سوالیہ؟؟؟؟؟؟؟؟ از شزہ مغل

شزہ مغل

محفلین
۔۔۔۔۔۔برائے اصلاح
ہر سوال کا جواب ہوتا ہے۔
ہر جواب کا سوال ہوتا ہے۔
نہ کبھی ایسے سوال ہوئے جن کے جواب میں کچھ نہ کہا جا سکے۔
اور نہ کبھی ایسے جواب ہوئے جن کا سوال نہ کیا جا سکے۔
یہ اور بات ہے کہ کبھی سوال سمجھ نہیں آتے۔
کبھی جواب سمجھ نہیں آتے۔
پھر بھی ایک امید سی رہتی ہے کہ سوالوں کی جواب، جوابوں کے سوال کبھی نہ کبھی مل ہی جائیں گے۔
مگر کیا میرے تمام سوالوں کے جواب موجود بھی ہیں؟؟؟؟
اگر موجود ہیں تو کہاں؟؟؟؟
کیسے پہنچوں گی ان تک؟؟؟؟
پہنچ پاؤں گی بھی یا نہیں؟؟؟؟
اگر پہنچوں گی بھی تو کب؟؟؟؟


(اسی سوالیہ میں میرے سوال شامل ہوتے رہیں گے۔ کبھی منظوم شکل میں کبھی بکھری ہوئی تحریروں کی صورت)
 
آخری تدوین:
۔۔۔۔۔۔برائے اصلاح
ہر سوال کا جواب ہوتا ہے۔
ہر جواب کا سوال ہوتا ہے۔
نہ کبھی ایسے سوال ہوئے جن کے جواب میں کچھ نہ کہا جا سکے۔
اور نہ کبھی ایسے جواب ہوئے جن کا سوال نہ کیا جا سکے۔
یہ اور بات ہے کہ کبھی سوال سمجھ نہیں آتے۔
کبھی جواب سمجھ نہیں آتے۔
پھر بھی ایک امید سی رہتی ہے کہ سوالوں کی جواب، جوابوں کے سوال کبھی نہ کبھی مل ہی جائیں گے۔
مگر کیا میرے تمام سوالوں کے جواب موجود بھی ہیں؟؟؟؟
اگر موجود ہیں تو کہاں؟؟؟؟
کیسے پہنچوں گی ان تک؟؟؟؟
پہنچ پاؤں گی بھی یا نہیں؟؟؟؟
اگر پہنچوں گی بھی تو کب؟؟؟؟


(اسی سوالیہ میں میرے سوال شامل ہوتے رہیں گے۔ کبھی منظوم شکل میں کبھی بکھری ہوئی تحریروں کی صورت)

سوال پر ایک ظریفانہ بلکہ ستم ظریفانہ یاد آ گیا۔

ستم ظریفوں کا کہنا ہے کہ جب سلطنتِ مغلیہ کا شیرازہ بکھرا تو نسلوں کے نمک خوار اِدھر اُدھر بکھر گئے۔ پیشہ ور لوگوں میں کسی نے اپنا کوئی چھوٹا موٹا کام چلا لیا، کسی نے کسی نواب کے ہاں پناہ لے لی۔ سپاہی قسم کے لوگوں نے جتھے بنا لئے اور زیرِ زمین "سپاہی شاہی" قائم کر لی۔ رہ گئی شہزادوں کی ایک فوجِ طفر موج کہ جنہیں صرف حکم دینا آتا تھا۔ ان میں سے بہت ساروں کی سمجھ میں آخر یہ بات آ ہی گئی کہ پدرم سلطان است اور پدرم سلطان بود میں کچھ نہ کچھ فرق ضرور ہے۔ کئی تو شہزادگی سے چاکری پر آ گئے اور جن سے کچھ بھی نہیں بن پڑا، وہ در بدر پھرتے لوگوں کو بتاتے کہ پدرم سلطان بود۔ کوئی ترس کھا کر کبھی کھانا کبھی لباسِ "فاقرہ" عطا کر دیتا۔
ایسے ہی ایک فقیر نے کسی گھر کا دروازہ کھٹکھٹایا۔ اندر سے آواز آئی "کون!!؟" تو فرمانے لگے: "ہمیں خیرات دی جائے"۔
 

