سوشل میڈیا اور اخلاقی اقدار

بسم اللہ الرحمن الرحیم​

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
اردو سوشل سائٹس سے وابستگی کے دوران جو سوالات میرے ذہن میں شدت سے سر اٹھاتے ہیں ان میں سے ایک اپنے معاشرے کی اخلاقی اقدار کے متعلق ہے ۔
میری سمجھ سے بالاتر ہے کہ انسانوں پر ذاتی تبصرے کا حق ہمیں کس نے دیا ہے ۔ خواہ وہ انسان کوئی بہت بری شہرت کا حامل سیاست دان ہو؟ مجھے اس سچ کے اظہار کے لیے معاف فرمائیے کہ سیاست دان بھی انسان ہوتے ہیں۔
ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ، مکارم اخلاق کی تکمیل کے لیے مبعوث کیے گئے تھے ۔ آپ ﷺ نے فرمایا ہے : مسلمان کی جان، مال، عزت دوسرے مسلمان پر حرام ہے سوائے اسلام کے حق کے ۔
کیا کسی انسان کے بری شہرت کا حامل ہونے کا یہ مطلب ہے کہ اس کی عزت ہم پر حلال ہو گئی ہے ؟ کوئی عورت خواہ شو بز سے تعلق رکھتی ہے اور کتنی ہی بری شہرت رکھتی ہے پھر بھی میرے لیے یہ کیسے جائز ہے کہ اس کے متعلق بلاثبوت کوئی بات کر دوں؟ ہمیں کیسے یقین ہے کہ ہم جو جی میں آئے اس کے بارے میں کہہ ڈالیں ، ہم سے کوئی حساب نہ ہو گا؟ یوں لگتا ہے کہ سوشل میڈیا پر سیاست دان ، ایکٹر ، کھلاڑی، علماء، مشہور یا غیر معروف انسانوں کے متعلق ہم سب کچھ بلا ثبوت کہنے کی آزادی رکھتے ہیں ۔ اور اگر سیاست دان عورت ہو تو ۔۔۔ ہمیں زیادہ چٹ پٹی باتیں کرنے کا موقع مل جاتا ہے، جب مقدس مشرق کے سپوتوں کو ہرجملے میں ذومعنی مضمون سوجھ رہے ہوں تو روکھی سوکھی اخلاقیات کہاں یاد آتی ہیں ؟
یہاں ایک اور سچ کی جانب توجہ مبذول کرانے کی خواہش ہے کہ عورت بھی ۔۔۔ انسان ہے ۔ نہ کم تر ، نہ بر تر ، صرف انسان ۔ بعض سطحی قلم کاروں کا اسے ہمیشہ ایک ہی زاوئیے سے دیکھنا کسی شدید مرض کی علامت تو ہو سکتا ہے کوئی قابل فخر بات نہیں ۔
مجھے افسوس ہے کہ صحافت کے ساتھ ساتھ سماجی ویب سائٹس کے آئینے میں ہمارے اخلاقی چہرے کا کوئی اتنا اچھا عکس نہیں بن رہا ۔ میں اپنے سماج کی اخلاقی بدصورتی سے نظر چرا کر جاؤں تو جاؤں کہاں ؟ مجھے اپنے لوگوں میں رہنا اچھا لگتا ہے لیکن جب ایسی باتیں ہوتی ہیں تو مجھے دکھ ہوتا ہے ۔ کیا ہم آج اس مسئلے پر اپنے منصفانہ محاسبے کا آغاز کر کے کسی مفید نتیجے تک پہنچ سکتے ہیں؟​
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
آپ کے تمام بیان کردہ عوامل کی بنیاد دین سے دوری کے سوا کچھ نہیں۔ اور اس دوری کا سبب کیا ہے؟
اس بات کو ماننے میں کوئی عار نہیں کہ بحثیت قوم ہم میں برداشت کی شدید کمی ہے۔ :) تبدیلی کا عمل تو اپنے سے ہی شروع ہوتا ہے۔ حسن اخلاق سب سے بنیادی جزو ہے تبدیلی لانے کا۔ ہم کسی کو ڈنڈے کے زور پر نہیں بدل سکتے۔ اگر آج سارا معاشرہ اچھے اخلاق کی مثال بن جائے تو مثبت تبدیلی کا عمل زیادہ دور نہیں۔ ممکن ہی نہیں کہ حسب منشاء نتائج نہ حاصل ہوں۔ یہ برائیاں بدرجہ اتم حضور:pbuh: کے دور میں بھی تھیں اور آپ نے لوگوں کو برا بھلا نہ کہا تھا۔ بلکہ لوگ آپ کے حسن اخلاق سے آپ کے پاس خود آئے تھے۔ :) ہمارے دور کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ نیکی کی طرف بلانے والوں کی زبان بہت سخت ہے۔ اور وہ نرم گفتاری کا سبق ازبر تو کرتے ہیں پر عمل کی منزل سے کوسوں دور ہیں۔ یاد رہے کہ میں اکثریت کی بات کر رہا ہوں۔ اور ہر عالم اکثریت کے زمرے میں نہیں آتا۔
 
