ام نور العين
معطل
بسم اللہ الرحمن الرحیم
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
اردو سوشل سائٹس سے وابستگی کے دوران جو سوالات میرے ذہن میں شدت سے سر اٹھاتے ہیں ان میں سے ایک اپنے معاشرے کی اخلاقی اقدار کے متعلق ہے ۔
میری سمجھ سے بالاتر ہے کہ انسانوں پر ذاتی تبصرے کا حق ہمیں کس نے دیا ہے ۔ خواہ وہ انسان کوئی بہت بری شہرت کا حامل سیاست دان ہو؟ مجھے اس سچ کے اظہار کے لیے معاف فرمائیے کہ سیاست دان بھی انسان ہوتے ہیں۔
ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ، مکارم اخلاق کی تکمیل کے لیے مبعوث کیے گئے تھے ۔ آپ ﷺ نے فرمایا ہے : مسلمان کی جان، مال، عزت دوسرے مسلمان پر حرام ہے سوائے اسلام کے حق کے ۔
کیا کسی انسان کے بری شہرت کا حامل ہونے کا یہ مطلب ہے کہ اس کی عزت ہم پر حلال ہو گئی ہے ؟ کوئی عورت خواہ شو بز سے تعلق رکھتی ہے اور کتنی ہی بری شہرت رکھتی ہے پھر بھی میرے لیے یہ کیسے جائز ہے کہ اس کے متعلق بلاثبوت کوئی بات کر دوں؟ ہمیں کیسے یقین ہے کہ ہم جو جی میں آئے اس کے بارے میں کہہ ڈالیں ، ہم سے کوئی حساب نہ ہو گا؟ یوں لگتا ہے کہ سوشل میڈیا پر سیاست دان ، ایکٹر ، کھلاڑی، علماء، مشہور یا غیر معروف انسانوں کے متعلق ہم سب کچھ بلا ثبوت کہنے کی آزادی رکھتے ہیں ۔ اور اگر سیاست دان عورت ہو تو ۔۔۔ ہمیں زیادہ چٹ پٹی باتیں کرنے کا موقع مل جاتا ہے، جب مقدس مشرق کے سپوتوں کو ہرجملے میں ذومعنی مضمون سوجھ رہے ہوں تو روکھی سوکھی اخلاقیات کہاں یاد آتی ہیں ؟
یہاں ایک اور سچ کی جانب توجہ مبذول کرانے کی خواہش ہے کہ عورت بھی ۔۔۔ انسان ہے ۔ نہ کم تر ، نہ بر تر ، صرف انسان ۔ بعض سطحی قلم کاروں کا اسے ہمیشہ ایک ہی زاوئیے سے دیکھنا کسی شدید مرض کی علامت تو ہو سکتا ہے کوئی قابل فخر بات نہیں ۔
مجھے افسوس ہے کہ صحافت کے ساتھ ساتھ سماجی ویب سائٹس کے آئینے میں ہمارے اخلاقی چہرے کا کوئی اتنا اچھا عکس نہیں بن رہا ۔ میں اپنے سماج کی اخلاقی بدصورتی سے نظر چرا کر جاؤں تو جاؤں کہاں ؟ مجھے اپنے لوگوں میں رہنا اچھا لگتا ہے لیکن جب ایسی باتیں ہوتی ہیں تو مجھے دکھ ہوتا ہے ۔ کیا ہم آج اس مسئلے پر اپنے منصفانہ محاسبے کا آغاز کر کے کسی مفید نتیجے تک پہنچ سکتے ہیں؟