سورہ رحمن تھراپی

نور وجدان

لائبریرین
یہ اک دعا ہے
اس میں لکھا تھا اسکی شرط یہ ہے سب کو معاف کریں اور اللہ کے حضور پیش کے ہو کے اپنے تمام گناہوں کے معافی مانگیں .... اس کے بعد اس سے رحم مانگتے جو کہنا کہیے. اللہ اتنا رحیم ہے وہ بندے کو نہیں چھوڑتا. سورہ رحمن سننے کا مقصد اس طرز معافی کے بعد رحمن سے جڑنا ہے یعنی اللہ سے جڑنا ہے.

سب کو معاف کرنا آسان ہوتا ہے؟
خود کو سمجھانا کہ آپ نے بھی کسی کا حق مارا ہے؟


جب ان اسٹیپس کو عبور کرتے سورہ رحمن سنی جاتی ہے مریض کا تعلق اللہ سے بنتا ہے اسکو نئی توانائی محسوس ہوتی ہے یہ توانائی ذہنی سکون دیتی ہے

یہ بات ثابت شدہ ہے کہ بیماری سوچ میں ہوتی ہے. ہماری نیگٹو سوچ یا کسی دوسرے کی ہمیں متاثر کرتی ہے. سو ہم جب سوچوں کو اس توانائی سے درست کرنے لگتے ہیں تو ہم میں بہتری آجاتی ہے.



قران کریم عمل کے لیے ہے. جب تک علم عمل میں ڈھلتا نہیں قران کریم پڑھنے کا بس ثواب مل جاتا ہے

یہ طریقہ ء علاج دراصل انسان کو عمل کی ترغیب دیتا ہے عمل یعنی عفو و کرم کی

اس عفو کرم کی بدولت جب ہم سورہ رحمن سننے لگتے ہیں تو یہی سننا انرجی دیتا ہے ...


جن جن کو افاقہ نہ ہو اسکی دو وجوہات ہو سکتی ہیں
اک تو یہ کہ قضا نے ان کا علاج اس طریق لکھا نہیں، ہو سکتا ہے وہ پہلے سے اس قدر پازیٹو سوچ رکھنے والے انسان ہوں ...اللہ کی مرضی

دوسرا یہ کہ وہ اس طریقے کو اپنا نہ پائے ہوں جیسا میں نے لکھا



اس سے اسی فیصد مریض صحت یاب ہو چکے ہیں میرے علم میں کچھ افراد آئے ہیں جو صحت یاب نہیں ہوئے ہیں ... یہ ان لوگوں کے لیے ہے جو گولیاں کھا کھا تنگ ہیں کسی طرح ڈپریشن کا علاج ہو یا کسی اور بیماری کا.
 

نور وجدان

لائبریرین
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدٍ القَارِيُّ، عَنْ أَبِي حَازِمٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي سَهْلٌ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، يَعْنِي ابْنَ سَعْدٍ، قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ خَيْبَرَ: «لَأُعْطِيَنَّ الرَّايَةَ غَدًا رَجُلًا يُفْتَحُ عَلَى يَدَيْهِ، يُحِبُّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ، وَيُحِبُّهُ اللَّهُ وَرَسُولُهُ»، فَبَاتَ النَّاسُ لَيْلَتَهُمْ أَيُّهُمْ يُعْطَى، فَغَدَوْا كُلُّهُمْ يَرْجُوهُ، فَقَالَ: «أَيْنَ عَلِيٌّ؟»، فَقِيلَ يَشْتَكِي عَيْنَيْهِ، فَبَصَقَ فِي عَيْنَيْهِ وَدَعَا لَهُ، فَبَرَأَ كَأَنْ لَمْ يَكُنْ بِهِ وَجَعٌ، فَأَعْطَاهُ فَقَالَ: أُقَاتِلُهُمْ حَتَّى يَكُونُوا مِثْلَنَا؟ فَقَالَ: «انْفُذْ عَلَى رِسْلِكَ حَتَّى تَنْزِلَ بِسَاحَتِهِمْ، ثُمَّ ادْعُهُمْ إِلَى الإِسْلاَمِ، وَأَخْبِرْهُمْ بِمَا يَجِبُ عَلَيْهِمْ، فَوَاللَّهِ لَأَنْ يَهْدِيَ اللَّهُ بِكَ رَجُلًا خَيْرٌ لَكَ مِنْ أَنْ يَكُونَ لَكَ حُمْرُ النَّعَمِ»

ترجمہ:
ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا‘ کہا ہم سے یعقوب بن عبدالرحمٰن بن محمد بن عبداللہ بن عبدالقاری نے بیان کیا ‘ ان سے ابو حازم مسلمہ ابن دینار نے بیان کیا‘ انہیں سہل بن سعد انصاری رضی اللہ عنہ نے خبر دی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خیبر کی لڑائی کے دن فرمایا‘ کل میں ایسے شخص کے ہاتھ میں اسلامی جھنڈادوں گا جس کے ہاتھ پر اسلامی فتح حاصل ہوگی‘ جو اللہ اور اس کے رسول سے محبت رکھتا ہے اور جس سے اللہ اوراس کا رسول بھی محبت رکھتے ہیں ۔ رات بھر سب صحابہ کے ذہن میں یہی خیال رہا کہ دیکھئے کہ کسے جھنڈا ملتا ہے ۔ جب صبح ہوئی تو ہر شخص امیدوار تھا‘ لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا کہ علی کہاں ہیں ؟ عرض کیا گیا کہ ان کی آنکھوں میں درد ہو گیا ہے ۔ آنحضرت نے اپنا مبارک تھوک ان کی آنکھوں میں لگادیا ۔ اور اس سے انہیں صحت ہو گئی‘ کسی قسم کی بھی تکلیف باقی نہ رہی ۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں کو جھنڈا عطا فرمایا ۔ علی رضی اللہ عنہ نے کہا کہ کیا میں ان لوگوں سے اس وقت تک نہ لڑوں جب تک یہ ہمارے ہی جیسے یعنی مسلمان نہ ہو جائیں ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں ہدایت فرمائی کہ یوں ہی چلا جا ۔ جب ان کی سرحد میں اترے تو انہیں اسلام کی دعوت دینا اور انہیں بتانا کہ ( اسلام کے ناطے ) ان پر کون کون سے کام ضروری ہیں ۔ خدا کی قسم ! اگر تمہارے ذریعہ اللہ ایک شخص کو بھی مسلمان کر دے تو یہ تمہارے لئے سرخ اونٹوں سے بہتر ہے ۔

