سوانح عمری فردوسی

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
نیرنگ خیال

jqrq6u.jpg
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
یہ جو سرخ لفظ لکھا ہے۔ اس کی سمجھ نہیں آئی۔ اس کو دیکھ لیجیے گا۔

بہ بابک چنین گفت ازان پس جوان کہ من پورساسانم اے پہلوان
چوبشنید بابک فروریخت آب ازان چشم روشن کہ اودید خواب
بیادردپس جامۂ پہلوئے یکے اسپ برآلتِ خسروے
یکے کاخ پُرمایہ اور ابساخت ازان سرشبانی سرش برنواخت
بدود ادپس دخترِ خویش را پسندیدۂ و افسر خویش را
کارنامک پہلوی اور شاہنامہ کے بیان میں بہت خفیف فرق ہے۔ جو عموما تاریخی واقعات میں ہوتا ہے،
مسٹر براؤن نے اور بھی چند داستانیں کارنامک اور شاہنامہ کی مطابقت دکھانے کیلئے درج کی ہیں، لیکن ہم نے طول کے لحاظ سے قلم انداز کیا۔
فردوسی کی وقعت شاعری کی حیثیت سے
عام اتفاق ہے کہ ایران میں اس درجہ کا کوئی شاعر آجتک نہیں پیدا ہوا۔ انوری اُن شعرا میں ہے جن کو لوگوں نے فردوسی کا ہمسر قرار دیا ہے چنانچہ مشہور ہے،
درشعر سہ تن پیمبر انند ہرچند کہ لانبی بعدی
ابیات و قصیدۂ و غزل را فردوسی و انوری و سعدی
لیکن خود انوری کہتا ہے کہ فردوسی ہمارا خداوند ہے۔ اور ہم اُس کے بندے ہیں۔
آفرین برروان فردوسی آن ہمایوں نژادفرخندہ
آن نہ اُستاد بودوماشاگرد آن خداواند بود مابندہ
نظامی کہتے ہیں۔
سخن گوئے پیشینہ دا نای طوس کہ آراست زلفِ سخن چوں عروس
علامہ ابن الاثیر نے مثل السائر کے خاتمہ میں لکھا ہے کہ "عربی زبان باوجود اس وسعت و کثرت الفاظ کے شاہنامہ کا جواب پیش نہیں کر سکتی، اور درحقیقت یہ کتاب عجم کا قرآن ہے"
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
یورپ کے فضلا بھی جو زبان فارسی سے واقف ہیں۔ عموما فردوسی کی کمال شاعری کے معترف ہیں۔ سرگوراُوسلی نے تذکرۃ الشعراء میں فردوسی کو ہومر سے تشبیہ دی ہے اگرچہ ساتھ ہی یہ ناتوان بینی بھی ظاہر کی ہے کہ "وہ اگرچہ دراصل ہومر کا ہمسر نہیں ہو سکتا, لیکن ایشیا میں اگر کوئی ہومر ہو سکتا ہے تو وہی ہے۔"
لیکن تعجب اور سخت تعجب ہے کہ مسٹر براؤن جو آجکل فارسی دانان یورپ میں سب سے ممتاز ہیں۔ فردوسی کے کمال شاعری کے منکر ہیں۔ وہ اپنی کتاب لٹریری ہسٹری آف پرشیا میں لکھتے ہیں۔ کہ "فردوسی کے بعد جو شعراء پیدا ہوئے وہ شاعرانہ خیالات اور شوکت الفاظ دونوں حیثیت سے فردوسی سے بالاتر ہیں۔ شاہنامہ سبعہ معلقہ کی بھی برابری نہیں کر سکتا۔ صاحب موصوف کو اسپر حیرت ہے کہ شاہنامہ تمام اسلامی دنیا میں اس قدر کیوں مشہور عام ہوگیا۔ پھر خود اُس کی وجہ یہ بتائی ہے کہ شاہنامہ میں مسلمانوں کے اسلاف کی فخریہ داستانیں ہیں۔ اس لئے حُب قوم نے اس کا سکّہ جما دیا۔"
ہم ان سب باتوں کہ جواب میں صرف یہ کہتے ہیں۔
حریفِ کاوش مژگان خون ریزش نہ زاہد بدست آورگ جانی و نشرراتماشاکن
اب ہم شاہنامہ کے اوصاف کو کسی قدر تفصیل کے ساتھ بیان کرتے ہیں۔
1- اسلام کا خاصہ ہے کہ جہاں جہاں گیا ملک کی زبان سرے سے بدل دی یا اسقدر اس کو مغلوب کر لیا کہ وہ مستقل اور آزاد زبان نہیں رہی اسلام سے پہلے مصروشام میں قبطی اور سریانی بولی جاتی تھی، اسلام کے ساتھ تمام ملک کی زبان عربی ہوگئی۔ یہاں تک کہ آج عیسائی یہودی وغیرہ بھی عربی زبان کے سوا اور کوئی زبان نہیں بول سکتے، ایشیائے کوچک اور قسطنطنیہ میں ترک گئے تو ملکی زبان ترکی ہوگئی، کابل اور قندھار کی اصلی زبان پشتو ہے لیکن خواص فارسی بولتے ہیں۔ جو اسلامی حکمرانوں کی زبان تھی۔ ایران اور ہندوستان سخت جان تھے جہاں ملک کی اصلی زبان قائم رہی۔ لیکن عربی الفاظ اس کثرت سے داخل ہوگئے کہ اُن کی آمیزش کے بغیر فارسی یا اردو لکھنا چاہیں تو لزوم الایلزم کی محنت اٹھانی پڑتی ہے۔
ایران ابتدا ہی سے عربی نہات شدّت سے مخلوط ہوگئی تھی، عباسی مروزی لئے
 

