سوزشِ دل تو کہاں اس حال میں

فاتح

لائبریرین
بجا فرمایا نظامی صاحب، یہ عالمِ بالا کی باتیں ہیں یا راجوں مہاراجوں کی، ہم جیسے خاکساروں کے پلے تھوڑی پڑیں گی :)
قبلہ آپ نے تو عین وہی بات کر دی جو اس شعر میں کہی گئی ہے:
چشمِ بینا چشمہء منقار ہے
دقّتِ افعال ہے اقوال میں

بلکہ شاید ذیل کے شعر میں بھی اسی مضمون کا تسلسل برقرار رکھا گیا ہے لفظی ہیر پھیر کے ساتھ:
نور کا عالم پری ہو یا کہ حور
ہے صفائی سیم تن کی کھال میں
:grin:
 

مغزل

محفلین
بابا جانی ( الف عین ) دُہائی ہے دُہائی۔۔۔ یہ فاتح میاں اب لٹھ لے کر پڑ گئے ہیں ۔
پھر آپ کہیں گے کہ ’’ فاتح ‘‘ تو ’’ مفتوح ‘‘ کے خدمت گزار ہوتے ہیں۔
توبہ توبہ !!
 

مغزل

محفلین
اور فاتح صاحب: یہ جو ’’ مبتدیوں ‘‘ کی فوج ہے کس کام آئے گی ، کیا یہ صرف اس لیے ہے کہ مجھے ’’ کانا راجہ ‘‘ مانتے پھریں ۔
یا اور بھی کوئی کام ہے ۔ میرے خیال میں ’’ نئے لوگوں “ کو بھی موقع ملنا چاہیے کہ وہ کلام پر بات کرسکیں ۔ میں نے اپنی سی
کوشش کی تھی یہ سلسلہ جاری رکھنے کو مگر اپنا سا منھ لیکر رہ گیا۔۔ :: ’’ سوادِ‌سیم تناں ‘‘ :: کے علاوہ کچھ نہ حاصل ہوا۔
 

فاتح

لائبریرین
بابا جانی ( الف عین ) دُہائی ہے دُہائی۔۔۔ یہ فاتح میاں اب لٹھ لے کر پڑ گئے ہیں ۔
پھر آپ کہیں گے کہ ’’ فاتح ‘‘ تو ’’ مفتوح ‘‘ کے خدمت گزار ہوتے ہیں۔
توبہ توبہ !!

اور فاتح صاحب: یہ جو ’’ مبتدیوں ‘‘ کی فوج ہے کس کام آئے گی ، کیا یہ صرف اس لیے ہے کہ مجھے ’’ کانا راجہ ‘‘ مانتے پھریں ۔
یا اور بھی کوئی کام ہے ۔ میرے خیال میں ’’ نئے لوگوں “ کو بھی موقع ملنا چاہیے کہ وہ کلام پر بات کرسکیں ۔ میں نے اپنی سی
کوشش کی تھی یہ سلسلہ جاری رکھنے کو مگر اپنا سا منھ لیکر رہ گیا۔۔ :: ’’ سوادِ‌سیم تناں ‘‘ :: کے علاوہ کچھ نہ حاصل ہوا۔

مندرجہ بالا دونوں مراسلہ جات ایک ہی سلسلے کی کڑی معلوم ہو رہے ہیں لیکن حدِ ادب۔۔۔ آپ اعجاز اختر صاحب کو مبتدی کہہ رہے ہیں۔ توبہ توبہ:grin:

مغل صاحب! آپ کے ہی شروع کیے ہوئے سلسلے کو جاری رکھنا چہتا ہوں‌تو آپ خاموش ہیں۔
کچھ تو کہییے کہ (اب تو) لوگ (بھی) کہتے ہیں۔۔۔ :)
لیکن آپ تو زمانہ قدیم کی نئی نویلی دلہنوں کی مانند شرمائے چلے جا رہے ہیں;)
 

محمد وارث

لائبریرین
حضور ملاحظہ ہو گھڑیال کے گجر کی رعایت سے بیضہ کی اصطلاح جس میں روغنِ گل اس طرح جذب ہو رہا ہے گویا گاؤ خورد ہو گیا ہو۔