تشریح:
: آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو ہدایت فرمائی کہ وہ لڑائی سے قبل دشمنوں کو اسلام کی تبلیغ کریں‘ ان کو راہ ہدایت پیش کریں اور جہاں تک ممکن ہو لڑائی کی نوبت نہ آنے دیں۔ لڑائی مدافعت کے لئے آخری تدبیر ہے۔ بغیر لڑائی ہی اگر کوئی دشمن صلح جو ہو جائے یا اسلام ہی قبول کرلے تو یہ نیکی عند اللہ بہت ہی زیادہ قیمت رکھتی ہے۔ اس حدیث سے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی فضیلت بھی ثابت ہوئی کہ اللہ نے جنگ خیبر کی فتح ان کے ہاتھ پر مقدر رکھی تھی۔

ترجمہ باب حدیث کے الفاظ خیر لک من ان یکون لک حمر النعم سے نکلتا ہے۔ سبحان اللہ! کسی شخص کو راہ پر لانا اور کفر سے ایمان پر لگا دینا کتنا بڑا اجر رکھتا ہے۔ مسلمانوں کو چاہئے کہ وعظ اور تعلیم اور تلقین میں کوشش بلیغ کرتے رہیں۔ کیونکہ یہ پیغمبروں کی میراث ہے اور چپ ہو کر بیٹھ رہنا اور زبان اور قلم کو روک لینا عالموں کے لئے غضب کی بات ہے۔ ہمارے زمانہ کے مولوی اور مشائخ جو گھروں میں آرام سے بیٹھ کر چرب لقموں پر ہاتھ مارتے ہیں اور خلاف شرع کام دیکھ کر سکوت کرتے ہیں اور جاہلوں کو نصیحت نہیں کرتے‘ امراء اور دنیا داروں کی خوشامد میں غرق ہیں۔ یہ پیغمبر علیہ السلام کے سامنے قیامت کے دن کیا جواب دیں گے۔ اللہ تعالیٰ نے جو علم و فضل کی دولت عطا فرمائی اس کا شکریہ یہی ہے کہ وعظ و نصیحت میں سرگرم رہیں اور تعلیم و تلقین کو اپنا وظیفہ بنا لیں۔ دیہات کے مسلمانوں کو جو دینی مسائل اور اعتقادات سے ناواقف ہیں‘ ان کو واقف کرائیں اور ہر جگہ دعوت اسلام پہنچائیں۔ افسوس ہے کہ نصاریٰ تو اپنا باطل خیال یعنی تثلیث پھیلانے کے لئے ہر گاؤں ہر بستی اور راستے اور مجمع میں وعظ کہتے پھریں اور مسلمان سچے اعتقاد یعنی توحید پر ہو کر زبان بند رکھیں اور سچا دین پھیلانے میں کوئی کوشش نہ کریں۔ اگر سچے دین کے پھیلانے میں کوئی مصیبت پیش آئے تو اس کو عین سعادت اور برکت اور کامیابی سمجھنا چاہئے۔ دیکھو ہمارے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم نے دعوت اسلام میں کیا کیا تکلیفیں اٹھائیں۔ زخمی ہوئے سر پھوٹے‘ دانت ٹوٹا‘ گالیاں کھائیں‘ یا اللہ! تیری راہ میں اگر ہم کو گالیاں پڑیں تو وہ عمدہ اور شیریں لقموں سے زیادہ ہم کو لذیذ ہیں۔ اور تیرا سچا دین پھیلانے میں اگر ہم مارے جائیں یا پیٹے جائیں تو وہ ان دنیا دار بادشاہوں کی خلعت اور سرفرازی سے کہیں بڑھ کر ہے۔ یا اللہ! مسلمانوں کی آنکھ کھول دے کہ وہ بھی اپنے پیارے پیغمبر کا دین پھیلانے میں ہمہ تن کوشش شروع کریں‘ گاؤں گاؤں وعظ کہتے پھریں۔ دین کی کتابیں اور رسالے چھپوا چھپوا کر مفت تقسیم کریں‘ آمین یا رب العالمین۔ (وحیدی)

الحمد للہ اس تبلیغی دورہ بھوج کچھ میں جو حال ہی میں یہاں کے ۲۵ دیہات میں کیا گیا‘ بخاری شریف مترجم اردو کے تین سو سے زائد پارے اور نماز کی کتابیں دو سو اور کئی متفرق تبلیغی رسائل دو سو سے بھی زائد تعداد میں بطور تحائف و تبلیغ تقسیم کئے گئے۔ اللہ پاک قبول فرمائے۔ اور جملہ حصہ لینے والے حضرات کو اس کی بہتر سے بہتر جزائیں عطا کرے۔ کتابی تبلیغ آج کے دور میں ایک ٹھوس تبلیغ ہے جس کے نتائج بہت دور رس ہوسکتے ہیں وباللہ التوفیق۔

صحیح بخاری حدیث نمبر: 3009

کتاب: جہاد کا بیان

باب : اس شخص کی فضیلت جس کے ہاتھ پر کوئی شخص اسلام لائے

صحیح بخاری - حدیث 3009

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا حضرت علی رضی اللہ عنہ کی آنکھوں پر لعابِ دہن لگانے کا سورۃ رحمٰن کی تلاوت سے کیا تعلق بنتا ہے؟
اوپر کسی نے حدیث کوٹ کی تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس طریق ترغیب نہ دی ہے ... اس لیے لکھ دیا

قران پاک شفا ہے اور شفا منجانب اللہ ہے

قران پاک پڑھنا خلوص سے
دعا مانگنا خلوص سے

خلوص سے پہلے معافی مانگنا
اپنے گناہوں کی
حق مارنے کی
دوسروں کو معاف کرنا
پاک صاف دل اللہ کے حضور پیش کرنا اور گڑ گڑا کر دعا مانگنا

اللہ اتنا رحیم ہے صحت دے دیتا ہے
دعا کی تاثیر پر سب کو یقین ہے. سب کہتے ہیں دعا سے بگڑے کام بدل جاتے ہیں
یہ طریقہ فقط دعا ہے جس سے بگڑے کام سنور جاتے ہیں
دعا کرنی ہے بس
دعا کے بعد سورہ رحمن سننا یعنی رحمن والے سے دعا مانگنی. رحمن کون اللہ؟
میرا خیال ہے سورہ رحمن سننا دعا میں کچھ برا نہیں ہے
کیونکہ جس سے دعا کر رہے اور رحمن یعنی اس سے شدید رحم مانگنے کے لیے سورہ رحمن سن ریے
تو وہ بھی شدید رحم کرتا ہے
 

نور وجدان

لائبریرین
تلاوت کرنا الگ ہے
کسی عاشق کی آواز میں سننا الگ بات ہے
اللہ نے تو اپنے حبیب کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تلاوت کے ذریعے سکھایا قران پاک
سنقرئک فلا تنسی

