فرخ
محفلین
میں نے پہلے یہ بھی کہا تھا کہ مجھے آئیت ابھی یاد نہیں۔میں سوچ رہا تھا کہ میرے علم میں اضافہ کریں گے آپ ۔ مگر آیت میں تو درے ہیں نا کہ سنگسار ۔
وسلام
میں نے پہلے یہ بھی کہا تھا کہ مجھے آئیت ابھی یاد نہیں۔میں سوچ رہا تھا کہ میرے علم میں اضافہ کریں گے آپ ۔ مگر آیت میں تو درے ہیں نا کہ سنگسار ۔
وسلام
میں نے پہلے یہ بھی کہا تھا کہ مجھے آئیت ابھی یاد نہیں۔اور یہ مسٗلہ شادی شدہ لوگوں کے زنا کرنے پر سنگسار کرنے کا ہے۔اور سنگسار کا حُکم احادیث میں ہے۔
سنگساری کی سزا کی جو احادیث ملتی ہیں ان دونوںواقعات میں رضاکارانہ اعتراف ہوا تھا اور اس کے باجود سرکار دو عالم صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خواہش تھی کہ کسی طرح انہیں ٹال دیا جائے۔ صحابی کا نام نہیں یاد آرہا لیکن تین دفعہ سرکار نے ان سے اعراضفرمایا اور چوتھی دفعہ اعتراف پر سنگساری کا حکم لگایا۔ اور جب اصحاب نے آکر بتایا کہ جب سنگساری شروع ہوئی تو ان صحابی نے کہا کہ لوگو مجھے رسول اللہ صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس لے چلو تو سرکار نے تاسف سے فرمایا "تو پھر تم لوگ انہیںلے کر کیوں نہ آئے؟ ہو سکتا ہے کہ وہ اللہ سے معافی مانگتا اور اللہ اسے معاف فرمادیتا" اسی طرح زنا کے گواہوں کے لئے یہ بھی ہدایت ہے کہ اگر تم کسی کا عیب چھپاؤ گے تو اللہ قیامت کے دن تمہارے عیب چھپائے گا۔ سو یہ حدود موجود ہیں لیکن اصل مقصد ان کا غالباَ اس وقت نفاذ ہے جب کوئی ان گناہوں کے ارتکاب میں حد سے بڑھ جائے۔ اسلام کا بنیادی اصول نشان عبرت بنانا نہیں بلکہ انسان کے اپنے ضمیر کو جگانا ہے تاکہ وہ اپنے گناہوں سےرجوع کرے اور اللہ کی شان غفاری کا اظہار ہو۔ اور یہ بھی حدیث ہے کہ اگر کسی کو قتل کی سزا دو تو اس پر رحمدلی کرو یعنی اسے اس طریقے سے مارو کہ اسے زیادہ تکلیف نہ ہو۔ رُسوا کرکے مارنے کا حکم تو قتل کے ضمن میں بھی نہیں آیا جو کہ فتنہ کے بعد سب سے بڑا جرم ہے۔
تو پھر آپ اپنا وہ مراسلہ درست کر لیں کہ اس میں آپکے مطابق سنگساری کی سزا قران میں موجود ہے مگر آپ کو آیت یاد نہیں ۔ وہاں سنگساری کے بدلے درے یا آیت کی بجائے حدیث/روایت لکھ دیں ۔میں نے پہلے یہ بھی کہا تھا کہ مجھے آئیت ابھی یاد نہیں۔اور یہ مسٗلہ شادی شدہ لوگوں کے زنا کرنے پر سنگسار کرنے کا ہے۔اور سنگسار کا حُکم احادیث میں ہے۔
تو پھر آپ اپنا وہ مراسلہ درست کر لیں کہ اس میں آپکے مطابق سنگساری کی سزا قران میں موجود ہے مگر آپ کو آیت یاد نہیں ۔ وہاں سنگساری کے بدلے درے یا آیت کی بجائے حدیث/روایت لکھ دیں ۔
وسلام
