سود کی ہر شکل حرام ہے

کاظمی بابا

محفلین
اس
سود خور قیامت کے دن آسیب زدہ کی طرح کھڑا ہوگا
(۱)وہ جو سود کھاتےہیں وہ قیامت کے دن اس شخص کی طرح کھڑے ہوں گے جسے آسیب نے چھوٗکر مخبوط بنا دیا ہو۔ یہ اس لیے کہ انہوں نے کہا کہ بیع بھی تو سود کی مانند ہے اور اللہ نے بیع کو حلال کیا اور سود کو حرام کیا، تو جس کے پاس اللہ کی طرف سے نصیحت آئی اور وہ باز رہا تو اسے وہ حلال ہے جو وہ پہلے لے چکا اور اس کا کام خدا کے سپرد ہے اور جو اب ایسی حرکت کرے گا تو وہ دوزخی ہےاور وہ اس میں مدتوں رہیں گے۔
سود کو اللہ تعالیٰ مٹاتا ہے
(۲) اللہ تعالیٰ سود کو مٹاتا ہے اور خیرات کو بڑھاتا ہے اور اللہ کو کوئی ناشکرا اوربڑا گنہ گار پسند نہیں آتا۔
سود سے بچنے میں کامیابی ہے
(۳) اے ایمان والو! بڑھا چڑھاکر سود نہ کھاؤ اور اللہ سے ڈرو اس امید پر کہ تمہیں فلاح ملے۔
سود خور کو خون کی نہر میں عذاب د یا جائے گا
(۱) حضرت سمرہ بن جندب ؄سے مروی کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ آج رات میں نے دیکھا کہ میرے پاس دو شخص آئے اور مجھے سرزمین مقدس لے کر گئے پھر ہم چلے یہاں تک کہ ایک خون کی نہر کے پاس پہنچے، اس میں ایک شخص کھڑا ہوا تھا اور شخص نہر کے کنارے کھڑا تھا ، اس کے سامنے پتھر پڑے ہوئے تھے۔ نہر میں کھڑا شخص آگے بڑھا اور اس نے نکلنے کا ارادہ کیا تبھی دوسرے شخص نے اس کے منھ پر پتھر مار کر اسے وہیں پہنچا دیا جہاں وہ تھا، یہ جب جب نکلنے کا ارادہ کرتا وہ شخص اس کے منھ پر پتھر مار کر وہیں پہنچا دیتا، میں نے پوچھا: یہ کون ہے؟ کہا : یہ شخص جو نہر میں ہے سود خور ہے۔ { FR 143 }
سودیوں پر اللہ کے رسول ﷺ کی لعنت ہے
(۴) رسو ل اللہ ﷺ نے سود کھا نے والے، کھلا نےوالے، اسے لکھنے والے اور اسکے گواہوں پر لعنت فر مائی اور فرمایا وہ سب گناہ میں برابر ہیں۔
سود کی وجہ سے پوری بستی ہلاک کردی جاتی ہے
(۵) حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی وہ اپنے والد محترم سے راوی ہے کہ جب کسی بستی میں زنا اور سود پھیل جاتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس بستی کو ہلا ک کر نے کی اجازت دے دیتا ہے ۔
سود کا ایک درہم جان بوجھ کرکھانا ۳۶ بار زنا کرنےسے زیادہ برا ہے
(۶)حضرت عبداللہ ابن حنظلہ غسیل الملائکہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ سود کا ایک درہم بھی کوئی جان بوجھ کر کھائے تو یہ چھتس مرتبہ زنا کرنے سے زیادہ برتر ہے۔
سود کےگناہ کا سب سے چھوٹا درجہ اپنی ماں سے زنا کرنے کے برابر ہے
(۷) حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسو ل اللہ ﷺ نے فرما یا کہ سود کے ستر حصے ہیں اس کا سب سےچھوٹا درجہ یہ ہے کہ مرد اپنی ماں سے زنا کر ے۔
سود خوروں کے پیٹ گھروں کی طرح بڑے ہوجائیں گے
(۸) حضر ت ابو ہریرہر ہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں معراج کی رات ایسے لوگوں کے پا س سے گزرا کہ جن کے پیٹ گھروں کی طرح تھے ان میں سانپ تھے جو باہر سے دکھائی دیتے تھے میں نے کہا اے جبرائیل یہ کون لوگ ہیںانہوں نے عرض کیا کہ یہ سود خور ہیں۔
سود خور پاگل ہوکر اٹھے گا
(۹) حضرت قتادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ بیشک سود خور قیامت کے دن پاگل اٹھایا جائے گا۔
قربِ قیامت سود سے بچنا بہت مشکل ہوگا
(۱۰) حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرما یا کہ لوگوں پر ایک ایسا زمانہ ائے گا کہ سود کھانے سے کوئی بچ نہ سکے گااگر وہ سود نہ کھائے گا تو و ہ اس کےاثرو غبار سے نہ بچ سکے گا۔
(سود کی مذمت و حرمت پر لکھے گئے میرے ایک مضمون کا کچھ حصہ )

یہ پوسٹ پڑھ لیں۔
 

کاظمی بابا

محفلین
دراصل مجھے آپ اپنی تصویر کے حوالے سے کچھ سلجھے ہوئے معلوم ہوئے تھے ۔لیکن اس تبصرے کے بعد آپ کے ذہن کی اصل حقیقت سمجھ آئی ۔ آپ جیسے لوگ یہاں بہت آئے اور چلے گئے ۔مذہب کے نام پر جس طرح آپ لوگوں نے ملک میں جو انارکی پھیلائی ہوئی ہے ۔ جو کسی سے پوشیدہ نہیں ہے ۔ لوگوں میں اب آنکھ بند کر لیکر کا فقیربننے کا عمل ختم ہوچکا ہے ۔ یہ طریقہ کہیں اور جا کر اپنائیں ۔قرآن کی آیتیوں کو توڑ مڑور کرکے یہاں پیش کرتے ہیں اور جب اس ضمن میں دلائل اور ثبوت مانگوتو پھرجواب دینے کے بجائے اپنے جامے میں آجاتے ہیں ۔
ہمیں نہ تو آپ کی تصویر یا شکل سے غرض ہے نہ ہمیں آپ سے کوئی سند چاہئیے۔
آپ کی مرضی ہے آپ ہماری شیئر کی گئی حدیث کو مانیں یا نہ مانیں۔
حوالیہ جات ناظم صاحب کی پوسٹ میں دیکھ لیں
 

ظفری

لائبریرین
اس


یہ پوسٹ پڑھ لیں۔

بندہ ِ خدا ۔۔۔۔ اس ساری پوسٹ میں صرف سود خور یا سود لینے والےکی بابت بات ہو رہی ہے ۔ اس کو "تم "غور سے پڑھو اور ثابت کرو کہ تم نے سود خور کے علاوہ "اور دوسروں "کواللہ کے حکم سے کیسے متصل کردیا ۔
اس قسم کے رویوں اور interpretationنے اسلام کو آج کس مقام پر کھڑا کردیا ہے ۔ یعنی ایک ایسی پوسٹ مجھے بتائی جا رہی ہے ۔ جو خود موصوف کی interpretationپر پوری نہیں اترتی ۔ یہ حال ہے اس قوم کا ۔ اللہ رحم کرے ۔
 

کاظمی بابا

محفلین
تو
بندہ ِ خدا ۔۔۔۔ اس ساری پوسٹ میں صرف سود خور یا سود لینے والےکی بابت بات ہو رہی ہے ۔ اس کو "تم "غور سے پڑھو اور ثابت کرو کہ تم نے سود خور کے علاوہ "اور دوسروں "کواللہ کے حکم سے کیسے متصل کردیا ۔
جناب آپ نہ مانیں، جائیں مزے سے کھائیں سود !
کہا نا کہ یہ آپ کا اور اللہ کا معاملہ ہے۔
ہم آپ کو روکنے والے کون ہوتے ہیں ؟
اگر آپ کو اپنی فلاح کی فکر ہے تو کسی قریبی اور مخلص اہل علم سے بات کریں (جس کا مولوی ہونا لازمی نہیں)
 

ظفری

لائبریرین
میرے پاس ذاتی پیغامات میں کچھ دوستوں کا مشورہ آیا ہے کہ میں بھی کس سے بحث کر رہا ہوں ۔ مگر یقین مانیں میں قطعی اس شخص سے بحث نہیں کررہا ہوں ۔ اس کے پاس تو بحث کے لیئے کچھ ہے ہی نہیں ۔ میری ساری پوسٹس کا ماخذ وہ قاری ہیں ۔ جو یہاں آتے ہیں ۔ اور اس طرح کی interpretation یا آیت کی توڑ مڑور کو پڑھ کر کسی غلط فہمی کا شکار نہ ہوجائیں ۔میں انہیں بتانا چاہتا ہوں کہ اللہ کا فرمان سود کے بارے میں کیا ہے ۔ اگر چاہیں تو میں اس پر تفصیلی بھی لکھ سکتا ہوں ÷ یہ شخص جس " تحریر" کو اپنے فتوی کا ماخذ بتا رہا ہے ۔ اس کو ہی پڑھ لیں اور خود ہی بتائیں ۔ اس شخص نے جو باتیں اپنی پہلی پوسٹ میں لکھی ہے ۔ اس " تحریر" سے کتنی مماثلت رکھتی ہے ۔یہ ایک خاص ذہن ہے ۔ اور اس سے بلآخر قوم اب جہاد کر رہی ہے ۔ اللہ اس قوم کو کامیاب کرے ۔ آمین
 