تلاوت سننا الگ عمل ہے
تلاوت کرنا الگ عمل ہے


تلاوت سننے کو کہا گیا سورہ رحمن کی
 

سیما علی

لائبریرین
خیبر کی فتح سے پہلے حضرت علی رضی تعالی عنہ کا آشوب چشم کیسے دور ہوا؟
اسطرز کے واقعات بیشمار ملیں گے
پھر بھی بحث کہیں نہیں ہے
سب کے لیے پیار ہے
سب کے لیے محبت ہے
جیتی رہیے اور پیا ر بانٹتی رہیے اللّہ ہمیشہ آپ کو آسانیاں بانٹنے والا بنائے آمین بہت ساری دعائیں اور ڈھیر سارا پیار
 

فہد مقصود

محفلین
یہ بات ثابت شدہ ہے کہ بیماری سوچ میں ہوتی ہے. ہماری نیگٹو سوچ یا کسی دوسرے کی ہمیں متاثر کرتی ہے. سو ہم جب سوچوں کو اس توانائی سے درست کرنے لگتے ہیں تو ہم میں بہتری آجاتی ہے.

آپکا یہ دعویٰ درست نہیں ہے۔ بیماری میں تو انبیاء اکرام علیہم السلام، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سب ہی کبھی نہ کبھی مبتلا ہوئے ہیں تو خدانخواستہ کیا ان میں سے کسی کی منفی سوچیں تھیں؟ بیماری اللہ کا امتحان اور آزمائش ہوتی ہے۔

اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
{وَنَبْلُوْکُمْ بِالشَّرِّ وَالْخَیْرِ فِتْنَۃً o} [الانبیاء:۳۵]
'' اور ہم بطریق امتحان تم میں سے ہر ایک کو برائی بھلائی میں مبتلا کرتے ہیں۔ ''

{أَحَسِبَ النَّاسُ أَنْ یُّتْرَکُوْٓا أَنْ یَّقُوْلُوْٓا اٰمَنَّا وَھُمْ لَا یُفْتَنُوْنَ o وَلَقَدْ فَتَنَّا الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِھِمْ فَلَیَعْلَمَنَّ اللّٰہُ الَّذِیْنَ صَدَقُوْا وَلَیَعْلَمَنَّ الْکٰذِبِیْنَ o} [العنکبوت: ۲، ۳]
'' کیا لوگوں نے یہ گمان کر رکھا ہے کہ ان کے صرف اس دعویٰ پر کہ ہم ایمان لائے ہیں، ہم انہیں بغیر آزمائے ہوئے ہی چھوڑ دیں گے، ان سے اگلوں کو بھی ہم نے خوب جانچا، یقینا اللہ تعالیٰ انہیں بھی جان۔چ لے گا جو سچ کہتے ہیں اور انہیں بھی معلوم کرے گا جو جھوٹے ہیں۔''

{وَلَنَبْلُوَنَّکُمْ بِشَیْئٍ مِّنَ الْخَوْفِ َوالْجُوْعِ وَنَقْصٍ مِّنَ الْأَمْوَالِ وَالْأَنْفُسِ وَالثَّمَرٰتِ وَبَشِّرِ الصّٰبِرِیْنَ o الَّذِیْنَ إِذَآ أَصَابَتْھُمْ مُّصِیْبَۃٌ قَالُوْٓا إِنَّا لِلّٰہِ وَإِنَّآ إِلَیْہِ رٰجِعُوْنَ o أُولٰٓئِکَ عَلَیْھِمْ صَلَوٰتٌ مِّنْ رَّبِّھِمْ وَرَحْمَۃٌ وَأُولٰٓئِکَ ھُمُ الْمُھْتَدُوْنَ o}[ البقرہ: ۱۵۵ تا ۱۵۷]
'' اور ہم کسی نہ کسی طرح تمہاری آزمائش ضرور کریں گے، دشمن کے ڈر سے، بھوک پیاس سے، مال و جان اور پھلوں کی کمی سے اور ان صبر کرنے والوں کو خوشخبری دے دیجیے کہ انہیں جب کبھی کوئی مصیبت آتی ہے تو کہہ دیا کرتے ہیں کہ ہم تو اللہ تعالیٰ کی ملکیت ہیں اور ہم اسی کی طرف لوٹنے والے ہیں، ان پر ان کے رب کی نوازشیں اور رحمتیں ہیں اور یہی لوگ ہدایت یافتہ ہیں۔ ''

اللہ رب العزت اپنے بندوں کے گناہوں کو بخشنے اور ان کا مرتبہ بلند کرنے کے لئے آزمائش مبتلا کرتے ہیں۔

چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:
(( مَا یُصِیْبُ الْمُسْلِمُ مِنْ نَصَبٍ وَلَا وَصَبٍ وَلَا ھَمٍّ وَلَا حَزَنٍ وَلَا أَذًی وَلَا غَمٍّ ... حَتّٰی الشَّوْکَۃِ یُشَاکُھَا ... إِلاَّ کَفَّرَ اللّٰہُ بِھَا مِنْ خَطَایَاہُ۔ )) أخرجہ البخاري في کتاب المرضی، باب: ما جاء في کفارۃ المرض، رقم: ۵۶۴۱، ۵۶۴۲۔
'' مسلمان کو کوئی بھی دکھ و تکلیف و رنج و غم آئے یا صدمہ پہنچے یہاں تک کہ ایک کانٹا بھی اگر چبھے ہر دکھ کے بدلے اللہ تعالیٰ اس کے گناہ مٹا دیتا ہے۔ ''

رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(( عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ رضی اللہ عنہ ، قَالَ: أَتَیْتُ النَّبِيَّ صلی اللہ علیہ وسلم فِیْ مَرَضِہِ وَھُوَ یُوْعَکُ وَعْکًا شَدِیْدًا فَقُلْتُ: إِنَّکَ لَتُوْعَکُ وَعْکًا شَدِیْدًا، قُلْتُ: إِنَّ ذَاکَ بِأَنَّ لَکَ أَجْرَیْنِ، قَالَ: أَجَلْ مَا مِنْ مُسْلِمٍ یَصِیْبُہُ أَذًی إِلاَّ حَاتَّ اللّٰہُ عَنْہُ خَطَایَاہُ کَمَا تَحَاتُّ وَرَقُ الشَّجَرِ۔ ) أخرجہ البخاري في کتاب المرضی، باب: شدۃ المرض، رقم: ۵۶۴۷۔
''عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آپ کی بیماری کی حالت میں گیا (بیمار پرسی کے لیے) ۔ آپ کو شدید بخار تھا۔ میں نے عرض کیا: بے شک آپ تو شدید بخار میں مبتلا ہیں۔ اورمیں نے کہا اگر ایسی حالت ہے تو پھر آپ کے لیے اجر بھی دوہرا ہوگا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''کیوں نہیں'' جس مسلمان کو بھی کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو جیسے درخت کے پتے جھڑتے ہیں ایسے اللہ تعالیٰ اس کے گناہ جھاڑتا ہے۔ ''

