سنہرا موقع

علم حاصل کرو گود سے گور تک۔ علم سیکھنے کی کوئی عمر نہیں ہوتی۔ علم سیکھنے کے لیے بڑھاپا کوئی رکاوٹ نہیں بلکہ بڑھاپے میں سیکھنے کے عمل کو جاری رکھنا ذہنی قوت کو چاق چوبند رکھتا ہے۔ ‏جتنا ہم اپنے ذہن کو استعمال کریں گے اتنا ہی وہ نئی باتیں سیکھے گا۔‏ ہمارا ذہن ہر لمحہ کچھ نہ کچھ سیکھنا چاہتا ہے اور یہی نئی باتیں یا نیا علم سیکھنا ہمارے ذہن کی غذا ہے۔ یہ درست ہے کہ بڑھتی ہوئی عمر میں ذہن اتنا چست نہیں رہتا جتنا جوانی میں ہوتا ہے لیکن اگر ہم ذہن کو اس کی غذا دیتے رہیں تو اس پر بڑھتی عمر کا کم ہی اثر پڑتا ہے۔‏ سائنسدان کہتے ہیں کہ اگر ایک شخص باقاعدگی سے ورزش کرنے کے ساتھ ساتھ نئی باتیں سیکھنے کی بھی کوشش کرتا رہے تو بڑھاپے میں بھی اُس کے ذہن کی چستی برقرار رہے گی۔‏ ہم جتنا وقت سیکھنے میں لگائیں گےاتنا ہی ہماری سیکھنے کی صلاحیت میں اضافہ ہوگا۔‏‏ اسی لیے ہمارے پیارے نبی ﷺ نے ہمیں روزانہ قرآن کریم کا کچھ حصہ سیکھنے کی ترغیب دی ہے، جیسا کہ ذیل کی حدیث میں بیان کیا گیا ہے:

سیدنا عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نکلے اور ہم لوگ صفہ میں تھے۔ پس آپ ﷺ نے فرمایا کہ تم میں سے کون چاہتا ہے کہ روز صبح کو بطحان یا عقیق کو جائے (یہ دونوں مدینہ کے بازار تھے) اور وہاں سے بڑے بڑے کوہان کی دو اونٹنیاں بغیر کسی گناہ کے اور بغیر اس کے کہ کسی رشتہ دار کی حق تلفی کرے، لائے تو ہم نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! ہم سب اس کو چاہتے ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ پھر تم میں سے ہر ایک مسجد کو کیوں نہیں جاتا اور کیوں نہیں سیکھتا یا پڑھتا اللہ کی کتاب کی دو آیتیں، جو اس کے لیے دو اونٹنیوں سے بہتر ہیں اور تین بہتر ہیں تین اونٹنیوں سے اور چار بہتر ہیں چار اونٹنیوں سے اور اسی طرح جتنی آیتیں ہوں، اتنی اونٹنیوں سے بہتر ہیں۔ (صحيح مسلم: 803، سنن ابي داود: 1456)

اگر ہم نے ساری زندگی یہ عمل نہیں کیا تو اب بڑھاپے میں یہ عمل کرنے کا سنہرا موقع ہے۔
روزانہ کچھ نہ کچھ سیکھیے تاکہ آپ ’’بابرکت و باسعادت بڑھاپا ‘‘ گزار سکیں
اور اس بارے میں مزید جاننے کے لیے مطالعہ کریں، کتاب ’’بابرکت و باسعادت بڑھاپا ‘‘ ۔
 
آخری تدوین:
سنہرا دور

اب بڑھاپے میں یہ علم سیکھنے کا سنہرا موقع ہے کیونکہ عمر رسیدہ لوگوں کی اکثریت اپنے اہل و عیال کی روزی روٹی کی ذمہ داری سے فارغ ہو چکی ہوتی ہے۔ بڑھاپے میں ہمارے پاس وقت کی کمی بھی نہیں ہوتی۔ لہذا ہم مسجد میں بیٹھ کر رسول اللہ ﷺ کے اس قول پر عمل کر سکتے ہیں(حدیث اوپر بیان ہوئی ہے) اور بے شمار نیکیاں اور قرآن کریم سیکھنے کی فضیلت حاصل کرسکتے ہیں۔ اس طرح بڑھاپے میں ہمارا وقت بھی اچھا گزرے گا اور ہماری آخرت بھی سنور جائے گی۔

