مشتے از خروارے کسی منچلے کے کالم سے گائیڈ لائن پیشِ خدمت ہے۔
2020 کے لیے عوامی تمنائیں
2020 میں عوام کو انصاف کی طلب سے بھی نجات حاصل کرنا ہو گی۔ اگر کہیں وہ یا ان کا کوئی عزیز گمشدہ ہو جائے، اٹھا لیا جائے یا اپنے بچوں کے بیچ سے غائب ہو جائے تو اس کو دل پر نہیں لینا۔
سید طلعت حسین تجزیہ کار
@TalatHussain12
سوموار 30 دسمبر 2019 6:30
آنے والے سال میں ہم عوام کو خشوع و خضوع کے ساتھ خصوصی دعائیں بھی مانگنی ہوں گی تاکہ ہماری مملکت خداداد دشمنوں کی سازشوں کو روندتی ہوئی تاریخ انسانی میں یکتا مقام حاصل کرے (اے ایف پی)
سال 2019 ختم ہوا چاہتا ہے۔ اگلا سال دروازے پر دستک دے رہا ہے۔ تمام قارئین مبارک باد کے مستحق ہیں کہ انہوں نے ختم ہوتا ہوا سال حوصلے سے برداشت کیا لیکن اصل امتحان کا آغاز اب ہوا ہے۔
ان شہریوں کو جو عوام کہلاتے ہیں، اگلے 12 ماہ زندگی گزارنے کے لیے کچھ خصوصی اہتمام کرنے کی ضرورت ہے۔ اس اہتمام کی چند جزئیات آپ کے سامنے رکھے دیتے ہیں۔ عمل درآمد کریں گے تو دکھ اور آنسو کم ہوں گے، نہیں کریں گے تو چیخیں ہی چیخیں ہوں گی۔
2020 میں پاکستان میں زندگی گزارنے کے لیے عوام کو کھانے پینے میں احتیاط برتنی ہوگی۔ چینی جو 58 سے 84 روپے کلو ہو گئی ہے ترک کرنی ہو گی۔ آٹا 720 سے تقریباً 900 روپے اور چاول 160 سے تقریباً 200 روپے پر فروخت ہونے کی وجہ سے ضروری خوراک میں سے نکالنا پڑے گا۔ دال مسور، مونگ، چنا اور سفید چنے چونکہ 70 سے 80 روپے مہنگے ہو گئے ہیں ویسے ہی کھانے کے قابل نہیں رہے۔ پسی سرخ مرچ 170 روپے مہنگی ہوئی ہے اور ہلدی تقریباً 90 روپے۔ ان کو بھی چھوڑنا ہوگا۔ گھی، دودھ، بیسن فی کلو گرام 50 سے 60 روپے مہنگا بک رہا ہے۔ ڈبل روٹی 70 سے 100 اور صابن 45 سے 65۔
2019 کے اختتام پر قیمتوں کے یہ تحفے 2020 میں اس سے بھی زیادہ قیمتی ہو جائیں گے۔ عوام کو کھانا پینا کم یا بند کرنا سیکھنا پڑے گا۔ نہانا دھونا اور صفائی ستھرائی عیاشی کے کھاتے میں لکھ کر رد کرنا ہو گا۔ میلی قوم بھی زندہ قوم بن سکتی ہے، اس نعرے کو اپنانا ہو گا۔ خوراک سے محروم جسم خوبصورت ٹوئیٹس سے پیٹ بھر سکتے ہیں اور ملک کے لیے لڑ سکتے ہیں۔ اس پہلو کو جذبہ حب الوطنی کا مرکزی خیال بنانا ہو گا۔
2020 میں قوم کو بیمار نہ ہونے کا عہد کرنا پڑے گا اور اگر کسی وجہ سے صحت کی کوئی خرابی آن لیتی ہے تو دوائیوں کی بجائے دعاؤں اور کالے جادو پر انحصار کرنا ہوگا۔ تقریباً 500 کے قریب دوائیوں کی قیمتوں میں مزید کمر توڑ اضافہ ہو چکا ہے۔ ہسپتالوں میں مفت ٹیسٹ اور علاج کی سہولت ختم ہو گئی ہے۔ اب آپ کی بیماری آپ کا درد سر ہے۔
2020 میں ریلیز ہونے والے ٹھمکے دار آئٹم نمبرز کو سن کر جان لیوا بیماریوں کی مصیبت کو بھولنے کی عادت اپنانی ہو گی۔ یہ کرنے سے پاکستان کی سمت درست نظر آئے گی اور ہم یہ سمجھ پائیں گے کہ مائیک کے سامنے کھڑے ہو کر جو ہمیں ملک میں آنے والی انقلابی تبدیلی کے فوائد سمجھاتے ہیں وہ کتنے دانشمند اور عوام محبت میں ڈوبے ہوئے ہیں۔