مریض کو اللہ رب العزت کا خاص قرب حاصل ہوتا ہے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالی قیامت کے دن (بیمار پرسی میں کوتاہی کرنے والوں سے) فرمائیں گے کہ: اے آدم کے بیٹے ! میں بیمار پڑا تھا، مگر تونے مجھے نہ پوچھا! بندہ عرض کرے گا اے میرے رب میں آپ کو کیسے پوچھتا؟ آپ تو جہانوں کے پالنہار ہیں؛ یعنی بیماری سے پاک ہیں ،اللہ تعالیٰ فرمائیں گے کیا تو نہیں جانتا تھا کہ میرا فلاں بندہ بیمار پڑا ؛لیکن تونے اسے نہ پوچھا، کیا تو نہیں جانتا تھا کہ اگر تو اس کی بیمار پرسی کرتا تو تومجھے اس کے پاس پاتا۔ مسلم،باب فض عیادۃ المر یض،حدیث نمبر:۴۶۶۱۔
 

سید عمران

محفلین
۱) حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ہم ایک سفر میں تھے (رات میں) ہم نے ایک قبیلہ کے نزدیک پڑاؤ کیا۔ پھر ایک لونڈی آئی اور کہا کہ قبیلہ کے سردار کو بچھو نے کاٹ لیا ہے اور ہمارے قبیلے کے مرد موجود نہیں ہیں، کیا تم میں کوئی بچھو کا جھاڑ پھونک کر نے والا ہے؟ ایک صحابی اس کے ساتھ کھڑے ہوگئے، ہم کو معلوم تھا کہ وہ جھاڑ پھونک نہیں جانتے لیکن انہوں نے قبیلہ کے سردار کو جھاڑا تو اسے صحت ہوگئی۔ اس نے اس کے شکر انے میں تیس بکریاں دینے کا حکم دیا اور ہمیں دودھ پلایا۔ جب وہ جھاڑ پھونک کر کے واپس آئے تو ہم نے ان سے پوچھا کیا تم واقعی کوئی منتر جانتے ہو؟ انہوں نے کہا کہ نہیں میں نے تو صرف سورۃ فاتحہ پڑھ کراس پر دم کر دیا تھا۔ ہم نے کہا کہ اچھا جب تک ہم رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے متعلق نہ پوچھ لیں ان بکریوں کے بارے میں اپنی طرف سے کچھ نہ کہو۔ چنانچہ ہم نے مدینہ پہنچ کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے ذکر کیا تو آپ نے فرمایا کہ انہوں نے کیسے جانا کہ سورۃ فاتحہ رقیہ بھی ہے۔ ( جاؤ یہ مال حلال ہے ) اسے تقسیم کر لو۔ (صحیح بخاری ج ٢ ص ٧٤٩)

۲) حضرت علی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک رات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھ رہے تھے، آپ نے اپنا ہاتھ زمین پر رکھا تو بچھو نے آپ کو ڈس لیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنے جوتے سے اسے مار دیا۔ جب آپ صلی اللہ علیہ و سلم فارغ ہوئے تو فرمایا: ’’اللہ بچھو پر لعنت فرمائے وہ کسی نمازی کو چھوڑتا ہے نہ کسی اور کو۔‘‘ یا فرمایا: ’’کسی نبی کو چھوڑتا ہے اور نہ کسی اور کو۔‘‘
پھر آپ نے نمک اور پانی منگایا اور انھیں ایک برتن میں جمع کردیا، پھر آپ صلی اللہ علیہ و سلم اس انگلی پر جہاں اس نے ڈسا تھا ڈالنے لگے، اسے ملنے لگے اور معوذتین کے ذریعہ اس سے پناہ طلب کرنے لگے۔ (شعب الایمان للبیہقی، رقم الحدیث: ۲۵۷۵)

۳) حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کوئی تکلیف ہوتی تو معوذتین پڑھ کر اپنے جسم پر پھونک لیتے، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تکلیف زیادہ ہو گئی تو میں یہ سورتیں پڑھ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھوں کو برکت کی امید سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے جسم پر پھیرتی۔ (صحیح بخاری ، فضا ئل القرآن، باب المعوذات)

۴) جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر جادو کیا گیا ، تو جبرائیل علیہ اسلام یہی دو سورتیں لے کر حا ضر ہوئے اور فرمایا کہ ایک یہودی نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر جادو کیا ہے، اور یہ جادو فلاں کنویں میں ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو بھیج کر اسے منگوایا ( یہ ایک کنگھی کے دندانوں اور بالوں کے ساتھ ایک تانت کے اندر گیارہ گرہیں پڑی ہوئی تھیں اور موم کا ایک پتلا تھا جس میں سوئیاں چبھوئی ہوئی تھیں۔)
جبرائیل علیہ اسلام کے حکم کے مطابق آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان دونوں سورتوں میں سے ایک ایک آیت پڑھتے جاتے اور گرہ کھلتی جاتی اور سوئی نکلتی جاتی۔ خاتمے تک پہنچتے پہنچتے ساری گرہیں بھی کھل گئیں اور سوئیاں بھی نکل گئیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس طرح صحیح ہو گئے جیسے کوئی شخص جکڑ بندی سے آزاد ہو جائے۔ (صحیح بخاری ، مع فتح الباری ، کتاب الطب، باب السحر )

۵) نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے گهر میں اگر کوئی بیمار ہوتا توآپ معوذتین (سورۃ اخلاص ، سورۃ فلق، سورۃ الناس) پڑھ کر ان کو دم کرتے تهے۔ (صحيح مسلم، كتاب السلام، باب رقيۃ المريض بالمعوذات والنفث )

۶) حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں جُحْفَه اور ابْوَاء مقام کے درمیان رسول الله صلى الله عليه وسلم کے ساتھ چل رہا تھا کہ اچانک ہمیں تیز ہوا اور تاریکی نے گهیرلیا، تو رسول الله صلى الله عليہ وسلم قُلْ اَعُوْذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ اور قُلْ اَعُوْذُ بِرَبِّ النَّاسِ کے ساتھ اللہ تعالی کی پناہ مانگنے لگے اور آپ فرماتے: ’’اے عقبہ تم بھی ان دونوں کے ذریعے اللہ کی پناہ مانگو، پس کسی بھی پناہ مانگنے والے نے ان کی مثل سورتوں سے پناہ نہیں مانگی۔‘‘ ( مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح، كتاب فضائل القرآن)

