انیس الرحمن
محفلین
الف لیلہ کا ایک دلچسپ حصّہ آسان زبان میں
اس شان دار شہر کے ایک خوبصورت مکان میں ایک مالدار شخص رہتا تھا۔ اس کا نام تھا سندباد جہازی۔ وہ بڑا مہمان نواز، سخی اور دوستوں کا دوست تھا۔ وہ زندگی کے سرد گرم جھیل چکا تھا۔ گرمی کے موسم میں ایک دن وہ اپنے دوستوں کے ساتھ اپنے باغ میں بیٹھا باتیں کر رہا تھا کہ میدان مارنے، سخت مشکلات کو سر کرنے اور مہم جیتنے کی بات چل نکلی۔ کہنے لگا، "دوستو! میں الله کا شکر ادا کرتا ہوں کہ اس نے مجھے ہر طرح کے مال و متاع سے نوازا ہے، لیکن میں آپ دوستوں کو بتانا چاہتا ہوں کہ ایک زمانہ تھا کہ میں بھی غریب و نادار تھا۔ میری زندگی خوشیوں سے خالی تھی۔
یہ اس زمانے کی بات ہے جب میں نے جوانی کی منزل میں قدم رکھا تھا۔ میرے پاس کوئی روزگار نہ تھا۔ وقت مشکل سے گزرتا تھا۔ ایک دن جب کہ میں بہت تنگ دست تھا میں نے ارادہ کر لیا کہ مجھے شیخ چلّی کی طرح خواب نہیں دیکھنے چاہیئں۔ مجھے کچھ کرنا چاہیے۔ ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھنے سے کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ چنانچہ میں نے اپنا مکان اور گھر کا سارا سامان بیچ دیا۔ مجھے کل تین ہزار درہم ملے۔ اس رقم سے میں نے تجارت کا سامان خریدا۔ اسے بصرہ لے گیا۔ جہاں سے بحری جہاز دوسرے ملکوں کو مال تجارت لے کر جاتے تھے۔
بصرہ میں جا کر میں نے معلوم کیا کہ کون سا جہاز سفر کے لیے تیار ہے۔ ایک عرب جہاز کے کپتان سے میں نے بات کی۔ اس نے مجھے بتایا کہ چھے تاجر اپنا مال تجارت اس کے جہاز پر لے جا رہے ہیں۔ یہ جہاز مشرقی جزیروں کو جائے گا۔ تاجر وہاں اپنا مال بیچ کر ہیرے اور جواہرات خرید کر پھر اسی جہاز سے بصرہ واپس آئیں گے۔ میں نے بھی اسی جہاز پر جانے کی خواہش ظاہر کی۔ معاملہ طے ہوگیا اور میں نے بھی اپنا اسباب اس میں لاد دیا۔
اگلے ہفتے جہاز کا لنگر اٹھا اور ہم دعائیں مانگتے ہوئے روانہ ہوئے۔ جہاز نے مشرق کا رخ کیا۔ ہم کھلے سمندر میں سفر کرنے لگے۔ کئی دن اور کئی راتیں یونہی گزر گئیں۔ آخر ایک بندر گاہ آئی۔ ہم نے کچھ سامان اور خریدا اور آگے چل پڑے۔ اس طرح ایک دو اور بندرگاہیں آئیں اور مزید خرید و فروخت ہوئی۔
ایک دن ہم ایک چھوٹے سے جزیرے پر پہنچے۔ بحری سفر میں چند باتیں بڑی اہم ہوتی ہیں۔ ایک یہ کہ آپ کو وقفے وقفے سے پینے کا پانی ملتا رہے۔ دوسرے ہوا موافق ہو اور تیسرے یہ کہ الله تعالی طوفان سے بچائے رکھے۔ جہاز کے کپتان نے کہا، "حیرت ہے۔ یہ جزیرہ میں نے پہلے کبھی نہیں دیکھا۔ یہ چھوٹی چھوٹی گھاس پھوس بتاتی ہے کہ یہاں تازہ پانی بھی ہوگا۔ چنانچہ وہ جہاز کو ساحل کے قریب لے گیا۔ ہم میں سے کئی آدمی برتن لے کر اترے کہ پانی تلاش کریں۔ کچھ محض سیر کے لیے اترے۔ انہی کے ساتھ میں بھی کنارے پر گیا۔ سوچا کہ ذرا آگے جا کر جزیرے کی زمین دیکھ لوں۔ ٹہلتا ٹہلتا اپنے ساتھیوں سے کچھ دور چلا گیا۔
جو لوگ جہاز کے بالکل قریب ہی کنارے پر تھےوہ دوڑ کر اس میں سوار ہو گئے۔ میں لوگوں سے دور تھا۔ مجھے زیادہ فاصلہ طے کرنا تھا۔ میں سرپٹ دوڑا۔ لیکن جزیرہ جو صرف پہلے ہلا تھا۔ اب پانی کے اندر گھسے جا رہا تھا۔ ٹھیک اسی وقت آندھی آئی۔ اس نے جہاز کو دور لے جا پھینکا۔ پھر مجھے نہیں معلوم مجھ پر کیا گزری۔ جب مجھے ہوش آیا تو دیکھا میں پانی میں غوطے کھا رہا تھا۔ جزیرہ بھی غائب اور جہاز بھی غائب تھا۔ میں اپنے دل میں دعا مانگنے لگا، "اے اللہ! کیا میں بےگور و کفن سمندر میں تن تنہا ڈوب کر مروں گا۔ اے میرے اللہ مجھ پر رحم فرما۔"
الله تعالی بڑا رحیم و کریم ہے۔ ادھر میں نے دعا مانگی ادھر پانی کی ایک لہر ایک بڑے برتن کو میرے قریب لے آئی۔ میں نے فوراً اسے پکڑ لیا۔ جان بچانے کا سہارا مل گیا، لیکن آزمائشیں ابھی باقی تھیں۔ سمندر کی لہریں مجھے اور میرے برتن کو پٹک پٹک کر ادھر سے ادھر اور ادھر سے ادھر لے جاتی تھیں۔ زندگی اور موت کی آپس میں زبردست کشمکش جاری تھی۔ اسی حال میں رات گزر گئی۔ دن بیت گیا۔ پھر دوسری رات اور دوسرا دن گزر گیا۔ مایوسی بڑھتی جا رہی تھی۔ حوصلے پست ہوتے جا رہے تھے۔ انگلیاں سن اور بازو شل ہو گئے تھے۔ مجھے یہ ڈر کھائے جاتا تھا کہ کہیں برتن ہاتھوں سے نہ نکل جائے۔
میں اٹھا تو اٹھا نہ گیا۔ ایسا لگتا تھا کہ کسی نے لاٹھی سے میری چول چول ڈھیلی کر دی تھی۔ کبھی گھسٹ گھسٹ کر کبھی بازوؤں پر چل کر میں آگے بڑھتا رہا۔ طبیعت میں تازگی تو تھی نہیں کہ میں ادھر ادھر نظر دوڑاؤں۔ میں تو اندھے کی طرح چل رہا تھا۔ اچانک کسی چیز سے ٹکرایا دیکھا کہ ایک پھل دار درخت سے ٹکّر لگی ہے۔ نظر اٹھائی تو پاس ہی صاف شفاف پانی کی ندی بہہ رہی تھی۔
"لاکھ لاکھ شکر تیرا، اے میرے پالن ہار۔" یہ ورد کرتے ہوئے میں نے ندی کا رخ کیا۔ گھونٹ گھونٹ پانی پی کر پیاس بجھائی۔ بدن میں کچھ تازگی آئی۔ پھر اپنے پیر دھوئے اور کچھ دیر سستانے کے بعد اس درخت کے پھل کھا کر میں وہیں سو گیا۔ میرا کئی روز تک یہی معمول رہا۔ اب ایسا لگتا تھا کہ بدن میں طاقت لوٹ آئی ہے اور پاؤں ٹھیک ہو گئے ہیں۔ میں اپنے آپ کو چاق و چوبند محسوس کرنے لگا۔ سچ تو یہ ہے کہ بےفکر زندگی گزارنے کو یہ بہترین جگہ تھی۔ لیکن پاؤں کے چکّر کا کیا علاج۔
اگرچہ یہ سمندر کا ساحل تھا اور یہ امید تھی کہ شاید کبھی کوئی جہاز یہاں آ جائے، لیکن میں اٹھا اور الله کا نام لے کر آگے بڑھا۔ خیال تھا کہ اگر یہاں ندی اور درخت ہیں تو آگے بھی ہوں گے۔ دن بھر چلتا رہا مگر ہو کا عالم تھا۔ نہ چرند نہ پرند، نہ ندی نہ درخت۔ پھر سے مجھ پر وحشت طاری ہونے لگی۔ پیچھے مڑوں کہ آگے بڑھوں، اسی کشمکش میں چلتا رہا۔ دنیا امید پر قائم ہے۔ کہاں بغداد جہاں آدمی پر آدمی ٹوٹا پڑتا تھا اور کہاں یہ سنسان بیابان جہاں کوئی آدم نہ آدم زاد۔
ایک آدمی بھاگتا ہوا میری طرف آیا۔ میں اسے دیکھ کر خوش بھی ہوا اور ڈرا بھی۔ میں نے کہا، "بھی، معاف رکھنا۔ میں تو ایک مسافر ہوں۔ گھوڑے کو فقط ایک نظر دیکھا ہے۔ کیا نام ہے جناب والا کا؟"
اس نے للکار کر کہا، "کون ہو تم اور یہاں کیوں اے ہو؟"
میں نے کہا، "الله تالا کے رحم و کرم سے میں سمندر میں ڈوبنے سے بچ کر ساحل پر آ گیا۔ پھر میں نے اپنی آپ بیٹی اس کو سنائی تو اسے اعتبار آیا۔ میرا ہاتھ پکڑ کر ایک غار میں لے گیا، مجھے پانی پلایا اور پھر کھانے کے دستر خون پر بٹھایا۔
اس نے کہا، "واقی الله نے آپ پر برا کرم کیا ہے۔"
ہم آپس میں باتیں کرنے لگے۔ باتوں کے دوران اس نے مجھے بتایا کہ ہر سال بادشاہ سلامت ایک ہفتے کے لیے اس جزیرے پر اپنے بہترین گھوڑوں کو بھیجتے ہیں۔ اس جگہ کی ہوا گھوڑوں کے لیے بہت عمدہ ہے۔ جزیرہ بالکل سنسان ہے، لیکن سرکار کے ملازم ضروری سامان اپنے ساتھ لاتے ہیں۔ ہفتہ بھر یہاں رہ کر گھوڑوں کو واپس لے جاتے ہیں۔