نوائے وقتپاک فوج کے ترجمان ڈائریکٹر جنرل آئی ایس پی آر میجر جنرل اطہر عباس نے کہا ہے کہ امریکہ پاکستان کے ایٹمی ہتھیاروں کی فکر چھوڑ کر افغانستان میں غائب ہونے والے اپنے ہتھیاروں کی فکر کرے‘ کیونکہ خدشہ ہے کہ یہ ہتھیار پاکستان میں استعمال ہو رہے ہیں۔ گزشتہ روز سی این این کو دیئے گئے اپنے انٹرویو میں انہوں نے امریکی حکومت کی ایک رپورٹ کا حوالہ دیا جس میں کہا گیا تھا کہ افغان آرمی کو دیئے جانے والے اسلحہ کی کم از کم ایک تہائی تعداد (دو لاکھ 42 ہزار) کا پینٹاگون کے پاس ریکارڈ موجود نہیں۔
روزنامہ جناحراولپنڈی (آئی این پی)پاک فوج کے ترجمان اور آئی ایس پی آر کے ڈائریکٹر جنرل میجر جنرل اطہر عباس نے کہا ہے کہ امریکہ پاکستان کے جوہری ہتھیاروں کی بجائے افغانستان میں گم ہونے والے اپنے ہتھیاروں کی فکر کرے ‘ سو ات میں طالبان کو نیٹو کے ہتھیار بھی مل رہے ہیں اور انہیں غیر ملکی انٹیلی جنس اداروں کی حمایت حاصل ہے‘ دس سے پندرہ فیصد طالبان غیر ملکی ہیں
نوائے وقت
اس ميں کوئ شک نہيں کہ کسی بھی نظام ميں خرابی يا کمی کی نشاندہی کی جا سکتی ہے۔ ليکن بنيادی بات يہ ہے کہ مجموعی کارکردگی کو بہتر بنانے کے لیے احتساب کا ايک مربوط اور موثر نظام موجود ہے۔ جس رپورٹ کا حوالہ ديا گيا ہے وہ امريکی حکومت ہی کے احتساب سے متعلق ادارے نے کانگريس کی کميٹی کے سامنے پيش کی تھی۔ يہ امر ايک شفاف اور واضح طريقہ کار کو واضح کرتا ہے۔
آپ مکمل رپورٹ اس ويب لنک پر پڑھ سکتے ہیں۔
http://www.keepandshare.com/doc/view.php?id=1241297&da=y
اس رپورٹ کے مطابق دسمبر 2004 سے جون 2008 تک افغان سيکورٹی فورسز کو جو اسلحہ فراہم کيا گيا، اس کی ترسيل کے نظام میں نقائص تھے۔ رپورٹ ميں اسلحے کے اعداد وشمار ميں موجود خاميوں پر بھی تفصيلی تجزيہ اور نظام ميں بہتری کے ليے تجاويز بھی پيش کی گئيں۔ آخر ميں ڈيفنس ڈيپارٹمنٹ کی جانب سے وضاحت اور تجاويز کے لیے لائحہ عمل بھی رپورٹ ميں شامل کيا گيا۔
جہاں تک آئ – ايس – پی – آر کی جانب سے اس رپورٹ پر تبصرے کا سوال ہے تو اس ضمن ميں يہ رپورٹ خود اس بات کا ثبوت ہے کہ امريکی حکومت اپنے ارادے اور عزم ميں مخلص ہے۔ افراد اور متعلقہ ادارے اپنی مجموعی کارکردگی اور پرفارمنس کے لیے ايک منظم نظام کے تحت جواب دہ ہيں۔
امريکی حکومت کی جانب سے سرکاری طور پر احتساب رپورٹ سے اس تاثر کی بھی نفی ہو جاتی ہے کہ امريکہ دانستہ دہشت گردوں کو اسلحہ فراہم کر رہا ہے۔
فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
www.state.gov
نوائے وقت
