سنے کون میری آہیں، جو نہ دیں تجھے سنائی

صابرہ امین

لائبریرین
معزز استادِ محترم الف عین ،
محمد خلیل الرحمٰن ، سید عاطف علی
@محمّد احسن سمیع :راحل:بھائ

آداب
آپ سے اصلاح و راہنمائ کی درخواست ہے ۔ ۔

سنے کون میری آہیں، جو نہ دیں تجھے سنائی
میں صدائے بے نوا ہوں مجھے کیوں سنے خدائی

وہ ہمیں تھے دل میں ان کے دیا پیار کا جلایا
مگر اب وہ کہہ رہے ہیں کہ یہ آگ ہے پرائی

تری بزم میں تھے ہم بھی تو نے حال تک نہ پوچھا
کبھی ہم تھے تیرا سب کچھ، کہاں ایسی کج ادائی!

کیا عجیب ہم پہ گذری تری عاشقی میں ہم دم
ترا پیار دیکھا ہم نے، سہی تیری بےوفائی

کیا قرار پا سکے گا کبھی زندگی میں وہ بھی
میرا چین جس نے لوٹا میری نیند ہے چرائی

وہ یہ کہہ رہے ہیں ہم سے کہ بھلا دیں پیار ان کا
یہ وہ زخم دل ہے جاناں نہیں جس کی اب بھرائی

ترے نام پر ہے مرنا، ترے بن بھلا کیا جینا
یہی میری چاہتیں ہیں یہی میری دلربائی

تجھے یاد کرتے رہنا، تری بات کرتے رہنا
یہی زندگی کا حاصل، یہی زیست کی کمائی

میں اگرچہ ہوں شکستہ، مجھے ڈر نہیں کسی کا
مرے آنسوؤں نے مجھ میں نئی جوت ہے جگائی

مجھے رب کی رحمتوں سے ہے امید اب کرم کی
اسی در پہ ہم پڑے ہیں لئے کاسہِ گدائی
 
آخری تدوین:

سید عاطف علی

لائبریرین
خوب صابرہ امین ۔ غزل اچھی ہے البتہ کچھ مقامات چست نہیں بندش میں ۔ جیسے کچھ ذیل ہیں۔ تھوڑا اور نظر ثانی کیجیئے ۔ یعنی دھیمی آنچ پر پکائیے۔
میں صدائے بے نوا ہوں مجھے کیوں سنے خدائی
یہاں صدائے بے نوا گنجلگ اور متصادم سی ترکیب ہے ۔ صدائے بے کسی یا نوائے بے کسی یا اس طرح کی کوئی اور ترکیب گھڑیں ۔
وہ ہمیں تھے دل میں ان کے دیا پیار کا جلایا
اس میں جو یا جس نے کی کمی ہے ۔ کیوں کہ مصرع جواب شرط سے شروع ہے اور ادائے شرط ظاہر ہونی چاہیئے ۔ تب بیان بہتر ہوگا۔
کبھی ہم تھے تیرا سب کچھ، کہاں ایسی کج ادائی!
کبھی ہم تھے تیرا سب کچھ، کہاں ایسی کج ادائی!
"کہاں" پیوستہ نہیں ۔۔۔۔ کیوں اب ایسی کج ادائی قدرے بہتر ہو ۔ یا دوبارہ کہیں ۔
کیا عجیب ہم پہ گذری تری عاشقی میں ہم دم
ترا پیار دیکھا ہم نے، سہی تیری بےوفائی
کیا کی بندش بھی چست نہیں ۔ اس کی جگہ یہ کر دیں تو بہتر ہے۔
دوسرا مصرع بھی ذرا سپاٹ ہے ۔ کبھی تیرا پیار اور کبھی بیوفائی سے مصرع البتہ کچھ بہتر ہو جائے ۔
یہ وہ زخم دل ہے جاناں نہیں جس کی اب بھرائی
زخم بھرنا تو درست لیکن شعر میں بھرائی کچھ عجیب سا لگ رہا ہے۔
آخر شعر میں میں یا تودونوں مصرعوں میں مجھ استعمال کریں یا ہم ۔ ورنہ شتر گربگی کی سی کیفیت ہو گی ۔
 
آخری تدوین:

الف عین

لائبریرین
بھائی سید عاطف علی کے مشورے بہت اچھے ہیں، قبول کر لو۔
ایک غیر متعلق بات۔۔ ئ کیریکٹر کے بارے میں۔ یہ صرف نظر آنے میں ہمزہ ی کی طرح نظر آتا ہے لیکن یونیکوڈ سیٹ میں اس کی تعریف محض ہمزہ کے طور پر کی گئی ہے۔ میں بھی شروع میں اسی طرح استعمال کرتا تھا اور ایک کی سٹروک بچا لیتا تھا، ہہ سوچ کر کہ ان پیج والوں کی عادت ہے تو شاید ان کی مجبوری ہے، ہم کیوں کریں۔ کب اپنی غلطی کا احساس ہوا تو درستی کر لی۔ دیوان غالب کی ٹائپنگ اسی طرح کی گئی تھی۔ بعد میں درست کی گئی ہے لیکن جیہ والی فائل شاید وہی ہے۔
ایک دوسرے کیریکٹر ہمزہ بڑی ے کے بارے میں اب بھی میرا یہی خیال ہے کہ اسے ہمزہ + ے لکھنا غلط ہےکہ یونیکوڈ میں اسے ہمزہ ے کی طرح ہی ڈفائن کیا گیا ہے، تو اسے ہمزہ ے لکھنا علط ہو گا۔ لیکن کیا کیا جائے کہ کئی نستعلیق فانٹس میں یہ کیریکٹر ہے ہی نہیں! اس لئے مجبوراً میں بھی 'ئے' استعمال کرتا ہوں۔ موبائل یا ٹیبلیٹ میں انڈرائڈ میں بھی یہ کیریکٹر نہیں ہے اور نہ اردو میں استعمال ہونے والے واوین! اس لئے ' یا " استعمال کرنا بھی میری مجبوری ہے
 

صابرہ امین

لائبریرین
خوب صابرہ امین ۔ غزل اچھی ہے البتہ کچھ مقامات چست نہیں بندش میں ۔ جیسے کچھ ذیل ہیں۔ تھوڑا اور نظر ثانی کیجیئے ۔ یعنی دھیمی آنچ پر پکائیے۔

یہاں صدائے بے نوا گنجلگ اور متصادم سی ترکیب ہے ۔ صدائے بے کسی یا نوائے بے کسی یا اس طرح کی کوئی اور ترکیب گھڑیں ۔

اس میں جو یا جس نے کی کمی ہے ۔ کیوں کہ مصرع جواب شرط سے شروع ہے اور ادائے شرط ظاہر ہونی چاہیئے ۔ تب بیان بہتر ہوگا۔

کبھی ہم تھے تیرا سب کچھ، کہاں ایسی کج ادائی!
"کہاں" پیوستہ نہیں ۔۔۔۔ کیوں اب ایسی کج ادائی قدرے بہتر ہو ۔ یا دوبارہ کہیں ۔

کیا کی بندش بھی چست نہیں ۔ اس کی جگہ یہ کر دیں تو بہتر ہے۔
دوسرا مصرع بھی ذرا سپاٹ ہے ۔ کبھی تیرا پیار اور کبھی بیوفائی سے مصرع البتہ کچھ بہتر ہو جائے ۔

زخم بھرنا تو درست لیکن شعر میں بھرائی کچھ عجیب سا لگ رہا ہے۔
آخر شعر میں میں یا تودونوں مصرعوں میں مجھ استعمال کریں یا ہم ۔ ورنہ شتر گربگی کی سی کیفیت ہو گی ۔
بہت شکریہ عاطف بھائی ۔ ۔ دوبارہ کوشش کرتی ہوں ۔ ۔
 

صابرہ امین

لائبریرین
بھائی سید عاطف علی کے مشورے بہت اچھے ہیں، قبول کر لو۔
ایک غیر متعلق بات۔۔ ئ کیریکٹر کے بارے میں۔ یہ صرف نظر آنے میں ہمزہ ی کی طرح نظر آتا ہے لیکن یونیکوڈ سیٹ میں اس کی تعریف محض ہمزہ کے طور پر کی گئی ہے۔ میں بھی شروع میں اسی طرح استعمال کرتا تھا اور ایک کی سٹروک بچا لیتا تھا، ہہ سوچ کر کہ ان پیج والوں کی عادت ہے تو شاید ان کی مجبوری ہے، ہم کیوں کریں۔ کب اپنی غلطی کا احساس ہوا تو درستی کر لی۔ دیوان غالب کی ٹائپنگ اسی طرح کی گئی تھی۔ بعد میں درست کی گئی ہے لیکن جیہ والی فائل شاید وہی ہے۔
ایک دوسرے کیریکٹر ہمزہ بڑی ے کے بارے میں اب بھی میرا یہی خیال ہے کہ اسے ہمزہ + ے لکھنا غلط ہےکہ یونیکوڈ میں اسے ہمزہ ے کی طرح ہی ڈفائن کیا گیا ہے، تو اسے ہمزہ ے لکھنا علط ہو گا۔ لیکن کیا کیا جائے کہ کئی نستعلیق فانٹس میں یہ کیریکٹر ہے ہی نہیں! اس لئے مجبوراً میں بھی 'ئے' استعمال کرتا ہوں۔ موبائل یا ٹیبلیٹ میں انڈرائڈ میں بھی یہ کیریکٹر نہیں ہے اور نہ اردو میں استعمال ہونے والے واوین! اس لئے ' یا " استعمال کرنا بھی میری مجبوری ہے

