سود اور وفاقی وزیر خزانہ

ابن رضا

لائبریرین
بات تو صحیح ہے سود تو سود ہوتا ہے فائدہ تو نہیں ہوسکتا،
بنک کے ذریعے کاروبار کے معاملات چل رہے ہیں تو چاہے اسلامی بنک سے کرتے ہوں یا انگریزی اسٹائل کے بنگ سے ایک ہی بات ہے
سود سے رقم گزر کر ہی آتی ہے یا جاتی ہے اسکی مثال ایسی ہے جیسے گھر کے ڈرین سے گندا پانی بھی گزرتا ہے اور اچھا پانی بھی اور یہ سب جاکر
سیوریج سینٹر میں جمع ہوتے ہیں
اگر یہ بات اتنی سیدھی اور سادی ہوتی تو پاکستان میں یوتھ قرض پروگرام کو اسلامی بینکنگ کے تحت جاری کرنے کی جو محترمہ مریم نواز صاحبہ کی سٹیٹمنٹ تھی (کہ ہم مسلمان ہے اور سود حرام ہے اس لیے قرضے کو اسلامی بینکاری کے کے تحت جاری کیا جائے گا) اس سے انحراف نہ کیا جاتا اور قرضہ جات کمرشل بینک کی بجائے اسلامی بینک کی معرفت ادا کر دیئے جاتے۔
 

x boy

محفلین
ایک گروہ اللہ کے دوستوں کو اس لئے دوست بناتا ہے کہ اللہ سے دوستی نہ کرنی پڑے۔
 

کاشف سعید

محفلین
میں ایک معیشت دان ہوں گو مالیاتی معاشیات میری فیلڈ نہیں۔ مگر میری ناقص معلومات کے مطابق کاغذی یا پلاسٹک یا لوہے تانبے کی کرنسی کا سود کے وجود سے کوئی تعلق نہیں۔ یہ سب کرنسیاں سود سے پاک نظام میں بھی کام کر سکتی ہیں۔ رہا علامہ اقبال کا یہ بیان کہ "بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ بینک کم شرح سود کے عوض ایک سے روپیہ مستعار لیتے ہیں اور دوسرے کو زیادہ شرح سود کے عوض مستعار دے کر فائدہ اٹھاتے ہیں۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ بینک کبھی روپیہ قرض نہیں دیتا بلکہ ساکھ کے بل پر اپنی موجود زرِ نقد کی مقدار سے زیادہ کے اوراق جاری کر کے یا اعتبار کی اور صورتیں پیدا کر کے فائدہ اٹھاتا ہے" تو میرا خیال ہے علامہ کی معلومات ناقص ہیں۔ بینک واقعی کھاتے داروں کو کم منافع یا سود دیتے ہیں اور قرضداروں سے زیادہ لیتے ہیں۔ اور اوراق جاری کرنے کا اختیار کمرشل بینک کا نہیں وزارتِ خزانہ (چھوٹے نوٹوں کی صورت میں) یا مرکزی بنک کا ہوتا ہے۔
 