ظفری

لائبریرین
تو پھر کب اس پوزیشن میں ہونگے؟

ہم انفرادی سطح پر الحمد للہ اس سے اجتناب کر رہے ہیں یہی کافی ہے باقی جب من حیث القوم ممکن ہوگا اس کو بھی خوش آمدید کہیں گے۔
ابن رضا بھائی ۔۔۔۔جب کوئی چیز معیشت بن جاتی ہے تو اس کو یکدم سے ختم نہیں کیا جاسکتا ۔ کیونکہ ایسی صورت میں جو ویکیوم پیدا ہوگا ۔ اس سے زبردست انتشار پیدا ہوسکتا ہے۔ جو فرد اور معاشرے دونوں کے لیئے انتہائی موذی ثابت ہوسکتا ہے ۔ اس کی ایک مثال آپ غلامی کے حوالے سے لیں ۔ جب اسلام کی بعثت ہوئی تو اس وقت غلامی ایک بہت بڑی معیشت تھی ۔مگر اسلام نے یکدم سے غلامی کو ختم نہیں کیا ۔کیونکہ ایسی صورت میں ہزاروں لوگ لاوارث ہوجاتے ۔ کوئی ولی اور وارث نہ ہونے کی صورت میں بدن فروشی ، لوٹ مار اور دیگر بدترین عمل کی طرف رجوع ہوجاتے اور معاشرہ خلفشار کا شکار ہوجاتا ۔لہذا اسلام نے بتدریج آہستہ آہستہ انہیں آزاد کرانے کی ترغیب دی ۔ اور اس ضمن میں کئی آیتیں بھی رہنمائی کے لیئے اتریں ۔تاکہ یہ عمل اس رفتار سے ہو کہ آزاد ہونے والے غلام معاشرے میں اپنی جگہ بناکر اپنے پاؤں پر کھڑے ہوجائیں ۔ ( اس حکمتِ عملی کو بہت سے لوگ سمجھے نہیں اور اسلام کو غلامی کے حوالے سے نشانہ بھی بناتے ہیں ) ۔ خیر۔۔۔
بلکل اسی طرح آج دنیا کی معشیت بھی سود کے نظام پر کھڑی ہے ۔ اور مغرب اور مشرق میں سب جانتے ہیں کہ یہ سود ایک بری بلا ہے ۔ مگر چونکہ دنیا کی معشیت کا ڈھانچہ ہی سود پر کھڑا ہوا ہے ۔ اس لیئے فی الفور کسی کے سامنے کوئی ایسا دوسرا نظام نہیں ہے ۔ جس پر اس سودی نظام کو ڈھالا جاسکے ۔اگر ہے بھی تو اس پر فوری عمل نہیں کیا جاسکتا ۔ کیونکہ غلامی کا خاتمہ جس حکمتِ عملی سے کیا گیا ۔ بلکل ایسی ہی حکمتِ عملی یہاں بھی درکار ہے ۔جس سے دنیا کو اس نظام سے نجات مل جائے ۔اس سلسلے میں ماہر معاشیات اپنی تجاویز اور لائحہ عمل سامنے لاکر اس لعنت کا خاتمہ کرسکتے ہیں ۔
 

ابن رضا

لائبریرین
ابن رضا بھائی ۔۔۔۔جب کوئی چیز معیشت بن جاتی ہے تو اس کو یکدم سے ختم نہیں کیا جاسکتا ۔ کیونکہ ایسی صورت میں جو ویکیوم پیدا ہوگا ۔ اس سے زبردست انتشار پیدا ہوسکتا ہے۔ جو فرد اور معاشرے دونوں کے لیئے انتہائی موذی ثابت ہوسکتا ہے ۔ اس کی ایک مثال آپ غلامی کے حوالے سے لیں ۔ جب اسلام کی بعثت ہوئی تو اس وقت غلامی ایک بہت بڑی معیشت تھی ۔مگر اسلام نے یکدم سے غلامی کو ختم نہیں کیا ۔کیونکہ ایسی صورت میں ہزاروں لوگ لاوارث ہوجاتے ۔ کوئی ولی اور وارث نہ ہونے کی صورت میں بدن فروشی ، لوٹ مار اور دیگر بدترین عمل کی طرف رجوع ہوجاتے اور معاشرہ خلفشار کا شکار ہوجاتا ۔لہذا اسلام نے بتدریج آہستہ آہستہ انہیں آزاد کرانے کی ترغیب دی ۔ اور اس ضمن میں کئی آیتیں بھی رہنمائی کے لیئے اتریں ۔تاکہ یہ عمل اس رفتار سے ہو کہ آزاد ہونے والے غلام معاشرے میں اپنی جگہ بناکر اپنے پاؤں پر کھڑے ہوجائیں ۔ ( اس حکمتِ عملی کو بہت سے لوگ سمجھے نہیں اور اسلام کو غلامی کے حوالے سے نشانہ بھی بناتے ہیں ) ۔ خیر۔۔۔
بلکل اسی طرح آج دنیا کی معشیت بھی سود کے نظام پر کھڑی ہے ۔ اور مغرب اور مشرق میں سب جانتے ہیں کہ یہ سود ایک بری بلا ہے ۔ مگر چونکہ دنیا کی معشیت کا ڈھانچہ ہی سود پر کھڑا ہوا ہے ۔ اس لیئے فی الفور کسی کے سامنے کوئی ایسا دوسرا نظام نہیں ہے ۔ جس پر اس سودی نظام کو ڈھالا جاسکے ۔اگر ہے بھی تو اس پر فوری عمل نہیں کیا جاسکتا ۔ کیونکہ غلامی کا خاتمہ جس حکمتِ عملی سے کیا گیا ۔ بلکل ایسی ہی حکمتِ عملی یہاں بھی درکار ہے ۔جس سے دنیا کو اس نظام سے نجات مل جائے ۔اس سلسلے میں ماہر معاشیات اپنی تجاویز اور لائحہ عمل سامنے لاکر اس لعنت کا خاتمہ کرسکتے ہیں ۔
حضور فی الفور خاتمہ ء رِبا تو ہمارا مطالبہ ہے ہی نہیں۔ اسی لیے لکھا کہ جب سود سے پاک نعم البدل میسر ہو گا تب ہم بھی اس کو خوش آئند کہیں گے۔ البتہ انفرادی سطح پر اپنی رقوم کو سود پر دینا اور سود لینا یا کریڈٹ کارڈ اور بنک کے قرضہ جات اس کی ہم بطور مسلم حوصلہ شکنی کرتے رہیں تو قرانی احکام کی کھلی خلاف ورزی سے بچ سکیں گے ورنہ گنہگار تو ہم ہیں ہی۔
 

کاظمی بابا

محفلین
حضور فی الفور خاتمہ ء رِبا تو ہمارا مطالبہ ہے ہی نہیں۔ اسی لیے لکھا کہ جب سود سے پاک نعم البدل میسر ہو گا تب ہم بھی اس کو خوش آئند کہیں گے۔ البتہ انفرادی سطح پر اپنی رقوم کو سود پر دینا اور سود لینا یا کریڈٹ کارڈ اور بنک کے قرضہ جات اس کی ہم بطور مسلم حوصلہ شکنی کرتے رہیں تو قرانی احکام کی کھلی خلاف ورزی سے بچ سکیں گے ورنہ گنہگار تو ہم ہیں ہی۔

متفق
"انفرادی سطح پر اپنی رقوم کو سود پر دینا اور سود لینا یا کریڈٹ کارڈ اور بنک کے قرضہ جات اس کی ہم بطور مسلم حوصلہ شکنی کرتے رہیں"
 

ظفری

لائبریرین
حضور فی الفور خاتمہ ء رِبا تو ہمارا مطالبہ ہے ہی نہیں۔ اسی لیے لکھا کہ جب سود سے پاک نعم البدل میسر ہو گا تب ہم بھی اس کو خوش آئند کہیں گے۔ البتہ انفرادی سطح پر اپنی رقوم کو سود پر دینا اور سود لینا یا کریڈٹ کارڈ اور بنک کے قرضہ جات اس کی ہم بطور مسلم حوصلہ شکنی کرتے رہیں تو قرانی احکام کی کھلی خلاف ورزی سے بچ سکیں گے ورنہ گنہگار تو ہم ہیں ہی۔

بجا فرمایا آپ نے ۔۔۔۔ ہونا بھی یہی چاہیئے۔ مگر اس ضمن میں میری ایک گذارش ہے ۔ ( لاحاصل بحث کے قطع نظر ) کہ اللہ نے سورہ بقرہ میں جا بجا سودخور کی مذمت کی ہےمگر سود دینے والا کا کہیں تذکرہ نہیں ہے ۔ بلکہ اس میں سود دینے والے کو مظلوم کہا گیا ہے ۔میرا نقطہ نظرصرف اتنا ہے کہ قرآن کی جو آیت جتنا حکم دے رہی ہے ۔ کم ازکم ہم اس حوالے سے اتنی ہی بات کریں ۔ اس کے بعد کسی ریاست میں سود دینے والے کے لیئے کیا قانون بنانا ہے ۔ وہ ایک الگ بحث ہے ۔ میرا صرف یہی مدعا ہے کہ سود خور کے بارے میں واضع ارشاد ہے ۔( یہاں بھی لوگوں نے خوب کاپی پیسٹ کیا ہے )مگر سود دینے والے کی بارے میں اگر ایسا کوئی ارشادِ باری ہے تو پلیز مجھ لاعلم کو ضرورمطلع کریں ۔ ممنون رہوں گا ۔( غیر ضروری لوگ اس بحث سے دور رہیں ;)) ۔
 

یوسف سلطان

محفلین
سود –انسانوں کو ہلاک کرنے والا گناہ

مال اللہ تعالیٰ کی نعمتوں میں سے ایک بڑی نعمت ہے، جس کے ذریعہ انسان اللہ تعالیٰ کے حکم سے اپنی دنیاوی ضرورتوں کو پورا کرتا ہے؛ لیکن شریعتِ اسلامیہ نے ہر شخص کو مکلف بنایا ہے کہ وہ صرف جائز وحلال طریقہ سے ہی مال کمائے؛ کیوں کہ کل قیامت کے دن ہر شخص کو مال کے متعلق اللہ رب العزت کو جواب دینا ہوگا کہ کہاں سے کمایا یعنی وسائل کیا تھے اور کہاں خرچ کیا یعنی مال سے متعلق حقوق العباد یا حقوق اللہ میں کوئی کوتاہی تو نہیں کی۔

