الف نظامی
لائبریرین
آخری تدوین:
اس قدر طویل عرصہ سے آپریشن جاری ہے، اس کے باوجود حالات ایسے برے ہیں۔ اب تو یوں لگنے لگ گیا ہے جیسے کوئی بڑی قوت کچے کے ڈاکوؤں کی سپورٹ کرنے میں مصروف ہے۔ راکٹ لانچر بھی ان کے پاس ہیں اور جدید ترین اسلحہ بھی۔ یہ مذمتی بیانات آخر کب تک؟رحیم یار خان: پنجاب کے علاقے رحیم یار خان میں کچے کے ڈاکوؤں نے پولیس پر شدید حملہ کیا جس میں 12 اہلکار شہید جبکہ پانچ زخمی ہوئے۔
ایکسپریس نیوز کے مطابق رحیم یار خان میں کچے کے علاقے ماچھکہ کیمپ 2 پر ڈاکوؤں نے نفری تبدیل کرنے والی پولیس موبائلوں کو راکٹ لانچروں سے نشانہ بنایا۔
پولیس نے کچے میں ڈاکوؤں کی نقل و حرکت روکنے کیلیے ماچھکہ میں کیمپ قائم کیا ہوا تھا، جہاں پر 25 کے قریب مسلح ڈاکوؤں نے شدید حملہ کیا۔
راکٹ لانچر کے حملے میں پولیس موبائلیں تباہ جبکہ 11 اہلکار موقع پر شہید اور 5 زخمی ہوئے۔ جن میں سے ایک اہلکار اسپتال منتقلی کے دوران شہید ہوا جبکہ اسپتال میں تین زخمی لائے گئے جن کی حالت تشویشناک ہے۔
پولیس پولیس کے ترجمان کے مطابق حملے کے بعد سے پانچ اہلکار لاپتہ ہیں جن کی تلاش کیلیے سرچ اور ریسکیو آپریشن جاری ہے۔ واقعے کے بعد ضلع بھر کی پولیس کی بھاری نفری کو جائے وقوعہ پر طلب کرلیا گیا ہے جبکہ نفری کی قیادت ضلعی پولیس آفیسر عمران کررہے ہیں۔
صورت حال کے پیش نظر جائے وقوعہ پر ایمبولینسسز کو بھی طلب کرلیا گیا ہے جبکہ سندھ پولیس کو بھی کچے کے علاقے میں طلب کرلیا گیا ہے۔
صدر مملکت کی واقعے کی شدید مذمت
صدر مملکت آصف علی زرداری نے رحیم یار خان میں پولیس قافلے پر کچے کے ڈاکوؤں کے حملے کی مذمت کرتے ہوئے شہید ہونے والے پولیس اہلکاروں کے لواحقین کے ساتھ اظہار تعزیت کیا۔ صدر مملکت نے کچے کے علاقے میں جرائم پیشہ افراد کے خلاف سخت کارروائی کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اِداروں پر حملے برداشت نہیں کیے جائیں گے۔
صدر مملکت کا واقعہ میں شہید ہونے والے پولیس اہلکاروں کو خراج عقیدت پیش کیا اور اُن کی بلندی درجات، زخمیوں کی جلد صحتیابی کی دعا بھی کی۔
وزیر اعظم کی مذمت
وزیرِ اعظم محمد شہباز شریف نے رحیم یار خان میں پولیس کے قافلے پر ڈاکؤوں کے حملے کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے جوانوں کی شہادت پر گہرے دکھ اور غم کا اظہار کیا۔ وزیرِ اعظم نے شہداء کی بلندی درجات اور ان کے اہلِ خانہ کیلئے صبر جمیل کی دعا جبکہ زخمیوں کی جلد صحت یابی کیلیے دعا بھی کی۔
وزیراعظم نے ہدایت کی کہ زخمی پولیس اہلکاروں کو بہترین طبی سہولیات فراہم کی جائیں۔ اس کے علاوہ شہباز شریف نے کچے کے علاقے میں حملہ آوروں کے خلاف فوری اور مؤثر کاروائی کی ہدایت کرتے ہوئے ذمہ داران کی نشاندہی کر کے انہیں قرار واقعی سزا دلوانے کی ہدایت بھی کی۔
