سوات ڈیل مبارک ہو

فرخ

محفلین
آپ کی پوسٹ سے يہ واضح ہے کہ آپ دنيا کے اہم تنازعات خاص طور پر دہشت گردی کے خلاف جنگ کو مذہبی جدوجہد کے تناظر ميں ديکھتے ہوئے اسے مسلمانوں اور عيسائ يا يہوديوں کے مابين ايک معرکے سے تعبير کرتے ہيں۔
اس ضمن ميں يہ وضاحت کر دوں کہ جب ميں امريکہ کی بات کرتا ہوں تو ميرا اشارہ عيسائ، يہودی يا کسی اور مذہب سے تعلق رکھنے والے افراد يا گروہ کی طرف نہيں ہوتا۔ امريکہ ميں لاکھوں کی تعداد ميں مسلمان بھی بستے ہيں جو کسی بھی دوسرے مذہب سے تعلق رکھنے والے افراد کی طرح امريکی معاشرے کا لازم وملزوم حصہ ہيں۔ لاکھوں کی تعداد ميں مسلمان نہ صرف يہ کہ امريکی حکومت کو ٹيکس ادا کرتے ہیں بلکہ امريکی فوج، بحريہ، کانگريس اور اسٹيٹ ڈيپارٹمنٹ سميت ہر شعبہ زندگی ميں اپنا کردار ادا کر رہے ہيں۔ امريکی معاشرے ميں مذہبی وابستگی کی بنياد پر مختلف عہدوں کے ليے افراد کا انتخاب نہيں کيا جاتا اور يہی پيمانہ حکومتی عہدوں کے ليے بھی استعمال کيا جاتا ہے۔

مختلف عالمی ايشوز کے حوالے سے امريکہ کی پاليسياں جيسی بھی ہوں گی ، ايک بات واضح ہے کہ ان کی بنياد مذہب پر نہيں ہو گی۔ جيسا کہ صدر اوبامہ نے بھی اپنے ابتدائ خطاب ميں اس بات کی وضاحت کی ہے۔ "ہم عيسائ، ہندو، يہود، مسلم اور کسی مذہب پر يقين نہ رکھنے والے افراد پر مشتمل ايک قوم ہیں۔ بحثيت قوم ہم کرہ ارض کے ہر کونے سے آنے والے افراد، زبان اور ثقافت پر مشتمل ہيں"۔ اس حقیقت کے پيش نظر امريکہ اپنی پاليسيوں کی بنياد کسی مذہب کی بنياد پر نہيں بلکہ صدر اوبامہ کے الفاظ کے مطابق "مشترکہ انسانی قدروں" کی بنياد پر استوار کرے گا۔

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov

فواد صاحب،
میں نے پہلے بھی کہا تھا، کہ ہاتھی کے دانت کھانے کے اور ، دکھانے کے اور۔۔۔۔۔۔۔
حقیقت میں یہ اتنا سادہ نہیں جتنا آپ اسے بنانے کی کوشش کرر رہے ہیں۔ درحقیقت یہ صیہونیوں ، عیسائیوں جو صیہونیت کی حمائیت میں‌ہی مسلمانوں‌سے لڑ رہے ہیں، کی جنگ ہی ہے اور آپکے صدر بُش اپنی کچھ باتوں میں ایسے اشارے دے بھی چُکے ہیں۔

رہ گئی مسلمانوں‌کی امریکہ میں‌ٹیکس دے کر رہنے کی بات، تو تاریخ اُٹھا کر دیکھ لیجئے، خود عیسائی اور یہودی بھی مسلمانوں کی سلطنت میں جزیہ دے کر رہا کرتے تھے اور اس کے صلے میں‌انکی جان و مال کی حفاظت اور مذھبی حقوق کی ضمانت بھی ہوتی تھی۔

