشی حیثیت سے بے بس ہو جانےکے باوجود اگر مرکزی حکومت کے کسی فیصلے کی مزاحمت کرنا چاہیں تو غیر منظم ہونے کی وجہ سے نہ کر سکیں۔
اس کا تیسرا اصول یہ ہے کہ قرآن میں جس “اللہ اور رسول” پر ایمان لانے، اور جس کی اطاعت بجا لانے، اور جسے آخری سند تسلیم رنے کا حکم دیا گیا ہے اس سے مراد ہے “مرکزِ ملت”۔ یہ مرکزِ ملت چونکہ خود “اللہ اور رسولؐ” ہے۔ اس لیے قرآن کو جو معنی وہ پہنائے وہی اس کے اصل معنی ہیں۔ اس کے حکم یا قانوں کے متعلق یہ سوال سرے سے اٹھایا ہی نہیں جا سکتا کہ و ہ قرآن کے خلاف ہے۔ جو کچھ وہ حرام کرے وہ حرام اور جو کچھ وہ حلال کرے وہ حلال۔ اس کا فرمان شریعت ہے اور عبادات سے لے کر معاملات تک جس چیز کی جو شکل بھی وہ تجویز کر ے اس کا ماننا فرض بلکہ شرطِ اسلام ہے۔ جس طرح “بادشاہ” غلطی نہیں کر سکتا۔ اسی طرح “مرکز ملت” بھی سبوح قدوس ہے۔ لوگوں کا کام اس کے سامنے بس سر جھکا دینا ہے۔ “اللہ اور رسول” نہ تنقید کے ہدف بن سکتے ہیں، نہ ان کے خطاکار ہونے کا کوئی سوال پیدا ہوتا ہے، اور نہ ان کو بدلا ہی جا سکتا ہے۔
اس نئے اسلام کے “نظام ربوبیت” پر ایمان لانے والے تو ابھی بہت کم ہیں لیکن اس کے باقی تمام تعمیری اور تخریبی اجزاء چند مخصوص حلقوں میں بڑے مقبول ہو رہے ہیں۔ ہمارے حکمرانوں کے لیے اس کا تصور “مرکز ملت” بہت اپیل کرنے والا ہے۔ اس لازمی شرط کے ساتھ کہ مرکز ملت وہ خود ہوں اور یہ خیال بھی انہیں بہت پسند آتا ہے کہ تمام ذرائع ان کے تصرف میں ہوں اور قوم پوری طرح غیر منظم ہو کر ان کی مٹھی میں آ جائے۔ ہمارے ججوں اور قانون پیشہ لوگوں کا ایک عنصر اسے اس لیے پسند کرتا ہے کہ انگریزی حکومت کے دور میں جس قانونی نظام کی تعلیم و تربیت انہوں نے پائی ہے، اس کے اصولوں اور بنیادی تصورات و نظریات اور جزئی و فروعی احکام سے اسلام کا معروف قانونی نظام قدم قدم پر ٹکراتا ہے۔ اور اس کے ماخذ تک بھی ان کی دسترس نہیں ہے، اس بنا پر وہ اس خیال کو بہت پسند کرتے ہیں کہ سنت اور فقہ کے جھنجھٹ سے انہیں نجات مل جائے اور صرف قرآن باقی رہ جائے جس کی تاویل کرنا جدید لغت کی مدد سے اب اور بھی زیادہ آسان ہو گیا ہے۔ اس کے علاوہ تمام مغربیت زدہ لوگوں کو یہ مسلک اپنی طر کھینچ رہا ہے کیوں کہ اسلام سے نکل کر مسلمان رہنے کا اس سے زیادہ اچھا نسخہ ابھی تک دریافت نہیں ہو سکا ہے۔ آخر اس سے زیادہ مزے کی بات اور کیا ہو سکتی ہے کہ جو کچھ مغرب میں حلال اور “ملا کے اسلام” میں آج تک حرام ہے وہ حلال بھی ہو جائے اور قرآن کی سند ان حلال کرنے والوں کے ہاتھ میں ہو۔
میں پچھلے پچیس چھبیس سال میں اس فتنے کی تردید کےلیے بہت سے مضامین لکھ چکا ہوں جو میری متعدد کتابوں میں درج ہیں۔ اس وقت جن مضامین کا مجموعہ شائع کیا جا رہا ہے، وہ دو حصوں پر مشتمل ہے۔ پہلے حصہ میں وہ پوری مراسلت یکجا درج کر دی گئی ہے جو سنت کی آئینی حیثیت کے بارے میں میرے اور ڈاکٹر عبدالودود صاحب کے درمیان ہوئی تھی۔ دوسرے حصے میں مغربی پاکستان ہائی کورٹ کے ۲۱ جولائی ۱۹۶۰ کے مقدمہ رشیدہ بیگم بنام شہاب الدین وغیرہ میں صادر فرمایا ہے، اور میں نے اس پر مفصل تنقید کی ہے۔ ان دونوں حصوں میں ناظرین ایک طرف منکرین سنت کے تمام مسائل اور دلائل ان کی اپنی زبان میں ملاحظہ فرما لیں گے اور دوسری طرف انہیں یہ بھی معلوم ہو جائے گا کہ دین کے نظام میں سنت کی اصل حیثیت کیا ہے۔ اس کے بعد یہ رائے قائم کرنا ہر شخص کا اپنا کام ہے کہ وہ کس مسلک کو قبول کرتا ہے۔