یقیناً علم سیکھنے کے لیے عمر کی کوئی قید نہیں ہے اور نہ ہی کوئی جسمانی معذوری علم سیکھنے کی راہ میں رکاوٹ بنتی ہے۔ نابینا صحابی حضرت عبداللہ بن ام مکتوم رضی اللہ عنہ کا نام کون نہیں جانتا، پیدائشی نابینا ہونے کے باوجود آپ رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ ﷺ سے قرآن مجید سیکھا، قرآن مجید کے حافظ اور قراءتِ قرآن کے اسپیشیلسٹ تھے اور مدینہ ہجرت کے بعد لوگوں کو قراءت سکھاتے تھے۔ آنحضرت ﷺ کے فیض صحبت سے احادیث سے بھی آپ رضی اللہ عنہ کا دامن خالی نہ تھا، چنانچہ آپ رضی اللہ عنہ سے زر بن حبیش، عبدالرحمن بن لیلی، عبد اللہ بن شداد بن الھادی اور ابو البختری حضرات تابعین نے احادیث روایت کی ہیں۔ آپ رضی اللہ عنہ کو مسجد نبوی کے مؤذن اور امام ہونے کا شرف بھی حاصل تھا۔ آپ رضی اللہ عنہ کا سب سے بڑا طغرائے امتیاز یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے تیرہ غزوات میں شرکت فرمائی، آپ ﷺ نے ہر غزوہ میں حضرت ابن ام مکتوم رضی اللہ عنہ کو مدینہ میں اپنا جانشین و خلیفہ مقرر فرمایا، حضرت ابن ام مکتوم رضی اللہ عنہ اُن دنوں لوگوں کی امامت فرماتے۔ نابینا ہونے کے باوجود ساری زندگی درس و تدریس کا سلسلہ جاری رکھا اور آخری عمر میں جنگ قادسیہ میں شرکت کی اور شہادت کا مرتبہ پایا۔

لہذا اگر ارادہ پختہ ہوتو بڑھاپا یا معذوری علم سیکھنے کی راہ میں رکاوٹ نہیں بنتی اور دین کا علم سیکھنا سب سے افضل عمل ہے جس پر زندگی کے آخری لمحے تک ہر بندہ مومن کو کاربند رہنا چاہئے اورسیکھے ہوئے علم پر عمل بھی کرنا چاہئے، کیونکہ علم پر عمل کرنے سے علم میں اضافہ ہوتا ہے۔

حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا ارشاد ہے کہ «تَفَقَّهُوا قَبْلَ أَنْ تُسَوَّدُوا - سردار بننے سے پہلے سمجھدار بنو» (یعنی دین کا علم حاصل کرو) اور ابوعبداللہ (امام بخاری رحمہ اللہ) فرماتے ہیں کہ سردار بنائے جانے کے بعد بھی علم حاصل کرو، کیونکہ رسول اللہ ﷺ کے اصحاب رضی اللہ عنہم نے بڑھاپے میں بھی دین سیکھا۔ (صحيح البخاري: حدیث نمبر: Q73 ۔ كِتَاب الْعِلْمِ، 15. باب: علم و حکمت میں رشک کرنے کے بیان میں)

خود ہمارے پیارے رسول اللہ ﷺ نے چالیس سال کی عمر میں علم سیکھنا شروع کیا جب آپ ﷺ کو غار حرا میں پڑھایا گیا:

اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِي خَلَقَ ‎(١)‏ سورة العلق
’’پڑھیے! اپنے رب کے نام سے جس نے پیدا کیا‘‘

انگریزوں کا نافذ کردہ تعلیمی نظام ہمیں صرف ہنر سکھاتا ہے، علم نہیں۔ اس لیے ہمارے معاشرے میں ایسے تعلیم یافتہ افراد کی اکثریت ہے جو دنیاوی علم و ہنر سے تو مالامال ہیں لیکن دین کا کوئی علم نہیں رکھتے، یہاں تک کہ قرآن مجید بھی پڑھ نہیں سکتے۔ ایسے لوگوں کے لیے بڑھاپا وہ سنہرا دور ہے جب فراغت ہی فراغت ہے اور دین کا علم سیکھنے کے لیے وقت نکالنا کوئی مشکل بھی نہیں ہے۔ ایسے میں ذیل کی حدیث کو یاد رکھنا فائدہ مند ثابت ہوگا۔

سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: دو نعمتیں ایسی ہیں کہ اکثر لوگ ان کی قدر نہیں کرتے :
(1) صحت و تندرستی اور
(2) فارغ البالی (یعنی کام کاج سے فراغت اور فرصت کے لمحات)۔ (صحيح البخاري: 6412)

صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں ایسے صحابہ بڑی تعداد میں نظر آتے ہیں جنہوں نے نہ صرف بڑی عمر میں تحصیل علم کیا بلکہ مرتبہ کمال کو پہنچے۔ یہ سلسلہ بعد کے زمانے میں بھی جاری رہا بلکہ قرآن کریم کو بڑی عمر میں حفظ کرنے کا سلسلہ تو آج بھی جاری ہے اور یہ قرآن کریم کی برکت ہے۔
 
