شمشاد
لائبریرین
صفحہ ۳
اور تدبیر کرنی چاہیے، چنانچہ فردوسیؔ کے پاس ایک قاصد بھیجا (دیباچہ نویسوں نے عنصری کے ساتھ رودکی کا نام بھی لکھا ہے، لیکن رودکی اس سے پہلے ۳۰۴ھ میں مر چکا تھا) کہ یہاں کا قصد بیفائدہ ہے۔ سلطان کو یون ہی ایک خیال پیدا ہوا تھا جس کی بنا پر آپ کی طلبی کا حکم صادر ہوا لیکن اُسدن سے آجتک پھر کبھی ذکر تک نہیں آیا۔ اس لیے حقیقت واقعہ سے آپ کو اطلاع دیدی گئی، فردوسی نے ہرات سے واپس جانا چاہا، لیکن ساتھ ہی خیال پیدا ہوا کہ شاید اسمین کچھ بھید ہو۔ اتفاق سے عنصری اور بدیع الدین دبیر میں شکر رنجی پیدا ہوئی۔ عنصریؔ نے فردوسیؔ کو جو خط لکھا تھا بدیع الدین ہی کے مشورہ سے لکھا تھا۔ اب بدیع الدین نے فردوسی کے پاس قاصد بھیجا کہ فوراً اِدھر کا عزم کیجئے۔ عنصری نے جو لکھا خود غرضی سے لکھا تھا، فردوسی نے خط کے جواب میں لکھ بھیجا کہ میں آتا ہون۔ یہ اشعار بھی خط میں درج کئے۔
بگوش از سروشم بسے مژدہ ہاست
ولم گنج گوہر زبان از دہاست
چہ سُجد بہ میزان من عنصری
گیا چون کشد بیش گلبن سرے
غرض ہرات سے چلکر غزنین میں آیا اور ایک باغ کے قریب ٹھہرا۔ وضو کر کے دو رکعت نماز پڑھی، شہر میں جن لوگوں سے راہ و رسم تھی ان کو اپنے آنے کی اطلاع کی، چلتا پھرتا باغ میں جا نکلا، حُسن اتفاق سے دربار کے ممتاز شعراء یعنے عنصری، فرخی، عسجدی باغ کی سیر کو آئے تھے اور بادہ و جام کا دور چل رہا تھا۔ فردوسی اُدھر کو جا نکلا۔ حریفوں نے اسکو مخل صحبت سمجھ کر روکنا چاہا ایک نے کہا کہ اُسکو چھیڑا جائے تو خود تنگ آ کر چلا جائے گا۔ عنصری نے کہا، یہ تہذیب اور آدمیت کے خلاف ہے۔ آخر رائے قرار پائی کہ رباعی کا ایک مصرع طرح کیا جائے۔ سب اس پر طبع آزمائی کرین۔ اگر یہ بھی مصرع لگائے، تو شریک صحبت کر لیا جائے، ورنہ خود شرمندہ ہو کر اُٹھ جائے گا۔
عنصری نے ابتدا کی اور کہا : ع چون عارض تو ماہ نباشد روشن
فرخی نے کہا : ع مانند درخت گل نبودود گلشن
عسجدی نے کہا : ع مژگانت ہمی گذر کند از جوشن
قافیون میں شین کا التزام تھا اور اس التزام کے ساتھ کوئی شگفتہ، قافیہ باقی نہیں،
اور تدبیر کرنی چاہیے، چنانچہ فردوسیؔ کے پاس ایک قاصد بھیجا (دیباچہ نویسوں نے عنصری کے ساتھ رودکی کا نام بھی لکھا ہے، لیکن رودکی اس سے پہلے ۳۰۴ھ میں مر چکا تھا) کہ یہاں کا قصد بیفائدہ ہے۔ سلطان کو یون ہی ایک خیال پیدا ہوا تھا جس کی بنا پر آپ کی طلبی کا حکم صادر ہوا لیکن اُسدن سے آجتک پھر کبھی ذکر تک نہیں آیا۔ اس لیے حقیقت واقعہ سے آپ کو اطلاع دیدی گئی، فردوسی نے ہرات سے واپس جانا چاہا، لیکن ساتھ ہی خیال پیدا ہوا کہ شاید اسمین کچھ بھید ہو۔ اتفاق سے عنصری اور بدیع الدین دبیر میں شکر رنجی پیدا ہوئی۔ عنصریؔ نے فردوسیؔ کو جو خط لکھا تھا بدیع الدین ہی کے مشورہ سے لکھا تھا۔ اب بدیع الدین نے فردوسی کے پاس قاصد بھیجا کہ فوراً اِدھر کا عزم کیجئے۔ عنصری نے جو لکھا خود غرضی سے لکھا تھا، فردوسی نے خط کے جواب میں لکھ بھیجا کہ میں آتا ہون۔ یہ اشعار بھی خط میں درج کئے۔
بگوش از سروشم بسے مژدہ ہاست
ولم گنج گوہر زبان از دہاست
چہ سُجد بہ میزان من عنصری
گیا چون کشد بیش گلبن سرے
غرض ہرات سے چلکر غزنین میں آیا اور ایک باغ کے قریب ٹھہرا۔ وضو کر کے دو رکعت نماز پڑھی، شہر میں جن لوگوں سے راہ و رسم تھی ان کو اپنے آنے کی اطلاع کی، چلتا پھرتا باغ میں جا نکلا، حُسن اتفاق سے دربار کے ممتاز شعراء یعنے عنصری، فرخی، عسجدی باغ کی سیر کو آئے تھے اور بادہ و جام کا دور چل رہا تھا۔ فردوسی اُدھر کو جا نکلا۔ حریفوں نے اسکو مخل صحبت سمجھ کر روکنا چاہا ایک نے کہا کہ اُسکو چھیڑا جائے تو خود تنگ آ کر چلا جائے گا۔ عنصری نے کہا، یہ تہذیب اور آدمیت کے خلاف ہے۔ آخر رائے قرار پائی کہ رباعی کا ایک مصرع طرح کیا جائے۔ سب اس پر طبع آزمائی کرین۔ اگر یہ بھی مصرع لگائے، تو شریک صحبت کر لیا جائے، ورنہ خود شرمندہ ہو کر اُٹھ جائے گا۔
عنصری نے ابتدا کی اور کہا : ع چون عارض تو ماہ نباشد روشن
فرخی نے کہا : ع مانند درخت گل نبودود گلشن
عسجدی نے کہا : ع مژگانت ہمی گذر کند از جوشن
قافیون میں شین کا التزام تھا اور اس التزام کے ساتھ کوئی شگفتہ، قافیہ باقی نہیں،