اور معذرت کے ساتھ فواد صاحب، آپ جب امریکہ کی بات کرتے ہیں تو ایک ایسی سلطنت کی بات کرتے ہیں جو یہودیوں کے کالے کرتوتوں پر پردہ ڈالتی نظر آتی ہے اور معصوم مسلمانوں‌کے قتلِ عام پر آنکھیں نا صرف بند کرلیتی ہے بلکہ اگر اس بارے میں کوئی دوسرا ملک آواز اُٹھائے تو اُلٹا اسے مسلمانوں کی دھشت گردی قرار دیا جاتا ہے۔
امریکی سی آئی اے کی کاروائیاں کوئی نئی نہیں‌ہیں ۔ آج دنیا بھی میں‌یہ بات بر ملا کہی جا رہی ہے کہ امریکہ سی آئی اے پاکستان کے سرحدی علاقوں میں اپنی تاریخ کے کالے ترین کارنامے کر رہی ہے۔اور ان میں‌موساد اور را کی مدد بھی شامل ہے۔

پاکستان میں دھشت گردی کی لہر اسوقت سے زوروں پر آئی جس دن سے امریکہ ہماری سرحدوں‌پر آن بیٹھا ہے۔اس دھشت گردی میں نہ صرف بلوچستان میں باغی تحاریک کا زور پکڑنا ہے ،بلکہ بیت اللہ محسود اور منگل باغ جیسے گروپوں کا سامنے آنا اور اپنے آپ کو طالبان کے نام سے منوانا بھی شامل ہے۔

عراق میں امریکی سی آئی اے نے جو ڈرامے رچائے وہ کن اصولوں کے تحت تھے اور پھر انکے خلاف امریکی حکومت نے کیا کاروائی کی؟
اور یہ بتائیے کہ کیا امریکی حکومت اپنے وہ افسران وحکمران مسلمانوں‌کے حوالے کریگی جنکی جھوٹی پالیسیوں‌کی وجہ سے نہ صرف عراق میں‌لاکھوں‌افراد قتل ہوئے بلکہ افغانستان میں‌بھی بہت سے معصوم لوگ شہید کیئے گئے اوران دونوں‌ممالک کی معشیت کو تباہ و برباد کر دیا گیا؟ اور اسکے ساتھ ساتھ خود امریکی فوج کو بھی بہت نقصان اُٹھانا پڑا؟

آپ کا کیا خیال ہے کہ ہم یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ عراق کی تباہی کے پیچھے صیہیونی قوتوں‌کا ہاتھ ہے جن کے ہاتھ میں‌امریکہ کی معیشت ہے!!!!!!!

مجھے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ امریکہ کے متعلق جو ڈرامہ آپ رچانے کی کوشش کر رہے ہیں وہ اب بے بنیاد ہو چُکا ہے۔ امریکہ کا ماضی مسلمانوں کے خون سے اور ان اقوام کے خون سے رنگا ہوا ہے جنہوں نے اسکی غلامی قبول کرنے سے انکار کیا۔اور برطانیہ امریکہ کا خاوند بن کر جگہ جگہ اسکا ساتھ دیتا نظر آتا ہے۔

امریکہ کی اسرائیل کی طرف اندھی حمائیت کے بارے میں کیا خیال ہے آپکا کہ اسرائیل کے خلاف وہ کوئی بھی قرارداد ایک دم ویٹو کیوں‌کردیتا ہے؟ حتیٰ کہ آج تک امریکہ نے اسرائیل کی ایٹیمی سپورٹ میں اندھی معاونت کی اور دنیا کو ویٹو کی پاور سے خاموش کراتا رہا؟ یہ جانتے ہوئے بھی کہ اسرائیل ، فلسطین میں‌مسلمانوں کے ساتھ کیا سلوک کررہا ہے؟
اسرائیل کے قیام میں جتنی مدد یہودیوں کی برطانیہ اور امریکہ نے کی ، کسی اور نے نہیں کی، جس میں انہیں دیا جانے والا اسلحہ بھی شامل ہے؟

مسلمان تو شائید کبھی بیروت کو بھی نہیں بھولیں گے، نہ لبنان پر کئے گئے اسرئیلی حملوں کو جن میں لاکھوں معصوم مسلمانوں‌کے گھروں کو تباہ و برباد کیا گیااور امریکہ حمائیت اسکے ساتھ ساتھ رہی۔اور نہ افغانستان کو، اور نہ عراق کو!!!!!!!!!!!!!! یہ سب اسلام دشمنی نہیں تو کیا دوستی کہلاتی ہے؟