مال کے نعمت اور ضرورت ہونے کے باوجود، خالقِ کائنات اور تمام نبیوں کے سردار حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مال کو متعدد مرتبہ فتنہ ، دھوکے کا سامان اور محض دنیاوی زینت کی چیز قرار دیا ہے۔اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہم مال ودولت کے حصول کے لیے کوئی کوشش ہی نہ کریں؛ کیوں کہ حلال رزق کا طلب کرنا اور اس سے بچوں کی تربیت کرنا خود دین ہے؛بلکہ مقصد یہ ہے کہ اللہ کے خوف کے ساتھ زندگی گزاریں اور اخروی زندگی کی کامیابی کو ہر حال میں ترجیح دیں۔ کہیں کوئی معاملہ درپیش ہو تو اخروی زندگی کو داوٴ پرلگانے کے بجائے فانی دنیاوی زندگی کے عارضی مقاصد کو نظر انداز کردیں، نیز شک وشبہ والے امور سے بچیں۔

اِن دنوں حصول مال کے لیے ایسی دوڑ شروع ہوگئی ہے کہ اکثر لوگ اس کا بھی اہتمام نہیں کرتے کہ مال حلال وسائل سے آرہا ہے یا حرام وسائل سے؛ بلکہ کچھ لوگوں نے تو اَب حرام وسائل کو مختلف نام دے کر اپنے لیے جائز سمجھنا شروع کردیا ہے ؛ حالانکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تو مشتبہ چیزوں سے بھی بچنے کا حکم دیا ہے؛ اس لیے ہر مسلمان کو چاہیے کہ صرف حلال وسائل پر ہی اکتفاء کرے، جیساکہ حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: حرام مال سے جسم کی بڑھوتری نہ کرو؛ کیوں کہ اس سے بہتر آگ ہے۔ (ترمذی) نیز نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادہے کہ حرام کھانے،پینے اور حرام پہننے والوں کی دعائیں قبول نہیں ہوتی ہیں۔ (مسلم)

ہمارے معاشرہ میں جو بڑے بڑے گناہ عام ہوتے جارہے ہیں، ان میں سے ایک بڑا خطرناک اور انسان کو ہلاک کرنے والا گناہ سود ہے۔

سود کیا ہے؟

وزن کی جانے والی یا کسی پیمانے سے ناپے جانے والی ایک جنس کی چیزیں اور روپے وغیرہ میں دو آدمیوں کا اس طرح معاملہ کرنا کہ ایک کو عوض کچھ زائد دینا پڑتا ہو ربا اور سود کہلاتا ہے جس کو انگریزی میں Interest یا Usuryکہتے ہیں۔ جس وقت قرآنِ کریم نے سود کو حرام قرار دیا اس وقت عربوں میں سودکا لین دین متعارف اور مشہور تھا، اور اُس وقت سود اُسے کہا جاتا تھا کہ کسی شخص کو زیادہ رقم کے مطالبہ کے ساتھ قرض دیا جائے خواہ لینے والا اپنے ذاتی اخراجات کے لیے قرض لے رہا ہو، یا پھر تجارت کی غرض سے، نیز وہ Simple Interestہو یا Compound Interest، یعنی صرف ایک مرتبہ کا سود ہو یا سود پر سود۔ مثلاً زید نے بکر کو ایک ماہ کے لیے ۱۰۰ روپے بطور قرض اس شرط پر دیے کہ وہ ۱۱۰ روپے واپس کرے، تو یہ سودہے؛ البتہ قرض لینے والا اپنی خوشی سے قرض کی واپسی کے وقت اصل رقم سے کچھ زائد رقم دینا چاہے تو یہ جائز ہی نہیں؛ بلکہ ایسا کرنا نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل سے ثابت ہے؛ لیکن پہلے سے زائد رقم کی واپسی کا کوئی معاملہ طے نہ ہوا ہو۔ بینک میں جمع شدہ رقم پر پہلے سے متعین شرح پر بینک جو اضافی رقم دیتا ہے، وہ بھی سود ہے۔

سود کی حرمت

سود کی حرمت قرآن وحدیث سے واضح طور پر ثابت ہے، اللہ تبارک وتعالیٰ نے ارشاد فرمایا: وَاَحَلَّ اللّٰہ ُ الْبَیْعَ وَحَرَّمَ الرِّبٰوا(سورہٴ البقرہ ۲۷۵) اللہ تعالیٰ نے خریدوفروخت کو حلال اور سود کو حرام قرار دیا ہے۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: یَمْحَقُ اللّٰہُ الرِّبَا وَیُرْبِی الصَّدَقَاتِ (سورہٴ البقرہ ۲۷۶) اللہ تعالیٰ سود کو مٹاتا ہے اور صدقات کو بڑھاتا ہے۔ جب سود کی حرمت کاحکم نازل ہوا تو لوگوں کا دوسروں پر جو کچھ بھی سود کا بقایا تھا، اس کو بھی لینے سے منع فرمادیاگیا: وَذَرُوْا مَا بَقِیَ مِنَ الرِّبَا اِنْ کُنْتُمْ مْوٴمِنِیْنَ (سورہٴ البقرہ ۲۷۸) یعنی سود کا بقایا بھی چھوڑدو اگر تم ایمان والے ہو۔

سود لینے اور دینے والوں کے لیے اللہ اور اس کے رسول کا اعلانِ جنگ

سود کو قرآنِ کریم میں اتنا بڑا گناہ قرار دیا گیا ہے کہ شراب نوشی، خنزیر کھانے اور زنا کاری کے لیے قرآن کریم میں وہ لفظ استعمال نہیں کیے گئے جو سود کے لیے اللہ تبارک وتعالیٰ نے استعمال کیے ہیں چنانچہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: یَا اَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا اتَّقُوا اللّٰہَ وَذَرُوْا مَا بَقِیَ مِنَ الرِّبٰوا اِنْ کُنْتُمْ مُوٴمِنِیْنَ۔ فَاِن لَّمْ تَفْعَلُوا فَاْذَنُوا بِحَرْبٍ مِّنَ اللّٰہِ وَرَسُوْلِہِ (سورہٴ البقرہ ۲۷۸ ۔ ۲۷۹) اے ایمان والو! اللہ تعالیٰ سے ڈرو اور جو سود باقی رہ گیا ہے وہ چھوڑدو، اگر تم سچ مچ ایمان والے ہو۔ اور اگر ایسا نہیں کرتے تو تم اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول سے لڑنے کے لیے تیار ہوجاوٴ! سود کھانے والوں کے لیے اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے اعلانِ جنگ ہے اور یہ ایسی سخت وعید ہے جو کسی اور بڑے گناہ، مثلاً زنا کرنے، شراب پینے کے ارتکاب پر نہیں دی گئی۔ مشہور صحابیِ رسول حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ جو شخص سود چھوڑنے پر تیار نہ ہو تو خلیفہٴ وقت کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس سے توبہ کرائے اور باز نہ آنے کی صورت میں اس کی گردن اڑادے۔ (تفسیر ابن کثیر)

سود کھانے والوں کے لیے قیامت کے دن کی رسوائی وذلّت

اللہ تبارک وتعالیٰ نے سود کھانے والوں کے لیے کل قیامت کے دن جو رسوائی وذلت رکھی ہے اس کو اللہ تعالیٰ نے اپنے پاک کلام میں کچھ اس طرح فرمایا: اَلَّذِیْنَ یَاْکُلُونَ الرِّبٰوا لَا یَقُوْمُونَ اِلَّا کَمَا یَقُومُ الَّذِیْ یَتَخَبَّطُہُ الشَّیْطَانُ مِنَ الْمَسِّ (سورہٴ البقرہ ۲۷۵) جولوگ سود کھاتے ہیں وہ (قیامت میں) اٹھیں گے تو اس شخص کی طرح اٹھیں گے جسے شیطان نے چھوکر پاگل بنادیا ہو۔ سود کی بعض شکلوں کو جائز قرار دینے والوں کے لیے فرمانِ الٰہی ہے: ذَلِکَ بِاَنَّہُمْ قَالُوا اِنَّمَا الْبَیْعُ مِثْلُ الرِّبٰوا (سورہٴ البقرہ ۲۷۵) یہ ذلت آمیز عذاب اس لیے ہوگا کہ انھوں نے کہا تھا کہ بیع بھی تو سود کی طرح ہوتی ہے؛ حالانکہ اللہ تعالیٰ نے بیع یعنی خرید وفروخت کو حلال کیا ہے اور سود کو حرام قرار دیا ہے۔

سودکھانے سے توبہ نہ کرنے والے لوگ جہنم میں جائیں گے

فَمَنْ جَآئَہُ مَوْعِظَةٌ مِّن رَّبِّہِ فَانْتَہیٰ فَلَہ مَاسَلَفَ، وَاَمْرُہٓ اِلَی اللّٰہِ، وَمَنْ عَادَ فَاُولٓئِکَ اَصْحَابُ النَّارِ، ہُمْ فِیْہَا خَالِدُونَ (سورہٴ البقرہ ۲۷۵) لہٰذا جس شخص کے پاس اس کے پروردگار کی طرف سے نصیحت آگئی اور وہ (سودی معاملات سے) باز آگیا تو ماضی میں جو کچھ ہوا وہ اسی کا ہے اور اس کی (باطنی کیفیت) کا معاملہ اللہ تعالیٰ کے حوالہ ہے۔ اور جس شخص نے لوٹ کر پھر وہی کام کیاتو ایسے لوگ دوزخی ہیں، وہ ہمیشہ اس میں رہیں گے۔

