سوالیہ؟؟؟؟؟؟؟؟ از شزہ مغل

سوال ایک المیہ ہے جب آپ کے سامنے پھیلے ہاتھ، چہرہ سوالی اور نظریں خالی ہوں۔
سوال ایک ناپسندیدہ چیز ہے جب آپ خود کو جواب دینے سے قاصر پائیں۔
سوال ایک دِل لگی ہے جب سوال سے سوال پیدا ہونے لگیں۔
سوال ایک بوجھ ہے جب جواب پہلے سے معلوم ہوں۔
سوال ایک کرب ہےجب بےالفاظ ہو۔
سوال ایک آئینہ ہےاگر خود سے ہو۔
سوال ایک آرزو بھی ہے۔
سوال میں بھی ہوں۔
سوال تم بھی ہو۔
کتنا خوبصورت لکھتے ہیں آپ دعا ہے اللہ آپ کے علم و عمل میں برکت دے آمین
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
بھیا اب ایسی بھی کوئی بات نہیں۔ کوئی نہ کوئی نقطہ تو پکڑا جا ہی سکتا ہے۔ میں نے کون سا پرفیکٹ لکھا ہے۔ بہت کچھ ہے بیان طلب
پھر یہی کہہ سکتا ہوں
کچھ جہدِ مسلسل سے تھکاوٹ نہیں لازم
انساں کو تھکا دیتا ہے، سوچوں کا سفر بھی
:)
 

نور وجدان

لائبریرین
قرآن پاک قیامت تک آنے والے انسانوں کیلئے ہے۔۔۔"اُس" دور کیلئے نہیں۔۔۔۔۔ اور اسلام بھی۔۔۔۔۔۔
اللہ کے احکامات کی مصلحتیں جب ہم نہیں سمجھ پاتے۔۔۔
یا ہم اس ماحول میں رہ کر نام نہاد ماڈرن ہو گئے ہیں تو جن احکامات سے ہم روگردانی کرتے ہیں ان کے لئے ہم نے وضاحتیں بھی ڈھونڈ رکھی ہیں۔۔۔۔۔۔۔ کہ تب وہ تھا اب یہ۔۔۔۔۔۔ حالانکہ پردہ کی ضرورت بھی اب زیادہ ہے۔۔۔۔۔۔ انہی ضروریات اور گھر سے نکلنے کے حوالے سے جن کا آپ نے ذکر کیا۔۔۔
اور ہمارا جو کام ہے ہم نے وہ کرنا ہے۔۔۔۔ جب یم اپنا فرض پورا کر لیں گے تو دیکھیں گے کہ دوسروں کی نظر کیا ہے۔۔۔۔ اور وہ ہمارا معاشرتی مسئلہ ہے۔۔۔۔ سدِّ باب اسکا بھی بہت ضروری ہے اپنی اصلاح کے بعد۔۔۔۔

قران پاک قیامت تک کے لیے ہے ۔ اس میں مبالغے کی بات نہیں ہے مگر ہم نے اس کے معانی کو قیامت تک کے لیے اٹھا رکھا ہے اور لفظ کو سند مان لیا ہے ۔۔۔۔۔۔۔اس لیے ان لفظوں کے جھگڑے نے ہم میں تفریق پیدا کردی ہے ۔قران پاک کے کافی قوانین تبدیل کیے گئے اور سب سے زیادہ قوانین بدلنے والے امام ابو حنفیہ تھے جنہوں نے قیاس سے کام لیتے بدلتے زمانے کے وقت آئمہ وقت سے اجماع کرتے نئے زندگی گزارنے کے اصول دینے گئے ۔۔۔۔۔۔۔ اسلام پھیلا مصر و افریقہ تو ہر علاقے کی تہذیب کے مطابق جناب شافعی یا حنبل رح نے نئے قوانین متعارف کرائے ۔۔۔۔ جناب عبد الوہاب صاحب نے اجتہاد کا دروازہ بند کردیا۔۔۔۔۔اسلام خشکی و تر کا دین ہے یعنی بدلتا ہے وقت کے ساتھ اور اس کی بنیادیں اور ستون وہی رہتے ہیں یہی وجہ ہے اسلام کی پھیلنے تھی اور عروج کی ۔۔۔۔ فرض کیا ہے؟ ہم میں کون جانا پایا ہے ؟ اصلاح اگر ایک فرد واحد کرسکتا خود ہی تو قوانین نافذ نہ ہوتے نا ہی معاشرتی دباؤ پیدا ہوتا ۔۔۔۔۔زمانے کو نئی فضا کی ضرورت ہے گھٹن نے معاشرے کو گلا سڑا دیا ہے اور جبر کی زنجیروں نے باغی کردیا ہے ۔۔۔۔۔کلمہ دل سے ہوتا زبان سے کلمے کا فائدہ کیاَ ؟
 