اللہ کی قسم، قرآن نے بالکل سچ کہا ہےکہ یہ یہود و نصاریٰ کبھی تمہارے دوست نہیں ہوسکتے ، اب چاہے وہ امریکہ کے روپ میں‌ہوں‌یا برطانیہ کے، اور ماضی میں روم کی سلطنت کے، مگر یہودی اور صیہونی اور عیسائی بہرحال کسی صورت میں‌آج تک ہمارے دوست نہیں ہوئے۔۔۔۔اور نہ ہو سکتے ہیں۔

مجھے افسوس ہے ان مسلمانوں‌پر جو انکی اپنا دوست سمجھتے ہیں۔ حالانکہ برطانیہ، امریکہ میں رہنے والے مسلمانوں کے ساتھ جو بدترین سلوک آج کیا جارہا ہے اسکی انکی مہذب تاریخ میں کوئی مثال نہیں ملتی۔۔۔۔
 

Fawad -

محفلین
Fawad – Digital Outreach Team – US State Department

فواد صاحب،
امریکہ کی اسرائیل کی طرف اندھی حمائیت کے بارے میں کیا خیال ہے آپکا کہ اسرائیل کے خلاف وہ کوئی بھی قرارداد ایک دم ویٹو کیوں‌کردیتا ہے؟ حتیٰ کہ آج تک امریکہ نے اسرائیل کی ایٹیمی سپورٹ میں اندھی معاونت کی اور دنیا کو ویٹو کی پاور سے خاموش کراتا رہا؟ یہ جانتے ہوئے بھی کہ اسرائیل ، فلسطین میں‌مسلمانوں کے ساتھ کیا سلوک کررہا ہے؟
اسرائیل کے قیام میں جتنی مدد یہودیوں کی برطانیہ اور امریکہ نے کی ، کسی اور نے نہیں کی، جس میں انہیں دیا جانے والا اسلحہ بھی شامل ہے؟


امريکی حکومت کی جانب سے اسرائيل، فلسطين يا کسی بھی ملک کو دی جانے والی امداد بہت سے عوامل پر منحصر ہوتی ہے۔ اس ضمن ميں کوئ ايسا مستقل کليہ يا ضابطہ استوار نہيں کيا جا سکتا جو بيک وقت دنيا کے تمام ممالک کی ہر پل بدلتی ہوئ صورت حال اور ضروريات کو مد نظر رکھتے ہوئے بحث و مباحثے سے مبرا ہو۔ يہ ايک مستقل عمل کا حصہ ہوتا ہے جس ميں سرکاری اور غير سرکاری تنظيموں اور دونوں ممالک کے مختلف اداروں کے بے شمار ماہرين شامل ہوتے ہيں۔

عالمی سطح پر دو ممالک کے درميان تعلقات کی نوعيت اس بات کی غماز ہوتی ہے کہ باہمی مفاد کے ايسے پروگرام اور مقاصد پر اتفاق رائے کیا جائے جس سے دونوں ممالک کے عوام کو فائدہ پہنچے۔ اسی تناظر ميں وہی روابط برقرار رہ سکتے ہيں جس ميں دونوں ممالک کا مفاد شامل ہو۔ دنيا ميں آپ کے جتنے دوست ہوں گے، عوام کے معيار زندگی کو بہتر کرنے کے اتنے ہی زيادہ مواقع آپ کے پاس ہوں گے۔

يہ بات بھی توجہ طلب ہے کہ امريکہ کی طرف سے دی جانے والی امداد مختلف جاری منصوبوں اور زمينی حقائق کی روشنی ميں دونوں ممالک کے مابين باہم تعلقات کو مد نظر رکھتے ہوئے وقت کے ساتھ تبديل ہوتی رہی ہے۔

مثال کے طور پر اس وقت امريکہ کی جانب سے پاکستان کو دی جانے والی امداد کا بڑا حصہ فاٹا ميں جاری ترقياتی منصوبوں پر صرف ہو رہا ہے تاکہ اس علاقے کے لوگوں کو متبادل ذريعہ معاش کے مواقع مہيا کر کے دہشت گردی کا مقابلہ کيا جا سکے۔