غرضیکہ سورہٴ بقرہ کی ان آیات میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے انسان کو ہلاک کرنے والے گناہ سے سخت الفاظ کے ساتھ بچنے کی تعلیم دی ہے اور فرمایاکہ سود لینے اور دینے والے اگر توبہ نہیں کرتے ہیں تو وہ اللہ اور اس کے رسول سے لڑنے کے لیے تیار ہوجائیں، نیز فرمایا کہ سود لینے اور دینے والوں کو کل قیامت کے دن ذلیل ورسوا کیا جائے گا اور وہ جہنم میں ڈالے جائیں گے۔۔۔ نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی سود سے بچنے کی بہت تاکید فرمائی ہے اور سود لینے اور دینے والوں کے لیے سخت وعیدیں سنائی ہیں جن میں سے بعض احادیث ذیل میں ذکرکی جارہی ہیں:

سود کے متعلق نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات

حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حجة الوداع کے موقع پر سود کی حرمت کا اعلان فرماتے ہوئے ارشاد فرمایا: (آج کے دن) جاہلیت کا سود چھوڑ دیا گیا، اور سب سے پہلا سود جو میں چھوڑتا ہوں وہ ہمارے چچا حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا سود ہے۔ وہ سب کا سب ختم کردیا گیا ہے؛ چونکہ حضرت عباس رضی اللہ عنہ سود کی حرمت سے قبل لوگوں کو سود پر قرض دیا کرتے تھے؛ اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ آج کے دن میں اُن کا سودجو دوسرے لوگوں کے ذمہ ہے وہ ختم کرتا ہوں۔ (صحیح مسلم ، باب حجة النبی )

حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: سات ہلاک کرنے والے گناہوں سے بچو۔ صحابہٴ کرام نے عرض کیا: یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! وہ سات بڑے گناہ کونسے ہیں (جو انسانوں کو ہلاک کرنے والے ہیں)؟ حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرما: (۱)شرک کرنا، (۲) جادو کرنا، (۳)کسی شخص کو ناحق قتل کرنا، (۴)سود کھانا، (۵)یتیم کے مال کو ہڑپنا، (۶)(کفار کے ساتھ جنگ کی صورت میں) میدان سے بھاگنا، (۷)پاک دامن عورتوں پر تہمت لگانا۔ (بخاری ومسلم)

حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سود لینے اور دینے والے، سودی حساب لکھنے والے اور سودی شہادت دینے والے سب پر لعنت فرمائی ہے۔ سود لینے اور دینے والے پر حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی لعنت کے الفاظ حدیث کی ہر مشہور ومعروف کتاب میں موجود ہیں۔ (مسلم، ترمذی، ابوداود، نسائی)

حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: چار شخص ایسے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے لیے لازم کرلیا ہے کہ ان کو جنت میں داخل نہیں کریں گے اور نہ ان کو جنت کی نعمتوں کا ذائقہ چکھائیں گے۔ پہلا شراب کا عادی، دوسرا سود کھانے والا، تیسرا ناحق یتیم کا مال اڑانے والا، چوتھا ماں باپ کی نافرمانی کرنے والا (کتاب الکبائر للذہبی)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: سود کے ۷۰ سے زیادہ درجے ہیں اور ادنی درجہ ایسا ہے جیسے اپنی ماں سے زناکرے۔(رواہ حاکم، البیہقی، طبرانی، مالک)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ایک درہم سود کا کھانا چھتیس مرتبہ زنا کرنے سے زیادہ ہے۔ (رواہ احمد والطبرانی فی الکبیر)

بینک سے قرض (Loan) بھی عین سود ہے

تمام مکاتبِ فکر کے علماء اس بات پر متفق ہیں کہ عصر حاضر میں بینک سے قرض لینے کا رائج طریقہ اور جمع شدہ رقم پر Interest کی رقم حاصل کرنا یہ سب وہی سود ہے جس کو قرآن کریم میں سورہٴ بقرہ کی آیات میں منع کیا گیا ہے، جس کے ترک نہ کرنے والوں کے لیے اللہ اور اس کے رسول کا اعلانِ جنگ ہے اور توبہ نہ کرنے والوں کے لیے قیامت کے دن رسوائی وذلت ہے اور جہنم ان کا ٹھکانا ہے۔ عصرِ حاضر کی پوری دنیا کے علماء پر مشتمل اہم تنظیم مجمع الفقہ الاسلامی کی اس موضوع پر متعدد میٹنگیں ہوچکی ہیں؛ مگر ہر میٹنگ میں اس کے حرام ہونے کا ہی فیصلہ ہوا ہے۔ برصغیر کے جمہور علماء بھی اس کے حرام ہونے پر متفق ہیں۔ فقہ اکیڈمی، نیودہلی کی متعدد کانفرنسوں میں اس کے حرام ہونے کا ہی فیصلہ ہوا ہے۔ مصری علماء جو عموماً آزاد خیال سمجھے جاتے ہیں وہ بھی بینک سے موجودہ رائج نظام کے تحت قرض لینے اور جمع شدہ رقم پر Interestکی رقم کے عدمِ جواز پر متفق ہیں۔ پوری دنیا میں کسی بھی مکتبِ فکر کے دارالافتاء نے بینک سے قرض لینے کے رائج طریقہ اور جمع شدہ رقم پر Interest کی رقم کو ذاتی استعمال میں لینے کے جواز کا فتویٰ نہیں دیا ہے۔

عصرِ حاضر میں ہم کیا کریں؟

(۱) اگر کوئی شخص بینک سے قرض لینے یا جمع شدہ رقم پر سود کے جائز ہونے کو کہے تو پوری دنیا کے علماء کے موقف کو سامنے رکھ کراس سے بچیں۔

(۲) اس بات کو اچھی طرح ذہن میں رکھیں کہ علمائے کرام نے قرآن وحدیث کی روشنی میں بینک سے قرض لینے اور بینک میں جمع شدہ رقم پر Interest کی رقم کے حرام ہونے کا فیصلہ آپ سے دشمنی نکالنے کے لیے نہیں؛ بلکہ آپ کے حق میں کیا ہے؛ کیوں کہ قرآن وحدیث میں سود کو بہت بڑا گناہ قرار دیا گیا ہے، شراب نوشی، خنزیر کھانے اور زنا کاری کے لیے قرآنِ کریم میں وہ الفاظ استعمال نہیں کیے گئے جو سود کے لیے اللہ تبارک وتعالیٰ نے استعمال کیے ہیں ۔

(۳) جس نبی کے امتی ہونے پر ہم فخر کرتے ہیں، اس نے سود لینے اور دینے والوں پر لعنت فرمائی ہے، نیز شک وشبہ والی چیزوں سے بھی بچنے کی تعلیم دی ہے ۔

(۴) بینک سے قرضہ لینے سے بالکل بچیں، دنیاوی ضرورتوں کو بینک سے قرضہ لیے بغیر پورا کریں، کچھ دشواریاں، پریشانیاں آئیں تو اس پر صبر کریں۔

(۵) اگر آپ کی رقم بینک میں جمع ہے تو اس پر جو سود مل رہا ہے، اس کو خود استعمال کیے بغیر عام رفاہی کاموں میں لگادیں یا ایسے غرباء ومساکین یا یتیم بچوں میں بانٹ دیں جو کمانے سے عاجز ہیں۔

(۶) اگر کوئی شخص ایسے ملک میں ہے، جہاں واقعی سود سے بچنے کی کوئی شکل نہیں ہے، تو اپنی وسعت کے مطابق سودی نظام سے بچیں، ہمیشہ اس سے چھٹکارہ کی فکر رکھیں اور اللہ تعالیٰ سے معافی مانگتے رہیں۔

(۷) سود کے مال سے نہ بچنے والوں سے درخواست ہے کہ سود کھانا بہت بڑا گناہ ہے،اس لیے کم از کم سود کی رقم کو اپنے ذاتی مصارف میں استعمال نہ کریں؛بلکہ اس سے حکومت کی جانب سے عائد کردہ انکم ٹیکس ادا کردیں؛ کیوں کہ بعض مفتیانِ کرام نے سود کی رقم سے انکم ٹیکس ادا کرنے کی اجازت دی ہے۔

(۸) جو حضرات سود کی رقم استعمال کرچکے ہیں وہ پہلی فرصت میں اللہ تعالیٰ سے توبہ کریں اور آئندہ سود کی رقم کا ایک پیسہ بھی نہ کھانے کا عزمِ مصمم کریں اور سود کی مابقیہ رقم کو فلاحی کاموں میں لگادیں۔

(۹) اگر کسی کمپنی میں صرف اور صرف سود پر قرضہ دینے کا کاروبار ہے، کوئی دوسرا کام نہیں ہے تو ایسی کمپنی میں ملازمت کرنا جائز نہیں ہے؛البتہ اگر کسی بینک میں سود پر قرضہ کے علاوہ جائز کام بھی ہوتے ہیں، مثلاً بینک میں رقم جمع کرنا وغیرہ تو ایسے بینک میں ملازمت کرنا حرام نہیں ہے، البتہ بچنا چاہیے۔

(۱۰) اگر کوئی شخص سونے کے پرانے زیورات بیچ کر سونے کے نئے زیورات خریدنا چاہتا ہے، تو اس کو چاہیے کہ دونوں کی الگ الگ قیمت لگواکر اس پر قبضہ کرے اور قبضہ کرائے، نئے سونے کے بدلے پرانے سونے اور فرق کو دینا جائز نہیں ہے؛ کیوں کہ یہ بھی سود کی ایک شکل ہے۔

﴿ایک اہم نکتہ﴾: دنیا کی بڑی بڑی اقتصادی شخصیات کے مطابق موجودہ سودی نظام سے صرف اور صرف سرمایہ کاروں کو ہی فائدہ پہونچتا ہے، نیز اس میں بے شمار خرابیاں ہیں جس کی وجہ سے پوری دنیا ا ب اسلامی نظام کی طرف مائل ہورہی ہے۔