۷) حضرت مَعقِلِ بِن یَسَار رضی اللہ عنہ سے روایت ہے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’اپنے مُردوں ( یعنی قریبُ الموت شخص پر) پر یٰسین پڑھا کرو۔‘‘ (رواہ احمد ، وابو داؤد)

۸) حدیث میں ہے من قرأ سورة الواقعۃ فی کل لیلۃ لم تصبہ فاقۃ أبداً یعنی جو شخص ہر رات سورہ واقعہ کی تلاوت کرے اس کو کبھی فاقہ نہیں پہنچے گا۔ اس حدیث کے راوی عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ ہر رات اپنی لڑکیوں کو یہ حکم کرتے کہ وہ اس سورت کی تلاوت کریں۔ (مشکوٰة: ۱۸۹)

۹) حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’قرآن مجید میں ایک ایسی سورت ہے جس کی تیس آیات ہیں وہ (قیامت کے دن ) آدمی کی سفارش کرے گی حتی کہ اسے بخش دیا جائے گا، اوروہ سورۃ تبارک الذی بیدہ الملک ہے۔‘‘ (سنن ترمذی حدیث نمبر 2891 )

۱۰) حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جس نے ہر رات تبارک الذی بیدہ الملک پڑھی اللہ تعالیٰ اس کی وجہ سے اسے عذاب قبر سے نجات دے گا۔ ہم اس سورت کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں المانعۃ (بچاؤ کرنے والی سورت) کہتے تھے۔ (سنن نسائی ۶؍ ۱۷۹)

ان واقعات میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے قرآن سے جسمانی تکلیف کے علاج اور دیگر دنیاوی و اخروی معاملات پر قرآن کی مختلف سورتیں پڑھنے کے لیے کوئی ممانعت نہیں۔۔۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ نہیں فرمایا کہ قرآن اس لیے نازل نہیں ہوا کہ اس سے علاج کرو یا دیگر معاملات کا حل چاہو۔۔۔
یہ کوئی نہیں کہتا کہ بیماریوں کے لیے صرف قرآن پڑھو اور دوائیں نہ کرو۔۔۔
لیکن اگر کوئی دوا کے ساتھ قرآن سے خیر و برکت حاصل کرنا چاہے تو اسے جاہل وغیرہ جیسے القابات سے بھی نوازنا نہیں چاہیے!!!
 
آخری تدوین:

فہد مقصود

محفلین
تلاوت کرنا الگ ہے
کسی عاشق کی آواز میں سننا الگ بات ہے
اللہ نے تو اپنے حبیب کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تلاوت کے ذریعے سکھایا قران پاک
سنقرئک فلا تنسی

تلاوت سننا الگ عمل ہے
تلاوت کرنا الگ عمل ہے


تلاوت سننے کو کہا گیا سورہ رحمن کی

آپ یہ کیسے قیاس کر سکتی ہیں کہ تلاوت کرنے والا عاشق نہیں ہوگا؟ نیت کا حال تو اللہ رب العزت ہی جانتے ہیں۔ ہم یہ فیصلہ کسی کے بارے میں نہیں کر سکتے ہیں۔
 

محمد وارث

لائبریرین
اگر ایسا ہی ہوتا تو کوئی پختہ ایمان والا حافظ کبھی بیمار نہ پڑتا!

افسوس کہ جو کتاب، انسان کو انسانیت سکھانے، فلاحی معاشرہ قائم کرنے، بہتر دنیا اور آخرت بنانے کے سبق دیتی ہے اس کو دم درود اور جھاڑ پھونک کے لیے رکھ لیا ہے!
 

فہد مقصود

محفلین
اوپر کسی نے حدیث کوٹ کی تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس طریق ترغیب نہ دی ہے ... اس لیے لکھ دیا

آپ ایک بہت ہی اہم بات پر توجہ نہیں دے رہی ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا حضرت علی رضی اللہ عنہ کی آنکھوں پر لعابِ دہن لگانا اور اس سے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو شفاء نصیب ہونا معجزہ ہے۔

جہاں تک حضرت سعد رضی اللہ عنہ کے سینے کے درد والی حدیث کا تعلق ہے تو وہ علاج کی ترغیب دلانے کے لئے لکھی گئی ہے۔
 

عرفان سعید

محفلین
اگر ایسا ہی ہوتا تو کوئی پختہ ایمان والا حافظ کبھی بیمار نہ پڑتا!

افسوس کہ جو کتاب، انسان کو انسانیت سکھانے، فلاحی معاشرہ قائم کرنے، بہتر دنیا اور آخرت بنانے کے سبق دیتی ہے اس کو دم درود اور جھاڑ پھونک کے لیے رکھ لیا ہے!
آپ نے میرے دل کی بات کہہ ڈالی!
یہاں ماہر القادرری مرحوم کی ایک مشہور نظم یاد آگئی

قرآن کی فریاد

طاقوں میں سجایا جاتا ہوں ، آنکھوں سے لگایا جاتا ہوں
تعویذ بنایا جاتا ہوں ، دھودھو کے پلایا جاتا ہوں

جزدان حریر وریشم کے ، اور پھول ستارے چاندی کے
پھر عطر کی بارش ہوتی ہے ، خوشبو میں بسایا جاتا ہوں

جس طرح سے طوطے مینا کو ، کچھ بول سکھاے جاتے ہیں
اس طرح پڑھایا جاتا ہوں ، اس طرح سکھایا جاتا ہوں

جب قول وقسم لینے کے لیے ، تکرار کی نوبت آتی ہے
پھر میری ضرورت پڑتی ہے ، ہاتھوں پہ اُٹھایا جاتا ہوں

دل سوز سے خالی رہتے ہیں ، آنکھیں ہیں کہ نم ہوتی ہی نہیں
کہے کو میں اک اک جلسہ میں ، پڑھ پڑھ کے سنایا جاتا ہوں

نیکی پہ بدی کا غلبہ ہے ، سچائی سے بڑھ کر دھوکا ہے
اک بار ہنسایا جاتا ہوں ، سو بار رولا یا جاتا ہوں

یہ مجھ سے عقیدت کے دعوے ، قانون پہ راضی غیروں کے
یوں بھی مجھے رسوا کرتے ہیں ، ایسے بھی ستایا جاتا ہوں

کس بزم میں مجھ کو بار نہیں ، کس عُرس میں میری دُھوم نہیں
پھر بھی میں اکیلا رہتا ہوں ، مجھ سا بھی کوئی مظلوم نہیں