انہوں نے کہا کہ پولیس کے افسران و جوان اپنی جان کی پرواہ کئے بغیر جرائم جرائم پیشہ افراد اور تخریب کاروں کا سد باب کرتے ہیں، مجھ سمیت پوری قوم پولیس کے بہادر اور فرض شناس افسران و جوانوں کو خراجِ تحسین پیش کرتی ہے۔
وزیراعلیٰ پنجاب کی ہدایت پر سیکریٹری داخلہ اور آئی جی کچے کے علاقے میں روانہ
وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز نے کچے کے علاقے میں پولیس پر راکٹ لانچرز سے حملے کا نوٹس لیتے ہوئے سیکریٹری داخلہ اور آئی جی کو وقوعہ پر پہنچنے کی ہدایت کی جس پر دونوں شخصیات روانہ ہوگئیں۔
وزیراعلیٰ کی ہدایت پر سیکرٹری داخلہ نور الامین مینگل کچے کے علاقے میں حملہ آوروں کے خلاف کریک ڈاؤن کی نگرانی کریں گے، وزیر اعلیٰ پنجاب کا لاپتہ پولیس اہلکاروں کی بازیابی کیلئے موثر آپریشن کی ہدایت کی۔
آئی جی پنجاب، ایڈیشنل آئی جی سپیشل برانچ اور ایڈیشنل آئی جی سی ٹی ڈی بھی سیکرٹری داخلہ بھی آپریشن کی نگرانی کریں گے جبکہ پولیس پر حملہ کرنے والوں کو منتقی انجام تک پہنچایا جائے گا۔
وزیر داخلہ سندھ کا پولیس کو ہائی الرٹ رہنے کا حکم
وزیر داخلہ سندھ ضیا الحسن لنجار نے رحیم یار خان میں کچے کے ڈاکوؤں کے حملے میں 11 پولیس اہلکاروں کی شہادت اور 7 کے زخمی ہونے کے واقعے پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے مذمت کی جبکہ انہوں نے آئی جی سندھ کو اگلے احکامات تک سیکیورٹی ہائی الرٹ رکھنے کی ہدایت بھی کی۔
انہوں نے اپنے بیان میں کہا کہ پنجاب پولیس کے قافلے پر دہشت گردانہ حملے میں پولیس اہلکاروں کی شہادت قابل مذمت اور افسوسناک ہے،پولیس اہلکاروں کی شہادت سےافسران اور جوانوں کے حوصلوں کو پست نہیں کیا جاسکتا۔
گورنر سندھ کی مذمت
گورنرسندھ کامران خان ٹیسوری نے رحیم یارخان میں پولیس اہلکاروں پر ڈاکووں کے حملے کی مذمت کی اور شہید پولیس اہلکاروں کے لواحقین سے اظہار تعزیت کیا۔
اہلکاروں کو ریسکیو کرنے والے پولیس اہلکاروں کو گورنر سندھ نے خراج تحسین پیش کیا۔
گورنر سندھ نے پولیس اہلکاروں پرحملوں میں ملوث ڈاکووں کیخلاف سخت کارروائی کو وقت کی اہم ضرورت قرار دیا۔
گورنر سندھ کامران خان ٹیسوری نے وزیراعظم کی جانب سے کچے میں ڈاکووں کیخلاف کارروائی کے بیان کو خوش آئند قرار دیتے ہوئے کہا کہ کچے کے علاقے میں سندھ اور پنجاب کا مشترکا آپریشن ہی مسئلے کا حل ہے۔
صد افسوس ، یہ مذمتی بیانات آخر کب تک ؟یہ مذمتی بیانات آخر کب تک؟
بارہ اہلکاروں کی شہادت کا مطلب ہے کہ بارہ کنبے اُجڑ گئے۔ صد افسوس۔