سندھ: کچے کے ڈاکو

الف نظامی

لائبریرین
سندھ و پنجاب کے کچے کے سرحدی علاقے میں پنجاب پولیس نے ڈاکوؤں کے خلاف آپریشن کر کے 2 ڈاکو ہلاک کر دیئے جبکہ کارروائی میں 7 ڈاکو زخمی بھی ہوئے۔

ڈی پی او رحیم یار خان رضوان گوندل کے مطابق آپریشن میں ڈاکو عالم شر اور نذیر شر مارے گئے جبکہ ڈاکو مٹھا شر سمیت 7 ڈاکو زخمی بھی ہوئے۔

ماچھکہ، بھونگ، صادق آباد اورکوٹ سبزل کی پولیس نفری بھی آپریشن میں شریک ہے۔ گھوٹکی اور راجن پور پولیس کو بھی طلب کیا گیا۔

ڈی پی او رحیم یار خان نے بتایا کہ بگٹی قبیلے کے رضا کار بھی پولیس کے ساتھ ہیں۔

آئی جی پنجاب عثمان انور نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ڈاکوؤں کے خلاف آپریشن میں رینجرز پولیس سے تعاون کر رہی ہے اور سندھ پولیس نے ہمارا زبردست ساتھ دیا ہے۔
 

الف نظامی

لائبریرین
سندھ اور پنجاب کے سرحدی علاقے میں حالیہ کئی ماہ سے کچے کے ڈاکوؤں کی سرگرمیوں کی خبریں قومی سطح پر زیر گردش ہیں۔ پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کارروائیوں بھی کچے کے ڈاکوؤں کا زیادہ خوفزدہ نہیں کرسکی ہیں۔ اس میں نئی پیش رفت یہ نظر آئی ہے کہ بلوچستان کے ڈیرہ بگٹی سے تعلق رکھنے والے سینکڑوں مسلح افراد ضلع گھوٹکی پہنچے ہیں اور ان کی قیادت چیف آف کلپر( بگٹی قبیلے کی شاخ) جلال خان کررہے ہیں۔

تاہم یہ آپریشن کتنا بڑا ہے اس حوالے سے متضاد خبریں گردش کر رہی ہے۔ تازہ ترین اطلاعات یہ ہیں یہ چار ڈاکوؤں کی ہلاکت کےبعد بگٹی قبائل کے افراد علاقے سے واپس چلے گئے ہیں۔

بلوچستان کے علاقے ڈیرہ بگٹی سے تعلق رکھنے والے چیف آف کلپر جلال خان کو جوان بیٹے عبدالرحمن کو رواں ماہ کے آغاز میں قتل کردیا گیا تھا جس کے بعد پولیس نے دعویٰ کیا عبدالرحمن کے قاتل ایک کارروائی میں مارے گئے ہیں لیکن جلال خان نے پولیس کے بیان پر عدم اطمینان کا اظہار کیا۔

اب جلال خان نے ایک نشریاتی ادارے سے بات چیت میں تصدیق کی کہ شہر سے کچے کی طرف جانے والے علاقوں میں بگٹی قبیلے کے نوجوانوں نے پولیس کے ساتھ مل کر رضا کارانہ طور پر کچے کے علاقے میں ڈاکوؤں کے خلاف آپریشن میں حصہ لیا ہے۔

اپنے بیٹے کے قتل کے بدلے کے بارے میں سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ’سندھ پولیس نے ان کے بیٹے کے قتل کے کچھ روز بعد ایک ڈاکو کو مارنے کا دعویٰ کیا ہے لیکن ہم ان کے بیان سے مطمئن نہیں ہیں۔ ہمیں سندھ پولیس سے شکایت ہے، سندھ پولیس کے افسران ہمارے ساتھ تعاون نہیں کررہے ہیں۔‘

کچے کے ڈاکوؤں کے خلاف آپریشن کا حصہ بننے والے جلال خان کی متعدد تصاویر سوشل میڈیا پر وائرل ہیں۔ اس حوالے سے معروف تجزیہ کار اوریا مقبول جان نے تفصیلی ٹوئٹ کی۔

