سنے کون میری آہیں، جو نہ دیں تجھے سنائی

صابرہ امین

لائبریرین
آداب
اس غزل کے اشعار ظہیراحمدظہیر صاحب کی ایک خوبصورت غزل پڑھ کر دماغ میں آ گئے تھے ۔ ۔ تو اس میں سارا قصور ان کا ہے ہماری کوئی غلطی نہیں ۔ ۔ :D

یہاں صدائے بے نوا گنجلگ اور متصادم سی ترکیب ہے ۔ صدائے بے کسی یا نوائے بے کسی یا اس طرح کی کوئی اور ترکیب گھڑیں ۔
کچھ تراکیب بنائی ہیں ملاحظہ کیجیئے ۔ ۔
سنے کون میری آہیں، جو نہ دیں تجھے سنائی
جو تو ہی نہیں سنے تو، مجھے کیوں سنے خدائی

یا
سنے کون میری آہیں، جو نہ دیں تجھے سنائی
میں صدائے غم زدہ ہوں، مجھے کیوں سنے خدائی
یا

سنے کون میری آہیں، جو نہ دیں تجھے سنائی
میں صدائے ناتواں ہوں، مجھے کیوں سنے خدائی

یا
سنے کون میری آہیں، جو نہ دیں تجھے سنائی
میں صدائے مضمحل ہوں، مجھے کیوں سنے خدائی

اس میں جو یا جس نے کی کمی ہے ۔ کیوں کہ مصرع جواب شرط سے شروع ہے اور ادائے شرط ظاہر ہونی چاہیئے ۔ تب بیان بہتر ہوگا۔

کبھی ہم تھے تیرا سب کچھ، کہاں ایسی کج ادائی!
"کہاں" پیوستہ نہیں ۔۔۔۔ کیوں اب ایسی کج ادائی قدرے بہتر ہو ۔ یا دوبارہ کہیں ۔
دیکھیے ۔ ۔

تری بزم میں تھے ہم بھی تو نے حال تک نہ پوچھا
کبھی ہم تھے تیرا سب کچھ، کیوں اب ایسی کج ادائی!

یا
تری بزم میں تھے ہم بھی تو نے حال تک نہ پوچھا
کہاں ہم تھے تیرا سب کچھ، کہاں ایسی کج ادائی!

یا


تری بزم میں تھے ہم بھی تو نے حال تک نہ پوچھا
مجھے یہ بتا دے ظالم کیوں اب ایسی کج ادائی!

یا


تری بزم میں تھے ہم بھی تو نے حال تک نہ پوچھا
تجھے کیا ملا دکھا کے مجھے ایسی کج ادائی


کیا عجیب ہم پہ گذری تری عاشقی میں ہم دم
ترا پیار دیکھا ہم نے، سہی تیری بےوفائی

کیا کی بندش بھی چست نہیں ۔ اس کی جگہ یہ کر دیں تو بہتر ہے۔
دوسرا مصرع بھی ذرا سپاٹ ہے ۔ کبھی تیرا پیار اور کبھی بیوفائی سے مصرع البتہ کچھ بہتر ہو جائے ۔
اب دیکھئے ۔ ۔

یہ عجیب ہم پہ گذری تری عاشقی میں ہم دم
کبھی پیار دیکھا تیرا کبھی تیری بےوفائی

وہ یہ کہہ رہے ہیں ہم سے کہ بھلا دیں پیار ان کا
یہ وہ زخم دل ہے جاناں نہیں جس کی اب بھرائی

زخم بھرنا تو درست لیکن شعر میں بھرائی کچھ عجیب سا لگ رہا ہے۔
آخر شعر میں میں یا تودونوں مصرعوں میں مجھ استعمال کریں یا ہم ۔ ورنہ شتر گربگی کی سی کیفیت ہو گی ۔
کون سا متبادل بہتر رہے گا ۔ ۔

وہ یہ کہہ رہے ہیں مجھ سے کہ بھلا دوں پیار ان کا
مرے جذبوں کی یہ قیمت مجھے کس طرح چکائی


یا

وہ یہ کہہ رہے ہیں مجھ سے کہ بھلا دوں پیار ان کا
میں یہ کیسے مان جاؤں نہ تھی کوئی آشنائی
 
آخری تدوین:

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
میں بھی ذاتی طور پر ایک لفظ کی متعدد اشکال کے درست ہونے کا قائل ہوں بشرطے کہ کوئی خاص بنیاد دی غلطی نہ ہو۔ مثلا املاء اور املا ۔ مجھ سے کسی کو بالکل غلط نہیں کہا جاتا ۔
یہی حال میرا بھی ہے عاطف بھائی ۔ میں اور میرے ہم عمر جن کتابوں اور رسالوں کو پڑھ کر بڑے ہوئے ان میں املا کی ایک سے زیادہ صورتیں عام تھیں ۔ سو بچپن کی عادت جاتے جاتے ہی جائے گی ۔ املا کی اس گمبھیر صورتحال کا ادراک کرتے ہوئے اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی لایعنی اور لاحاصل بحثوں کو سمیٹنے کی خاطر ہی املا کمیٹی وجود میں لائی گئی اور برسوں پر محیط تفصیلی بحث و تمحیص کے بعد ان قابل قدر علمائے کرام کی جانب سے اردو کے معیاری املا کی سفارشات پیش کی گئیں ۔ کمپیوٹر کے دور میں معیاری املا کی ضرورت اور اہمیت سے کس کو انکار ہوسکتا ہے ۔ سرچ انجن اور کمپیوٹر کے دیگر پروگرام اس پر انحصار کرتے ہیں ۔ سو ہم سب کو یہی کوشش کرنی چاہئے کہ املا کمیٹی کی سفارشات پر عمل کریں اور ایک املا کو معیار بنالیں ۔ کمپیوٹر کے اس دور میں ایک سے زیادہ املا کا عام استعمال آئندہ کے لئے مشکلات پیدا کرے گا۔ سافٹ ویئر بنانے والوں کی راہ میں رکاوٹ بنے گا۔ کوشش تو میں بھی بہت کرتا ہوں لیکن پھر بھی کہیں نہ کہیں غلطی ہوجاتی ہے اور مختلف املا لکھ جاتا ہوں ۔ :):):)
املا کی بحث غلط اور صحیح کی بحث نہیں ہے بلکہ یہ بحث تو ایک معیاری املا کی ترویج سے متعلق ہے ۔ چونکہ اردو میں روزِ اول سے کئی الفاظ کا املا بوجوہ مختلف فیہ رہا ہے اس لئے کسی ایک کو غلط یا صحیح کہنا ممکن ہی نہیں کیونکہ زبان بولنے اور لکھنے میں رواج اور چلن کی اہمیت ہر چیز سے بڑھ کر ہے ۔ لیکن اب وقت آگیا ہے کہ اردو کے ایک معیاری املا پر متفق ہواجائے اور اس کی ترویج کی جائے ۔ آج کی ہماری ان کوششوں کا ثمر کئی نسلوں بعد والے لوگ پائیں گے ۔
بلا سے ہم نے نہ دیکھا تو اور دیکھیں گے
فروغِ گلشن و صوتِ ہزار کا موسم
 

صابرہ امین

لائبریرین
اردو املا از رشید حسن خان
اردو املا : رشید حسن خان : Free Download, Borrow, and Streaming : Internet Archive

غالبِ خستہ کے بغیر کون سے کام بند ہیں ِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِ
روئیے زار زار کیا، کیجیے ہائے ہائے کیوں​
بہت شکریہ ۔ ۔ کیا بات ہے آپ سب کی ۔ ۔ :)
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
السلام علیکم ظہیر بھائی
وہ استاد محترم اور آپ کا نقطہء نظر کچھ گڑ بڑ ہو رہا ہے ہم سے ۔ ۔ اس غزل میں ایک دو جگہ "ئ" تھا اسے "ئی" کر دیا ہے ۔ ۔ ٹائپنگ زیادہ تر او سی آر کر کے کی ہے تو یاد نہیں کہ کیا حماقت کی ہے کہ پروف والوں کا کام بڑھا دیا ۔ ۔ مجھے تو یاد ہے کہ "ئی" ہی لکھا تھا ۔ ۔ استاد محترم الف عین سے میری استدعا ہے کہ آپ مجھ نالائق کو ایک مرتبہ پھر سمجھا دیجیئے کہ کتابوں کی ٹائپنگ میں کیا کرنا ہے۔ "ئی" یا "ئ"
اصلاح سخن میں تو کوئی مسئلہ نہیں ۔ ۔ ۔ پر میری کتابوں کی ٹائپنگ میں غلطی دوسروں کے لیئے پروف کا کام بڑھا دے گی ۔ ۔ جو کہ ٹھیک بات نہیں ۔ ۔
"ئ" دراصل ہمزہ کی شکل ہے ۔ اس ہمزہ کو "ی" کی کرسی پر بٹھادیا گیا ہے ۔ یعنی یہ ہمزہ حرف کے اوپر آتا ہے ، بیس لائن پر نہیں لکھا جاتا ۔ "ئ" کو آپ کیبورڈ پرمحض ایک کلید دبانے سے لکھ سکتے ہیں جبکہ "ئی" لکھنے کے لئے دو کلیدیں دبانا پڑتی ہیں ۔ یعنی پہلے "ئ" کی کلید اور پھر "ی" کی کلید دبائیں تو "ئی" لکھا جاتا ہے ۔
 

