پوسٹ نمبر : 2
3) یہ کتاب پہلی کتابوں کی تصدیق (confirm) کرتی ہے ۔۔۔۔ (سورہ : 2 ، آیت : 97 )۔
ہم ایک آیت کسی دوسری کی جگہ بدل دیتے ہیں ۔۔۔۔ (سورہ : 16 ، آیت : 101 )۔
باذوق صاحب، مندرجہ بالا تراجم سے بھی آپ نے نا مناسب رویہ برتا ہے
دیکھئے کہ اس آیت میں اہمیت ہے اس بات کی کہ یہ قرآن گذشتہ کتب کی تصدیق کرتا ہے اور اگر کسی حکم کو اللہ تعالی نے مسلمانوں کے لئے تبدیل کیا تو اس میں جبریل کو قصور وار نہیں ٹھیرائیں
[AYAH]2:97[/AYAH] آپ فرما دیں: جو شخص جبریل کا دشمن ہے (وہ ظلم کر رہا ہے) کیونکہ اس نے (تو) اس (قرآن) کو آپ کے دل پر اللہ کے حکم سے اتارا ہے (جو) اپنے سے پہلے (کی کتابوں) کی تصدیق کرنے والا ہے اور مؤمنوں کے لئے (سراسر) ہدایت اور خوشخبری ہے
جبکہ درج ذیل آیت اس بات کی گواہی دیتی ہے کہ قرآن میں کچھ قوانین اللہ تعالی نے گذشتہ کتابوں سے تبدیل کرکے عطا فرمائے ہیں۔ تو اس میں ایک آیت دوسری کی نفی کرتی نظر نہیںآتی۔
[AYAH]16:101[/AYAH] اور جب ہم کسی آیت کی جگہ دوسری آیت بدل دیتے ہیں اور اللہ (ہی) بہتر جانتا ہے جو (کچھ) وہ نازل فرماتا ہے (تو) کفار کہتے ہیں کہ آپ تو بس اپنی طرف سے گھڑنے والے ہیں، بلکہ ان میں سے اکثر لوگ (آیتوں کے اتارنے اور بدلنے کی حکمت) نہیں جانتے
4) ۔۔۔ تمام پیغمبروں سے کسی میں کچھ فرق نہیں ۔۔۔۔ (سورہ : 2 ، آیت : 285 )۔
ان (پیغمبروں) میں سے ہم نے بعض کو بعض پر فضیلت دی ہے ۔۔۔۔ (سورہ : 2 ، آیت : 253 )۔
یہاں ہم کو حکم دیا جارہا ہے کہ ایمان لانے میں ہم کوئی فرق نہ کریں کہ یہ سب ایک ہی پیغام لے کر آئے:
[AYAH]2:285[/AYAH] (وہ) رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس پر ایمان لائے (یعنی اس کی تصدیق کی) جو کچھ ان پر ان کے رب کی طرف سے نازل کیا گیا اور اہلِ ایمان نے بھی، سب ہی (دل سے) اﷲ پر اور اس کے فرشتوں پر اور اس کی کتابوں پر اور اس کے رسولوں پر ایمان لائے، (نیز کہتے ہیں
ہم اس کے پیغمبروں میں سے کسی کے درمیان بھی (ایمان لانے میں) فرق نہیں کرتے، اور (اﷲ کے حضور) عرض کرتے ہیں: ہم نے (تیرا حکم) سنا اور اطاعت (قبول) کی، اے ہمارے رب! ہم تیری بخشش کے طلب گار ہیں اور (ہم سب کو) تیری ہی طرف لوٹنا ہے
اور یہ آیت پچھلی آیت کی تنسیخنہیں کرتی، یہ تو صرف بتاتی ہے کہ کسی نے کلام فرمایا تو کسی کو اسکی خدمات پر درجہ عطا کیا۔ جیسے ہر انسان عزت و اکرام میں برابر ہے لیکن ان کے درجے انکے اعمال پر مشتمل ہیں۔
[AYAH]2:253[/AYAH] یہ سب رسول (جو ہم نے مبعوث فرمائے) ہم نے ان میں سے بعض کو بعض پر فضیلت دی ہے، ان میں سے کسی سے اﷲ نے (براہِ راست) کلام فرمایا اور کسی کو درجات میں (سب پر) فوقیّت دی (یعنی حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو جملہ درجات میں سب پر بلندی عطا فرمائی)، اور ہم نے مریم کے فرزند عیسٰی (علیہ السلام) کو واضح نشانیاں عطا کیں اور ہم نے پاکیزہ روح کے ذریعے اس کی مدد فرمائی، اور اگر اﷲ چاہتا تو ان رسولوں کے پیچھے آنے والے لوگ اپنے پاس کھلی نشانیاں آجانے کے بعد آپس میں کبھی بھی نہ لڑتے جھگڑتے مگر انہوں نے (اس آزادانہ توفیق کے باعث جو انہیں اپنے کئے پر اﷲ کے حضور جواب دہ ہونے کے لئے دی گئی تھی) اختلاف کیا پس ان میں سے کچھ ایمان لائے اور ان میں سے کچھ نے کفر اختیار کیا، (اور یہ بات یاد رکھو کہ) اگر اﷲ چاہتا (یعنی انہیں ایک ہی بات پر مجبور رکھتا) تو وہ کبھی بھی باہم نہ لڑتے، لیکن اﷲ جو چاہتا ہے کرتا ہے