﴿نوٹ﴾: بعض مادہ پرست لوگ سود کے جواز کے لیے دلیل دیتے ہیں کہ قرآن میں وارد سود کی حرمت کا تعلق ذاتی ضرورت کے لیے قرض لینے سے ہے؛ لیکن تجارت کی غرض سے سود پر قرض لیا جاسکتا ہے، اسی طرح بعض مادہ پرست لوگ کہتے ہیں کہ قرآن میں جو سود کی حرمت ہے اس سے مراد سود پر سود ہے؛ لیکن Single سود قرآن کے اس حکم میں داخل نہیں ہے، پہلی بات تو یہ ہے کہ قرآن میں کسی شرط کو ذکر کیے بغیر سود کی حرمت کا اعلان کیا گیا ہے تو قرآن کے اس عموم کو مختص کرنے کے لیے قرآن وحدیث کی واضح دلیل درکار ہے، جو قیامت تک پیش نہیں کی جاسکتی۔ اسی لیے خیر القرون سے آج تک کسی بھی مشہور مفسر نے سود کی حرمت والی آیت کی تفسیر اس طرح نہیں کی، نیز قرآن میں سود کی حرمت کے اعلان کے وقت ذاتی اور تجارتی دونوں غرض سے سود لیا جاتا تھا، اسی طرح ایک مرتبہ کا سود یا سود پر سود دونوں رائج تھے، ۱۴۰۰ سال سے مفسرین ومحدثین وعلماء کرام نے دلائل کے ساتھ اسی بات کو تحریرفرمایا ہے۔ یہ معاملہ ایسا ہی ہے، جیسے کوئی کہے کہ قرآنِ کریم میں شراب پینے کی حرمت اس لیے ہے کہ اُس زمانہ میں شراب گندی جگہوں میں بنائی جاتی تھی، آج صفائی ستھرائی کے ساتھ شراب بنائی جاتی ہے،حسین بوتلوں میں اور خوبصورت ہوٹلوں میں ملتی ہے،لہذا یہ حرام نہیں ہے۔ ایسے دنیا پرست لوگوں کو اللہ تعالیٰ ہدایت عطا فرمائے!

از: مولانا محمد نجیب قاسمی سنبھلی، ریاض

ماہنامہ دارالعلوم ‏، شمارہ 12 ‏، جلد: 97 ‏، صفر 1435 ہجری مطابق دسمبر 2013ء
 

arifkarim

معطل
بجا فرمایا آپ نے ۔۔۔۔ ہونا بھی یہی چاہیئے۔ مگر اس ضمن میں میری ایک گذارش ہے ۔ ( لاحاصل بحث کے قطع نظر ) کہ اللہ نے سورہ بقرہ میں جا بجا سودخور کی مذمت کی ہےمگر سود دینے والا کا کہیں تذکرہ نہیں ہے ۔ بلکہ اس میں سود دینے والے کو مظلوم کہا گیا ہے ۔میرا نقطہ نظرصرف اتنا ہے کہ قرآن کی جو آیت جتنا حکم دے رہی ہے ۔ کم ازکم ہم اس حوالے سے اتنی ہی بات کریں ۔ اس کے بعد کسی ریاست میں سود دینے والے کے لیئے کیا قانون بنانا ہے ۔ وہ ایک الگ بحث ہے ۔ میرا صرف یہی مدعا ہے کہ سود خور کے بارے میں واضع ارشاد ہے ۔( یہاں بھی لوگوں نے خوب کاپی پیسٹ کیا ہے )مگر سود دینے والے کی بارے میں اگر ایسا کوئی ارشادِ باری ہے تو پلیز مجھ لاعلم کو ضرورمطلع کریں ۔ ممنون رہوں گا ۔( غیر ضروری لوگ اس بحث سے دور رہیں ;)) ۔
اصل پابندی تو سود دینے والے پر لگنی چاہئے کہ سود کیساتھ قرض لینے والا تو مجبور ہے۔
 

نور وجدان

لائبریرین
آپ اپنے مندرجہ بالا فتوی ٰ کی توجہہ اور تفصیل بیان کریں ۔ (جہاں آپ نے اپنے تئیں کئی اور شقیں شامل کردیں ہیں ) ۔ اور زیک اور ہم جیسے کم علموں کو برائے مہربانی بتائیں کہ " سود " اصلاً ہوتا کیا ہے ۔ ؟ اور سود کی ہر شکل حرام ہے ( جیسا کہ عنوان ہے ) قرآن و سنت سے ثابت کرسکتے ہیں ۔
آپ کی طرف سے مذید الہامی تبصرے کا انتظار رہے گا ۔
سورۃ الحجرات میں ''غیبت'' کے بارے میں آیات کہ مردار کا گوشت ۔۔۔کو انہوں نے ''سود '' کا بن دیا۔۔۔مجھے اب خود ریفرنس چاہیے غلط بات مت پھیلایا کرے کوئی ۔
 
آخری تدوین:

نور وجدان

لائبریرین
کند ہم جنس با ہم جنس پرواز ۔ ۔ ۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسو ل اللہ ﷺ نے فرما یا کہ سود کے ستر حصے ہیں اس کا سب سےچھوٹا درجہ یہ ہے کہ مرد اپنی ماں سے زنا کر ے۔
سود خوروں کے پیٹ گھروں کی طرح بڑے ہوجائیں گے

کس فقہ کی کتاب سے ہے یہ حدیث؟ بخاری ،ترمذی، نسائی ؟ حوالہ ؟ پھر ساتھ یہ بھی بتائیں ضعیف ہے یا قوی ہے ؟

https://ur.wikipedia.org/wiki/مشکوۃ_المصابیح
کیا یہ حوالہ مستند ہے ؟؟؟


https://ur.wikipedia.org/wiki/صحاح_ستہ


صحاح ستہ کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ ان چھ کتابوں میں جتنی روایات ہیں، سب صحیح ہیں اور نہ یہ نظریہ درست ہے کہ صرف ان ہی کتبِ ستہ کی روایات صحیح ہیں۔ باقی کتب حدیث کی روایات درجہٴ صحت تک نہیں پہنچتی ہیں۔واقعہ یہ ہے کہ نہ صحاح ستہ کی ہر حدیث صحیح ہے اور نہ اُن سے باہر کی ہر حدیث ضعیف ہے حقیقت یہ ہے کہ ان کتابوں کی روایات زیادہ تر صحیح ہیں، اس لیے انہیں صحاح ستہ کہا جاتا ہے۔ شیخ عبدالحق محدث دہلوی فرماتے ہیں: ”کتب ستہ کہ مشہور اند دراسلام گفتہ اند صحیح بخاری وصحیح مسلم وجامع ترمذی وسنن ابی داؤد وسنن نسائی وسنن ابن ماجہ است۔ ودریں کتب آنچہ اقسامِ حدیث است از صحاح وحِسان وضِعاف ہمہ موجود است، وتسمیہ آں بصحاح بطریقِ تغلیب است“ (اشعة اللمعات) ”چھ کتابیں جو کہ اسلام میں مشہور ہیں، محدثین کے مطابق وہ صحیح بخاری، صحیح مسلم، جامع ترمذی، سنن ابی داؤد، سنن نسائی، سنن ابن ماجہ ہیں۔ ان کتابوں میں حدیث کی جتنی قسمیں ہیں صحیح، حسن اور ضعیف، سب موجود ہیں اور ان کو صحاح کہنا تغلیب کے طور پر ہے۔“ محدثین کی ان کتابوں میں ایک طرف دینی معلومات جمع کی گئیں اور دوسری طرف ان میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کے زمانے کے صحیح تاریخی واقعات جمع کیے گئے ہیں۔ اس طرح احادیث کی یہ کتابیں دینی و تاریخی دونوں اعتبار سے قابل بھروسہ ہیں۔


ان 6 مستند حوالوں سے لی گئی احادیث کے بارے میں کیا لکھا ہے کہ سب ضروی نہیں صیحح ہوں اور ضروری نہیں قوی ہوں
 
آخری تدوین:

ظفری

لائبریرین
کس فقہ کی کتاب سے ہے یہ حدیث؟ بخاری ،ترمذی، نسائی ؟ حوالہ ؟ پھر ساتھ یہ بھی بتائیں ضعیف ہے یا قوی ہے ؟
بس آپ پر اب منکرِ حدیث کا فتویٰ صادر ہونے والا ہے ۔ :)

مذاق بر طرف ۔۔۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ یہ کتنی بڑی جسارت ہوگی کہ کوئی بات کسی تحقیق اور تصدیق کےبغیر اللہ اور اس کے رسول سے منسوب کردی جائے ۔ مگر لوگ یہ جسارت کرتے ہیں ۔ اگر آپ حوالہ یا ثبوت مانگیں گے تو پھر آپ پر فتوؤں کی گھٹری انڈیل دی جائے گی ۔ اور منکر ِ حدیث کہلائیں گے ۔اللہ ہم سب کو ایسے لوگوں کے فتنے سے محفوظ رکھے ۔ آمین
 

نور وجدان

لائبریرین
بس آپ پر اب منکرِ حدیث کا فتویٰ صادر ہونے والا ہے ۔ :)

مذاق بر طرف ۔۔۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ یہ کتنی بڑی جسارت ہوگی کہ کوئی بات کسی تحقیق اور تصدیق کےبغیر اللہ اور اس کے رسول سے منسوب کردی جائے ۔ مگر لوگ یہ جسارت کرتے ہیں ۔ اگر آپ حوالہ یا ثبوت مانگیں گے تو پھر آپ پر فتوؤں کی گھٹری انڈیل دی جائے گی ۔ اور منکر ِ حدیث کہلائیں گے ۔اللہ ہم سب کو ایسے لوگوں کے فتنے سے محفوظ رکھے ۔ آمین

میں اتنے لمبے حوالہ جات پڑھتی ہی نہیں ۔۔ایک مستند حوالہ ہی کسی بات کو ٹھیک یا غلط ثابت کرسکتا ہے۔ منکرِ حدیث کہ لیں ! کافر بھی کہیں ! یہ تو سوچ لیں ہم مسلمان اسلامی تعلیمات سے منکر اس لیے ہوگئے ہیں کہ ہم پڑھتے کم اور حکم پہلے لگا دیتے ہیں۔۔۔میں نے اپنے علم میں اضافہ کرنا ہے اس لیے کاظمی صاحب سے پوچھا اور افسوس سے کہنا پڑھ رہا ہے کہ ماشاءاللہ بڑے ہیں مگر بڑا بننا اور بڑا ہونا ۔۔۔۔فرق ہے !
 