آوازِ دوست

محفلین
سوال پر ایک ظریفانہ بلکہ ستم ظریفانہ یاد آ گیا۔

ستم ظریفوں کا کہنا ہے کہ جب سلطنتِ مغلیہ کا شیرازہ بکھرا تو نسلوں کے نمک خوار اِدھر اُدھر بکھر گئے۔ پیشہ ور لوگوں میں کسی نے اپنا کوئی چھوٹا موٹا کام چلا لیا، کسی نے کسی نواب کے ہاں پناہ لے لی۔ سپاہی قسم کے لوگوں نے جتھے بنا لئے اور زیرِ زمین "سپاہی شاہی" قائم کر لی۔ رہ گئی شہزادوں کی ایک فوجِ طفر موج کہ جنہیں صرف حکم دینا آتا تھا۔ ان میں سے بہت ساروں کی سمجھ میں آخر یہ بات آ ہی گئی کہ پدرم سلطان است اور پدرم سلطان بود میں کچھ نہ کچھ فرق ضرور ہے۔ کئی تو شہزادگی سے چاکری پر آ گئے اور جن سے کچھ بھی نہیں بن پڑا، وہ در بدر پھرتے لوگوں کو بتاتے کہ پدرم سلطان بود۔ کوئی ترس کھا کر کبھی کھانا کبھی لباسِ "فاقرہ" عطا کر دیتا۔
ایسے ہی ایک فقیر نے کسی گھر کا دروازہ کھٹکھٹایا۔ اندر سے آواز آئی "کون!!؟" تو فرمانے لگے: "ہمیں خیرات دی جائے"۔
بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے
 

آوازِ دوست

محفلین
سوال ایک المیہ ہے جب آپ کے سامنے پھیلے ہاتھ، چہرہ سوالی اور نظریں خالی ہوں۔
سوال ایک ناپسندیدہ چیز ہے جب آپ خود کو جواب دینے سے قاصر پائیں۔
سوال ایک دِل لگی ہے جب سوال سے سوال پیدا ہونے لگیں۔
سوال ایک بوجھ ہے جب جواب پہلے سے معلوم ہوں۔
سوال ایک کرب ہےجب بےالفاظ ہو۔
سوال ایک آئینہ ہےاگر خود سے ہو۔
سوال ایک آرزو بھی ہے۔
سوال میں بھی ہوں۔
سوال تم بھی ہو۔
 
سوال ایک المیہ ہے جب آپ کے سامنے پھیلے ہاتھ، چہرہ سوالی اور نظریں خالی ہوں۔
سوال ایک ناپسندیدہ چیز ہے جب آپ خود کو جواب دینے سے قاصر پائیں۔
سوال ایک دِل لگی ہے جب سوال سے سوال پیدا ہونے لگیں۔
سوال ایک بوجھ ہے جب جواب پہلے سے معلوم ہوں۔
سوال ایک کرب ہےجب بےالفاظ ہو۔
سوال ایک آئینہ ہےاگر خود سے ہو۔
سوال ایک آرزو بھی ہے۔
سوال میں بھی ہوں۔
سوال تم بھی ہو۔
کسی کتاب میں "مثلث غزل" کے کچھ نمونے دیکھے، دیکھنے میں کچھ ایسے ہی لگتے تھے۔
 

نایاب

لائبریرین
اصلاح کرنا تو صاحب علم و فن ہستیوں کا فرض ۔۔۔۔۔۔۔
مجھ ایسے تو بات سے بات چلا اپنے سوالوں کو جواب کی منزل تک پہنچانے کی کوشش کرتے ہیں ۔۔۔۔
ہر سوال کا جواب ہوتا ہے۔
ہر جواب کا سوال ہوتا ہے۔
اگر ہر سوال کا جواب ہوتا ۔۔ اگر ہر جواب سوال کو جنم نہ دیتا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
توسچے علیم و حکیم کی جانب سے کبھی بھی " ولا تجسسو " کا امر صادر نہ ہوتا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ تجسس کی مناہی ہی دلیل ہے کہ "ہر سوال کا جواب نہیں ہوتا " اور "ہر جواب سوال کو ہی جنم دیتا ہے "