انہوں نے کہا کہ ’یہ تصویر کسی ڈاکو کی نہیں بلکہ ڈاکوؤں کے علاقے پہ قبضہ کر کے آپریشن کی نگرانی کرنے والے شخص کی ہے جو کچے کے ڈاکوؤں کے ہاتھوں اپنے جواں سال فرزند شہادت کے بعد خدائی قہر بن کر گھوٹکی کے کچے میں ڈاکوؤں کے خلاف برسر پیکار ہے‘۔

اوریاجان مقبول نے مزید کہا کہ ’یہ شخص بلوچستان کی عظیم دھرتی سوئی ڈیرہ بگٹی سے تعلق رکھتا ہے، کون ہے یہ شخص سب حیران ہوں گے کہ جہاں سندھ پنجاب بلوچستان کی پولیس ناکام ہوئی وہاں یہ شخص کیسے کامیاب ہو رہا ہے۔ یہ چیف آف کلپر وڈیرہ جلال خان عرف وڈیرہ جلالان کلپر جو آج اپنے سینکڑوں جانثار ساتھوں کے ساتھ پولیس اور رینجرز کی مدد کے لیے رضاکارانہ طور اس جنگ میں شامل ہوا‘

انہوں نے کہا کہ بیٹے کی شہادت اور ہزاروں معصوموں کے قاتلوں کے لیے خدا کا قہر بنا ہوا ہے کچے کے ڈاکو جنکی دہشت پورے پاکستان میں پھیلی ہوئی تھی، آج جلالان کلپر کچے کے ڈاکوؤں کے لیے ہشت کی علامت بنا ہوا ہے۔

اوریا جان مقبول کے مطابق ’ڈاکو آئی جی سندھ سے رو رو کر اپیل کر رہے ہیں کہ ہم سرینڈر کرنے کو تیار ہیں ہمیں محفوظ طریقے سے جلالان کلپر کے قہر سے بچایا جائے کئی کیونکہ انعام یافتہ ڈاکوؤں کو مردار کر دیا ہے، جلالان کے جانثاروں نے پورے پاکستان میں لوگ ھاتھ اٹھا اٹھا کر جلالان کلپر کے لیے دعا کر رہے ہیں‘۔

تاہم جلال خان کا کہنا ہے کہ یہ تصویر پرانی ہے۔ وہ آپریشن میں شرکت کے لیے خود نہیں گئے بلکہ قبیلے کے کچھ نوجوان گئے۔

انہوں نے کہا کہ وہ حال ہی میں عمرے سے واپس آئے ہیں اور ان کے بال چھوٹے ہیں جب کہ لمبے بالوں کے ساتھ یہ تصویر پرانی ہے۔

سوشل میڈیا پر منگل کو سامنے آنے والی تازہ ترین اطلاعات کے مطابق کچے میں بگٹی قبائل نے اپنا آپریشن ختم کر دیا ہے اور وہ واپس روانہ ہوگئے ہیں۔
 

الف نظامی

لائبریرین
پنجاب پولیس رحیم یار خان کی کچہ ماچھکہ میں شرگینگ کے ڈاکوؤں کے خلاف بھرپور کارروائیاں گزشتہ روز جاری رہیں۔
تفصیلات کے مطابق پولیس آپریشن کے دوران ایک اور خطرناک ڈاکو فاروق شر بھی انجام کو پہنچ گیا۔
دو روز کے دوران ہلاک ڈاکوؤں کی تعداد 4 ہو گئی ہے۔
پنجاب پولیس نے گذشتہ روز 3 خطرناک ڈاکوؤں عالم شر، نذیر شر اور حاکم شر کو کیفر کردار تک پہنچایا جبکہ 7 ڈاکو شدید زخمی ہوئے تھے۔
 

