سولھویں سالگرہ سولہویں سالگرہ یا سولھویں سالگرہ

یاسر شاہ

محفلین
اردو میں ہائے مخلوط(ھ) اور ہائے ملفوظ(ہ)دونوں کا استعمال علیحدہ کیا جاتا ہے۔جیسا کہ نام سے واضح ہے، ہائے مخلوط یا ہائے دو چشمی اردو میں اپنا الگ تلفظ نہیں رکھتی اور مختلف حروف سے اختلاط کے بعد ایک نئی آواز پیدا کرتی ہے جسے ہائیہ یا ہکاری آواز کہتے ہیں۔مثال : تھ'پھ'کھ' ٹھ وغیرہ وغیرہ اسی طرح رھ، لھ، مھ، نھ، وھ اور یھ آوازوں میں بھی ہائے مخلوط پوری طرح ادا نہیں ہوتی ۔یہ ہکاری آوازیں اردو میں ہندی سے آئی ہیں اور ہندی میں ایسی ہر آواز کے لیے ایک الگ حرف مختص ہے جبکہ اردو میں اس خدمت کے لیے ہائے دو چشمی کو مختص کیا گیا ہے کہ وہ اور حروف کے ساتھ مل کر یہ آوازیں پیدا کرے۔

دوسری طرف ہائے ملفوظ "ہ" باقاعدہ اپنا تلفظ رکھتی ہے ، بخوبی ادا ہوتی ہے اور شعر کی تقطیع میں شمار بھی ہوتی۔اردو املائیوں نے آوازوں کے اس فرق کو ملحوظ رکھتے ہوئے دونوں "ہائے" کے استعمال کی حد بندی کر دی تاکہ مغالطہ نہ ہو۔مگر ہائے ری اردو کی قسمت ! اب دیکھا یہ جا رہا ہے کہ عربی کی نقالی میں ہائے ملفوظ "ہ" کی جگہ ہائے مخلوط "ھ" عام مستعمل ہے نتیجہ یہ ہے کہ کئی تلفظ اور معنویت کی غلطیاں جنم لے رہی ہیں جیسے بہاری کباب ،بھاری کباب ہو رہے ہیں۔پہاڑ کو پھاڑ کر کے لکھتے ہیں ۔دہی کو دھی (بیٹی) بنایا جارہا ہے۔اسی طرح پہر کو پھر ،گہر کو گھر،بہانہ کو بھانہ ،دہلی کو دھلی ،بہن کو بھن لکھا جاتا ہے جو کہ غلط ہے۔

مندرجہ بالا اصول کے تحت گنتی کے ان الفاظ میں بھی ہائے مخلوط ہی استعمال ہوگی اور یوں لکھے جائیں گے:

گیارھویں/گیارھواں، بارھویں/بارھواں،تیرھویں/تیرھواں،چودھویں /چودھواں ،پندرھویں /پندرھواں ،سولھویں/سولھواں ،سترھویں/سترھواں اور اٹھارھویں/اٹھارھواں

وجہ اس کی یہ ہے کہ "سولھویں" پڑھا جاتا ہے بر وزن مولوی اور اگر "سولھویں" میں ہائے ملفوظ استعمال کی تو اس ہائے کے تلفظ کی ادائیگی کے بعد "سولہویں" بر وزن "مولائی" سمجھا جائے گا جو کہ غلط ہے۔

اسی طرح تمھارا/تمھاری،چولھا،دولھا،دولھن وغیرہ جیسے الفاظ کو بھی دو چشمی ہائے کے ساتھ لکھنا چاہیے۔
 
آخری تدوین:

یاسر شاہ

محفلین
ہم تو بھول ہی جاتے ہیں بھتیجے۔ لیکن کوشش رکھیں گے کہ یاد رکھیں۔ بہت معلوماتی شئیرنگ ہے۔
خوش رہئیے۔ جیتے رہئیے۔
آمین
آپ بھی ماشا ءاللہ اردو کی خدمت میں پیش پیش ہیں لہذا یاد رکھنے کی کوشش کیجیے گا۔
آپ بھی سدا خوش رہیں۔آمین
 