جن حضرا ت تک یہ مجموعہ پہنچے ان سے میں ایک خاص گزارش کرنا چاہتا ہوں۔ یہ بحث دین کے ایک نہایت اہم بنیادی مسئلے سے تعلق رکھتی ہے۔ جس میں کسی ایک پہلو کو ترک اور دوسرے کو اختیار کرنے کے نتائج بڑے دور رس ہیں۔ بد قسمتی سے دین کی اساس کے متعلق ی بحث ہمارے ملک میں نہ صرف چھڑ چکی ہے بلکہ ایک نازک صورت اختیار کر چکی ہے۔ ہمارے اربابِ اقتدار کا ایک معتد بہ عنصر انکارِ سنت کے مسلک سے متاثر ہو رہا ہے۔ ہماری اعلیٰ عدالتوں کے جج اس کا اثر قبول کر رہے ہیں۔ حتیٰ کہ ہائی کورٹ سے ایک فیصلہ کلیتہ انکارِ سنت کی بنیاد پر صادر ہو چکا ہے جو آگے نہ معلوم اور کن کن مقدمات میں نظیر کا کام دے۔ ہمارے تعلیم یافتہ لوگوں میں، اور خصوصًا سرکاری دفتروں میں یہ تحریک منظم طریقے سے چل رہی ہے۔ اس لیے یہ ضروری ہے کہ جن حضرات تک بھی یہ مجموعہ پہنچے وہ نہ صرف خود گہری نظر سے اس کا مطالعہ فرمائیں، بلکہ دوسرے لوگوں کو بھی اس کے مطالعہ کی طرف توجہ دلائیں۔ قطع نظر اس سے کہ وہ سنت کے قائل ہوں یا منکر۔ رائے جو شخص جیسی بھی چاہے قائم کرے، مگر کسی پڑھے لکھے آدمی کےلیے یہ بات مناسب نہیں ہے کہ محض یک رخے مطالعہ پر اپنا ایک ذہن بنا لے اور دوسرا رخ دیکھنے سے انکار کر دے۔ اس مجموعہ میں چونکہ دونوں رخ پوری وضاحت کے ساتھ آ گئے ہیں اس لیے امید ہے کہ یہ قائلینِ سنت اور منکرینِ سنت، دونوں کو ایک متوازن رائے قائم کرنے میں مدد دے گا۔
خاکسار ابوالاعلیٰ
لاہور، ۳۰ جولائی ۱۹۶۱
ذیل میں وہ مراسلت درج کی جا رہی ہے جو “بزم طلوع اسلام” کے ایک نمایاں فرد جناب ڈاکٹر عبدالودود صاحب اور مصنف کے درمیان سنت کو اسلام کے آئین کی بنیاد ماننے کے مسئلے پر ہوئی تھے۔
ڈاکٹر صاحب کا پہلا خط
مخدوم محترم مولانا! دام ظلکم
السلام علیکم۔ دستوری تدوین کے اس فیصلہ کن مرحلے پر ہر سچے مسلمان کی دینی امنگوں کا بنیادی تقاضا یہ ہے کہ پاکستان کا آئین اسلام کی مستقل اقدار کی اساس پر ترتیب و تکمیل پائے۔ اس سلسلے مین آئین کمیشن کی سوالنامہ کے جواب میں آپ اور دیگر حضرات کا یہ متفقہ مطالبہ بھی سامنے آیا ہے کہ آئینِ پاکستان کی بنیاد “کتاب و سنت” پر ہونی چاہیے۔ مجھے نہ تو “سنت” کی حقیقی اہمیت سے مجالِ انکار ہے اور نہ اس کی اس اہمیت کو ختم کرنا مقصود لیکن جب اسلامی آئین کی اساس کے طور پر سنت کا ذکرکیا جاتا ہے تو ایک اشکال ذہن میں لازمًا پیدا ہوتا ہے اور اس سے جو سوال ابھرتے ہیں، میں انہیں آپ کی خدمت میں پیش کرتا ہوں اور امید کرتا ہوں کہ آپ اولین فرصت میں اس اشکال کا حل تحریر فرمائیں گے۔ سوالات حسبِ ذیل ہیں:
۱۔ آپ کے نزدیک “سنت” سے کیا مراد ہے؟ یعنی جس طرح “کتاب” سے مراد قرآن مجید ہے اسی طرح سنت (یعنی سنت رسول اللہؐ ) سے کیا مرا د ہے؟
۲۔ کیا (قرآن کی طرح) ہمارے ہاں ایسی کوئی کتاب موجود ہے جس میں سنتِ رسول اللہؐ مرتب شکل میں موجود ہو؟ یعنی قرآن کی طرح اس کی کوئی جامع و مانع کتاب ہے؟
۳۔ کیا سنت رسول اللہ کی اس کتاب کا متن تمام مسلمانوں کے نزدیک اسی طرح متفق علیہ ہے اور شک و تنقید سے بالا تر ہے جس طرح قرآن کا متن؟
۴۔ اگر کوئی ایسی کتاب موجود نہیں تو پھر جس طرح یہ بآسانی معلوم کیا جا سکتا ہے کہ فلاں فقرہ قرآنِ مجید کی آیت ہے اسی طرح یہ کیونکر معلوم کیا جائے گا کہ فلاں بات سنت رسول اللہؐ ہے یا نہیں؟
۵۔میں آپ کو یقین دلا دوں کی جہاں تک اسلامی آئین کی ضرورت کا تعلق ہے میں قلب و نظر کی پوری ہم آہنگی سے اسے ایک مسلمان کی زندگی کا نصب العین قرار دیتا ہوں۔ میری ان مخلصانہ گزارشات کا مقصد یہ ہے کہ اسلامی آئین کا مطالبہ کرتے ہوئے اسلام پسند ذہنوں میں اس کا ایک واضح متفق علیہ اور ممکن العمل تصور موجود ہو، تاکہ ملک کا لادینی ذہن جو پوری شدت سے اسلامی آئین کے خلاف مصروفِ کار ہے، اس کا مقابلہ کرنے کے لیے اسلام پسند عناصر میں انتشار کی صورت پیدا نہ کر سکے۔ چونکہ آئین کے سلسلے میں عام لوگوں کے ذہن میں ایک پریشانی سے پائی جاتی ہے۔ اس لیے اگر عوام کی آگاہی کے لیے آپ کے موصولہ جواب کو شائع کر دیا جائے تو مجھے امید ہے کہ آپ کو اس پر کوئی اعتراض نہیں ہو گا۔
نیاز آگیں
عبد الودود
جواب
مکرمی، السلام علیکم و رحمۃ اللہ
عنایت نامہ مورخہ ۲۱ مئی ۱۹۶۰ وصول ہوا۔ آپ نے جو سوالات کیے ہیں۔ وہ آج پہلی مرتبہ آپ نے پیش نہیں کیے ہیں۔ اس سے پہلے یہی سوالات دوسرے گوشوں سے آ چکے ہیں اور ان کا جواب بھی واضح طور پر میں دے چکا ہوں۔ ایک ہی طرح کے سوالات کا مختلف گوشوں سے بار بار دہرایا جانا اور پہلے کے دیے ہوئے جوابات کو ہمیشہ نظر انداز کر دینا کوئی صحیح بات نہیں ہے۔ اگر بالفرض آپ کے علم میں میرے وہ جوابات نہیں ہیں جو میں اب سے بہت پہلے دے چکا ہوں۔ تو میں اب آپ کو ان کا حوالہ دیئے دیتا ہوں (ملاحظہ ہو، ترجمان القرآن، جنوری ۵۸ ء، صفحہ ۲۰۹ تا ۲۲۰، دسمبر ۵۸ ء، صفحہ ۱۶۰ تا ۱۷۰ )۔ آپ انہیں پڑھ کر مجھے تفصیل کے ساتھ بتائیں کہ آپ کے سوالات میں سے کس سوال کا جواب ان میں نہیں ہے۔ اور جن سوالات کا جواب موجود ہے، اس پر آپ کو کیا اعتراض ہے۔