الف نظامی

لائبریرین

ہنی ٹریپ کا شکار واپڈا کا سابق افسر کچے کے ڈاکوؤں کی حراست میں جاں بحق


راولپنڈی: تھانہ آراے بازار کے علاقے ٹینچ بھاٹہ سے ہنی ٹریپ ہوکر سندھ کے ضلع کشمور میں کچے کے علاقے میں ڈاکوؤں کے ہتھے چڑھنے اور دو کروڑ روپے تاوان کی خاطر 2 ماہ تک قید و بندکی صوبتعیں برداشت کرنے والا واپڈا کا سابق افسر ڈاکووں کی قید میں پراسرار حالات میں دم توڑ گیا۔
پولیس کے مطابق مغوی کے دم توڑنے پر اغواہ کنندگان نعش تھانہ نیپل کوٹ کشمور کی حدود میں پھنک کر فرار ہوگئے، جس کی شناخت کپڑوں کی جیب سے مقتول کے ڈرائیونگ لائسنس سے ہوئی اور سندھ پولیس نے تھانہ آراے بازار راولپنڈی کو اطلاع کردی۔
سندھ پولیس کے رابطے پر تھانہ آر اے بازار کی ٹیم نعش کی تصدیق اور اسے راولپنڈی منتقل کرنے کے لیے کشمور روانہ کردی گئی ہے۔
پولیس کے مطابق ٹینچ بھاٹہ راولپنڈی سے تعلق رکھنے والے واپڈا کے70 سالہ سابق سرکاری آفیسر آغا سہیل خان کے حوالے سے رواں سال مارچ میں اغوا کا مقدمہ درج کراتے ہوئے ان کے فرزند آغا بابر علی نے بتایا تھا کہ والد سکھر جانے کے لیے گھر سے روانہ ہوئے جنہیں میرے بھائی آغا مزمل علی نے راولپنڈی ریلوے اسٹیشن سے سکھر جانے والی ٹرین پر بٹھا دیا تھا۔
انہوں نے کہا تھا کہ والد نے 6 مارچ کو اپنے دوست امجدکو بتایا کہ وہ خیر خیریت سے سکھر پہنچ گیے ہیں بعد میں ان کا موبایل فون بند ملتا رہا جس پر بھائی نے والد کے دوست امجد سے پوچھا کہ کیا آپ کا ہمارے والد سے رابطہ ہوا تو انہوں نے بتایا ان کا نمبر مسلسل بند جا رہا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ والد کے پاس چار مختلف بینکوں کے اے ٹی ایم کارڈز، شناختی کارڈ اور ڈرائیونگ لائسنس وغیرہ تھے، جس پر پولیس نے 11 مارچ کو اغوا کے جرم میں مقدمہ درج کرکے تفتیش شروع کی تھی۔
پولیس نے تفتیش کے دوران مغوی کے لواحقین کو مغوی کے نمبر سے ہی نامعلوم افراد نے کالیں کرکے موجودگی کچے کے علاقے میں ظاہر کرکے دو کروڑ روپے تاوان کا مطالبہ شروع کردیا۔
پولیس ذرائع کے مطابق مغوی کے معمر ہونے کے باعث طبی مسائل بھی سامنے آئے تو اغوا کنندگان ان کی ادویات کا بھی دریافت کیا اور ادویات کا بھی مطالبہ کرتے رہے جبکہ تاوان کی رقم پر وقفے وقفے سے بات جاری رہی۔
پولیس نے بتایا کہ اغوا کنندگان دو کروڑ سے ایک کروڑ پھر ستر لاکھ تک بھی آئے اور آخر میں ایک سے 15 لاکھ تک بھی بات ہوئی لیکن تاوان ادا کرنے کا فیصلہ نہ ہو سکا تھا کہ بدھ کو دوپہر سندھ کے علاقے کشمور کے تھانہ نیپل کوٹ کے نائب محرر صابر نے تھانہ آر اے بازار راولپنڈی کو کال کرکے اطلاع دی۔
ان کا کہنا تھا کہ نیپل کوٹ کے نائب محرر نے بتایا کہ ایک نعش ملی ہے جس کے کپڑوں کی جیب سے آغا سہیل علی خان جو ٹینچ بھاٹہ کا رہائشی ہے ، ان کا ڈرائیونگ لائسنس ملا ہے جس پر تھانہ آرے بازار کے پولیس ریکارڈ کی پڑتال کی گی تو معلومات کے مطابق نعش ٹینچ بھاٹہ کے آغا سہیل علی خان کی تھی، جن کے اغوا برائے تاوان کا مقدمہ نمبر 220/24 تھانہ آراے بازار میں درج ہے۔
ادھر اطلاع ملنے پر راولپنڈی پولیس حکام نے سب انسپکٹر رجب کی سربراہی میں پولیس ٹیم کو تھانہ نیپل کوٹ کشمور سندھ کی حدود سے ملنے والی نعش کی تصدیق اور اس کو راولپنڈی منتقل کرنے کے لیے سندھ روانہ کر دیا ہے۔
 

