سنّت کیا ہے ؟

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

السلام علیکم۔
خان صاحب۔۔۔۔
محترم مصنف نے اپنی کتاب میں ایک صحیح حدیث کا ذکر کیا ہے۔۔۔۔
ابو سلمہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں اور عائشہ رضی اللہ عنہ کے بھائی عائشہ رضی اللہ عنہ کے پاس گئے اور اس سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے غسلِ جنابت کے بارے میں پوچھا انہوں نے غسل کر کے دکھایا اور اپنے سر پر پانی بہایا ہمارے اور ان کے درمیان ایک پردہ حائل تھا (بخاری کتاب الغسل صفحہ ١٨٥)۔۔۔

اب اس حدیث کے ذکر کرنے کے بعد مصنف اپنی رائے کا اظہار کرتا ہے!۔
مظاہرہ کرنا قطعی ضروری نہ تھا زبانی بتادیا ہوتا یا ابو سلمہ رضی اللہ عنہ اپنی بیوی کو بھیج کر صحیح غسل کا پتا چلا سکتا تھا بعد میں اُن سے خود سیکھ لیا۔

جی خان صاحب یہ ہی لکھا ہے نا؟۔۔۔۔ جواب کا انتظار رہے اگر لفظوں میں کمی بیشی ہوئی ہے تو آپ ترمیم کر سکتے ہیں۔۔۔

وسلام۔۔۔
کارتوس صاحب، آپ کے سوال سے خلوص کا اظہار ہوتا ہے۔ آپ تھوڑا وقت لگائیے اور اس کتاب کا مطالعہ کیجئے۔
والسلام۔
 
محترم ایف ایس خان ساکن ٹیکساس

اپکا نام اس طرح اس لئے لکھا کہ ٹیکساس میں اور بھی کچھ پاکستانی امریکی اس طرح کے ابریوشن کیسا تھ نام لکھتے ھیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اپ ذرہ یہ ارشاد فرمائے کہ یہاں جو کچھ لکھا جا رہا ہے وہ امریکی انٹرسٹ کے مفاد میں تو نہیں۔؟؟؟

بھائی السلام علیکم،
توجہ دینے کا شکریہ اور نوازش کہ ایسے تبصرات، تائید و تنقید خیالات کو بہتر بنانے میں مددگار ہوتے ہیں

یہ طنزیہ جملہ نہیں - فکریہ جملہ ہے۔ کاش کے اس کو میں کسی طرح مزید نرمی سے لکھ سکتا۔
اگر کبھی قرآن کے حق میں بولنا ، امریکی مفاد بن جائے تو مجھے ضرور اطلاع دیجئے گا۔ برصغیر پاک ہند میں یہ بحث تو سر سید احمد خان کے زمانے میں جیتی گئی اور کم از کم 500 سال پہلے سے جاری تھی۔ اگر سر سید آحمد خان اور دوسرے ساتھی علی گڑھ کی بنیاد تمام تر مولویوں کی مخالفت کے باوجود نہ ڈالتے تو آج ایسے بات کرنے والے کو پھانسی یا گردن دینی پڑتی۔ ایسے ہزار ہا بے نام لوگ ہماری تاریخ کا حصہ ہیں جنہوں نے علم و روشنی کی طرف توجہ دلئی اور جان سے گئے۔ آج تو یہ صرف بحث تک محدود ہے، سابقہ ادوار میں ایسا کہنا جان دینے کے مترادف تھا۔
بہرحال توجہ دینے کا شکریہ اور نوازش کہ( اعادہ) ایسے تبصرات، تائید و تنقید خیالات کو بہتر بنانے میں مددگار ہوتے ہیں

والسلام۔
 
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

السلام علیکم۔
خان صاحب۔۔۔۔
محترم مصنف نے اپنی کتاب میں ایک صحیح حدیث کا ذکر کیا ہے۔۔۔۔
ابو سلمہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں اور عائشہ رضی اللہ عنہ کے بھائی عائشہ رضی اللہ عنہ کے پاس گئے اور اس سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے غسلِ جنابت کے بارے میں پوچھا انہوں نے غسل کر کے دکھایا اور اپنے سر پر پانی بہایا ہمارے اور ان کے درمیان ایک پردہ حائل تھا (بخاری کتاب الغسل صفحہ ١٨٥)۔۔۔

