صابرہ امین
لائبریرین
شکریہ عاطف بھائی ۔ ۔مجھے بھی ان میں یہی صورت بہتر لگی ۔
شکریہ عاطف بھائی ۔ ۔مجھے بھی ان میں یہی صورت بہتر لگی ۔
معزز استادِ محترم الف عین ،
محمد خلیل الرحمٰن ، سید عاطف علی
@محمّد احسن سمیع :راحل:بھائ
آپ سب سے نظر ثانی کی درخواست ہے ۔ ۔
سنے کون میری آہیں، جو نہ دیں تجھے سنائی
میں صدائے ناتواں ہوں، مجھے کیوں سنے خدائی
میں ہوں جس نے دل میں ان کے دیا پیار کا جلایا (یہ شعراصلاح کرنے سے رہ گیا تھا ۔ ۔ ابھی شامل کیا ہے ۔ ۔ امید ہے مناسب ہو گا ورنہ مزید کوشش ہو گی)
مگر اب وہ کہہ رہے ہیں کہ یہ آگ ہے پرائی
تری بزم میں تھے ہم بھی، ذرا حال تک نہ پوچھا
کہاں ہم تھے تیرا سب کچھ، کہاں ایسی کج ادائی!
یہ عجیب ہم پہ گذری تری عاشقی میں ہم دم
کبھی پیار دیکھا تیرا کبھی تیری بےوفائی
کیا قرار پا سکے گا کبھی زندگی میں وہ بھی
میرا چین جس نے لوٹا میری نیند ہے چرائی
وہ یہ کہہ رہے ہیں مجھ سے کہ بھلا دوں پیار ان کا
مگر آنکھیں کہہ رہی ہیں نہ ہو ترکِ آشنائی
ترے نام پر ہے مرنا، ترے بن بھلا کیا جینا
یہی میری چاہتیں ہیں یہی میری دلربائی
تجھے یاد کرتے رہنا، تری بات کرتے رہنا
یہی زندگی کا حاصل، یہی زیست کی کمائی
میں اگرچہ ہوں شکستہ، مجھے ڈر نہیں کسی کا
مرے آنسوؤں نے مجھ میں نئی جوت ہے جگائی
ہمیں رب کی رحمتوں سے ہے امید اب کرم کی
اسی در پہ ہم پڑے ہیں لئے کاسہِ گدائی
آداباب بھی اکثر اشعار میں کوئی نہ کوئی گڑبڑیشن ہے ۔ اس غزل سے آپ کو سیکھنے کے لئے بہت کچھ ملے گا شرط یہ ہے کہ ہر ہر شعر پر کئی کئی روز سوچ بچار کیجئے ۔ مشار اور مشار الیہ کی عدم مطابقت کو دور کیجئے ۔ واحد ، جمع میں مطابقت پیدا کیجئے ۔ دو لختی دور کیجئے ۔
ہر شعر کی نثر بنا کر لکھئے آپ کو فوراً مسئلہ معلوم ہوجائے گا ۔ مثال کے طور پر آخری شعر دیکھئے : اب ہمیں رب کی رحمتوں سے کرم کی امید ہے ۔ ہم کاسۂ گدائی لئے اسی در پر پڑے ہیں ۔ ؟؟!!