اگر آپ اپنے اس عنایت نامے کے ساتھ میرے اس جواب کو شائع کرنے کا کوئی ارادہ رکھتے ہوں تو براہِ کرم میرے مذکورہ بالا دونوں مضامین بھی بجنسہٖ شائع فرما دیں۔ کیونکہ دراصل وہی میری طرف سے آپ کے ان سوالات کا جواب ہیں۔ اس لیے آپ یہ نہیں کہہ سکتے کہ میں نے آپ کو جواب دینے میں پہلو تہی کی ہے۔
خاکسار
ابوالاعلیٰ
(کتاب کے ص 10 سے ص 27 تک مکمل ہوا)
انکارِ حدیث کا فتنہ اسلامی تاریخ میں سب سے پہلے دوسری صدی ہجری میں اٹھا تھا۔ اور اس کے اٹھانے والے خوارج اور معتزلہ تھے۔ خوارج کو اس کی ضرورت اس لیے پیش آئی تھی کہ مسلم معاشرے میں جو انارکی وہ پھیلانا چاہتے تھے، اس کی راہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی وہ سنت حائل تھی جس نے اس معاشرے کو ایک نظم و ضبط پر قائم کیا تھا۔ اور اس کی راہ میں حضورؐ کے وہ ارشادات حائل تھے جن کی موجودگی میں خوارج کے انتہا پسندانہ نظریات نہ چل سکتے تھے۔ اس بنا پر انہوں نے احادیث کی صحت میں شک اور سنت کے واجب الاتباع ہونے سے انکار کی دوگونہ پالیسی اختیار کی۔ معتزلہ کو اس کی ضرورت اس لیے لاحق ہوئی کہ عجمی اور یونانی فلسفوں سے پہلا سابقہ پیش آتے ہی اسلامی عقائد او ر اصول و احکام کے بارے میں جو شکوک و شبہات ذہنوں میں پیدا ہونے لگے تھے انہیں پوری طرح سمجھنے سے پہلے وہ کسی نہ کسی طرح انہیں حل کر دینا چاہتے تھے۔ خود ان فلسفوں میں ان کو وہ بصیرت حاصل نہ ہوئی تھی کہ ان کا تنقیدی جائزہ لے کر ان کی صحت و قوت جانچ سکتے۔ انہوں نے ہر اس بات کو جو فلسفے کے نام سے آئی، سراسر عقل کا تقاضا سمجھا اور یہ چاہا کہ اسلام کی عقائد اور اصولوں کی ایسی تعبیر کی جائے جس سے وہ ان نام نہاد عقلی تقاضوں کے مطابق ہو جائیں۔ اس راہ میں پھر وہی حدیث و سنت مانع ہوئی۔ اس لیے انہوں نے بھی خوارج کی طرح حدیث کو مشکوک ٹھیرایا اور سنت کو حجت ماننے سے انکار کیا۔
ان دونوں فتنوں کی غرض اور ان کی تکنیک مشترک تھی۔ ان کی غرض یہ تھی کہ قرآن کو اس کے لانے والے کی قولی و عملی تشریح و توضیح سے، اور اس نظامِ فکر و عمل سے جو خدا کے پیغمبر نے اپنی راہنمائی میں قائم کر دیا تھا، الگ کر کے مجرد ایک کتاب کی حیثیت سے لے لیا جائے، اور پھر اس کی من مانی تاویلات کر کے ایک دوسرا نظام بنا ڈالا جائے جس پر اسلام کا لیبل چسپاں ہو۔ اس غرض کے لیے جو تکنیک انہوں نے اختیار کی اس کے دو حربے تھے۔ ایک یہ کہ احادیث کے بارے میں یہ شک دلوں میں ڈالا جائے کہ وہ فی الواقع حضورؐ کی ہیں بھی یا نہیں۔ دوسرے، یہ اصولی سوال اٹھایا جائے کہ کوئی قول یا فعل حضورؐ کا ہو بھی تو ہم اس کی اطاعت و اتباع کے پابند کب ہیں۔ ان کا نقطہ نظر یہ تھا کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ہم تک قرآن پہنچانے کے لیے مامور کیے گئے تھے، سو انہوں نے وہ پہنچا دیا۔ اس کے بعد محمدؐ بن عبد اللہ ویسے ہی ایک انسان تھے جیسے ہم ہیں۔ انہوں نے جو کہا اور کیا وہ ہمارے لیے حجت کیسے ہو سکتا ہے۔
یہ دونوں فتنے تھوڑی مدت چل کر اپنی موت آپ مر گئے اور تیسری صدی کے بعد پھر صدیوں تک اسلامی دنیا میں ان کا نام و نشان باقی نہ رہا۔ جن بڑے بڑے اسباب نے اس وقت ان فتنوں کا قلع قمع کر ڈالا، وہ حسب ذیل تھے:
۱۔ محدثین کا زبردست تحقیقی کام، جس نے مسلمانوں کے تمام سوچنے سمجھنے والے لوگوں کو مطمئن کر دیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت جن روایات سے ثابت ہوتی ہے، وہ ہرگز مشتبہ نہیں ہیں بلکہ نہایت معتبر ذرائع سے امت کو پہنچی ہیں، اور ان کو مشتبہ روایات سے الگ کرنے کے لیے بہترین علمی ذرائع موجود ہیں۔