تبدیلی کا عمل تو اپنے سے ہی شروع ہوتا ہے۔۔۔
جی اسی خیال سے یہ موضوع شروع کیا ہے کہ دیکھیں بھلا ہم عوام الناس جو سوشل میڈیا پر بیٹھ کر علما سے لے کر سیاست دانوں تک سب کا روا و نا روا محاسبہ کرتے ہیں ، اپنے محاسبے کے لیے کتنے با شعور ثابت ہوتے ہیں ؟
انتخابات کا زمانہ بھی قریب ہے ۔ اگر ہم ذاتیات کے بغیر سیاست پر بات کرنا سیکھ جائیں تو شاید سیاسی مباحثوں پر خوش گوار اثر پڑے ۔
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
جی اسی خیال سے یہ موضوع شروع کیا ہے کہ دیکھیں بھلا ہم عوام الناس جو سوشل میڈیا پر بیٹھ کر علما سے لے کر سیاست دانوں تک سب کا روا و نا روا محاسبہ کرتے ہیں ، اپنے محاسبے کے لیے کتنے با شعور ثابت ہوتے ہیں ؟
ہم تو ایسے دھاگوں سے ویسے ہی دور بھاگتے ہیں جہاں اخلاق کی دھجیاں بکھیری جائیں۔ ہمارے اندر تو یہ مثبت تبدیلی آ رہی ہے۔ بقیہ بھی اپنا محاسبہ شروع کریں :)
 
ہمارے دور کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ نیکی کی طرف بلانے والوں کی زبان بہت سخت ہے۔ اور وہ نرم گفتاری کا سبق ازبر تو کرتے ہیں پر عمل کی منزل سے کوسوں دور ہیں۔ یاد رہے کہ میں اکثریت کی بات کر رہا ہوں۔ اور ہر عالم اکثریت کے زمرے میں نہیں آتا۔
چلیے ’مصلحین کی اصلاح ‘ پھر ہوتی رہے گی ، یہاں سوال ہمارے اپنے طرز عمل کا ہے ۔
ویسے مجھے کوئی ڈانٹ کر نماز یاد دلائے گا تو بھی مجھے اچھا لگے گا کہ اس میں بھی میری فکر کا احساس ہو گا ۔ لیکن یہ ایک ایسی بحث ہے جو اسلامی تعلیمات سیکشن میں کرنا بہتررہے گا ۔
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
چلیے ’مصلحین کی اصلاح ‘ پھر ہوتی رہے گی ، یہاں سوال ہمارے اپنے طرز عمل کا ہے ۔
ویسے مجھے کوئی ڈانٹ کر نماز یاد دلائے گا تو بھی مجھے اچھا لگے گا کہ اس میں بھی میری فکر کا احساس ہو گا ۔ لیکن یہ ایک ایسی بحث ہے جو اسلامی تعلیمات سیکشن میں کرنا بہتررہے گا ۔
نہیں ایسی بات نہیں۔ معاشرتی زندگی اور اسلام الگ نہیں۔
رہی بات طرز عمل کی تو وہ اسلام سے دوری ہی کی وجہ سے ہے کہ ہم نے رواداری اور مروت کا دامن چھوڑ دیا ہے۔
اگر مجھے کوئی بدتمیزی کرے گا۔ مجھے کہے گا کہ کیا بکواس ہے۔ اور آپ کو پتہ نہیں ہے۔ آپ جاہل ہیں۔ تو ایسے عالم کی میں آئندہ شکل دیکھنا بھی پسند نہ کروں گا، کجا یہ کہ میں اس سے کچھ سیکھنے کا سوچوں۔ لہذا اصلاح دونوں طرف سے ہوگی۔ جہاں تک میری اپنی ذات کا تعلق ہے۔ میں نے کبھی کسی سے بدتمیزی یا بداخلاقی نہیں کی۔ اور جہاں ایسا بازار گرم ہو میں وہاں سے کنارا کرتا ہوں :)
 