کچھ دیر کے بعد دوسرے ملازم بھی اپنے اپنے گھوڑے لے اے۔ انہوں نے بھی میری سرگزشت سنی۔ سب نے مجھ سے ہمدردی کی اور مجھے اپنے ساتھ لے جانے کی ہامی بھر لی۔
دوسرے دن ہمارا قافلہ وہاں سے چلا۔ سواری کے لیے انہوں نے مجھے بھی ایک خوبصورت گھوڑا دیا۔ راستے میں انہوں نے بتایا کہ ہمارا بادشاہ برا مہربان اور قدردان ہے۔ وہ ریا کو اپنی مہربانیوں سے خوش رکھتا ہے اور ریا اس پر جان چھیریکتی ہے۔ نزدیک اور دور سے لوگ ہمارے شہر میں آتے ہیں۔ شہر پہنچ کر ہم بدسحش سے آپ کا ذکر کریں گے۔
جب ہم شہر پہنچے تو ملازموں نے بادشاہ تک خبر پہنچائی۔ میری طلبی ہی۔ انہوں نے توجہ سے میری دکھ بھری داستان سنی۔ ان کے حکم سے مجھے نیا لباس دیا گیا۔ میری امید سے بڑھ کر میری خاطرداری کی۔ چند دنوں میں بادشاہ کا مجھ ناچیز پر اعتماد قائم ہوگیا۔ میرے سپرد یہ زمہ داری تھی کہ میں روزانہ بندرگاہ اور بازار جا کر تاجروں اور جہاز کے کپتانوں سے مل کر حال احوال معلوم کر کے بادشاہ کو باخبر رکھا کروں۔ میرے لیے یہ بڑا اعزاز تھا۔ میں روزانہ پہلے بندرگاہ جاتا۔ جہاز کے کپتانوں سے ملتا، ملاحوں سے باتیں کرتا اور پھر بازاروں میں تاجروں کا حال احوال معلوم کرتا۔ شام کو دربار میں بادشاہ کے سامنے اپنی کار گزاری پیش کرتا۔
ایک دن بندرگاہ پر ایک بڑا جہاز لنگر انداز ہوا۔ حسب معمول میں وہاں گیا۔ جہاز پر سوار تاجر مال اسباب بیچنے کے لیے باہر لائے۔ جہاز کے کپتان سے میری ملاقات ہو گئی۔ میں نے اس سے پوچھا، "کیا تمام مال فروخت کے لیے نکال لیا گیا ہے یا کچھ باقی ہے؟"
کپتان نے کہا، "اور تو سب مال بازار چلا گیا ہے۔ چند صندوق باقی ہیں۔ یہ ایک نوجوان کے ہیں جس نے ہمارے ساتھ سفر کا آغاز کیا تھا، لیکن ایک حادثے کا شکار ہو گیا۔ خیال ہے کہ وہ ڈوب گیا ہے۔ میں سوچتا ہوں کہ اس کا اسباب بیچ کر رقم بغداد لے جاؤں اور اس کے وارثوں کو دیدوں۔"
میں نے غور سے دیکھا تو اسے پہچان لیا۔ میں نے پوچھا، "اس کا نام کیا تھا؟"
کپتان نے کہا، "اس کا نام سندباد تھا۔"
یہ سن کر پہلے تو میں ایک لمحے کے لیے سکتے میں آ گیا۔ پھر میں نے پورے زور سے "الله اکبر" کا نعرہ لگایا۔ کپتان ہکا بکا ہو کر میرا منہ دیکھ رہا تھا۔ میں نے اس سے کہا، "میں ہی تو سندباد ہوں۔ میں آپ کا شکر گزار ہوں کہ آپ نے ایمانداری سے میرے مال کی حفاظت کی۔"
کپتان نے کہا، "بیشک آپ بھلے آدمی لگتے ہیں، لیکن اس کا کیا ثبوت ہے کہ آپ سندباد ہیں۔ سندباد تو ڈوب کر مر چکا ہے۔ ہم نے خود ان گناہ گار آنکھوں سے دیکھا ہے۔ میرے ملاح اور جہاز پر سوار تاجر سب اس بات کے گواہ ہیں۔"
میں نے کپتان سے کہا، "جناب من، پہلے آپ میری سرگزشت سن لیجیے۔ پھر خود ہی فیصلہ کیجیے کہ کیا میں وہ نوجوان ہوں جس کا یہ مال ہے۔"
میں نے بصرہ سے لے کر اس ہلنے والے جزیرے تک کے تمام حالات بیان کیے۔ یہاں تک کہ اسے وہ تمام باتیں یاد آ گئیں۔
کپتان نے کہا، "اس دنیا کے رنگ نیارے ہیں۔ وہ بڑا مہربان اور رحیم ہے۔ ہمیں اس بات پر یقین تھا کہ آپ ڈوب کر مر چکے ہیں اور آج آپ کی باتیں سن کر ہمارا اللہ پر یقین اور مضبوط ہو گیا ہے۔"
اس نے مجھے میرا مال دے دیا ہے۔ میں نے اسے بیچا اور بادشاہ کے لیے ایک عمدہ تحفہ خریدا اور اسے اٹھو کر دربار میں لے گیا۔ بادشاہ دیکھ کر حیران رہ گیا۔ میں نے کپتان کی ایمانداری کا قصّہ سنایا۔ اس نے میرا تحفہ قبول کیا اور اس سے بڑھ چڑھ کر مجھے تحفہ دیا۔
بادشاہ نے اجازت دے دی اور ساتھ ہی سونا چاندی، ہیرے جواہرات، قیمتی لباس اور کئی انمول چیزیں تحفے کے طور پر مجھے عطا کیں۔ آخر جہاز روانہ ہوا۔ طویل مسافت کے بعد ہم بغداد پہنچے۔ دوست احباب اور عزیز و اقارب سے مل کر بڑی خوشی ہوئی۔
انشاء اللہ میں کل آپ کو اپنے دوسرے سفر کا حال سناؤں گا۔
جو کچھ ہونا تھا وہ ہو چکا، اب پچھتانے کی کیا ضرورت۔ میں نے اپنے دل میں کہا، "بیٹھنے سے کیا فائدہ سندباد جہازی۔ اٹھو، مثل مشہور ہے کہ جو ڈھونڈتا ہے وہ پاتا ہے۔"
میں ایک درخت پر چڑھ گیا کہ چھٹکارے کا کوئی راستہ دیکھوں۔ دور سمندر میں ایک جہاز جا رہا تھا۔ یہی میرا جہاز تھا جس پر سوار ہونے سے میں رہ گیا تھا۔ باقی جگہ سوائے درختوں کے اور کچھ نظر نہ آیا۔ البتہ دور مجھے ایک عجیب چیز نظر آئی، سفید سی اور اتنی بڑی جتنا کہ کسی عمارت کا گنبد ہوتا ہے۔ میں درخت سے نیچے اترا اور اس کی طرف روانہ ہوا۔ گھنٹوں چلا اور تھک کر چور ہو گیا۔ شام کو مشکل سے اس تک پہنچا۔ اب جو اسے غور سے دیکھتا ہوں تو ایک انڈا سا نظر آگیا۔ اگر گنبد ہوتا تو اس کے نیچے مکان ہوتا۔ کھڑکیاں اور دروازے ہوتے۔ ابھی میں اسے دیکھ ہی رہا تھا کہ اس کے اور میری نگاہ کے درمیان کوئی ایسی چیز آ گئی کہ اندھیرا سا چھا گیا۔
میں رات بھر اسی طرح بندھا پڑا رہا۔ صبح ہوئی تو رخ اڑا اور میں بھی اس کے ساتھ بندھا آسمان کی سیر کرنے لگا۔ حیرت یہ ہے کہ اس رخ کو معلوم نہ تھا کہ میں اس کے پنجوں سے بندھا ہوں۔ رخ میدانوں، وادیوں، پہاڑوں، دریاؤں اور جزیروں پر سے اڑا جا رہا تھا۔ میں دم بخود یہ سب دیکھ رہا تھا۔ آخر وہ ایک ایسی وادی میں اترا جس کے دونوں اطراف دیوار کی طرح دو پہاڑیاں تھیں۔ مجھے یہ تو معلوم نہ تھا کہ رخ اس جگہ کیوں اترا، دیکھا کہ ماجرا یہ تھا کہ نیچے ایک بڑا سانپ رینگ رہا تھا۔ رخ اسے جھپٹ کر اوپر لے جانے کو اڑا۔ میں اندازے سے یہ سب کچھ بھانپ گیا۔ میں نے پگڑی کی گرہ کھولی اور جونہی وہ سانپوں پر جھپٹا میں ایک طرف کودا اور یہ جا وہ جا۔ میں ایک بڑے پتھر کی اوٹ میں دبک کر بیٹھا رہا۔ رخ سانپ کو تنکے کی طرح آسمان میں لے گیا۔
اس خیال سے کچھ ڈھارس بندھی۔ اب میں وادی کا سرا تلاش کرنے نکلا۔ زمین کچھ پتھریلی تھی۔ ٹھوکر کھائی تو چند ہیرے میرے پاؤں سے ادھر جا پڑے۔ غور سے دیکھا تو پوری زمین ہیروں سے بھری تھی۔ یہ ہیرے خاصے بڑے اور خوبصورت تھے، لیکن میرے کس کام کے۔ میں تو اپنی زندگی بچانا چاہتا تھا۔
چلتے چلتے شام ہو گئی۔ زندگی میں پہلا اور عجیب و غریب موقع تھا کہ میں ہیروں سے اٹی ہوئی زمین کو پامال کرتا چلا جا رہا تھا۔ شام ہوئی۔ سانپوں کا خوف پیدا ہوا۔ بلکہ سچ مچ سانپ نکلتے دیکھے۔ ابھی زیادہ اندھیرا نہیں تھا۔ پاس ہی ایک غار نظر آیا۔ میں نے آؤ دیکھا نہ تاؤ، غار کے اندر چلا گیا اور اپنے ہوش و حواس کی مدد سے یہ تسلی کر لی کہ غار میں کوئی سانپ نہیں۔ پھر ایک بڑے پتھر کو کھسکا کر میں نے غار کا منہ اچھی طرح بند کر دیا اور اللہ کا نام لے کر سو گیا۔