الف نظامی

لائبریرین
میں ایک معیشت دان ہوں گو مالیاتی معاشیات میری فیلڈ نہیں۔ مگر میری ناقص معلومات کے مطابق کاغذی یا پلاسٹک یا لوہے تانبے کی کرنسی کا سود کے وجود سے کوئی تعلق نہیں۔ یہ سب کرنسیاں سود سے پاک نظام میں بھی کام کر سکتی ہیں۔ رہا علامہ اقبال کا یہ بیان کہ "بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ بینک کم شرح سود کے عوض ایک سے روپیہ مستعار لیتے ہیں اور دوسرے کو زیادہ شرح سود کے عوض مستعار دے کر فائدہ اٹھاتے ہیں۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ بینک کبھی روپیہ قرض نہیں دیتا بلکہ ساکھ کے بل پر اپنی موجود زرِ نقد کی مقدار سے زیادہ کے اوراق جاری کر کے یا اعتبار کی اور صورتیں پیدا کر کے فائدہ اٹھاتا ہے" تو میرا خیال ہے علامہ کی معلومات ناقص ہیں۔ بینک واقعی کھاتے داروں کو کم منافع یا سود دیتے ہیں اور قرضداروں سے زیادہ لیتے ہیں۔ اور اوراق جاری کرنے کا اختیار کمرشل بینک کا نہیں وزارتِ خزانہ (چھوٹے نوٹوں کی صورت میں) یا مرکزی بنک کا ہوتا ہے۔
1-کاغذی کرنسی ایک چیز ہے، اور کاغذی کرنسی کو کسی basis کے بغیر جاری کرنا اور چیز ہے۔ اگر وہ ذریعہ ہو تو کوئی مضائقہ نہیں ہے، لیکن جب وہ خود money creation کا ذریعہ بن جائے تب اُس سے خرابی پیدا ہوتی ہے
یعنی زر ضمانت کے بغیر کرنسی جاری کرنا؛ اس وقت دنیا کی زیادہ تر کرنسیاں ڈالر سے منسلک ہیں بصورت زر ضمانت لیکن ڈالر کے پیچھے کوئی زر ضمانت نہیں۔
دیکھیے:-
آئی ایم ایف کے معاہدہ کی ایک شق یہ ہے کہ سونے کو بطور روپیہ استعمال نہیں کیا جائے گا صرف امریکی ڈالر کو سونے کی زر ضمانت حاصل ہوگی۔
اس معاہدے کی شق نمبر 4 ، سیکشن 2 (ب) یہ کہتی ہے:
"زرِ مبادلہ کے انتظام کی ایک صورت یہ ہو سکتی ہے کہ (1) رکن ملک اپنے ملک کی کرنسی کی قیمت کو برقرار رکھنےکے لیے اپنی کرنسی کو کسی دوسرے رکن ملک کی کرنسی کے ساتھ منسلک کر لے جس کو وہ چاہے ، ماسوا سونے کے
۔
یا
(2) باہمی اتفاق کے تحت رکن ممالک اپنی کرنسی کی قیمت کو برقرار رکھنے کے لیے اسے کسی اور رکن ملک کی کرنسی کے اتار چڑھاو کے ساتھ جوڑ لے
یا
(3) پھر کوئی اور معاہدہ باہمی اتفاق سے کر لے۔

اپریل 2002 ء میں امریکی کانگرس مین 'ران پاول' نے ایک خط امریکی ٹریزری ڈیپارٹمنٹ اور فیڈرل ریزرو بینک کو بھیجا اور ان سے یہ استفسار کیا کہ آخر ایسا کیوں ہے کہ وہ اپنے رکن ممالک کو سونے کی زر ضمانت کے ساتھ کرنسی جاری کرنے کی اجازت نہیں دیتے اس خط کے مندرجات یوں تھے:
جنابِ عالی!
میں یہ خط آئی ایم ایف کے معاہدہ کے آرٹیکل 4 سیکشن2 ب کے متعلق لکھ رہا ہوں۔ آپ کے علم میں ہوگا کہ اس شق کی تشریح اس بات کی متقاضی ہے کہ آئی ایم ایف کے رکن ممالک اپنی کرنسی کو سونے کے ساتھ نہیں جوڑ سکتے۔ اس طرح آئی ایم ایف ان ملکوں کو جو غیر مستحکم مالیاتی بحران سے دوچار ہیں اس بات سےروک رہا ہے کہ وہ اپنی کرنسی کو ایک ایسے ذریعہ سے مستحکم کر سکیں جو سب سے بہترین ذریعہ ہے۔ اس پالیسی کی وجہ سے رکن ملک کو اپنی متزلزل مالیاتی حالت سے نکلنے میں نہ صرف وقت لگے گا بلکہ ان کی مالیاتی ترقی کو بھی روکے گا جو سیاسی اور مالیاتی کمزوریاں پیدا کر دے گا۔ میں یہ امید رکھتا ہوں کہ ٹریزری اور فیڈرل ریزرو دونوں یہ وضاحت کریں گے کہ آخر کیوں امریکہ ایک ایسی گمراہ کن پالیسی کو بلا تردد قبول کیے ہوئے ہے؟ اگر آپ کو مزید تفصیلات درکار ہوں تو براہِ مہربانی میرے قانونی ڈائریکٹر مسٹر نارمن سنگلٹن سے رابطہ کریں۔ آپ کے تعاون کا شکریہ۔
ران پاول