نہیں ایسی بات نہیں۔ معاشرتی زندگی اور اسلام الگ نہیں۔
رہی بات طرز عمل کی تو وہ اسلام سے دوری ہی کی وجہ سے ہے کہ ہم نے رواداری اور مروت کا دامن چھوڑ دیا ہے۔
آپ نے اس دھاگے کو اسلامی تعلیمات سیکشن منتقل کرا کے دم لینا ہے !
مسئلہ یہ ہے کہ میری ہر تحریر میں اسلام کا حوالہ لاشعوری طور پر آ جاتا ہے ۔ اوپر سے آپ مزید بگھار لگا رہے ہیں ۔
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
آپ نے اس دھاگے کو اسلامی تعلیمات سیکشن منتقل کرا کے دم لینا ہے !
مسئلہ یہ ہے کہ میری ہر تحریر میں اسلام کا حوالہ لاشعوری طور پر آ جاتا ہے ۔ اوپر سے آپ مزید بگھار لگا رہے ہیں ۔
مجھے اس میں ایسی کوئی بات نظر نہیں آتی کہ اسلامی تعلیمات کی طرف جائے۔ بات معاشرے کی ہو رہی۔ اور معاشرتی فکر بحثیت مسلمان اسلام سے الگ نہیں۔ خیر جانے دیجیئے۔ میں خاموش ہو جاتا ہوں :)
اور تبدیلی کے لیئے آپ کسی سے سند لے سکتی ہے کہ نیرنگ خیال کسی کی رائے کو حقیر نہیں سمجھتا۔وغیرہ وغیرہ
باقی احباب بھی انشاءاللہ تبدیلی سے آگاہ کردیں گے۔
 
سوشل میڈیا بالخصوص فیس بک پر جس قسم کے مظاہرے، تبصرے وغیرہ دیکھنے کو ملتے ہیں وہ ایک عمومی نفسیات کا اظہار کرتے ہیں اور وہ عمومی نفسیات ردعمل کی نفسیات ہے۔ سطحی سوچ رکھنا، بغیر کسی تحقیق کے نتائج اخذ کرلینا، عجلت پسندی، لوگوں کو جج کرتے وقت بھول جانا کہ ہم اسکے اہل نہیں ہیں، سوء ظن کا غلبہ(جیسے ہم ہوتے ہیں دوسرے بھی ہمیں ویسے دکھتے ہیں عام طور پر)۔
 

سید زبیر

محفلین
امریک صدر کی اہلیہ مسز ایلینور روز ویلٹ نے شائد ہم جیسے لوگوں کے لیے ہی کہا تھا​
"عظیم ذہن والے لوگ نظریات پر بحث کرتے ہیں
اوسط ذہن والے لوگ واقعات پر بحث کرتے ہیں
اور چھوٹے ذہن کے لوگ شخصیات پر بحث کرتے ہیں "
ہم اپنی ذہنی توانائی صرف شخصیات کے محاسن یا برائیاں تلاش کرنے میں صرف کردیتے ہیں نہ ہمیں اس ہستی کی تعلیمات سے آگاہی ہوتی ہے اور نہ ہی اس پر عمل کرنے کے خواہاں ہوتے ہیں ۔​
اللہ تبارک تعالیٰ ہمیں اپنا احتساب اور نیک عمل کی توفیق عطا فرمائے ۔ ہمیں منافقت ، غیبت اور بد ظنی سے بچائے (آمین)​
 