پھر میں اندر چلا گیا اور بیٹھ گیا۔ تھوڑی دیر ہوئی تھی کہ مجھے دھڑام سے کسی چیز کے زمین پر گرنے کی آواز سنائی دی۔ میں نے پتھروں کی درز میں سے جھانکا۔ ایسا لگتا تھا کہ گوشت کا ایک بڑا لوتھڑا گرا ہے۔ اس کا رنگ سرخ تھا۔ مجھے وہ کہانیاں یاد آگیئں جو جہاز کے ملاح ہیرے کی وادی کے بارے میں سنایا کرتے تھے۔ وہ بتاتے تھے کہ کسی کی کیا مجال کہ اس ہیروں کی وادی میں جائے۔ اس میں اتنے بڑے سانپ ہیں جتنی کشتی ہوتی ہے۔ لمبا چوڑا آدمی ان کا ایک نوالہ بنتا ہے۔ انسان تو کیا کوئی پرندہ بھی اس وادی کا رخ نہیں کرتا۔ لیکن حضرت انسان کی کیا کہیے۔ وہ کوئی نہ کوئی تدبیر سوچ کر اس وادی سے کچھ ہیرے نکال ہی لیتا ہے۔ ہیروں کے لیے اس وادی کے ایک طرف واقع اونچے پہاڑ کی چوٹی پر چڑھ جاتے۔ وہاں وہ دنبے، بکرے وغیرہ کاٹتے اور ان کے گوشت کے بڑے بڑے لوتھڑے پہاڑ سے نیچے وادی میں گرا دیتے۔ گوشت کے لوتھڑے جب گرتے تو کوئی نہ کوئی ہیرا ان سے چپک جاتا۔ اس گوشت کو کھانے والے بڑے بڑے شکاری پرندوں نے پہاڑ کی چوٹیوں پر آشیانے بنا رکھے تھے۔ وہ اڑ کر جاتے اور وہ گوشت اچک کر آشیانوں میں لے آتے اور تاجر پھر شور مچا کر پرندوں کو اڑنے پر مجبور کر دیتے اور گوشت کو ٹٹول کر ہیرے نکال لیتے ہیں۔
میں ہیروں کی وادی میں تھا، لیکن ہیرے میرے کس کام کے۔ میں تو یہ سوچ رہا تھا کہ یہاں سے کیسے نکلوں۔ مجھے ایک پرندہ یہاں لایا، اس لیے اس بات کا زیادہ امکان تھا کہ کوئی پرندہ ہی الله کے حکم سے مجھے یہاں سے نکالے گا۔ انسان کچھ بھی ہو، لالچ اس کی فطرت میں ہوتی ہے۔ ایک طرف تو میں یہ کہتا تھا کہ مجھے زندگی پیاری ہے، بھاڑ میں جائیں ہیرے، دوسری طرف میں نے اپنی خُرجی (تھیلی) نکالی اور بڑے بڑے شفاف اور چمکدار ہیروں بھر لی پھر میں نے اپنی پگڑی اتاری، اپنی کمر کے گرد گھیرا دے کر کندھوں اور سر تک لے گیا اور اس سے گوشت کا ایک بڑا ٹکڑا باندھ لیا۔ میرا مقصد یہ تھا کہ جب کوئی پرندہ اس گوشت کو اچکے تو میں بھی اس کے ساتھ بندھا ہوا اوپر پہاڑ کی چوٹی تک جا پہنچوں گا۔
تھوڑی دیر بعد شکاری پرندے منڈلانے لگے۔ ایک پرندہ اس گوشت پر جھپٹا جو میرے سر پر رکھا ہوا تھا۔ اسے وہ لے کر اڑا اور ساتھ ہی مجھے اڑا لے گیا۔ پہاڑ کی چوٹی پر اس کا آشیانہ تھا۔ وہاں اس کے بچے منتظر تھے۔ ساتھ ہی تاجر بھی گھات لگائے بیٹھے تھے۔ پرندہ آشیانے میں اترا تھا کہ شور و غل ہوا۔ پرندہ گوشت چھوڑ کر پھر اڑ گیا۔ تاجر گوشت لینے آئے تو مجھے وہاں کھڑا پایا۔ گوشت کے خون سے میں لال ہو چکا تھا۔ میری شکل و صورت بھی عجیب نظر آ رہی تھی۔ مجھے دیکھ کر وہ ٹھٹھک گئے۔ میں نے کہا، "بھائیو! گھبرائیے نہیں۔ میں آدم زاد ہی ہوں۔ اس گوشت کے ساتھ یہ پرندہ مجھے بھی اٹھا لایا ہے۔ اس گوشت میں تو شاید کوئی ہیرا نہیں۔ ہاں میرے پاس کچھ ہیرے ہیں۔ میں تم میں سے ہر ایک کو ایک ایک ہیرا دوں گا۔ یہ ایک ہیرا اتنا بڑا ہوگا کہ کبھی تمہارے ہاتھ نہ آیا ہوگا۔"
وہ میری بات سن کر بڑے خوش ہوئے اور کہنے لگے، "تم بہت ہی خوش قسمت انسان ہو ورنہ ہیروں کی وادی سے کبھی کوئی شخص زندہ نہیں لوٹا۔"
میں نے کہا، "یہ سب الله کا کرم ہے۔"
ان تاجروں کی مدد سے میں نے اپنے باقی ہیرے شہر جا کر بیچے اور ایک جہاز میں سوار ہو کر بخیر و عافیت بغداد پہنچ گیا۔
ساتھیو! کل میں تمہیں اپنے تیسرے سفر کا حال بتاؤں گا۔
ایک دن ہم خوش و خرم بیٹھے باتیں کر رہے تھے کہ آندھی آئی اور جہاز کو دھکیلتی چلی گئی۔ آندھی تھی یا قیامت، چار دن تک جہاز اس کے تند و تیز جھونکوں میں تنکے کی طرح اڑتا چلا گیا۔ ہوا رکی تو دیکھا ہم ایک جزیرے کے پاس ہیں۔ کپتان آیا۔ اس کے چہرے پر ہوائیاں اڑ رہی تھیں۔ کہنے لگا، "آندھی ابھی ختم نہیں ہوئی۔ ذرا دھیمی ہوئی ہے، لیکن جہاز کے لیے یہ سخت ناموافق ہے۔ بہتر ہے یہیں رک جاؤ۔ اس جزیرے کو میں جانتا ہوں۔ یہاں کے لوگ ٹھنگنے ہیں۔ ان کی شکلیں بندروں کی طرح ہیں۔ وہ ہزاروں کی تعداد میں جہاز پر چڑھ آتے ہیں۔ اگر انہیں روکا جائے تو مرنے مارنے پر تل جاتے ہیں۔ اس لیے یاد رکھیے ان سے ٹکّر نہیں لینی۔"
ہم اور کر ہی کیا سکتے تھے۔ ادھر کا رخ کیا۔ تھوڑی دیر میں وہاں پہنچ گئے۔ دروازے کے اندر جھانکا تو ایک کمرہ خالی پڑا تھا۔ ہم اندر چلے گئے۔
دوسرے دن وہ کمرے سے نکلا تو دروازے کو بند کرتا گیا۔ رات کو پھر سے کل کی طرح اس نے ہم سب کو باری باری ٹٹولا اور ایک کو چن کر بھونا اور کھا گیا۔
اگلی صبح جب دیو باہر گیا تو ہم سب نے سوچنا شروع کیا کہ اس ظالم سے چھٹکارا پانے کی کوئی تدبیر سوچنی چاہیے ورنہ ہم سب اس کا لقمہ بنیں گے۔ وہ اتنا بڑا تھا کہ ہم سب اس کے ایک بازو کو بھی مروڑ نہیں سکتے تھے۔ میں نے اپنے ساتھیوں کو ایک تجویز بتائی جو ہم سب کو پسند آئی۔
شام کو وہ آیا۔ اس نے معمول کے مطابق ایک آدمی چنا اور اسے آگ پر بھون کر کھا گیا۔ اب ہم نے چھٹکارے کی سوچی سمجھی اسکیم پر عمل شروع کیا۔ دو آدمیوں نے لوہے کی کچھ سلاخیں آگ پر سرخ کیں۔ دوسرے دو آدمیوں نے جلتی لکڑیوں سے دروازے میں راستہ بنایا۔ باقی آدمی کمرے میں رکھے ہوئے بڑے صندوق کو بڑی خاموشی سے اکھاڑنے میں لگ گئے تاکہ اس سے کسی نہ کسی قسم کی کشتی بنالی جائے۔ سب چیزیں تیار ہوگئیں۔
ہم نے بڑی دلیری سے لوہے کی گرم گرم سلاخیں دیو کی آنکھوں میں گھسیڑ دیں اور پھر صندوق کے تختے اٹھا کر ہم سب سمندر کی طرف سرپٹ بھاگے۔ دیو نے زبردست شور مچایا۔ ہم نے ان تختوں سے بیڑا بنایا اور سمندر میں اتر کر اس پر بیٹھ کر پتواروں سے اسے کھینے لگے۔ اتنے میں کیا دیکھتے ہیں کہ دیو کو اس کے دو دوست کنارے کی طرف لا رہے ہیں۔
انہوں نے ہمیں دیکھا تو بڑے بڑے پتھر اٹھا کر پھینکنے لگے۔ ہر پتھر اتنا بڑا تھا جتنا ایک چھوٹا مکان ہوتا ہے۔ اتفاق سے پہلا پتھر تو ہم سے دور گرا، لیکن دوسرا ہمارے قریب گرا اور کچھ لوگ اس کی زد میں آ کر مر گئے۔ خوش قسمتی سے چند آدمی بچ گئے۔ جن میں میں بھی شامل تھا۔
پھر تیز و تند ہوا چلنے لگی۔ سمندر میں موجیں اٹھنے لگیں۔ کئی دنوں تک ہم موجوں کے تھپیڑے کھاتے بہتے جا رہے تھے۔ ہمیں کچھ معلوم نہیں تھا کہ کہاں جا رہے ہیں۔ آخر ایک دن ہم ایک جزیرے پہ جا لگے۔
اچانک ہمیں "ہس ہس" کی سی آواز سنائی دی۔ آنکھیں کھولیں تو دیکھا کہ ایک اژدہا ہم سب کو اپنی کنڈلی میں گھیرے ہوئے ہے۔ تھوڑی دیر ہوئی، اس نے ہم میں سے ایک کو نگل لیا۔ اس کی چیخیں سنائی دیتی رہیں، لیکن ہم کیا کر سکتے تھے۔ رات بھر وہ وہیں رہا۔ ہم ڈر کے مارے ہل تک نہ سکے۔
صبح ہوئی تو وہ کہیں چلا گیا۔ ہم سخت پریشان تھے کہ کیا کریں۔ شام کو آ کر وہ ایک اور آدمی کو نگلے گا۔ بھوک ستا رہی تھی۔ ہم نے کچھ پھل کھائے، پانی پیا اور پناہ کی تلاش میں نکلے۔ دن بھر کی بھاگ دوڑ کے باوجود کوئی پناہ نہیں ملی۔ سوچا کہ کسی بڑے اور اونچے درخت پر بیٹھے رہنا چاہیے۔ چنانچہ ہم ایک درخت پر چڑھ گئے۔ رات کو اژدہا ہماری تلاش میں آیا۔ اس نے ہمارے درخت کو ڈھونڈ لیا۔ میں تو درخت کی چوٹی پر تھا، میرا ساتھی مجھ سے نیچے تھا۔ اژدہے نے بلند ہو کر اسے دبوچ لیا اور میں اس بےچارے کی چیخ و پکار سن کر اپنا کلیجہ مسوس کر رہ گیا۔