آخری سےپہلے والے شعر کی نثر بنائیے ۔ دو لختی فوراً واضح ہوجائے گی ۔
اس غزل میں عروض کی تو کوئی واضح خامی نہیں ہے اور نہ ہی کوئی فاش لسانی سقم ہے ۔ بس کچھ فائن ٹینوننگ یعنی نوک پلک سنوارنے کی ضرورت ہے ۔ اور جیسا کہ استاد محترم الف عین نے کہا بہتری کی گنجائش تو ہر کلام میں رہتی ہے ۔ اگر آپ نو آموزی کے دنوں میں محنت کی عادت ڈال لیں اور اپنے کلام کو مسلسل تنقیدی نظروں سے دیکھ دیکھ کر ردو بدل کرتی رہیں تو کچھ عرصے میں اصلاح سے فارغ ہوجائیں گی ۔ جیسا کہ پہلے بھی عرض کیا تھا کہ جب وزن اور بنیادی تکنیکی پہلوؤں پر عبور حاصل ہوجائے تو پھر مضمون اور اس کی ادائیگی کو بہتر بنانے پر توجہ دینی چاہئے ، شعر کی زبان کو سنوارنا چاہئے ۔ چونکہ آپ کو شاعری کا ذوق و شوق ہے اور تجویز کردہ اصلاحات پر عمل بھی کرتی ہیں اس لئے چند نکات ان اشعار کے توسط سے آپ کی رہنمائی اور افادۂ عام کے لئے لکھتا ہوں ۔ یہ میرے ناقص فہم اور ادنیٰ رائے پر مبنی ہیں ۔ شاید کبھی کام آجائیں ۔اب بھی اکثر اشعار میں کوئی نہ کوئی گڑبڑیشن ہے ۔ اس غزل سے آپ کو سیکھنے کے لئے بہت کچھ ملے گا شرط یہ ہے کہ ہر ہر شعر پر کئی کئی روز سوچ بچار کیجئے ۔ مشار اور مشار الیہ کی عدم مطابقت کو دور کیجئے ۔ واحد ، جمع میں مطابقت پیدا کیجئے ۔ دو لختی دور کیجئے ۔
ہر شعر کی نثر بنا کر لکھئے آپ کو فوراً مسئلہ معلوم ہوجائے گا ۔ مثال کے طور پر آخری شعر دیکھئے : اب ہمیں رب کی رحمتوں سے کرم کی امید ہے ۔ ہم کاسۂ گدائی لئے اسی در پر پڑے ہیں ۔ ؟؟!!
آخری سےپہلے والے شعر کی نثر بنائیے ۔ دو لختی فوراً واضح ہوجائے گی ۔
دوسرے مصرع میں بیانیے کی منطق درست نہیں ۔ خلق کا صدا کو نہ سننا صدا کی ناتوانی کے سبب ہے۔ اس لئے کیوں سنے خدائی درست نہیں بلکہ کیونکر سنے خدائی یا کیسے سنے خدائی درست ہوگا ۔ چونکہ ایسا کہنا عروضی بندش کی وجہ سے ممکن نہیں اس لئے قریب ترین صورت " میں صدائے ناتواں ہوں ، مجھے کیا سنے خدائی" زیادہ منطقی رہےگی ۔ لیکن اس سے بہتر یہ ہے کہ صدا کو ناتوانی کے بجائے کچھ اور صفت دیجئے تاکہ کیوں سنے خدائی کا جواز پیدا کیا جاسکے ۔ مثلاً میں صدائے غم زدہ ہوں مجھے کیوں سنے خدائی / میں صدائے دل زدہ ہوں ۔۔۔۔۔۔ وغیرہسنے کون میری آہیں، جو نہ دیں تجھے سنائی
میں صدائے ناتواں ہوں، مجھے کیوں سنے خدائی
پیار کا دیا جلانا استعارہ ہے روشنی کا ، اجالے کا اور فراخدلی کا ۔ سو اس سیاق و سباق میں دیئے کو آگ کہنا کچھ عجیب لگ رہا ہے اور وہ بھی پرائی آگ کہ جس کے استعاراتی معنی مختلف نکلتے ہیں ۔ جیسا کہ پہلے بھی عرض کیا تھا کہ شعر میں رعایات کو مربوط ہونا چاہئے ۔ اسے یوں کرکے دیکھئے:میں ہوں جس نے دل میں ان کے دیا پیار کا جلایا
مگر اب وہ کہہ رہے ہیں کہ یہ آگ ہے پرائی