۲۔ قرآن کی تصریحات، جن سے اس زمانے کے اہل علم نے عام لوگوں کے سامنے یہ بات ثابت کر دی کہ دین کے نظام میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی وہ حیثیت ہر گز نہیں ہے جو منکرین حدیث حضورؐ کو دینا چاہتے ہیں، بلکہ آپ کو خدا نے معلم، رہنما، مفسر قرآن، شارع، قانون، اور قاضی و حاکم بھی مقرر کیا تھا۔ لہٰذا خود قرآن ہی کی رو سے آپ کی اطاعت و پیروی ہم پر فرض ہے اور اس سے آزاد ہو کر جو شخص قرآن کی پیروی کا دعوٰی کرتا ہے وہ دراصل قرآن کا پیرو بھی نہیں ہے۔
۳۔ منکرین سنت کی اپنی تاویلات، جن کا کھلونا قرآن کو بنا کر انہوں نےعام مسلمانوں کے سامنے یہ حقیقت بالکل برہنہ کر دی کہ سنت رسول اللہؐ سے جب کتاب اللہ کا تعلق توڑ دیا جائے تو دین کا حلیہ کس بری طرح بگڑتا ہے، خدا کی کتاب کے ساتھ کیسے کیسے کھیل کھیلے جاتے ہیں، اور اس کی معنوی تحریف کے کیسے مضحکہ انگیز نمونے سامنے آتے ہیں۔
۴۔ امت کا اجتماعی ضمیر، جو کسی طرح یہ بات قبول کرنے کے لیے تیار نہ تھا کہ مسلمان کبھی رسولؐ کی اطاعت و پیروی سے آزاد بھی ہو سکتا ہے۔ چند سرپھرے انسان تو ہر زمانے میں اور ہر قوم میں ایسے نکلتے ہیں جو بے تکی باتوں ہی میں وزن محسوس کرتے ہوں۔ مگر پوری امت کا سرپھرا ہو جانا بہت مشکل ہے۔ عام مسلمانوں کے ذہنی سانچے میں یہ غیر معقول بات کبھی ٹھیک نہ بیٹھ سکی کہ آدمی رسولؐ کی رسالت پر ایمان بھی لائے اور پھر اس کی اطاعت کا قلاوہ اپنی گردن سے اتار بھی پھینکے۔ ایک سیدھا سادھا مسلمان جس کےدماغ میں ٹیڑھ نہ ہو، عملًا نافرمانی کا مرتکب تو ہو سکتا ہے، لیکن یہ عقیدہ اختیار کبھی نہیں کر سکتا کہ جس رسول پر وہ ایمان لایا ہے اس کی اطاعت کا وہ سرے سے پابند ہی نہیں ہے۔ یہ سب سے بڑی بنیادی چیز تھی جس نے آخرکار منکرین سنت کی جڑ کاٹ کر رکھ دی۔ اس پر مزید یہ کہ مسلمان قوم کا مزاج اتنی بڑی بدعت کو ہضم کرنے کے لیے کسی طرح تیار نہ ہو سکا کہ اس پورے نظامِ زندگی کو، اس کے تمام قاعدون اور ضابطوں اور اداروں سمیت، رد کر دیا جائے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد سے شروع ہو کر خلفائے راشدین، صحابہ کرام، تابعین، ائمہ مجتہدین اور فقہائے امت کی رہنمائی میں مسلسل ایک ہموار طریقے سے ارتقاء کرتا چلا آ رہا تھا، اور اسے چھوڑ کر آئے دن ایک نیا نطام ایسے لوگوں کے ہاتھوں بنوایا جائے جو دنیا کے ہر فلسفے اور ہر تخیل سے متاثر ہو کر اسلام کا ایک جدید ایڈیشن نکالنا چاہتے ہوں۔
اس طرح فنا کے گھاٹ اتر کر یہ انکار سنت کا فتنہ کئی صدیوں تک اپنی شمشان بھومی میں پڑا رہا، یہاں تک کہ تیرھویں صدی ہجری (انیسویں صدی عیسوی) میں وہ پھر جی اٹھا۔ اس نے پہلا جنم عراق میں لیا تھا۔ اب یہ دوسرا جنم اس نے ہندوستان میں لیا۔ یہاں اس کی ابتداء کرنے والے سرسید احمد خاں اور مولوی چراغ علی تھے۔ پھر مولوی عبد اللہ چکڑالوی اس کے علمبردار بنے۔ اسے کے بعد مولوی احمد الدین امرتسری نے اس کا بیڑا اٹھایا۔ پھر مولانا اسلم جیراج پوری اسے لے کر آگے بڑھے اور آخرکار اس کی ریاست چودھری غلام احمد پرویز کے حصے میں آئی جنہوں نے اس کو ضلالت کی انتہا تک پہنچا دیا ہے۔
اس کی دوسری پیدائش کا سبب بھی وہی تھا جو دوسری صدی میں پہلی مرتبہ اس کی پیدائش کا سبب بنا تھا، یعنی بیرونی فلسفوں اور غیر اسلامی تہذیبوں سے سابقہ پیش آنے پر ذہنی شکست خوردگی میں مبتلا ہو جانا، اور تنقید کیے بغیر باہر کی ان ساری چیزوں کو سراسر تقاضائے عقل مان کر اسلام کو ان کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کرنا۔ لیکن دوسری صدی کی بہ نسبت تیرھویں صدی کے حالات بہت مختلف تھے۔ اس وقت مسلمان فاتح تھے، ان کو فوجی و سیاسی غلبہ حاصل تھا، اور جن فلسفوں سے انہیں سابقہ پیش آیا تھا، وہ مفتوح و مغلوب قوموں کے فلسفے تھے۔اس وجہ سے ان کے ذہن پر ان فلسفوں کا حملہ بہت ہلکا ثابت ہوا اور بہت جلدی رد کر دیا گیا۔اس کے برعکس تیرھویں صدی میں یہ حملہ ایسے وقت ہوا جبکہ مسلمان ہر میدان میں پٹ چکے تھے۔ ان کے اقتدار کی اینٹ سے اینٹ بجائی جا چکی تھی۔ ان کے ملک پر دشمنوں کا قبضہ ہو چکا تھا۔ ان کو معاشی حیثیت سے بری طرح کچل ڈالا گیا تھا، ان کا نطام تعلیم درہم برہم کر دیا گیا تھا، اور ان پر فاتح قوم نے اپنی تعلیم، اپنی تہذیب، اپنی زبان، اپنے قوانین، اور اپنے اجتماعی و سیاسی اور معاشی اداروں کو پوری طرح مسلط کر دیا تھا۔ ان حالات میں جب مسلمانوں کو فاتحوں کے فلسفے اور سائنس سے اور ان کے قوانین اور تہذیبی اصولوں سے سابقہ پیش آیا تو قدیم زمانے کے معتزلہ کی بہ نسبت ہزار درجہ زیادہ سخت مرعوب ذہن رکھنے والے معتزلہ ان کے اندر پیدا ہونے لگے۔ انہوں نے یہ سمجھ لیا کہ مغرب سے جو نطریات، جو افکار و تخیلات، جو اصول تہذیب و تمدن اور جو قوانینِ حیات آ رہے ہیں، وہ سراسر معقول ہیں، ان پر اسلام کے نقطہ نظر سے تنقید کر کے حق و باطل کا فیصلہ کرنا محض تاریک خیالی ہے۔ زمانے کے ساتھ چلنے کی صورت بس یہ ہے کہ اسلام کو کسی نہ کسی طرح ان کے مطابق ڈھال دیا جائے۔
اس غرض سے جب انہوں نے اسلام کی مرمت کرنی چاہی تو انہیں بھی وہی مشکل پیش آئی جو قدیم زمانے کے معتزلہ کو پیش آئی تھی۔ انہوں نے محسوس کیا کہ اسلام کے نظام حیات کو جس چیز نے تفصیلی اور عملی صورت میں قائم کیا ہے۔ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے۔ اسی سنت نے قرآن کی ہدایات کا مقصد و منشا متعین کر کے مسلمانوں کے تہذیبی تصورات کی تشکیل کی ہے۔ اور اسی نے ہر شعبہ زندگی میں اسلام کے عملی ادارے مضبوط بنیادوں پر تعمیر کر دیے ہیں۔ لہٰذا اسلام کی کوئی مرمت اس کے بغیر ممکن نہیں ہے کہ اس سنت سے پیچھا چھڑا لیا جائے۔ اس کے بعد صرف قرآن کے الفاظ رہ جاتے ہیں۔ جن کےپیچھے نہ کوئی عملی نمونہ ہو گا، نہ کوئی مستند تعبیر و تشریح ہو گی اور نہ کسی قسم کی روایات اور نظیریں ہوں گی۔ ان کو تاویلات کا تختہ مشق بنانا آسان ہو گا اور اس طرح اسلام بالکل ایک موم کا گولہ بن کر رہ جائے گا جسے دنیا کے ہر چلتے ہوئے فلسفے کے مطابق ہر روز ایک نئی صورت دی جا سکے گی۔
اِس مقصد کےلیے انہوں نے پھر وہی تکنیک، انہی دو حربوں کے ساتھ اختیار کیا جو قدیم زمانے میں اختیار کیا گیا، یعنی ایک طرف ان روایات کی صحت میں شک ڈالا جائے جن سے سنت ثابت ہوتی ہے، اور دوسری طرف سنت کو بجائے خود حجت و سند ہونے سے انکار کر دیا جائے۔ لیکن یہاں پھر حالات کے فرق نے اس ٹیکنیک اور اس کے حربوں کی تفصیلی صورت میں بڑا فرق پیدا کر دیا ہے۔ قدیم زمانے میں جو لوگ اس فتنے کا عَلم لے کر اٹھے تھے وہ ذی علم لوگ تھے۔ عربی زبان و ادب میں بڑا پایہ رکھتے تھے۔ قرآن، حدیث اور فقہ کے علوم میں کافی درک رکھتے تھے۔ اور ان کو سابقہ بھی اس مسلمان پبلک سے تھا جس کی علمی زبان عربی تھی، جس میں عام لوگوں کا تعلیمی معیار بہت بلند تھا، جس میں علوم دینی کے ماہرین بہت بری تعداد میں ہر طرف پھیلے ہوئے تھے اور ایسی پبلک کے سامنے کوئی کچی پکی بات لا کر ڈال دینے سے خود اس شخص کی ہوا خیزی ہو جانے کا خطرہ تھا جو ایسی بات لے کر آئے۔ اسی وجہ سے قدیم زمانے کے معتزلہ بہت سنبھل کر بات کرتے تھے۔ اس کے برعکس ہمارے دور میں جو لوگ اس فتنے کو ہوا دینے کے لیے اٹھے ہیں ان کا اپنا علمی پایہ بھی سرسید کے زمانہ سے لے کر آج تک درجہ بدرجہ ایک دوسرے سے فروتر ہوتا چلا گیا ہے، اور ان کو سابقہ بھی ایسی پبلک سے پیش آیا ہے جس میں عربی زبان اور دینی علوم جاننے والے کا نام “تعلیم یافتہ” نہیں ہے اور “تعلیم یافتہ” اس شخص کا نام ہے جو دنیا میں اور چاہے سب کچھ جانتا ہو، مگر قرآن پر بہت مہربانی کرے تو کبھی اس کو ترجموں ۔ ۔ ۔ اور وہ بھی انگریزی ترجموں ۔ ۔ ۔ کی مدد سے پڑھ لے، حدیث اور فقہ کے متعلق حد سے حد کچھ سنی سنائی معلومات ۔ ۔ ۔ اور وہ بھی مشتشرقین کی پہنچائی ہوئی معلومات ۔ ۔ ۔ پر اکتفا کرے، اسلامی روایات پر زیادہ سے زیادہ ایک اچٹتی ہوئی نگاہ ڈال لے اور وہ بھی اس حیثیت سے کہ یہ کچھ بوسیدہ ہڈیوں کا مجموعہ ہے جسے ٹھکرا کر زمانہ بہت آگے نکل چکا ہے، پھر اس ذخیرہ علم دین کے بل بوتے پر وہ اس زعم میں مبتلا ہو کہ اسلام کے بارے میں آخری اور فیصلہ کن رائیں قائم کرنے کہ وہ پوری اہلیت اپنے اندر رکھتا ہے۔ ایسے حالات میں پرانے اعتزال کی بہ نسبت نئے اعتزال کا معیار جیسا کچھ گھٹیا ہو سکتا ہے ظاہر ہے۔ یہاں علم کم اور بے علمی کی جسارت بہت زیادہ ہے۔