قران پاک قیامت تک کے لیے ہے ۔ اس میں مبالغے کی بات نہیں ہے مگر ہم نے اس کے معانی کو قیامت تک کے لیے اٹھا رکھا ہے اور لفظ کو سند مان لیا ہے ۔۔۔۔۔۔۔اس لیے ان لفظوں کے جھگڑے نے ہم میں تفریق پیدا کردی ہے ۔قران پاک کے کافی قوانین تبدیل کیے گئے اور سب سے زیادہ قوانین بدلنے والے امام ابو حنفیہ تھے جنہوں نے قیاس سے کام لیتے بدلتے زمانے کے وقت آئمہ وقت سے اجماع کرتے نئے زندگی گزارنے کے اصول دینے گئے ۔۔۔۔۔۔۔ اسلام پھیلا مصر و افریقہ تو ہر علاقے کی تہذیب کے مطابق جناب شافعی یا حنبل رح نے نئے قوانین متعارف کرائے ۔۔۔۔ جناب عبد الوہاب صاحب نے اجتہاد کا دروازہ بند کردیا۔۔۔۔۔اسلام خشکی و تر کا دین ہے یعنی بدلتا ہے وقت کے ساتھ اور اس کی بنیادیں اور ستون وہی رہتے ہیں یہی وجہ ہے اسلام کی پھیلنے تھی اور عروج کی ۔۔۔۔ فرض کیا ہے؟ ہم میں کون جانا پایا ہے ؟ اصلاح اگر ایک فرد واحد کرسکتا خود ہی تو قوانین نافذ نہ ہوتے نا ہی معاشرتی دباؤ پیدا ہوتا ۔۔۔۔۔زمانے کو نئی فضا کی ضرورت ہے گھٹن نے معاشرے کو گلا سڑا دیا ہے اور جبر کی زنجیروں نے باغی کردیا ہے ۔۔۔۔۔کلمہ دل سے ہوتا زبان سے کلمے کا فائدہ کیاَ ؟
میری پیاری بجّو!
اسلام سب سے ماڈرن مذہب ہے اور اجتہاد۔۔۔۔ اجتہاد کی بھی حدود ہوا کرتی ہیں۔۔۔۔۔ ہر معاملے میں۔۔۔۔ مثلاََ ہم پردہ کی ہی مثال لے لیں جس پہ آپ بات کر رہی تھیں۔۔۔۔ کیا کسی اجتہاد نے یہ کہا کہ ایک بال بھی ننگا کرنے کی اجازت ہے؟ وقت گزرنے کے ساتھ پردے کے طریقے میں فرق آتا گیا اجتہاد کے نتیجے میں۔۔۔اور اب شاید منہ ڈھانپنا بھی فرض کے دائرے سے نکال دیا گیا ہے۔۔۔۔ مگر منہ اور ہاتھ پاؤں کے علاوہ ایک بال بھی نظر نہ آئے۔۔۔اور پردہ ایک ضابطہء حیات ہے ۔۔۔صرف کپڑے بڑھانے کا نام ہرگز نہیں۔۔۔۔ اجتہاد کی حدود ہیں وقت کے ساتھ بھی۔۔۔ ہم بے پردگی کو اجتہاد کے زمرے میں نہیں لا سکتے چاہے جتنی بھی وضاحتیں دے لی جائیں۔۔۔ایک مقدس روایت کا مفہوم ہے کہ صحابہ کرام جن چیزوں کو ہلاکت کا باعث گردانتے تھے آج وہ ہم میں معمولی سی باتیں بنی ہر فرد میں گردش کر رہی ہیں۔۔۔
آپ نے گھٹن کی بات کی اور فرقوں کے اختلاف کی۔۔۔ گھٹن اور اختلاف اسلئے ہے کہ اسلام ایک ایسا دائرہ ہے کہ پہلے اس میں داخل کیا جاتا تھا۔۔۔آجکل داخلے پہ پابندی ہے اور خارج کیا جاتا ہے۔۔۔۔ ہم کیوں اتنے ججمنٹل ہو جاتے ہیں؟؟؟ ہم اسلام کے ٹھیکے دار نہیں خادم ہیں۔۔۔۔۔۔۔!!!! اختلاف کا حل دلائل کی مدد سے بحث ہو سکتی ہے مگر کسی مسلمان کو جو کافر کہے وہ بذات خود دائرہ اسلام سے خارج ہے اور جس کے دل میں رائی کے دامے کے برابر بھی تکبر ہے اس پی جنّت حرام ہے۔۔۔ یہ بھی روایات کے مفہوم ہیں۔۔۔
پیارے نبی صلی علیہ والہ وسلم سر تا پا قرآن تھے۔۔۔۔ اور ہمارا وژن اور مشن بھی وہی ہونا چاہئیے۔۔۔۔! چلتا پھرتا قرآن بننا۔۔۔۔ اور کوشش میں حرج کیا ہے؟
فردی اصلاح اہم ترین ہے۔۔۔۔ قوانین تب ہی بنتے ہیں جب فرد کو خود نہ پتا ہو کہ اسے کیا کرنا ہے اور اسے بتانا پڑے۔۔۔۔ جیسے اماں ابا کہتے ہیں پڑھ لو بیٹا پڑھ لو اور ہم یہ کومنٹ لکھ رہے ہوتے ہیں ۔۔۔کیونکہ پتا ہونے کے باوجود عمل سے دور ہیں ہم۔۔۔کھوٹ یم میں ہے نا ! ہم اسی وقت کچھ اور بدل سکتے ہیں جب ہم خود کو بدلیں اور ہم خود کو تنقید کے کٹہرے میں کھڑے کر کے دوسرے پہ تنقید کرسکتے ہیں نا بہنا !