نایاب

لائبریرین
(12)
خجستہ در گہ محمود غزنوی دریا است
چگونہ دریا کان را کرانہ پیدا نیست
چہ غوطہ ہا زوم و اندر دند یدم در
گناہ بخت من ست این گناہ دریا نیست
اتفاق یہ کہ جس دن ناصر لک کا عریضہ پہنچا ۔ سلطان نماز جمعہ پڑھنے کے لیئے جامع مسجد میں آیا تھا ۔ اتفاق سے ان اشعار پر نظر پڑی ۔ نہایت متاسف ہوا ۔ مسجد سے آ کر ناصر لک کا عریضہ دیکھا ۔ اور بھی مکدر ہوا ۔ جن لوگوں نے فردوسی کے حق میں کانٹے بوئے تھے ان کو بلا کر سخت توبیخ کی ۔ کہ تم نے دنیا میں مجھ کو بدنام کر دیا ۔
ناصر لک نے گو فردوسی کی بہت کچھ خاطر مدارات کی تاہم سلطان کے ڈر سے اپنے پاس نہ ٹھہرا سکا ۔ فردوسی یہاں سے بھی نکلا ۔ اور ماژندران میں آیا یہاں وہ شاہنامہ کی نظر ثانی میں مشغول ہوا ۔
ماژندران کی حکومت قابوس میں دشمگیر کے خاندان میں چلی آتی تھی ۔ اس زمانہ میں سپہبد فرمان روان تھا ۔ اس کو فردوسی کے آنے کی خبر ہوئی تو نہایت مسرت ظاہر کی ۔ اور فردوسی کو دربار میں بلایا ۔ فردوسی نے مدحیہ اشعار اضافہ کر کے شاہ نامہ پیش کیا ۔ سپہبد نے چاہا کہ فردوسی کو دربار سے نہ جانے دے ۔ لیکن پھر سلطان محمود کا خیال آیا ایک گراں بھر صلہ بھیج کر کہلا بھیجا کہ محمود آپ سے ناراض ہے اس لیئے آپ کو ٹھہرا نہیں سکتا آپ کہیں اور تشریف لیجایئے ۔
دیباچہ نویسوں نے لکھا ہے کہ فردوسی یہاں سے بغداد گیا ۔ خلیفہ عباسی نے اس کی بڑی قدر کی ۔ فردوسی نے عربی میں قصیدے لکھ کر پیش کیئے ۔ اور اہل بغداد کی فرمائش سے یوسف زلیخا لکھی، سلطان محمود کو ان حالات کی اطلاع ہوئی تو خلیفہ عباسی کو تہدید کا خط لکھا کہ فردوسی کو فورا یہاں بھیج دیجئے ورنہ بغداد ۔۔۔۔۔۔۔۔ ہاتھیوں کے پانوں کے نیچے ہوگا ۔ وہاں سے تین حرف الف لام میم لکھ کر آئے کہ سورہ الم تر کیف کی طرف اشارہ تھا ۔ لیکن یہ تمام بے سروپا مزخرفات ہیں ۔
ایک دفعہ سلطان محمود ہندوستان کی مہم سے واپس آ رہا تھا ۔ راستہ میں دشمن کا قلعہ تھا ۔ وہیں ٹھہر گیا اور قاصد بھیجا کہ حاضر خدمت ہوکر اطاعت بجا لائے ۔ دوسرے دن قاصد جواب لایا ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(13)
لیکن ابھی کچھ کہنے نہیں پایا تھا کہ محمود نے وزیراعظم سے کہا کہ دیکھ کیا جواب لایا ہے ۔
وزیر نے برجستہ کہا ،
اگر جز بکام من آمد جواب
من و گرز و میدان وافراسیاب
محمود پھڑک اٹھا اور پوچھا کس کا شعر ہے ۔؟
وزیر نے کہا اس بدقسمت کا جس نے 15 برس خون جگر کھایا اور کچھ حاصل نہ ہوا ۔ (1)۔ محمود نے کہا مجھ کو سخت ندامت ہے غزنین پہنچ کر یاد دلا نا ۔ غرض پائے تخت میں پہنچ کر ساٹھ ہزار اشرفیاں فردوسی کے پاس روانہ کیں ۔ لیکن تقدیر پر کس کا زور ہے ۔ ادھر شہر کے ایک دروازے جس کا نام رودبار تھا صلہ پہنچا ادھر دوسرے دروازے سے فردوسی کا جنازہ نکل رہا تھا ۔
بعد مرنے کے مری قبر پہ آیا وہ میر
یاد آئی مرے عیسی کو دوا میرے بعد
طوس میں ایک واعظ صاحب تھے انہوں نے فتوی دیا کہ چونکہ فردوسی رافضی تھا ۔ اس کا جنازہ مسلمانوں کے قبرستان میں دفن نہیں ہو سکتا ۔ ہر چند لوگوں نے منت سماجت کی لیکن بد نفس واعظ نے ایک نہ مانی ۔ مجبورا شہر کے باہر ایک باغ میں کہ خود فردوسی کی ملک تھا دفن کیا ۔ سلطان محمود کو پرچہ گزرا تو حکم دیا کہ واعظ کو شہر سے نکال دیا جائے ۔ (2)۔
فردوسی نے اولاد مذکور نہیں چھوڑی تھی ۔ صرف ایک لڑکی تھی شاہی صلہ اس کی خدمت میں پیش کیا گیا ۔ لیکن اس کی بلند ہمتی نے گوارا نہ کیا کہ باپ جس چیز کی حسرت میں مر گیا اولاد اس سے تمتع اٹھائے ۔ سلطان محمود کو اس کی اطلاع دی گئی ۔ حکم دیا کہ اشرفیاں امام ابوبکر اسحاق کے حوالہ کی جائیں کہ اس سے فردوسی کے نام پر ایک کاروان سرائے بنا دی جائے ۔
ناصر خسرو نے سفرنامہ میں لکھا ہے کہ سن 430 ہجری میں جب طوس میں پہنچا تو ایک بڑی کاروان سرائے دیکھی ۔ لوگوں سے پوچھا تو معلوم ہوا کہ فردوسی کے صلہ سے تعمیر ہوئی ہے ۔ فرہنگ رشیدی اور چہار مقالہ میں لکھا ہے کہ اس کا نام چاھ ہے ۔ اور مرو اور نیشاپور کے راستہ میں ہے ۔
عام تذکرہ نویسوں کا بیان ہے کہ فردوسی نے سن 411 ہجری میں وفات پائی ۔ لیکن فردوسی نے شاہنامہ کے خاتمہ میں تصریح کی ہے کہ شاہنامہ سن 400 ہجری میں انجام کو پہنچا ۔
زہجرت شدہ پنج ہشتاد بار
کہ گفتم من این نامہ شہریار
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(1) ۔۔۔۔ سا ہ ۔۔۔۔ نے تلافی مافات کا رادہ کیا
(2) ۔۔۔ یہ واقعہ مختلف طریقوں سے مروی ہے ۔ میں نے جو روایت لکھی ہے ۔ یہ نظامی سمرقندی سے مروی ہے اور اس لییے زیادہ معتبر ہے کہ اس نے سن 512 ہجری میں امیر مغری (ملک الشعرا سلطان سنجر ) سے سنی تھی ۔ اور امیر مغری سے امیر عبدالرزاق نے بیان کی تھی ۔ دیکھو چہار مقالہ واقعات فردوسی
 