اب جو ٹیکنیک اس فتنے کو فروغ دینے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے، اس کے اہم اجزاء ہیں:
۱۔ حدیث کو مشتبہ ثابت کرنے کےلیے مغربی مستشرقین نے جتنے حربے استعمال کیے ہیں ان پر ایمان لانا اور اپنی طرف سے حواشی کا اضافہ کر کےانہیں عام مسلمانوں میں پھیلا دینا تا کہ ناواقف لوگ اس غلط فہمی میں مبتلا جائیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے قرآن کے سوا کوئی چیز بھی امت کو قابلِ اعتماد ذرائع سے نہیں ملی ہے۔
۲۔ احادیث کے مجموعوں کو عیب چینی کی غرض سے کھنگالنا، ٹھیک اسی طرح جیسے آریہ سماجیوں اور عیسائی مشنریوں نے کبھی قرآن کو کھنگالا تھا، اور ایسی چیزیں نکال نکال کر، بلکہ بنا بنا کر عوام کے سامنے پیش کرنا، جن سے یہ تاثر دیا جا سکے کہ حدیث کی کتابیں نہایت شرمناک یا مضحکہ خیز مواد سے لبریز ہیں، پھر آنکھوں میں آنسو بھر کر یہ اپیل کرنا کہ اسلام کو رسوائی سے بچانا ہے تو اس سارے دفتر بے معنی کو غرق کر دو۔
۳۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے منصب رسالت کو محض ایک ڈاکیے کا منصب قرار دینا جس کا کام بس اس قدر تھا کہ لوگوں کو قرآن پہنچا دے۔
۴۔ صرف قرآن کو اسلامی قانون کا ماخذ قرار دینا اور سنتِ رسولؐ کو اسلام کے قانونی نظام سے خارج کر دینا۔
۵۔ امت کے تمام فقہاء، محدثین، مفسرین اور ائمہ لغت کو ساقط الاعتبار قرار دینا تا کہ مسلمان قرآن مجید کو سمجھنے کے لیے ان کی طرف رجوع نہ کریں بلکہ ان کے متعلق اس غلط فہمی میں پڑ جائیں کہ ان سب نے قرآن کی حقیقی تعلیمات پر پردے ڈالنے کے لیے ایک سازش کر رکھی تھی۔
۶۔ خود ایک نئی لغت تصنیف کر کے قرآن کی تمام اصطلاحات کے معنی بدل ڈالنا اور آیاتِ قرآنی کو وہ معانی پہنانا جن کی کوئی گنجائش دنیا کے کسی عربی دان آدمی کو قرآن میں نظر نہ آئے۔ (لطف یہ ہے کہ جو صاحب یہ کام کر رہے ہیں ان کے سامنے اگر قرآن کی چند آیتیں اعراب کے بغیر لکھ دی جائیں تو وہ انہیں صحیح پڑھ بھی نہیں سکتے۔ لیکن ان کا دعوٰی یہ ہےکہ اب خود عرب بھی عربی نہیں جانتے اس لیے اگر ان کے بیان کردہ معنوں کی گنجائش کسی عرب کو قرآن کے الفاظ میں نظر نہ آئے تو قصور اس عرب ہی کا ہے)۔
اس تخریبی کام کے ساتھ ساتھ ایک نئے اسلام کی تعبیر بھی ہو رہی ہے جس کے بنیادی اصول تعداد میں صرف تین ہیں، مگر دیکھیے کہ کیسے بے نظیر اصول ہیں:
اس کا پہلا اصول یہ ہے کہ تمام شخصی املاک کو ختم کر کے ایک مرکزی حکومت کے تصرف میں دے دیا جائے اور وہی حکومت افراد کے درمیان تقسیمِ رزق کی مختارِ کُل ہو۔ اس کا نام ہے “نظامِ ربوبیت” اور کہا جاتا ہے کہ قرآن کا اصل مقصود یہی نظام قائم کرنا تھا۔ مگر پچھلے تیرہ سو سال میں کسی کو اسے سمجھنے کی توفیق میسر نہ ہوئی، صرف حضرت مارکس اور ان کے خلیفہ خاص حضرت اینجلز قرآن کے اس مقصدِ اصل کو پا سکے۔
اس کا دوسرا اصول یہ ہے کہ تمام پارٹیاں اور جماعتیں توڑ دی جائیں اور مسلمانوں کو قطعًا کوئی جماعت بنانے کی اجازت نہ دی جائے، تا کہ وہ معاشی حیثیت سے بے بس ہو جانےکے باوجود اگر مرکزی حکومت کے کسی فیصلے کی مزاحمت کرنا چاہیں تو غیر منظم ہونے کی وجہ سے نہ کر سکیں۔
اس کا تیسرا اصول یہ ہے کہ قرآن میں جس “اللہ اور رسول” پر ایمان لانے، اور جس کی اطاعت بجا لانے، اور جسے آخری سند تسلیم رنے کا حکم دیا گیا ہے اس سے مراد ہے “مرکزِ ملت”۔ یہ مرکزِ ملت چونکہ خود “اللہ اور رسولؐ” ہے۔ اس لیے قرآن کو جو معنی وہ پہنائے وہی اس کے اصل معنی ہیں۔ اس کے حکم یا قانوں کے متعلق یہ سوال سرے سے اٹھایا ہی نہیں جا سکتا کہ و ہ قرآن کے خلاف ہے۔ جو کچھ وہ حرام کرے وہ حرام اور جو کچھ وہ حلال کرے وہ حلال۔ اس کا فرمان شریعت ہے اور عبادات سے لے کر معاملات تک جس چیز کی جو شکل بھی وہ تجویز کر ے اس کا ماننا فرض بلکہ شرطِ اسلام ہے۔ جس طرح “بادشاہ” غلطی نہیں کر سکتا۔ اسی طرح “مرکز ملت” بھی سبوح قدوس ہے۔ لوگوں کا کام اس کے سامنے بس سر جھکا دینا ہے۔ “اللہ اور رسول” نہ تنقید کے ہدف بن سکتے ہیں، نہ ان کے خطاکار ہونے کا کوئی سوال پیدا ہوتا ہے، اور نہ ان کو بدلا ہی جا سکتا ہے۔