نہ کبھی ایسے سوال ہوئے جن کے جواب میں کچھ نہ کہا جا سکے۔
اور نہ کبھی ایسے جواب ہوئے جن کا سوال نہ کیا جا سکے۔
یہ اور بات ہے کہ کبھی سوال سمجھ نہیں آتے۔
کبھی جواب سمجھ نہیں آتے۔
سوال کا جنم کہاں ہوتا ہے ؟ اگر یہ سوال جواب پا جائےتو " سوال و جواب " بارے سب الجھنیں ختم ہو جائیں ۔۔

پھر بھی ایک امید سی رہتی ہے کہ سوالوں کی جواب، جوابوں کے سوال کبھی نہ کبھی مل ہی جائیں گے۔
مگر کیا میرے تمام سوالوں کے جواب موجود بھی ہیں؟؟؟؟
لا شعور جب شعور کے محسوسات اور مشاہدات کے بل پر جو بھی سوال تراشتا ہے ۔ ان کے جواب کبھی تشنہ نہیں رہتے ۔
اور اکثر یہ سوال " لا شعور سے ابھرتے بنا خارج میں کسی سے پوچھے " تحت الشعور " سے اپنا جواب پا جاتے ہیں ۔
یہ سوال بھی جواب پا لیتا ہے کہ " تجسس کی مناہی " کی حقیقت کیا ہے ۔۔۔۔۔
لیس للانسان الا ماسعی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اگر موجود ہیں تو کہاں؟؟؟؟
کیسے پہنچوں گی ان تک؟؟؟؟
پہنچ پاؤں گی بھی یا نہیں؟؟؟؟
رب زدنی علماء ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جب علم میں اضافے کی خواہش صرف " فلاح " کے جذبے پر استوار ہو تو سچا علیم کبھی تشنہ نہیں رہنے دیتا ۔۔۔۔۔

اگر پہنچوں گی بھی تو کب؟؟؟؟


قالو سبحانک لا علم لنا الا ما علمتنا انک انت العلیم الحکیم
جب اپنے علم کو عاجز کر لیا جائے ۔ جب اپنے علم کو ناقص مان لیا جائے تو آگہی اپنے در کھولتی ہے ۔
بھرے برتن سے پانی باہر چھلک جاتا اور خالی میں ٹھہر جاتا ہے ۔۔
کہیں پڑھا تھا کہ
احمد جاوید صاحب نے کہا تھا کہ

"خاموشی آوازوں کی مرشد ہے"
انسان یہاں وہاں سوال کر کر تھک جاتا ہے ۔ جواب نہیں ملتا ۔
تو تھک ہار کر وہ خاموش ہوتے اپنی ہی سوچ میں ڈوب جاتا ہے ۔
اور یہ تھکن اک نعمت بن کر انسان کو اس کے سوالوں میں موجود کجیوں سے آگاہ کر دیتی ہے ۔
جب سوال کجی سے پاک ہوتے درستگی سے استوار ہوتا ہے تو براہ راست منزل پر پہنچ جواب پا لیتا ہے ۔۔۔۔
اللہ سوہنا آپ کے تمام سوالوں کو جوابوں کی منزل تک پہنچائے ۔۔۔۔۔۔۔۔آمین
بہت دعائیں
 

نظام الدین

محفلین
باباجی کے پاس ہر سوال کا جواب ہوتا تھا‘ ساہوکار صرف ایک سوال کا جواب چاہتا تھا ’’میں خوش کیوں نہیں ہوں‘‘ وہ پانچ لفظوں کے اس سوال کی پوٹلی اٹھا کر بابا جی کی تلاش میں نکل کھڑا ہوا‘ بابا جی لنگوٹ باندھ کر جنگل میں بیٹھے تھے‘ .