گُلِ یاسمیں

لائبریرین
آپ بھی ماشا ءاللہ اردو کی خدمت میں پیش پیش ہیں لہذا یاد رکھنے کی کوشش کیجیے گا۔
ٹھیک ہے۔
نیا یاد رکھنے کی کوشش میں پچھلا بھی بھول جاتے ہیں۔ ہماری پنجابی کوئی سمجھتا نہیں اور اردو کوئی سمجھاتا نہیں ۔ جب کہ بار بار پوچھتے بھی ہیں۔
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
مگر ہائے ری اردو کی قسمت ! اب دیکھا یہ جا رہا ہے کہ عربی کی نقالی میں ہائے ملفوظ "ہ" کی جگہ ہائے مخلوط "ھ" عام مستعمل ہے نتیجہ یہ ہے کہ کئی تلفظ اور معنویت کی غلطیاں جنم لے رہی ہیں جیسے بہاری کباب ،بھاری کباب ہو رہے ہیں۔پہاڑ کو پھاڑ کر کے لکھتے ہیں ۔دہی کو دھی (بیٹی) بنایا جارہا ہے۔اسی طرح پہر کو پھر ،گہر کو گھر،بہانہ کو بھانہ ،دہلی کو دھلی ،بہن کو بھن لکھا جاتا ہے جو کہ غلط ہے۔
مندرجہ بالا اصول کے تحت گنتی کے ان الفاظ میں بھی ہائے مخلوط ہی استعمال ہوگی اور یوں لکھے جائیں گے:
گیارھویں/گیارھواں، بارھویں/بارھواں،تیرھویں/تیرھواں،چودھویں /چودھواں ،پندرھویں /پندرھواں ،سولھویں/سولھواں ،سترھویں/سترھواں اور اٹھارھویں/اٹھارھواں
وجہ اس کی یہ ہے کہ "سولھویں" پڑھا جاتا ہے بر وزن مولوی اور اگر "سولھویں" میں ہائے ملفوظ استعمال کی تو اس ہائے کے تلفظ کی ادائیگی کے بعد "سولہویں" بر وزن "مولائی" سمجھا جائے گا جو کہ غلط ہے۔
اسی طرح تمھارا/تمھاری،چولھا،دولھا،دولھن وغیرہ جیسے الفاظ کو بھی دو چشمی ہائے کے ساتھ لکھنا چاہیے۔
یاسر بھائی ، بہت اچھی یاد دہانی کروائی آپ نے ۔ بہت شکریہ! اس طرح کی یاد دہانیاں وقتاً فوقتاً بہت ضروری ہیں ۔
ایک دو باتوں کا اس ضمن میں اضافہ کرنا چاہوں گا۔ پہلی بات تو یہ کہ اردو املا کی بحث غلط اور صحیح سے متعلق نہیں بلکہ ایک معیاری اور متفقہ املا کی ترویج سے متعلق ہے ۔ جن الفاظ کا املا اردو میں صدیوں سے مختلف فیہ چلا آرہا ہے ان کو یکسر غلط کہہ دینا تو ممکن نہیں کہ زبان میں رواج اور چلن کی اہمیت اپنی جگہ مسلم ہے ۔ اردو املا کمیٹی نے جابجا اس کا اعتراف کیا ہے اور عام چلن کی بنا پر متعدد الفاظ کے پرانے املا کو برقرار رکھا ہے ۔ لیکن یہ ضروری ہے کہ املا کمیٹی کی سفارشات کے تحت اب ایک معیاری املا پر متفق ہوا جائے اور اسےہر ممکن فروغ دیا جائے ۔ اب یہ بات بھی ہے کہ برسوں کی عادتیں تبدیل ہوتے ہوتے ہی ہوں گی ۔ :)
ابھی تک تمہیں ، انہیں ، جنہیں ، تمہارا وغیرہ کو تمھیں ، انھیں ، جنھیں ، تمھارا لکھنا عام نہیں ہوا ہے ۔ اس چلن سے اختلاف مشکل معلوم ہوتا ہے لیکن ہمیں کوشش کرتے رہنا چاہیئے ۔ گنتی کے آخر میں تو ہائے ملفوظی ہی ہے یعنی گیارہ ، بارہ ، تیرہ وغیرہ (اسی بنا پر لوگ بارہویں ، گیارہویں وغیرہ لکھتے چلےآرہے ہیں) ۔ وصفی عدد بناتے وقت اسے ہائے مخلوط سے بدل دینا چاہیئے یعنی گیارھویں ،بارھویں ، تیرھویں تاکہ املا اور تلفظ میں مطابقت پیدا ہوجائے اور املا تلفظ کا آئینہ دار بن جائے ۔
جہاں تک عروضی وزن کا تعلق ہے تو اس کا املا کےمعاملے سے سرے سے کوئی تعلق نہیں۔ جیسا کہ معلوم ہے عروضی وزن ملفوظی ہوتا ہے مکتوبی نہیں ۔ املا خواہ پندرہواں لکھا ہو یا پندرھواں ، اس کا تلفظ تو وہی کیا جاتا ہے کہ جو ہے ۔ سو عروضی وزن پر تو کوئی اثر نہیں پڑے گا۔
جہاں تک "ہ" کو "ھ" سے بدل کر لکھنے کا تعلق ہے (مثلاً ظہیر کو ظھیر لکھنا) تو اس میں لاعلمی کے علاوہ ایک عنصر فونٹ کے استعمال کا بھی ہے ۔ اکثر فارسی اور عربی فونٹ میں "ہ" لکھنے کی سہولت نہیں ہوتی ، صرف "ھ" ہوتا ہے ۔ مثلاً ایک مشہور ثلث فونٹ میں اگر ظہیر لکھیں تو ظھیر لکھا جاتا ہے ۔ اکثر اوقات ایسے سائن بورڈ اور اشتہار نظر سے گزرتے ہیں کہ جن میں کمپوزر نے اسی قسم کے فونٹ استعمال کئے ہوتے ہیں ۔ اردو فونٹ سازوں کو اس طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے ۔
 