حیران کن بات یہ ہے کہ آج تک نہ تو محکمہ مال نے اور نہ ہی فیڈرل ریزرو بینک نے اس خط کا جواب دیا اور نہ ہی کسی تفصیل سے آگاہ کیا ہے۔ اور اس کے جواب نہ دینے کی وجہ صرف یہ ہے کہ جواب ہے ہی نہیں کہ دیا جائے۔ اصل حقیقت یہ ہے کہ اس مالیاتی نظام کو آئی ایم ایف کے ذریعے لاگو کرنے کا مقصد ہی یہ تھا کہ دنیا کو مالیاتی غلامی میں جکڑ لیا جائے اور یہود و نصاری کے اس گٹھ جوڑ کے تابع کر دیا جائے جو آج ساری دنیا پر چھایا ہوا ہے۔

جہاں تک علامہ اقبال کے قول کی بات ہے تو وہ مرکزی بنک کی ہی بات کر رہے ہیں کہ وہ فریکشنل ریزرو بینکنگ کے تحت چل رہے ہیں ۔ کیامطلب ؟
زر ضمانت کم ہے اور رسیدیں(نوٹ) زیادہ چھاپ دی گئی ہیں۔اسی سے افراطِ زر جنم لیتا ہے۔ اس کے مقابل" فل ریزور بنکنگ "کا نظام ہے۔
 
آخری تدوین:

کاشف سعید

محفلین
الف نظامی صاحب، چلیں بات کاغذی نوٹوں سے چل کر زر ضمانت تک آ گئی۔ اُمید ہے کہ خرابی پیدا ہونے سے آپ کی مراد سود کا وجود میں آنا ہے۔ کیا آپ وضاحت فرمائیں گے کہ زر ضمانت کے بغیر کرنسی جاری کرنے سے سود کا وجود کس طرح لازم آتا ہے؟

جہاں تک علامہ اقبال کی بات ہے، میرے خیال میں وہ کمرشل بینکوں کی ہی بات کر رہے ہیں ورنہ وہ یہ نہ کہتے، "بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ بینک کم شرح سود کے عوض ایک سے روپیہ مستعار لیتے ہیں اور دوسرے کو زیادہ شرح سود کے عوض مستعار دے کر فائدہ اٹھاتے ہیں۔" کیونکہ یہ بات کمرشل بینکوں پر ہی صادق آ سکتی ہے۔ خیر اس بات کو جانے دیں۔

مزید برآں، فریکشنل ریزرو بینکنگ مرکزی بینک سے زیادہ کمرشل بینکوں سے متعلق چیز ہے۔ یعنی آیا اُنہیں کھاتوں کا سو فیصد ریزرو رکھنا ہے یا سو سے کم فیصد۔ مرکزی بینک کمرشل بینکوں کو حکم دے سکتا ہے کہ یہ شرح کتنی ہو۔ فرض کریں زر ضمانت اور کرنسی برابر مقدار کے ہوں تب بھی فریکشنل ریزرو بینکنگ افراطِ زر کو جنم دے سکتا ہے۔ اس کا زر ضمانت سے میرے خیال میں کوئی تعلق نہیں۔
 

الف نظامی

لائبریرین
الف نظامی صاحب، چلیں بات کاغذی نوٹوں سے چل کر زر ضمانت تک آ گئی۔ اُمید ہے کہ خرابی پیدا ہونے سے آپ کی مراد سود کا وجود میں آنا ہے۔ کیا آپ وضاحت فرمائیں گے کہ زر ضمانت کے بغیر کرنسی جاری کرنے سے سود کا وجود کس طرح لازم آتا ہے؟
خرابی پیدا ہونے سے مراد inflation کا پیدا ہونا ہے جو فریکشنل ریزرو بینکنگ میں لازمی ہوتا ہے۔

افرض کریں زر ضمانت اور کرنسی برابر مقدار کے ہوں تب بھی فریکشنل ریزرو بینکنگ افراطِ زر کو جنم دے سکتا ہے۔
اس صورت میں فل ریزرو بینکنگ ہوتی ہے جس میں افراطِ زر نہیں ہوتی۔

زر ضمانت ہے کہاں؟
اس پر تحقیق کیجیے۔
حقیقت یہ ہے کہ ہم بے ضمانت کاغذی کرنسی کےنظام میں رہ رہے ہیں۔