اسی طرح اگر آپ سال 2000 سے اسرائيل کو دی جانے والی امداد کا جائزہ ليں تو سال 2003 کے سوا ہر سال اسرائيل کی غير ملکی امداد پر انحصار کے توازن اور ضرورت کے پيش نظر امريکی امداد ميں بتدريج کمی واقع ہوئ ہے۔ ليکن اسی عرصے ميں امريکہ فلسطين کو امداد دينے والے ممالک ميں سرفہرست ہے۔

http://img119.imageshack.us/my.php?image=snap1o.jpg

اس کے علاوہ جب آپ اسرائيل اور فلسطين کو دی جانے والی امريکی امداد کا تقابلی جائزہ پيش کرتے ہیں تو آپ تصوير کے صرف ايک چھوٹے سے حصے پر اپنی توجہ مرکوز کيے ہوئے ہیں۔ آپ کو اس پورے خطے ميں امريکہ کی جانب سے اپنے دوستوں اور اتحاديوں کو دی جانے والی امداد کا تقابلی جائزہ لينا ہو گا جو کہ غير جانب داری اور توازن کے اصولوں پر مبنی ہے۔ اس ضمن ميں آپ اس خطے ميں عرب ممالک کو دی جانے والی امداد کے اعداد وشمار کو بھی مد نظر رکھيں۔ اپنی بات کی دليل کے ليے ميں آپ کو مصر کی مثال دوں گا جس کو امريکہ کی جانب سے پچھلی تين دہائيوں ميں 28 بلين ڈالرز کی امداد دی جا چکی ہے۔

http://www.usaid.gov/our_work/features/egypt/


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov
 

فرخ

محفلین
فواد صاحب
امریکہ کی اسرائیلی بدمعاشی کی طرف جھکاؤ کا ایک اور تماشا یہاں ملاحظہ کیجئے گا:
http://www.bbc.co.uk/urdu/world/2009/07/090705_biden_israel_iran.shtml

اور ویسے اس قسم کی اور بہت سی کہانیاں موجود ہیں جس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ امریکہ دراصل خود ،ایک صیہونی طاقت ہے اور اسکا معاشی نظام بھی یہودیوں کے ہاتھ میں‌ہے اور اسی لئے یہ اسرائیل کی طرف اندھا بنا ہو ا ہے۔

امریکہ کو ایران کے ایٹمی طاقت بننے کی بہت تکلیف ہے اور وہ مدتوں یہ شور مچاتا نظر آتا ہے کہ ایران خفیہ طور پر ایٹیمی ہتھیار بنا رہا ہے۔
کیا آج تک امریکہ نے اسرائیلی ایٹیمی پالیسی کے بارے میں کوئی ایسا سخت رُخ اختیار کیا؟ شائید ایک امریکہ صدر نے ایسا کرنے کی کوشش کی تھی اور اُسے موت کے گھاٹ اُتار دیا گیا اور بعد میں اسکے بھائی کو بھی۔۔۔۔۔۔۔

یاد رہے، اسرائیل وہ ناسور ہے جس نے مسلمان ممالک اور علاقوں پر بہت حملے اور تباہی والے کام کیئے ہیں اس ان حقائق سے پوری دنیا واقف ہے۔جبکہ ایران نےکبھی بھی اسرائیل یا امریکہ پر حملہ نہیں کیا۔

اگر امن کی بات ہوتی تو امریکہ پہلے اسرائیل کے خفیہ ایٹمی ہتھیاروں‌کی بات کرتا مگر اُسے ایران سے ہی خظر ہ کیوں ہے اور وہ اور اسکی ناجائز اولاد اسرائیل آخر ایران سے پنگا لینے پر کیوں تلے رہتے ہیں؟

حقیقت وہی قرآن کی تنبیہ" کہ یہ یہود و نصارٰ آپس میں‌تو دوست ہیں مگر تمہارے دوست نہیں ہو سکتے"۔

یہ انکی مسلمانوں‌سے دشمنی ہی ہے جس کی وجہ سے یہ پاکستان اور ایران سے خار کھاتے ہیں اور کسی نہ کسی سازش کے ذریعے مسلمانوں‌کو نقصان پہنچاتے رہتے ہیں۔
 