الف نظامی

لائبریرین
کندھ کوٹ سے 26 روز قبل اغوا ہونے والے بچے ایاز پٹھان کو بازیاب کروالیا گیا۔
اے آر وائی نیوز کے مطابق اے ایس پی نے دعویٰ کیا ہے کہ 6 سالہ بچے ایاز پٹھان کو کچے میں مقابلے کے بعد بازیاب کروایا گیا ہے۔
پولیس کچے میں پہنچی تو ڈاکو بچے کو چھوڑ کر فرار ہوگئے۔
گزشتہ روز ڈاکوؤں نے بچے کی ویڈیو بھی سوشل میڈیا پر پھیلائی تھی، ویڈیو میں زنجیروں میں بندھا ہوا بچہ مدد کے لیے پکار رہا تھا۔
واضح رہے کہ کندھ کوٹ کے کچے کے علاقے میں تاوان وصولی کیلئے ڈاکوؤں نے 6 سالہ معصوم بچے کو زنجیروں سے جکڑ کر اس کی ویڈیو وائرل کردی تھی۔
وائرل ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ بچہ زارو قطار رو رہا ہے، مغوی بچہ اپنے ورثا سے اپیل کر رہا ہے کہ ڈاکوؤں کو پیسے دے کر میری جان چھڑوائیں۔
6 سالہ ایاز پٹھان کو 25 روز قبل اغوا کیا گیا تھا، ڈاکوؤں نے بچے کی بازیابی کیلئے ورثا سے 50 لاکھ روپے تاوان طلب کیا ہے۔
 

الف نظامی

لائبریرین
رحیم یار خان: پنجاب کے علاقے رحیم یار خان میں کچے کے ڈاکوؤں نے پولیس پر شدید حملہ کیا جس میں 12 اہلکار شہید جبکہ پانچ زخمی ہوئے۔

ایکسپریس نیوز کے مطابق رحیم یار خان میں کچے کے علاقے ماچھکہ کیمپ 2 پر ڈاکوؤں نے نفری تبدیل کرنے والی پولیس موبائلوں کو راکٹ لانچروں سے نشانہ بنایا۔

پولیس نے کچے میں ڈاکوؤں کی نقل و حرکت روکنے کیلیے ماچھکہ میں کیمپ قائم کیا ہوا تھا، جہاں پر 25 کے قریب مسلح ڈاکوؤں نے شدید حملہ کیا۔

راکٹ لانچر کے حملے میں پولیس موبائلیں تباہ جبکہ 11 اہلکار موقع پر شہید اور 5 زخمی ہوئے۔ جن میں سے ایک اہلکار اسپتال منتقلی کے دوران شہید ہوا جبکہ اسپتال میں تین زخمی لائے گئے جن کی حالت تشویشناک ہے۔

پولیس پولیس کے ترجمان کے مطابق حملے کے بعد سے پانچ اہلکار لاپتہ ہیں جن کی تلاش کیلیے سرچ اور ریسکیو آپریشن جاری ہے۔ واقعے کے بعد ضلع بھر کی پولیس کی بھاری نفری کو جائے وقوعہ پر طلب کرلیا گیا ہے جبکہ نفری کی قیادت ضلعی پولیس آفیسر عمران کررہے ہیں۔

صورت حال کے پیش نظر جائے وقوعہ پر ایمبولینسسز کو بھی طلب کرلیا گیا ہے جبکہ سندھ پولیس کو بھی کچے کے علاقے میں طلب کرلیا گیا ہے۔

صدر مملکت کی واقعے کی شدید مذمت

صدر مملکت آصف علی زرداری نے رحیم یار خان میں پولیس قافلے پر کچے کے ڈاکوؤں کے حملے کی مذمت کرتے ہوئے شہید ہونے والے پولیس اہلکاروں کے لواحقین کے ساتھ اظہار تعزیت کیا۔ صدر مملکت نے کچے کے علاقے میں جرائم پیشہ افراد کے خلاف سخت کارروائی کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اِداروں پر حملے برداشت نہیں کیے جائیں گے۔