اب اس حدیث کے ذکر کرنے کے بعد مصنف اپنی رائے کا اظہار کرتا ہے!۔
مظاہرہ کرنا قطعی ضروری نہ تھا زبانی بتادیا ہوتا یا ابو سلمہ رضی اللہ عنہ اپنی بیوی کو بھیج کر صحیح غسل کا پتا چلا سکتا تھا بعد میں اُن سے خود سیکھ لیا۔

جی خان صاحب یہ ہی لکھا ہے نا؟۔۔۔۔ جواب کا انتظار رہے اگر لفظوں میں کمی بیشی ہوئی ہے تو آپ ترمیم کر سکتے ہیں۔۔۔

وسلام۔۔۔
السلام علیکم
آپ درست دیکھ رہے ہیں۔ بات یہاں سے ہی شروع ہوئی تھی۔ اور اسی کتاب کا تذکرہ کیا تھا۔
والسلام۔
 
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم۔

السلام علیکم۔
خان صاحب!۔ اب ذرا قرآن حکیم میں سے کوئی ایک ایسی آیت جو اس عمل سے روکتی ہے ذرا یہاں‌ پیش کریں۔۔۔
وسلام۔۔۔

السلام علیکم
آپ درست دیکھ رہے ہیں۔ بات یہاں سے ہی شروع ہوئی تھی۔ اور اسی کتاب کا تذکرہ کیا تھا۔
والسلام۔
 
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم۔

السلام علیکم۔
خان صاحب!۔ اب ذرا قرآن حکیم میں سے کوئی ایک ایسی آیت جو اس عمل سے روکتی ہے ذرا یہاں‌ پیش کریں۔۔۔
وسلام۔۔۔

وضاحت فرمادیجئے کہ "عمل" سے آپ کا اشارہ "ایک خاتون کے برہنہ نہا کرمردوں کو دکھانے " کے بارے میں ہے، میری درستگی فرما دیجئے۔ اگر میں درست نہیں سمجھا ہوں۔
والسلام
 

Dilkash

محفلین
بھائی السلام علیکم،
توجہ دینے کا شکریہ اور نوازش کہ ایسے تبصرات، تائید و تنقید خیالات کو بہتر بنانے میں مددگار ہوتے ہیں

یہ طنزیہ جملہ نہیں - فکریہ جملہ ہے۔ کاش کے اس کو میں کسی طرح مزید نرمی سے لکھ سکتا۔
اگر کبھی قرآن کے حق میں بولنا ، امریکی مفاد بن جائے تو مجھے ضرور اطلاع دیجئے گا۔ برصغیر پاک ہند میں یہ بحث تو سر سید احمد خان کے زمانے میں جیتی گئی اور کم از کم 500 سال پہلے سے جاری تھی۔ اگر سر سید آحمد خان اور دوسرے ساتھی علی گڑھ کی بنیاد تمام تر مولویوں کی مخالفت کے باوجود نہ ڈالتے تو آج ایسے بات کرنے والے کو پھانسی یا گردن دینی پڑتی۔ ایسے ہزار ہا بے نام لوگ ہماری تاریخ کا حصہ ہیں جنہوں نے علم و روشنی کی طرف توجہ دلئی اور جان سے گئے۔ آج تو یہ صرف بحث تک محدود ہے، سابقہ ادوار میں ایسا کہنا جان دینے کے مترادف تھا۔
بہرحال توجہ دینے کا شکریہ اور نوازش کہ( اعادہ) ایسے تبصرات، تائید و تنقید خیالات کو بہتر بنانے میں مددگار ہوتے ہیں

والسلام۔

فاروق سرور خان
دل ازاری کے لئے معزرت خواہ ھوں
دراصل جو بات میرے دل میں انگڑائی لے ،کر جاتا ہؤں۔
پرانے زمانے کا بندہ ہوں،کسی وقت گردن کٹ بھی سکتا ہے۔

ایک بار معافی کا خواستگار
 

Dilkash

محفلین
ش۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ک۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ریہ
 
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم​

السلام علیکم۔
خان صاحب آپ کہاں اشاروں میں پھنس رہے ہیں یہ تو انداز ہے ہمارا۔۔۔ خیرا اب مصنف موصوف کی نشاندہی پر جو تشریح آپ نے کی ہے کہ [ ایک خاتون کے برہنہ ہو کر مردوں کو دکھانے] تو یہ بتائیے کہ جو روایت پیش کی گئی ہے اس میں برہنہ ہو کر اُس پورے عمل کو پیش کیا گیا ہے یا نہیں؟؟؟۔۔۔

حالانکہ حدیث جہاں سے لی گئی ہے اس کا موضوع ہے
[باب الْغُسْلِ بِالصَّاعِ وَنَحْوِهِ}۔۔۔