روغنِ گل میں لاکھ چکناہٹ سہی قبلہ، لیکن جو چکناہٹ 'مکھن' میں ہے وہ کسی اور میں کہاں، اللہ اللہ فقط تھوڑا سا لگا دیجیئے، اچھے اچھے "سچے" لوگ، زبان و بیان کی ایسی پٹخنیاں کھائیں گے کہ اس 'شیِر خور' کو 'شیر خور' بنا کر دم لیں گے، اور وہ اسی پر اتراتے پھرے گا کہ شہزادے یا اس سے بھی "اوپر" کچھ ہو گئے;)
 

مغزل

محفلین
مندرجہ بالا دونوں مراسلہ جات ایک ہی سلسلے کی کڑی معلوم ہو رہے ہیں لیکن حدِ ادب۔۔۔ آپ اعجاز اختر صاحب کو مبتدی کہہ رہے ہیں۔ توبہ توبہ:grin:

مغل صاحب! آپ کے ہی شروع کیے ہوئے سلسلے کو جاری رکھنا چہتا ہوں‌تو آپ خاموش ہیں۔
کچھ تو کہییے کہ (اب تو) لوگ (بھی) کہتے ہیں۔۔۔ :)
لیکن آپ تو زمانہ قدیم کی نئی نویلی دلہنوں کی مانند شرمائے چلے جا رہے ہیں;)

قبلہ آپ کی یہ حرکت سائبر کرائم کی زد میں نہیں آتی کیا ۔
واہ میاں واہ ۔۔ دوسروں کو نصیحت خود میاں فصیحت۔ سبحان اللہ
ویسے کیا آپ ’’ شاہ زادے ‘‘ اور ’’ شب زادے ‘‘ میں تفریق رکھتے ہیں ؟؟
 

محمد وارث

لائبریرین
مندرجہ بالا دونوں مراسلہ جات ایک ہی سلسلے کی کڑی معلوم ہو رہے ہیں لیکن حدِ ادب۔۔۔ آپ اعجاز اختر صاحب کو مبتدی کہہ رہے ہیں۔ توبہ توبہ:grin:

توبہ توبہ فاتح صاحب، اعجاز صاحب کو کون مبتدی کہہ سکتا ہے، انہوں نے تو اپنے "بابا جانی" کو کہا ہے ;)
 

فاتح

لائبریرین
توبہ توبہ فاتح صاحب، اعجاز صاحب کو کون مبتدی کہہ سکتا ہے، انہوں نے تو اپنے "بابا جانی" کو کہا ہے ;)

اوہ۔۔۔ میری مت ماری گئی ہے۔ اگر انہوں‌نے 'اپنے بابا جانی' کو مبتدی کہا ہے تو یہ ان کا انتہائی داخلی معاملہ ہے۔;)
ہم تو ان کی جانب سے محض خارجی معاملے یعنی اس کلام کی تشریح کے منتظر ہیں۔
 

مغزل

محفلین
اوہ۔۔۔ میری مت ماری گئی ہے۔
یقیناً ۔۔ ،مگر یہ ادراک آپ کو اب ہوا ؟؟
---------------------------------------------------------------------------------
اب چونکہ یہاں ’’ انجمن ستائش ِ‌باہمی ‘‘ کی دریافت ہوئی ہے لہذا ۔۔۔ آج سے اس محفل کو اللہ حافظ
 

فاتح

لائبریرین
یقیناً ۔۔ ،مگر یہ ادراک آپ کو اب ہوا ؟؟
آپ سا ولی میسر نہ ہوا تھا شاید آج تک;)

اب چونکہ یہاں ’’ انجمن ستائش ِ‌باہمی ‘‘ کی دریافت ہوئی ہے لہذا ۔۔۔ آج سے اس محفل کو اللہ حافظ
اس اجمال کی کچھ تفصیل بھی عطا ہو مثلاً۔۔۔
اس کی دریافت کا سہرا کس کے سر ہے؟
کس بنیاد یا 'بے بنیاد' پر اسے دریافت کیا گیا؟
نیز کیا یہ ملزمہ ستائش محفل کے ایجنڈے میں شامل ہے؟
اگر نہیں تو محفل کو داغِ مفارقت دینے کا فیصلہ کیوں؟
مگر سب سے پہلے غزل کی تشریح۔۔۔
 

مغزل

محفلین
سرکا ر اگر مجھ ایسے جاہل کی جہالت کا امتحان ہی مقصود ہے تو پیش کردیتا ہوں ۔ لیکن اس شرط پر کہ ’’ اختلاف ‘‘ کو ’’ عناد ‘‘ نہ بنایا جائے ۔
 