علم والے اور بے علم برابر نہیں ہوسکتے

کتنے خوش نصیب ہیں وہ لوگ جو بڑھاپے میں لغویات میں پڑنے کی بجائے اللہ تعالیٰ کی رحمت سے قرآن مجید حفظ کرتے ہیں، قراءت و تجوید، معنی و مفاہیم اور تفسیر سیکھتے ہیں، پھر قرآن و سنت کی باتوں پر عمل بھی کرتے ہیں اور دوسروں تک پہچانے کا کام بھی کرتے ہیں۔

فَمَن يُرِدِ اللَّهُ أَن يَهْدِيَهُ يَشْرَحْ صَدْرَهُ لِلْإِسْلَامِ --- (١٢٥)‏ سورة الأنعام
پس (یہ حقیقت ہے کہ) جسے اللہ ہدایت دینا چاہتا ہے اس کے سینے کو اسلام کے لیے کشادہ کردیتا ہے۔


اور انہیں دین کی صحیح سمجھ عطا کرتا ہے جیسا کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: اللہ تعاليٰ جس کے ساتھ بھلائی کا ارادہ فرماتا ہے اسے دین کی گہری سمجھ عطا فرما دیتا ہے، اور میں تو تقسیم کرنے والا ہوں جبکہ عطا اللہ تعالیٰ کرتا ہے۔ (صحيح البخاري: 71، صحيح مسلم:2392)۔

اور آپ ﷺ نے یہ بھی فرمایا: علم کا حاصل کرنا ہر مسلمان پر فرض ہے۔ (سنن ابن ماجہ: 224)

لیکن علم کیا ہے؟ علم وہ عظیم وصف ہے جو انسان کو نہ صرف یہ کہ شرافت و تہذیب کا سرمایہ بخشتا ہے، عزّت و عظمت کی دولت سے نوازتا ہے، اخلاق و عادات میں جلا پیدا کرتا ہے اور انسانیت کو انتہائی بلندیوں پر پہنچاتا ہے، بلکہ قلب انسانی کو عرفان الہٰی کی مقدّس روشنی سے منوّر کرتا ہے، ذہن و فکر کو صحیح عقیدے کی معراج بخشتا ہے اور دل و دماغ کو اللہ تعالیٰ کی عبادت و اطاعت گزاری کی راہ مستقیم پر لگاتا ہے۔ اسلام! جو انسان کے لیے ترقی و عظمت کی راہ میں سب سے عظیم مینارۂ نور ہے، وہ اس عظیم وصف کو انسانی برادری کے لیے ضروری قرار دیتا ہے اور اس کے حصول کو دینی و دنیوی ترقی و کامیابی کا زینہ بتاتا ہے۔ یہ بات ذہن نشین کر لینی چاہیے کہ اسلام ہر اس علم کو قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہے جو اسلامی عقیدہ و عمل سے مزاحم ہوئے بغیر انسانی معراج کا ضامن ہو، اسلام کسی بھی علم کے حصول کو منع نہیں کرتا۔ لیکن ایسے علم سے وہ بیزاری کا اظہار بھی کرتا ہے جو ذہن و فکر کو گمراہی کی طرف موڑ دے یا انسان کو اللہ اور اس کے رسول ﷺ سے نا آشنا رکھ کر دہریت کے راستہ پر لگا دے۔

اسلامی شریعت کی نظر میں جو علم بنیادی اور ضروری حیثیت رکھتا ہے وہ علم دین ہے، جو کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ ﷺ پر مشتمل ہے۔ یہ وہ علم ہے جو دوسرے علوم کے مقابلے میں اسلام کی نظر میں سب سے مقدّم اور ضروری ہے جس کا حاصل کرنا ہر مسلمان کے لیے ضروری قرار دیا گیا ہے۔ (مشکوۃ شریف ۔ جلد اول ۔ علم کا بیان ۔ حدیث 192)

اسلا م کی نظر میں تعلیم و تعلم کا مقصد خالص رضائے الٰہی کی طلب ہے اور بس، اس میں کسی دنیاوی غرض کا میل نہیں۔ اس کی نظر میں تعلیم کا مقصد انسانی پیدائش کے منشاء کو پورا کرنا، اچھے اخلاق سے خود آراستہ ہونا، اور دوسروں کوا ٓراستہ کرنا، علم کی روشنی سے جہل اور نادانی کے اندھیروں کو دور کرنا، نہ جاننے والوں کو سکھانا، بھولے بھٹکوں کو راہ دکھانا ، حق کو پھیلانا اور باطل کو مٹانا ہے۔