ان مصرعوں پر اعجاز بھائی نے اصلاح دے ہی دی ہے کہ "نیند بھی چرائی" بہتر بیان اور رواں تر ہے ۔ پہلے مصرع میں آپ نے "کیا" کو یک حرفی باندھا ہے جو درست نہیں۔ خصوصاً اس بحر میں یوں کرنے سے روانی شدید متاثر ہورہی ہے ۔ اس لئے نہ قرار پاسکے گا بہتر ہے ۔کیا قرار پا سکے گا کبھی زندگی میں وہ بھی
مرا چین جس نے لوٹا مری نیند ہے چرائی
کس کی آنکھیں ؟ دوسری بات یہ کہ اس بیانیے میں "نہ ہو ترکِ آشنائی" کے بجائے "نہ کرو ترک آشنائی" بہتر اور فصیح زبان ہوگی ۔وہ یہ کہہ رہے ہیں مجھ سے کہ بھلا دوں پیار ان کا
مگر آنکھیں کہہ رہی ہیں نہ ہو ترکِ آشنائی
یہاں مصر ثانی میں "یہی" کا اشارہ مصرع اول میں بیان کردہ باتوں کی طرف ہے ۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ "یہی چاہتیں" جمع کا صیغہ ہے اور مصرع اول میں کوئی شے قابل تعدید (یعنی گنتی کے قابل) نہیں ہے ۔ سو دوسرے مصرع میں "یہی چاہت" ہونا چاہئے ۔ یعنی:ترے نام پر ہے مرنا، ترے بن بھلا کیا جینا
یہی میری چاہتیں ہیں یہی میری دلربائی
یہ دونوں مصرعے مربوط نہیں ۔ دو لخت شعر ہے ۔ وجہ پر آپ خود غور کیجئے ۔میں اگرچہ ہوں شکستہ، مجھے ڈر نہیں کسی کا
مرے آنسوؤں نے مجھ میں نئی جوت ہے جگائی
اس شعر پر پچھلے مراسلے میں لکھا تھا ۔ اس میں ایسے الفاظ یا اسلوب کی کمی ہے جو دونوں مصرعوں میں کہی گئی بات کو آپس میں جوڑ سکے ۔ اس کی سادہ نثر یوں بنی: اب ہمیں رب کی رحمتوں سے کرم کی امید ہے ۔ ہم کاسۂ گدائی لئے اسی در پر پڑے ہیں ۔ہمیں رب کی رحمتوں سے ہے امید اب کرم کی
اسی در پہ ہم پڑے ہیں لئے کاسہِ گدائی
آداباس غزل میں عروض کی تو کوئی واضح خامی نہیں ہے اور نہ ہی کوئی فاش لسانی سقم ہے ۔ بس کچھ فائن ٹینوننگ یعنی نوک پلک سنوارنے کی ضرورت ہے ۔ اور جیسا کہ استاد محترم الف عین نے کہا بہتری کی گنجائش تو ہر کلام میں رہتی ہے ۔ اگر آپ نو آموزی کے دنوں میں محنت کی عادت ڈال لیں اور اپنے کلام کو مسلسل تنقیدی نظروں سے دیکھ دیکھ کر ردو بدل کرتی رہیں تو کچھ عرصے میں اصلاح سے فارغ ہوجائیں گی ۔ جیسا کہ پہلے بھی عرض کیا تھا کہ جب وزن اور بنیادی تکنیکی پہلوؤں پر عبور حاصل ہوجائے تو پھر مضمون اور اس کی ادائیگی کو بہتر بنانے پر توجہ دینی چاہئے ، شعر کی زبان کو سنوارنا چاہئے ۔ چونکہ آپ کو شاعری کا ذوق و شوق ہے اور تجویز کردہ اصلاحات پر عمل بھی کرتی ہیں اس لئے چند نکات ان اشعار کے توسط سے آپ کی رہنمائی اور افادۂ عام کے لئے لکھتا ہوں ۔ یہ میرے ناقص فہم اور ادنیٰ رائے پر مبنی ہیں ۔ شاید کبھی کام آجائیں ۔
دوسرے مصرع میں بیانیے کی منطق درست نہیں ۔ خلق کا صدا کو نہ سننا صدا کی ناتوانی کے سبب ہے۔ اس لئے کیوں سنے خدائی درست نہیں بلکہ کیونکر سنے خدائی یا کیسے سنے خدائی درست ہوگا ۔ چونکہ ایسا کہنا عروضی بندش کی وجہ سے ممکن نہیں اس لئے قریب ترین صورت " میں صدائے ناتواں ہوں ، مجھے کیا سنے خدائی" زیادہ منطقی رہےگی ۔ لیکن اس سے بہتر یہ ہے کہ صدا کو ناتوانی کے بجائے کچھ اور صفت دیجئے تاکہ کیوں سنے خدائی کا جواز پیدا کیا جاسکے ۔ مثلاً میں صدائے غم زدہ ہوں مجھے کیوں سنے خدائی / میں صدائے دل زدہ ہوں ۔۔۔۔۔۔ وغیرہ