فاتح

لائبریرین
سرکا ر اگر مجھ ایسے جاہل کی جہالت کا امتحان ہی مقصود ہے تو پیش کردیتا ہوں ۔ لیکن اس شرط پر کہ ’’ اختلاف ‘‘ کو ’’ عناد ‘‘ نہ بنایا جائے ۔

حضور کسرِ نفسی کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ارشاد ہو۔ عناد کو مطلقاً دخل نہ ہو گا۔
 

مغزل

محفلین
فاتح صاحب آپ نے وضاحت کردی کہ غالب کا ہی کلام ہے تو حاضر ہے ہماری فروگزاشت سے لتھڑی ہوئی ’’ تفہیم ‘‘ میں ساتھ ہی وضاحت کیے دیتا ہو ں کہ کیوں یہ اشعار اقتباس کے چاک پر رکھے ۔ گھنٹہ بھر پہلے بھی اچھا خاصا لکھ لیا تھا مگر ملعون بجلی نے داغ ِ مفارقت لگا دیا ماتھے پر :

سوزشِ دل تو کہاں اس حال میں
جان و تن ہیں سوزنِ جنجال میں

شاعر نے سوزش کو ایک کیفیت سے نکال کر تجسیم کیا یعنی اسم ِکیفیت سے مجرد و مشخص کیا یہی بات اس شعر کو پسند کرنے کاسبب بنی ، بہر حال یہاں سوزشِ>دل< ( یعنی ایسی تکلیف جس سے سوئیاں سے چبھتی ہوئی محسوس ہوں) سے مخاطب ہے کہ تو کہاں اپنی تکلیف کا رونا رونے لگا ( کہ محدود ہے) یہاں تو روح و جسم پریشانیوں اور معاملت کی سوئیوں( علامتی ) کے زد پہ ہے ۔ (باقی آپ کے ارشادات کا منتظر ہوں )

چشمِ بینا چشمہء منقار ہے
دقّتِ افعال ہے اقوال میں

جہاں تک مجھے میری جہالت اجازت دیتی ہے کہ شاعر طنز کررہا ہے دیدہ وروں پہ کہ ’’ بینائی‘‘ سے تھوتھنی ایسا کام !! ، اگر محض آنکھیں ہیں تو وہ پرندوں کے پاس بھی ہیں دیدہ وری تو یہی ہے جو کہا اس پر عمل پیر ابھی ہوں ،دوسروں کو نصیحت خود میاں فصیحت نہ ہوں ۔ یوں سمجھ لیں کہ باتیں کرنا آسان اس پر عمل مشکل ہوتا ہے ۔ ( باقی آپ ہی فرمائیں گے )

ہم نفس کہنا غلط ہے گاؤ میش
روغنِ گُل بیضہء گھڑیال میں

علامتی بات اور وہی غالب کی ازلی شوخی ( جس سے ہم بھی نالاں ہیں) کہ میاں یہ گائے بھیڑ کے ایک ہونے کی کیا رٹ لگا رہے ہو یہ تو ’’ شتر گربہ ‘‘ ہوگیا ۔۔:rollingonthefloor: -- بالکل ایسے ہی جیسے پھول کا روغن مگر مچھ کے انڈے میں ڈھونڈنا۔۔ ( باقی آپ ہی فرمائیں گے کہ مجھ ایسے اڑیل کو مہمیز دیتے ہیں ) :party:

غالبِ تیرہ دروں بیروں سیاہ
زُلفِ مشکیں پنجہء خلخال میں

غالب اندر سے تیرگی کا مارا ہوا ( جلا بھنا ہوا :tongue: ) اور باہر سے بھی سیاہی میں ایسے آن پھنسا ہے جیسے پانزیب میں بال پھنس جائیں ۔۔۔۔۔۔۔ :rollingonthefloor::rollingonthefloor:

سبحان اللہ سبحان اللہ کیا بات ہے واہ ۔۔ واہ ۔واہ ۔
بہت خوب ۔ بہت شکریہ فاتح بھیا۔

امید ہے تشفی ہوگئی ہوگی ۔۔ :lovestruck::rollingonthefloor:
 