اسلام نے علم اور دین دونوں کو ایک دوسرے سے اس طرح باندھا ہے کہ وہ ایک دوسرے سے بیگانہ نہیں ہو سکتے۔ اور جب انہیں ایک دوسرے سے جدا کر دیا جاتا ہے تو دہریت اور ظلم و بربریت انسانیت کو گھیر لیتی ہے۔ لہذا علم وہی ہے جس سے دین کی سمجھ اور دین پر عمل کرنے کا شعور پیدا ہو۔ علم کی بنیاد پر ہی انسان اپنے رب کو پہچانتا ہے، اپنے رب سے ڈرتا ہے اور اپنے رب کی اطاعت و عبادت کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:

إِنَّمَا يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبَادِهِ الْعُلَمَاءُ ۗ--- (٢٨)‏ ‏سورة فاطر
بے شک اللہ کے بندوں میں سے اس سے وہی ڈرتے ہیں جو علم والے ہیں

قُلْ هَلْ يَسْتَوِي الَّذِينَ يَعْلَمُونَ وَالَّذِينَ لَا يَعْلَمُونَ ۗ --- ‎(٩) سورة الزمر

(تو) کہو کیا علم والے اور بے علم برابر ہو سکتے ہیں؟

یقیناً نہیں! پس جب علم والے اور بے علم برابر نہیں ہوسکتے تو دین کا علم حاصل کیے بغیر اپنے رب کو پہچاننا ممکن نہیں۔ لہذا جو اپنے رب کو نہیں پہچانا اور جس نے اپنے رب کی شان و عظمت کو نہیں جانا، اس کے لیے اپنے رب سے ڈرنا کیونکر ممکن ہوگا اور وہ اپنے رب کی اطاعت و عبادت وہ کیوں کرے گا؟

یاد رکھیے: ہر مسلمان کو دین کا کم از کم اتنا علم ضرور حاصل کرنا چاہیے جس کی بنیاد پر وہ اپنے عقائد و اعمال کو درست رکھ سکے۔ اگر وہ علم حاصل کرنے سے عاجز ہے تو اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ صحیح العقیدہ علمائے حق کی صحبت اختیار کرے اور دینی امور میں ان سے رہنمائی حاصل کرتا رہے۔

اس طرح وہ ۔ُُُٰٰبابرکت و باسعادت بڑھاپا،، پائے گا۔
۔
 
بڑھاپے میں فرصت سے فائدہ اٹھائیں
(گزشتہ سے پیوستہ)
اب بڑھاپا ہے اور موت سر پر کھڑی ہے لیکن اب بھی وقت ہے، ضرورت صرف اس بات کی ہے کہ ہم دین کا علم سیکھنے کی سعی کریں تو اللہ تعالیٰ ہمارے درجات بلند فرما دے گا اور ہمارا بڑھاپا بابرکت و باسعادت بنا دے گا۔

يَرْفَعِ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنكُمْ وَالَّذِينَ أُوتُوا الْعِلْمَ دَرَجَاتٍ ۚ وَاللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرٌ ‎(١١)‏ سورة المجادلة
’’اللہ اُن لوگوں کے درجات بلند فرما دے گا جو تم میں سے ایمان لائے اور جنہیں علم سے نوازا گیا، اور اللہ اُن کاموں سے جو تم کرتے ہو خوب آگاہ ہے‘‘
۔
جس طرح علم سیکھنا ضروری ہے اسی طرح علم کا دوسروں تک پہنچانا بھی اہم ہے۔ عبداللہ بن عمرو رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: « بَلِّغُوا عَنِّلَوْ آيَةً --- ’’میری طرف سے لوگوں کو (احکام الٰہی) پہنچا دو اگرچہ ایک آیت ہی ہو‘‘» ۔ (صحيح البخاري:3461)

اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اپنے علم کی حد تک ہر شخص اس بات کا مکلف ہے کہ قرآن و حدیث کا جو بھی علم اسے حاصل ہو اسے لوگوں تک پہنچائے، یہاں تک کہ اگر کسی ایک حکم الٰہی سے ہی آگاہ ہے تو اس کی ذمہ داری ہے کہ لوگوں کو بھی اس سے آگاہ کرے۔
۔
حجۃ الوداع کے موقع پر رسول اللہ ﷺ نے تقریباً ایک لاکھ حاضرین کے سامنے خطبہ دیا جس کے آخر میں فرمایا: حاضر کو چاہیے کہ غائب کو میری باتیں پہنچا دے کیونکہ بہت سے لوگ جن تک یہ پیغام پہنچے گا سننے والوں سے زیادہ (پیغام کو) یاد رکھنے والے ثابت ہوں گے۔ (صحيح البخاري:1741، صحيح مسلم: 1679)

صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نبی کریم ﷺ کی باتیں دوسروں تک پہنچانے کے کتنے حریص تھے اس بات کا اندازہ ہم ابوذر رضی اللہ عنہ کے ارشاد سے لگا سکتے ہیں، آپ رضی اللہ عنہ کا ارشاد ہے کہ اگر تم اس پر تلوار رکھ دو، اور اپنی گردن کی طرف اشارہ کیا، اور مجھے گمان ہو کہ میں نے نبی کریم ﷺ سے جو ایک کلمہ سنا ہے، گردن کٹنے سے پہلے بیان کر سکوں گا تو یقیناً میں اسے بیان کر ہی دوں گا۔ (صحيح البخاري، حدیث نمبر: Q68 ، كِتَاب الْعِلْمِ، 10. بَابُ الْعِلْمُ قَبْلَ الْقَوْلِ وَالْعَمَلِ)
۔
رسول اللہ ﷺ نے صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین کو اسلام کی تعلیم دی، یعنی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین آپ کے براہ راست تربیت یافتہ تھے، لہذا صحابہ معیاری مسلمان تھے۔ وہ لوگ آپ ﷺ کی ہر بات کو سنتے، سمجھتے اور اس پر عمل کرتے تھے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے رسول االلہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا: « بَلِّغُوا عَنِّي وَلَوْ آيَةً» اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے اس وقت کی معلوم دنیا تک دین کی باتیں پہنچا دیں۔ آج جو دین ہم تک پہنچا ہے وہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی انتھک محنت کا ہی نتیجہ ہے۔
۔
دین کی تبلیغ و اشاعت کی ذمہ داری اس امت کی اہم ذمہ داری ہے اور یہ ہم سب پر بھی فرض ہے۔ دین کی وہ باتیں جو ہم جانتے ہیں اسے دوسروں تک پہنچانے کا حکم ہمارے لیے بھی ہے لیکن ہم ہیں کہ دین کی وہ باتیں جو ہم جانتے ہیں اسے اپنے بچوں تک بھی نہیں پہنچاتے تو دوسروں تک کیا پہنچائیں گے؟
۔
بڑھاپے میں فرصت کے جو لمحات ہمیں میسر ہیں ان میں ہم بہت آسانی سے یہ فریضہ انجام دے سکتے ہیں، بس ضرورت ہے ارادے کی پختگی کی۔ لہذا آج سے عہد کریں کہ ہم روزانہ دین کی کچھ باتیں سیکھیں گے، ان پر عمل کریں گے اور انہیں دوسروں تک پہنچائیں گے۔ اس طرح ہمارے فرصت کے لمحات ضائع ہونے سے بچ جائیں گے اور ہم اپنے بڑھاپے میں بھی زیادہ سے زیادہ نیک اعمال کرکے توشہ آخرت جمع کر پائیں گے۔ اس طرح ہمارا بڑھاپا بھی بابرکت و باسعادت ہوجائے گا۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو ایسی توفیق عطاا فرمائے۔ آمین۔
۔
مزید جاننے کے لیے مطالعہ کیجیے کتاب: بابرکت و باسعادت بڑھاپا
۔
 