اگلے سال آپ کو بجلی اور گیس دونوں کے بغیر بہترین اور خوشیوں سے بھرپور زندگی گزارنے کا طریقہ سیکھنا ہوگا۔ اس آزاد قوم کے قد آور رکھوالوں نے آئی ایم ایف کے مودبانہ مشوروں پر عمل درآمد کرنے کی ٹھانی ہوئی ہے۔ گردشی قرضے سمیت اپنی تمام نااہلیوں کا بوجھ بجلی کے بلوں کے ذریعے آپ کے فاقہ زدہ کندھوں پر ہر مہینے لادھا جائے گا۔ گیس نہ ہونے کے باوجود بل کے ذریعے یہ اپنی موجحودگی کا احساس دلائے گی اور کبھی کبھار اپنی آمد پر استعمال کی صورت میں یہ گیس کچی ہنڈیا کو پکانے سے پہلے آپ کی تمام آمدن جلا دے گی لیکن گھبرانا نہیں۔ جان اللہ کو دینی ہے۔ لہذا تقریباً 16 کروڑ عوام کو مشورہ یہی ہے کہ اپنی زندگی میں سکھ لانے کے لیے گیس اور بجلی جیسی آرائشوں سے دور رہیں۔
باقی چھ کروڑ میں سے جن کو یہ زعم ہے کہ وہ بجلی اور گیس کے بل برداشت کر سکتے ہیں، اگلے سال کے اختتام پر خود ہی سمجھ جائیں گے۔ ہم سب نے مل کر ٹھنڈے برف کمروں میں امید کی شمعیں جلانی ہیں کیوں کہ ہمارے ملک کو روشنی کی اشد ضرورت ہے۔ چاہے یہ روشنی عوامی ہڈیوں کے جلنے سے ہی پیدا ہو رہی ہو۔ ہم نے گیس کے بغیر ہنڈیا پکانے کی صلاحیت حاصل کرنی ہے۔ ہم نے ہر روز یہ سوچنا ہے کہ ہم ایک نیوکلیئر طاقت ہیں جس کے پاس اب دو سیٹوں والا جے ایف تھنڈر طیارہ بھی موجود ہے۔ ایسے خیالات سے ہمارا گرتا ہوا جذبہ دوبارہ سے سر اٹھائے گا اور ہم ففتھ جنریشن جنگ کے ذریعے پھیلی بددلی کو شکست فاش دے پائیں گے۔
آنے والے سال میں ہمیں پیسہ کمائے بغیر ٹیکس دینے کا کرتب بھی سیکھنا ہو گا۔ گاہک نہ ہونے کے باوجود دکانداری کرنے کا فن سیکھنا ہو گا۔ بیشک ہم بچوں کو سکول نہ بھجوا سکیں ہمیں علامہ اقبال، محمد علی جوہر، فیض احمد فیض اور ڈاکٹر عبدالسلام جیسے دماغ پیدا کرنے ہوں گے۔ یہ ہمارا کام ہے حکمرانوں کا نہیں۔ ہمیں سمجھنا ہو گا کہ حکمران حکمرانی کے لیے ہیں۔ عمران خان ہمیں ہدایت دینے کے لیے تعینات کیے گئے ہیں۔ کابینہ کا مقصد تجزیے کرنا ہے۔ قومی اداروں کے ترجمان نصیحتوں کی تنخواہیں لیتے ہیں۔ ہمیں ان سب کی خدمت کرنی ہے۔ اپنے خون سے ان غنچوں کو سینچنا ہے۔ یہ نایاب پھول ہیں اور ہم ہیں ان کے مالی۔ یہ سب چوہدری ہیں اور ہم ہیں ان کے خدمت گزار۔ اگر ان میں سے کوئی ایک آدھ ادھر ادھر ہو گیا تو ہمارا نظام تباہ ہو جائے گا، ہم مٹ جائیں گے۔ غنیم حملہ آور ہوں گے اور ہم اپنی آزادی کھو دیں گے۔ اللہ وہ دن نہ لائے۔
2020 میں عوام کو انصاف کی طلب سے بھی نجات حاصل کرنا ہو گی۔ اگر کہیں وہ یا ان کا کوئی عزیز گمشدہ ہو جائے، اٹھا لیا جائے یا اپنے بچوں کے بیچ سے غائب ہو جائے تو اس کو دل پر نہیں لینا۔ اگر ریاست کے مالک اور حکومتی اراکین آپ کی تذلیل کریں تو اس کو اپنی عزت سمجھنا ہے۔ شہریار آفریدی، عاشق اعوان، زلفی بخاری، شیخ رشید، فیصل واوڈا، امین گنڈہ پور، شوکت یوسفزئی، مراد سعید، فیاض الحسن چوہان اور اس طرح کے ان گنت صاحب کردار لوگوں کے افکار کو دلوں پر نقش کرنا ہو گا۔ یہ عظیم لوگ ہیں۔ 2019 میں ہمیں ان کو سمجھنے میں جو غلطیاں ہوئیں وہ 2020 میں کسی طرح دہرائی نہیں جانی چاہییں۔ حریم شاہ اور اس کی ساتھی جو بھی کہیں ان پر کان نہیں دھرنا۔