اس نئے اسلام کے “نظام ربوبیت” پر ایمان لانے والے تو ابھی بہت کم ہیں لیکن اس کے باقی تمام تعمیری اور تخریبی اجزاء چند مخصوص حلقوں میں بڑے مقبول ہو رہے ہیں۔ ہمارے حکمرانوں کے لیے اس کا تصور “مرکز ملت” بہت اپیل کرنے والا ہے۔ اس لازمی شرط کے ساتھ کہ مرکز ملت وہ خود ہوں اور یہ خیال بھی انہیں بہت پسند آتا ہے کہ تمام ذرائع ان کے تصرف میں ہوں اور قوم پوری طرح غیر منظم ہو کر ان کی مٹھی میں آ جائے۔ ہمارے ججوں اور قانون پیشہ لوگوں کا ایک عنصر اسے اس لیے پسند کرتا ہے کہ انگریزی حکومت کے دور میں جس قانونی نظام کی تعلیم و تربیت انہوں نے پائی ہے، اس کے اصولوں اور بنیادی تصورات و نظریات اور جزئی و فروعی احکام سے اسلام کا معروف قانونی نظام قدم قدم پر ٹکراتا ہے۔ اور اس کے ماخذ تک بھی ان کی دسترس نہیں ہے، اس بنا پر وہ اس خیال کو بہت پسند کرتے ہیں کہ سنت اور فقہ کے جھنجھٹ سے انہیں نجات مل جائے اور صرف قرآن باقی رہ جائے جس کی تاویل کرنا جدید لغت کی مدد سے اب اور بھی زیادہ آسان ہو گیا ہے۔ اس کے علاوہ تمام مغربیت زدہ لوگوں کو یہ مسلک اپنی طر کھینچ رہا ہے کیوں کہ اسلام سے نکل کر مسلمان رہنے کا اس سے زیادہ اچھا نسخہ ابھی تک دریافت نہیں ہو سکا ہے۔ آخر اس سے زیادہ مزے کی بات اور کیا ہو سکتی ہے کہ جو کچھ مغرب میں حلال اور “ملا کے اسلام” میں آج تک حرام ہے وہ حلال بھی ہو جائے اور قرآن کی سند ان حلال کرنے والوں کے ہاتھ میں ہو۔
میں پچھلے پچیس چھبیس سال میں اس فتنے کی تردید کےلیے بہت سے مضامین لکھ چکا ہوں جو میری متعدد کتابوں میں درج ہیں۔ اس وقت جن مضامین کا مجموعہ شائع کیا جا رہا ہے، وہ دو حصوں پر مشتمل ہے۔ پہلے حصہ میں وہ پوری مراسلت یکجا درج کر دی گئی ہے جو سنت کی آئینی حیثیت کے بارے میں میرے اور ڈاکٹر عبدالودود صاحب کے درمیان ہوئی تھی۔ دوسرے حصے میں مغربی پاکستان ہائی کورٹ کے ۲۱ جولائی ۱۹۶۰ کے مقدمہ رشیدہ بیگم بنام شہاب الدین وغیرہ میں صادر فرمایا ہے، اور میں نے اس پر مفصل تنقید کی ہے۔ ان دونوں حصوں میں ناظرین ایک طرف منکرین سنت کے تمام مسائل اور دلائل ان کی اپنی زبان میں ملاحظہ فرما لیں گے اور دوسری طرف انہیں یہ بھی معلوم ہو جائے گا کہ دین کے نظام میں سنت کی اصل حیثیت کیا ہے۔ اس کے بعد یہ رائے قائم کرنا ہر شخص کا اپنا کام ہے کہ وہ کس مسلک کو قبول کرتا ہے۔
جن حضرا ت تک یہ مجموعہ پہنچے ان سے میں ایک خاص گزارش کرنا چاہتا ہوں۔ یہ بحث دین کے ایک نہایت اہم بنیادی مسئلے سے تعلق رکھتی ہے۔ جس میں کسی ایک پہلو کو ترک اور دوسرے کو اختیار کرنے کے نتائج بڑے دور رس ہیں۔ بد قسمتی سے دین کی اساس کے متعلق ی بحث ہمارے ملک میں نہ صرف چھڑ چکی ہے بلکہ ایک نازک صورت اختیار کر چکی ہے۔ ہمارے اربابِ اقتدار کا ایک معتد بہ عنصر انکارِ سنت کے مسلک سے متاثر ہو رہا ہے۔ ہماری اعلیٰ عدالتوں کے جج اس کا اثر قبول کر رہے ہیں۔ حتیٰ کہ ہائی کورٹ سے ایک فیصلہ کلیتہ انکارِ سنت کی بنیاد پر صادر ہو چکا ہے جو آگے نہ معلوم اور کن کن مقدمات میں نظیر کا کام دے۔ ہمارے تعلیم یافتہ لوگوں میں، اور خصوصًا سرکاری دفتروں میں یہ تحریک منظم طریقے سے چل رہی ہے۔ اس لیے یہ ضروری ہے کہ جن حضرات تک بھی یہ مجموعہ پہنچے وہ نہ صرف خود گہری نظر سے اس کا مطالعہ فرمائیں، بلکہ دوسرے لوگوں کو بھی اس کے مطالعہ کی طرف توجہ دلائیں۔ قطع نظر اس سے کہ وہ سنت کے قائل ہوں یا منکر۔ رائے جو شخص جیسی بھی چاہے قائم کرے، مگر کسی پڑھے لکھے آدمی کےلیے یہ بات مناسب نہیں ہے کہ محض یک رخے مطالعہ پر اپنا ایک ذہن بنا لے اور دوسرا رخ دیکھنے سے انکار کر دے۔ اس مجموعہ میں چونکہ دونوں رخ پوری وضاحت کے ساتھ آ گئے ہیں اس لیے امید ہے کہ یہ قائلینِ سنت اور منکرینِ سنت، دونوں کو ایک متوازن رائے قائم کرنے میں مدد دے گا۔