صابرہ امین

لائبریرین
"ئ" دراصل ہمزہ کی شکل ہے ۔ اس ہمزہ کو "ی" کی کرسی پر بٹھادیا گیا ہے ۔ یعنی یہ ہمزہ حرف کے اوپر آتا ہے ، بیس لائن پر نہیں لکھا جاتا ۔ "ئ" کو آپ کیبورڈ پرمحض ایک کلید دبانے سے لکھ سکتے ہیں جبکہ "ئی" لکھنے کے لئے دو کلیدیں دبانا پڑتی ہیں ۔ یعنی پہلے "ئ" کی کلید اور پھر "ی" کی کلید دبائیں تو "ئی" لکھا جاتا ہے ۔
:applause::applause::applause:
 

سید عاطف علی

لائبریرین
یہی حال میرا بھی ہے عاطف بھائی ۔ میں اور میرے ہم عمر جن کتابوں اور رسالوں کو پڑھ کر بڑے ہوئے ان میں املا کی ایک سے زیادہ صورتیں عام تھیں ۔ سو بچپن کی عادت جاتے جاتے ہی جائے گی ۔ املا کی اس گمبھیر صورتحال کا ادراک کرتے ہوئے اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی لایعنی اور لاحاصل بحثوں کو سمیٹنے کی خاطر ہی املا کمیٹی وجود میں لائی گئی اور برسوں پر محیط تفصیلی بحث و تمحیص کے بعد ان قابل قدر علمائے کرام کی جانب سے اردو کے معیاری املا کی سفارشات پیش کی گئیں ۔ کمپیوٹر کے دور میں معیاری املا کی ضرورت اور اہمیت سے کس کو انکار ہوسکتا ہے ۔ سرچ انجن اور کمپیوٹر کے دیگر پروگرام اس پر انحصار کرتے ہیں ۔ سو ہم سب کو یہی کوشش کرنی چاہئے کہ املا کمیٹی کی سفارشات پر عمل کریں اور ایک املا کو معیار بنالیں ۔ کمپیوٹر کے اس دور میں ایک سے زیادہ املا کا عام استعمال آئندہ کے لئے مشکلات پیدا کرے گا۔ سافٹ ویئر بنانے والوں کی راہ میں رکاوٹ بنے گا۔ کوشش تو میں بھی بہت کرتا ہوں لیکن پھر بھی کہیں نہ کہیں غلطی ہوجاتی ہے اور مختلف املا لکھ جاتا ہوں ۔ :):):)
املا کی بحث غلط اور صحیح کی بحث نہیں ہے بلکہ یہ بحث تو ایک معیاری املا کی ترویج سے متعلق ہے ۔ چونکہ اردو میں روزِ اول سے کئی الفاظ کا املا بوجوہ مختلف فیہ رہا ہے اس لئے کسی ایک کو غلط یا صحیح کہنا ممکن ہی نہیں کیونکہ زبان بولنے اور لکھنے میں رواج اور چلن کی اہمیت ہر چیز سے بڑھ کر ہے ۔ لیکن اب وقت آگیا ہے کہ اردو کے ایک معیاری املا پر متفق ہواجائے اور اس کی ترویج کی جائے ۔ آج کی ہماری ان کوششوں کا ثمر کئی نسلوں بعد والے لوگ پائیں گے ۔
بلا سے ہم نے نہ دیکھا تو اور دیکھیں گے
فروغِ گلشن و صوتِ ہزار کا موسم