پیار کا دیا جلانا استعارہ ہے روشنی کا ، اجالے کا اور فراخدلی کا ۔ سو اس سیاق و سباق میں دیئے کو آگ کہنا کچھ عجیب لگ رہا ہے اور وہ بھی پرائی آگ کہ جس کے استعاراتی معنی مختلف نکلتے ہیں ۔ جیسا کہ پہلے بھی عرض کیا تھا کہ شعر میں رعایات کو مربوط ہونا چاہئے ۔ اسے یوں کرکے دیکھئے:
میں نے ان کے خالی دل میں دیئے پیار کے جلائے
مجھے اب وہ کہہ رہے ہیں ، یہ ہے روشنی پرائی
نوٹ کیجئے کہ پہلے مصرع میں بندشِ الفاظ کو نثر سے قریب کیا جاسکتا ہے اور اسقاطِ حروف کو بہتر بنایا جاسکتا ہے۔
ان مصرعوں پر اعجاز بھائی نے اصلاح دے ہی دی ہے کہ "نیند بھی چرائی" بہتر بیان اور رواں تر ہے ۔ پہلے مصرع میں آپ نے "کیا" کو یک حرفی باندھا ہے جو درست نہیں۔ خصوصاً اس بحر میں یوں کرنے سے روانی شدید متاثر ہورہی ہے ۔ اس لئے نہ قرار پاسکے گا بہتر ہے ۔
کس کی آنکھیں ؟ دوسری بات یہ کہ اس بیانیے میں "نہ ہو ترکِ آشنائی" کے بجائے "نہ کرو ترک آشنائی" بہتر اور فصیح زبان ہوگی ۔
یہاں مصر ثانی میں "یہی" کا اشارہ مصرع اول میں بیان کردہ باتوں کی طرف ہے ۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ "یہی چاہتیں" جمع کا صیغہ ہے اور مصرع اول میں کوئی شے قابل تعدید (یعنی گنتی کے قابل) نہیں ہے ۔ سو دوسرے مصرع میں "یہی چاہت" ہونا چاہئے ۔ یعنی:
ترے نام پر ہے مرنا، ترے بن بھلا کیا جینا
یہی تو ہے میری چاہت ، یہی میری دلربائی
دوسرا مسئلہ اس شعر میں یہ ہے کہ یہاں دلربائی کا لفظ غیر متعلق ہے ۔ دلربا یعنی دلکش یعنی کو اپنی طرف کھینچنے والا ، خوبصورت۔ (استعارۃً معشوق مراد ہوتا ہے)۔ پہلے مصرع میں شاعر نے جو دعوٰی کیا ہے اس کے بعد یہ تو کہا جاسکتا ہے کہ یہ ہے میری چاہت اور یہ ہے میری وفا ۔ لیکن یہ ہے میری دلربائی کہنا چہ معنی ۔ یہاں وفا ، محبت ، جانثاری وغیرہ کے قبیل سے کوئی لفظ لانا چاہئے ۔ یہ لفظ ڈھونڈنا آپ کا ہوم ورک ہے ۔
یہ دونوں مصرعے مربوط نہیں ۔ دو لخت شعر ہے ۔ وجہ پر آپ خود غور کیجئے ۔
اس شعر پر پچھلے مراسلے میں لکھا تھا ۔ اس میں ایسے الفاظ یا اسلوب کی کمی ہے جو دونوں مصرعوں میں کہی گئی بات کو آپس میں جوڑ سکے ۔ اس کی سادہ نثر یوں بنی: اب ہمیں رب کی رحمتوں سے کرم کی امید ہے ۔ ہم کاسۂ گدائی لئے اسی در پر پڑے ہیں ۔