ماہر القادریؒ
 

محمد وارث

لائبریرین
میرا مقصد یہاں اک لمبی بحث شروع کرانا نہیں ہے. جس کو یہ طریقہ پسند ہے وہ اپنا لے. جس کو نہیں پسند نہ لے. اس کو ایمانیات کے بطور متعارف نہیں ہے، جس کو لگے اس کے سائنسی و دینی عقائد کو خلل پڑ رہا ہے، وہ اسکو نہ اپنائے. اگر کسی نے اس کا طریقہ کار پڑھا ہوتا ہے یہ بحث ایمانیات والے کر ہی نہ پاتے کہ اس کو بطور بیماری علاج کیوں پیش کیا گیا. سب پڑھے لکھے ہیں. میرا زیک سے پوچھنے کا مقصد اتنا تھا کہ ہم اک دوسرے کی رائے کا احترام کر سکتے ہیں؟ وہ بہت اچھے انسان ہیں اور محض اس سبب سوال کیا. آگے سب کی مرضی. میں آپ کو وڈیوز لنک کروں گی جس میں ایڈز کے، کنسر کے، دل کی بیماریوں کے، گردوں کے اور دیگر مریض صحت یاب ہوئے ہیں اس کے علاوہ ڈپریشن کے مرض کا خاتمہ اک الگ باب، ڈپریشن ایسا مرض جس کو تاوقتیکہ کوئ خاطرخواہ علاج نہیں ملا. سائنس کی اس معاملے تردید کرنا میرا خیال نہیں. سائنس بہت سی بیماریوں بالمثال ایڈز یا کینسر کا یقینی علاج بالخصوص لاسٹ اسٹیج پر پیش نہیں کر پائ آخری اسٹیج کے مریض اس طریقے سے صحت یاب ہوتے پائے. اس کے علاوہ بہت سے پاکستانی اداکار بھی. اگر سائنسی شہادت پر یقین رکھتے ہیں جو کہ تجربہ کو بنیاد مانتا ہے تو اسکو اس طریقہ کار سے آزما کے بات کیجیے گا. اسٹریلین، نیوزی لینڈ اور ہندوستان اور دیگر ممالک کے غیر مسلم لوگوں سے اس طریقہ کار کو اختیار کو صحت یاب ہوئے. میرا خیال ہے پہلے سب طریقہ کار پڑھ کے اس کو اپناکے، پھر بات کریں پھر تو بات چیت بنتی ہے تجربے کی بنیاد پر مگر پہلے سے تجزیہ پیش کرنا درست نہیں. میں ابھی کل پرسوں کسی کی پوسٹ ڈپریشن کے حوالے سے پڑھ رہی تھی آپ ان لوگوں کو آگے آنے دیں جو محفلین تجربے شئیر کرتے ہیں ان سے بات چیت کریں ...
کسی بھی دوا کے اثرات کا جب جائزہ لیا جا رہا ہوتا ہے تو عام طور پر ساتھ میں placebo effect بھی چیک کیا جاتا ہے، یعنی کچھ مریضوں کو تو اصل دوا دی جاتی ہے اور کچھ مریضوں کو دوا کے نام پر کوئی بے ضرر سی چیز دی جاتی ہے مثال کے طور پر کیپسول میں آٹا بھر کر۔ حیرت انگیز طور پر ایسے مریضوں کی اچھی خاصی تعداد بھی شفا یاب ہو جاتی ہے یا مثبت اثرات دکھاتی ہے کہ جن کو دوا کے نام پر آٹا دیا گیا تھا۔ اس لیے چند ایسی مثالیں مل جانا جیسی کہ آپ ذکر کر رہی ہیں کوئی بڑی بات نہیں ہے!
 

فہد مقصود

محفلین
قران پاک شفا ہے اور شفا منجانب اللہ ہے

قران پاک پڑھنا خلوص سے
دعا مانگنا خلوص سے

خلوص سے پہلے معافی مانگنا
اپنے گناہوں کی
حق مارنے کی
دوسروں کو معاف کرنا
پاک صاف دل اللہ کے حضور پیش کرنا اور گڑ گڑا کر دعا مانگنا

اللہ اتنا رحیم ہے صحت دے دیتا ہے
دعا کی تاثیر پر سب کو یقین ہے. سب کہتے ہیں دعا سے بگڑے کام بدل جاتے ہیں
یہ طریقہ فقط دعا ہے جس سے بگڑے کام سنور جاتے ہیں
دعا کرنی ہے بس
دعا کے بعد سورہ رحمن سننا یعنی رحمن والے سے دعا مانگنی. رحمن کون اللہ؟
میرا خیال ہے سورہ رحمن سننا دعا میں کچھ برا نہیں ہے
کیونکہ جس سے دعا کر رہے اور رحمن یعنی اس سے شدید رحم مانگنے کے لیے سورہ رحمن سن ریے
تو وہ بھی شدید رحم کرتا ہے

بے شک دعا مانگنے سے شفاء ملتی ہے۔ قرآن پاک کی تلاوت، اس پر غور و فکر کرنا ہم سب کے معمول میں شامل ہونا چاہئے۔اگر کو ئی بیمارعلاج کے ساتھ ساتھ قرآن پاک کی تلاوت کر کے دعا مانگے گا تو ان شاء اللہ اسے ضرور شفاء نصیب ہوگی۔
 

نور وجدان

لائبریرین
اگر ایسا ہی ہوتا تو کوئی پختہ ایمان والا حافظ کبھی بیمار نہ پڑتا!

افسوس کہ جو کتاب، انسان کو انسانیت سکھانے، فلاحی معاشرہ قائم کرنے، بہتر دنیا اور آخرت بنانے کے سبق دیتی ہے اس کو دم درود اور جھاڑ پھونک کے لیے رکھ لیا ہے!
میں سب سے پہلے معذرت خواہ ہوں، میں نے اسکو بطور ریمڈی پیش کردیا جس سے بہت سے لوگوں کے جذبات مجروح ہوئے. اپنی نیت بطور پریکٹیل کے لکھ دی ساتھ یہ بھی لکھ دیا ہے کہ اس کا مقصد انسانیت ہی پیدا کرنا ہے

سورہ رحمن میں رب کی نعمتوں، انسان کی ناشکری کا ذکر ہے. جب ہم خود کو معافی کروا یعنی توبہ کروا اور معاف کرکے سنتے ہیں تو ہم اک پریکٹیکل سے گزرتے ہیں اللہ کے رحمن ہونے کے اسکی نعمتوں کو حقیقی طور محسوس کربے لگتے ہیں

پختہ ایمان والے حافظ کی بات درست ہے آپکی. میں نے ساتھ وضاحت کردی کچھ لوگ صحت یاب نہیں ہوتے کیونکہ اللہ کی مرضی ہوتی ہے. مگر اسی فیصد لوگ جن کی تعداد لاکھوں میں ہے وہ لاعلاج امراض سے صحت یاب ہوئے.