ہم تو نہ جاگے تاہم اس گٹھ جوڑ نے بالآخر کاغذی نوٹوں کی بنیاد پر ایک عالمی مالیاتی نظام کا نفاذ " بریٹن ووڈز" کے مقام پر کر لیا۔ اسی بریٹن ووڈز معاہدہ Bretton Woods Agreement میں انہوں نے سونے اور ڈالر کے درمیان ایک رابطہ پیدا کر لیا جو بظاہر تو ٹھیک تھا مگر پس ِپردہ یہ حقیقت کارفرما تھا کہ اب کاغذی نوٹ بغیر کی زر ضمانت کے چھاپے جا سکتے ہیں اور اس کا کاروباری دنیا میں حققی طور پر کسی قیمت کا ہونے سے کوئی تعلق نہیں رہا۔
اس معاہدہ نے 1944 ء میں آئی ایم ایف کے انعقاد کا راستہ ہموار کر دیا جس کا مقصد خصوصی طور پر اس بے ضمانت کاغذی کرنسی کےنظام کو عالمی مالیاتی نظام پر لاگو کیے رہنا تھا یہاں تک کہ 1971ء میں یہ ڈھکی چھپی کاروائی بھی بے نقاب ہو گئی جب امریکہ اس عالمی معاہدہ کی اس شق سے منحرف ہو گیا کہ امریکی ڈالر کو سونے کی ضمانت حاصل ہوگی۔ حیرانی اس بات کی ہے کہ اسلامی دنیا سے نہ کوئی آواز اس کے خلاف اٹھی اور نہ مسلمانوں کو خبردار کیا گیاکہ وہ اس فریبی نظام کے خلاف کاروائی کریں۔ مسلم علماء اس بات پر مطمئن تھےکہ امریکی کاغذی ڈالر کو سونے کی ضمانت موجود ہے اس لیے پریشانی کی کوئی بات نہیں ، مگر 1971ء کے بعد تو یہ ضمانت بھی باقی نہیں رہ گئی تھی اور اب تو یہ قانونی چوری ایک ننگی حقیقت کے طور پر سامنے آگئی تھی۔


مزید:-
فریکشنل ریزرو بینکنگ
 
آخری تدوین:

کاشف سعید

محفلین
الف نظامی صاحب، کیا مدعا کرنسی نوٹوں اور سود کے تعلق کا نہیں تھا؟ یہ افراط زر کہاں سے بیچ میں آ گیا؟ دوبارہ کہوں گا کیا آپ وضاحت فرمائیں گے کہ زر ضمانت کے بغیر کرنسی جاری کرنے سے سود کا وجود کس طرح لازم آتا ہے؟

اگر زر ضمانت اور کرنسی برابر مقدار کے ہوں تب بھی فریکشنل ریزرو بینکنگ افراطِ زر کو جنم دے سکتا ہے۔ وہ یوں کہ فریکشنل ریزرو بینکنگ میں اُس سے زیادہ کھاتے کھولے جا سکتے ہیں جتنی بینک کے پاس رقم ہوتی ہے۔ زر ضمانت سے کمرشل بینک کو کوئی فرق نہیں پڑنا چاہیے۔

ہاں زر ضمانت کہیں نہیں ہے۔ مگر بحث میں اس کی ضرورت پڑ رہی ہے۔
 

الف نظامی

لائبریرین
الف نظامی صاحب، کیا مدعا کرنسی نوٹوں اور سود کے تعلق کا نہیں تھا؟ یہ افراط زر کہاں سے بیچ میں آ گیا؟ دوبارہ کہوں گا کیا آپ وضاحت فرمائیں گے کہ زر ضمانت کے بغیر کرنسی جاری کرنے سے سود کا وجود کس طرح لازم آتا ہے؟
۔
یہ بات میں نے نہیں کہی۔
بلکہ یہ کہہ رہا ہوں کہ:-
1-کاغذی کرنسی ایک چیز ہے، اور کاغذی کرنسی کو کسی basis کے بغیر جاری کرنا اور چیز ہے۔ اگر وہ ذریعہ ہو تو کوئی مضائقہ نہیں ہے، لیکن جب وہ خود money creation کا ذریعہ بن جائے تب اُس سے خرابی پیدا ہوتی ہے
:)
 

کاشف سعید

محفلین
الف نظامی صاحب، جی آپ نے نہیں کہا۔ مگر میرے جملے "میری ناقص معلومات کے مطابق کاغذی یا پلاسٹک یا لوہے تانبے کی کرنسی کا سود کے وجود سے کوئی تعلق نہیں" پرآپ کے تبصرے سے مجھے غلط فہمی ہو گئی کہ شائد آپ کوئی تعلق دیکھتے ہیں۔ معذرت۔