میری خوب تواضع کی گئی۔ چند دنوں میں میری کمزوری دور ہو گئی۔ اتنے میں جہاز ایک بندرگاہ پر پہنچ گیا۔ تاجروں نے اپنا مال کنارے پر اتروایا تاکہ خرید و فروخت کریں۔ جہاز کے کپتان نے اپنے ملاحوں سے کہا، "دیکھو، یہیں سندباد کا مال بھی اتار دو۔ میں چاہتا ہوں کہ اسے بیچ کر اس کی رقم بغداد سندباد کے وارثوں کو پہنچا دوں۔"
میں نے اس کی یہ بات سنی تو حیران رہ گیا۔ یقین نہیں آتا تھا کہ یہ وہی جہاز ہے۔ میں نے کپتان سے پوچھا، "جناب کپتان صاحب! کیا اس کے مال پر فلاں نشان بنا ہوا ہے؟"
اس نے جواب دیا، "ہاں، لیکن آپ کو یہ کیسے معلوم ہے۔ سندباد تو رخ پرندے والے جزیرے پر الله کو پیارا ہو گیا تھا۔ اس بات کو ایک مدّت گزر چکی ہے۔"
میں نے اسے بتایا کہ میں ہی سندباد جہازی ہوں۔ اپنے مال کی مزید نشانیاں بتائیں۔ اتنے میں سب ملاح ہمارے گرد جمع ہو گئے۔ وہ مجھے حیرت سے دیکھ رہے تھے۔ میں نے ساری داستان انہیں سنائی۔ تب انہیں یقین آ گیا کہ سندباد میں ہی ہوں۔ میں بھی اپنا سامان اتروا کر منڈی لے گیا۔ میں نے سارا مال بیچا اور خوب نفع کمایا۔ اس رقم سے میں نے ایسا مال خریدا جو بغداد میں اچھی قیمت پر بک سکے۔
جہاز مزید ایک دو بندرگاہوں پر رکا۔ وہاں بھی خرید و فروخت ہوئی اور الله تعالی کی مہربانی سے مجھے تجارت میں خوب فائدہ ہوا۔ آخر ایک دن ہم بصرہ پہنچ گئے۔ وہاں سے میں بغداد گیا اور پورے مال کو اچھے خاصے منافع پر بیچ دیا۔ ایک بار پھر میں مال و دولت کا مالک ہو گیا۔
دوستو! اگر زندگی رہی تو کل میں آپ کو اپنے چوتھے سفر کا حال سناؤں گا۔
سندباد جہازی کے حیرت انگیز سفر
احمد خاں خلیل
پہلا سفر
خلیفہ ہارون الرشید کا پائے تخت بغداد تھا۔ اس زمانے میں بغداد دنیا بھر کے شہروں کا شہزادہ تھا۔ اس میں عالی شان محل اور خوبصورت حویلیاں تھیں۔ اس کے بازار بڑے بڑے اور بارونق تھے۔ شہر میں امیر اور غریب، بہادر اور شہہ سوار، عالم اور فاضل، ہنرمند اور کاریگر ہر طرح کے لوگ رہتے تھے۔ ہر روز دور دراز سے کئی قافلے آتے اور کئی کارواں کوچ کرتے۔ صبح سے شام تک ہر بازار اور ہر منڈی میں میلے کا سا سماں نظر آتا تھا۔اس شان دار شہر کے ایک خوبصورت مکان میں ایک مالدار شخص رہتا تھا۔ اس کا نام تھا سندباد جہازی۔ وہ بڑا مہمان نواز، سخی اور دوستوں کا دوست تھا۔ وہ زندگی کے سرد گرم جھیل چکا تھا۔ گرمی کے موسم میں ایک دن وہ اپنے دوستوں کے ساتھ اپنے باغ میں بیٹھا باتیں کر رہا تھا کہ میدان مارنے، سخت مشکلات کو سر کرنے اور مہم جیتنے کی بات چل نکلی۔ کہنے لگا، "دوستو! میں الله کا شکر ادا کرتا ہوں کہ اس نے مجھے ہر طرح کے مال و متاع سے نوازا ہے، لیکن میں آپ دوستوں کو بتانا چاہتا ہوں کہ ایک زمانہ تھا کہ میں بھی غریب و نادار تھا۔ میری زندگی خوشیوں سے خالی تھی۔
یہ اس زمانے کی بات ہے جب میں نے جوانی کی منزل میں قدم رکھا تھا۔ میرے پاس کوئی روزگار نہ تھا۔ وقت مشکل سے گزرتا تھا۔ ایک دن جب کہ میں بہت تنگ دست تھا میں نے ارادہ کر لیا کہ مجھے شیخ چلّی کی طرح خواب نہیں دیکھنے چاہیئں۔ مجھے کچھ کرنا چاہیے۔ ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھنے سے کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ چنانچہ میں نے اپنا مکان اور گھر کا سارا سامان بیچ دیا۔ مجھے کل تین ہزار درہم ملے۔ اس رقم سے میں نے تجارت کا سامان خریدا۔ اسے بصرہ لے گیا۔ جہاں سے بحری جہاز دوسرے ملکوں کو مال تجارت لے کر جاتے تھے۔
بصرہ میں جا کر میں نے معلوم کیا کہ کون سا جہاز سفر کے لیے تیار ہے۔ ایک عرب جہاز کے کپتان سے میں نے بات کی۔ اس نے مجھے بتایا کہ چھے تاجر اپنا مال تجارت اس کے جہاز پر لے جا رہے ہیں۔ یہ جہاز مشرقی جزیروں کو جائے گا۔ تاجر وہاں اپنا مال بیچ کر ہیرے اور جواہرات خرید کر پھر اسی جہاز سے بصرہ واپس آئیں گے۔ میں نے بھی اسی جہاز پر جانے کی خواہش ظاہر کی۔ معاملہ طے ہوگیا اور میں نے بھی اپنا اسباب اس میں لاد دیا۔
اگلے ہفتے جہاز کا لنگر اٹھا اور ہم دعائیں مانگتے ہوئے روانہ ہوئے۔ جہاز نے مشرق کا رخ کیا۔ ہم کھلے سمندر میں سفر کرنے لگے۔ کئی دن اور کئی راتیں یونہی گزر گئیں۔ آخر ایک بندر گاہ آئی۔ ہم نے کچھ سامان اور خریدا اور آگے چل پڑے۔ اس طرح ایک دو اور بندرگاہیں آئیں اور مزید خرید و فروخت ہوئی۔
ایک دن ہم ایک چھوٹے سے جزیرے پر پہنچے۔ بحری سفر میں چند باتیں بڑی اہم ہوتی ہیں۔ ایک یہ کہ آپ کو وقفے وقفے سے پینے کا پانی ملتا رہے۔ دوسرے ہوا موافق ہو اور تیسرے یہ کہ الله تعالی طوفان سے بچائے رکھے۔ جہاز کے کپتان نے کہا، "حیرت ہے۔ یہ جزیرہ میں نے پہلے کبھی نہیں دیکھا۔ یہ چھوٹی چھوٹی گھاس پھوس بتاتی ہے کہ یہاں تازہ پانی بھی ہوگا۔ چنانچہ وہ جہاز کو ساحل کے قریب لے گیا۔ ہم میں سے کئی آدمی برتن لے کر اترے کہ پانی تلاش کریں۔ کچھ محض سیر کے لیے اترے۔ انہی کے ساتھ میں بھی کنارے پر گیا۔ سوچا کہ ذرا آگے جا کر جزیرے کی زمین دیکھ لوں۔ ٹہلتا ٹہلتا اپنے ساتھیوں سے کچھ دور چلا گیا۔
جزیرہ ہلنے لگا
کچھ ملّاح کھانا پکانے کے لیے ساحل پر آئے۔ گھاس پھوس جمع کر کے آگ جلائی۔ اچانک اس وقت دو عجیب و غریب باتیں ہوئیں۔ اوّل یہ کہ جزیرہ ہلنے لگا۔ مسافر حیران و پریشان ہو گئے۔ کپتان تجربے کار آدمی تھا۔ وہ فوراً چلّایا، "جلدی سے جہاز پر سوار ہو جاؤ۔ یہ جزیرہ نہیں، یہ تو حوت مچھلی ہے۔ جو برسوں سے پانی کی سطح پہ سو رہی تھی۔ تم نے جو آگ جلائی ہے۔ اس کی تپش سے جاگ اٹھی ہے۔ جلدی کرو، جلدی کرو۔"جو لوگ جہاز کے بالکل قریب ہی کنارے پر تھےوہ دوڑ کر اس میں سوار ہو گئے۔ میں لوگوں سے دور تھا۔ مجھے زیادہ فاصلہ طے کرنا تھا۔ میں سرپٹ دوڑا۔ لیکن جزیرہ جو صرف پہلے ہلا تھا۔ اب پانی کے اندر گھسے جا رہا تھا۔ ٹھیک اسی وقت آندھی آئی۔ اس نے جہاز کو دور لے جا پھینکا۔ پھر مجھے نہیں معلوم مجھ پر کیا گزری۔ جب مجھے ہوش آیا تو دیکھا میں پانی میں غوطے کھا رہا تھا۔ جزیرہ بھی غائب اور جہاز بھی غائب تھا۔ میں اپنے دل میں دعا مانگنے لگا، "اے اللہ! کیا میں بےگور و کفن سمندر میں تن تنہا ڈوب کر مروں گا۔ اے میرے اللہ مجھ پر رحم فرما۔"
الله تعالی بڑا رحیم و کریم ہے۔ ادھر میں نے دعا مانگی ادھر پانی کی ایک لہر ایک بڑے برتن کو میرے قریب لے آئی۔ میں نے فوراً اسے پکڑ لیا۔ جان بچانے کا سہارا مل گیا، لیکن آزمائشیں ابھی باقی تھیں۔ سمندر کی لہریں مجھے اور میرے برتن کو پٹک پٹک کر ادھر سے ادھر اور ادھر سے ادھر لے جاتی تھیں۔ زندگی اور موت کی آپس میں زبردست کشمکش جاری تھی۔ اسی حال میں رات گزر گئی۔ دن بیت گیا۔ پھر دوسری رات اور دوسرا دن گزر گیا۔ مایوسی بڑھتی جا رہی تھی۔ حوصلے پست ہوتے جا رہے تھے۔ انگلیاں سن اور بازو شل ہو گئے تھے۔ مجھے یہ ڈر کھائے جاتا تھا کہ کہیں برتن ہاتھوں سے نہ نکل جائے۔
زمین! زمین! میرے اللہ زمین
