سندھ کوئی ایم کیو ایم کے "باپ"کا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔کوئی بھی پاکستانی کہیں بھی پورے ملک میں آجا سکتا ہے ۔۔پنجاب نے اسیی کوئی بات نہیں کہی کہ مہاجرین پنجاب نہیں آسکتے۔۔۔۔۔شہباز شریف نے کہا ہے کہ اگر ضرورت پڑی تو پنجاب کے سکولوںمیںمہاجرین کی رہائش کا بندوبست کیا جا سکتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ایم کیو ایم اور یہ جو جقسم نا م کی بلا ہے میںنے نام ہی پہلی بار سنا:ُ یہ اپنا ملبہ اب پنجاب پر گرا کر پاک صاف ہونا چاہ رہے ہیں ۔۔۔۔جبکہ یہ نہیں جانتے کہ عوام جانتی ہے کوئی بھی موقعہ ہو قوم کے متحدہ ہونے کا ایم کیو ایم کسی نا کسی کے پیچھے چھپ کر یا سامنے آکر گند ہی کرتی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
زینب سسٹر،
مجھے ڈر ہے کہ آپ پنجاب حکومت کے موقف کو صحیح نہیں سمجھی ہیں۔
پنجاب حکومت کا بنیادی موقف وہی ہے جو سندھ کی پارٹیوں کا ہے، اور وہ یہ کہ انفرادی طور پر تو لوگ پنجاب آ سکتے ہیں، مگر مہاجرین کیمپ صوبہ سرحد کے اندر ہی لگائے جائیں۔ نیز جو لوگ انفرادی طور پر اپنے رشتے داروں کے ہاں آئیں، انکی بھی لازمی رجسٹریشن ہونی چاہیے ہے کیونکہ طالبان جوابی ردعمل میں اس وقت ہائی ٹارگٹ خود کش حملے کرنے کے منصوبے بنا رہے ہیں اور سیکورٹی رسک لیول بہت زیادہ ہوا ہوا ہے۔
اس میں واحد اچھی بات جو ہے وہ یہ ہے کہ مزید انہوں نے کہا ہے کہ اگر یہ پالیسی کامیاب نہیں ہو پاتی تو پھر پنجاب میں بھی مہاجرین کیمپ لگ سکتے ہیں۔
میں نے اوپر پنجاب حکومت کے موقف کے لیے لنک مہیا کر دیا ہے۔ اس میں یہ ساری تفصیل موجود ہے۔
نیز سید شاہی نے کل جنگ اخبار میں پنجاب اور سندھی جماعتوں کی مذمت کی ہے اور اپیل کی ہے کہ وہ پہلے دن سے مہاجر کیمپوں کو کھلا رکھیں۔
c*****************
میرا اپنا خیال یہ ہے کہ پنجاب حکومت نے جو صوبہ سرحد کے اپنے اندر کیمپ بنانے کی تجویز پیش کی، تو اس میں نسل پرستی کا دخل بہت کم تھا اور زیادہ مسئلہ سیکورٹی رسک کا تھا۔
مگر سندھ میں یہ چیز الٹ ہو گئی۔ سیکورٹی رسک مسئلہ ہو ہے ہی، مگر اس سے کہیں زیادہ پیچیدہ مسئلہ نسلی عصبیت کی صورت میں اٹھ کر کھڑا ہو گیا ہے [پنجاب اور سندھ کی صورتحال میں فرق یہ ہے کہ کراچی میں 50 لاکھ پختون آبادی پہلے سے موجود ہے اور یہ بہت بڑی کمیونٹی ہے، جبکہ پنجاب کو کسی ایسے مسئلے کا سامنا نہیں ہے]
کیا دوسرے صوبوں میں آنے والے مہاجرین واپس مالاکنڈ جانا پسند کریں گے؟
اس وقت جس مشکل اور مصائب سے یہ متاثرین جنگ گذر رہے ہیں، اس صورتحال میں میرے نزدیک یہ سوچنا انکے ساتھ زیادتی ہے۔
مگر دنیا کی حقیقت یہ ہے کہ کراچی و سندھ میں لوگ ایسے نہیں سوچیں گے، بلکہ وہ اپنے مفادات کو پہلے سامنے رکھیں گے۔ اور انکو بڑا خدشہ یہ ہے کہ کیمپوں میں موجود متاثرین کی اکثریت واپس جانے کی بجائے ہر صورت یہاں بس جانا چاہییں گے کیونکہ مالاکنڈ میں طالبان سے جنگ دور دور تک ختم نہیں ہوئی ہے اور تباہ و برباد مالاکنڈ میں روزگار کے مواقع کم ہی کم ہیں۔
اس لیے ان کی بھرپور کوشش یہ ہی ہے کہ متاثرین کے کیمپ صوبہ سرحد میں ہی لگیں اور تمام تر امداد وہیں پر پہنچائی جائے۔
سید شاہی کا پنجاب اور سندھ پارٹیوں پر نسلی عصبیت کا الزام لگانا
میں اپنی قوم سے پنجاب اور سندھ میں کیمپ نہ لگانے کی وجہ سے ناخوش تھی، اداس تھی۔
کل سید شاہی پنجاب اور سندھ کے ان لوگوں پر نسلی عصبیت کا الزام لگا رہا تھا۔
اور مجھے یاد آ رہا تھا کہ میں تو اپنی قوم سے اس سے کہیں پہلے بہت مایوس ہو چکی تھی جب ڈھائی لاکھ بہاری پاکستانیوں کو میری اسی قوم نے بنگلہ دیش کے کیمپوں میں گلنے سڑنے کے لیے اکیلا چھوڑ دیا تھا۔
اور یہ سید شاہی اور اسکی پارٹی اے این پی بھی ان بڑے مجرمان میں شامل تھی جو اس وقت ان محصورین پاکستان کو لانے کی بڑھ چڑھ کر مخالفت کرتے تھے۔ انسان کیا منافق چیز ہے کہ آج یہی شاہی سید دوسروں کو نسلی عصبیت کا الزام دے رہا ہے جبکہ بذات خود وہ اسکی سب سے بڑی تصویر رہا ہے۔