ظہیر بھائی درست فرمایا ۔ آپ کی رائے اور اس کے پیچھے حکمت یقیناً قیمتی ہے ۔ میں بنیادی طور پر اب ڈائیورسٹی کا (قائل ہو گیا ہوں اور ہوتا جارہا) ہوں اور سمجھتا ہوں کہ ہر چیز، جس کے پیچھے کوئی ٹھوس بنیاد ہو اس کو باقی رکھنا ایک قدرتی تقاضا ہے۔یہ تنوع، ایک ایسا عنصر ہے جو انسانی اذہان کے ہر پرداختہ نظام کا ایک لازمی جزو ہے خواہ وہ تہذیبی ثقافتی یا مذہبی ہی کیوں نہ ہو میں اسے ایک فطری امر جانتا ہوں ۔ یہ عنصر ہر جگہ ہرنظام میں اپنے اثرات کسی نہ کسی سطح پر دکھاتا نظر آئے گا۔ اسی سے انسانی تاریخ بنتی ہے اور کسی بھی تاریخی روایتی تہذیبی یا ثقافتی سلسلے کو اس سے مبرا نہیں پایا جا سکتا ۔یہ اپنی سادہ یا پیچیدہ شکل میں کہیں نہ کہیں اپنی جگہ کارفرما نظر آ ہی جائے گا۔
آج کے دور میں کمپیوٹر ہارڈ وئیر اور سافٹ وئیر جتنے ذہین ہو رہے ہیں یہ اس تاثر سے کہیں زیادہ پیچیدہ ہیں جو عموماً ہم سمجھتے ہیں۔ آج کے نیٹورکس میں ڈیوائسز سمارٹ نہیں بلکہ نیٹورکس کے پورے پورے پلیٹ فارمز تک سمارٹ ہوتے جارہے ہیں۔ مجموعی طور پر اس ماحول میں یہ معمولی اور عارضی قسم کے ممکنہ مسائل آئندہ کے تکنیکی پس منظر میں کوئی رکاوٹ نہیں بنیں گے ۔ ہمارا پیدا کردہ مواد وڈیو وؤائس یا ٹیکسٹ کے شکل میں جب ایک جگہ سے دوسری جگہ سے پہنچتا ہے اور محفوظ ہوتا ہے، وہ انتہائی پیچیدہ طریقہ ہائے کار سے گزرتا ہے جس میں ہر ایک قسم کی ترجیحات اور اینا لائٹکس کے عوامل لا گو ہوتے رہتے ہیں ۔میرے خیال میں اس بنیاد پر ہم کہہ سکتے ہیں کہ آئندہ کے سوفٹ وئیر سرچ انجنز اور دیگر نظام ان تمام املائی اشکال کو با آسانی مؤثر طور پر ہینڈل کر سکیں گے۔
اگر کوئی کمیٹی بالفرض ایک شکل پر متفق بھی ہو تو بھی ایک اور کمیٹی (بلکہ زیادہ)کے وجود میں آنے کا امکان یکسر معدوم نہیں ہو سکتا ۔ بھلا حضرت انسان کبھی کسی ایک چیز پر متحد و متفق ہوا ہے یا کبھی ہو سکے گا خواہ کوئی بھی میدان ہو؟ یہ محض ایک خواب ہو سکتا ہے ۔ میں ذاتی طور پر نہیں چاہتا کہ آنے والی نسلیں یقیناًہماری کاوشوں سے مستفید ہونے کی مستحق ہیں لیکن کیا ضروری ہے کہ وہ کسی ایک ثمر پر اکتفاء کریں ؟ بلکہ انہیں ان تمام کاکٹیل سے بھی متمتع ہونے کا پورا موقع ملنا چاہیئے جن کے پیچھے کوئی نہ کوئی ٹھوس بنیاد ہو ۔
اگر آپ گیدڑ اور لومڑی کو دیکھیں تو شاید نوے فیصد محفلین پہچان بھی نہ سکیں کہ کون کیا ہے ۔دونوں ایک جیسی شکل اور ایک جیسے خوراک و جسامت بھی رکھتے ہیں لیکن اس کے با وجود ہر ایک کی اپنی ایک شناخت ہے۔ اس لیے ہر چیز جس کے پیچھے کو ئی ٹھوس بنیاد ہو اپنی جگہ کو قائم رکھنے کی حقدار ہے۔ یہ تنوّع اور تعدّد ہی ازل سے جاری سلسلے کا ایک انمٹ نقش ہے ۔
 