حسیب

محفلین
کس فقہ کی کتاب سے ہے یہ حدیث؟ بخاری ،ترمذی، نسائی ؟ حوالہ ؟ پھر ساتھ یہ بھی بتائیں ضعیف ہے یا قوی ہے ؟
(الرِّبَا سَبْعُونَ حُوبًا أَيْسَرُهَا أَنْ يَنْكِحَ الرَّجُلُ أُمَّهُ) رواه ابن ماجه (2274)
وصححه الألباني في صحيح ابن ماجه ، وقال المنذري : إسناده صحيح أو حسن أو ما قاربهما .
سود کے ستر درجات ہیں اور ان میں سے سب سے ہلکا گناہ یا درجہ یہ ہے کہ کوئی شخص اپنی ماں سے نکاح کرے۔
علامہ البانی رحمہ اللہ نے اس روایت کو صحیح کہا ہے اور امام منذری رحمہ اللہ نے کہا ہے کہ اس روایت کی سند صحیح یا حسن یا ان کے قریب ہے۔
 

کاظمی بابا

محفلین
سود –انسانوں کو ہلاک کرنے والا گناہ

مال اللہ تعالیٰ کی نعمتوں میں سے ایک بڑی نعمت ہے، جس کے ذریعہ انسان اللہ تعالیٰ کے حکم سے اپنی دنیاوی ضرورتوں کو پورا کرتا ہے؛ لیکن شریعتِ اسلامیہ نے ہر شخص کو مکلف بنایا ہے کہ وہ صرف جائز وحلال طریقہ سے ہی مال کمائے؛ کیوں کہ کل قیامت کے دن ہر شخص کو مال کے متعلق اللہ رب العزت کو جواب دینا ہوگا کہ کہاں سے کمایا یعنی وسائل کیا تھے اور کہاں خرچ کیا یعنی مال سے متعلق حقوق العباد یا حقوق اللہ میں کوئی کوتاہی تو نہیں کی۔

مال کے نعمت اور ضرورت ہونے کے باوجود، خالقِ کائنات اور تمام نبیوں کے سردار حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مال کو متعدد مرتبہ فتنہ ، دھوکے کا سامان اور محض دنیاوی زینت کی چیز قرار دیا ہے۔اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہم مال ودولت کے حصول کے لیے کوئی کوشش ہی نہ کریں؛ کیوں کہ حلال رزق کا طلب کرنا اور اس سے بچوں کی تربیت کرنا خود دین ہے؛بلکہ مقصد یہ ہے کہ اللہ کے خوف کے ساتھ زندگی گزاریں اور اخروی زندگی کی کامیابی کو ہر حال میں ترجیح دیں۔ کہیں کوئی معاملہ درپیش ہو تو اخروی زندگی کو داوٴ پرلگانے کے بجائے فانی دنیاوی زندگی کے عارضی مقاصد کو نظر انداز کردیں، نیز شک وشبہ والے امور سے بچیں۔

اِن دنوں حصول مال کے لیے ایسی دوڑ شروع ہوگئی ہے کہ اکثر لوگ اس کا بھی اہتمام نہیں کرتے کہ مال حلال وسائل سے آرہا ہے یا حرام وسائل سے؛ بلکہ کچھ لوگوں نے تو اَب حرام وسائل کو مختلف نام دے کر اپنے لیے جائز سمجھنا شروع کردیا ہے ؛ حالانکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تو مشتبہ چیزوں سے بھی بچنے کا حکم دیا ہے؛ اس لیے ہر مسلمان کو چاہیے کہ صرف حلال وسائل پر ہی اکتفاء کرے، جیساکہ حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: حرام مال سے جسم کی بڑھوتری نہ کرو؛ کیوں کہ اس سے بہتر آگ ہے۔ (ترمذی) نیز نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادہے کہ حرام کھانے،پینے اور حرام پہننے والوں کی دعائیں قبول نہیں ہوتی ہیں۔ (مسلم)

ہمارے معاشرہ میں جو بڑے بڑے گناہ عام ہوتے جارہے ہیں، ان میں سے ایک بڑا خطرناک اور انسان کو ہلاک کرنے والا گناہ سود ہے۔

سود کیا ہے؟

وزن کی جانے والی یا کسی پیمانے سے ناپے جانے والی ایک جنس کی چیزیں اور روپے وغیرہ میں دو آدمیوں کا اس طرح معاملہ کرنا کہ ایک کو عوض کچھ زائد دینا پڑتا ہو ربا اور سود کہلاتا ہے جس کو انگریزی میں Interest یا Usuryکہتے ہیں۔ جس وقت قرآنِ کریم نے سود کو حرام قرار دیا اس وقت عربوں میں سودکا لین دین متعارف اور مشہور تھا، اور اُس وقت سود اُسے کہا جاتا تھا کہ کسی شخص کو زیادہ رقم کے مطالبہ کے ساتھ قرض دیا جائے خواہ لینے والا اپنے ذاتی اخراجات کے لیے قرض لے رہا ہو، یا پھر تجارت کی غرض سے، نیز وہ Simple Interestہو یا Compound Interest، یعنی صرف ایک مرتبہ کا سود ہو یا سود پر سود۔ مثلاً زید نے بکر کو ایک ماہ کے لیے ۱۰۰ روپے بطور قرض اس شرط پر دیے کہ وہ ۱۱۰ روپے واپس کرے، تو یہ سودہے؛ البتہ قرض لینے والا اپنی خوشی سے قرض کی واپسی کے وقت اصل رقم سے کچھ زائد رقم دینا چاہے تو یہ جائز ہی نہیں؛ بلکہ ایسا کرنا نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل سے ثابت ہے؛ لیکن پہلے سے زائد رقم کی واپسی کا کوئی معاملہ طے نہ ہوا ہو۔ بینک میں جمع شدہ رقم پر پہلے سے متعین شرح پر بینک جو اضافی رقم دیتا ہے، وہ بھی سود ہے۔

سود کی حرمت

سود کی حرمت قرآن وحدیث سے واضح طور پر ثابت ہے، اللہ تبارک وتعالیٰ نے ارشاد فرمایا: وَاَحَلَّ اللّٰہ ُ الْبَیْعَ وَحَرَّمَ الرِّبٰوا(سورہٴ البقرہ ۲۷۵) اللہ تعالیٰ نے خریدوفروخت کو حلال اور سود کو حرام قرار دیا ہے۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: یَمْحَقُ اللّٰہُ الرِّبَا وَیُرْبِی الصَّدَقَاتِ (سورہٴ البقرہ ۲۷۶) اللہ تعالیٰ سود کو مٹاتا ہے اور صدقات کو بڑھاتا ہے۔ جب سود کی حرمت کاحکم نازل ہوا تو لوگوں کا دوسروں پر جو کچھ بھی سود کا بقایا تھا، اس کو بھی لینے سے منع فرمادیاگیا: وَذَرُوْا مَا بَقِیَ مِنَ الرِّبَا اِنْ کُنْتُمْ مْوٴمِنِیْنَ (سورہٴ البقرہ ۲۷۸) یعنی سود کا بقایا بھی چھوڑدو اگر تم ایمان والے ہو۔

سود لینے اور دینے والوں کے لیے اللہ اور اس کے رسول کا اعلانِ جنگ

سود کو قرآنِ کریم میں اتنا بڑا گناہ قرار دیا گیا ہے کہ شراب نوشی، خنزیر کھانے اور زنا کاری کے لیے قرآن کریم میں وہ لفظ استعمال نہیں کیے گئے جو سود کے لیے اللہ تبارک وتعالیٰ نے استعمال کیے ہیں چنانچہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: یَا اَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا اتَّقُوا اللّٰہَ وَذَرُوْا مَا بَقِیَ مِنَ الرِّبٰوا اِنْ کُنْتُمْ مُوٴمِنِیْنَ۔ فَاِن لَّمْ تَفْعَلُوا فَاْذَنُوا بِحَرْبٍ مِّنَ اللّٰہِ وَرَسُوْلِہِ (سورہٴ البقرہ ۲۷۸ ۔ ۲۷۹) اے ایمان والو! اللہ تعالیٰ سے ڈرو اور جو سود باقی رہ گیا ہے وہ چھوڑدو، اگر تم سچ مچ ایمان والے ہو۔ اور اگر ایسا نہیں کرتے تو تم اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول سے لڑنے کے لیے تیار ہوجاوٴ! سود کھانے والوں کے لیے اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے اعلانِ جنگ ہے اور یہ ایسی سخت وعید ہے جو کسی اور بڑے گناہ، مثلاً زنا کرنے، شراب پینے کے ارتکاب پر نہیں دی گئی۔ مشہور صحابیِ رسول حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ جو شخص سود چھوڑنے پر تیار نہ ہو تو خلیفہٴ وقت کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس سے توبہ کرائے اور باز نہ آنے کی صورت میں اس کی گردن اڑادے۔ (تفسیر ابن کثیر)

سود کھانے والوں کے لیے قیامت کے دن کی رسوائی وذلّت

اللہ تبارک وتعالیٰ نے سود کھانے والوں کے لیے کل قیامت کے دن جو رسوائی وذلت رکھی ہے اس کو اللہ تعالیٰ نے اپنے پاک کلام میں کچھ اس طرح فرمایا: اَلَّذِیْنَ یَاْکُلُونَ الرِّبٰوا لَا یَقُوْمُونَ اِلَّا کَمَا یَقُومُ الَّذِیْ یَتَخَبَّطُہُ الشَّیْطَانُ مِنَ الْمَسِّ (سورہٴ البقرہ ۲۷۵) جولوگ سود کھاتے ہیں وہ (قیامت میں) اٹھیں گے تو اس شخص کی طرح اٹھیں گے جسے شیطان نے چھوکر پاگل بنادیا ہو۔ سود کی بعض شکلوں کو جائز قرار دینے والوں کے لیے فرمانِ الٰہی ہے: ذَلِکَ بِاَنَّہُمْ قَالُوا اِنَّمَا الْبَیْعُ مِثْلُ الرِّبٰوا (سورہٴ البقرہ ۲۷۵) یہ ذلت آمیز عذاب اس لیے ہوگا کہ انھوں نے کہا تھا کہ بیع بھی تو سود کی طرح ہوتی ہے؛ حالانکہ اللہ تعالیٰ نے بیع یعنی خرید وفروخت کو حلال کیا ہے اور سود کو حرام قرار دیا ہے۔