صدر مملکت کا واقعہ میں شہید ہونے والے پولیس اہلکاروں کو خراج عقیدت پیش کیا اور اُن کی بلندی درجات، زخمیوں کی جلد صحتیابی کی دعا بھی کی۔

وزیر اعظم کی مذمت

وزیرِ اعظم محمد شہباز شریف نے رحیم یار خان میں پولیس کے قافلے پر ڈاکؤوں کے حملے کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے جوانوں کی شہادت پر گہرے دکھ اور غم کا اظہار کیا۔ وزیرِ اعظم نے شہداء کی بلندی درجات اور ان کے اہلِ خانہ کیلئے صبر جمیل کی دعا جبکہ زخمیوں کی جلد صحت یابی کیلیے دعا بھی کی۔

وزیراعظم نے ہدایت کی کہ زخمی پولیس اہلکاروں کو بہترین طبی سہولیات فراہم کی جائیں۔ اس کے علاوہ شہباز شریف نے کچے کے علاقے میں حملہ آوروں کے خلاف فوری اور مؤثر کاروائی کی ہدایت کرتے ہوئے ذمہ داران کی نشاندہی کر کے انہیں قرار واقعی سزا دلوانے کی ہدایت بھی کی۔

انہوں نے کہا کہ پولیس کے افسران و جوان اپنی جان کی پرواہ کئے بغیر جرائم جرائم پیشہ افراد اور تخریب کاروں کا سد باب کرتے ہیں، مجھ سمیت پوری قوم پولیس کے بہادر اور فرض شناس افسران و جوانوں کو خراجِ تحسین پیش کرتی ہے۔

وزیراعلیٰ پنجاب کی ہدایت پر سیکریٹری داخلہ اور آئی جی کچے کے علاقے میں روانہ

وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز نے کچے کے علاقے میں پولیس پر راکٹ لانچرز سے حملے کا نوٹس لیتے ہوئے سیکریٹری داخلہ اور آئی جی کو وقوعہ پر پہنچنے کی ہدایت کی جس پر دونوں شخصیات روانہ ہوگئیں۔

وزیراعلیٰ کی ہدایت پر سیکرٹری داخلہ نور الامین مینگل کچے کے علاقے میں حملہ آوروں کے خلاف کریک ڈاؤن کی نگرانی کریں گے، وزیر اعلیٰ پنجاب کا لاپتہ پولیس اہلکاروں کی بازیابی کیلئے موثر آپریشن کی ہدایت کی۔

آئی جی پنجاب، ایڈیشنل آئی جی سپیشل برانچ اور ایڈیشنل آئی جی سی ٹی ڈی بھی سیکرٹری داخلہ بھی آپریشن کی نگرانی کریں گے جبکہ پولیس پر حملہ کرنے والوں کو منتقی انجام تک پہنچایا جائے گا۔

وزیر داخلہ سندھ کا پولیس کو ہائی الرٹ رہنے کا حکم

وزیر داخلہ سندھ ضیا الحسن لنجار نے رحیم یار خان میں کچے کے ڈاکوؤں کے حملے میں 11 پولیس اہلکاروں کی شہادت اور 7 کے زخمی ہونے کے واقعے پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے مذمت کی جبکہ انہوں نے آئی جی سندھ کو اگلے احکامات تک سیکیورٹی ہائی الرٹ رکھنے کی ہدایت بھی کی۔

انہوں نے اپنے بیان میں کہا کہ پنجاب پولیس کے قافلے پر دہشت گردانہ حملے میں پولیس اہلکاروں کی شہادت قابل مذمت اور افسوسناک ہے،پولیس اہلکاروں کی شہادت سےافسران اور جوانوں کے حوصلوں کو پست نہیں کیا جاسکتا۔

گورنر سندھ کی مذمت

گورنرسندھ کامران خان ٹیسوری نے رحیم یارخان میں پولیس اہلکاروں پر ڈاکووں کے حملے کی مذمت کی اور شہید پولیس اہلکاروں کے لواحقین سے اظہار تعزیت کیا۔