5) زانی مسلمان عورت کی سزا عمر بھر کے لیے گھر میں نظر بندی ۔۔۔۔ (سورہ : 4 ، آیت : 15 )۔
زانی مسلمان عورت کی سزا سو کوڑے ۔۔۔۔ (سورہ : 24 ، آیت : 2 )۔
یہاںتو آپ بلکل گھوم گئے۔ سرکار 4:15 میں زنا کا لفظ کہان استعمال ہوا ہے ذرا اشارہ فرمائیں؟ یہ تو فحشات کا حکم ہے۔
[AYAH] 4:15[/AYAH] [ARABIC]وَاللاَّتِي يَأْتِينَ الْفَاحِشَةَ مِن نِّسَآئِكُمْ فَاسْتَشْهِدُواْ عَلَيْهِنَّ أَرْبَعةً مِّنكُمْ فَإِن شَهِدُواْ فَأَمْسِكُوهُنَّ فِي الْبُيُوتِ حَتَّى يَتَوَفَّاهُنَّ الْمَوْتُ أَوْ يَجْعَلَ اللّهُ لَهُنَّ سَبِيلاً [/ARABIC]
اور تمہاری عورتوں میں سے جو بدکاری کا ارتکاب کر بیٹھیں تو ان پر اپنے لوگوں میں سے چار مردوں کی گواہی طلب کرو، پھر اگر وہ گواہی دے دیں تو ان عورتوں کو گھروں میں بند کر دو یہاں تک کہ موت ان کے عرصۂ حیات کو پورا کر دے یا اللہ ان کے لئے کوئی راہ (یعنی نیا حکم) مقرر فرما دے
اور 24:2 میںزنا کی سزا کا حکم ہے۔ دونوں آیات مختلف جرائم کے لئے ہیں۔ لگتا ہے آپ کی قرآن کی تعلیم بغور نہیں اور بہت ہی کم ہے جو ایسے عذر پیش کر رہے ہیں۔
[AYAH]24:2[/AYAH] [ARABIC] الزَّانِيَةُ وَالزَّانِي فَاجْلِدُوا كُلَّ وَاحِدٍ مِّنْهُمَا مِئَةَ جَلْدَةٍ وَلَا تَأْخُذْكُم بِهِمَا رَأْفَةٌ فِي دِينِ اللَّهِ إِن كُنتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَلْيَشْهَدْ عَذَابَهُمَا طَائِفَةٌ مِّنَ الْمُؤْمِنِينَ [/ARABIC]
زانی عورت اور زانی مرد کو ان دونوں میں سے ہر ایک کو سو (سو) کوڑے مارو ) اور تمہیں ان دونوں پر میں ذرا ترس نہیں آنا چاہئے اگر تم اللہ پر اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتے ہو، اور چاہئے کہ ان دونوں کی سزا (کے موقع) پر مسلمانوں کی (ایک اچھی خاصی) جماعت موجود ہو
6) اللہ کے نزدیک ایک روز تمہارے حساب کی رو سے ہزار برس کے برابر ہے ۔۔۔۔ (سورہ : 22 ، آیت : 47 )۔
اور وہ عذاب اس روز نازل ہوگا جس کا اندازہ پچاس ہزار برس کا ہوگا ۔۔۔۔ (سورہ : 70 ، آیت : 4 )۔
بھائی درج ذیل آیت میں تو صرف اتنا ہے کہ عذاب کا ایک دن (اللہ کا ایک دن) ہمارے 1000 سال کے برابر ہوگا۔ آپ کو شبہ ہے؟ مجھے تو نہیں ہے۔
[ARABIC]22:47[/ARABIC] اور یہ آپ سے عذاب میں جلدی کے خواہش مند ہیں اور اﷲ ہرگز اپنے وعدہ کی خلاف ورزی نہ کرے گا، اور (جب عذاب کا وقت آئے گا) تو (عذاب کا) ایک دن آپ کے رب کے ہاں ایک ہزار سال کی مانند ہے (اس حساب سے) جو تم شمار کرتے ہو
دیکھ لیجئے اور ضرب تقسیم کرکے اور حساب کرکے کہ