اب پوری حدیث ملاحظہ ہو!۔
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ، قَالَ حَدَّثَنِي عَبْدُ الصَّمَدِ، قَالَ حَدَّثَنِي شُعْبَةُ، قَالَ حَدَّثَنِي أَبُو بَكْرِ بْنُ حَفْصٍ، قَالَ سَمِعْتُ أَبَا سَلَمَةَ، يَقُولُ دَخَلْتُ أَنَا وَأَخُو، عَائِشَةَ عَلَى عَائِشَةَ فَسَأَلَهَا أَخُوهَا عَنْ غُسْلِ النَّبِيِّ، صلى الله عليه وسلم فَدَعَتْ بِإِنَاءٍ نَحْوًا مِنْ صَاعٍ، فَاغْتَسَلَتْ وَأَفَاضَتْ عَلَى رَأْسِهَا، وَبَيْنَنَا وَبَيْنَهَا حِجَابٌ‏.‏ قَالَ أَبُو عَبْدِ اللَّهِ قَالَ يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ وَبَهْزٌ وَالْجُدِّيُّ عَنْ شُعْبَةَ قَدْرِ صَاعٍ‏.

ابو سلمہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں اور عائشہ رضی اللہ عنہ کے بھائی عائشہ رضی اللہ عنہ کے پاس گئے اور اس سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے غسلِ جنابت کے بارے میں پوچھا انہوں نے غسل کر کے دکھایا اور اپنے سر پر پانی بہایا ہمارے اور ان کے درمیان ایک پردہ حائل تھا (بخاری کتاب الغسل صفحہ ١٨٥)۔۔۔

[ ایک خاتون کے برہنہ ہو کر مردوں کو دکھانے] خان صاحب اس حدیث پر طعن کرنا فضولیات پر مبنی ہے اور اب یہ بات سب جان چکے ہوں گے کہ آپ نے اس حدیث کو [Direct] بخاری سے نہیں پڑھا ہے بلکہ اپنے ہی جیسے کسی اور مخالف یعنی منکر حدیث کی کتاب سے پڑھ کر یہاں پر رٹٹا لگانا شروع کردیا اب آپ کی اس منکر تاویل سے جو باتیں سامنے آتی ہیں۔۔۔ ملاحظہ کیجئے۔۔۔

١۔ مردوں کو دکھانے۔۔۔ دکھانے یعنی خواہش کا اظہار کیا جارہا ہے۔۔۔مطلب یہ اگر میرے پاس کچھ ہے۔۔۔ تو اگر میری خواہش ہوگی کہ میں کسی دوسرے کو دکھاوں تو اسی صورت میں کسی دوسرے کو دکھاوں گا یعنی خواہش نفس کی پیروی۔۔۔ تو اس طرح کی تہمت صرف منافق منکرِ حدیث ہی لگا سکتا ہے۔۔۔ یہ مسلمان کا کام نہیں ہے۔۔۔

اچھا اب دیکھتے ہیں اُس مصنف کو جس نے اپنے آپ کو سورما بننے کی اور اس حدیث کے ذکر کرنے کے بعد مصنف اپنی رائے کا اظہار کرتا ہے!۔

مظاہرہ کرنا قطعی ضروری نہ تھا زبانی بتادیا ہوتا یا ابو سلمہ رضی اللہ عنہ اپنی بیوی کو بھیج کر صحیح غسل کا پتا چلا سکتا تھا بعد میں اُن سے خود سیکھتا۔۔۔

دوستوں!۔
مصنف کا بھی خان صاحب کی طرح اس حدیث پر طعن کرنا فضولیات پر مبنی ہے یہاں پر تین سوال پیدا ہوتے ہیں۔۔۔

١۔ مظاہرہ کرنا [ام عائشہ رضی اللہ عنہا نے ان کے سامنے غسل کیا)۔۔۔
٢۔ زبانی بتا دیا جاتا۔۔۔
٣۔ ابو سلمہ رضی اللہ عنہ اپنی بیوی کو بھیج کر صحیح غسل کا پتا چلا سکتا تھا۔۔۔[ یعنی اسے جانے کی کیا ضرورت تھی بلکہ وہ اپنی بیوی کو بھیج دیتا]۔۔۔