"ہ" اور "ھ" کے متبادل استعمال پر شان الحق حقی نے ایک مزاحیہ نظم لکھی تھی ۔یاد پڑتا ہے کہ محمد خلیل الرحمٰن بھائی نے وہ نظم کچھ عرصہ پہلےانہی صفحات پر کہیں شائع کی تھی ۔
بھائی ممدو کا املاء تو نہیں؟

بھائی ممدو کا املا از شان الحق حقی
 

یاسر شاہ

محفلین
ظہیر بھائی السلام علیکم
آپ کی حوصلہ افزائی کے لیے جزاک اللہ خیر۔
جہاں تک عروضی وزن کا تعلق ہے تو اس کا املا کےمعاملے سے سرے سے کوئی تعلق نہیں۔ جیسا کہ معلوم ہے عروضی وزن ملفوظی ہوتا ہے مکتوبی نہیں ۔ املا خواہ پندرہواں لکھا ہو یا پندرھواں ، اس کا تلفظ تو وہی کیا جاتا ہے کہ جو ہے ۔ سو عروضی وزن پر تو کوئی اثر نہیں پڑے گا۔:)

ظہیر بھائی ایک مثال دیتا ہوں۔"سرھانے" کا املا اب بھی لغتوں میں "سرہانے" درج ہے ۔وہی شاید آپ کی بات کہ ابھی املا کی سفارشات پوری طرح نافذ نہ ہو سکی ہیں ۔جس کی وجہ سے میں اس لفظ کا تلفظ غلط کرتا رہا ، نتیجہ یہ نکلا کہ وزن میں بھی مغالطہ پیش آیا اور اس کا وزن"فعولن" کے بجائے "مفعولن" سمجھتا رہا اور یہی غلطی میں نے ایک آدھ دیگر نو مشق شعرا کے ہاں بھی دیکھی ہے۔ اس غلطی کی وجہ اس کا املا "ہائے ملفوظی" سے کرنا ہے ،کم از کم میں تو اسی وجہ سے یہ غلطی کرتا تھا۔اس کو یوں لکھا جائے تو شاید یہ غلطی نہ ہو۔

سرھانے میر کے آہستہ بولو
ابھی ٹک روتے روتے سو گیا ہے

اسی طرح لفظ "دلھن" کا معاملہ ہے چونکہ اس کے دونوں املا درست ہیں یعنی "دلھن" اور "دولھن"چنانچہ وزن میں غلطی تو نہیں ہوتی کہ دونوں اس کے وزن ٹھیک ہیں "فعو" بھی اور "فعلن" بھی ، زیادہ بہتر اسے اگرچہ"فعو"پر باندھنا ہے۔لیکن "دلہن"املا کی وجہ سے بہرحال تلفظ میں غلطی ہو جاتی ہے اور اس کا تلفظ د۔لن کے بجائے دل۔ہن کیا جاتا ہے۔فی الوقت یہ دو مثالیں ذہن میں آئیں مگر اور بھی مثالیں ہیں۔خیر۔ و اللہ اعلم باالثواب
بہرحال آپ کی علمیت و قابلیت مجھ سے کہیں زیادہ ہے اور آپ اہل زبان بھی ہیں لہذا ان معاملات پہ آپ کی رائے کا انتظار رہتا ہے ۔
 

گُلِ یاسمیں

لائبریرین
السلام علیکم
اہلِ زبان کی محفل دیکھ کر بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے کا موقع جان کر اپنی ایک مشکل کے ساتھ حاضر ہونے کی جسارت کی ہے۔
ہم "املا" کا لفظ جو رسم الخط یا لکھنے لکھوانے کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ وہ "مذکر" ہے یا "موءنث" ہم اسے موءنث کے طور پر استعمال کرتے رہے ہیں لیکن اب کچھ شبہ ہونے لگا تو سوچا کہ درستگی کر لی جائے۔

پیشگی شکریہ سب کے لئے ۔
 

زیک

مسافر
راتوں رات سولھویں سالگرہ کا پریفکس ٹیگ بدل گیا لیکن گیارہویں سے پندرہویں ویسے ہی موجود ہیں۔
 
Top