ماہی احمد

لائبریرین
اقرار کریگا کہ شاہنامہ پورا چربہ کارناماک کا ہےاس لئیے کہ جزئیات میں بھی اختلاف نہیں ہےہمارے اس خیال کو کہ فردوسی نہ جن قدیم کتب سے شاہنامہ لکھا ہے، اُن سے الگ نہیں گیا۔ پہلوی کے قصے زریر اور شاہنامہ کے مقابلے سے اور بھی تقویت ہو جاتی ہے، یہ امر اتفاقی ہے کہ ان حصوں کا ہم اصل کتابوں سے مقابلہ کر سکے مگر ہم وثوق سے کہہ سکتے ہیں کہ اور مقامات پر بھی، جہاں ہم کو جانچ پڑتال کے ذریعے حاصل نہیں ہیں وہاں بھی فردوسی نے ادنیٰ بات بھی قدیم ماخذوں کے خلاف نہیں لکھی ہو گی۔ یہاں ہم داستان ارد شیر کے دونوں رایتوں میں سے صرف دو ایک باتوں کا مقابلہ کر سکتے ہیں۔ زیادہ گنجائش نہیں ہے، اوّل ہم اس کی پیدائش کا ذکر کرتے ہیں۔
کارناماک​
سکندر رومہ کی وفات پر ایران میں240 مختلف گروہوں کے لوگ حکمران تھے۔ اردوان ان میں سب سے سربرآوردہ تھا۔ اور اصفہان، فارس اور قرب و جوار کے حصے پر قابض تھا، پاپک محافظ سرحد اور اردوان کی طرف سے فارس کا گورنر تھا۔ اور اصتغر(1) میں رہتا تھا، اس کے کوئی بیٹا نہ تھا جس سے اس کا نام چلتا۔ ساسان پاپک کا گوالہ تھا اور ہمیشہ اپنے گلون میں رہتا تھا مگر وہ دار ابن دارا کی اولاد میں تھا اور سکندریہ کے برے زمانہ میں وہ گڈریون میں جا ملا تھا، پاپک کو یہ بات معلوم نہ تھی۔ایک رات اس نے خواب میں دیکھا کہ ساسان کے سر سے سورج نکلا ہے اور اس نے تمام عالم کو منور کر دیا ہے۔ دوسری رات دیکھا کہ ساسان ایک سپید ہاتھی پر جس پر قیمتی جھول پڑی ہوئی ہے ، سوار جا رہا ہے اور تمام "کشور" کے لوگ اس کے ارد گرد ہیں اور اس کی اطاعت کرتے ہیں، اور دعائیں دیتے ہیں۔ تیسری رات اس نے دیکھا کہ آتش فروبہ گشپ اورمتھر، ساسان کے گھر پر روشن ہے اور ساری دنیا میں اجالا پھیلا ہوا ہے، ان خوابوں سے گھبرا کر اس نے تعبیر دینے والوں اور دانشمندوں کو بلایا اور ان سے تینوں خواب بیان کئیے۔ معبروں نے کہا کہ یا تو شخص جسے خواب میں دیکھا ہے یا اس کی اولاد میں سے کوئی شخص تمام دنیا کا بادشاہ ہو گا۔ کیونکہ،