اہلکاروں کو ریسکیو کرنے والے پولیس اہلکاروں کو گورنر سندھ نے خراج تحسین پیش کیا۔

گورنر سندھ نے پولیس اہلکاروں پرحملوں میں ملوث ڈاکووں کیخلاف سخت کارروائی کو وقت کی اہم ضرورت قرار دیا۔

گورنر سندھ کامران خان ٹیسوری نے وزیراعظم کی جانب سے کچے میں ڈاکووں کیخلاف کارروائی کے بیان کو خوش آئند قرار دیتے ہوئے کہا کہ کچے کے علاقے میں سندھ اور پنجاب کا مشترکا آپریشن ہی مسئلے کا حل ہے۔
 

علی وقار

محفلین
رحیم یار خان: پنجاب کے علاقے رحیم یار خان میں کچے کے ڈاکوؤں نے پولیس پر شدید حملہ کیا جس میں 12 اہلکار شہید جبکہ پانچ زخمی ہوئے۔

ایکسپریس نیوز کے مطابق رحیم یار خان میں کچے کے علاقے ماچھکہ کیمپ 2 پر ڈاکوؤں نے نفری تبدیل کرنے والی پولیس موبائلوں کو راکٹ لانچروں سے نشانہ بنایا۔

پولیس نے کچے میں ڈاکوؤں کی نقل و حرکت روکنے کیلیے ماچھکہ میں کیمپ قائم کیا ہوا تھا، جہاں پر 25 کے قریب مسلح ڈاکوؤں نے شدید حملہ کیا۔

راکٹ لانچر کے حملے میں پولیس موبائلیں تباہ جبکہ 11 اہلکار موقع پر شہید اور 5 زخمی ہوئے۔ جن میں سے ایک اہلکار اسپتال منتقلی کے دوران شہید ہوا جبکہ اسپتال میں تین زخمی لائے گئے جن کی حالت تشویشناک ہے۔

پولیس پولیس کے ترجمان کے مطابق حملے کے بعد سے پانچ اہلکار لاپتہ ہیں جن کی تلاش کیلیے سرچ اور ریسکیو آپریشن جاری ہے۔ واقعے کے بعد ضلع بھر کی پولیس کی بھاری نفری کو جائے وقوعہ پر طلب کرلیا گیا ہے جبکہ نفری کی قیادت ضلعی پولیس آفیسر عمران کررہے ہیں۔

صورت حال کے پیش نظر جائے وقوعہ پر ایمبولینسسز کو بھی طلب کرلیا گیا ہے جبکہ سندھ پولیس کو بھی کچے کے علاقے میں طلب کرلیا گیا ہے۔

صدر مملکت کی واقعے کی شدید مذمت

صدر مملکت آصف علی زرداری نے رحیم یار خان میں پولیس قافلے پر کچے کے ڈاکوؤں کے حملے کی مذمت کرتے ہوئے شہید ہونے والے پولیس اہلکاروں کے لواحقین کے ساتھ اظہار تعزیت کیا۔ صدر مملکت نے کچے کے علاقے میں جرائم پیشہ افراد کے خلاف سخت کارروائی کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اِداروں پر حملے برداشت نہیں کیے جائیں گے۔

صدر مملکت کا واقعہ میں شہید ہونے والے پولیس اہلکاروں کو خراج عقیدت پیش کیا اور اُن کی بلندی درجات، زخمیوں کی جلد صحتیابی کی دعا بھی کی۔

وزیر اعظم کی مذمت

وزیرِ اعظم محمد شہباز شریف نے رحیم یار خان میں پولیس کے قافلے پر ڈاکؤوں کے حملے کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے جوانوں کی شہادت پر گہرے دکھ اور غم کا اظہار کیا۔ وزیرِ اعظم نے شہداء کی بلندی درجات اور ان کے اہلِ خانہ کیلئے صبر جمیل کی دعا جبکہ زخمیوں کی جلد صحت یابی کیلیے دعا بھی کی۔

وزیراعظم نے ہدایت کی کہ زخمی پولیس اہلکاروں کو بہترین طبی سہولیات فراہم کی جائیں۔ اس کے علاوہ شہباز شریف نے کچے کے علاقے میں حملہ آوروں کے خلاف فوری اور مؤثر کاروائی کی ہدایت کرتے ہوئے ذمہ داران کی نشاندہی کر کے انہیں قرار واقعی سزا دلوانے کی ہدایت بھی کی۔