کاغذی کرنسی اور افراطِ زر کے تعلق پر پہلے بات کر چکا ہوں۔ ڈپازٹس کری ایشن کے ذریعے بینک کرنسی نوٹس کی تعداد سے کہیں زیادہ منی کری ایشن کر سکتا ہے۔ لہذا زرِ ضمانت کا ہونا شاید افراطِ زر پر ایک حد(لمٹ) لگا سکتا ہے، روک نہیں سکتا۔ ہاں ، مرے خیال میں زرِ ضمانت کے ساتھ ساتھ فُل ریزرو بینکنگ نظام ہو تو افراطَ زر پر کافی حد تک قابو پایا جا سکتا ہے۔ کیونکہ کرنسی پرنٹنگ پر بھی ایک حد ہوگی اور ڈپازٹس کری ایشن پر بھی۔
 

الف نظامی

لائبریرین
حاملِ ہذا کو مطالبہ پر ادا کرئے گا ؛ یہ ایک جھوٹ ہے۔

زر ضمانت ہے کہاں؟
اس پر تحقیق کیجیے۔
حقیقت یہ ہے کہ ہم بے ضمانت کاغذی کرنسی کےنظام میں رہ رہے ہیں۔

ہم تو نہ جاگے تاہم اس گٹھ جوڑ نے بالآخر کاغذی نوٹوں کی بنیاد پر ایک عالمی مالیاتی نظام کا نفاذ " بریٹن ووڈز" کے مقام پر کر لیا۔ اسی بریٹن ووڈز معاہدہ Bretton Woods Agreement میں انہوں نے سونے اور ڈالر کے درمیان ایک رابطہ پیدا کر لیا جو بظاہر تو ٹھیک تھا مگر پس ِپردہ یہ حقیقت کارفرما تھا کہ اب کاغذی نوٹ بغیر کی زر ضمانت کے چھاپے جا سکتے ہیں اور اس کا کاروباری دنیا میں حققی طور پر کسی قیمت کا ہونے سے کوئی تعلق نہیں رہا۔
اس معاہدہ نے 1944 ء میں آئی ایم ایف کے انعقاد کا راستہ ہموار کر دیا جس کا مقصد خصوصی طور پر اس بے ضمانت کاغذی کرنسی کےنظام کو عالمی مالیاتی نظام پر لاگو کیے رہنا تھا یہاں تک کہ 1971ء میں یہ ڈھکی چھپی کاروائی بھی بے نقاب ہو گئی جب امریکہ اس عالمی معاہدہ کی اس شق سے منحرف ہو گیا کہ امریکی ڈالر کو سونے کی ضمانت حاصل ہوگی۔ حیرانی اس بات کی ہے کہ اسلامی دنیا سے نہ کوئی آواز اس کے خلاف اٹھی اور نہ مسلمانوں کو خبردار کیا گیاکہ وہ اس فریبی نظام کے خلاف کاروائی کریں۔ مسلم علماء اس بات پر مطمئن تھےکہ امریکی کاغذی ڈالر کو سونے کی ضمانت موجود ہے اس لیے پریشانی کی کوئی بات نہیں ، مگر 1971ء کے بعد تو یہ ضمانت بھی باقی نہیں رہ گئی تھی اور اب تو یہ قانونی چوری ایک ننگی حقیقت کے طور پر سامنے آگئی تھی۔
 
بھائی لوگ سود ہوتا کیا ہے اس کے بارے میں قرآن حکیم سے اگر ریفرنس مل جائے تو۔ اتنے سارے لوگوں نے اتنی ساری باتیں سود کے بارے میں لکھ ڈالیں لیکن میری سمجھ میں ابھی تک ان سارے مراسلات سے سود نہیں آیا ہے۔ کوئی سمجھادے ۔۔ اگر نہیں سمجھا سکتا تو مجھے قران کریم سے حوالہ دے کر خوشی ہوگی۔
 

کاشف سعید

محفلین
الف نظامی صاحب، جی زرِ ضمانت کہیں نہیں رہا۔ کتنی دفعہ اقرار کروں؟

"حاملِ ہذا کو مطالبہ پر ادا کرے گا" ایک جھوٹ ہے تو آپ اسٹیٹ بینک کے خلاف مقدمہ کر دیں۔ورنہ اسٹیٹ بینک سے اس بات کا مطلب پوچھ لیں جو میرے خیال میں یہ ہے کہ اسٹیٹ بینک آپ کو ایک خاص مالیت کا نوٹ (مثلا" پھٹا ہوا یا پرانا) دینے پر اُتنی مالیت کا ایک اورنوٹ دے گا۔
 