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(1) شاہنامہ میں اس طرح لکھا ہوا ہے 12۔
 

نایاب

لائبریرین
(14)
اس کے ساتھ یہ بھی تصریح کی ہے کہ اس وقت اس کی عمر اسی برس کی تھی ۔
کنون عمر نزدیک ہشتا دشد
امیدم بہ یکبارہ برباد شد
شاہنامہ ختم ہونے کے بعد وہ دو چار برس سے زیادہ زندہ نہیں رہا ۔ اس لیئے اس کی وفات سن 411 ہجری سے چند برس پہلے ہوئی ہو گی ۔
فردوسی کا مزار مدت تک آباد اور بوسہ گاہ عالم رہا ۔ نظامی سمرقندی نے سن 510 ہجری میں اس کی زیارت کی تھی ۔ دولت شاہ نے لکھا ہے کہ آج اس کا مزار مرجع عام ہے ۔ قاضی نوراللہ شوستری مجالس المومنین میں لکھتے ہیں کہ " عبداللہ خان ازبک کی توجہ سے فردوسی کا مقبرہ معمور اور پر رونق ہے ۔ عام لوگ عموما اور شیعہ خصوصا زیارت کو جاتے ہیں ۔ میں نے بھی زیارت کا شرف حاصل کیا ہے ۔"
ہر گز نمیرد آن کہ دلش زندہ شد بعشق
ثبت است بر جریدہ عالم دوام ما
شاہنامہ
سنہ تصنیف و سبب تصنیف
کیا عجیب بات ہے ، جو واقعہ جس قدر زیادہ مشہور ہوتا ہے اسی قدر اکثر غلط اور بے سر و پا ہوتا ہے ۔ عام طور پر مشہور ہے کہ فردوسی نے سلطان محمود کے دربار میں پہنچ کر اس کے حکم سے شاہنامہ لکھنا شروع کیا ۔ اکثر تذکروں میں یہی لکھا ہے ۔ لیکن یہ غلط اور محض غلط ہے ۔
فردوسی نے خاتمہ میں خود تصریح کی ہے کہ یہ کتاب سن 400 ہجری میں تمام ہوئی ۔
زہجرت شدہ پنج ہشتاد بار(1)۔
کہ گفتم من این نامہ شہریار
اس کے ساتھ یہ بھی تصریح کی ہے پینتیس برس کتاب کی تصنیف میں صرف ہپوئے ۔
سی و پنج سال از سرائے سپنج
بسے رنج بر دم بامید گنج
اس بناء پر تصنیف کا آغاز سن 365 ہجری سمجھنا چاہیئے ۔ اور چونکہ سلطان محمود سن 388 ہجری میں تخت نشین ہوا ۔ اس لیئے اس کی تخت نشینی سے مدتوں پہلے شاہنامہ کی ابتدا ہو چکی تھی ۔ عام خیال یہ ہے کہ شاہنامہ سلطان محمود کی فرمائش سے لکھا گیا ۔ لیکن یہ بھی محض
(1) ۔۔ پانچ کو اسی میں ضرب دیں تو چار سو ہوتے ہیں ۔۔۔۔۔12
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(15)