انہوں نے کہا کہ پولیس کے افسران و جوان اپنی جان کی پرواہ کئے بغیر جرائم جرائم پیشہ افراد اور تخریب کاروں کا سد باب کرتے ہیں، مجھ سمیت پوری قوم پولیس کے بہادر اور فرض شناس افسران و جوانوں کو خراجِ تحسین پیش کرتی ہے۔

وزیراعلیٰ پنجاب کی ہدایت پر سیکریٹری داخلہ اور آئی جی کچے کے علاقے میں روانہ

وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز نے کچے کے علاقے میں پولیس پر راکٹ لانچرز سے حملے کا نوٹس لیتے ہوئے سیکریٹری داخلہ اور آئی جی کو وقوعہ پر پہنچنے کی ہدایت کی جس پر دونوں شخصیات روانہ ہوگئیں۔

وزیراعلیٰ کی ہدایت پر سیکرٹری داخلہ نور الامین مینگل کچے کے علاقے میں حملہ آوروں کے خلاف کریک ڈاؤن کی نگرانی کریں گے، وزیر اعلیٰ پنجاب کا لاپتہ پولیس اہلکاروں کی بازیابی کیلئے موثر آپریشن کی ہدایت کی۔

آئی جی پنجاب، ایڈیشنل آئی جی سپیشل برانچ اور ایڈیشنل آئی جی سی ٹی ڈی بھی سیکرٹری داخلہ بھی آپریشن کی نگرانی کریں گے جبکہ پولیس پر حملہ کرنے والوں کو منتقی انجام تک پہنچایا جائے گا۔

وزیر داخلہ سندھ کا پولیس کو ہائی الرٹ رہنے کا حکم

وزیر داخلہ سندھ ضیا الحسن لنجار نے رحیم یار خان میں کچے کے ڈاکوؤں کے حملے میں 11 پولیس اہلکاروں کی شہادت اور 7 کے زخمی ہونے کے واقعے پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے مذمت کی جبکہ انہوں نے آئی جی سندھ کو اگلے احکامات تک سیکیورٹی ہائی الرٹ رکھنے کی ہدایت بھی کی۔

انہوں نے اپنے بیان میں کہا کہ پنجاب پولیس کے قافلے پر دہشت گردانہ حملے میں پولیس اہلکاروں کی شہادت قابل مذمت اور افسوسناک ہے،پولیس اہلکاروں کی شہادت سےافسران اور جوانوں کے حوصلوں کو پست نہیں کیا جاسکتا۔

گورنر سندھ کی مذمت

گورنرسندھ کامران خان ٹیسوری نے رحیم یارخان میں پولیس اہلکاروں پر ڈاکووں کے حملے کی مذمت کی اور شہید پولیس اہلکاروں کے لواحقین سے اظہار تعزیت کیا۔

اہلکاروں کو ریسکیو کرنے والے پولیس اہلکاروں کو گورنر سندھ نے خراج تحسین پیش کیا۔

گورنر سندھ نے پولیس اہلکاروں پرحملوں میں ملوث ڈاکووں کیخلاف سخت کارروائی کو وقت کی اہم ضرورت قرار دیا۔

گورنر سندھ کامران خان ٹیسوری نے وزیراعظم کی جانب سے کچے میں ڈاکووں کیخلاف کارروائی کے بیان کو خوش آئند قرار دیتے ہوئے کہا کہ کچے کے علاقے میں سندھ اور پنجاب کا مشترکا آپریشن ہی مسئلے کا حل ہے۔
اس قدر طویل عرصہ سے آپریشن جاری ہے، اس کے باوجود حالات ایسے برے ہیں۔ اب تو یوں لگنے لگ گیا ہے جیسے کوئی بڑی قوت کچے کے ڈاکوؤں کی سپورٹ کرنے میں مصروف ہے۔ راکٹ لانچر بھی ان کے پاس ہیں اور جدید ترین اسلحہ بھی۔ یہ مذمتی بیانات آخر کب تک؟
بارہ اہلکاروں کی شہادت کا مطلب ہے کہ بارہ کنبے اُجڑ گئے۔ صد افسوس۔
 
Top