اور جہاں تک دل کے کلمے کی اہمیت کی بات ہے۔۔۔ تو حضورِ والا! جب ہم کوئی اعلٰی اور شاندار عمارت بنانا چاہتے ہیں تو کیا ہم سب سے پہلے اس پہ رنگ روغن اور پتھر لگاتے ہیں؟؟؟؟ نہیں۔۔۔۔۔۔!!!!!! ہم سبببب سے پہلے اُسے اینٹ روڑے اور کنکریٹ سے بھرتے ہیں ۔۔۔۔ کسقدر کھردری اور بے ڈھنگی سی یہ بنیاد ہوتی ہے نا۔۔۔۔جس پر ہم راغن کا ملمع لگاتے ہیں۔۔۔۔! اسی طرح دل کے کلمے سے پہلے زبابی کے کلمے اور زبانی اعمال کی اہمیت ہے۔۔۔
۔اچھا۔۔۔۔بعض دفعہ ایسا بھی ہوتا ہے دنیا میں کہ ہمیں کسی چیز کی نقل اتارنے کا انعام ملتا ہے۔۔۔ چاہے ایکٹرز کی ہی مثال لے لو۔۔۔ یا "خلیل بھائی" کی پیروڈی کی۔۔۔۔
تو کیا پتا آخرت میں نقل پر ہی انعام ہو جائے۔۔۔۔ پرسنلی۔۔۔۔ میں اس انداز میں سوچتی ہوں کہ یہ الفاظ جو میں اس وقت ادا کر رہی ہوں یہ میرے محبوب نبی آخرالزماں کے ہونٹوں سے ادا ہوئے ہوں گے۔۔۔یہی الفاظ۔۔۔۔"یہی الفاظ" ۔۔۔۔۔۔۔ کیا قسمت ہے مری۔۔۔
 