السلام علیکم،

حقیقت یہ ہے کہ زر ضمانت کبھی بھی موجود نہیں تھا۔ یہسب کچھ امریکہ اور یورپ کے بنکاروں نے شروع کیا کہ اپنا سونا حفاظت سے رکھوا دو اور اس کی رسید لے جاؤ۔ یہ کہانی پرانی ہے گوگل کر کے دیکھ لیں ۔ حتی کہ ایک وقت وہ آیا کہ ہر سونے کے بار کی 20 ، 20 رسیدیں ان ہی بنکوں نے جاری کردیں۔ نتیجہ ؟ کچھ پڑھ لیں اور کچھ اخذ کرلیں۔ یہ سب کہانی زر یعنی سونے کی ہے جو کہ دولت کا ایک اچھا سٹوریج تو بن سکتا ہے لیکن حقیت یہ ہے کہ سونا دولت نہیں ہے ۔ دولت اصل میں ہے "فوڈ" یعنی رزق اور تواانائی۔ بھوک میں کوئی سونا نہیں کھاسکتا۔ کپاس ، پلاسٹک نا ہو تو کوئی کپڑا نہیں پہن سکتا، تیل، پانی، نا ہو تو کوئی مشینری نہیں چل سکتی۔ یہ ہے اصل دولت کہ اس رزق و توانائی کے بغیر کوئی کام نہیں ہوسکتا۔ کیا اس میں سے کچھ بھی سود ہے؟ نیہن یہ تو دولت اور زر کی کہانی ہے۔

تو سود کیا ہے؟
سود کے لئے سب سے پہلے مال غنیمت کو سمجھنا ضروری ہے۔ تاکہ مال غنیمت کو مباحثہ سے الگ کیا جاسکے۔ سورۃ الانفال یعنی سورۃ مال غنیمت پڑھئے تو آپ کو اندازہ ہوگا کہ مال غنیمت جس کے لئے اللہ تعالی ---- انفال --- لفظ استعمال کرتے ہیں ۔۔ وہ بالکل بھی "غنیمت " نہیں ہے۔ دیکھئے --- سورۃ الانفال آیت نمبر 1۔
8:1 يَسْأَلُونَكَ عَنِ الْأَنفَالِ قُلِ الْأَنفَالُ لِلّهِ وَالرَّسُولِ فَاتَّقُواْ اللّهَ وَأَصْلِحُواْ ذَاتَ بَيْنِكُمْ وَأَطِيعُواْ اللّهَ وَرَسُولَهُ إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ
تجھ سے غنیمت کا حکم پوچھتے ہیں کہہ دے غنیمت کا مال الله اور رسول کا ہے سو الله سے ڈرو اور آپس میں صلح کرو اور الله اور اس کے رسول کا حکم مانو اگر ایمان دار ہو

اس آیت سے اور اس پوری سورۃ سے یہ واضح ہے کہ جنگ میں ہاتھ آیا ہوا مال ، اللہ تعالی کے الفاظ میں انفال ہے ۔۔۔ اس کے لئے غنیمت کا لفظ استعمال کرنا بالکل درست نہیں ۔ جی! اب جب ہم نے لفظ انفال اور لفظ غنیمت کو الک الگ کردیا ۔۔ تو ہم جنگ کے مال غنیمت کو کسی باقاعدہ آمدنی ، باقاعدہ منافع کا ڈریعہ نہیں سمجھ سکتے ۔ اس کے لئے ہمیں کہیں اور دیکھنا ہوگا۔ اللہ تعالی نے غنیمت، جس کے معانی ہیں بڑھوتری، اضافہ، نفع، منافع کے لئے بہت ہی واضح حکم دیا ہے کہ آپ غنیمت کے ساتھ کیا کریں۔ یہاں ایک بات اور بھی نوٹ کریں کہ انفال اللہ اور اس کے رسول کا حق ہے ۔ آج کی تاریخ میں یہ حق آپ کس کو ادا کریں گے؟ جنگ میں انفال ہاتھ آیا اور یہ اللہ اور اس کے رسول کا حق ہے چلیں اس کو میدان میں کھڑے ہو کر اچھالتے ہیں کہ رب تجھے جتنا جاہئے تو رکھ لے؟ یقینا؟ ایسا نہیں ۔ یہ مال اللہ اور اس کے رسول کا ہے یعنی حکومت وقت کے کنٹرول میں حقداروں کو پہنچ جائے۔