اس ميں کوئ شک نہيں کہ کسی بھی نظام ميں خرابی يا کمی کی نشاندہی کی جا سکتی ہے۔ ليکن بنيادی بات يہ ہے کہ مجموعی کارکردگی کو بہتر بنانے کے لیے احتساب کا ايک مربوط اور موثر نظام موجود ہے۔ جس رپورٹ کا حوالہ ديا گيا ہے وہ امريکی حکومت ہی کے احتساب سے متعلق ادارے نے کانگريس کی کميٹی کے سامنے پيش کی تھی۔ يہ امر ايک شفاف اور واضح طريقہ کار کو واضح کرتا ہے۔
آپ مکمل رپورٹ اس ويب لنک پر پڑھ سکتے ہیں۔
http://www.keepandshare.com/doc/view.php?id=1241297&da=y
اس رپورٹ کے مطابق دسمبر 2004 سے جون 2008 تک افغان سيکورٹی فورسز کو جو اسلحہ فراہم کيا گيا، اس کی ترسيل کے نظام میں نقائص تھے۔ رپورٹ ميں اسلحے کے اعداد وشمار ميں موجود خاميوں پر بھی تفصيلی تجزيہ اور نظام ميں بہتری کے ليے تجاويز بھی پيش کی گئيں۔ آخر ميں ڈيفنس ڈيپارٹمنٹ کی جانب سے وضاحت اور تجاويز کے لیے لائحہ عمل بھی رپورٹ ميں شامل کيا گيا۔
جہاں تک آئ – ايس – پی – آر کی جانب سے اس رپورٹ پر تبصرے کا سوال ہے تو اس ضمن ميں يہ رپورٹ خود اس بات کا ثبوت ہے کہ امريکی حکومت اپنے ارادے اور عزم ميں مخلص ہے۔ افراد اور متعلقہ ادارے اپنی مجموعی کارکردگی اور پرفارمنس کے لیے ايک منظم نظام کے تحت جواب دہ ہيں۔
امريکی حکومت کی جانب سے سرکاری طور پر احتساب رپورٹ سے اس تاثر کی بھی نفی ہو جاتی ہے کہ امريکہ دانستہ دہشت گردوں کو اسلحہ فراہم کر رہا ہے۔
فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
www.state.gov
ایک دو ہتھیار ہوں تو بندہ مان سکتا ہے کہ امریکہ نہیں دیتا۔ ہتھیاروں کو استعمال کرنے کی باقاعدہ ٹریننک دی گئی ہے۔
امریکہ ایک طرف تو پاکستان کو جنگ کے لئے اکساتا ہے تودوسری طرف درپردہ طالبان کی مدد بھی کرتا ہے۔ طالبان سے امریکی اسلحہ تھوڑی تعداد میں نہیں بہت بڑی تعداد میں پکڑا گیا ہے لیکن ایسا ہی اسلحہ طالبان کے پاس ابھی بھی موجود ہے۔ ثبوت اور حقائق امریکہ کے خلاف جارہے ہیں لیکن پاکستان حکام عوام سے حقائق چھپانا چاہتے ہیں مگر کسی نہ کسی ذریعہ سے حقائق عوام تک پہنچ رہے ہیں۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مزید انکشافات ہوں گے انتظار کریں۔۔۔۔۔
ثبوت اور حقائق امریکہ کے خلاف جارہے ہیں لیکن پاکستان حکام عوام سے حقائق چھپانا چاہتے ہیں مگر کسی نہ کسی ذریعہ سے حقائق عوام تک پہنچ رہے ہیں۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مزید انکشافات ہوں گے انتظار کریں۔۔۔۔۔
عرض یہ ہے کہ فی زمانہ ہر وہ بات جو ریاست ہائے متحدہ امریکہ کے سرکاری اداروں کی تصدیق شدہ نہیں ہو گی، سازشی تھیوری کہلائے گی۔