امریک صدر کی اہلیہ مسز ایلینور روز ویلٹ نے شائد ہم جیسے لوگوں کے لیے ہی کہا تھا​
"عظیم ذہن والے لوگ نظریات پر بحث کرتے ہیں
اوسط ذہن والے لوگ واقعات پر بحث کرتے ہیں
اور چھوٹے ذہن کے لوگ شخصیات پر بحث کرتے ہیں "
ہم اپنی ذہنی توانائی صرف شخصیات کے محاسن یا برائیاں تلاش کرنے میں صرف کردیتے ہیں نہ ہمیں اس ہستی کی تعلیمات سے آگاہی ہوتی ہے اور نہ ہی اس پر عمل کرنے کے خواہاں ہوتے ہیں ۔​
اللہ تبارک تعالیٰ ہمیں اپنا احتساب اور نیک عمل کی توفیق عطا فرمائے ۔ ہمیں منافقت ، غیبت اور بد ظنی سے بچائے (آمین)​
بہت اچھی بات کی آپ نے۔۔میں سو فیصد متفق ہوں۔
 
امریک صدر کی اہلیہ مسز ایلینور روز ویلٹ نے شائد ہم جیسے لوگوں کے لیے ہی کہا تھا​
"عظیم ذہن والے لوگ نظریات پر بحث کرتے ہیں
اوسط ذہن والے لوگ واقعات پر بحث کرتے ہیں
اور چھوٹے ذہن کے لوگ شخصیات پر بحث کرتے ہیں "
ہم اپنی ذہنی توانائی صرف شخصیات کے محاسن یا برائیاں تلاش کرنے میں صرف کردیتے ہیں نہ ہمیں اس ہستی کی تعلیمات سے آگاہی ہوتی ہے اور نہ ہی اس پر عمل کرنے کے خواہاں ہوتے ہیں ۔​
اللہ تبارک تعالیٰ ہمیں اپنا احتساب اور نیک عمل کی توفیق عطا فرمائے ۔ ہمیں منافقت ، غیبت اور بد ظنی سے بچائے (آمین)​
آمین ۔
بہت ہی خوب صورت ماشاءاللہ ۔

اس تحریر میں شوبز ایکٹرز کا بھی ذکر تھا۔ اللہ نہ کرے کہ مجھے ان کی تعلیمات کی کبھی خبر ہو لیکن پھر بھی بلاثبوت ان پر بھی انگشت نمائی کرنا یا ان کی عزت کو حلال سمجھنا میرے نزدیک غلط ہے ۔ خصوصا تب جب ہم ان کی چٹ پٹی برائیاں کرتے ہوئے برائی کی ترویج میں حصہ لینے لگتے ہیں ۔
 

سید زبیر

محفلین
میری عظیم بہن ام نور العين ! اس تحریر میں شو بز ایکٹرز کا ذکر تھا ، ان کی کیا تعلیمات ہونی ، ان میں خاص طور پر خواتین حقارت کی نہیں بلکہ ہمدردی کی مستحق ہیں ۔ اللہ کے نزدیک کس کا کیا مرتبہ ہے یہ تو وہی جانتا ہے ۔ کسی کے گناہ آشکا رہ ہو جاتے ہیں اور کسی کو اللہ کریم پردے میں رکھتا ہے ۔ اشفاق احمد نے اپنی کتاب زاویہ ۲ کے صفحہ نمبر ۱۳۰ اور زاو یہ ۳ کے صفحہ نمبر ۱۲۱ پر ایسے ہی واقعات لکھے ہیں ۔آپ آسانی سے ڈاونلوڈ کر کے پڑھ سکتی ہیں اللہ کریم سے کرم اور رحم کی دعا ہے​
 