شمشاد

لائبریرین
سبحان اللہ، یہ تو مجھ پر آج آشکارا ہوا کہ صابرہ بہنا ماشاء اللہ شاعرہ بھی ہیں۔
اللہ کرئے زور قلم اور زیادہ۔
 

شمشاد

لائبریرین

شمشاد

لائبریرین
میں بھلا شاعری پر کیا مشورہ دے سکتا ہوں، میرا تو شاعری پر پہلے ہی بہت بڑا احسان ہے کہ

آج تک اس صنف کی طرف آیا ہی نہیں۔ یہ بھی احسان کی ایک قسم ہے۔
 

صابرہ امین

لائبریرین
تاریخ شاہد ہے کہ صابرہ بہن کا کلام ہر بار بحث و تمحیص کا مرکز بن گیا :)
اور اس طرح ہم جیسے مبتدی نے جتنا جلدی سیکھا اس کا بھی کیا کہنا ۔ ۔ اصلاح سخن میں ایسی علمی اور ادبی بحث کیسے کیسے طور ہماری مدد کرتی ہے کیا بتائیں ۔ ۔ مزید جستجو اور آگے بڑھنے کا جذبہ پیدا ہوتا ہے جب اتنے اعلیٰ دماغ اپنا قیمتی وقت ہم جیسے انجان لوگوں پر صرف کریں ۔ ۔ دل سے بس دعائیں ہی نکلتی ہیں ۔ ۔ اللہ علم کے ان دریاؤں سے ہمیں ہمیشہ سیراب کرتا رہے ۔ ۔ آمین
 

الف عین

لائبریرین
مطلع میں چاروں متبادلات میں سے صدائے ناتواں مجھے بہتر لگ رہا ہے۔ سید صاحب سے مزید پوچھ لو
ایک بات اور گرہ سے باندھ لو، 'تو نے' کو 'تُنے' بنا دینا اچھا نہیں۔ الفاظ کی ترتیب بدل دیا کرو کہ 'تو' مکمل آئے۔ ہاں then کے معنی والا 'تو' کی واو کا اسقاط پسندیدہ ہے، مگر تخاطب کے 'تو' کی واو کا نہیں، دوسرا مصرع یہ بہتر ہے
کہاں ہم تھے تیرا سب کچھ، کہاں ایسی کج ادائی!

یہ عجیب ہم پہ گذری تری عاشقی میں ہم دم
کبھی پیار دیکھا تیرا کبھی تیری بےوفائی
درست ہے

وہ یہ کہہ رہے ہیں مجھ سے کہ بھلا دوں پیار ان کا
مرے جذبوں کی یہ قیمت مجھے کس طرح چکائی

... دوسرا مصرع پسند نہیں ایا
یا

وہ یہ کہہ رہے ہیں مجھ سے کہ بھلا دوں پیار ان کا
میں یہ کیسے مان جاؤں نہ تھی کوئی آشنائی
.. بندش اس کی بہتر ہے، لیکن بات مکمل نہیں ہو رہی 'ہمارے درمیان' جیسے کچھ الفاظ کے بغیر۔
 

لاريب اخلاص

لائبریرین
ماشاءاللہ اصلاح سخن میں بہت پیاری ادبی معلومات ہے کامل اساتذہ کرام کی گفتگو طالب علم کے لیے کسی نعمت سے کم نہیں۔
اللہ رب العزت آپ سب کو عزت اور محبت سے نوازے آمین۔
 

صابرہ امین

لائبریرین
بحث و تمحیص ایک ایسی چیز ہے جس سے آپ کے افکار کو گوئی نہ کوئی گوشہ ضرور جِلا پاتا ہے۔
بالکل ٹھیک کہا آپ نے ۔ ۔ ایسا ہی ہوتا ہے ۔ ۔ ہر ایک سے کچھ نہ کچھ سیکھنے کو ملتا ہے کہ خاص طور پر اصلاح سخن میں دیکھا کہ اختلاف بس ایک بہتر سوچ یا بات کی ترویج ہے اور کچھ نہیں ۔ ۔ صاحب علم لوگ خاموش رہنے کو یقیناً جرم خیال کرتے ہیں اور اپنا قیمتی وقت دے کر اپنے علم سے دوسروں کا بھلا کرتے ہیں ۔ ۔ اللہ آپ سب کو اس نیک کام کی بہترین جزا دے ۔ ۔ آمین
 