خاکسار ابوالاعلیٰ
لاہور، ۳۰ جولائی ۱۹۶۱
سنت کی آئینی حیثیت
ایک اہم مراسلت
ایک اہم مراسلت
ذیل میں وہ مراسلت درج کی جا رہی ہے جو “بزم طلوع اسلام” کے ایک نمایاں فرد جناب ڈاکٹر عبدالودود صاحب اور مصنف کے درمیان سنت کو اسلام کے آئین کی بنیاد ماننے کے مسئلے پر ہوئی تھے۔
ڈاکٹر صاحب کا پہلا خط
مخدوم محترم مولانا! دام ظلکم
السلام علیکم۔ دستوری تدوین کے اس فیصلہ کن مرحلے پر ہر سچے مسلمان کی دینی امنگوں کا بنیادی تقاضا یہ ہے کہ پاکستان کا آئین اسلام کی مستقل اقدار کی اساس پر ترتیب و تکمیل پائے۔ اس سلسلے مین آئین کمیشن کی سوالنامہ کے جواب میں آپ اور دیگر حضرات کا یہ متفقہ مطالبہ بھی سامنے آیا ہے کہ آئینِ پاکستان کی بنیاد “کتاب و سنت” پر ہونی چاہیے۔ مجھے نہ تو “سنت” کی حقیقی اہمیت سے مجالِ انکار ہے اور نہ اس کی اس اہمیت کو ختم کرنا مقصود لیکن جب اسلامی آئین کی اساس کے طور پر سنت کا ذکرکیا جاتا ہے تو ایک اشکال ذہن میں لازمًا پیدا ہوتا ہے اور اس سے جو سوال ابھرتے ہیں، میں انہیں آپ کی خدمت میں پیش کرتا ہوں اور امید کرتا ہوں کہ آپ اولین فرصت میں اس اشکال کا حل تحریر فرمائیں گے۔ سوالات حسبِ ذیل ہیں:
۱۔ آپ کے نزدیک “سنت” سے کیا مراد ہے؟ یعنی جس طرح “کتاب” سے مراد قرآن مجید ہے اسی طرح سنت (یعنی سنت رسول اللہؐ ) سے کیا مرا د ہے؟
۲۔ کیا (قرآن کی طرح) ہمارے ہاں ایسی کوئی کتاب موجود ہے جس میں سنتِ رسول اللہؐ مرتب شکل میں موجود ہو؟ یعنی قرآن کی طرح اس کی کوئی جامع و مانع کتاب ہے؟
۳۔ کیا سنت رسول اللہ کی اس کتاب کا متن تمام مسلمانوں کے نزدیک اسی طرح متفق علیہ ہے اور شک و تنقید سے بالا تر ہے جس طرح قرآن کا متن؟
۴۔ اگر کوئی ایسی کتاب موجود نہیں تو پھر جس طرح یہ بآسانی معلوم کیا جا سکتا ہے کہ فلاں فقرہ قرآنِ مجید کی آیت ہے اسی طرح یہ کیونکر معلوم کیا جائے گا کہ فلاں بات سنت رسول اللہؐ ہے یا نہیں؟
۵۔میں آپ کو یقین دلا دوں کی جہاں تک اسلامی آئین کی ضرورت کا تعلق ہے میں قلب و نظر کی پوری ہم آہنگی سے اسے ایک مسلمان کی زندگی کا نصب العین قرار دیتا ہوں۔ میری ان مخلصانہ گزارشات کا مقصد یہ ہے کہ اسلامی آئین کا مطالبہ کرتے ہوئے اسلام پسند ذہنوں میں اس کا ایک واضح متفق علیہ اور ممکن العمل تصور موجود ہو، تاکہ ملک کا لادینی ذہن جو پوری شدت سے اسلامی آئین کے خلاف مصروفِ کار ہے، اس کا مقابلہ کرنے کے لیے اسلام پسند عناصر میں انتشار کی صورت پیدا نہ کر سکے۔ چونکہ آئین کے سلسلے میں عام لوگوں کے ذہن میں ایک پریشانی سے پائی جاتی ہے۔ اس لیے اگر عوام کی آگاہی کے لیے آپ کے موصولہ جواب کو شائع کر دیا جائے تو مجھے امید ہے کہ آپ کو اس پر کوئی اعتراض نہیں ہو گا۔
نیاز آگیں
عبد الودود
جواب
مکرمی، السلام علیکم و رحمۃ اللہ
عنایت نامہ مورخہ ۲۱ مئی ۱۹۶۰ وصول ہوا۔ آپ نے جو سوالات کیے ہیں۔ وہ آج پہلی مرتبہ آپ نے پیش نہیں کیے ہیں۔ اس سے پہلے یہی سوالات دوسرے گوشوں سے آ چکے ہیں اور ان کا جواب بھی واضح طور پر میں دے چکا ہوں۔ ایک ہی طرح کے سوالات کا مختلف گوشوں سے بار بار دہرایا جانا اور پہلے کے دیے ہوئے جوابات کو ہمیشہ نظر انداز کر دینا کوئی صحیح بات نہیں ہے۔ اگر بالفرض آپ کے علم میں میرے وہ جوابات نہیں ہیں جو میں اب سے بہت پہلے دے چکا ہوں۔ تو میں اب آپ کو ان کا حوالہ دیئے دیتا ہوں (ملاحظہ ہو، ترجمان القرآن، جنوری ۵۸ ء، صفحہ ۲۰۹ تا ۲۲۰، دسمبر ۵۸ ء، صفحہ ۱۶۰ تا ۱۷۰ )۔ آپ انہیں پڑھ کر مجھے تفصیل کے ساتھ بتائیں کہ آپ کے سوالات میں سے کس سوال کا جواب ان میں نہیں ہے۔ اور جن سوالات کا جواب موجود ہے، اس پر آپ کو کیا اعتراض ہے۔
اگر آپ اپنے اس عنایت نامے کے ساتھ میرے اس جواب کو شائع کرنے کا کوئی ارادہ رکھتے ہوں تو براہِ کرم میرے مذکورہ بالا دونوں مضامین بھی بجنسہٖ شائع فرما دیں۔ کیونکہ دراصل وہی میری طرف سے آپ کے ان سوالات کا جواب ہیں۔ اس لیے آپ یہ نہیں کہہ سکتے کہ میں نے آپ کو جواب دینے میں پہلو تہی کی ہے۔
خاکسار
ابوالاعلیٰ
(کتاب کے ص 10 سے ص 27 تک مکمل ہوا)