یوسف-2

محفلین
وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ و برکاتہ
کیا اس دھاگہ کا مطلب یہ ہے کہ میڈیا پرسنز اورسوشیل میڈیا پر لکھنے والے سیاستدانوں، حکمرانوں کے ”ذاتی عیوب“ کی پردہ پوشی کریں اور عوام کو اس بات سے آگاہ نہ کریں کہ ہمارے حکمران کیا کیا حرکتیں کر رہے ہیں۔ اسی طرح جو لوگ ”عومی نمائندگی“ کے لئے پر تول رہے ہیں، ان کے ”سیاہ کارناموں“ سے عوام کو بے خبر رکھیں تاکہ وہ انجانے میں ایک بار پھر ایسے لوگوں کو منتخب کرلیں جو ایک مسلم ریاست کی حکمرانی کے لئے شرعاً نا اہل ہیں۔
یہ ہماری میڈیا اور سوشیل میڈیا کی ایسی ہی ”پردہ پوشی“ کا نتیجہ ہے کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں جس کے آئین کی رو سے قادیانی غیر مسلم ہیں اور وہ اس مملکت کی سربراہی کے لئے ”کوالیفائی“ نہیں کرتے ۔۔۔ اس مملکت میں ایک عشرہ تلک صدارت و وزارت عظمیٰ کے عہدہ پر فائز رہے۔ آئیے ہم آئین پاکستان سے ایسی تمام شقوں کو ہی نکلوا دیں تاکہ ہر قسم کے ”ذاتی اخلاق و کردار۔ نظریہ و ایمان کے حامل افراد ہمارے حکمرانی کے لئے آئینی طور پر ”کوالیفائی“ کرسکیں۔ آکر کو اس ملک پاکستان میں ہندو، سکھ، عیسائی بھی رہتے ہیں اور وہ بھی صدر وزیر اعظم بننے کے برابر حقدار ہیں :eek:
شاباش ہے ہماری ”اسلامی سوچ و فکر“ پر کہ ہم کسی بھی لیڈر کی ”ذات“ پر کوئی انگلی نہ اُٹھائیں تاکہ کل پھر کوئی ”غیر مسلم“ بآسانی اسلامی جمہوریہ پاکستان کا سربراہ بن سکے۔ جبکہ ہمارے دوسرے خلیفہ راشد حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ جب عوام سے خطاب کرنے آتے ہیں تو ایک عام آدمی اُن کی ”ذات“ پر انگلی اٹھانے لگتا ہے کہ پہلے آپ اس لمبے کرتے کا حساب دیجئے کہ آپ نے یہ کیسے اور کہاں سے بنایا۔ جبکہ آپ کے ساتھ ساتھ جن جن لوگوں کو کپڑے تقسیم ہوئے تھے اس میں تو اتنا لمبا کرتا نہیں بن سکتا۔ کیا اُس وقت آج کا سا میڈیا ہوتا تو وہی فرد یہ بات میڈیا کے ذریعہ اُٹھاتا اور آپ رضی اللہ تعالیٰ کی ”ذاتی زندگی“ پر تنقید نہ کرتا :)
 
آئیے ہم آئین پاکستان سے ایسی تمام شقوں کو ہی نکلوا دیں تاکہ ہر قسم کے ”ذاتی اخلاق و کردار۔ نظریہ و ایمان کے حامل افراد ہمارے حکمرانی کے لئے آئینی طور پر ”کوالیفائی“ کرسکیں۔ آکر کو اس ملک پاکستان میں ہندو، سکھ، عیسائی بھی رہتے ہیں اور وہ بھی صدر وزیر اعظم بننے کے برابر حقدار ہیں :eek:شاباش ہے ہماری ”اسلامی سوچ و فکر“ پر کہ ہم کسی بھی لیڈر کی ”ذات“ پر کوئی انگلی نہ اُٹھائیں تاکہ کل پھر کوئی ”غیر مسلم“ بآسانی اسلامی جمہوریہ پاکستان کا سربراہ بن سکے۔ جبکہ ہمارے دوسرے خلیفہ راشد حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ جب عوام سے خطاب کرنے آتے ہیں تو ایک عام آدمی اُن کی ”ذات“ پر انگلی اٹھانے لگتا ہے کہ پہلے آپ اس لمبے کرتے کا حساب دیجئے کہ آپ نے یہ کیسے اور کہاں سے بنایا۔ جبکہ آپ کے ساتھ ساتھ جن جن لوگوں کو کپڑے تقسیم ہوئے تھے اس میں تو اتنا لمبا کرتا نہیں بن سکتا۔ کیا اُس وقت آج کا سا میڈیا ہوتا تو وہی فرد یہ بات میڈیا کے ذریعہ اُٹھاتا اور آپ رضی اللہ تعالیٰ کی ”ذاتی زندگی“ پر تنقید نہ کرتا :)
اس شاباش شریف کا شکریہ ، حقیقت میں یہ دوسرا رخ ذکر نہ ہوتا تو اس گفتگو کا کوئی فائدہ نہ ہوتا ۔ اگر آپ آئین میں ترامیم کرانے نہ چل دئیے ہوں تو میری وضاحت سنتے جائیے ۔ ذاتی معاملات میں بلا ثبوت عزت کو حلال کر لینے کا ذکر تھا اور ایک حدیث شریف بھی ذکر کی ہے ۔ آپ اس کا مفہوم اپنی پسند کی کتب سے دیکھ کر بتائیں ہم سے کیا طلب کیا گیا ہے ؟ محاسبہ ظاہری امور پر ہوتا ہے یا کسی کے گھر میں گھس کر اس کا پردہ اٹھا کر؟ امر ابلمعروف کرنے والے محتسب کے بھی آداب اور حدود ہیں یا نہیں ؟ تنقید اور تمسخر کا فرق بھی کوئی اتنا باریک نہیں کہ ہم سمجھ نہ سکیں ۔
صرف ایک مثال : ایک مقبول عام قصہ ۔۔۔ ایک گدھے اور شیرنی کی شادی ہو گئی ۔۔۔ اور پھر یہ ایک خاتون سیاست دان پر چسپاں کرنا ؟ سیاست دانوں کی شکل پر کسی کا دھڑ لگا کر سیاسی مخالفین کو تنگ کرنے کی کوشش کرنا ؟ ہم میں سے کوئی اپنی بیٹی کے لیے یہ پسند کرتا ہے ؟ یہ اسلامی محاسبہ ہے ؟
اذان مغرب کا وقت ہوا چاہتا ہے ، اس لیے مختصرا عرض کیا ۔ جب بھی فرصت ملی آپ کا نکتہ نظر ضرور پڑھنا چاہوں گی ۔ دعا کیجیے ہم کچھ بہتر ہو جائیں ۔
 
