مرزا غالب اور ان کے طرفدار
مرزا غالب مشکل گو شاعر بھی تھے اور فلاسفر بھی۔ لیکن جب جامِ دو آتشہ کے نشہ میں شعر کہتے تھے تو کبھی کبھی کوئی لفظ یا فقرہ شعر میں محذوف بھی ہو جایا کرتا تھا۔ اگرچہ کھینچ تان کر اس شعر کے معنے تو نکل سکتے تھے مگر اس کھینچا تانی کے لیے بھی ماڈرن دماغ ہی چاہیے تھا۔ شاعر پرستی بھی ایک فیشن ہے۔ اس موجودہ زمانہ میں جب غالب بے حد ہر دل عزیز ہو گئے ہیں تو ہر شخص خواہ لائق ہو یا نالائق ان کی تائید کرنے لگا ہے۔
بے معنی اشعار کے معنی نکلنے لگے ہیں۔ اور ٹٹ پونجیے بھی غالب دان بن گئے ہیں۔ جو باتیں مومن، ذوق اور دیگر آئمہ الشعرا کی سمجھ میں نہ آئی تھیں وہ آج کل کے سینما بین نوجوانوں کو نظر آنے لگی ہیں۔ اُس زمانہ کے ایک بڑے قادر الکلام شاعر نے خود مرزا غالب کو مجلس میں مخاطب کر کے یہ کہا تھا کہ
کلامِ میر سمجھے اور کلامِ میرزا سمجھے
مگر ان کا کہا یہ آپ سمجھیں یا خدا سمجھے
اور غالب آپ بھی اپنے اس نقص کے معترف تھے کہ میرے بعض اشعار بے معنی ہوتے ہیں۔ چنانچہ خود ان کا ہی کلام ہے کہ
نہ سہی گر مرے اشعار میں معنی نہ سہی
میرا یہ مطلب نہیں کہ غالب معمولی شاعر تھے۔ بلکہ مطلب یہ ہے کہ گو وہ نہایت اعلیٰ اور فلسفیانہ اشعار کہتے تھے مگر بعض اشعار ان کے مشکل اور دقیق اور بعض واقعی بے معنی ہوا کرتے تھے۔ اور سب اہل الرائے ادیبوں اور شاعروں نے اس بات کو تسلیم کیا ہے۔ مگر آج کل ایک فرقہ ایسا پیدا ہو گیا ہے جو ان کو ناواجب طور پر آسمان پر چڑھا رہا ہے۔ انہی میں سے ایک ہمارے دوست محمد جی صاحب بھی تھے۔ وہ کہا کرتے تھے "واہ غالب! غالب! غالب! تیرا کلام کیسا عجیب ہے۔ میرے نزدیک تیرا ایک بھی شعر بے معنی نہیں ہے۔ ایک بھی بندش بغیر خوبی کے نہیں ہے۔ وہ لوگ بد تمیز، بے علم اور احمق ہیں جو تیرے اشعار کو مشکل یا بے معنی کہتے ہیں۔ مجھ سے پوچھیں تو میں انہیں تیرے اشعار آب دار کی تفسیر کر کے بتاؤں"۔
جولائی 1906 کا زمانہ تھا۔ ایک دن جب میں ایسے فقرے سنتے سنتے تھک گیا تو ان سے عرض کیا کہ بھائی محمد جی صاحب ہمارے پاس بھی آپ کے مکرم محترم غالب کی ایک غیر مطبوعہ غزل ہے۔ جب جانیں تم اس کے صحیح معنے کر دو۔ ورنہ شیخی بگھارنا کوئی خوبی نہیں۔ کہنے لگے ابھی لائیے ابھی۔ میں نے عرض کیا کل پیش کروں گا۔ چنانچہ رات کو ہماری پارٹی نے غالب بن کر ان کے طرز کی ایک غزل بنائی۔ اس سازش میں تین چار آدمی شریک تھے۔ دوسرے دن جب محمد جی صاحب تشریف لائے تو ہم نے وہ غزل پیش کی۔ پہلے تو وہ دیر تک اسے پڑھتے رہے پھر فرمانے لگے "بے شک ہے تو یہ غالب ہی کی" پھر جھومنے لگے "واہ کیا کلام ہے۔۔۔ کیا باریک نکات ہیں۔۔۔ کیا الفاظ کی بندش ہے۔۔۔ کیا گہرائیاں ہیں۔۔۔ کیا معانی ہیں۔۔۔ بس قربان ہونے کو جی چاہتا ہے"۔
یہ کہہ کر انہوں نے ایک ایک شعر کی باریکیاں اور معنے بیان کرنے شروع کیے۔ جب آخری شعر کی تفسیر سے فارغ ہوئے تو حاضرین نے ایک قہقہہ لگایا۔ پھر تالیاں پیٹیں اور آخر میں تین دفعہ ہپ ہپ ہرے کا نعرہ بلند کیا۔ محمد جی صاحب بے چارے پریشان ہو گئے۔ کہنے لگے کیا بات ہے؟ آخر جب اصل بات معلوم ہوئی تو شرمندگی کے مارے ان کی یہ حالت ہو گئی جیسے گھڑوں پانی سر پر پڑ گیا ہو۔ بار بار پوچھتے کہ "سچ بتاؤ۔ واقعی یہ غزل غالب کی نہیں ہے؟ کہیں مجھے بنا تو نہیں رہے؟" مگر جب انہیں یقین آ گیا تو پھر ایسے ففرد ہوئے کہ مدتوں تک ان کی زیارت نصیب نہ ہوئی۔ اس کے بعد جب بھی ہم ملے تو اکھڑے اکھڑے۔ اور اس واقعہ کے بعد تو انہوں نے غالب کا نام ہی نہ لینے کی گویا قسم کھا لی۔
ناظرین کے تفنن طبع کے لیے وہ غزل درج ذیل ہے۔
(واضح ہو کہ اس واقعہ سے غالب مرحوم کے کمال اور ان کی شاعری کی سبکی یا توہین ہر گز مقصود نہیں بلکہ موجودہ زمانے کے بعض غالب شناسوں کی حالت کا دکھانا مقصود ہے)
سوزشِ دل تو کہاں اس حال میں
جان و تن ہیں سوزنِ جنجال میں
چشمِ بینا چشمہء منقار ہے
دقّتِ افعال ہے اقوال میں
نور کا عالم پری ہو یا کہ حور
ہے صفائی سیم تن کی کھال میں
ہم نفس کہنا غلط ہے گاؤ میش
روغنِ گُل بیضہء گھڑیال میں
غالبِ تیرہ دروں بیروں سیاہ
زُلفِ مشکیں پنجہء خلخال میں