ہالبروک نے اپنے حال میں دئے گئے بیان میں جو کہ انہوں نے پارلیمانی کمیٹی کے سامنے دیا تھا کہا ہے کہ پاکستانی رائے عامہ دہشت گردوںکے خلاف ہے جس کی وجہ سے یہ جنگ آسان ہے، یعنی کے پاکستانیوںکی واضحاکثریت طالبان کی حامی نہیں ہے اور نہ ہی اینٹی امریکہ جذبات موجود ہیں ، ہاں ایک خاص اقلیت جو کہ ماضی میںجہاد کی کاروائیوںمیں برسر پیکار رہی ہے اسکا پروپیگنڈہ سیل یہ کارڈ بخوبی استعمال کر رہا ہے اور پاکستان کی جڑوںکو اندر سے کھوکھلا کرنے میں دشمن کی مدد کر رہا ہے کہ امریکہ ہمارا دشمن ہے اور طالبان ہی اسلام کے صحیح ٹھیکیدار ہیں۔
کوئی بھی عوامی پول باقائدہ مستند اداروںکے ذریعے ہی کیا جاتا ہےا ور اسکی بنیاد پر ہی سیاسی، معاشرتی اور عسکری فیصلے کئے جاتے ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ امریکی اور ان میںموجود صیہونی کبھی بھی امن نہیںچاہتے اور اسی وجہ سے اب وہ طالبان اور خصوصی طور پر مقامی طالبا ن کو اسلحہ اور تربیت بھی فراہم کرتے ہیں اور یہ اب کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں۔
ايک ايجنسی کی حيثيت سے سی – آئ – اے کی ذمہ داری سينير امريکی پاليسی سازوں کے لیے نيشنل سيکورٹی اينٹلی جينس فراہم کرنا ہے۔ کسی بھی دوسری سيکورٹی ايجنسی کی طرح سی – آئ – اے بھی ايک محدود لاۂحہ عمل اور سينير حکومتی اہلکاروں کی جانب سے منظور شدہ پاليسی کے تحت کام کر تی ہے۔ سی – آئ – اے کے ليے يہ ممکن نہيں ہے کہ ايسے اقدامات اٹھائے جن کی منظوری براہ راست امريکی صدر کی جانب سے نہ موصول ہوئ ہے۔ اس کے علاوہ سی –آئ – اے کی کاروائياں امريکی کانگريس کی کميٹيوں کی زير نگرانی ہوتی ہيں۔ سی –آئ – اے کے ڈائريکٹر کا انتخاب امريکی صدر سينٹ کے مشورے اور منظوری سے کرتا ہے۔ سی – آئ – اے کا ڈائريکٹر ايجنسی کی کاروائيوں، اس کے بجٹ اور افرادی قوت کا براہراست ذمہ دار ہوتا ہے۔ کلی طور پر سی – آئ – اے کا کام اينٹيلی جينس انفارميشن کا حصول، اس کا تجزيہ اور اعلی امريکی عہديداروں تک اس کی ترسيل ہوتا ہے۔
صدر اوبامہ نے يہ بات کئ مواقع پر واضح کی ہے کہ ايک مضبوط اور مستحکم پاکستان، افغانستان اور پاکستان ميں دہشت گردی کے خاتمے کے ليے اشد ضروری ہے۔ دہشت گردی کی سپورٹ کے حوالے سے کوئ بھی عمل اس منطقی دليل اور منظور شدہ پاليسی کی نفی کرتا ہے۔
سی – آئ – اے اس پاليسی کے تحت کام کرنے کی پابند ہے اور اپنی مرضی سے کوئ قدم نہيں اٹھا سکتی۔
فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
www.state.gov
اور اگر آپ میںغلطی سے تھوڑی سے مسلمانی ہے ( جو امریکہ کی غلامی میںرہتے ہوئے ذرا بھی نظر نہیںآرہی) تو قرآن کی یہ بات یاد رکھیئے گا: "یہود و نصاریٰ آپس میں تو دوست ہو سکتے ہیں، مگر تمہارے (مسلمانوں) کے دوست نہیںہو سکتے"
انا للہِ و اِ نا الیہِ راجِعُون۔