ساہوکار نے سوال کیا ’’میں خوش کیوں نہیں ہوں‘‘ بابا جی نے سنا‘ قہقہہ لگایا اور اس سے پوچھا ’’تمہارے پاس قیمتی ترین چیز کون سی ہے‘‘ ؟

ساہوکار نے جواب دیا ’’میرے پاس نیلے رنگ کا ایک نایاب ہیرا ہے‘‘ بابا جی نے پوچھا ’’تم نے یہ ہیرا کہاں سے لیا تھا‘‘؟

ساہوکار نے جواب دیا ’’یہ ہیرا میری تین نسلوں کی کمائی ہے‘ میرے دادا حضور جو کماتے تھے‘ وہ اس سے سونا خرید لیتے تھے۔ دادا اپنا سونا میرے باپ کو دے گئے‘ باپ نے جو کمایا اس نے بھی اس سے سونا خریدا اور اپنا اور اپنے والد کا سونا جمع کر کے میرے حوالے کر دیا‘ میں نے بھی جو کچھ کمایا اسے سونے میں تبدیل کیا‘ اپنی تین نسلوں کا سونا جمع کیا اور اس سے نیلے رنگ کا ہیرا خرید لیا‘‘ ۔

بابا جی نے پوچھا ’’وہ ہیرا کہاں ہے‘‘ ساہو کار نے اپنی میلی کچیلی ٹوپی اتاری‘ ٹوپی کا استر پھاڑا‘ ہیرا ٹوپی کے اندر سِلا ہوا تھا‘ ساہوکار نے ہیرا نکال کر ہتھیلی پر رکھ لیا‘ ہیرا واقعی خوبصورت اور قیمتی تھا‘ ہیرا دیکھ کر باباجی کی آنکھوں میں چمک آ گئی‘ انھوں نے ساہو کار کی ہتھیلی سے ہیرا اٹھایا‘ اپنی مٹھی میں بند کیا۔ نعرہ لگایا اور ہیرا لے کر دوڑ لگا دی‘

ساہوکار کا دل ڈوب گیا‘ اس نے جوتے ہاتھ میں اٹھائے اور باباجی کو گالیاں دیتے ہوئے ان کے پیچھے دوڑ پڑا‘ بابا جی آگے تھے‘ ساہو کار‘ اس کی گالیاں اور اس کی بددعائیں باباجی کے پیچھے پیچھے تھیں، اور ان دونوں کے دائیں اور بائیں گھنا جنگل تھا اور جنگل کے پریشان حال جانور تھے‘۔

باباجی بھاگتے چلے گئے اور ساہو کار ان کے پیچھے دیوانہ وار بھاگتا رہا‘ یہ لوگ صبح سے شام تک بھاگتے رہے یہاں تک کہ جنگل کا آخری کنارہ آ گیا‘ باباجی جنگل کی حد پر پہنچ کر برگد کے درخت پر چڑھ گئے۔

اب صورتحال یہ تھی‘ باباجی درخت کے اوپر بیٹھے تھے‘ ہیرا ان کی مٹھی میں تھا‘ ساہوکار الجھے ہوئے بالوں‘ پھٹی ہوئی ایڑھیوں اور پسینے میں شرابور جسم کے ساتھ درخت کے نیچے کھڑا تھا‘۔

وہ باباجی کو کبھی دھمکی دیتا تھا اور کبھی ان کی منتیں کرتا تھا‘ وہ درخت پر چڑھنے کی کوشش بھی کرتا تھا لیکن باباجی درخت کی شاخیں ہلا کر اس کی کوششیں ناکام بنا دیتے تھے‘ ساہو کار جب تھک گیا تو باباجی نے اس سے کہا ’’میں تمہیں صرف اس شرط پر ہیرا واپس کرنے کے لیے تیار ہوں‘ تم مجھے اپنا بھگوان مان لو‘‘ ساہو کار نے فوراً ہاتھ باندھے اور باباجی کی جے ہو کا نعرہ لگا دیا‘ باباجی نے مٹھی کھولی‘ ہیرا چٹکی میں اٹھایا اور ساہو کار کے پیروں میں پھینک دیا۔