مصنف کےشبے کا ازالہ!۔
اگر مصنف اور خان صاحب اعتراض سے قبل حدیث پر غور کر لیتے تو ہوسکتا ہے کہ ان پر منکرِ حدیث کا جو لیبل لگ گیا ہے وہ نہ لگتا خان صاحب نے دور جدید کہ نئی اصطلاح میں تاویل کی [ ایک خاتون کے برہنہ ہو کر مردوں کو دکھانے] اور مصنف نے لفظ لکھا کہ ""مظاہرہ"" کیا؟؟؟۔۔۔کیونکہ وہ غسل کا طریقہ پوچھنے نہیں بلکہ اُس پانی کی مقدار پوچھنے آئے تھے۔۔۔ اور یہ بات عرض کردوں کے آنے والے ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کے محرم تھے( ایک بھانجا اور ایک بھائی) اور ان کا سوال یہ تھا کہ!۔

[ فَسَأَلَهَا أَخُوهَا عَنْ غُسْلِ النَّبِيِّ،]۔۔۔
ترجمہ انکے بھائی نےنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے غسل کے پانی کی مقدار کے بارے میں پوچھا۔۔۔ (نہ کہ طریقے کے بارے میں)۔۔۔

مسئلہ غسل کے پانی کی مقدار کا تھا غسل کے طریقے کا نہیں۔۔۔۔
وسلام۔۔۔



وضاحت "ایک خاتون کے برہنہ نہا کرمردوں کو دکھانے " کے بارے میں ہے،
والسلام
 

Dilkash

محفلین
کارتوس خان ۔۔۔۔سلامونہ

بھائی اگر کوئی مسئلہ لکھنا ضروری ہو تو براہ کرم کسی کا نام لئے بغیر ہی لکھتے رہیے گا۔
انشااللہ اپکا بھی ثواب ہوگا اور پڑھنے والوں کا بھی
اور دوسروں کی اوپر کیچڑ اچھالنے سے کچھ حاصل نہیں ہوگا

اگر اپ نے میری درخواست نہیں مانی تو میں پھر اپنا نام مزائل رکھوں گا اور اپکو پتہ ہے اجکل مزائل کا دور ہے ۔۔:mad:
 

شاکرالقادری

لائبریرین
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم


السلام علیکم۔
بزرگوارِ محفل اگر آپ کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا کھڑے ہوکر پیشاب کرنا جائز نہیں لگتا تو مجھے قرآن مجید کی کوئی ایسی آیت دکھا دیں جس میں کھڑے ہوکر پیشاب کرنے کی ممانعت کی گئی ہو؟؟؟۔۔۔بزرگو کیا قرآن ہمیں بول براز کے مسائل سمجھاتا ہے؟؟؟۔۔۔ اگر سمجھاتا ہے تو پیش کیجئے اور اگر نہیں سمجھاتا تو ہم اُن مسائل کو کہاں تلاش کریں مسند امام ابوحنیفہ میں یا بخاری میں؟؟؟۔۔۔ حیرت ہوتی ہے جب آپ نانا کے آگے ننیال کے قصے سناتے ہیں۔۔۔
وسلام۔۔۔

میں کون ہوتا ہوں کہ رسول پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کسی عمل کو ناجائز کہوں
بات یہ نہیں ہے
بات یہ ہے کہ کیا رسول پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حقیقت میں یہ عمل کیا؟؟؟
یا
روایوں نے یونہی آپ سے یہ عمل منسوب کر دیا

صرف اس بنا پر ہم یہ بات مان لیں کہ چونکہ فلاں کتاب میں یہ بات لکھی ہوئی ہے اس لیے یہ سچ ہے
صرف اس وجہ سے ہم یہ بات مان لین کہ چونکہ اس کتاب کو عام طور پر صحیح تسلیم کیا جاتا ہے اس لیے اس میں لکھی گئی ہر بات سچ ہے

سند دین ہے یا متن دین ہے یہ سوال آپ خود بھی کہیں اٹھا چکے ہیں
اور جب دوسرے مضمون کی احادیث موجود ہیں تو کیوں اسی کو تسلیم کیا جائے