اب ہم دیکھتے ہیں سود ہے کیا؟ کیا سود کا تصور آپ کی رقم میں اضافے کے بغیر ممکن ہے ؟؟؟ نہیں ۔۔ تو گویا جب بھی بڑھوتری ، اضافہ یا نفع ہوگا ، کیا وہ سب سود ہوگا؟ سب چیخنے چلانے لگتے ہیں کہ نہیں نہیں نہیں جس اضافہ جس نفع میں آپ نے کام نہیں کیا تو وہ سود ہے۔ اچھا ۔۔۔ اور یہ سود حرام بھی ہے۔ چلئے وڈیرے کے کھیت میں ، ہاری نے بیج ڈالا اور وڈیرے نیں کام ہی نہیں کیا تو یہ کھیتی حرام ہے؟ یقیناَ نہیں ۔۔ تو یہ والی سود کی تعریف بھی بے کار ہے۔ تو پھر سود ہے کیا؟؟

سورۃ انفال میں ہی آیت نمبر 41 دیکھئے ۔۔ یہ آیت انفال کے بارے میں نہیں ہے بلکہ غنیمت کے بارے میں ہے ۔۔۔ یہاں اللہ تعالی نے ایک کنٹراسٹ میں سمجھایا ہے کہ غنیمت کیا ہے اور انفال کیا ہے؟ دیکھئے

8:41 وَاعْلَمُواْ أَنَّمَا غَنِمْتُم مِّن شَيْءٍ فَأَنَّ لِلّهِ خُمُسَهُ وَلِلرَّسُولِ وَلِذِي الْقُرْبَى وَالْيَتَامَى وَالْمَسَاكِينِ وَابْنِ السَّبِيلِ إِن كُنتُمْ آمَنتُمْ بِاللّهِ وَمَا أَنزَلْنَا عَلَى عَبْدِنَا يَوْمَ الْفُرْقَانِ يَوْمَ الْتَقَى الْجَمْعَانِ وَاللّهُ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ
اور جان لو کہ جو کچھ بڑھوتری (نفع، منافع) کسی بھی شے سے ہو تو اس کا پانچواں حصہ خاص اللہ اور رسول کا ہے ، یہ ہے قرابت داروں اور یتیموں اور محتاجوں اور مسافروں کے لئے اگر تم ایمان لائے ہو اللہ پر اور اس پر جو ہم نے اپنے بندے پر فیصلہ کے دن اتارا جس دن دونوںجمع ہوئے تھے اور اللہ سب کچھ کرسکتا ہے،

سورۃ انفال کی آیت نمبر 1 میں اللہ تعالی فرماتا ہے کہ ---- انفال --- سارے کا سارا اللہ اور رسول کا حق ہے ۔۔ جب کہ "غنیمت" یعنی بڑھوتری یعنی اضافہ یعنی منافع یعنی نفع، اس کا پانچواں حصہ یعنی 20 فی صد اللہ تعالی اور اس کے رسول کا حق ہے۔ غنیمت یعنی نفع، منافع، بڑھوٹری اضافہ اور --- جنگ میں ہاتھ آئے مال انفال --- میں فرق واضح ہے۔ کہ ایک (انفال) سارے کا سارا اللہ اور اس کے رسول کا حق ہے اور دوسرے ( غنیمت ) میں سے 20 فی صد اللہ اور اس کے رسول کا حق ہے۔ جو شخص بھی اضافہ کا یہ 20 فیصد اللہ اور رسول کا حق مرکزی حکومت کو ادا نہیں کرتا اللہ اور اس کے رسول کا حق کھانے والا یعنی سود خور ہے۔ تو سود وہ نہیں کہ جو آپ نے بناء کام کئے کمایا ہو۔۔ سود وہ 20 فی صد ہے جو آپ نے منافع میں سے اللہ اور رسول یعنی مرکزی حکومت کو ادا نہیں کیا۔

سود کیا ہے؟
کسی بھی اضافہ یا بڑھوتری (غنیمت) پر مرکزی حکومت کو 20 فیصد ادا کیا جائے ۔۔جس نے اضافہ کا 20 فی صد ادا نہیں کیا وہ سود خور ہے۔ بنک کا منافع سود نہیں ہے بلکہ اس منافع کا 20 فی صد نا ادا کرنا سود خوری ہے۔