غلط ہے ۔ فردوسی نے خود سبب تصنیف لکھا ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس کو صرف اپنے اسلاف کا نام زندہ کرنا مقصود تھا ۔
ہمی خواہم از داد گریک خدائے
کہ چندان بمانم بہ گیتی بہ جائے
کہ این نامہ شہریاران پیش
بہ پیوندم از خوب گفتار خویش
بسے رنج بر دم درین سال سی
عجم زندہ کردم بدین پارسی
ہمہ مردہ از روزگا دراز
شد از گفت من نام شان زندہ باد
چو عیسی من این مردگان را تمام
سراسر ہمہ زندہ کردم بنام
پے افنگدم از نظم کاخ بلند
کہ از بادو باران نیا بد گزند
تیسرے دفتر میں جہاں دقیقی کے اشعار نقل کیئے ہیں خاتمہ پر لکھتا ہے ۔
من این نامہ فرخ گرفتم بہ فال
ہمی رنج بردم بہ بسیار سال
ندیدم سر افزا زنجشندہ
بہ گاہ کیان برنشینندہ
سخن را نگہداشتم سال بیست 20
بدان تا سزاوار این گنج کیست
جہاندار محمود با فر وجود
کہ اور راکند ماہ کسیوان سجود
ان اشعار میں صاف تصریح ہے کہ سلطان محمود کے دربار میں پہونچنے سے بیس سال پہلے شاہنامہ شروع ہو چکا تھا ۔ دیباچہ سے ثابت ہوتا ہے کہ کتاب کا آغاز اس نے خود اپنے شوق سے کیا ۔ قرائن سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے ۔ فردوسی فطرتا شاعر تھا ۔ اس کے ساتھ نسل کا مجوسی یعنی شاہان ایران کا ہم قوم تھا ۔ دقیقی نے شاہنامہ کی جو بنیاد ڈالی تھی ۔ اور جس قدر شعر لکھ دیئے تھے ۔ اس کے چرچے ہر جگہ پھیل گئے تھے ۔ اور اس سے اندازہ ہو سکتا تھا کہ اس کتاب میں قبولیت کا کس قدر مادہ ہے ۔ ۔ یہ اسباب اس بات کے لیئے کافی تھے کہ فردوسی نے خود اپنے شوق سے شاہنامہ لکھنے کا ارادہ کیا ۔ لیکن چونکہ ایک عظیم الشان کام تھا اور اعانت کے بغیر انجام نہیں پا سکتا تھا ۔ سب سے زیادہ اس بات کی ضرورت تھی کہ تاریخ کا مستند سرمایہ ہاتھ آئے حسن اتفاق کہ فردوسی کے وطن ہی میں ایک شخص کے پاس یہ سرمایہ موجود تھا اور وہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(16)
فردوسی کا مخلص دوست تھا ۔ اس کو یہ حال معلوم ہوا تو اس نے یہ کتاب لا کر فردوسی کو دی ۔ چنانچہ فردوسی دیباچہ میں لکھتا ہے ،
بہ شہرم یکے مہربان دوست بود
تو گفتی کہ با من بیک پوست بود
مرا گفت خوب آمد این رائے تو
بہ نیکی خر آمد مگر پائے تو
نوشتہ من این نامہ پہلوی
بہ پیش تو آرم مگر نغنوی
شو این نامہ خسروان باز گوے
بدین جوے زد میہمان آبروے
چو آور داین نامہ نزدیک من
برا فروخت این جان تاریک من
فردوسی اگرچہ جیسا کہ نظامی سمرقندی نے لکھا ہے " رئیس زادہ اور خوشحال تھا ۔ تاہم جب اس نے شاہنامہ لکھنا شروع کیا تو علم دوست امرا نے قدر دانی کا اظہار کرنا چاہا لیکن منصور بن محمد نے جو طوس کا حاکم تھا ، ایسی فیاضی کا اظہار کیا کہ فردوسی تمام لوگوں سے بے نیاز ہوگیا ۔
بدین نامہ چون دست کردم دراز
یکے مہترے بود گردن فراز
جوان بود از گوہر پہلوان
خرد مند و بیدار روشن روان
مرا گفت کز من چہ آید ہمے
کہ جانب سخن بر گراید ہمے
بچیزے کہ باشد مرا دست رس
بکو شم نیازت نہ آرم بکس
افسوس کہ منصور چند روز کے بعد مر گیا ۔ فردوسی نے اس کا بہت پر درد مرثیہ لکھا ۔
حسین قتیب ، علی ویلم ، بودلف ، اور فضل ابن احمد کا نام بھی فردوسی کے قدردانوں کی فہرست میں داخل ہے ۔ نظامی سمرقندی نے لکھا ہے کہ " حسین قتیب طوس کا عامل تھا (غالبا منصور کے مرنے کے بعد مقرر ہوا ہوگا ۔)۔ اس نے فردوسی کے دیہات کی مالگزاری معاف کر دی تھی ۔ (1)۔
فضل ابن احمد سلطان محمود کا وزیر تھا ۔ جس کے مرنے کے بعد حسن میمندی اس منصب پر ممتاز ہوا ۔ افضل کا تذکرہ بھی فردوسی نے شاہنامہ میں کیا ہے ۔
(1) ۔۔۔ چہار مقالہ نظامی سمرقندی 12
 

وجی

لائبریرین
18

جوس کہتے تھے اور ان کو جادوگر سمجھے تھے ۔ یونان اور روم کی کتابوں سے قیاس ہوسکتا ہے کہ اس طوفان میں ایران کی کسقدر کتابیں بچی ہونگی۔ قریباََ چار سو برس گزر گئے اور کسی نے ایرانیوں کی تاریخ لکھنے پر توجہ نہیں کی ۔ سب سے پہلی کوشش اس کے متعلق جوکی گئی وہ سامانیوں نے کی ۔ مورخین کو اسمیں اختلاف ہے بعض کہتے ہیں کہ منصور ثانی نے ابتدا کی بعض کہتے ہیں کہ وقیقی نے شاہنامہ لکھنا اسمعٰیل کے زمانے میں شروع کیا جوسلسلہ سلاطینہ کا پہلا تاجدار تھا۔ غرض چونکہ سلاطین سامانی اپنے آپکو بہرام چوبین کے خاندان سے سمجھتے تھے ۔ اس لیئے انہوں نے اپنے اسلاف کا نام زندہ کرنا چاہا ۔

مالکم صاحب ایک مدت تک ایران میں رہے ہیں ۔ فارسی زبان میں ان کو پوری مہارت تھی۔ اسلامی تاریخ کی طرف خاص توجہ تہی۔ ان سب باتوں کے ساتھ انکی تحقیقت کا یہ عالم ہے کہ اتنی لمبی چوڑی عبارت میں ایک حرف بھی صحیح زبان سے نہ نکلا۔