برادر

آپ نے میرے نننھیال کے قصوں کو جیسے تیسے برداشت کیا آپ کی مہربانی

لو کچھ ددھیالی معاملات بھی دیکھ لو امید ہے کہ طبیعت صاف ہو جائے گی

حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ: مجھ کو رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کھڑے ہو کر پیشاب کرتے دیکھا تو تو فرمایا : اے عمر کھڑے ہو کر پیشاب نہ کیا کرو، حضرت عمر فرماتے ہیں اس کے بعد میں نے کبھی کھڑے ہو کر پیشاب نہیں کیا
ترمذی
ابن عمر رضی اللہ عنہ سے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی ایک اور روایت ملاحظہ ہو
حضرت عمر فرماتے ہیں کہ میں جب سے مسلمان ہوا میں نے کبھی کھڑے ہو کر پیشاب نہیں کیا
ترمذی
اور سنیے!
عبداللہ بن مسعود سے روایت ہے کہ: کھڑے ہو کر پیشاب کرنا ظلم ہے
ترمذی: ترجمہ علامہ بدیع الزمان برادر علامہ وحید الزمان
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
قابل توجہ
///////////////
خود حضرت عمر رضی اللہ عنہ کھڑے ہو کر پیشاب کرنے کو اتنا برا سمجھتے تھے کہ انہوں نے فخریہ اس بات کا دعوی کیا ہے کہ اس کے بعد میں نے کبھی کھڑے ہو کر پیشاب نہیں کیا
اور دوسری جگہ یہ فرماتے ہیں کہ میں نے کبھی کھڑے ہو کر پیشاب نہیں کیا
جبکہ عبداللہ بن مسعود اس قبیح عمل کو ظلم قرار دیتے ہیں

اور راویوں نے یہ ظلم رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے منسوب کر دیا
نعوذ باللہ من ذالک و من شرور انفسنا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک اور اھم نکتہ
\\\\\\\\\\\\\\\
ام المومنیں رضی اللہ عنہا والی روایت تو آپ کو معلوم ہی ہے

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ام المومنین رضی اللہ عنہا کو کیا ضرورت پڑ گئی تھی کہ وہ یہ کہتی پھرتی تھیں کہ جو کھڑا ہو کر پیشاب کرنے والی روایت بیان کرے اسکی تصدیق نہ کرو ۔۔۔۔۔۔!

کیا اس وقت کوئی کھڑے ہوکر پیشاب کرنے والی روایت بیان کر رہا تھا

جی ہاں چونکہ ام المومنیں رضی اللہ عنا کے زمانے میں ہی یہ روایت ایک سازش کے ذریعہ عام کی جا رہی تھی تاکہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں اخلاقی کمزوریاں دکھائی جا سکیں

اسی لیے ام المومنیں رضی اللہ عنہا کو اس بات کا سختی سے دفاع کرنا پڑا

ام المومنین رضی اللہ عنہا کے اس حکم سے ہی یہ بات ثابت ہو جاتی ہے کہ:

اس زمانے میں بھی کچھ لوگوں (جو یقیناً منافقین کے سوا کوئی نہیں ہو سکتے) نے یہ افواہ گرم کر رکھی تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کھڑے ہو کر پیشاب کرتے ہیں
ایسے ہی لوگوں کی گستاخی، رسالتمآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی کردار کشی اور اہانت پر مبنی ہرزہ سرائیوں کی اشاعت کو سختی سے روکنے کے لیے ام المومنین رضی اللہ عنہا نے اپنے بیٹوں (یعنی مومنین) کو بجا طور پر حکم دیا کہ جو ایسی روایت بیان کرے اس کو سچا نہ جانو اور اس کی تصدیق نہ کرو


اب ام المومنین رضی اللہ عنہ کے بیٹوں می مرضی کہ:

وہ ام المونین کو سچا جانیں اور ان کی تصدیق کریں

یا راوی کی روایت کو سچا جانیں اور اس کی تصدیق کریں

یہ ماں اور بیٹوں کا معاملہ ہے

کل بروز حشر اپنی ماں کو کیا جواب دیں گے یہ بیٹے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اب کچھ سمجھ شریف میں آیا
یا اب بھی ایسی روایات کی اشاعت کرنے پر بضد ھیں؟؟؟
 
مصنف کےشبے کا ازالہ!۔
اگر مصنف اور خان صاحب اعتراض سے قبل حدیث پر غور کر لیتے تو ہوسکتا ہے کہ ان پر منکرِ حدیث کا جو لیبل لگ گیا ہے وہ نہ لگتا خان صاحب نے دور جدید کہ نئی اصطلاح میں تاویل کی [ ایک خاتون کے برہنہ ہو کر مردوں کو دکھانے] اور مصنف نے لفظ لکھا کہ ""مظاہرہ"" کیا؟؟؟۔۔۔کیونکہ وہ غسل کا طریقہ پوچھنے نہیں بلکہ اُس پانی کی مقدار پوچھنے آئے تھے۔۔۔ اور یہ بات عرض کردوں کے آنے والے ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کے محرم تھے( ایک بھانجا اور ایک بھائی) اور ان کا سوال یہ تھا کہ!۔