میری بات چیت جرمنی میں مقیم پاکستانی سے ہوئ جو artificial intelligence میں پی ایچ ڈی کر رہے تھے. اس دوران ریٹینل ڈیمج نے ان کو اندھا کردیا. ڈاکٹرز نے جواب دیدیا. انہوں نے اسکو utilize کیا ام کی بینائی لوٹ آئی.

سید عمران محترمی نے کیا خوب آخری لائن میں دریا کو کوزے میں بند کیا کہ دوا بھی لو مگر دعا بھی ... ماشاءاللہ! بہت اچھا نقطہ سمجھایا ہے. دعا کو جھاڑ پھونک نہیں کہنا چاہیے

یہ طریقے تو درد سے مارے دل اور صحت سے ہارے انسان کے لیے جب وہ کوئ چارہ نہیں رہتا وہ اللہ کی جانب رجوع کرتا ہے. بس یہ ایسی کاوش ہے
 

اکمل زیدی

محفلین
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدٍ القَارِيُّ، عَنْ أَبِي حَازِمٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي سَهْلٌ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، يَعْنِي ابْنَ سَعْدٍ، قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ خَيْبَرَ: «لَأُعْطِيَنَّ الرَّايَةَ غَدًا رَجُلًا يُفْتَحُ عَلَى يَدَيْهِ، يُحِبُّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ، وَيُحِبُّهُ اللَّهُ وَرَسُولُهُ»، فَبَاتَ النَّاسُ لَيْلَتَهُمْ أَيُّهُمْ يُعْطَى، فَغَدَوْا كُلُّهُمْ يَرْجُوهُ، فَقَالَ: «أَيْنَ عَلِيٌّ؟»، فَقِيلَ يَشْتَكِي عَيْنَيْهِ، فَبَصَقَ فِي عَيْنَيْهِ وَدَعَا لَهُ، فَبَرَأَ كَأَنْ لَمْ يَكُنْ بِهِ وَجَعٌ، فَأَعْطَاهُ فَقَالَ: أُقَاتِلُهُمْ حَتَّى يَكُونُوا مِثْلَنَا؟ فَقَالَ: «انْفُذْ عَلَى رِسْلِكَ حَتَّى تَنْزِلَ بِسَاحَتِهِمْ، ثُمَّ ادْعُهُمْ إِلَى الإِسْلاَمِ، وَأَخْبِرْهُمْ بِمَا يَجِبُ عَلَيْهِمْ، فَوَاللَّهِ لَأَنْ يَهْدِيَ اللَّهُ بِكَ رَجُلًا خَيْرٌ لَكَ مِنْ أَنْ يَكُونَ لَكَ حُمْرُ النَّعَمِ»

ترجمہ:
ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا‘ کہا ہم سے یعقوب بن عبدالرحمٰن بن محمد بن عبداللہ بن عبدالقاری نے بیان کیا ‘ ان سے ابو حازم مسلمہ ابن دینار نے بیان کیا‘ انہیں سہل بن سعد انصاری رضی اللہ عنہ نے خبر دی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خیبر کی لڑائی کے دن فرمایا‘ کل میں ایسے شخص کے ہاتھ میں اسلامی جھنڈادوں گا جس کے ہاتھ پر اسلامی فتح حاصل ہوگی‘ جو اللہ اور اس کے رسول سے محبت رکھتا ہے اور جس سے اللہ اوراس کا رسول بھی محبت رکھتے ہیں ۔ رات بھر سب صحابہ کے ذہن میں یہی خیال رہا کہ دیکھئے کہ کسے جھنڈا ملتا ہے ۔ جب صبح ہوئی تو ہر شخص امیدوار تھا‘ لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا کہ علی کہاں ہیں ؟ عرض کیا گیا کہ ان کی آنکھوں میں درد ہو گیا ہے ۔ آنحضرت نے اپنا مبارک تھوک ان کی آنکھوں میں لگادیا ۔ اور اس سے انہیں صحت ہو گئی‘ کسی قسم کی بھی تکلیف باقی نہ رہی ۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں کو جھنڈا عطا فرمایا ۔ علی رضی اللہ عنہ نے کہا کہ کیا میں ان لوگوں سے اس وقت تک نہ لڑوں جب تک یہ ہمارے ہی جیسے یعنی مسلمان نہ ہو جائیں ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں ہدایت فرمائی کہ یوں ہی چلا جا ۔ جب ان کی سرحد میں اترے تو انہیں اسلام کی دعوت دینا اور انہیں بتانا کہ ( اسلام کے ناطے ) ان پر کون کون سے کام ضروری ہیں ۔ خدا کی قسم ! اگر تمہارے ذریعہ اللہ ایک شخص کو بھی مسلمان کر دے تو یہ تمہارے لئے سرخ اونٹوں سے بہتر ہے ۔

تشریح:
: آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو ہدایت فرمائی کہ وہ لڑائی سے قبل دشمنوں کو اسلام کی تبلیغ کریں‘ ان کو راہ ہدایت پیش کریں اور جہاں تک ممکن ہو لڑائی کی نوبت نہ آنے دیں۔ لڑائی مدافعت کے لئے آخری تدبیر ہے۔ بغیر لڑائی ہی اگر کوئی دشمن صلح جو ہو جائے یا اسلام ہی قبول کرلے تو یہ نیکی عند اللہ بہت ہی زیادہ قیمت رکھتی ہے۔ اس حدیث سے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی فضیلت بھی ثابت ہوئی کہ اللہ نے جنگ خیبر کی فتح ان کے ہاتھ پر مقدر رکھی تھی۔