اگر آپ نے بنک میں 10 ہزار روپے رکھے اور کسی بھی وقت آپ کو 100 روپے کا منافع ملا تو یہ سو روپے سود نہیں ہیں ۔ آپ نے اس 100 روپے کا 20 فی صد مرکزی حکومت کو ادا کرنا ہے۔ اگر آپ یہ 20 روپے کھا گئے تو یہ ہوئی سود خوری۔

آپ نے کھیت لگایا ، کھیتی، ہاری، پانی، بیج ، سارے خرچوں کے بعد ایک لاکھ کا اضافہ، منافع یعنی بڑھوتری یعنی غنیمت حاصل ہوا تو 20 ہزار ، اللہ اور رسول یعنی مرکزی حکومت کا حق ہے۔ جو یہ بیس ہزار کھا گیا وہ سود خور ہے۔

بنیادی طور پر کسی بھی شے سے ہونے والے اضافے، بڑھوتری، منافع، نفع، کا بیس فی صد اللہ اور اس کے رسول مرکزی حکومت کا حق ہے ۔۔ یہ ان آیات سے صاف ظاہر ہے۔ یہ مال مرکزی حکومت اللہ اور اس کے رسول کے نام پر لے کر قرابت داروں اور یتیموں اور محتاجوں اور مسافروں پر خرچ کرے گی اور ان 7 ڈیپارٹمنٹ پر خرچ ہوگا جس کا حکم ہم کو سورۃ توبہ میں ملتا ہے۔

9:50 إِنَّمَا الصَّدَقَاتُ لِلْفُقَرَاءِ وَالْمَسَاكِينِ وَالْعَامِلِينَ عَلَيْهَا وَالْمُؤَلَّفَةِ قُلُوبُهُمْ وَفِي الرِّقَابِ وَالْغَارِمِينَ وَفِي سَبِيلِ اللّهِ وَابْنِ السَّبِيلِ فَرِيضَةً مِّنَ اللّهِ وَاللّهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌ
یقیناً صدقات مفلسوں اور محتاجوں اوراس کا کام کرنے والوں کا حق ہے اورجن کی دلجوئی کرنی ہے اور غلاموں کی گردن چھوڑانے میں اور قرض داروں کے قرض میں اور الله کی راہ میں اورمسافر کو یہ الله کی طرف سے مقرر کیاہوا ہے اور الله جاننے والا حکمت والا ہے

یہ جمع کیا ہوا مال جن لوگوں پر مرکزی حکومت خرچ کرے گی اس میں یہ گروپ بھی شامل ہیں۔
یہی نیکی نہیں کہ تم اپنے منہ مشرق اور مغرب کی طرف پھیرو بلکہ نیکی تو یہ ہے جو الله اور قیامت کے دن پر ایمان لائے اورفرشتوں اور کتابوں او رنبیوں پر اور ا سکی محبت میں رشتہ دارو ں اور یتیموں اور مسکینوں اور مسافروں اور سوال کرنے والوں کو اور گردنوں کے چھڑانے میں مال دے اور نماز پڑھے اور زکوةٰ دے اور جو اپنے عہدوں کو پورا کرنے والے ہیں جب وہ عہد کر لیں اورتنگدستی میں اور بیماری میں اور لڑائی کےوقت صبر کرنے والے ہیں یہی سچے لوگ ہیں اوریہی پرہیزگار ہیں

والسلام
 

آوازِ دوست

محفلین
بجلی کا ایک یونٹ بھی واپڈا اہلکاروں کی ملی بھگت کے بغیر چوری نہیں ہو سکتا۔ بجلی چوری روکنا کِس کی ذمہ داری ہے؟ یہ قومی جُرم ہے اور اگر حکومت اِسے نہیں روک سکتی تو جہنم میں(یا کم از کم گھر) جائے اپنی نا اہلی کا گند عوام کے سر کیوں؟
 

x boy

محفلین
بات تو صحیح ہے سود تو سود ہوتا ہے فائدہ تو نہیں ہوسکتا،
بنک کے ذریعے کاروبار کے معاملات چل رہے ہیں تو چاہے اسلامی بنک سے کرتے ہوں یا انگریزی اسٹائل کے بنگ سے ایک ہی بات ہے
سود سے رقم گزر کر ہی آتی ہے یا جاتی ہے اسکی مثال ایسی ہے جیسے گھر کے ڈرین سے گندا پانی بھی گزرتا ہے اور اچھا پانی بھی اور یہ سب جاکر
سیوریج سینٹر میں جمع ہوتے ہیں

ہمیشہ میری ایک ہی بات،،،
 
Top