ساہوکار کے چہرے پر چمک آ گئی‘ اس نے لپک کر ہیرا اٹھایا‘ پھونک مار کر اسے صاف کیا‘ ٹوپی میں رکھا اور دیوانوں کی طرح قہقہے لگانے لگا‘ باباجی درخت سے اترے‘ ساہوکار کے کندھے پر ہاتھ رکھا اور فرمایا ’’ہم صرف اس وقت خوش ہوتے ہیں جب ہمیں کھوئی ہوئی نعمتیں واپس ملتی ہیں‘ تم اپنی طرف دیکھو‘ تم اس وقت کتنے خوش ہو‘‘ ؟

ساہوکار نے اپنے قہقہوں پر توجہ دی‘ تھوڑا سا سوچا اور اس کے بعد پوچھا ’’حضور میں سمجھا نہیں‘‘ باباجی نے فرمایا ’’اللہ تعالیٰ کی نعمتیں ہیروں کی طرح ہوتی ہیں‘ ہم نعمتوں کے ہیروں کو ٹوپیوں میں سی کر پھرتے رہتے ہیں‘ ہم ان کی قدر و قیمت بھول جاتے ہیں۔

اللہ تعالیٰ ایک دن ہم سے یہ نعمتیں چھین لیتا ہے‘ ہمیں اس دن پہلی بار ان نعمتوں کے قیمتی ہونے کا اندازہ ہوتا ہے‘ ہم اس کے بعد چھینی ہوئی نعمتوں کے پیچھے اس طرح دیوانہ وار دوڑتے ہیں جس طرح تم ہیرے کے لیے میرے پیچھے بھاگے تھے‘ ہم نعمتوں کے دوبارہ حصول کے لیے اس قدر دیوانے ہو جاتے ہیں کہ ہم اپنے جیسے انسانوں کو بھگوان تک مان لیتے ہیں۔

اللہ تعالیٰ کو پھر ایک دن ہم میں سے کچھ لوگوں پر رحم آ جاتا ہے اور وہ ہماری نعمت ہمیں لوٹا دیتا ہے اور ہمیں جوں ہی وہ نعمت دوبارہ ملتی ہے ہم خوشی سے چھلانگیں لگانے لگتے ہیں‘‘۔

بابا جی نے اس کے بعد قہقہہ لگایا اور فرمایا ’’تم صرف اس لیے اداس تھے کہ تم نے نعمتوں کے دوبارہ حصول کا تجربہ نہیں کیا تھا‘ تمہیں نعمتوں کی قدر و قیمت کا اندازہ نہیں تھا‘ تم اب ان چیزوں‘ ان نعمتوں کی قدر کا اندازہ لگا چکے ہو جو تمہارے پاس موجود ہیں چنانچہ اب تم کبھی اداس نہیں ہو گے‘ تم خوش رہو گے‘‘۔
 
سر یعنی ہماری ٹیکنالوجی ہمارے اِس تک پُہنچنے سے پہلے ہی چوری ہو چُکی ہے :)
کتاب میرے پاس پڑی ہے کسی وقت حوالے کے ساتھ نقل کرتا ہوں۔
ابھی محاوروں والے تاگے کو دیکھ رہا تھا۔ ادھر یہاں چوروں کو مور والی بات ہو گئی۔
 

نور وجدان

لائبریرین
کتاب میرے پاس پڑی ہے کسی وقت حوالے کے ساتھ نقل کرتا ہوں۔
ابھی محاوروں والے تاگے کو دیکھ رہا تھا۔ ادھر یہاں چوروں کو مور والی بات ہو گئی۔
ہم بھی چوری کرنے والوں میں ہیں۔۔۔کاپی پیسٹنگ ہو رہی تھی :)
 
Top