نور وجدان

لائبریرین
میری پیاری بجّو!
اسلام سب سے ماڈرن مذہب ہے اور اجتہاد۔۔۔۔ اجتہاد کی بھی حدود ہوا کرتی ہیں۔۔۔۔۔ ہر معاملے میں۔۔۔۔ مثلاََ ہم پردہ کی ہی مثال لے لیں جس پہ آپ بات کر رہی تھیں۔۔۔۔ کیا کسی اجتہاد نے یہ کہا کہ ایک بال بھی ننگا کرنے کی اجازت ہے؟ وقت گزرنے کے ساتھ پردے کے طریقے میں فرق آتا گیا اجتہاد کے نتیجے میں۔۔۔اور اب شاید منہ ڈھانپنا بھی فرض کے دائرے سے نکال دیا گیا ہے۔۔۔۔ مگر منہ اور ہاتھ پاؤں کے علاوہ ایک بال بھی نظر نہ آئے۔۔۔اور پردہ ایک ضابطہء حیات ہے ۔۔۔صرف کپڑے بڑھانے کا نام ہرگز نہیں۔۔۔۔ اجتہاد کی حدود ہیں وقت کے ساتھ بھی۔۔۔ ہم بے پردگی کو اجتہاد کے زمرے میں نہیں لا سکتے چاہے جتنی بھی وضاحتیں دے لی جائیں۔۔۔ایک مقدس روایت کا مفہوم ہے کہ صحابہ کرام جن چیزوں کو ہلاکت کا باعث گردانتے تھے آج وہ ہم میں معمولی سی باتیں بنی ہر فرد میں گردش کر رہی ہیں۔۔۔
آپ نے گھٹن کی بات کی اور فرقوں کے اختلاف کی۔۔۔ گھٹن اور اختلاف اسلئے ہے کہ اسلام ایک ایسا دائرہ ہے کہ پہلے اس میں داخل کیا جاتا تھا۔۔۔آجکل داخلے پہ پابندی ہے اور خارج کیا جاتا ہے۔۔۔۔ ہم کیوں اتنے ججمنٹل ہو جاتے ہیں؟؟؟ ہم اسلام کے ٹھیکے دار نہیں خادم ہیں۔۔۔۔۔۔۔!!!! اختلاف کا حل دلائل کی مدد سے بحث ہو سکتی ہے مگر کسی مسلمان کو جو کافر کہے وہ بذات خود دائرہ اسلام سے خارج ہے اور جس کے دل میں رائی کے دامے کے برابر بھی تکبر ہے اس پی جنّت حرام ہے۔۔۔ یہ بھی روایات کے مفہوم ہیں۔۔۔
پیارے نبی صلی علیہ والہ وسلم سر تا پا قرآن تھے۔۔۔۔ اور ہمارا وژن اور مشن بھی وہی ہونا چاہئیے۔۔۔۔! چلتا پھرتا قرآن بننا۔۔۔۔ اور کوشش میں حرج کیا ہے؟
فردی اصلاح اہم ترین ہے۔۔۔۔ قوانین تب ہی بنتے ہیں جب فرد کو خود نہ پتا ہو کہ اسے کیا کرنا ہے اور اسے بتانا پڑے۔۔۔۔ جیسے اماں ابا کہتے ہیں پڑھ لو بیٹا پڑھ لو اور ہم یہ کومنٹ لکھ رہے ہوتے ہیں ۔۔۔کیونکہ پتا ہونے کے باوجود عمل سے دور ہیں ہم۔۔۔کھوٹ یم میں ہے نا ! ہم اسی وقت کچھ اور بدل سکتے ہیں جب ہم خود کو بدلیں اور ہم خود کو تنقید کے کٹہرے میں کھڑے کر کے دوسرے پہ تنقید کرسکتے ہیں نا بہنا !