پہلے مصرع میں "اب" استعمال کرنے کے بعد ضروری ہے کہ دوسرے میں مصرع کسی واقعہ کے ہونے کا ذکر کیا جائے ۔ جیسے : اب ہمیں رب کی رحمتوں سے کرم کی امید ہے (کیونکہ) ہم کاسۂ گدائی لئے اس کے در پر آگئے ہیں۔ دوئم یہ کہ یہاں اسی در کے بجائے اس کے در کا محل ہے ۔ سوئم یہ کہ اس شعر میں جمع متکلم کے صیغے کی کوئی ضرورت یا مصلحت نہیں۔ صیغہ واحد بہتر ہوگا ۔ پنجم یہ کہ رحمتوں سے کرم کی امید کمزور بیانیہ ہے ۔ شاعری ذرا منفرد اور زور دار انداز مانگتی ہے ۔ رحمتوں کا لفظ حشو و زائد میں شمار ہوگا کہ اس سے شعر کے معنوں میں یا خوبصورتی میں کوئی اضافہ نہیں ہورہا ۔ رحمتوں کے بجائے یہاں در اور کاسۂ گدائی کی نسبت سے کوئی اور لفظ استعمال کیجئے ۔ مثلاً : مجھے رب کی بارگہ سے ہے امید ۔۔۔ وغیرہ
امید ہے کہ یہ چند نکات کار آمد اور مفید ثابت ہونگے ۔
آدابظہیراحمدظہیر نے یہ سب شاید محض اس لئے لکھا ہے کہ تم غور کرنا سیکھو۔ میں بھی یہ تو لکھنے والا تھا کہ تم کئی کئی متبادلات لکھتی ہو، لیکن گیند ہمارے کورٹ میں پھینکنے کے بعد سوچتی ہو گی کہ اساتذہ کچھ تو قبول کر لیں گے۔ مگر یہ بھی تو دیکھا کرو کہ بطور قاری کے واقعی کیا بہتر ہے۔
بہتری کی گنجائش تو رہتی ہے ہر ایک کے اشعار میں۔ ویسے تمہاری اس غزل میں اتنی گڑبڑ بھی نہیں ہے۔
اب اس شعر کو دیکھو
کیا قرار پا سکے گا کبھی زندگی میں وہ بھی
مرا چین جس نے لوٹا مری نیند ہے چرائی
اگر 'نہ قرار پا.....' کہا جائے تو بہتر نہیں ہو گا!
مری نیند ہے چرائی... بھی اچھا نہیں، ہے کی بجائے 'بھی' کر کے دیکھو!
25 ہزار روپے، بذریعہ منی آرڈر مدیرِ اعلیٰ کے پتے پر ارسال کرنا پڑتے ہیں ۔۔۔ جب مدیر اعلیٰ رقم وصول کر لے تو وہ آپ کو ایک لنک بھیجتا ہے، جس میں اپنا مواد ارسال کرنے کے بارے میں تمام ہدایات موجود ہوتی ہیں۔اس ویب سائٹ پر اپنا مواد کیسے ارسال کرتے ہیں
آپ کی سفارش سے کچھ رعایت ملنے کا امکان ہے؟25 ہزار روپے، بذریعہ منی آرڈر مدیرِ اعلیٰ کے پتے پر ارسال کرنا پڑتے ہیں ۔۔۔ جب مدیر اعلیٰ رقم وصول کر لے تو وہ آپ کو ایک لنک بھیجتا ہے، جس میں اپنا مواد ارسال کرنے کے بارے میں تمام ہدایات موجود ہوتی ہیں۔
ہاں، اس کے علاوہ مکان کے کاغذات گروی رکھوانے پڑتے ہیں، اور ایک گردہ عطیہ کرنا پڑتا ہے!!!
ارے بھائی، متعلقہ زمرے میں جائیں، اوپر بائیں کونے میں دیکھیں تو ایک بٹن بنا ہوا ہوتا ہے جس پر لکھا ہوتا ہے ’’نئی لڑی ارسال کریں‘‘۔ اس پر کلک کریں گے تو نئی لڑی بنانے کا پیج کھل جائے گا۔
رعایت انہوں نے سرگوشی میں کر دی ہے ۔ اب اور کیا چاہیے ؟آپ کی سفارش سے کچھ رعایت ملنے کا امکان ہے؟
راحل بھائی ، گردہ گائے کا یا بکری کا ؟! کٹاکٹ کھائے تو مجھے بھی زمانہ ہوگیا ۔25 ہزار روپے، بذریعہ منی آرڈر مدیرِ اعلیٰ کے پتے پر ارسال کرنا پڑتے ہیں ۔۔۔ جب مدیر اعلیٰ رقم وصول کر لے تو وہ آپ کو ایک لنک بھیجتا ہے، جس میں اپنا مواد ارسال کرنے کے بارے میں تمام ہدایات موجود ہوتی ہیں۔
ہاں، اس کے علاوہ مکان کے کاغذات گروی رکھوانے پڑتے ہیں، اور ایک گردہ عطیہ کرنا پڑتا ہے!!!