مالکم صاحب کے تعصب کے جواب دینے کا یہ موقع نہیں ۔ البتہ تاریخی حیثیت سے یہ امر قابل بحث ہے ٬ فردوسی نے جب شاہنامہ لکھنا چاہا تو ایران کاتاریخی ذخیرہ کس قدر موجود تھا ۔ عام خیال یہ ہے کہ مسلمانوں مین علوم فنون کی تدوین 123ھ؁ سے شروع ہوئی اور در حقیقت اسلامی علوم و فنون سے متعلق اس سے پہلے کسی تصنیف کا پتہ نہیں چلتا لیکن یہ عجیب بات ہے کہ غیر قوموں کے علوم و فنون کا ترجمعہ اس سے پہلے شروع ہوچکا تھا۔ ہشام بن فہد الملک جو 105 ھ؁ مین تخت نشین ہوا اور جو سلاطین بنی امیہ کا گل سرسبد تھا سب سے پہلے اس نے غیر قوموں کی تاریخ کی طرف توجہ کی اس کا میر منشی حیلہ بن سالم تھا اسنے فارسی زبان کی بہت سی کتابیں ترجعہ کیں ۔ جن میں سے جنگ رستم و اسفندیار اور داستان بہرام چوبین بھی تھی ۔ شاہان عجم کے علمی ذخیرے جو فتوحات میں ہاتھ آئے تھے ان میں ایک کتاب تاریخ تھی۔ یہ ایران کی نہایت مفصل اور مبسوط تاریخ تھی ۔ جسمیں سلطنتوں کے

(بقیہ حاشیہ 17)انہوں نے ایران کی تاریخ قدیم و جدید پر ایک کتاب انگریزی میں لکھی مرزا حیرت ایرانی نے اس کا ترجعہ کیا جوملیتی میں 1870 ؁ میں چھاپا گیا تھا

؁۱ کتاب الفہرت صفحہ 117
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
کر سکتے ہیں، اب قاعدہ یہ ہے کہ جب کسی چیز میں بالطبع تقدّم و تاخّر ہوگا، ضروری ہے کہ اسمیں مقدار ہو اور مقدار کے تمام اجزا مرتب ہوں، یہ بھی ضروری ہے کہ ایسی چیز متناہی ہو۔
غور کرو بوعلی سینا کی عبارت سے کیا کوئی شخص یہ سمجھ سکتا ہے؟
فردوسی نے آغاز کتاب میں مخلوقات کی پیدایش کی ابتداء، عناصر کا وجود، اور اُن کی ترتیب اور انقلابات لکھے ہیں۔
از آغاز باید کہ دانی درست سرِمایۂ گوہراں از نخست
کہ یزدان زنا چیز چیز آفرید بدان تا توانائی آمد پدید
وزومایۂ گوہر آمد چہار برآوردہ بےرنج و بےروزگار
نخستین کہ آتش زجنبش ومید زگرمیش بس خشکی آمد پدید
وزان پس زآرام سردی نمود زسردی ہمان باز ترسی فزود
چو این چار گوہر بجائے آمدند زبہر سپنجی سرائے آمدند
گیارُست، باچند گونہ درخت بزیراندر آمد سران شان ریخت
ببالد زارد جزین نیروے نہ پوید چوپویند گان ہر سوئے
نگہ کن برین گنبد تیز گرد کہ درمان ازوی سب و زدی است درد
نہ گشت زمانہ بفر سایدش نہ این رنج و تیماربگزایدش
نہ از گردش آرام گیرد ہمی نہ چون ما تباہی پذیرد ہمی
یونانیوں کے نزدیک آفرینش کی ابتدا اور اس کی تاریخ یہ ہے کہ خدا نے مادّہ پیدا کیا، مادّہ سے عناصر پیدا ہوئے۔ حرکت سے آگ پیدا ہوئے، آگ کی گرمی نے یبوست پیدا کی جس سے خاک کا وجود پیدا ہوا، پھر سکون کی وجہ سے رطوبت پیدا ہوئی۔ رطوبت نے پانی پیدا کیا، اس طرح چار عنصرپیدا ہوئے، پھر نباتات کا وجود ہوا ، جنمیں صرف نمو کی قوت ہے، ، متحرک بالارادہ نہیں۔
آسمان کی نسبت یونانیوں کا خیال تھا کہ وہ ابدی ہیں، اور امتداد زمانہ سے انمیں میں تغیّر اور زوال نہیں ہو سکتا۔ فردوسی نے اِن مسائل کو ایسے سادہ اور صاف الفاظ میں ادا کیا ہے کہ معمولی باتیں معلوم ہوتی ہیں۔ اور یہ خیال بھی نہیں ہوتا کہ ان میں فلسفیانہ
 