اور جہاں تک دل کے کلمے کی اہمیت کی بات ہے۔۔۔ تو حضورِ والا! جب ہم کوئی اعلٰی اور شاندار عمارت بنانا چاہتے ہیں تو کیا ہم سب سے پہلے اس پہ رنگ روغن اور پتھر لگاتے ہیں؟؟؟؟ نہیں۔۔۔۔۔۔!!!!!! ہم سبببب سے پہلے اُسے اینٹ روڑے اور کنکریٹ سے بھرتے ہیں ۔۔۔۔ کسقدر کھردری اور بے ڈھنگی سی یہ بنیاد ہوتی ہے نا۔۔۔۔جس پر ہم راغن کا ملمع لگاتے ہیں۔۔۔۔! اسی طرح دل کے کلمے سے پہلے زبابی کے کلمے اور زبانی اعمال کی اہمیت ہے۔۔۔
۔اچھا۔۔۔۔بعض دفعہ ایسا بھی ہوتا ہے دنیا میں کہ ہمیں کسی چیز کی نقل اتارنے کا انعام ملتا ہے۔۔۔ چاہے ایکٹرز کی ہی مثال لے لو۔۔۔ یا "خلیل بھائی" کی پیروڈی کی۔۔۔۔
تو کیا پتا آخرت میں نقل پر ہی انعام ہو جائے۔۔۔۔ پرسنلی۔۔۔۔ میں اس انداز میں سوچتی ہوں کہ یہ الفاظ جو میں اس وقت ادا کر رہی ہوں یہ میرے محبوب نبی آخرالزماں کے ہونٹوں سے ادا ہوئے ہوں گے۔۔۔یہی الفاظ۔۔۔۔"یہی الفاظ" ۔۔۔۔۔۔۔ کیا قسمت ہے مری۔۔۔
  • عمارت کی تعمیر وہ الجھتے ہیں جو اس صرف تعمیر چاہتے اور تراش خراب کی تخریب سے اپنی من پسند صورت دیتے ہیں ۔ باقی ایک خالی کچی اینٹ کی عمارت کافی ہوتی ہے اگر اس میں اپنا پن ہو ، انہیں رنگ و رو غن سے کیا غرض جن کے پاس جذبوں کا رنگ ہو
 
آخری تدوین:

اکمل زیدی

محفلین
جیسے ہر مرض کی دوا ہوتی ہے ...اسی طرح ہر سوال کا جواب بھی ہوتا ہے ... کب کہاں کیسے کیوں کس طرح اس پر اپنے انے زاوئیے ہیں ...
 
  • عمارت کی تعمیر وہ الجھتے ہیں جو اس صرف تعمیر چاہتے اور تراش خراب کی تخریب سے اپنی من پسند صورت دیتے ہیں ۔ باقی ایک خالی کچی اینٹ کی عمارت کافی ہوتی ہے اگر اس میں اپنا پن ہو ، انہیں رنگ و رو غن سے کیا غرض جن کے پاس جذبوں کا رنگ ہو
بہنا میرا اشارہ بھی اسی طرف ہے۔۔۔
اور یہ استعارہ زبانی کلمے کی اہمیت کو واضح کرنے کیلئے تھا
 

شزہ مغل

محفلین
آج وہ مرد کی طرح یا اس سے بڑھ کے کام کرے اور پردہ بھی کرے اور اسی پردے کے باعث چھبتی نظریں بھی برداشت کرے
آپی میں بھی یہی کہنا چاہ رہی تھی۔ آپی جان یہ موضوع ایسا ہے کہ بہت کچھ کہا جا سکتا ہے اور وہ بھی دلائل کے ساتھ، مگر بات بہت دور جا نکلے گی اور شاید محفل کے معزز حضرات کو ناگوار گزرے۔ معذرت
 

نور وجدان

لائبریرین
آپی میں بھی یہی کہنا چاہ رہی تھی۔ آپی جان یہ موضوع ایسا ہے کہ بہت کچھ کہا جا سکتا ہے اور وہ بھی دلائل کے ساتھ، مگر بات بہت دور جا نکلے گی اور شاید محفل کے معزز حضرات کو ناگوار گزرے۔ معذرت
آپ کی لڑی ہے بٹیا۔۔۔۔۔۔۔۔ آپ کہو کھل کے کہو جو کہنا ہے۔۔۔۔۔۔
 