بابرکت و باسعادت بڑھاپے کی تیاری
ہمارا دین ہمیں زندگی کے اوائل ایام سے ہی بابرکت و باسعادت بڑھاپے کی تیاری کرنے کا حکم دیتا ہے،
رسول ﷺ نے فرمایا: پانچ چیزوں کو پانچ سے پہلے غنیمت جانو:
جوانی کو بُڑھاپے سے پہلے،
تندرستی کو بیماری سے پہلے،
امیری کو فقیری سے پہلے،
فرصت کو مَصروفیّت سے پہلے اور
زندگی کو موت سے پہلے۔ (مشكوة المصابيح: 5174)
یعنی جوانی غنیمت ہے۔ بڑھاپے سے پہلے جوانی میں ہی بڑھاپے کی تیاری کر لینی چاہیے اور لوگ کرتے بھی ہیں۔ لیکن آج اکثریت کے پیش نظر صرف دنیا ہی ہوتی ہے، اس لیے لوگ دین کو چھوڑ کر دنیاوی طور پر بڑھاپے کی تیاری کرتے ہیں۔ جوانی میں لوگ حلال و حرام کی پرواہ کیے بغیر زیادہ سے زیادہ مال کماتے ہیں اور اپنے بڑھاپے کے لیے پس انداز کرکے رکھتے ہیں۔ وقت پر کھانا، دوا اور ورزش کے ساتھ صحت کا بھی پورا خیال رکھتے ہیں تاکہ یہ لوگ بڑھاپے میں صحت مند رہیں اور ان کا بڑھاپا اچھا گزرے، لیکن پھر بھی ان کا بڑھاپا اچھا نہیں گزرتا؟
بے شمار بوڑھے اچھی صحت اور مالدار ہونے کے باوجود بے سکونی کی زندگی گزار رہے ہیں، نہ ہی کسی پل چین ہے نہ ہی دل کو اطمینان ہے۔ زندگی اجیرن بنی ہوئی ہے۔ بیٹا بیٹی بیوی سب نافرمان ہیں۔ بڑے میاں کے پاس مال و دولت ہونے کے باوجود کوئی فرمانبرداری نہیں کرتا۔ خود بھی قبر میں پاؤں لٹکائے بیٹھے ہیں لیکن فسق و فجور میں مبتلا ہیں۔ گھنٹوں ٹی وی، فلم اور انٹرنیٹ بینی پر گزار رہے ہیں۔ اس عمر میں بھی نماز و روزہ سے کوئی سروکار نہیں، رب کو راضی کرنے کی کوئی فکر نہیں، رب کو بھلائے بیٹھے ہیں جس کی وجہ سے ان کی زندگی تنگ ہے اور ان کا بڑھاپا پریشان کن ہے، فرمایا:
وَمَنْ أَعْرَضَ عَن ذِكْرِي فَإِنَّ لَهُ مَعِيشَةً ضَنكًا وَنَحْشُرُهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ أَعْمَىٰ ‎(١٢٤) سورة طه
’’اور جو میرے ذِکر ( نصیحت) سے منہ موڑے گا اس کی زندگی تنگ ہو جائے گی اور قیامت کے روز ہم اسے اندھا اٹھائیں گے‘‘
اپنے خالق کو چھوڑ کر اور اپنے خالق کے ذکر سے منہ موڑ کر ساری زندگی اپنی نفسانی شہوتوں اور دنیوی لذتوں میں منہمک رہنے والوں کو اللہ بھی بھلا دیتا ہے، پھر ایسے لوگوں کو بڑھاپے میں بھی اللہ تعالیٰ کی طرف لوٹنے کی توفیق نہیں ہوتی، کار خیر کرنے کی صلاحیت اور اس کا احساس ان کے دلوں سے جاتا رہتا ہے، اگر وہ کوئی کار خیر کرتے بھی ہیں تو وہ دکھاوے اور ریا کاری کے لیے کرتے ہیں، آخرت کے فکر اور تصور سے ان کا دل خالی رہتا ہے۔ ایسے لوگوں پر شیطان مسلط کر دیئے جاتے ہیں جو انہیں راہ راست پر آنے سے روکتے ہیں، فرمان ہے:
وَمَن يَعْشُ عَن ذِكْرِ الرَّحْمَٰنِ نُقَيِّضْ لَهُ شَيْطَانًا فَهُوَ لَهُ قَرِينٌ ‎(٣٦) وَإِنَّهُمْ لَيَصُدُّونَهُمْ عَنِ السَّبِيلِ وَيَحْسَبُونَ أَنَّهُم مُّهْتَدُونَ ‎(٣٧) سورة الزخرف
’’جو شخص رحمان کے ذکر سے تغافل برتتا ہے، ہم اس پر ایک شیطان مسلط کر دیتے ہیں اور وہ اُس کا رفیق بن جاتا ہے۔یہ شیاطین ایسے لوگو ں کو راہ راست پر آنے سے روکتے ہیں،اور وہ اپنی جگہ یہ سمجھتے ہیں کہ ہم ٹھیک جا رہے ہیں‘‘
ایسے لوگ بڑھاپے میں بھی فسق و فجور میں مبتلا رہتے ہیں اور بڑھاپے کی سعادت مندی سے بہرہ ور نہیں ہوپاتے بلکہ بُرے بڑھاپے سے دوچار ہوتے ہیں جو ان کی آخرت کے عذاب میں روز بروز اضافے کا باعث بنتا ہے پھر اسی حالت میں قبر میں جا گرتے ہیں جہاں عذاب قبر اور عذاب جہنم ان کا منتظر ہوتا ہے۔
لیکن جو لوگ دین کو دنیا پر مقدم رکھتے ہیں۔ اپنی جوانی سے ہی اللہ اور رسول اللہ ﷺ کی اطاعت و فرمانبرداری میں زندگی گزارتے ہیں، وہ لوگ بڑھاپے میں پہنچ کر کسی فتنہ یا فسق و فجور میں گرفتار نہیں ہوتے بلکہ پہلے سے زیادہ اللہ تعالیٰ کی اطاعت و فرمانبرداری میں زندگی گزارنے کی سعی کرتے ہیں، اپنی آخرت بنانے کی فکر کرتے ہیں، رب کی یاد سے ان کے دل ہمہ وقت لرزاں رہتے ہیں۔ اس طرح وہ بڑھاپے کی سعادت مندی حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں اور ان کا بڑھاپا خوشگوار گزرتا ہے اور آخرت سنور جاتی ہے۔ (ماخوذ : کتاب *بابرکت و باسعادت بڑھاپا۔ جلد اول)۔
۔
 