Fawad -

محفلین
Fawad – Digital Outreach Team – US State Department

يہ کوئ ڈھکی چپھی يا خفيہ حقيقت نہيں ہے کہ يہودی امريکی حکومت کے مختلف عہدوں پر کام کر رہے ہيں۔ ليکن يہ بھی ايک حقیقت ہے کہ مسلمانوں سميت بہت سے مذہبی عقائد اور رنگ ونسل کے افراد کو امريکی حکومت کے مختلف عہدوں پر فرائض کی انجام دہی کے ليے مساوی مواقع فراہم کيے جاتے ہیں

امريکی حکومت ميں اہم عہدوں پر تقرری کے ليے نہ تو کوئ کوٹہ سسٹم ہوتا ہے اور نہ کسی کے مذہبی اور نسلی پس منظر کی وجہ سے کسی دوسرے پر فوقيت دی جاتی ہے۔ کيا يہ حقيقت اس بات سے ثابت نہيں ہوتی کہ آپ اور ميں امريکی حکومت ميں شامل کسی بھی عہديدار کے کوائف اور اس کی نسلی وابستگی کے بارے ميں معلومات آسانی سے نہ صرف حاصل کر سکتے ہيں بلکہ اس موضوع پر کسی بھی پبلک فورم پر آزادانہ بحث بھی کر سکتے ہيں۔ يہ آزادی اس صورت ميں ممکن نہ ہوتی اگر يہ تقريرياں کسی خفيہ چينل يا کسی مخصوص ذرائع سے عمل ميں آتيں۔

امريکی حکومت ميں مختلف عہدوں پر تقرريوں کا عمل انتہائ شفاف، آزادانہ اور منصفانہ ہوتا ہے۔ اس ضمن ميں اميدواروں کی قابليت واہليت اور تجربے کو ہر لحاظ سے ملحوظ رکھا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ پاليسی ساز اداروں ميں تقرری کے ليے امريکی صدر کے مقاصد اور ان کی سوچ سے مطابقت ہونا ضروری تصور ہوتا ہے۔

اہم نقطہ يہ نہيں ہے کہ امريکی معاشرے اور حکومتی حلقوں ميں کتنے يہودی، مسلمان يا ہندو کام کر رہے ہيں بلکہ قابل توجہ امر وہ قواعد و ضوابط، قوانين اور سسٹم ہے جو تمام مکتبہ فکر کے افراد کو زندگی کے ہر شعبے ميں يکساں مواقع فراہم کرتا ہے۔

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
digitaloutreach@state.gov
www.state.gov
 

dxbgraphics

محفلین
افسوس کا مقام

بیٹی تفصیلی و جامع جواب تو بعدمیں‌لکھوں‌گا انشاللہ
ابھی اتنا ہی کہ موجودہ قانون جو پاکستان ہو ہندوستان میں‌ہے ایک ہی ہے جو انگریز نافذ کرگیا ہے
جبکہ نظام عدل ایک دوسرا نظام ہے جس ک ماخد اسلام ہے۔

افسوس کامقام تو یہ کہ کہ اس بچی کو کوڑے کی سزا تو شریعت کے مطابق تھی۔ لیکن امریکہ نے ڈرون حملوں میں ہزاروں بیٹوں بیٹیوں کی جانیں لیں اس پر تنقید تو ہوتی ہے میں مانتا ہوں لیکن اتنی طوالت سے نہیں ہوتی۔ اسی سوات سے در بدر ہزاروں خاندان اپنے ہی ملک میں مہاجروں کی طرح رہ رہے ہیں جبکہ بردہ فروش دن رات ان ککے آگے پیچھے اپنی جیبوں کو رقم سے بھرنے میں سرگرم ہیں۔
اسی سوات میں نظام عدل کے نفاظ کے بعد کسی کی جرءت نہیں ہوئی کہ جرم کے بارے میں سوچ سکے۔ جو امریکہ اسرائیل ایران اور بھارت کوایک آنکھ نہ بھائی۔
 

dxbgraphics

محفلین
میرا مطلب یہاں کسی پر اعتراض کرنا نہیں بلکہ یہودیوں اور صیہونیوں کی خفیہ کاروائیوں کی طرف اشارہ دینا ہے۔
 