شزہ مغل

محفلین
اور ہمارا جو کام ہے ہم نے وہ کرنا ہے۔۔۔۔ جب یم اپنا فرض پورا کر لیں گے تو دیکھیں گے کہ دوسروں کی نظر کیا ہے۔۔۔۔ اور وہ ہمارا معاشرتی مسئلہ ہے۔۔۔۔ سدِّ باب اسکا بھی بہت ضروری ہے اپنی اصلاح کے بعد۔۔۔
متفق
 

شزہ مغل

محفلین
قران پاک قیامت تک کے لیے ہے ۔ اس میں مبالغے کی بات نہیں ہے مگر ہم نے اس کے معانی کو قیامت تک کے لیے اٹھا رکھا ہے اور لفظ کو سند مان لیا ہے ۔۔۔۔۔۔۔اس لیے ان لفظوں کے جھگڑے نے ہم میں تفریق پیدا کردی ہے ۔قران پاک کے کافی قوانین تبدیل کیے گئے اور سب سے زیادہ قوانین بدلنے والے امام ابو حنفیہ تھے جنہوں نے قیاس سے کام لیتے بدلتے زمانے کے وقت آئمہ وقت سے اجماع کرتے نئے زندگی گزارنے کے اصول دینے گئے ۔۔۔۔۔۔۔ اسلام پھیلا مصر و افریقہ تو ہر علاقے کی تہذیب کے مطابق جناب شافعی یا حنبل رح نے نئے قوانین متعارف کرائے ۔۔۔۔ جناب عبد الوہاب صاحب نے اجتہاد کا دروازہ بند کردیا۔۔۔۔۔اسلام خشکی و تر کا دین ہے یعنی بدلتا ہے وقت کے ساتھ اور اس کی بنیادیں اور ستون وہی رہتے ہیں یہی وجہ ہے اسلام کی پھیلنے تھی اور عروج کی ۔۔۔۔ فرض کیا ہے؟ ہم میں کون جانا پایا ہے ؟ اصلاح اگر ایک فرد واحد کرسکتا خود ہی تو قوانین نافذ نہ ہوتے نا ہی معاشرتی دباؤ پیدا ہوتا ۔۔۔۔۔زمانے کو نئی فضا کی ضرورت ہے گھٹن نے معاشرے کو گلا سڑا دیا ہے اور جبر کی زنجیروں نے باغی کردیا ہے ۔۔۔۔۔کلمہ دل سے ہوتا زبان سے کلمے کا فائدہ کیاَ ؟
آپی جان میرے ناقص علم کے مطابق صورتِ حال کے مطابق راہ ڈھونڈنا قوانین کو بدلنا ہر گز نہیں ہوتا۔
ہم سب جانتے ہیں کہ عربی زبان دنیا کی وسع ترین زبان ہے۔ اور قرآنِ ھکیم دین و دنیا کا خلاصہ ہے۔ کچھ بھی ایسا نہیں جو اللہ نے قرآن میں بیان نہ کیا ہو۔ خود اللہ نے مکھی کی مثال دے کر ثابت کیا کہ قرآن میں تمام مسائل کا حل اور مثالیں موجود ہیں۔ اللہ ہم سب کو اصل اور سیدھی راہ پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔
عرض یہ تھی کہ دین میں کوئی انسان اگر من گھڑت بات شامل کرنے کی کوشش کرے گا تو دنیا و آخرت میں رسوا ہو گا۔ اور دین کو سمجھنے اور سمجھانے اور اس کی اصل تک پہنچنے کی کوشش جو کرتا ہے وہی کامیاب ہے۔
 

شزہ مغل

محفلین
آپ کی لڑی ہے بٹیا۔۔۔۔۔۔۔۔ آپ کہو کھل کے کہو جو کہنا ہے۔۔۔۔۔۔
شکریہ آپی۔ لڑی میری نہیں ہم سب کی ہے۔ میں سوالیہ اس لیے شامل کرتی ہوں کہ جواب پا سکوں نا کہ کسی سے جھگڑا کروں۔ میں تو بس اپنے حصے کا سکون، امن اور پیار بانٹنا چاہتی ہوں۔
 