فاتح

لائبریرین
فاتح صاحب آپ نے وضاحت کردی کہ غالب کا ہی کلام ہے تو حاضر ہے ہماری فروگزاشت سے لتھڑی ہوئی ’’ تفہیم ‘‘ میں ساتھ ہی وضاحت کیے دیتا ہو ں کہ کیوں یہ اشعار اقتباس کے چاک پر رکھے ۔ گھنٹہ بھر پہلے بھی اچھا خاصا لکھ لیا تھا مگر ملعون بجلی نے داغ ِ مفارقت لگا دیا ماتھے پر :

سوزشِ دل تو کہاں اس حال میں
جان و تن ہیں سوزنِ جنجال میں​
شاعر نے سوزش کو ایک کیفیت سے نکال کر تجسیم کیا یعنی اسم ِکیفیت سے مجرد و مشخص کیا یہی بات اس شعر کو پسند کرنے کاسبب بنی ، بہر حال یہاں سوزشِ>دل< ( یعنی ایسی تکلیف جس سے سوئیاں سے چبھتی ہوئی محسوس ہوں) سے مخاطب ہے کہ تو کہاں اپنی تکلیف کا رونا رونے لگا ( کہ محدود ہے) یہاں تو روح و جسم پریشانیوں اور معاملت کی سوئیوں( علامتی ) کے زد پہ ہے ۔ (باقی آپ کے ارشادات کا منتظر ہوں )

چشمِ بینا چشمہء منقار ہے
دقّتِ افعال ہے اقوال میں​
جہاں تک مجھے میری جہالت اجازت دیتی ہے کہ شاعر طنز کررہا ہے دیدہ وروں پہ کہ ’’ بینائی‘‘ سے تھوتھنی ایسا کام !! ، اگر محض آنکھیں ہیں تو وہ پرندوں کے پاس بھی ہیں دیدہ وری تو یہی ہے جو کہا اس پر عمل پیر ابھی ہوں ،دوسروں کو نصیحت خود میاں فصیحت نہ ہوں ۔ یوں سمجھ لیں کہ باتیں کرنا آسان اس پر عمل مشکل ہوتا ہے ۔ ( باقی آپ ہی فرمائیں گے )

ہم نفس کہنا غلط ہے گاؤ میش
روغنِ گُل بیضہء گھڑیال میں​
علامتی بات اور وہی غالب کی ازلی شوخی ( جس سے ہم بھی نالاں ہیں) کہ میاں یہ گائے بھیڑ کے ایک ہونے کی کیا رٹ لگا رہے ہو یہ تو ’’ شتر گربہ ‘‘ ہوگیا ۔۔:rollingonthefloor: -- بالکل ایسے ہی جیسے پھول کا روغن مگر مچھ کے انڈے میں ڈھونڈنا۔۔ ( باقی آپ ہی فرمائیں گے کہ مجھ ایسے اڑیل کو مہمیز دیتے ہیں ) :party:

غالبِ تیرہ دروں بیروں سیاہ
زُلفِ مشکیں پنجہء خلخال میں​
غالب اندر سے تیرگی کا مارا ہوا ( جلا بھنا ہوا :tongue: ) اور باہر سے بھی سیاہی میں ایسے آن پھنسا ہے جیسے پانزیب میں بال پھنس جائیں ۔۔۔۔۔۔۔ :rollingonthefloor::rollingonthefloor:

سبحان اللہ سبحان اللہ کیا بات ہے واہ ۔۔ واہ ۔واہ ۔
بہت خوب ۔ بہت شکریہ فاتح بھیا۔
امید ہے تشفی ہوگئی ہوگی ۔۔ :lovestruck::rollingonthefloor:

سبحان اللہ سبحان اللہ کیا بات ہے واہ ۔۔ واہ ۔واہ ۔
بہت خوب ۔ بہت شکریہ مغل بھیا

ویسے حضور کیا ذیل کا شعر پسند نہیں آیا؟
نور کا عالم پری ہو یا کہ حور
ہے صفائی سیم تن کی کھال میں​

قبلہ چند لمحات عطا ہوں‌کہ خاکسار اس کلام کی تفصیل حوالہ جات کے ساتھ پیش کرنے کو ہے۔:)
 

فاتح

لائبریرین
مرزا غالب اور ان کے طرفدار

یہ محض‌ایک مذاق تھا۔
کچھ روز قبل یہ دھاگا کھولا تھا اور اس میں بلا تمہید و توضیح چند اشعار نقل کر دیے جن کے مقطع میں تخلص "غالب" موجود تھا۔ دراصل یہ ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل کے مجموعہ کلام "بخار دل" میں شامل ایک مضمون "مرزا غالب اور ان کے طرفدار" سے ادھورا اقتباس تھا۔