Fawad -

محفلین
Fawad – Digital Outreach Team – US State Department

فواد صاحب
امریکہ کی اسرائیلی بدمعاشی کی طرف جھکاؤ کا ایک اور تماشا یہاں ملاحظہ کیجئے گا:
http://www.bbc.co.uk/urdu/world/2009/07/090705_biden_israel_iran.shtml


امريکی نائب صدر بائيڈن کے حاليہ بيان ميں امريکی پاليسی ميں کسی تبديلی کا اشارہ نہيں ہے۔ يہ تاثر غلط ہے کہ امريکہ نے اسرائيل کو ايران پر حملے کا گرين سگنل دے ديا ہے۔ صدر اوبامہ نے بذات خود اس تاثر کی نفی کر دی ہے

"ہرگز نہيں – اور ميرے خيال ميں يہ بہت ضروری ہے کہ ميں اور ميری انتظاميہ اس ايشو پر بالکل واضح اور مستقل مزاج رہيں۔ ميرے خيال ميں نائب صدر بائيڈن نے ايک واضح حقيقت بيان کی ہے اور وہ يہ ہے کہ ہم دوسرے ممالک پر ان کے دفاعی مفادات کے حوالے سے حکم صادر نہيں کر سکتے۔ مگر يہ بھی حقیقت ہے کہ امريکہ کی يہ پاليسی ہے کہ ايران کے ايٹمی صلاحيت کے حوالے سے ايشو کو سفارتی ذرائع سے پرامن طريقے سے حل کيا جائے۔"

ميں آپ کو ياد دلانا چاہوں گا کہ جب حکومت پاکستان نے سوات ميں امن معاہدے کا فيصلہ کيا تھا تو تمام تر خدشات اور تحفظات کے باوجود امريکی حکومت نے يہ واضح بيان ديا تھا کہ ہم ايک خودمختار ملک کو اپنی پاليسی تبديل کرنے کے ليے مجبور نہيں کر سکتے۔ نائب صدر بائيڈن کا حاليہ بيان اسی پاليسی کا اعادہ ہے۔

جہاں تک ايران پر فوجی حملے کے حوالے سے امريکہ کے موقف کا سوال ہے تو اس ضمن میں آپ کی توجہ امريکی جوائنٹ چيف چيرمين ايڈمرل مائيک مولين کے بيان کی جانب دلواؤں گا۔

"ايران پر کسی بھی قسم کا حملہ عدم استحکام کا باعث ہو گا"۔

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov
 

Fawad -

محفلین
Fawad – Digital Outreach Team – US State Department

ميں بعض تجزيہ نگاروں کی جانب سے اس الزام کی منطق سمجھنے سے قاصر ہوں کہ امريکہ پاکستان ميں دہشت گردوں کی مدد کر رہا ہے۔ اس ضمن ميں بغير کسی ثبوت اور شواہد کے يہ دعوی بھی شامل کر ليا جاتا ہے کہ حکومت پاکستان اور فوج اس "حق‍یقت" سے پوری طرح آگاہ ہے کہ امريکہ براہراست يا بلواسطہ پاکستان کے اندر دہشت گرد گروہوں کو مدد فراہم کر رہا ہے۔

زمين پر حقائق سے ان دعوؤں کی ترديد ہو جاتی ہے۔

مثال کے طور پر 20 جون 2009 کو امريکہ نے حکومت پاکستان کی اپيل پر پاک فوج کو پانی لے جانے والے چھ ٹرک فراہم کئے ہيں۔ ان ميں سے ہر ٹرک ميں 4500 ليٹر پانی ذخيرہ کرنے کی گنجائش ہے اور اس ميں پمپنگ يونٹ نصب ہے۔ يہ ٹرک حکومت کے زير انتظام بے گھر افراد کے مختلف کيمپوں ميں آب رسانی کے ليے استعمال کيے جائيں گے۔ يہ ٹرک پاکستان ميں خريدے گئے ہيں اور ان کی کل ماليت 179000 ڈالرز سے زيادہ ہے۔