بابرکت و باسعادت بڑھاپے کی تیاری: بچپن میں
(گزشتہ سے پیوستہ)​

جو لوگ دین کا ضروری علم حاصل نہیں کرتے، اللہ و رسول اللہ ﷺ کی اطاعت و فرمانبرداری میں زندگی نہیں گزارتے اور نیک لوگوں کی صحبت اختیار نہیں کرتے ان کے دل دنیا کی تمام تر آرام و آسائش کے باوجود بھی پریشان ہی رہتے ہیں۔ دین کا علم حاصل نہ کرنا بڑی بدنصیبی ہے اور اسے حاصل کرکے اس پر عمل نہ کرنا اس سے بھی بڑی بدنصیبی ہے۔ بعض لوگ نماز و روزہ اور دیگر عبادات کرتے ہیں لیکن پھر بھی ان کا بڑھاپا آج اچھا کیوں نہیں ہے؟ تو دیگر وجوہات کے ساتھ ایک خاص وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ ایسے لوگوں نے اپنے بڑھاپے کی تیاری میں دین کے ایک خاص شعبے کو نظر انداز کر رکھا تھا۔ ایسے لوگ دنیا میں اتنے مصرورف رہتے تھے کہ اپنے لیے دعائیں نہیں کرتے تھے، صبح و شام کی مسنون دعاؤں کا اہتمام نہیں کیا کرتے تھے۔

بابرکت ، باسعادت اور خوشگوار بڑھاپے کی تیاری کی ابتداء تو بچپن میں ہی ہو جانی چاہیے۔ اگر بچوں کی دینی ماحول میں تربیت ہو اور انہیں بچپن سے ہی صبح و شام کی مسنوں دعائیں سکھا دی جائیں اور انہیں ان کا اہتمام کرنے والا بنا دیا جائے تو اسی وقت سے وہ بُرے بڑھاپے سے اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگنا شروع کر دیں۔ جیسا کہ ذیل کی صبح شام کی دعاؤں میں تعلیم دی گئی ہے۔

صبح کو نبی اکرم ﷺ کہتے:
اَصْبَحْنَا وَاَصْبَحَ الْمُلْکُ لِلّٰہِ، وَالْحَمْدُ لِلّٰہِ،لَااِلٰ۔ہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ، لَا شَرِیْکَ لَہٗ، لَہٗ الْمُلْکُ وَلَہُ الْحَمْدُ، وَھُوَ عَلیٰ کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْرٌ، رَبِّ اَسْئَلُکَ خَیْرَ مَا فِی ھٰذَا الْیَوْمِ وَخَیْرَ مَا بَعْدَہٗ وَاَعُوْذُ بِکَ مِنْ شَرِّ مَا فِیْ ھٰذَا الْیَوْمِ وَشَرِّ مَا بَعْدَہٗ، رَبِّ اَعُوْذُ بِکَ مِنَ الْکَسْلِ و وَسُوءِ الْكِبَرِ ِ، رَبِّ اَعُوْذُ بِکَ مِنْ عَذَابٍ فِی النَّارِ وَعَذَابٍ فِی الْقَبْرِ
’’ہم نے صبح کی اور اللہ کی بادشاہی نے صبح کی، اور تمام تعریف اللہ کے لیے ہے، اللہ کےعلاوہ کوئی عبادت کےلائق نہیں، وہ اکیلا ہے اس کا کوئی شریک نہیں، اسی کی بادشاہی ہے، اور اسی کے لیے حمد ہے، اور وہ ہر چیز پر قادر ہے، اے میرے رب! اس دن میں جو خیر ہے اور جو اس کے بعد میں خیر ہےمیں تجھ سے اس کا سوال کرتا ہوں، اور اس دن کے شرسے اور اس کے بعد والی دن کی شر سےتیری پناہ چاہتا ہوں، اے میرے رب! میں سستی اور برے بُڑھاپے سے تیری پناہ چاہتا ہوں، اے میرے رب! میں آگ میں عذاب دئیے جانے سے، اور قبر میں عذاب دئیے جانے سے تیری پناہ چاہتاہوں‘‘۔(صحیح مسلم ، ابوداود ، ترمذی)