اس مذاق کے دوران اگر کسی دوست (خصوصاً م م مغل صاحب جیسے معصوم اور مخلص دوست) کی دل آزاری ہوئی اس کی تہہ دل سے معافی چاہتا ہوں۔ معاذ اللہ میرا مقصد کسی کی توہین یا ہتک ہر گز نہ تھا بلکہ محض مزاح اور ایک تاریخی واقعہ محفل کے احباب کے ساتھ شیئر کرنا تھا۔

اس مضمون کا مکمل متن ذیل میں حاضر ہے:
مرزا غالب اور ان کے طرفدار
مرزا غالب مشکل گو شاعر بھی تھے اور فلاسفر بھی۔ لیکن جب جامِ دو آتشہ کے نشہ میں شعر کہتے تھے تو کبھی کبھی کوئی لفظ یا فقرہ شعر میں محذوف بھی ہو جایا کرتا تھا۔ اگرچہ کھینچ تان کر اس شعر کے معنے تو نکل سکتے تھے مگر اس کھینچا تانی کے لیے بھی ماڈرن دماغ ہی چاہیے تھا۔ شاعر پرستی بھی ایک فیشن ہے۔ اس موجودہ زمانہ میں جب غالب بے حد ہر دل عزیز ہو گئے ہیں تو ہر شخص خواہ لائق ہو یا نالائق ان کی تائید کرنے لگا ہے۔
بے معنی اشعار کے معنی نکلنے لگے ہیں۔ اور ٹٹ پونجیے بھی غالب دان بن گئے ہیں۔ جو باتیں مومن، ذوق اور دیگر آئمہ الشعرا کی سمجھ میں نہ آئی تھیں وہ آج کل کے سینما بین نوجوانوں کو نظر آنے لگی ہیں۔ اُس زمانہ کے ایک بڑے قادر الکلام شاعر نے خود مرزا غالب کو مجلس میں مخاطب کر کے یہ کہا تھا کہ
کلامِ میر سمجھے اور کلامِ میرزا سمجھے
مگر ان کا کہا یہ آپ سمجھیں یا خدا سمجھے​
اور غالب آپ بھی اپنے اس نقص کے معترف تھے کہ میرے بعض اشعار بے معنی ہوتے ہیں۔ چنانچہ خود ان کا ہی کلام ہے کہ
نہ سہی گر مرے اشعار میں معنی نہ سہی​

میرا یہ مطلب نہیں کہ غالب معمولی شاعر تھے۔ بلکہ مطلب یہ ہے کہ گو وہ نہایت اعلیٰ اور فلسفیانہ اشعار کہتے تھے مگر بعض اشعار ان کے مشکل اور دقیق اور بعض واقعی بے معنی ہوا کرتے تھے۔ اور سب اہل الرائے ادیبوں اور شاعروں نے اس بات کو تسلیم کیا ہے۔ مگر آج کل ایک فرقہ ایسا پیدا ہو گیا ہے جو ان کو ناواجب طور پر آسمان پر چڑھا رہا ہے۔ انہی میں سے ایک ہمارے دوست محمد جی صاحب بھی تھے۔ وہ کہا کرتے تھے "واہ غالب! غالب! غالب! تیرا کلام کیسا عجیب ہے۔ میرے نزدیک تیرا ایک بھی شعر بے معنی نہیں ہے۔ ایک بھی بندش بغیر خوبی کے نہیں ہے۔ وہ لوگ بد تمیز، بے علم اور احمق ہیں جو تیرے اشعار کو مشکل یا بے معنی کہتے ہیں۔ مجھ سے پوچھیں تو میں انہیں تیرے اشعار آب دار کی تفسیر کر کے بتاؤں"۔