http://img21.imageshack.us/img21/5672/clipimage002wal.jpg

http://img229.imageshack.us/img229/3795/clipimage003lha.jpg


مئ 19 کو امريکی وزير خارجہ ہيلری کلنٹن نے اندرون ملک بے گھر ہونے والے افراد کی اعانت کے لیے انسانی ہمدردی کی بنياد پر 110 ملين ڈالرز دينے کا وعدہ کيا تھا جس ميں لگ بھگ 28 ملين ڈالرز ماليت کی زرعی اشياء شامل تھيں جن ميں 8۔16 ملين ڈالرز کی پچاس ہزار ميٹرک ٹن گندم اور 2۔11 ملين ڈالرز ماليت کا 6800 ميٹرک ٹن خوردنی تيل مہيا کيا گيا تھا۔ گزشتہ دو ہفتوں کے دوران حکومت امريکہ نے صوبہ سرحد ميں بے گھر ہونے والے افراد کے لیے انسانی ہمدردی کی ہنگامی امداد کے طور پر 200 ملين ڈالرز کی اضافی امداد کا اعلان کيا ہے۔

يہ مثاليں گزشتہ چند دنوں کی ہيں۔ امريکہ کی جانب سے پاکستان کی حکومت، عوام اور فوج کی مدد ايک مسلسل عمل کا حصہ ہے اور اس کے عملی ثبوت سب پر عياں ہیں۔ امريکہ سال 2002 سے اب تک پاکستان کو اقتصادی ترقی، تعليم، صحت عامہ اور حکمرانی کو بہتر بنانے اور زلزلہ زدہ علاقوں ميں تعمير نو کے کاموں ميں اعانت کے لیے قريب 4۔3 ملين ڈالرز کی امداد فراہم کر چکی ہے۔

بدقسمتی سے يہ خبريں اور رپورٹس مقامی ميڈيا ميں کوريج سے محروم رہتی ہيں۔ اس کے مقابلے ميں اگر کسی دہشت گرد کی کوئ بغير تصديق شدہ تصوير منظرعام پر آتی ہے جس ميں کوئ چھينا يا چوری شدہ غير ملکی ہتھيار موجود ہوتا ہے تو تجزيہ نگاروں کی جانب سے تمام تر دانش اور منطق کو پس پشت ڈال کر سازشی کہانيوں اور مفروضوں کا طوفان کھڑا کر ديا جاتا ہے۔

اگر يہ تجزيہ درست تسليم کر ليا جائے کہ فوج اور حکومت پاکستان اس "حقیقت" سے واقف ہيں کہ امريکہ ہی اصل دشمن ہے تو پھر سوال يہ اٹھتا ہے کہ ان کی جانب سے امريکہ سے مسلسل معاشی اور فوجی امداد کی درخواست اور اس کی وصولی کا عمل کيوں جاری ہے؟

اسی طرح اگر امريکہ کا مقصد دہشت گردوں کی مدد کرنا ہے تو پھر ان سخت معاشی حالات ميں اپنے ٹيکس دہندگان کے کئ بلين ڈالرز پاکستانی حکومت اور فوج کی مدد پر ضائع کرنے کی کيا منطق ہے؟ يہ تو کوئ بھی ذی شعور جانتا ہے کہ آپ اگر متضاد سمت ميں بيک وقت زور لگا رہے ہو تو کوئ بھی مقصد حاصل نہيں کر سکتے۔

يہ کوئ ڈھکی چھپی بات نہيں ہے کہ پاکستان اور امريکہ ان دہشت گردوں کے خلاف جنگ ميں باہم اتحادی ہيں اور اس سلسلے ميں دی جانے والی مالی امداد اور فوجی اساسوں کے استعمال ميں شراکت دونوں ممالک کے درميان اس باہمی اتحاد کا اہم حصہ ہے۔

حکومت پاکستان اور پاکستانی فوج نے متعدد بار اس عزم کا اعادہ کيا ہے کہ پاکستان اور امريکہ کے مابين دہشت گردی کے خاتمے کے ليے اشتراک جاری رہے گا۔

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov
 

عسکری

معطل
طالبان ظالمان کے کارناموں پر مشتمل ، سوات پر قبضے اور سیاسی لیڈروں کے قتل کی ایک پرانی داستان
راہ راست پر لا دیا گیا ایسے
watch
 
Top