جب بھی مجھے ہوش آتا تو میں گڑگڑا کر دعا ضرور مانگتا تھا۔ ہوا کے تھپیڑے مجھے ساحل کی طرف لے گئے، لیکن میں خود اس بات سے بےخبر تھا۔ دراصل میرے جسم میں طاقت نام کو نہیں تھی۔ بار بار غشی کے دورے پڑ رہے تھے۔ ایک بار ہوش آیا تو دیکھتا ہوں کہ ایک درخت کے نیچے پڑا ہوں۔ پھر غشی کا دورہ پڑا۔ ایسی حالت میں کس کو دن اور وقت یاد رہ سکتا ہے، لیکن اندازے سے کہہ رہا ہوں کہ دو دن اسی حال میں بے خبر پڑا رہا۔ بزرگ کہتے ہیں کہ الله جو کرتا ہے اس میں بندے کی بہتری ہوتی ہے۔ اس طرح پڑے رہنے سے میری تھکن اور کوفت قدرے کم ہوگئی۔ پھر مجھے مشہور مثل یاد آ گئی، اٹھ باندھ کمر کیا ڈرتا ہے۔ میں اٹھا کہ پانی اور غذا تلاش کروں۔ پیروں پر نظر پڑی تو داغ نظر آئے۔ شاید مچھلیوں نے جگہ جگہ کاٹا تھا۔ میں نے اپنے آپ سے کہا، "سندباد الله کا شکر ادا کرو اور آگے بڑھ کر تازہ پانی تلاش کرو۔ تازے پانی سے پیر دھوؤگے تو یہ زخم ٹھیک ہو جائیں گے۔"میں اٹھا تو اٹھا نہ گیا۔ ایسا لگتا تھا کہ کسی نے لاٹھی سے میری چول چول ڈھیلی کر دی تھی۔ کبھی گھسٹ گھسٹ کر کبھی بازوؤں پر چل کر میں آگے بڑھتا رہا۔ طبیعت میں تازگی تو تھی نہیں کہ میں ادھر ادھر نظر دوڑاؤں۔ میں تو اندھے کی طرح چل رہا تھا۔ اچانک کسی چیز سے ٹکرایا دیکھا کہ ایک پھل دار درخت سے ٹکّر لگی ہے۔ نظر اٹھائی تو پاس ہی صاف شفاف پانی کی ندی بہہ رہی تھی۔
"لاکھ لاکھ شکر تیرا، اے میرے پالن ہار۔" یہ ورد کرتے ہوئے میں نے ندی کا رخ کیا۔ گھونٹ گھونٹ پانی پی کر پیاس بجھائی۔ بدن میں کچھ تازگی آئی۔ پھر اپنے پیر دھوئے اور کچھ دیر سستانے کے بعد اس درخت کے پھل کھا کر میں وہیں سو گیا۔ میرا کئی روز تک یہی معمول رہا۔ اب ایسا لگتا تھا کہ بدن میں طاقت لوٹ آئی ہے اور پاؤں ٹھیک ہو گئے ہیں۔ میں اپنے آپ کو چاق و چوبند محسوس کرنے لگا۔ سچ تو یہ ہے کہ بےفکر زندگی گزارنے کو یہ بہترین جگہ تھی۔ لیکن پاؤں کے چکّر کا کیا علاج۔
اگرچہ یہ سمندر کا ساحل تھا اور یہ امید تھی کہ شاید کبھی کوئی جہاز یہاں آ جائے، لیکن میں اٹھا اور الله کا نام لے کر آگے بڑھا۔ خیال تھا کہ اگر یہاں ندی اور درخت ہیں تو آگے بھی ہوں گے۔ دن بھر چلتا رہا مگر ہو کا عالم تھا۔ نہ چرند نہ پرند، نہ ندی نہ درخت۔ پھر سے مجھ پر وحشت طاری ہونے لگی۔ پیچھے مڑوں کہ آگے بڑھوں، اسی کشمکش میں چلتا رہا۔ دنیا امید پر قائم ہے۔ کہاں بغداد جہاں آدمی پر آدمی ٹوٹا پڑتا تھا اور کہاں یہ سنسان بیابان جہاں کوئی آدم نہ آدم زاد۔
ویرانے میں ایک گھوڑا
میں سہما سہما چپکے چپکے چلا جا رہا تھا۔ سوچوں میں گم، ناظرین اپنے پیروں پر گری ہوئی کہ اچانک ہنہنانے کی آواز سنائی دی۔ سر اٹھا کر جو دیکھا تو ایک گھوڑا نظر آیا۔ یا الہی! اس ویرانے میں گھوڑا! گھوڑا بھی اس قدر خوبصورت! کیا سچ مچ کا گھوڑا ہے یا چھلاوا۔ اگر سچ مچ کا گھوڑا ہے تو یہاں کیسے آیا، کیا کھاتہ ہے، کہاں رہتا ہے۔ میں یہ سوچ ہی رہا تھا کہ ایک طرف سے گرج دار آواز ای، "خبر دار! گھوڑے کا ہاتھ نہ لگانا ورنہ تیر تمہارے سینے کے پار نکل جائے گا۔"ایک آدمی بھاگتا ہوا میری طرف آیا۔ میں اسے دیکھ کر خوش بھی ہوا اور ڈرا بھی۔ میں نے کہا، "بھی، معاف رکھنا۔ میں تو ایک مسافر ہوں۔ گھوڑے کو فقط ایک نظر دیکھا ہے۔ کیا نام ہے جناب والا کا؟"
اس نے للکار کر کہا، "کون ہو تم اور یہاں کیوں اے ہو؟"
میں نے کہا، "الله تالا کے رحم و کرم سے میں سمندر میں ڈوبنے سے بچ کر ساحل پر آ گیا۔ پھر میں نے اپنی آپ بیٹی اس کو سنائی تو اسے اعتبار آیا۔ میرا ہاتھ پکڑ کر ایک غار میں لے گیا، مجھے پانی پلایا اور پھر کھانے کے دستر خون پر بٹھایا۔
اس نے کہا، "واقی الله نے آپ پر برا کرم کیا ہے۔"
ہم آپس میں باتیں کرنے لگے۔ باتوں کے دوران اس نے مجھے بتایا کہ ہر سال بادشاہ سلامت ایک ہفتے کے لیے اس جزیرے پر اپنے بہترین گھوڑوں کو بھیجتے ہیں۔ اس جگہ کی ہوا گھوڑوں کے لیے بہت عمدہ ہے۔ جزیرہ بالکل سنسان ہے، لیکن سرکار کے ملازم ضروری سامان اپنے ساتھ لاتے ہیں۔ ہفتہ بھر یہاں رہ کر گھوڑوں کو واپس لے جاتے ہیں۔
کچھ دیر کے بعد دوسرے ملازم بھی اپنے اپنے گھوڑے لے اے۔ انہوں نے بھی میری سرگزشت سنی۔ سب نے مجھ سے ہمدردی کی اور مجھے اپنے ساتھ لے جانے کی ہامی بھر لی۔
دوسرے دن ہمارا قافلہ وہاں سے چلا۔ سواری کے لیے انہوں نے مجھے بھی ایک خوبصورت گھوڑا دیا۔ راستے میں انہوں نے بتایا کہ ہمارا بادشاہ برا مہربان اور قدردان ہے۔ وہ ریا کو اپنی مہربانیوں سے خوش رکھتا ہے اور ریا اس پر جان چھیریکتی ہے۔ نزدیک اور دور سے لوگ ہمارے شہر میں آتے ہیں۔ شہر پہنچ کر ہم بدسحش سے آپ کا ذکر کریں گے۔
جب ہم شہر پہنچے تو ملازموں نے بادشاہ تک خبر پہنچائی۔ میری طلبی ہی۔ انہوں نے توجہ سے میری دکھ بھری داستان سنی۔ ان کے حکم سے مجھے نیا لباس دیا گیا۔ میری امید سے بڑھ کر میری خاطرداری کی۔ چند دنوں میں بادشاہ کا مجھ ناچیز پر اعتماد قائم ہوگیا۔ میرے سپرد یہ زمہ داری تھی کہ میں روزانہ بندرگاہ اور بازار جا کر تاجروں اور جہاز کے کپتانوں سے مل کر حال احوال معلوم کر کے بادشاہ کو باخبر رکھا کروں۔ میرے لیے یہ بڑا اعزاز تھا۔ میں روزانہ پہلے بندرگاہ جاتا۔ جہاز کے کپتانوں سے ملتا، ملاحوں سے باتیں کرتا اور پھر بازاروں میں تاجروں کا حال احوال معلوم کرتا۔ شام کو دربار میں بادشاہ کے سامنے اپنی کار گزاری پیش کرتا۔
ایک دن بندرگاہ پر ایک بڑا جہاز لنگر انداز ہوا۔ حسب معمول میں وہاں گیا۔ جہاز پر سوار تاجر مال اسباب بیچنے کے لیے باہر لائے۔ جہاز کے کپتان سے میری ملاقات ہو گئی۔ میں نے اس سے پوچھا، "کیا تمام مال فروخت کے لیے نکال لیا گیا ہے یا کچھ باقی ہے؟"
کپتان نے کہا، "اور تو سب مال بازار چلا گیا ہے۔ چند صندوق باقی ہیں۔ یہ ایک نوجوان کے ہیں جس نے ہمارے ساتھ سفر کا آغاز کیا تھا، لیکن ایک حادثے کا شکار ہو گیا۔ خیال ہے کہ وہ ڈوب گیا ہے۔ میں سوچتا ہوں کہ اس کا اسباب بیچ کر رقم بغداد لے جاؤں اور اس کے وارثوں کو دیدوں۔"
میں نے غور سے دیکھا تو اسے پہچان لیا۔ میں نے پوچھا، "اس کا نام کیا تھا؟"
کپتان نے کہا، "اس کا نام سندباد تھا۔"
یہ سن کر پہلے تو میں ایک لمحے کے لیے سکتے میں آ گیا۔ پھر میں نے پورے زور سے "الله اکبر" کا نعرہ لگایا۔ کپتان ہکا بکا ہو کر میرا منہ دیکھ رہا تھا۔ میں نے اس سے کہا، "میں ہی تو سندباد ہوں۔ میں آپ کا شکر گزار ہوں کہ آپ نے ایمانداری سے میرے مال کی حفاظت کی۔"
کپتان نے کہا، "بیشک آپ بھلے آدمی لگتے ہیں، لیکن اس کا کیا ثبوت ہے کہ آپ سندباد ہیں۔ سندباد تو ڈوب کر مر چکا ہے۔ ہم نے خود ان گناہ گار آنکھوں سے دیکھا ہے۔ میرے ملاح اور جہاز پر سوار تاجر سب اس بات کے گواہ ہیں۔"
میں نے کپتان سے کہا، "جناب من، پہلے آپ میری سرگزشت سن لیجیے۔ پھر خود ہی فیصلہ کیجیے کہ کیا میں وہ نوجوان ہوں جس کا یہ مال ہے۔"