ترجمہ باب حدیث کے الفاظ خیر لک من ان یکون لک حمر النعم سے نکلتا ہے۔ سبحان اللہ! کسی شخص کو راہ پر لانا اور کفر سے ایمان پر لگا دینا کتنا بڑا اجر رکھتا ہے۔ مسلمانوں کو چاہئے کہ وعظ اور تعلیم اور تلقین میں کوشش بلیغ کرتے رہیں۔ کیونکہ یہ پیغمبروں کی میراث ہے اور چپ ہو کر بیٹھ رہنا اور زبان اور قلم کو روک لینا عالموں کے لئے غضب کی بات ہے۔ ہمارے زمانہ کے مولوی اور مشائخ جو گھروں میں آرام سے بیٹھ کر چرب لقموں پر ہاتھ مارتے ہیں اور خلاف شرع کام دیکھ کر سکوت کرتے ہیں اور جاہلوں کو نصیحت نہیں کرتے‘ امراء اور دنیا داروں کی خوشامد میں غرق ہیں۔ یہ پیغمبر علیہ السلام کے سامنے قیامت کے دن کیا جواب دیں گے۔ اللہ تعالیٰ نے جو علم و فضل کی دولت عطا فرمائی اس کا شکریہ یہی ہے کہ وعظ و نصیحت میں سرگرم رہیں اور تعلیم و تلقین کو اپنا وظیفہ بنا لیں۔ دیہات کے مسلمانوں کو جو دینی مسائل اور اعتقادات سے ناواقف ہیں‘ ان کو واقف کرائیں اور ہر جگہ دعوت اسلام پہنچائیں۔ افسوس ہے کہ نصاریٰ تو اپنا باطل خیال یعنی تثلیث پھیلانے کے لئے ہر گاؤں ہر بستی اور راستے اور مجمع میں وعظ کہتے پھریں اور مسلمان سچے اعتقاد یعنی توحید پر ہو کر زبان بند رکھیں اور سچا دین پھیلانے میں کوئی کوشش نہ کریں۔ اگر سچے دین کے پھیلانے میں کوئی مصیبت پیش آئے تو اس کو عین سعادت اور برکت اور کامیابی سمجھنا چاہئے۔ دیکھو ہمارے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم نے دعوت اسلام میں کیا کیا تکلیفیں اٹھائیں۔ زخمی ہوئے سر پھوٹے‘ دانت ٹوٹا‘ گالیاں کھائیں‘ یا اللہ! تیری راہ میں اگر ہم کو گالیاں پڑیں تو وہ عمدہ اور شیریں لقموں سے زیادہ ہم کو لذیذ ہیں۔ اور تیرا سچا دین پھیلانے میں اگر ہم مارے جائیں یا پیٹے جائیں تو وہ ان دنیا دار بادشاہوں کی خلعت اور سرفرازی سے کہیں بڑھ کر ہے۔ یا اللہ! مسلمانوں کی آنکھ کھول دے کہ وہ بھی اپنے پیارے پیغمبر کا دین پھیلانے میں ہمہ تن کوشش شروع کریں‘ گاؤں گاؤں وعظ کہتے پھریں۔ دین کی کتابیں اور رسالے چھپوا چھپوا کر مفت تقسیم کریں‘ آمین یا رب العالمین۔ (وحیدی)

الحمد للہ اس تبلیغی دورہ بھوج کچھ میں جو حال ہی میں یہاں کے ۲۵ دیہات میں کیا گیا‘ بخاری شریف مترجم اردو کے تین سو سے زائد پارے اور نماز کی کتابیں دو سو اور کئی متفرق تبلیغی رسائل دو سو سے بھی زائد تعداد میں بطور تحائف و تبلیغ تقسیم کئے گئے۔ اللہ پاک قبول فرمائے۔ اور جملہ حصہ لینے والے حضرات کو اس کی بہتر سے بہتر جزائیں عطا کرے۔ کتابی تبلیغ آج کے دور میں ایک ٹھوس تبلیغ ہے جس کے نتائج بہت دور رس ہوسکتے ہیں وباللہ التوفیق۔

صحیح بخاری حدیث نمبر: 3009

کتاب: جہاد کا بیان

باب : اس شخص کی فضیلت جس کے ہاتھ پر کوئی شخص اسلام لائے

صحیح بخاری - حدیث 3009

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا حضرت علی رضی اللہ عنہ کی آنکھوں پر لعابِ دہن لگانے کا سورۃ رحمٰن کی تلاوت سے کیا تعلق بنتا ہے؟

ماشاءاللہ سے فہد بھائی آپ کافی فہم و فراست والے انسان ہو اور اوپر غیر متفق اور مضحکہ خیز ریٹنگ والے انٹلخچولز ہیں ان کی اسلام اور اسلامی تعلیمات پر عدم اعتماد اور مشکوک انداز فکر سے اکثریت بخوبی واقف ہے مگر آپ کا پورا واقعہ بیان کر کے آکر میں یہ سوال کے "حضور صلی اللہ و علیہ وآلہ وسلم کے لعاب دہن کا سورہ رحمٰن کی تلاوت سے کیا تعلق بنتا ہے "
اس استفسار پر حیر ت ہوئی ۔۔۔بلکہ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ یہ واقعہ ایمان میں اضافے کا سبب بنتا کہ جب کل ایمان کا آشوب چشم ایک لعاب سے کے ذریعے شفا پا سکتا ہے تو کلام اللہ کی تاثیر کتنی ہوگی مگر مسئلہ یہ ہے کہ ہم نے اپنی کھوکھلی تجزیاتی پیمانوں پر آیتوں کو پرکھنا ہے تو نتیجہ ایسا ہی نکلے گا ۔۔۔کتنے ہی واقعات بھرے پڑے ہیں توا ریخ میں ۔۔۔جناب عیسیٰ قم باذن اللہ کہہ کر مردوں کا زندہ کرنا - جناب موسیٰ کا عصا کے ذریعے دریائے نیل کا شگافتہ کرنا - جناب یونس کا مچھلی کے پیٹ میں اتنا عرصہ گذارنا - پہاڑ سے اونٹنی کا نکلنا - ان واقعات کی کوئی کیا ٹینجیبل دلیل دے گا ۔۔۔
سورہ الشعراکی آیت 80 کہتی ہے کہ”اور جب میں بیمار ہوتا ہوں تو وہ (اللہ) مجھے شفا دیتا ہے اور قرآن میں ہم ایسی چیز نازل کرتے ہیں جو مومنوں کے لئے شفا اور رحمت ہیں سورہ الفصلت کی آیت 44 کہتی ہے کہ "فرمادیجئے آپ کہ مومنوں کے لئے ہدایت اور شفا ہے”
اب اس کو کیپسول ڈرپ اور میڈیسن کے تناظر میں دیکھینگے تو کہاں سمجھ پائینگے۔۔۔
 

عرفان سعید

محفلین
میں سب سے پہلے معذرت خواہ ہوں، میں نے اسکو بطور ریمڈی پیش کردیا جس سے بہت سے لوگوں کے جذبات مجروح ہوئے. اپنی نیت بطور پریکٹیل کے لکھ دی ساتھ یہ بھی لکھ دیا ہے کہ اس کا مقصد انسانیت ہی پیدا کرنا ہ
معذرت کی بالکل ضرورت نہیں۔ آپ نے کسی کے جذبات مجروح نہیں کیے۔ آپ نے ایک نقطہ نظر کو پیش کیا، چونکہ یہ ایک پبلک فورم ہے تو اس پر بات ہو گی۔ بلکہ بہت اچھا ہے کہ دونوں طرف کی آراء سامنے آجائیں اور قاری خود فیصلہ کر سکے۔ بالکل دل آزردہ نہ ہوں۔ پوری قوت سے اپنے دلائل پیش کریں۔
 
Top