سودکھانے سے توبہ نہ کرنے والے لوگ جہنم میں جائیں گے

فَمَنْ جَآئَہُ مَوْعِظَةٌ مِّن رَّبِّہِ فَانْتَہیٰ فَلَہ مَاسَلَفَ، وَاَمْرُہٓ اِلَی اللّٰہِ، وَمَنْ عَادَ فَاُولٓئِکَ اَصْحَابُ النَّارِ، ہُمْ فِیْہَا خَالِدُونَ (سورہٴ البقرہ ۲۷۵) لہٰذا جس شخص کے پاس اس کے پروردگار کی طرف سے نصیحت آگئی اور وہ (سودی معاملات سے) باز آگیا تو ماضی میں جو کچھ ہوا وہ اسی کا ہے اور اس کی (باطنی کیفیت) کا معاملہ اللہ تعالیٰ کے حوالہ ہے۔ اور جس شخص نے لوٹ کر پھر وہی کام کیاتو ایسے لوگ دوزخی ہیں، وہ ہمیشہ اس میں رہیں گے۔

غرضیکہ سورہٴ بقرہ کی ان آیات میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے انسان کو ہلاک کرنے والے گناہ سے سخت الفاظ کے ساتھ بچنے کی تعلیم دی ہے اور فرمایاکہ سود لینے اور دینے والے اگر توبہ نہیں کرتے ہیں تو وہ اللہ اور اس کے رسول سے لڑنے کے لیے تیار ہوجائیں، نیز فرمایا کہ سود لینے اور دینے والوں کو کل قیامت کے دن ذلیل ورسوا کیا جائے گا اور وہ جہنم میں ڈالے جائیں گے۔۔۔ نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی سود سے بچنے کی بہت تاکید فرمائی ہے اور سود لینے اور دینے والوں کے لیے سخت وعیدیں سنائی ہیں جن میں سے بعض احادیث ذیل میں ذکرکی جارہی ہیں:

سود کے متعلق نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات

حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حجة الوداع کے موقع پر سود کی حرمت کا اعلان فرماتے ہوئے ارشاد فرمایا: (آج کے دن) جاہلیت کا سود چھوڑ دیا گیا، اور سب سے پہلا سود جو میں چھوڑتا ہوں وہ ہمارے چچا حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا سود ہے۔ وہ سب کا سب ختم کردیا گیا ہے؛ چونکہ حضرت عباس رضی اللہ عنہ سود کی حرمت سے قبل لوگوں کو سود پر قرض دیا کرتے تھے؛ اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ آج کے دن میں اُن کا سودجو دوسرے لوگوں کے ذمہ ہے وہ ختم کرتا ہوں۔ (صحیح مسلم ، باب حجة النبی )

حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: سات ہلاک کرنے والے گناہوں سے بچو۔ صحابہٴ کرام نے عرض کیا: یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! وہ سات بڑے گناہ کونسے ہیں (جو انسانوں کو ہلاک کرنے والے ہیں)؟ حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرما: (۱)شرک کرنا، (۲) جادو کرنا، (۳)کسی شخص کو ناحق قتل کرنا، (۴)سود کھانا، (۵)یتیم کے مال کو ہڑپنا، (۶)(کفار کے ساتھ جنگ کی صورت میں) میدان سے بھاگنا، (۷)پاک دامن عورتوں پر تہمت لگانا۔ (بخاری ومسلم)

حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سود لینے اور دینے والے، سودی حساب لکھنے والے اور سودی شہادت دینے والے سب پر لعنت فرمائی ہے۔ سود لینے اور دینے والے پر حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی لعنت کے الفاظ حدیث کی ہر مشہور ومعروف کتاب میں موجود ہیں۔ (مسلم، ترمذی، ابوداود، نسائی)

حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: چار شخص ایسے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے لیے لازم کرلیا ہے کہ ان کو جنت میں داخل نہیں کریں گے اور نہ ان کو جنت کی نعمتوں کا ذائقہ چکھائیں گے۔ پہلا شراب کا عادی، دوسرا سود کھانے والا، تیسرا ناحق یتیم کا مال اڑانے والا، چوتھا ماں باپ کی نافرمانی کرنے والا (کتاب الکبائر للذہبی)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: سود کے ۷۰ سے زیادہ درجے ہیں اور ادنی درجہ ایسا ہے جیسے اپنی ماں سے زناکرے۔(رواہ حاکم، البیہقی، طبرانی، مالک)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ایک درہم سود کا کھانا چھتیس مرتبہ زنا کرنے سے زیادہ ہے۔ (رواہ احمد والطبرانی فی الکبیر)

بینک سے قرض (Loan) بھی عین سود ہے

تمام مکاتبِ فکر کے علماء اس بات پر متفق ہیں کہ عصر حاضر میں بینک سے قرض لینے کا رائج طریقہ اور جمع شدہ رقم پر Interest کی رقم حاصل کرنا یہ سب وہی سود ہے جس کو قرآن کریم میں سورہٴ بقرہ کی آیات میں منع کیا گیا ہے، جس کے ترک نہ کرنے والوں کے لیے اللہ اور اس کے رسول کا اعلانِ جنگ ہے اور توبہ نہ کرنے والوں کے لیے قیامت کے دن رسوائی وذلت ہے اور جہنم ان کا ٹھکانا ہے۔ عصرِ حاضر کی پوری دنیا کے علماء پر مشتمل اہم تنظیم مجمع الفقہ الاسلامی کی اس موضوع پر متعدد میٹنگیں ہوچکی ہیں؛ مگر ہر میٹنگ میں اس کے حرام ہونے کا ہی فیصلہ ہوا ہے۔ برصغیر کے جمہور علماء بھی اس کے حرام ہونے پر متفق ہیں۔ فقہ اکیڈمی، نیودہلی کی متعدد کانفرنسوں میں اس کے حرام ہونے کا ہی فیصلہ ہوا ہے۔ مصری علماء جو عموماً آزاد خیال سمجھے جاتے ہیں وہ بھی بینک سے موجودہ رائج نظام کے تحت قرض لینے اور جمع شدہ رقم پر Interestکی رقم کے عدمِ جواز پر متفق ہیں۔ پوری دنیا میں کسی بھی مکتبِ فکر کے دارالافتاء نے بینک سے قرض لینے کے رائج طریقہ اور جمع شدہ رقم پر Interest کی رقم کو ذاتی استعمال میں لینے کے جواز کا فتویٰ نہیں دیا ہے۔

عصرِ حاضر میں ہم کیا کریں؟

(۱) اگر کوئی شخص بینک سے قرض لینے یا جمع شدہ رقم پر سود کے جائز ہونے کو کہے تو پوری دنیا کے علماء کے موقف کو سامنے رکھ کراس سے بچیں۔

(۲) اس بات کو اچھی طرح ذہن میں رکھیں کہ علمائے کرام نے قرآن وحدیث کی روشنی میں بینک سے قرض لینے اور بینک میں جمع شدہ رقم پر Interest کی رقم کے حرام ہونے کا فیصلہ آپ سے دشمنی نکالنے کے لیے نہیں؛ بلکہ آپ کے حق میں کیا ہے؛ کیوں کہ قرآن وحدیث میں سود کو بہت بڑا گناہ قرار دیا گیا ہے، شراب نوشی، خنزیر کھانے اور زنا کاری کے لیے قرآنِ کریم میں وہ الفاظ استعمال نہیں کیے گئے جو سود کے لیے اللہ تبارک وتعالیٰ نے استعمال کیے ہیں ۔

(۳) جس نبی کے امتی ہونے پر ہم فخر کرتے ہیں، اس نے سود لینے اور دینے والوں پر لعنت فرمائی ہے، نیز شک وشبہ والی چیزوں سے بھی بچنے کی تعلیم دی ہے ۔

(۴) بینک سے قرضہ لینے سے بالکل بچیں، دنیاوی ضرورتوں کو بینک سے قرضہ لیے بغیر پورا کریں، کچھ دشواریاں، پریشانیاں آئیں تو اس پر صبر کریں۔

(۵) اگر آپ کی رقم بینک میں جمع ہے تو اس پر جو سود مل رہا ہے، اس کو خود استعمال کیے بغیر عام رفاہی کاموں میں لگادیں یا ایسے غرباء ومساکین یا یتیم بچوں میں بانٹ دیں جو کمانے سے عاجز ہیں۔

(۶) اگر کوئی شخص ایسے ملک میں ہے، جہاں واقعی سود سے بچنے کی کوئی شکل نہیں ہے، تو اپنی وسعت کے مطابق سودی نظام سے بچیں، ہمیشہ اس سے چھٹکارہ کی فکر رکھیں اور اللہ تعالیٰ سے معافی مانگتے رہیں۔

(۷) سود کے مال سے نہ بچنے والوں سے درخواست ہے کہ سود کھانا بہت بڑا گناہ ہے،اس لیے کم از کم سود کی رقم کو اپنے ذاتی مصارف میں استعمال نہ کریں؛بلکہ اس سے حکومت کی جانب سے عائد کردہ انکم ٹیکس ادا کردیں؛ کیوں کہ بعض مفتیانِ کرام نے سود کی رقم سے انکم ٹیکس ادا کرنے کی اجازت دی ہے۔

(۸) جو حضرات سود کی رقم استعمال کرچکے ہیں وہ پہلی فرصت میں اللہ تعالیٰ سے توبہ کریں اور آئندہ سود کی رقم کا ایک پیسہ بھی نہ کھانے کا عزمِ مصمم کریں اور سود کی مابقیہ رقم کو فلاحی کاموں میں لگادیں۔