بات یہ نہیں ہورہی کہ سوشل میڈیا پر یکسر کسی پر کوئی تنقید وغیرہ نہیں ہونی چاہئیے۔۔بات تو فقط اتنی ہے کہ اخلاقی اقدار کا کیا تقاضا ہے، کیا سوشل میڈیا پربالعموم ایسا رویہ نظر آتا ہے جو ان اقدار سے ہم آہنگ ہو؟
ٹی وی چینلز پر جس تواتر سے مزاح کے نام پر مختلف شخصیات کو پھکڑ پن کا نشانہ بنایا جاتا ہے اسکا نتیجہ یہ ہے کہ ہمارے بچے بھی اسی نفسیات کے حامل ہوتے جاتے ہیں۔ ابھی چند دن پیشتر ہی میں نے دیکھا کہ میرا بیٹا جسکی عمر ابھی دس سال سے بھی کم ہے، وہ زرداری کا نام لیکر یہ کہہ رہاتھا کہ سارے ملک کو تباہ کردیا ہے اس آدمی نے ( :D ) اگرچہ کمرے میں موجود باقی لوگ اسکی اس بات اور انداز پر بے اختیار ہنسنے لگے، لیکن میں نے اسے تھوڑا ساڈانٹا اور سمجھایا کہ اس طرح نہیں کہتے۔ کیا آپ اس سے ملے ہو؟، آپ کو کیسے پتہ چلا کہ یہ آدمی بہت برا ہے اور ساری برائیاں اسکی وجہ سے ہیں؟۔۔بری بات! ! !۔۔۔چنانچہ اس نے سوری کیا۔۔۔تو صاحبان یہ نتیجہ بھی پیدا ہورہا ہے میڈیا پر مچائے جانے والے شور و غل سے، کہ ہماری اگلی نسلیں بھی اس سطحی سوچ اور ردعمل کی نفسیات کا شکار ہورہی ہیں۔
 

حسینی

محفلین
جی ہاں میرا خیال ہے ہمارے ہاں کا میڈیا ابھی چھوٹے بچے کی مانند ہے۔ اس کو تمییز سکھانے میں وقت لگے گا۔
یقینا جس طرح ہر ادارے کے بعض حدود ہوتے ہیں میڈیا کے بھی حدود طے ہونے چاہیے۔ چاہے وہ سوشل میڈیا ہو یا کوئی اور میڈیا۔
سیاستدانوں پر نقدوتنقید یقینا عوام کا حق ہے، لیکن یہ کام اچھے اور مہذب طریقے سے بھی ہو سکتا ہے۔
یہ کہاں کا طریقہ ہے کہ کسی بھی ساستدان کو گالی دے کر ہم اپنی زبان کو گندی کر لیں۔
 
Top