میں نے بصرہ سے لے کر اس ہلنے والے جزیرے تک کے تمام حالات بیان کیے۔ یہاں تک کہ اسے وہ تمام باتیں یاد آ گئیں۔
کپتان نے کہا، "اس دنیا کے رنگ نیارے ہیں۔ وہ بڑا مہربان اور رحیم ہے۔ ہمیں اس بات پر یقین تھا کہ آپ ڈوب کر مر چکے ہیں اور آج آپ کی باتیں سن کر ہمارا اللہ پر یقین اور مضبوط ہو گیا ہے۔"
اس نے مجھے میرا مال دے دیا ہے۔ میں نے اسے بیچا اور بادشاہ کے لیے ایک عمدہ تحفہ خریدا اور اسے اٹھو کر دربار میں لے گیا۔ بادشاہ دیکھ کر حیران رہ گیا۔ میں نے کپتان کی ایمانداری کا قصّہ سنایا۔ اس نے میرا تحفہ قبول کیا اور اس سے بڑھ چڑھ کر مجھے تحفہ دیا۔
بغداد کو واپسی
جب میرا جہاز بغداد روانہ ہونے لگا تو میں اس مہربان بادشاہ کے پاس گیا اور اسے بتایا، "آپ جیسے مہربان بادشاہ اور اس خوبصورت ملک سے جانے کو میرا دل تو نہیں کر رہا، لیکن وطن کی محبت سے میں مجبور ہوں اور آپ سے اجازت چاہتا ہوں۔"بادشاہ نے اجازت دے دی اور ساتھ ہی سونا چاندی، ہیرے جواہرات، قیمتی لباس اور کئی انمول چیزیں تحفے کے طور پر مجھے عطا کیں۔ آخر جہاز روانہ ہوا۔ طویل مسافت کے بعد ہم بغداد پہنچے۔ دوست احباب اور عزیز و اقارب سے مل کر بڑی خوشی ہوئی۔
انشاء اللہ میں کل آپ کو اپنے دوسرے سفر کا حال سناؤں گا۔
دوسرا سفر
میرا جی تو یہ چاہتا تھا کہ میں اس امن و امان کے شہر بغداد میں ہمیشہ ہمیشہ رہوں اس لیے میں نے ایک نیا گھر خرید لیا۔ مجھے جو تحفے ملے تھے انہوں نے مجھے مالا مال کر دیا تھا۔ میرے پہلے سفر نے ایک تو میرے دل سے سفر کا ڈر نکال دیا تھا، دوسرے نئے نئے مقامات دیکھنے اور نئے نئے لوگوں سے ملنے کا زبردست شوق پیدا کر دیا تھا۔ اس کے ساتھ میں یہ بھی کہوں گا کہ میرا پاؤں گردش میں تھا، میری تقدیر میں مشکل سر کرنا اور مہم جیتنا لکھا تھا۔ لہذا میں نے اچھا مال خریدا اور ایک جہاز میں دوسرے سفر پر روانہ ہو گیا۔ بحری سفر کا لطف یہ ہے کہ آدمی ہر بندرگاہ پر رکتا ہے۔ نئے نئے شہر دیکھتا ہے۔ نئے نئے لوگوں سے ملتا ہے۔ کچھ خریدتا ہے کچھ بیچتا ہے اور پھر آگے چل دیتا ہے۔ اسی طرح ہم آگے بڑھتے گئے۔ کچھ دن کے بعد ہم ایک خوبصورت جزیرے میں پہنچے۔ پھلوں اور پھولوں سے لدے ہوئے درخت نظارے کی دعوت دے رہے تھے۔ ندیاں بہہ رہی تھیں۔ ہر طرف سبزہ اگا تھا۔ آدم نہ آدم زاد۔ یا الہی یہ کیا ماجرا ہے۔ ہم لوگ جہاز سے اترے، ٹولیوں میں ادھر ادھر پھیل گئے۔ ہر شخص یہ معلوم کرنا چاہتا تھا کہ یہ کیسی جادو نگری ہے۔ کچھ ملاح برتن لے کر پانی لینے گئے۔ میں بھی تاجروں کے ایک ٹولے کے ساتھ سیر کو نکلا۔ آگے ایک خوش نما باغ نظر آیا۔ ہرے بھرے درخت، پھولوں کی کیاریاں، خوشبوؤں کی لپیٹیں، اس منظر نے مجھے ایک جگہ بیٹھنے پر مجبور کر دیا۔ میرے ساتھی آگے نکل گئے۔ کچھ ایسا اتفاق ہوا کہ میں سو گیا۔اور نیند کے بعد
میں جب نیند سے جاگا تو وہاں کوئی ملاح اور تاجر نظر نہ آیا۔ مجھے اپنے پہلے سفر کی مصیبتیں یاد آنے لگیں۔ اپنے آپ پر غصّہ آنے لگا۔ بغداد میں کتنی سکھ کی زندگی گزر رہی تھی۔ میں وہاں سے کیوں آیا۔جو کچھ ہونا تھا وہ ہو چکا، اب پچھتانے کی کیا ضرورت۔ میں نے اپنے دل میں کہا، "بیٹھنے سے کیا فائدہ سندباد جہازی۔ اٹھو، مثل مشہور ہے کہ جو ڈھونڈتا ہے وہ پاتا ہے۔"
میں ایک درخت پر چڑھ گیا کہ چھٹکارے کا کوئی راستہ دیکھوں۔ دور سمندر میں ایک جہاز جا رہا تھا۔ یہی میرا جہاز تھا جس پر سوار ہونے سے میں رہ گیا تھا۔ باقی جگہ سوائے درختوں کے اور کچھ نظر نہ آیا۔ البتہ دور مجھے ایک عجیب چیز نظر آئی، سفید سی اور اتنی بڑی جتنا کہ کسی عمارت کا گنبد ہوتا ہے۔ میں درخت سے نیچے اترا اور اس کی طرف روانہ ہوا۔ گھنٹوں چلا اور تھک کر چور ہو گیا۔ شام کو مشکل سے اس تک پہنچا۔ اب جو اسے غور سے دیکھتا ہوں تو ایک انڈا سا نظر آگیا۔ اگر گنبد ہوتا تو اس کے نیچے مکان ہوتا۔ کھڑکیاں اور دروازے ہوتے۔ ابھی میں اسے دیکھ ہی رہا تھا کہ اس کے اور میری نگاہ کے درمیان کوئی ایسی چیز آ گئی کہ اندھیرا سا چھا گیا۔
سیمرغ
میں نے اپنی آنکھیں ملیں اور غور سے دیکھا تو ایک بہت ہی بڑا پرندہ تھا۔ یہ رخ تھا جی سیمرغ بھی کہتے ہیں۔ میں نے ملاحوں سے اس کے بارے میں کی قصّے سن رکھے تھے۔ انہوں نے تو یہ بھی بتایا تھا کہ سیمرغ اتنا بڑا پرندہ ہوتا ہے کہ وہ اپنے چوزوں کو ہاتھی کھلاتا ہے۔ اب حقیقت کھلی۔ وہ سفید گنبد اس کا انڈا تھا جس پر بیٹھنے کے لیے وہ آیا تھا۔ رخ اترا۔ انڈے پر بیٹھا اور ایسا لگتا تھا کہ وہ سو گیا ہے۔ نہ کوئی حرکت اور نہ آواز سنائی دیتی تھی۔ خواب کی طرح میرے دل میں یہ بات آئی کہ یہ عظیم پرندہ وادی وادی گھومتا ہو گا۔ کیوں نہ میں اس کے پنجوں سے لٹکا رہوں۔ میں نے اپنے سر سے پگڑی اتاری اور یہ تدبیر سوچی کہ میں کس طرح اپنے آپ کو اس کے پنجوں سے باندھوں۔ میں چپکے چپکے اس کے قریب گیا اور اس تدبیر کے مطابق میں نے اپنے آپ کو اس کے پنجوں سے باندھ دیا۔میں رات بھر اسی طرح بندھا پڑا رہا۔ صبح ہوئی تو رخ اڑا اور میں بھی اس کے ساتھ بندھا آسمان کی سیر کرنے لگا۔ حیرت یہ ہے کہ اس رخ کو معلوم نہ تھا کہ میں اس کے پنجوں سے بندھا ہوں۔ رخ میدانوں، وادیوں، پہاڑوں، دریاؤں اور جزیروں پر سے اڑا جا رہا تھا۔ میں دم بخود یہ سب دیکھ رہا تھا۔ آخر وہ ایک ایسی وادی میں اترا جس کے دونوں اطراف دیوار کی طرح دو پہاڑیاں تھیں۔ مجھے یہ تو معلوم نہ تھا کہ رخ اس جگہ کیوں اترا، دیکھا کہ ماجرا یہ تھا کہ نیچے ایک بڑا سانپ رینگ رہا تھا۔ رخ اسے جھپٹ کر اوپر لے جانے کو اڑا۔ میں اندازے سے یہ سب کچھ بھانپ گیا۔ میں نے پگڑی کی گرہ کھولی اور جونہی وہ سانپوں پر جھپٹا میں ایک طرف کودا اور یہ جا وہ جا۔ میں ایک بڑے پتھر کی اوٹ میں دبک کر بیٹھا رہا۔ رخ سانپ کو تنکے کی طرح آسمان میں لے گیا۔
ہیروں کی وادی
اس بھاگ دوڑ میں میں نے سو دو سو گز کا فاصلہ طے کیا ہو گا کہ کیا دیکھتا ہوں کہ مجھ سے اللہ جھوٹ نہ بلوائے تو کشتی کی جسامت کے کی سانپ رینگتے نظر آئے۔ میرے اللہ! مجھے بچانا! میں نے گڑگڑا کر دعا مانگی۔ صبح کا وقت، سورج چمک رہا تھا اور سانپ رینگ رینگ کر اپنے بلوں میں گھس رہے تھے، ایسا لگتا تھا کہ یہ مخلوق رخ کے ڈر سے دن کو اپنے بلوں میں چھپ جاتی ہے اور رات کو باہر نکلتی ہے۔اس خیال سے کچھ ڈھارس بندھی۔ اب میں وادی کا سرا تلاش کرنے نکلا۔ زمین کچھ پتھریلی تھی۔ ٹھوکر کھائی تو چند ہیرے میرے پاؤں سے ادھر جا پڑے۔ غور سے دیکھا تو پوری زمین ہیروں سے بھری تھی۔ یہ ہیرے خاصے بڑے اور خوبصورت تھے، لیکن میرے کس کام کے۔ میں تو اپنی زندگی بچانا چاہتا تھا۔