صابرہ امین

لائبریرین
مطلع میں چاروں متبادلات میں سے صدائے ناتواں مجھے بہتر لگ رہا ہے۔ سید صاحب سے مزید پوچھ لو
ایک بات اور گرہ سے باندھ لو، 'تو نے' کو 'تُنے' بنا دینا اچھا نہیں۔ الفاظ کی ترتیب بدل دیا کرو کہ 'تو' مکمل آئے۔ ہاں then کے معنی والا 'تو' کی واو کا اسقاط پسندیدہ ہے، مگر تخاطب کے 'تو' کی واو کا نہیں، دوسرا مصرع یہ بہتر ہے
کہاں ہم تھے تیرا سب کچھ، کہاں ایسی کج ادائی!

یہ عجیب ہم پہ گذری تری عاشقی میں ہم دم
کبھی پیار دیکھا تیرا کبھی تیری بےوفائی
درست ہے

وہ یہ کہہ رہے ہیں مجھ سے کہ بھلا دوں پیار ان کا
مرے جذبوں کی یہ قیمت مجھے کس طرح چکائی

... دوسرا مصرع پسند نہیں ایا
یا

وہ یہ کہہ رہے ہیں مجھ سے کہ بھلا دوں پیار ان کا
میں یہ کیسے مان جاؤں نہ تھی کوئی آشنائی
.. بندش اس کی بہتر ہے، لیکن بات مکمل نہیں ہو رہی 'ہمارے درمیان' جیسے کچھ الفاظ کے بغیر۔
آپ کی رہنمائی کی روشنی میں تبدیلیاں کر کے حاضر ہوتی ہوں ۔ ۔ شکریہ
 

صابرہ امین

لائبریرین
مطلع میں چاروں متبادلات میں سے صدائے ناتواں مجھے بہتر لگ رہا ہے۔ سید صاحب سے مزید پوچھ لو
سید عاطف علی بھائی آپ کیا کہتے ہیں ۔ ۔ ملاحظہ کیجیئے


سنے کون میری آہیں، جو نہ دیں تجھے سنائی
میں صدائے ناتواں ہوں، مجھے کیوں سنے خدائی

ایک بات اور گرہ سے باندھ لو، 'تو نے' کو 'تُنے' بنا دینا اچھا نہیں۔ الفاظ کی ترتیب بدل دیا کرو کہ 'تو' مکمل آئے۔ ہاں then کے معنی والا 'تو' کی واو کا اسقاط پسندیدہ ہے، مگر تخاطب کے 'تو' کی واو کا نہیں، دوسرا مصرع یہ بہتر ہے

کہاں ہم تھے تیرا سب کچھ، کہاں ایسی کج ادائی!
جی بہتر ۔ ۔ اب دیکھیے ۔ ۔


تری بزم میں تھے ہم بھی ،ذرا حال تک نہ پوچھا
کبھی ہم تھے تیرا سب کچھ، کہاں ایسی کج ادائی!

وہ یہ کہہ رہے ہیں مجھ سے کہ بھلا دوں پیار ان کا
مرے جذبوں کی یہ قیمت مجھے کس طرح چکائی

... دوسرا مصرع پسند نہیں ایا
یا

وہ یہ کہہ رہے ہیں مجھ سے کہ بھلا دوں پیار ان کا
میں یہ کیسے مان جاؤں نہ تھی کوئی آشنائی
.. بندش اس کی بہتر ہے، لیکن بات مکمل نہیں ہو رہی 'ہمارے درمیان' جیسے کچھ الفاظ کے بغیر۔
جی اب دیکھیے ۔ ۔

وہ یہ کہہ رہے ہیں مجھ سے کہ بھلا دوں پیار ان کا
مگر آنکھیں کہہ رہی ہیں نہ ہو ترکِ آشنائی

یا
وہ یہ کہہ رہے ہیں مجھ سے کہ بھلا دوں پیار ان کا
تھکا لہجہ کہہ رہا ہے رہے قربِ آشنائی

یا

وہ یہ کہہ رہے ہیں مجھ سے کہ بھلا دوں پیار ان کا
میں کہاں سے لاؤں وہ دل جو بھلا دے آشنائی
 
Top