شام کو نبی اکرم ﷺ کہتے:
أَمْسَيْنَا وَأَمْسَى الْمُلْكُ لِلَّهِ، وَالْحَمْدُ لِلَّهِ لَا إِلٰهَ إِلَّا اللهُ، وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ، لَهُ الْمُلْكُ وَلَهُ الْحَمْدُ وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ، رَبِّ أَسْأَلُكَ خَيْرَ مَا فِي هَذِهِ اللَّيْلَةِ وَخَيْرَ مَا بَعْدَهَا، وَأَعُوذُ بِكَ مِنْ شَرِّ مَا فِي هَذِهِ اللَّيْلَةِ وَشَرِّ مَا بَعْدَهَا، رَبِّ أَعُوذُ بِكَ مِنَ الْكَسَلِ وَسُوْ ءِ الْكِبَرِ، رَبِّ أَعُوذُ بِكَ مِنْ عَذَابٍ فِي النَّارِ وَعَذَابٍ فِي الْقَبْرِ
’’ہم نے شام کی اور اللہ کی بادشاہی نے شام کی، اور تمام تعریف اللہ کےلیے ہے، اللہ کےعلاوہ کوئی عبادت کے لائق نہیں، وہ اکیلا ہے اس کا کوئی شریک نہیں، اسی کی بادشاہی ہے، اور اسی کے لیے حمد ہے، اور وہ ہر چیز پر قادر ہے، اے میرے رب! اس رات میں جو خیر ہے اور جو اس کے بعد میں خیر ہے میں تجھ سے اس کا سوال کرتا ہوں، اور اس رات کے شرسے اور اس کے بعد والی رات کے شر سے تیری پناہ چاہتا ہوں، اے میرے رب! میں سستی اور برے بُڑھاپے سے تیری پناہ چاہتا ہوں، اے میرے رب! میں آگ میں عذاب دئیے جانے سے، اور قبر میں عذاب دئیے جانے سے تیری پناہ چاہتاہوں‘‘۔ (صحیح مسلم ، ابوداود ، ترمذی)

صبح وشام کے اوقات میں نبی ﷺ کا معمول تھا کہ آپ ﷺ یہ مبارک دعائیں پڑھا کرتے تھے اور آپ ﷺ ان دعاؤں میں «سُوءِ الْكِبَرِ» یعنی بڑھاپے کی برائی اور سٹھیا جانے سے پناہ مانگا کرتے تھے۔ کبر سنی سے مراد ایسا بڑھاپا ہے جس کی وجہ سے بعض قوائے جسمانی کمزور پڑ جاتے ہیں اور کام کرنا چھوڑ دیتے ہیں۔ اس وجہ سے انسان عمر کے گھٹیا ترین دور میں پہنچ جاتاہے: کیونکہ اس عمر میں مقصد حیات یعنی علم وعمل دونوں چھوٹ جاتے ہیں۔ بڑھاپے کی برائی سے مراد وہ اشیا ہیں جو کبر سنی سے پیدا ہوتی ہیں، جیسے عقل و دماغ کا خراب ہوجانا اور خبط میں مبتلا ہونا، نیک اعمال نہ کر سکنا اور اس طرح کی کسی اور ابتر حالت کا شکار ہونا۔ ایک روایت میں الکبر، باء پر سکون کے ساتھ یہ لفظ آیا ہے۔ اس صورت میں اس کے معنی ہو‎ں گے: نعمت کے حصول پر سرکش ہو جانا اور لوگوں پر بڑائی جتانا۔

بڑھاپے میں انسان پر سستی چھا جاتی ہے۔ ان صبح و شام کی دعاؤں میں سستی سے اور بُرے بڑھاپے یعنی بُڑھاپے کی ہر طرح کی بُرائی اور فتنے سے اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگی گئی ہے۔ صبح و شام ان دعاؤں کو اپنے معمولات میں شامل کرنے والا اللہ کے فضل سے برے بڑھاپے یعنی بڑھاپے کی ہر طرح کی بُرائی سے محفوظ رہے گا۔ لہذا اگر یہ دعائیں آپ کے روزانہ کے معمولات میں شامل ہیں تو الحمد للہ، اور اگر نہیں ہیں تو آپ عمر کے جس حصے میں بھی ہوں آج ہی سے صبح و شام ان دعاؤں کو اپنے معمولات میں شامل کر لیجیے تاکہ آپ کا بڑھاپا خوشگوار گزرے اور آپ کو دنیا و آخرت کی بھلائی نصیب ہو ۔اللہ تعالیٰ ہم سب کو اپنے معمولات میں ان دعاؤں کو شامل کرنے والا بنائے اور ہماری دعاؤں کو قبول فرمائے۔ آمین!
(ماخوذ: کتاب بابرکت و باسعات بڑھاپا)
 
Top