ارے بھائی، متعلقہ زمرے میں جائیں، اوپر بائیں کونے میں دیکھیں تو ایک بٹن بنا ہوا ہوتا ہے جس پر لکھا ہوتا ہے ’’نئی لڑی ارسال کریں‘‘۔ اس پر کلک کریں گے تو نئی لڑی بنانے کا پیج کھل جائے گا۔
میں آپ کی شکر گذار ہوں ۔ ۔ جلد حاضر ہوتی ہیں ۔ ۔سنے کون میری آہیں، جو نہ دیں تجھے سنائ
میں صدائےِ غم زدہ ہوں، مجھے کیوں سنے خدائ
یا
سنے کون میری آہیں، جو نہ دیں تجھے سنائ
یہ صدائے غم زدہ ہیں انہیں کیوں سنے خدائی
----------------------------------------------------- دونوں درست ہی ہیں، جو تم کو خود پسند ہو، رکھو
میں نے ان کے خالی دل میں دیئے پیار کے جلائے
مجھے اب وہ کہہ رہے ہیں ، یہ ہے روشنی پرائی
------------------------------------------------------ درست
تری بزم میں تھے ہم بھی، ذرا حال تک نہ پوچھا
کہاں ہم تھے تیرا سب کچھ، کہاں ایسی کج ادائی!
-------------------------------------------------- درست
یہ عجیب ہم پہ گذری تری عاشقی میں ہم دم
کبھی پیار دیکھا تیرا، کبھی تیری بےوفائی
--------------------------------------------------- درست
نہ قرار پا سکے گا کبھی زندگی میں وہ بھی
مرا چین جس نے لوٹا، مری نیند بھی چرائی
-------------------------------------------------- درست
وہ جو مجھ سے کہہ رہے ہیں کہ بھلا دوں پیار ان کا
ذرا وہ بھی کر کے دیکھیں کبھی ترکِ آشنائی
یا
وہ یہ کہہ رہے ہیں مجھ سے کہ بھلا دوں پیار ان کا
کیا بھلا سکیں گے وہ بھی کبھی زخم آشنائی
یا
وہ اگرچہ کہہ رہے ہیں میں بھلا دوں پیار ان کا
وہ بھی جانتے ہیں ممکن نہیں ترک آشنائی
-------------------------------------------------- پہلا متبادل( متبادل نہیں) بہتر ہے
ترے نام پر ہے مرنا، ترے بن بھلا کیا جینا
یہی تو ہے میری چاہت ، یہی میری جاں فدائی
ترے نام پر ہے مرنا، ترے بن بھلا کیا جینا
یہی تو ہے میری چاہت ، یہی ہے غم جدائی
یا
ترے نام پر ہے مرنا، ترے بن بھلا کیا جینا
یہی تو ہے میری چاہت ، یہی عہدِ باوفائی
ترے نام پر ہے مرنا، ترے بن بھلا کیا جینا
یہی تو ہے میری چاہت ، یہی طرز خوش ادائی
یا
ترے نام پر ہے مرنا، ترے بن بھلا کیا جینا
یہی تو ہے میری چاہت، ہے یہی سخن آرائی
--------------------------------------------------- فائنل شکل یوں رکھو، پہلا مصرع بھی تو گڑبڑ ہے
ترے نام سے ہی جینا، ترے نام پر ہی مرنا
یہی بس ہے میری چاہت، یہی زیست کی کمائی
تجھے یاد کرتے رہنا، تری بات کرتے رہنا
یہی زندگی کا حاصل، یہی زیست کی کمائی
-------------------------------------------------------- یہ بھی درست ہے، دونوں میں سے ایک رکھو، یا اوپر والا یا یہ۔
یہ کٹھن تو ہو گا مجھ کو تمہیں بھولنا ہی ہو گا
مرے آنسوؤں نے مجھ میں نئی جوت ہے جگائی
یا
مرے دل کی ہے تمنا، تمہیں جیتنا ہے اک دن
مرے آنسوؤں نے مجھ میں نئی جوت ہے جگائی
-------------------------------------------------------- دوسرا متبادل بہتر ہے
کبھی ڈال دے تو شائد کبھی اک نظر کرم کی
ترے در پہ ہم پڑے ہیں، لیئے کاسہءِ گدائ
یا
مجھے رب کی بارگہ سے ہے امید اب کرم کی
وہی چارہ گر بھرے گا مرا زخمِ نارسائی
.. پہلا متبادل بہتر ہے
افففف ۔ ۔ معلوم نہیں کس دھن میں لکھ دیا ۔ ۔ آج سے پہلے تو نہیں لکھا ۔ ۔ معذرت استاد محترم ۔ ۔ شکریہ ۔ ۔پہلا متبادل( متابادل نہیں) بہتر ہے