جاسمن

لائبریرین
مامون الرشید کی مدح میں جو قصیدہ لکہا۔اُس کے چار شعر آج موجود ہیں۔جنمیں نصف سے زیادہ عربی الفاظ ہیں: رودکی اور ابوشکور بلخی کا کلام عربی الفاظ سے بھرا پڑا ہے، سُلطان محمود کے زمانہ میں ایک فاضل نے شاہنامہ کے جواب میں عُمر نامہ ایک کتاب نثر میں لکہی تہی،وہ ہماری نظر سے گذری ہے اُس کا بھی یہی حال ہے اُسی زمانہ میں شیخ بو علی سینا نے حکمت علائیہ فارسی زبان میں لکہی اور قصد کیا کہ خالص فارسی زبان میں لکہی جائے ۔مگر عہدہ برآنہوسکا۔ فردوسی کی قدرت زبان دیکہو کہ ساٹھ ہزار شعر لکہکر ڈال دیئے ۔اور عربی الفاظ اس قدر کم ہیں کہ گویا نہیں ہیں ۔اگرچہ اس خصوصیت کا موجد دقیقی ہے ،لیکن کل ہزار شعر اور صرف چند معمولی واقعات ہیں۔بخلاف اسکے فردوسی نے ہر قسم اور ہر طرح کےسینکڑون گوناگون مطالب ادا کئے اور زبان کے خالص ہونے میں فرق نہ آنے پایا۔ عربی کے جو الفاظ خال،خال آئے ہیں۔اکثر وہ ہیں جو خاص مصطلح الفاظ ہیں۔ مثلا۔ً دین۔ میمنہ۔میسرہ۔قلب۔سلاح۔عنان وغیرہ وغیرہ،یہ الفاظ اِس طرح اِس زبان میں شائع تھے۔جس طرح آجکل اُردو میں جج۔کلکٹر ٹکٹ۔اسٹیشن وغیرہ ہیں کہ اُن کے بجائے اگر کوئی شخص اور الفاظ استعمال کرے تو نا موزون معلوم ہون گے۔
حیرت وہان ہوتی ہے جہان فلسفیانہ اصطلاحین آتی ہیں اور وہ اِس بے تکلّفی سے سادی فارسی میں اُن کو ادا کرتا جاتا ہے کہ گویا روزمرّہ کی باتیں ہیں۔بو علی سینا نے بہی حکمت علائیہ میں یہ کوشش کی۔ لیکن اِس کا نمونہ دیکہو ابطال غیر متناہی کے استدلال میں لکہتا ہے،
"پیشی وپسی بالطبع است چنانکہ اندر شمار است یا باعرض چنانکہ اندر اندازۂ است کہ ازہر کدام سو کہ خواہی آغاز کنی و ہر چہ اندر روے پیشی وپسی است بالطِبع باوے مقداری کہ اور ابہرہ با بہر جا کہ بودند ہمہ بیک جائے حاصل وموجود بود وے متناہی است"
غور کرو اِس کوشش کے ساتھ کِس قدر عربی الفاظ اب بہی باقی رہ گئے اور جِن عربی الفاظ کا فارسی میں ترجمہ کیا وہ اِس قدر نا ما نوس اور بیگانہ ہیں کہ عبارت معمّا ہو کر رہ گئی۔
عبارت کا مطلب یہ ہے کہ دو چیزون میں جب تقدّم اور تآخُر ہوتا ہے تو دو طریقہ سے ہوتا ہے بلا واسطہ جِس طرح ایک عدد،دو پر مقدم ہے،یا باواسطہ جِس طرح مسافرت میں آگا پیچھا ہوتا ہے کہ گو ایک حصّہ کو مقدّم اور دُوسرے کومؤخّر کہتےہیں۔ لیکن جہان سے چاہیں مسافت کو شروع
 

جاسمن

لائبریرین
فرحت کیانی

2myq8tw.jpg

اصطاحین ہیں، لیکن در حقیقت سب فلسفہ کے خاص الفاظ ہیں، اُن کے مطابق عربی الفاظ دیکہو
سرمایہ مادّہ توانائی وجود
گوہر عنصر جنبش حرکت
آرام سکون پویندہ متحرک بالا رادہ
گشت دوران فرسودن تغّیُر
تباہی فنا
اِس طرح اور بہت سے الفاظ ہیں۔ ہم نے صرف نمونہ دکھایا ہے،
ایشیائی تاریخون کے متعلق عام شکایت ہے کہ ان میں بجز جنگ و خون ریزی کے اور کچھ نہیں ہوتا یعنی وہ حالات بالکل نہیں ہوتے ہیں جن سے اُس زمانے کے ملکی معاملات اور قوم کی تہذیب و معاشرت کا حال کلُل سکے یہ شکایت بہت کچھ صحیح ہے،لیکن شاہنامہ اِس سے مستثنےٰ ہے،شاہنامہ اگرچہبظاہر صرف رزمیہ نظم معلوم ہوتی ہے لیکن عام واقعات کے بیانمین اِس تفصیل سے ہر قسم کے حالات آتے جاتے ہیں کہ اگر کوئی شخص چاہے تو صرف شاہنامہ کی اُس زمانہ کی تہذیب و تمدن پُورا پتہ لگا سکتا پے،بادشاہ کیونکر دربار کرتا تھا، امراء کس ترتیب سے کھڑے ہوتے تھے،عرض معروض کرنے کے کیا آداب تھے۔انعامو اکرام کا طریقہ کیا تھا ، بادشاہ و امراء کا درباری لباس کیا ہوتا تھا؟ فرامین اور توقیعات کیونکر اور کِس چیز پر لکہے جاتے تھے،نامۂ و پیام کا کیا انداز تھا،مُجرمون کو کیونکر سزائین دی جاتی تھیں، بادشاہی احکام پر کیونکر نکتہ چینی کی جاتی تہی وغیرہ وغیرہ،
شادیون کے کیا مراسم تھے،جھیز میں کیا دیا جاتا تھا، عروسی کی کیا کیا رسمیں تھیں، دُلہا اور دُلہن کا کیا لباس ہوتا تھا ،پیش خدمت،غلام،اور لونڈیون کی وضع اور انداز کیا تھا،خط کتابت کا ۔۔۔۔۔ کیا طریقہ تھا،کس چیز سے ابتدا کرتے تھے،کِس چیز کی مُہر لگاتے تھے
مالگزاری کے ادا کرنے کا کیا دستور تھا،زمینوں کی کیا تقسیم تھی،مالگذاری کی مختلف شرحین کیا تھیں،ٹیکس کیا کیا تھے، کون کون لوگ ٹیکس سے معاف ہوتے تھے۔
 