چلتے چلتے شام ہو گئی۔ زندگی میں پہلا اور عجیب و غریب موقع تھا کہ میں ہیروں سے اٹی ہوئی زمین کو پامال کرتا چلا جا رہا تھا۔ شام ہوئی۔ سانپوں کا خوف پیدا ہوا۔ بلکہ سچ مچ سانپ نکلتے دیکھے۔ ابھی زیادہ اندھیرا نہیں تھا۔ پاس ہی ایک غار نظر آیا۔ میں نے آؤ دیکھا نہ تاؤ، غار کے اندر چلا گیا اور اپنے ہوش و حواس کی مدد سے یہ تسلی کر لی کہ غار میں کوئی سانپ نہیں۔ پھر ایک بڑے پتھر کو کھسکا کر میں نے غار کا منہ اچھی طرح بند کر دیا اور اللہ کا نام لے کر سو گیا۔
ہیروں کے تاجر
اس غار نے میری جان بچائی۔ رات کو کئی بار میری آنکھ کھلی تو مجھے غار کے منہ پر پھنکاریں سنائی دیں۔ شاید سانپ میری بو پا چکے تھے، لیکن پتھر نے ان کا راستہ روک رکھا تھا۔ صبح ہوئی تو میں اس وقت کا انتظار کرتا رہا جب سانپ رخ کے ڈر سے بلوں میں گھس جاتے ہیں۔ کچھ دیر بعد میں نے جھانک کر دیکھا تو سب سانپ مجھے بلوں کی طرف رینگتے نظر آئے۔پھر میں اندر چلا گیا اور بیٹھ گیا۔ تھوڑی دیر ہوئی تھی کہ مجھے دھڑام سے کسی چیز کے زمین پر گرنے کی آواز سنائی دی۔ میں نے پتھروں کی درز میں سے جھانکا۔ ایسا لگتا تھا کہ گوشت کا ایک بڑا لوتھڑا گرا ہے۔ اس کا رنگ سرخ تھا۔ مجھے وہ کہانیاں یاد آگیئں جو جہاز کے ملاح ہیرے کی وادی کے بارے میں سنایا کرتے تھے۔ وہ بتاتے تھے کہ کسی کی کیا مجال کہ اس ہیروں کی وادی میں جائے۔ اس میں اتنے بڑے سانپ ہیں جتنی کشتی ہوتی ہے۔ لمبا چوڑا آدمی ان کا ایک نوالہ بنتا ہے۔ انسان تو کیا کوئی پرندہ بھی اس وادی کا رخ نہیں کرتا۔ لیکن حضرت انسان کی کیا کہیے۔ وہ کوئی نہ کوئی تدبیر سوچ کر اس وادی سے کچھ ہیرے نکال ہی لیتا ہے۔ ہیروں کے لیے اس وادی کے ایک طرف واقع اونچے پہاڑ کی چوٹی پر چڑھ جاتے۔ وہاں وہ دنبے، بکرے وغیرہ کاٹتے اور ان کے گوشت کے بڑے بڑے لوتھڑے پہاڑ سے نیچے وادی میں گرا دیتے۔ گوشت کے لوتھڑے جب گرتے تو کوئی نہ کوئی ہیرا ان سے چپک جاتا۔ اس گوشت کو کھانے والے بڑے بڑے شکاری پرندوں نے پہاڑ کی چوٹیوں پر آشیانے بنا رکھے تھے۔ وہ اڑ کر جاتے اور وہ گوشت اچک کر آشیانوں میں لے آتے اور تاجر پھر شور مچا کر پرندوں کو اڑنے پر مجبور کر دیتے اور گوشت کو ٹٹول کر ہیرے نکال لیتے ہیں۔
میں ہیروں کی وادی میں تھا، لیکن ہیرے میرے کس کام کے۔ میں تو یہ سوچ رہا تھا کہ یہاں سے کیسے نکلوں۔ مجھے ایک پرندہ یہاں لایا، اس لیے اس بات کا زیادہ امکان تھا کہ کوئی پرندہ ہی الله کے حکم سے مجھے یہاں سے نکالے گا۔ انسان کچھ بھی ہو، لالچ اس کی فطرت میں ہوتی ہے۔ ایک طرف تو میں یہ کہتا تھا کہ مجھے زندگی پیاری ہے، بھاڑ میں جائیں ہیرے، دوسری طرف میں نے اپنی خُرجی (تھیلی) نکالی اور بڑے بڑے شفاف اور چمکدار ہیروں بھر لی پھر میں نے اپنی پگڑی اتاری، اپنی کمر کے گرد گھیرا دے کر کندھوں اور سر تک لے گیا اور اس سے گوشت کا ایک بڑا ٹکڑا باندھ لیا۔ میرا مقصد یہ تھا کہ جب کوئی پرندہ اس گوشت کو اچکے تو میں بھی اس کے ساتھ بندھا ہوا اوپر پہاڑ کی چوٹی تک جا پہنچوں گا۔
تھوڑی دیر بعد شکاری پرندے منڈلانے لگے۔ ایک پرندہ اس گوشت پر جھپٹا جو میرے سر پر رکھا ہوا تھا۔ اسے وہ لے کر اڑا اور ساتھ ہی مجھے اڑا لے گیا۔ پہاڑ کی چوٹی پر اس کا آشیانہ تھا۔ وہاں اس کے بچے منتظر تھے۔ ساتھ ہی تاجر بھی گھات لگائے بیٹھے تھے۔ پرندہ آشیانے میں اترا تھا کہ شور و غل ہوا۔ پرندہ گوشت چھوڑ کر پھر اڑ گیا۔ تاجر گوشت لینے آئے تو مجھے وہاں کھڑا پایا۔ گوشت کے خون سے میں لال ہو چکا تھا۔ میری شکل و صورت بھی عجیب نظر آ رہی تھی۔ مجھے دیکھ کر وہ ٹھٹھک گئے۔ میں نے کہا، "بھائیو! گھبرائیے نہیں۔ میں آدم زاد ہی ہوں۔ اس گوشت کے ساتھ یہ پرندہ مجھے بھی اٹھا لایا ہے۔ اس گوشت میں تو شاید کوئی ہیرا نہیں۔ ہاں میرے پاس کچھ ہیرے ہیں۔ میں تم میں سے ہر ایک کو ایک ایک ہیرا دوں گا۔ یہ ایک ہیرا اتنا بڑا ہوگا کہ کبھی تمہارے ہاتھ نہ آیا ہوگا۔"
وہ میری بات سن کر بڑے خوش ہوئے اور کہنے لگے، "تم بہت ہی خوش قسمت انسان ہو ورنہ ہیروں کی وادی سے کبھی کوئی شخص زندہ نہیں لوٹا۔"
میں نے کہا، "یہ سب الله کا کرم ہے۔"
ان تاجروں کی مدد سے میں نے اپنے باقی ہیرے شہر جا کر بیچے اور ایک جہاز میں سوار ہو کر بخیر و عافیت بغداد پہنچ گیا۔
ساتھیو! کل میں تمہیں اپنے تیسرے سفر کا حال بتاؤں گا۔
تیسرا سفر
پہلے اور دوسرے سفر میں جب مجھے تکلیفیں پیش آتی تھیں تو میں کہتا تھا کہ پھر کبھی سفر کو نہ نکلوں گا، لیکن اس بار تو میں چند ہفتے بھی گھر میں نہ گزار سکا۔ رہ رہ کر طبیت میں خیال آتا تھا کہ چلو الله کی عجیب و غریب دنیا کو دیکھوں۔ آخر سامان سفر تیار کر کے تیسری مرتبہ پھر ایک جہاز میں سفر کے لیے نکلا۔ جہاز بندرگاہوں پر رکتا ہوا آگے بڑھتا رہا۔ ہم ہر بندرگاہ پر خرید و فروخت اور نفع کماتے۔ایک دن ہم خوش و خرم بیٹھے باتیں کر رہے تھے کہ آندھی آئی اور جہاز کو دھکیلتی چلی گئی۔ آندھی تھی یا قیامت، چار دن تک جہاز اس کے تند و تیز جھونکوں میں تنکے کی طرح اڑتا چلا گیا۔ ہوا رکی تو دیکھا ہم ایک جزیرے کے پاس ہیں۔ کپتان آیا۔ اس کے چہرے پر ہوائیاں اڑ رہی تھیں۔ کہنے لگا، "آندھی ابھی ختم نہیں ہوئی۔ ذرا دھیمی ہوئی ہے، لیکن جہاز کے لیے یہ سخت ناموافق ہے۔ بہتر ہے یہیں رک جاؤ۔ اس جزیرے کو میں جانتا ہوں۔ یہاں کے لوگ ٹھنگنے ہیں۔ ان کی شکلیں بندروں کی طرح ہیں۔ وہ ہزاروں کی تعداد میں جہاز پر چڑھ آتے ہیں۔ اگر انہیں روکا جائے تو مرنے مارنے پر تل جاتے ہیں۔ اس لیے یاد رکھیے ان سے ٹکّر نہیں لینی۔"
بندر انسان
کپتان نے جہاز کو جزیرے کے ساتھ لگایا تو ہزاروں کی تعداد میں بندر انسان اوپر چڑھ آئے۔ آگے پیچھے، عرشے پر اور نیچے ہر جگہ وہ پھیل گئے۔ تاجر اور ملاح جہاز چھوڑنے پر مجبور ہو گئے۔ ہمارے دیکھتے ہی دیکھتے وہ بندر انسان جہاز کو جزیرے کے ایک اور جانب لے گئے۔ یہ منظر دیکھ کر ہم سوچنے لگے کہ کیا کیا جائے۔ ایک ملاح ایک درخت پر چڑھا۔ اسے دور پتھر کا ایک مکان نظر آیا۔ اس نے کہا، "کیا خیال ہے۔ ہمارے لیے وہ مکان ٹھیک رہے گا۔"ہم اور کر ہی کیا سکتے تھے۔ ادھر کا رخ کیا۔ تھوڑی دیر میں وہاں پہنچ گئے۔ دروازے کے اندر جھانکا تو ایک کمرہ خالی پڑا تھا۔ ہم اندر چلے گئے۔
آدم خور دیو
ملاحوں سے میں ایک آدم خور دیو اور اس پتھر کے مکان کی کہانی سن چکا تھا۔ وہاں جا کر معلوم ہوا کہ یہ تو بالکل ویسا ہی مکان ہے۔ اتنے میں دیو بھی آ گیا۔ اس نے دروازہ بند کر دیا تاکہ کوئی باہر نہ نکل سکے۔ اگرچہ اس کی شکل انسانوں جیسی تھی، لیکن اس کا قد کسی بڑے تناور درخت کے برابر تھا۔ آنکھیں انگاروں کی طرح دکھ رہی تھیں۔ اس نے کمرے میں رکھے ہوئے ایک صندوق سے ایندھن نکال کر آگ جلائی اور پھر ہم سب پر نظر ڈالی، پہلے اس نے مجھے اٹھایا، ٹٹولا اور دیکھا کہ موٹا تازہ نہیں۔ میں یہ دیکھ کر دنگ رہ گیا کہ اس کی انگلی مجھ سے زیادہ موٹی تھی۔ اس نے مجھے فرش پر رکھ دیا۔ پھر ایک اور آدمی کو اٹھایا۔ اس طرح اس نے سب کو ٹٹولا اور آخر کار ایک کو چن لیا۔ اس شخص کو آگ پر بھونا اور پھر مزے مزے سے کھایا۔ پھر آگ کے پاس ہی لیٹا رہا اور سو گیا۔دوسرے دن وہ کمرے سے نکلا تو دروازے کو بند کرتا گیا۔ رات کو پھر سے کل کی طرح اس نے ہم سب کو باری باری ٹٹولا اور ایک کو چن کر بھونا اور کھا گیا۔
