یہ جو سرخ لفظ لکھا ہے۔ اس کی سمجھ نہیں آئی۔ اس کو دیکھ لیجیے گا۔
یورپ کے فضلا بھی جو زبان فارسی سے واقف ہیں۔ عموما فردوسی کی کمال شاعری کے معترف ہیں۔ سرگوراُوسلی نے تذکرۃ الشعراء میں فردوسی کو ہومر سے تشبیہ دی ہے اگرچہ ساتھ ہی یہ ناتوان بینی بھی ظاہر کی ہے کہ "وہ اگرچہ دراصل ہومر کا ہمسر نہیں ہو سکتا, لیکن ایشیا میں اگر کوئی ہومر ہو سکتا ہے تو وہی ہے۔"
اقرار کریگا کہ شاہنامہ پورا چربہ کارناماک کا ہےاس لئیے کہ جزئیات میں بھی اختلاف نہیں ہےہمارے اس خیال کو کہ فردوسی نہ جن قدیم کتب سے شاہنامہ لکھا ہے، اُن سے الگ نہیں گیا۔ پہلوی کے قصے زریر اور شاہنامہ کے مقابلے سے اور بھی تقویت ہو جاتی ہے، یہ امر اتفاقی ہے کہ ان حصوں کا ہم اصل کتابوں سے مقابلہ کر سکے مگر ہم وثوق سے کہہ سکتے ہیں کہ اور مقامات پر بھی، جہاں ہم کو جانچ پڑتال کے ذریعے حاصل نہیں ہیں وہاں بھی فردوسی نے ادنیٰ بات بھی قدیم ماخذوں کے خلاف نہیں لکھی ہو گی۔ یہاں ہم داستان ارد شیر کے دونوں رایتوں میں سے صرف دو ایک باتوں کا مقابلہ کر سکتے ہیں۔ زیادہ گنجائش نہیں ہے، اوّل ہم اس کی پیدائش کا ذکر کرتے ہیں۔
18
کر سکتے ہیں، اب قاعدہ یہ ہے کہ جب کسی چیز میں بالطبع تقدّم و تاخّر ہوگا، ضروری ہے کہ اسمیں مقدار ہو اور مقدار کے تمام اجزا مرتب ہوں، یہ بھی ضروری ہے کہ ایسی چیز متناہی ہو۔
مامون الرشید کی مدح میں جو قصیدہ لکہا۔اُس کے چار شعر آج موجود ہیں۔جنمیں نصف سے زیادہ عربی الفاظ ہیں: رودکی اور ابوشکور بلخی کا کلام عربی الفاظ سے بھرا پڑا ہے، سُلطان محمود کے زمانہ میں ایک فاضل نے شاہنامہ کے جواب میں عُمر نامہ ایک کتاب نثر میں لکہی تہی،وہ ہماری نظر سے گذری ہے اُس کا بھی یہی حال ہے اُسی زمانہ میں شیخ بو علی سینا نے حکمت علائیہ فارسی زبان میں لکہی اور قصد کیا کہ خالص فارسی زبان میں لکہی جائے ۔مگر عہدہ برآنہوسکا۔ فردوسی کی قدرت زبان دیکہو کہ ساٹھ ہزار شعر لکہکر ڈال دیئے ۔اور عربی الفاظ اس قدر کم ہیں کہ گویا نہیں ہیں ۔اگرچہ اس خصوصیت کا موجد دقیقی ہے ،لیکن کل ہزار شعر اور صرف چند معمولی واقعات ہیں۔بخلاف اسکے فردوسی نے ہر قسم اور ہر طرح کےسینکڑون گوناگون مطالب ادا کئے اور زبان کے خالص ہونے میں فرق نہ آنے پایا۔ عربی کے جو الفاظ خال،خال آئے ہیں۔اکثر وہ ہیں جو خاص مصطلح الفاظ ہیں۔ مثلا۔ً دین۔ میمنہ۔میسرہ۔قلب۔سلاح۔عنان وغیرہ وغیرہ،یہ الفاظ اِس طرح اِس زبان میں شائع تھے۔جس طرح آجکل اُردو میں جج۔کلکٹر ٹکٹ۔اسٹیشن وغیرہ ہیں کہ اُن کے بجائے اگر کوئی شخص اور الفاظ استعمال کرے تو نا موزون معلوم ہون گے۔
فرحت کیانی
اصطاحین ہیں، لیکن در حقیقت سب فلسفہ کے خاص الفاظ ہیں، اُن کے مطابق عربی الفاظ دیکہو
سرمایہ مادّہ توانائی وجود
گوہر عنصر جنبش حرکت
آرام سکون پویندہ متحرک بالا رادہ
گشت دوران فرسودن تغّیُر
تباہی فنا
اِس طرح اور بہت سے الفاظ ہیں۔ ہم نے صرف نمونہ دکھایا ہے،
ایشیائی تاریخون کے متعلق عام شکایت ہے کہ ان میں بجز جنگ و خون ریزی کے اور کچھ نہیں ہوتا یعنی وہ حالات بالکل نہیں ہوتے ہیں جن سے اُس زمانے کے ملکی معاملات اور قوم کی تہذیب و معاشرت کا حال کلُل سکے یہ شکایت بہت کچھ صحیح ہے،لیکن شاہنامہ اِس سے مستثنےٰ ہے،شاہنامہ اگرچہبظاہر صرف رزمیہ نظم معلوم ہوتی ہے لیکن عام واقعات کے بیانمین اِس تفصیل سے ہر قسم کے حالات آتے جاتے ہیں کہ اگر کوئی شخص چاہے تو صرف شاہنامہ کی اُس زمانہ کی تہذیب و تمدن پُورا پتہ لگا سکتا پے،بادشاہ کیونکر دربار کرتا تھا، امراء کس ترتیب سے کھڑے ہوتے تھے،عرض معروض کرنے کے کیا آداب تھے۔انعامو اکرام کا طریقہ کیا تھا ، بادشاہ و امراء کا درباری لباس کیا ہوتا تھا؟ فرامین اور توقیعات کیونکر اور کِس چیز پر لکہے جاتے تھے،نامۂ و پیام کا کیا انداز تھا،مُجرمون کو کیونکر سزائین دی جاتی تھیں، بادشاہی احکام پر کیونکر نکتہ چینی کی جاتی تہی وغیرہ وغیرہ،
شادیون کے کیا مراسم تھے،جھیز میں کیا دیا جاتا تھا، عروسی کی کیا کیا رسمیں تھیں، دُلہا اور دُلہن کا کیا لباس ہوتا تھا ،پیش خدمت،غلام،اور لونڈیون کی وضع اور انداز کیا تھا،خط کتابت کا ۔۔۔۔۔ کیا طریقہ تھا،کس چیز سے ابتدا کرتے تھے،کِس چیز کی مُہر لگاتے تھے
مالگزاری کے ادا کرنے کا کیا دستور تھا،زمینوں کی کیا تقسیم تھی،مالگذاری کی مختلف شرحین کیا تھیں،ٹیکس کیا کیا تھے، کون کون لوگ ٹیکس سے معاف ہوتے تھے۔
۱۹