جتنا فاصلہ روشنی ایک دن میں ویکیوم میں یعنی خلاء میںطے کرتی ہے ۔ وہ برابر ہے۔
جتنا فاصلہ چاند ایک ہزار برس میں طے کرتا ہے۔ اور روشنی کی یہ رفتار 18 اعشاری نقاط تک درست ہے۔
learn that 12000 Lunar Orbits / Earth Day = 299,792.458 km/s is the speed of light for observers standing outside gravitational fields and looking at light also traveling outside gravitational fields. But from General Relativity we know that an observer near a black hole for example sees the speed of light outside gravitational fields a zillion km/s. This means that if the speed of angels outside gravitational fields were defined in km/sec then it would have appeared to vary for observers in different gravitational fields, however since this speed is defined in Lunar orbits/Earth day then it would never appear to vary to anyone because 12000 Lunar orbits/ Earth day is common to all observers. Hence the Quran gave us a better definition for time and distance: a definition common to all observers, forever!!!
اور درج ذیل آیت بتاتی ہے کہ جب فرشتے جب زمیں سے عرش کا فاصلہ طے کرتے ہیں تو ایہ فاصلہ(ہمارے) 50،000 برس میں طے ہوتا ہے۔ اور فرشتے کی گھڑی میں صرف ایک دن گذرا ہوتا ہے۔ آپ کو اس کا یقیں نہیں مجھے تو ہے۔
[AYAH]70:4[/AYAH] اس (کے عرش) کی طرف فرشتے اور روح الامین عروج کرتے ہیں ایک دن میں، جس کا اندازہ (دنیوی حساب سے) پچاس ہزار برس کا ہے٭
ثبوت کے لئے ذرا یہ کیلکولیشنز ملاحظہ فرمالیجئے۔ Relativistic Time Dilation
http://www.speed-light.info/angels_speed_of_light.htm
یہ دونوں آیات بلکل ٹھیک ہیں، پہلی آیت بتاتی ہے کے اللہ کا ایک دن ہمارے 1000 سال کا ہوتا ہے۔ اور دوسری آیت بتاتی ہے کہ فرشتوں کو زمیں سے عرش تک کا فاصلہ طے کرنے میں ہمارے 50000 سال لگتے ہیں اور فرشتے کی گھڑی میںصرف ایک دن گزرتا ہے، یہ کیلکولیشن مزید آپ مندرجہ بالا ویب سائٹ پر دیکھ سکتے ہیں۔ بہت ہی صاف اور آسان طریقہ سے دونوںکیلکولیشنز کی گئی ہیں۔ اور ایک ڈسکشن فورم بھی کھلا ہے۔ اور صاحب مجھے تو کوئی کیلکولیشن نہیں چاہئیے، میرا تو ایمان ہے فقط اس کتاب پر، آپ کا ہے؟
باذوق صاحب، آپ باقاعدگی سے غور کرکے قرآن پڑھنا شروع کردیجئے۔ آپ کا یہ ازحد کنفیوژن دور ہو جائے گا اور آپ یہ بے معنی اور بے ربط باتیں کرنا چھوڑ دیںگے۔ قرآن کو غلط ثابت کرنے کی کوششیں 1400 سال سے جاری ہیں۔ کامیبی نہیں ہوئی۔ میری بات پر مخلصانہ غور کریں۔
یہ سلسلہ جاری ہے۔ آپ از خود کوئی ایسی آیت جس پر آپ مزید تفصیل نہیں جاہتے، اگر ہٹانا چاہیں تو بندہ کو بتا دیں۔ امید ہے آپ کو قابل اطمینان جواب مل رہےہیں۔
مجھے میرے سوالات، کتب روایات سے طریقہ تعلیم نماز اورکن کتب پر ایمان لایا جائے کے جوابات کا انتظار رہے گا۔ آپ کا کام بہت ہی اعلی ہے کہ اب اس سے انشاءاللہ لاکھوں کا بھلا ہوگا۔
والسلام
جاری ہے۔۔۔۔