(۹) اگر کسی کمپنی میں صرف اور صرف سود پر قرضہ دینے کا کاروبار ہے، کوئی دوسرا کام نہیں ہے تو ایسی کمپنی میں ملازمت کرنا جائز نہیں ہے؛البتہ اگر کسی بینک میں سود پر قرضہ کے علاوہ جائز کام بھی ہوتے ہیں، مثلاً بینک میں رقم جمع کرنا وغیرہ تو ایسے بینک میں ملازمت کرنا حرام نہیں ہے، البتہ بچنا چاہیے۔

(۱۰) اگر کوئی شخص سونے کے پرانے زیورات بیچ کر سونے کے نئے زیورات خریدنا چاہتا ہے، تو اس کو چاہیے کہ دونوں کی الگ الگ قیمت لگواکر اس پر قبضہ کرے اور قبضہ کرائے، نئے سونے کے بدلے پرانے سونے اور فرق کو دینا جائز نہیں ہے؛ کیوں کہ یہ بھی سود کی ایک شکل ہے۔

﴿ایک اہم نکتہ﴾: دنیا کی بڑی بڑی اقتصادی شخصیات کے مطابق موجودہ سودی نظام سے صرف اور صرف سرمایہ کاروں کو ہی فائدہ پہونچتا ہے، نیز اس میں بے شمار خرابیاں ہیں جس کی وجہ سے پوری دنیا ا ب اسلامی نظام کی طرف مائل ہورہی ہے۔

﴿نوٹ﴾: بعض مادہ پرست لوگ سود کے جواز کے لیے دلیل دیتے ہیں کہ قرآن میں وارد سود کی حرمت کا تعلق ذاتی ضرورت کے لیے قرض لینے سے ہے؛ لیکن تجارت کی غرض سے سود پر قرض لیا جاسکتا ہے، اسی طرح بعض مادہ پرست لوگ کہتے ہیں کہ قرآن میں جو سود کی حرمت ہے اس سے مراد سود پر سود ہے؛ لیکن Single سود قرآن کے اس حکم میں داخل نہیں ہے، پہلی بات تو یہ ہے کہ قرآن میں کسی شرط کو ذکر کیے بغیر سود کی حرمت کا اعلان کیا گیا ہے تو قرآن کے اس عموم کو مختص کرنے کے لیے قرآن وحدیث کی واضح دلیل درکار ہے، جو قیامت تک پیش نہیں کی جاسکتی۔ اسی لیے خیر القرون سے آج تک کسی بھی مشہور مفسر نے سود کی حرمت والی آیت کی تفسیر اس طرح نہیں کی، نیز قرآن میں سود کی حرمت کے اعلان کے وقت ذاتی اور تجارتی دونوں غرض سے سود لیا جاتا تھا، اسی طرح ایک مرتبہ کا سود یا سود پر سود دونوں رائج تھے، ۱۴۰۰ سال سے مفسرین ومحدثین وعلماء کرام نے دلائل کے ساتھ اسی بات کو تحریرفرمایا ہے۔ یہ معاملہ ایسا ہی ہے، جیسے کوئی کہے کہ قرآنِ کریم میں شراب پینے کی حرمت اس لیے ہے کہ اُس زمانہ میں شراب گندی جگہوں میں بنائی جاتی تھی، آج صفائی ستھرائی کے ساتھ شراب بنائی جاتی ہے،حسین بوتلوں میں اور خوبصورت ہوٹلوں میں ملتی ہے،لہذا یہ حرام نہیں ہے۔ ایسے دنیا پرست لوگوں کو اللہ تعالیٰ ہدایت عطا فرمائے!

از: مولانا محمد نجیب قاسمی سنبھلی، ریاض

ماہنامہ دارالعلوم ‏، شمارہ 12 ‏، جلد: 97 ‏، صفر 1435 ہجری مطابق دسمبر 2013ء

جزاک اللہ۔
 
• اوپر جو میں نے کچھ آیات اور احادیث کا ترجمہ پیش کیا تھا وہ میرے ایک زیر ترتیب مضمون کا حصہ تھا اسے میں نے کہیں سے کاپی پیسٹ نہیں کیا بلکہ ورق گردانی کے بعد اصل کتب کی طرف رجوع کرکے لکھا ہے۔
•چوں کہ ان پیج تھری سے یہ حصہ اٹھایا تھا اور اس میں حوالے بطور فٹ نوٹ سیٹ ہوتے ہیں اس لیے نہ آسکے تھے. اب پورا حصہ حوالوں کے ساتھ پیش ہے۔


سود خور قیامت کے دن آسیب زدہ کی طرح کھڑا ہوگا
(۱)وہ جو سود کھاتےہیں وہ قیامت کے دن اس شخص کی طرح کھڑے ہوں گے جسے آسیب نے چھوٗکر مخبوط بنا دیا ہو۔ یہ اس لیے کہ انہوں نے کہا کہ بیع بھی تو سود کی مانند ہے اور اللہ نے بیع کو حلال کیا اور سود کو حرام کیا، تو جس کے پاس اللہ کی طرف سے نصیحت آئی اور وہ باز رہا تو اسے وہ حلال ہے جو وہ پہلے لے چکا اور اس کا کام خدا کے سپرد ہے اور جو اب ایسی حرکت کرے گا تو وہ دوزخی ہےاور وہ اس میں مدتوں رہیں گے۔ (البقرہ: ۲۷۵)
سود کو اللہ تعالیٰ مٹاتا ہے
(۲) اللہ تعالیٰ سود کو مٹاتا ہے اور خیرات کو بڑھاتا ہے اور اللہ کو کوئی ناشکرا اوربڑا گنہ گار پسند نہیں آتا۔ (البقرہ : ۲۷۶)
سود سے بچنے میں کامیابی ہے
(۳) اے ایمان والو! بڑھا چڑھاکر سود نہ کھاؤ اور اللہ سے ڈرو اس امید پر کہ تمہیں فلاح ملے۔ (آل عمران : ۱۳۰)
سود خور کو خون کی نہر میں عذاب د یا جائے گا
(۱) حضرت سمرہ بن جندب ؄سے مروی کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ آج رات میں نے دیکھا کہ میرے پاس دو شخص آئے اور مجھے سرزمین مقدس لے کر گئے پھر ہم چلے یہاں تک کہ ایک خون کی نہر کے پاس پہنچے، اس میں ایک شخص کھڑا ہوا تھا اور شخص نہر کے کنارے کھڑا تھا ، اس کے سامنے پتھر پڑے ہوئے تھے۔ نہر میں کھڑا شخص آگے بڑھا اور اس نے نکلنے کا ارادہ کیا تبھی دوسرے شخص نے اس منھ پر پتھر مار کر اسے وہیں پہنچا دیا جہاں وہ تھا، یہ جب جب نکلنے کا ارادہ کرتا وہ شخص اس کے منھ پر پتھر مار کر وہیں پہنچا دیتا، میں نے پوچھا: یہ کون ہے؟ کہا : یہ شخص جو نہر میں ہے سود خور ہے۔ (صحیح بخاری ، ج ۱، ص ۱۷۹)
سودیوں پر اللہ کے رسول ﷺ کی لعنت ہے
(۴) رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرما یا سود کھا نے والے،اور کھلا نےوالے، اسے لکھنے والے اور اسکے گواہوں پر لعنت فر مائی اور فرمایا وہ سب گنہ میں برابر ہیں۔
(مشکوٰۃ المصابیح ،ص ۲۴۴)
سود کی وجہ سے پوری بستی ہلاک کردی جاتی ہے
(۵) حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی وہ اپنے والد محترم سے راوی ہے کہ جب کسی بستی میں زنا ہوسود پھیل جاتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس بستی کو ہلا ک کر نے کی اجازت دے دیتا ۔ (کتاب الکبائر للذہبی ، ص ۶۲)
سود کا ایک درہم جان بوجھ کرکھانا ۳۶ بار زنا کرنےسے زیادہ برا ہے
(۶)حضرت عبداللہ ابن حنظلہ غسیل الملائکہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ سود کا ایک درہم بھی کوئی جان بوجھ کر کھائے تو یہ چھتس مرتبہ زنا کرنے سے زیادہ برتر ہے۔ (مشکوٰۃ المصابیح ،ص ۲۴۵)
سود کےگناہ کا سب سے چھوٹا درجہ اپنی ماں سے زنا کرنے کے برابر ہے
(۷) حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرما یا کہ سود کے ستر حصے ہیں اس کا سب سےچھوٹا درجہ یہ ہے کہ مرد اپنی ماں سے زنا کر ے۔
(مشکوٰۃ المصابیح ،ص۲۴۶)
سود خوروں کے پیٹ گھروں کی طرح بڑے ہوجائیں گے
(۸) حضر ت ابو ہریرہر ہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں معراج کی رات ایسے لوگوں کے پا س سے گزرا کہ جن کے پیٹ گھروں کی طرح تھے ان میں سانپ تھے جو باہر سے دکھائی دیتے تھے میں نے کہا اے جبرائیل یہ کون لوگ ہیںانہوں نے عرض کیا کہ یہ سود خور ہیں۔ (مشکوٰۃ المصابیح ،ص۲۴۶)
سود خور پاگل ہوکر اٹھے گا
(۹) حضرت قتادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ بیشک سود خور قیامت کے دن پاگل اٹھایا جائے گا۔ (کتاب الکبائر للذہبی ، ص ۶۱)
قربِ قیامت سود سے بچنا بہت مشکل ہوگا
(۱۰) حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرما یا کہ لوگوں پر ایک ایسا زمانہ ائے گا کہ سود کھانے سے کوئی بچ نہ سکے گااگر وہ سود نہ کھائے گا و ہ اس کےاثرو غبار سے نہ بچ سکے گا۔ (مشکوٰۃ المصابیح ،ص ۲۴۵)
 
آخری تدوین:
Top