حدیث کی آئینی حیثیت
کچھ مزید انفارمیشن :
حدیث میں شامل کئے گئے قابل اعتراضمواد کی نشاندہی۔
http://www.beacon2005.com/criminals.pdf
کئی دوسری کتب:
http://www.ourbeacon.com/7101.html
واضح رہے کہ یہ صرف انفارمیشن ہے، نکتہ نظر نہیں۔
والسلام
السلام علیکم
حدیث و سنت کے موضوع پر
یہاں کچھ اقباسات لگائے گئے ہیں۔ ملاحظہ فرما لیا جائے۔
محترم فاروق سرور خان صاحب
محترم اجمل صاحب نے بجا تبصرہ کیا ہے کہ : اگر آپ راسخ العقیدہ مسلمان ہیں تو کوئی حوالہ دینے سے قبل اس کی صداقت کی خود تحقیق کر لیا کریں ورنہ قاری کے غلط راہ پر چلنے کے گناہ میں آپ بھی حصہ دار ہوں گے ۔
علاوہ ازیں ۔۔۔
مجھے اس قسم کے جملے پر سخت اعتراض ہے
جو کہ آپ نے یوں لکھا ہے :
حدیث میں شامل کئے گئے قابل اعتراضمواد کی نشاندہی۔
اس کو لکھنے کے اور بھی کئی مہذب طریقے ہو سکتے تھے۔
ایسی تراکیب عموماَ مستشرقین کے زیر استعمال ہوتی ہین جن سے ہمیں پرہیز کرنا ہی بہتر ہے ۔
اگر آپ نے یہ جملہ خود سے نہیں لکھا بلکہ کہیں اور سے کاپی کیا ہے تب بھی احتیاط ملحوظ رکھی جانی چاہئے تھی۔
کتاب کی شروعات کے چند صفحات ہی ۔۔۔ صحیح بخاری کے متعلق بغض و تعصب کو ظاہر کرنے کے لیے کافی ہیں۔
یہ امت مسلمہ کا اجماع ہے کہ جس پر امت صدیوں سے قائم ہے اور انشاء اللہ قیامت تک رہے گی کہ بخاری و مسلم دو ایسی مستند کتابیں ہیں جن میں کوئی حدیث، کوئی ایک حدیث بھی ضعیف نہیں ہے ۔
مسئلہ روشن خیال مستشرقین کا یہ ہے کہ وہ شریعتِ اسلامی کو اپنی "عقل" کے سہارے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اگر اس کی چھوٹ دے دی جائے تو یقین مانئے ۔۔۔ سب سے پہلے
قرآن سے ہاتھ دھو لینا پڑے گا۔ یار لوگوں نے تو قرآن میں پھیلے "تضاد" پر بھی اعتراض جڑ رکھا ہے۔ ذرا
یہ مثال دیکھیں۔ کیا یہ ہمیں قبول ہے؟ کیا ہم یہاں عقلی تاویلات کر کے تطبیق نہیں دے لیتے ؟
کیا صرف اس لیے کہ دوسرے کہتے ہیں کہ قرآن میں "تضاد" ہے تو ہم بھی یہی بات دہراتے ہوئے مضمون کا رابطہ دے لیں گے؟ کیا اس کے دفاع میں دو جملے بھی نہیں لکھیں گے ؟ کیا ایک مسلمان کا کام صرف “انفارمیشن“ شئر کرنا ہے ، دین کا دفاع نہیں ہے ؟
اور ۔۔۔ ایسا معاملہ صرف قرآن کے لیے ہی کیوں ؟ کیا اللہ کی جانب سے صرف وحی جلی ہی نازل ہوئی ؟ وحی خفی کا کوئی وجود نہیں ؟
اگر وحی خفی یعنی حدیث ، کا کوئی وجود نہیں ہے تو ذرا بتائیے کہ قرآن کی ان آیات کا کیا کِیا جائے گا جن میں اللہ نے فرمایا ہے کہ یہ ہمارا حکم ہے اور وہ حکم سارے قرآن میں کہیں درج نہیں۔
صرف ایک مثال سورہ البقرہ سے ، آیت نمبر 143۔
جس قبلے پر تم تھے ، اس کو ہم نے اس لیے مقرر کیا تھا کہ معلوم کریں کہ کون پیغمبر کے تابع رہتا ہے اور کون الٹے پاؤں پھر جاتا ہے ؟
یہ آیت قبلہ کی تبدیلی کے خدائی حکم کو بیان کرتی ہے اور اتنی واضح ہے کہ اس سے خود اللہ کا حکم ظاہر ہو رہا ہے کہ تبدیلی سے پہلے والا قبلہ بھی خود اللہ تعالیٰ ہی کا مقرر کردہ تھا ۔
اب کوئی آئے اور ذرا ہمیں قرآن سے وہ آیت نکال کر دکھا دے جس میں پہلے قبلہ کے مقرر ہونے کا حکم بیان ہوا ہو ؟
یہ تو صرف ایک مثال ہے ، ایسی سولہ عدد مثالیں ، یعنی خود قرآن ہی سے وحی خفی (حدیث) کا ثبوت ۔۔۔ مفتی تقی عثمانی نے اپنی کتاب (انگریزی اور اردو) ، حجیتِ حدیث میں بیان کی ہیں۔ اس کتاب کے دونوں زبانوں کے ورزن نیٹ پر مفت میں دستیاب بھی ہیں۔
تو کہنا یہ ہے کہ حدیث کا ثبوت ، قرآن سے بھی ثابت ہے۔ اب اگر کچھ احادیث خلافِ عقل نظر آتی ہیں تو یہ دراصل ہماری ہی ناقص عقل کا قصور ہے ، رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے قول و فعل و تقریر کا نہیں !
اور یہ تو پہلے ہی کہا گیا ہے کہ اپنی عقل سے سمجھیں تو قرآن میں بھی بیشمار تضادات نظر آ جائیں گے۔
جب ہم قرآن کے تضادات کو ماننے سے انکاری ہیں تو حدیث کے "تضادات" پر ظلم کیوں ؟ حالانکہ دونوں بھی اللہ کی طرف سے ہیں۔
رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے واضح طور پر فرمایا ہے :
الا اني اوتيت الكتاب و مثلہ
لوگو ، یاد رکھو !
قرآن ہی کی طرح ایک اور چیز (حدیث) مجھے اللہ کی طرف سے دی گئی ہے ۔
ابو داؤد ، كتاب السنة ، باب : في لزوم السنة ، حدیث : 4606