[ فَسَأَلَهَا أَخُوهَا عَنْ غُسْلِ النَّبِيِّ،]۔۔۔
ترجمہ انکے بھائی نےنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے غسل کے پانی کی مقدار کے بارے میں پوچھا۔۔۔ (نہ کہ طریقے کے بارے میں)۔۔۔

مسئلہ غسل کے پانی کی مقدار کا تھا غسل کے طریقے کا نہیں۔۔۔۔
وسلام۔۔۔​

[ARABIC] فَسَأَلَهَا[/ARABIC] - پس اس (عورت)‌سے پوچھا
[ARABIC] أَخُوهَا [/ARABIC] - اس (عورت) کے بھائی نے
[ARABIC] عَنْ[/ARABIC] - بارے میں
[ARABIC] غُسْلِ النَّبِيِّ، [/ARABIC] -- نبی کے غسل کے

اس عربی جملے کے معنے ' مقدار غسل کی پانی' کے نہیں بنتے۔ اس کے معنے
اس (عورت) سے دریافت کیا، اس (عورت) کے بھائی نے، نبی کے غسل کے بارے میں۔

جس کا جواب اس سوال کے بعد اس کتاب روایات میں، "عمل" کرکے دکھایا گیا ہے، مقدار سے نہیں۔
اس جواب سے بھی سوال کا اندازہ ہوتا ہے۔ لہذا اس کو توڑنے مروڑنے کی کوشش بے کار ہے۔ بلکہ توڑنے مروڑنے سے یہ معانی اور خراب ہو جاتے ہیں کہ پانی مقدار کا پوچھا تو نہا کر دکھایا گیا۔ نعوذ باللہ ، نعوذ باللہ ، نعوذ باللہ ، نعوذ باللہ ، نعوذ باللہ
جن لوگوں نے ام المومنیں کے لئے یہ روایت گھڑی ان کے مذموم عذائم کا اندازہ ہوتا ہے اور جو لوگ اس حدیث کا دفاع کرتے ہیں ان کے بھی مذموم عزائم کا اندازہ ہوتا ہے کہ اس طرح‌ 'محرم' کی تاویلات سے مذمومات کو 'صحیح' ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ کیچڑ اچھال کر لوگوں کی آنکھ میں دھول جھونکنے کی مذموم کوششیں 'مولویت' کا خاصہ ہیں۔ ان سے بچنے کی کوشش کریں۔

جو 'مولویت'، 'منافقت' اور 'شرک' کا شکار ایسی مذمومات کی تاویلات پیش کرے اس سے میں بہت دور بھاگتا ہوں۔ لہذا جب تک کہیں‌سے توبہ کی خبر نہ پڑھ لوں۔ یہ سلسلہ بند۔
اعوذ باللہ من شیطنٰ الرجیم۔ لاحول ولا قوۃ الا باللہ، ھوالعلی العظیم۔​
 
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

السلام علیکم۔
خان صاحب کیسے ہیں اُمید ہے ان شاء اللہ خیریت سے ہونگے۔۔۔

فَسَأَلَهَا -
پس اس (عورت)‌سے پوچھا۔

حیرت ہوتی ہے جیسا کہ آپ کو اعتراض ہے روایت پر آپ کا دعوٰی ہے کہ!۔
[ پس اس (عورت) سے پوچھا]

اور روایت میں ہے کہ سر پر پانی بہایا۔۔۔ بقول آپ کے بھائی نے غُسْلِ النَّبِيِّ، -- نبی کے غسل کے بارے میں دریافت کیا؟؟؟۔۔۔

غَ۔س۔ل، غُ۔سل، غِ۔سل کے درمیاں واضع فرق بتا سکتے ہیں۔۔۔

انتظار رہے گا۔۔۔

وسلام۔۔۔

[ARABIC] فَسَأَلَهَا[/ARABIC] - پس اس (عورت)‌سے پوچھا
[ARABIC] أَخُوهَا [/ARABIC] - اس (عورت) کے بھائی نے
[ARABIC] عَنْ[/ARABIC] - بارے میں
[ARABIC] غُسْلِ النَّبِيِّ، [/ARABIC] -- نبی کے غسل کے

اس موضوع پر ہم بعد میں بات کریں گے۔۔۔ذرا پہلے شبہ کو تو ختم ہونے دیں۔۔۔

جو 'مولویت'، 'منافقت' اور 'شرک'
 
Top