وجی

لائبریرین
۱۹
حالات کے ساتھ حکومت کے قواعد اور آئین عہد بعہد کے علوم و فنون تعمیرات ٬وغیرہ کی مفلس حالات تھے ایک خاص جدت یہ تھی کہ تمام سلاطین کی تصویریں بھی تھیں اور تصویروں میں ان کی خاص وضع قطع لباس زیورات اور تمام خصوصیات کو بعینہ دکھایا تھا۔
ہشام نے اس کتاب کا ترجمہ کرایا۔ چنانچہ ۱۱۳۰؁ھ میں یہ ترجمہ تیار ہوا۔ مورّخ مسعودی نے کتاب الا شراف ؂۱ میں لکھا ہے کہ "میں نے ۳۰۳؁ میں بقام اصطخر یہ کتاب دیلہی سلطنت فارس کے متعلق جسقدر کتابیں فارسی میں موجود ہیں ۔ یہ سب سے زیادہ مفصل ہے "
دولت عباسیہ نے آغاز ہی سے ایران کے علوم و فنون کے ترجمہ کی طرف توجہ کی ٬ ان میں سے تاریخی کتابیں حسب ذیل ہیں ۔
خدائی نامہ؂۲ ۔یہ نہایت مفصل تاریخ تھی اور اس قدر مقبول عام تھی۔ کہ بہرام بن مروان شاد نے جو دلت عباسیہ کا مترجم تھا جب اس کتا ب کو بہم پہنچانا چاہا تو بیس مختلف نسخے اس کو ہاتھ آئے عبداللہ بن المقنع نے اس کتاب کا ترجمہ عربی زبان میں کیا اور اسکا نام تاریخ ملوک الفرس رکھا
آئین نامہ ۔ یہ بھی نہایت مفصل کتاب ہے ٬ علامہ مسعودی نے کتاب السّبیہ و الاشراف (صفحہ ۱۰۴) میں لکھا ہے کہ یہ بہت ضخیم کتاب اور کئی ہزار صفحوں میں ہے عبداللہ بن المقنع نے اسکا ترجمہ کیا۔
سیر ملوک الفرس مترجمہ عبداللہ ابن المقنع
سیر ملوک الفرس مترجمہ محمد جہم البرہکی
سیر ملوک الفرس مترجمہ زادو یہ بن شاہو یہ الا صفہانی
سیر ملوک الفرس ؂۳ مترجمہ محمد بن بہرام الاصفہانی
سکیران ۔ پہلوی زبان میں تھی ۔ مسعودی نے مروج الزہب میں لکھا ہے کہ اہل عجم اس

؂۱ کتاب مذکور مطبوعہ یورپ صفحہ ۱۲۰۱۰۶
؂۲ خدائی نامہ کا ذکر تاریخ حمزہ اصفہانی مطبوعہ یورپ صفحہ ۱۶۰۸و ۲۴۲ اور کتاب الفہر ت صفحہ ۱۱۸ میں ہے ۔
؂۳ ان چاروں کتابوں کا ذکر تاریخ حمزہ اصفہانی صفحہ ۸ میں ہے
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین

پے افگندم از نظم کاخ بلند

کہ از باد و باراں نیابد گزند

بسے رنج بردم دریں سال سی

عجم زندہ کردم بدین پارسی

چو برباد دادند گنج مرا

نہ بُد حاصلے سی و پنج مرا

اگر شاہ را شاہ بودے پدر

بسر بر نہادے مرا تاج زر

و گر مادرِ شاہ بانو بُدے،

مرا سیم و زر تا بزانو بُدے،

پرستارِ زادہ نیابد بکار

و گر چند وارد پدر شہریار

سر ناسزایان برافراشتن

و زیشان امید بہی داشتن

سر رشتہ خویش گم کردن است

بہ جیب اندرون مادر پروردن است

درختے کہ تلخ است ویراسرشت

گرش بر نشانی بہ باغ بہشت

دراز جوی خلدش بہ ہنگام آب

بہ بیخ انگبین ریزی و شہد ناب

سر انجام گوہر بہ کار آورد،

ہمان میوہ تلخ یار آورد،

ز بد اصل چشم بہی داشتن

بود خاک دردیدہ اپناشتن

ازان گفتم این بیتہائے بلند

کہ تا شاہ گیرد ازین کارپند

کہ شاعر چو رنجد بگوید ہجا

بماند ہجا تا قیامت بجا


کلام کی جہانگیری دیکہو محمود نے دنیا کی بڑی بڑی سلطنتیں مٹا دین ملک کے ملک غارت کر دیئے، عالم کو زیر و زبر کر دیا، لیکن فردوسی کی زبان سے جو بول نکل گئے آج تک قائم ہیں اور قیامت تک نہیں مٹ سکتے۔


فردوسی غزنین سے نکلا تو اس بے سر و سامانی سے نکل کر ایک چادر اور عصا کے سوا کچھ پاس نہ تھا، احباب اور ودردانوں کی کمی نہ تھی لیکن معتوب شاہی کو کون پناہ دے سکتا تھا تاہم ایاز نے یہ جرات کی کہ جب فردوسی شہر سے باہر نکل گیا تو مخفی طور پر کچھ نقدی اور سامان سفر بھجوا دیا۔ فردوسی ہرات میں آیا اور اسمٰعیل کے ہان مہمان ہوا۔ چونکہ سلطان محمود نے ہر طرف فرمان بھیجدیئے تھے کہ فردوسی جہاں ہاتھ آئے گرفتار کر کے بھیجدیا جائے، چہہ مہینہ تک روپوش رہا۔ شاہی جلوس ہرات میں آئے لیکن فردوسی
 
Top