قران پاک قیامت تک کے لیے ہے ۔ اس میں مبالغے کی بات نہیں ہے مگر ہم نے اس کے معانی کو قیامت تک کے لیے اٹھا رکھا ہے اور لفظ کو سند مان لیا ہے ۔۔۔۔۔۔۔اس لیے ان لفظوں کے جھگڑے نے ہم میں تفریق پیدا کردی ہے ۔قران پاک کے کافی قوانین تبدیل کیے گئے اور سب سے زیادہ قوانین بدلنے والے امام ابو حنفیہ تھے جنہوں نے قیاس سے کام لیتے بدلتے زمانے کے وقت آئمہ وقت سے اجماع کرتے نئے زندگی گزارنے کے اصول دینے گئے ۔۔۔۔۔۔۔ اسلام پھیلا مصر و افریقہ تو ہر علاقے کی تہذیب کے مطابق جناب شافعی یا حنبل رح نے نئے قوانین متعارف کرائے ۔۔۔۔ جناب عبد الوہاب صاحب نے اجتہاد کا دروازہ بند کردیا۔۔۔۔۔اسلام خشکی و تر کا دین ہے یعنی بدلتا ہے وقت کے ساتھ اور اس کی بنیادیں اور ستون وہی رہتے ہیں یہی وجہ ہے اسلام کی پھیلنے تھی اور عروج کی ۔۔۔۔ فرض کیا ہے؟ ہم میں کون جانا پایا ہے ؟ اصلاح اگر ایک فرد واحد کرسکتا خود ہی تو قوانین نافذ نہ ہوتے نا ہی معاشرتی دباؤ پیدا ہوتا ۔۔۔۔۔زمانے کو نئی فضا کی ضرورت ہے گھٹن نے معاشرے کو گلا سڑا دیا ہے اور جبر کی زنجیروں نے باغی کردیا ہے ۔۔۔۔۔کلمہ دل سے ہوتا زبان سے کلمے کا فائدہ کیاَ ؟
میری پیاری بجّو!
اسلام سب سے ماڈرن مذہب ہے اور اجتہاد۔۔۔۔ اجتہاد کی بھی حدود ہوا کرتی ہیں۔۔۔۔۔ ہر معاملے میں۔۔۔۔ مثلاََ ہم پردہ کی ہی مثال لے لیں جس پہ آپ بات کر رہی تھیں۔۔۔۔ کیا کسی اجتہاد نے یہ کہا کہ ایک بال بھی ننگا کرنے کی اجازت ہے؟ وقت گزرنے کے ساتھ پردے کے طریقے میں فرق آتا گیا اجتہاد کے نتیجے میں۔۔۔اور اب شاید منہ ڈھانپنا بھی فرض کے دائرے سے نکال دیا گیا ہے۔۔۔۔ مگر منہ اور ہاتھ پاؤں کے علاوہ ایک بال بھی نظر نہ آئے۔۔۔اور پردہ ایک ضابطہء حیات ہے ۔۔۔صرف کپڑے بڑھانے کا نام ہرگز نہیں۔۔۔۔ اجتہاد کی حدود ہیں وقت کے ساتھ بھی۔۔۔ ہم بے پردگی کو اجتہاد کے زمرے میں نہیں لا سکتے چاہے جتنی بھی وضاحتیں دے لی جائیں۔۔۔ایک مقدس روایت کا مفہوم ہے کہ صحابہ کرام جن چیزوں کو ہلاکت کا باعث گردانتے تھے آج وہ ہم میں معمولی سی باتیں بنی ہر فرد میں گردش کر رہی ہیں۔۔۔
آپ نے گھٹن کی بات کی اور فرقوں کے اختلاف کی۔۔۔ گھٹن اور اختلاف اسلئے ہے کہ اسلام ایک ایسا دائرہ ہے کہ پہلے اس میں داخل کیا جاتا تھا۔۔۔آجکل داخلے پہ پابندی ہے اور خارج کیا جاتا ہے۔۔۔۔ ہم کیوں اتنے ججمنٹل ہو جاتے ہیں؟؟؟ ہم اسلام کے ٹھیکے دار نہیں خادم ہیں۔۔۔۔۔۔۔!!!! اختلاف کا حل دلائل کی مدد سے بحث ہو سکتی ہے مگر کسی مسلمان کو جو کافر کہے وہ بذات خود دائرہ اسلام سے خارج ہے اور جس کے دل میں رائی کے دامے کے برابر بھی تکبر ہے اس پی جنّت حرام ہے۔۔۔ یہ بھی روایات کے مفہوم ہیں۔۔۔
پیارے نبی صلی علیہ والہ وسلم سر تا پا قرآن تھے۔۔۔۔ اور ہمارا وژن اور مشن بھی وہی ہونا چاہئیے۔۔۔۔! چلتا پھرتا قرآن بننا۔۔۔۔ اور کوشش میں حرج کیا ہے؟
فردی اصلاح اہم ترین ہے۔۔۔۔ قوانین تب ہی بنتے ہیں جب فرد کو خود نہ پتا ہو کہ اسے کیا کرنا ہے اور اسے بتانا پڑے۔۔۔۔ جیسے اماں ابا کہتے ہیں پڑھ لو بیٹا پڑھ لو اور ہم یہ کومنٹ لکھ رہے ہوتے ہیں ۔۔۔کیونکہ پتا ہونے کے باوجود عمل سے دور ہیں ہم۔۔۔کھوٹ یم میں ہے نا ! ہم اسی وقت کچھ اور بدل سکتے ہیں جب ہم خود کو بدلیں اور ہم خود کو تنقید کے کٹہرے میں کھڑے کر کے دوسرے پہ تنقید کرسکتے ہیں نا بہنا !
اور جہاں تک دل کے کلمے کی اہمیت کی بات ہے۔۔۔ تو حضورِ والا! جب ہم کوئی اعلٰی اور شاندار عمارت بنانا چاہتے ہیں تو کیا ہم سب سے پہلے اس پہ رنگ روغن اور پتھر لگاتے ہیں؟؟؟؟ نہیں۔۔۔۔۔۔!!!!!! ہم سبببب سے پہلے اُسے اینٹ روڑے اور کنکریٹ سے بھرتے ہیں ۔۔۔۔ کسقدر کھردری اور بے ڈھنگی سی یہ بنیاد ہوتی ہے نا۔۔۔۔جس پر ہم راغن کا ملمع لگاتے ہیں۔۔۔۔! اسی طرح دل کے کلمے سے پہلے زبابی کے کلمے اور زبانی اعمال کی اہمیت ہے۔۔۔
۔اچھا۔۔۔۔بعض دفعہ ایسا بھی ہوتا ہے دنیا میں کہ ہمیں کسی چیز کی نقل اتارنے کا انعام ملتا ہے۔۔۔ چاہے ایکٹرز کی ہی مثال لے لو۔۔۔ یا "خلیل بھائی" کی پیروڈی کی۔۔۔۔
تو کیا پتا آخرت میں نقل پر ہی انعام ہو جائے۔۔۔۔ پرسنلی۔۔۔۔ میں اس انداز میں سوچتی ہوں کہ یہ الفاظ جو میں اس وقت ادا کر رہی ہوں یہ میرے محبوب نبی آخرالزماں کے ہونٹوں سے ادا ہوئے ہوں گے۔۔۔یہی الفاظ۔۔۔۔"یہی الفاظ" ۔۔۔۔۔۔۔ کیا قسمت ہے مری۔۔۔