جولائی 1906 کا زمانہ تھا۔ ایک دن جب میں ایسے فقرے سنتے سنتے تھک گیا تو ان سے عرض کیا کہ بھائی محمد جی صاحب ہمارے پاس بھی آپ کے مکرم محترم غالب کی ایک غیر مطبوعہ غزل ہے۔ جب جانیں تم اس کے صحیح معنے کر دو۔ ورنہ شیخی بگھارنا کوئی خوبی نہیں۔ کہنے لگے ابھی لائیے ابھی۔ میں نے عرض کیا کل پیش کروں گا۔ چنانچہ رات کو ہماری پارٹی نے غالب بن کر ان کے طرز کی ایک غزل بنائی۔ اس سازش میں تین چار آدمی شریک تھے۔ دوسرے دن جب محمد جی صاحب تشریف لائے تو ہم نے وہ غزل پیش کی۔ پہلے تو وہ دیر تک اسے پڑھتے رہے پھر فرمانے لگے "بے شک ہے تو یہ غالب ہی کی" پھر جھومنے لگے "واہ کیا کلام ہے۔۔۔ کیا باریک نکات ہیں۔۔۔ کیا الفاظ کی بندش ہے۔۔۔ کیا گہرائیاں ہیں۔۔۔ کیا معانی ہیں۔۔۔ بس قربان ہونے کو جی چاہتا ہے"۔

یہ کہہ کر انہوں نے ایک ایک شعر کی باریکیاں اور معنے بیان کرنے شروع کیے۔ جب آخری شعر کی تفسیر سے فارغ ہوئے تو حاضرین نے ایک قہقہہ لگایا۔ پھر تالیاں پیٹیں اور آخر میں تین دفعہ ہپ ہپ ہرے کا نعرہ بلند کیا۔ محمد جی صاحب بے چارے پریشان ہو گئے۔ کہنے لگے کیا بات ہے؟ آخر جب اصل بات معلوم ہوئی تو شرمندگی کے مارے ان کی یہ حالت ہو گئی جیسے گھڑوں پانی سر پر پڑ گیا ہو۔ بار بار پوچھتے کہ "سچ بتاؤ۔ واقعی یہ غزل غالب کی نہیں ہے؟ کہیں مجھے بنا تو نہیں رہے؟" مگر جب انہیں یقین آ گیا تو پھر ایسے ففرد ہوئے کہ مدتوں تک ان کی زیارت نصیب نہ ہوئی۔ اس کے بعد جب بھی ہم ملے تو اکھڑے اکھڑے۔ اور اس واقعہ کے بعد تو انہوں نے غالب کا نام ہی نہ لینے کی گویا قسم کھا لی۔

ناظرین کے تفنن طبع کے لیے وہ غزل درج ذیل ہے۔
(واضح ہو کہ اس واقعہ سے غالب مرحوم کے کمال اور ان کی شاعری کی سبکی یا توہین ہر گز مقصود نہیں بلکہ موجودہ زمانے کے بعض غالب شناسوں کی حالت کا دکھانا مقصود ہے)
سوزشِ دل تو کہاں اس حال میں
جان و تن ہیں سوزنِ جنجال میں

چشمِ بینا چشمہء منقار ہے
دقّتِ افعال ہے اقوال میں

نور کا عالم پری ہو یا کہ حور
ہے صفائی سیم تن کی کھال میں

ہم نفس کہنا غلط ہے گاؤ میش
روغنِ گُل بیضہء گھڑیال میں

غالبِ تیرہ دروں بیروں سیاہ
زُلفِ مشکیں پنجہء خلخال میں​
 

مغزل

محفلین
یہ محض‌ایک مذاق تھا۔
کچھ روز قبل یہ دھاگا کھولا تھا اور اس میں بلا تمہید و توضیح چند اشعار نقل کر دیے جن کے مقطع میں تخلص "غالب" موجود تھا۔ دراصل یہ ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل کے مجموعہ کلام "بخار دل" میں شامل ایک مضمون "مرزا غالب اور ان کے طرفدار" سے ادھورا اقتباس تھا۔

اس مذاق کے دوران اگر کسی دوست (خصوصاً م م مغل صاحب جیسے معصوم اور مخلص دوست) کی دل آزاری ہوئی اس کی تہہ دل سے معافی چاہتا ہوں۔ معاذ اللہ میرا مقصد کسی کی توہین یا ہتک ہر گز نہ تھا بلکہ محض مزاح اور ایک تاریخی واقعہ محفل کے احباب کے ساتھ شیئر کرنا تھا۔

اس مضمون کا مکمل متن ذیل میں حاضر ہے:

شکریہ فاتح صاحب ۔ آپ کا مذاق تھا کسی کی جان گئی ، امیدہے آپ آئندہ مجھ جاہل کی جہالت کا امتحان لینے سے باز آجائیں گے ۔ ( مذاق کیجے ، مذاق اُڑائیے مت )
 
Top