اگلی صبح جب دیو باہر گیا تو ہم سب نے سوچنا شروع کیا کہ اس ظالم سے چھٹکارا پانے کی کوئی تدبیر سوچنی چاہیے ورنہ ہم سب اس کا لقمہ بنیں گے۔ وہ اتنا بڑا تھا کہ ہم سب اس کے ایک بازو کو بھی مروڑ نہیں سکتے تھے۔ میں نے اپنے ساتھیوں کو ایک تجویز بتائی جو ہم سب کو پسند آئی۔
شام کو وہ آیا۔ اس نے معمول کے مطابق ایک آدمی چنا اور اسے آگ پر بھون کر کھا گیا۔ اب ہم نے چھٹکارے کی سوچی سمجھی اسکیم پر عمل شروع کیا۔ دو آدمیوں نے لوہے کی کچھ سلاخیں آگ پر سرخ کیں۔ دوسرے دو آدمیوں نے جلتی لکڑیوں سے دروازے میں راستہ بنایا۔ باقی آدمی کمرے میں رکھے ہوئے بڑے صندوق کو بڑی خاموشی سے اکھاڑنے میں لگ گئے تاکہ اس سے کسی نہ کسی قسم کی کشتی بنالی جائے۔ سب چیزیں تیار ہوگئیں۔
ہم نے بڑی دلیری سے لوہے کی گرم گرم سلاخیں دیو کی آنکھوں میں گھسیڑ دیں اور پھر صندوق کے تختے اٹھا کر ہم سب سمندر کی طرف سرپٹ بھاگے۔ دیو نے زبردست شور مچایا۔ ہم نے ان تختوں سے بیڑا بنایا اور سمندر میں اتر کر اس پر بیٹھ کر پتواروں سے اسے کھینے لگے۔ اتنے میں کیا دیکھتے ہیں کہ دیو کو اس کے دو دوست کنارے کی طرف لا رہے ہیں۔
انہوں نے ہمیں دیکھا تو بڑے بڑے پتھر اٹھا کر پھینکنے لگے۔ ہر پتھر اتنا بڑا تھا جتنا ایک چھوٹا مکان ہوتا ہے۔ اتفاق سے پہلا پتھر تو ہم سے دور گرا، لیکن دوسرا ہمارے قریب گرا اور کچھ لوگ اس کی زد میں آ کر مر گئے۔ خوش قسمتی سے چند آدمی بچ گئے۔ جن میں میں بھی شامل تھا۔
پھر تیز و تند ہوا چلنے لگی۔ سمندر میں موجیں اٹھنے لگیں۔ کئی دنوں تک ہم موجوں کے تھپیڑے کھاتے بہتے جا رہے تھے۔ ہمیں کچھ معلوم نہیں تھا کہ کہاں جا رہے ہیں۔ آخر ایک دن ہم ایک جزیرے پہ جا لگے۔
ایک اژدہا
ہم اس جزیرے پر صرف تین آدمی زندہ بچ سکے تھے۔ جہاز کے تمام ملاح اور تاجر یا تو اس دیو کا لقمہ بن گئے تھے یا اس کی پھینکی ہوئی چٹانوں سے کچل کر مر گئے تھے۔ جزیرے پر کئی درخت نظر آئے، ایک ندی بھی دیکھی۔ ہم جس جگہ اترے تھے اس کے قریب درختوں پر سے پھل چن کر بھوک مٹائی، ندی کا پانی پیا اور سو گئے۔اچانک ہمیں "ہس ہس" کی سی آواز سنائی دی۔ آنکھیں کھولیں تو دیکھا کہ ایک اژدہا ہم سب کو اپنی کنڈلی میں گھیرے ہوئے ہے۔ تھوڑی دیر ہوئی، اس نے ہم میں سے ایک کو نگل لیا۔ اس کی چیخیں سنائی دیتی رہیں، لیکن ہم کیا کر سکتے تھے۔ رات بھر وہ وہیں رہا۔ ہم ڈر کے مارے ہل تک نہ سکے۔
صبح ہوئی تو وہ کہیں چلا گیا۔ ہم سخت پریشان تھے کہ کیا کریں۔ شام کو آ کر وہ ایک اور آدمی کو نگلے گا۔ بھوک ستا رہی تھی۔ ہم نے کچھ پھل کھائے، پانی پیا اور پناہ کی تلاش میں نکلے۔ دن بھر کی بھاگ دوڑ کے باوجود کوئی پناہ نہیں ملی۔ سوچا کہ کسی بڑے اور اونچے درخت پر بیٹھے رہنا چاہیے۔ چنانچہ ہم ایک درخت پر چڑھ گئے۔ رات کو اژدہا ہماری تلاش میں آیا۔ اس نے ہمارے درخت کو ڈھونڈ لیا۔ میں تو درخت کی چوٹی پر تھا، میرا ساتھی مجھ سے نیچے تھا۔ اژدہے نے بلند ہو کر اسے دبوچ لیا اور میں اس بےچارے کی چیخ و پکار سن کر اپنا کلیجہ مسوس کر رہ گیا۔
اب کیا ہوگا
صبح ہوئی تو اژدہا کہیں چلا گیا۔ میں تن تنہا رہ گیا۔ یہ بات یقینی تھی کہ اگر میں نے بچاؤ کے لیے کچھ نہیں کیا تو آج رات میری باری ہوگی اور میں اس بے رحم اژدہے کا لقمہ بن جاؤں گا۔ میں سوچتے سوچتے سمندر کے کنارے جا نکلا۔ میری خوش قسمتی تھی کہ وہاں بندر انسان نہیں تھے۔ میں کنارے کے ساتھ ساتھ چلا کہ ہو سکتا ہے کوئی ایسی چیز مل جائے جس کے زریعے سے میں سمندر میں تیر سکوں۔ اتفاق سے کچھ تختے پڑے مل گئے۔ یہ اس جہاز کے تھے جسے بندر انسان دوسری طرف لے گئے تھے۔ میں نے رسیوں سے ان تختوں کو اس طرح جکڑا کہ ایک صندوق سا بن گیا۔ اسی کام میں شام ہوگئی۔ اب اژدہے کی پھنکار سنائی دی۔ میں نے خود کو صندوق میں بند کر لیا۔ اژدہا اپنا منہ صندوق کے چاروں طرف گھماتا رہا، لیکن لکڑی کے تختوں کی وجہ سے وہ مجھے اپنے منہ میں دبوچ نہیں سکتا تھا۔ وہ چلا گیا۔ میں صبح اس صندوق سے باہر نکلا اور اسے مضبوط کیا۔ پھر کچھ پھل اور پانی لے کر اس میں رکھ لیا اور اس کو پانی میں اتار کر خود اس میں بیٹھ گیا۔ چل میری کشتی چل۔جان ہے تو جہاں ہے
بند صندوق میں سمندر کا سفر۔ الله کی پناہ۔ اوپر چلچلاتی دھوپ تھی اور نیچے موجوں کے تھپیڑے۔ سمندر میں کوئی دیوار تو ہوتی نہیں کہ کہیں میں رکتا، موجیں کبھی صندوق کو ادھر لے جاتیں کبھی ادھر۔ میں ہوا اور موجوں کے رحم و کرم پر تھا۔ خوش قسمتی سے میرے پاس سے گزرتے ہوئے ایک جہاز کے ملاحوں نے مجھے دیکھ لیا۔ وہ جہاز کو قریب لائے اور مجھے اس آفت سے نکال کر اپنے ساتھ لے گئے۔ مجھے ہوش آیا تو لوگ میرے ارد گرد جمع تھے۔ میں نے اپنی درد بھری بیتی سنائی۔ کپتان، ملاحوں اور تاجروں نے بڑا دلاسا دیا اور کہا کہ وہ مجھے بغداد پہنچا دیں گے۔ لیکن ابھی تجارتی سفر باقی ہے، کئی بندر گاہوں پر جانا ہے۔ کچھ مال فروخت کرنا ہے اور کچھ خریدنا ہے۔ انشاءاللہ ان شہروں سے ہو کر ہم بصرہ جائیں گے۔میری خوب تواضع کی گئی۔ چند دنوں میں میری کمزوری دور ہو گئی۔ اتنے میں جہاز ایک بندرگاہ پر پہنچ گیا۔ تاجروں نے اپنا مال کنارے پر اتروایا تاکہ خرید و فروخت کریں۔ جہاز کے کپتان نے اپنے ملاحوں سے کہا، "دیکھو، یہیں سندباد کا مال بھی اتار دو۔ میں چاہتا ہوں کہ اسے بیچ کر اس کی رقم بغداد سندباد کے وارثوں کو پہنچا دوں۔"
میں نے اس کی یہ بات سنی تو حیران رہ گیا۔ یقین نہیں آتا تھا کہ یہ وہی جہاز ہے۔ میں نے کپتان سے پوچھا، "جناب کپتان صاحب! کیا اس کے مال پر فلاں نشان بنا ہوا ہے؟"
اس نے جواب دیا، "ہاں، لیکن آپ کو یہ کیسے معلوم ہے۔ سندباد تو رخ پرندے والے جزیرے پر الله کو پیارا ہو گیا تھا۔ اس بات کو ایک مدّت گزر چکی ہے۔"
میں نے اسے بتایا کہ میں ہی سندباد جہازی ہوں۔ اپنے مال کی مزید نشانیاں بتائیں۔ اتنے میں سب ملاح ہمارے گرد جمع ہو گئے۔ وہ مجھے حیرت سے دیکھ رہے تھے۔ میں نے ساری داستان انہیں سنائی۔ تب انہیں یقین آ گیا کہ سندباد میں ہی ہوں۔ میں بھی اپنا سامان اتروا کر منڈی لے گیا۔ میں نے سارا مال بیچا اور خوب نفع کمایا۔ اس رقم سے میں نے ایسا مال خریدا جو بغداد میں اچھی قیمت پر بک سکے۔
جہاز مزید ایک دو بندرگاہوں پر رکا۔ وہاں بھی خرید و فروخت ہوئی اور الله تعالی کی مہربانی سے مجھے تجارت میں خوب فائدہ ہوا۔ آخر ایک دن ہم بصرہ پہنچ گئے۔ وہاں سے میں بغداد گیا اور پورے مال کو اچھے خاصے منافع پر بیچ دیا۔ ایک بار پھر میں مال و دولت کا مالک ہو گیا۔
دوستو! اگر زندگی رہی تو کل میں آپ کو اپنے چوتھے سفر کا حال سناؤں گا۔