زیک

مسافر
سزا تو مل گئی نا بھیا۔ آپ کا کمپیوٹر چوری ہو گیا۔
اب آپ پچھتائیں گے کہ کاش میں دروازہ کھلا نہ چھوڑتا اور عزم بھی کریں گے کہ آئندہ میں دروازہ بند کروں گا۔
ہممم

بہرحال اس استعارے کا عورت اور پردے سے تعلق متنازع ہے اور پردے کی بحث میں میں بحیثیت مرد پڑنا نہیں چاہتا کہ خواتین کی مرضی ہے کریں یا نہ کریں۔
 

شزہ مغل

محفلین
ہممم

بہرحال اس استعارے کا عورت اور پردے سے تعلق متنازع ہے اور پردے کی بحث میں میں بحیثیت مرد پڑنا نہیں چاہتا کہ خواتین کی مرضی ہے کریں یا نہ کریں۔
یہی مرضی تو تسلیم نہیں کی جاتی بھیا۔
آج بھی میں ایسی خواتین دیکھ رہی ہوں جو اپنے گھر کی تمام تر ذمہ داریاں خود نبھا رہی ہیں۔ ہانڈی چولھا سے لے کر کام کاروبار تک۔ مگر پھر بھی اسی گھر کے مرد حضرات خواتین کو اپنی باندی ہی سمجھتے ہیں۔ بھیا میرا مزاج نہیں کہ میں خود عورت ہوں اس لیے عورتوں کی بے جا طرف داری کروں۔ اسی لیے کہا تھا
مانا کہ آج کل خواتین بھی پردے کا خیال نہیں رکھتیں مگر افسوس اس وقت ہوتا ہے جب باپردہ خاتون کو ان برچھیوں کے کچوکے لگائے جاتے ہیں
 

شزہ مغل

محفلین
کوئی شخص اگر بدتہذیبی کا مظاہرہ کرے تو اس سے پوچھا جاتا ہے۔ "کیا تمہاری ماں نے تمہیں یہی سکھایا ہے؟"​
مجھے آج تک یہ سمجھ نہیں آئی کہ کیا صرف ماں کا فرض ہے اولاد کی تعلیم و تربیت کا؟ باپ کا فرض صرف یہ ہے کہ وہ کما کر لا دے اور وہ بھی اگر اس کی انا اجازت دے تو۔​
میرا ماننا ہے کہ اولاد کی تربیت پر ماں اور باپ دونوں کا اثر ہوتا ہے۔ بچے کی شخصیت مکمل ہی نہیں ہو پاتی جب تک کہ اسے دونوں کی توجہ نہ ملے۔​
چلئیے لمحہ بھر کو مان لیتے ہیں کہ دنیا کی تمام خواتین گھر کی چار دیواری سے باہر نہیں نکلتیں۔ مرد حضرات گھر سے باہر کے معاملات دیکھتے ہیں۔ اولاد کی تربیت بھی مکمل طور پر ماؤں کی ذمہ داری ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اولاد میں تو بیٹے اور بیٹیاں دونوں ہوتے ہیں تو جب ماں نے گھر سے باہر کی دنیا دیکھی ہی نہیں تو اپنے بیٹے کی تربیت میں کیسے گھر سے باہر کے حالات سے مقابلے کا ہنر شامل کر سکے گی؟؟؟؟ کیا ایسی صورت میں باپ کا فرض نہیں کہ روزگار کے معاملات اور حالات سے مقابلے کا ہنر سکھائے؟؟؟؟ اور اگر صرف بیٹے کی ہی تربیت میں باپ کا فرض ہے تو پھر پیدائش کے وقت سے ہی بیٹے کو باپ کے ساتھ ساتھ ہونا چاہیئے۔​
اب حقیقت کی طرف آتے ہیں۔ دنیا کے تمام مرد گھر سے باہر کے فرائض پورے نہیں کر رہے اور نہ ہی دنیا کی تمام خواتین گھر کی چاردیواری تک محدود ہیں۔ تو اولاد کی تربیت میں جب تک ماں اور باپ دونوں کا حصہ شامل نہ ہو تربیت مکمل نہیں ہوتی۔​
 
Top