جی بہتر استاد محترم ۔ ۔ بہت شکریہ
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
آپ کا مطلب ہے کہ "ئی" لکھنا صحیح نہیں ہے ۔ ۔ اس کو " ئ " لکھا جائے ۔ ۔ میں نے ٹھیک سمجھا ہے نا
آئندہ ٹائپنگ میں دھیان رکھوں گی ۔ ۔
جی نہیں ، آپ نے ٹھیک نہیں سمجھا ۔ "ئ " لکھنا غلط ہے ۔ درست املا "ئی" ہے ۔ یہ بات میں نے آپ کو دو دفعہ پہلے بھی سمجھائی تھی اور اس وقت بھی آپ نے یہی کہا تھا کہ آئندہ دھیان رکھیں گی لیکن درست اب تک نہیں کیا ۔ :)
 

صابرہ امین

لائبریرین
جی نہیں ، آپ نے ٹھیک نہیں سمجھا ۔ "ئ " لکھنا غلط ہے ۔ درست املا "ئی" ہے ۔ یہ بات میں نے آپ کو دو دفعہ پہلے بھی سمجھائی تھی اور اس وقت بھی آپ نے یہی کہا تھا کہ آئندہ دھیان رکھیں گی لیکن درست اب تک نہیں کیا ۔ :)
السلام علیکم ظہیر بھائی
وہ استاد محترم اور آپ کا نقطہء نظر کچھ گڑ بڑ ہو رہا ہے ہم سے ۔ ۔ اس غزل میں ایک دو جگہ "ئ" تھا اسے "ئی" کر دیا ہے ۔ ۔ ٹائپنگ زیادہ تر او سی آر کر کے کی ہے تو یاد نہیں کہ کیا حماقت کی ہے کہ پروف والوں کا کام بڑھا دیا ۔ ۔ مجھے تو یاد ہے کہ "ئی" ہی لکھا تھا ۔ ۔ استاد محترم الف عین سے میری استدعا ہے کہ آپ مجھ نالائق کو ایک مرتبہ پھر سمجھا دیجیئے کہ کتابوں کی ٹائپنگ میں کیا کرنا ہے۔ "ئی" یا "ئ"
اصلاح سخن میں تو کوئی مسئلہ نہیں ۔ ۔ ۔ پر میری کتابوں کی ٹائپنگ میں غلطی دوسروں کے لیئے پروف کا کام بڑھا دے گی ۔ ۔ جو کہ ٹھیک بات نہیں ۔ ۔
 
آخری تدوین:

سید عاطف علی

لائبریرین
یہ بات واقعی واضح ہونی چاہیئے ۔
یہ بات واقعی واضح ہونی چاہیئے ۔ میں تو ہمیشہ ئی ہی کرتا ہوں کیوں کہ فونٹ میں یہی درست لگتا ہے ۔ ئ تو عربی کتابت میں استعمال ہو سکتا ہے۔ اردو میں اس کی کوئی جگہ ہی نہیں ۔
 

صابرہ امین

لائبریرین
جی نہیں ، آپ نے ٹھیک نہیں سمجھا ۔ "ئ " لکھنا غلط ہے ۔ درست املا "ئی" ہے ۔ یہ بات میں نے آپ کو دو دفعہ پہلے بھی سمجھائی تھی اور اس وقت بھی آپ نے یہی کہا تھا کہ آئندہ دھیان رکھیں گی لیکن درست اب تک نہیں کیا ۔ :)
افففف ۔ ۔ آپ نے ہمارے اعلیٰ دماغ کا کمال ملاحظہ کر لیا ہو گا کہ یہ کبھی کبھی بالکل کام نہیں کرتا اور کچھ بھی سمجھنے سے انکار کردیتا ہے ۔ ۔ آپ کا ایک بار پھر اس نکمی شاگرد کی تصحیح کے لیئے شکریہ ۔ ۔ :)
 
آخری تدوین:

صابرہ امین

لائبریرین
توجہ دلانا مقصود ہے!!!

درست ہجے
لیے
چاہیے
ہوں گے۔

بھئ آپ کا بھی بے حد شکریہ ۔ ۔ :) :redrose::redrose::redrose:
یہ ہیں ملٹی ٹاسکنک کے نقصانات ۔ ۔ ۔ :D اپنے لکھے کو پڑھنے کی زحمت نہ کرنے کا انجام ۔ ۔ ۔ چلو بھر پانی کی شدت سے کمی محسوس ہو رہی ہے ۔ ۔ ۔:embarrassed::embarrassed::embarrassed:
ان شاء اللہ جلد سدھار آئے گا ۔ ۔ پکا وعدہ ۔ ۔ :biggrin::grin:
 

الف عین

لائبریرین
بھائی خلیل کی بھی درستی کر دوں
لئے بھی درست ہے لیکن For کے معنی میں
لینا فعل سے مشتق کے لئے 'لیے' درست ہے۔
چاہئے اور چاہیے دونوں مجھے قبول ہیں، لیکن چاہیئے یا چاہئیے نہیں
 

سید عاطف علی

لائبریرین
میں بھی ذاتی طور پر ایک لفظ کی متعدد اشکال کے درست ہونے کا قائل ہوں بشرطے کہ کوئی خاص بنیاد دی غلطی نہ ہو۔ مثلا املاء اور املا ۔ مجھ سے کسی کو بالکل غلط نہیں کہا جاتا ۔
 
آخری تدوین:
Top