F@rzana
محفلین
بیبیسی اردو کی خبر
اس ٹیکنالوجی سے جرائم کو زیادہ موثر طریقے سے کنٹرول کیا جاسکے گا
ایک نئی تحقیق کے مطابق سونے کے نہایت باریک ذرات ایسے اجزا کا سراغ لگانے میں مددگار ہوتے ہیں جو دہشتگرد ممکنہ طور پر جراثیمی حملے میں استعمال کرسکتے ہیں۔
برطانیہ کے ماہرین کے مطابق ان ذرات سے زہریلے مادے کی موجودگی کا پتا لگانا ممکن ہے۔ اور یہ عمل پہلے سے مروجہ طریقوں سے کہیں زیادہ تیز رفتار ہے۔
اس تحقیق کا مقصد یہ ہے کہ سونے کے باریک ذرات کو جدید ٹیکنالوجی میں استعمال کرکے جرائم پر زیادہ موثر طریقے سے قابو پایا جاسکے۔
یونیورسٹی آف ایسٹ انجیلیا کے پروفیسر ڈیوڈ رسل اسی منصوبے پر کام کررہے ہیں۔ اس تحقیق میں استعمال کیئے جانے والے سونے کے ذرات اتنے باریک ہیں کہ وہ ایک انسانی بال کی موٹائی کا پانچ ہزارواں حصہ ہیں۔
ان ذرات کو چینی کے ساتھ استعمال کیا جاتا ہے جو بہت تیزی سے حیاتیاتی مادوں کو اپنی طرف کھینچ لیتے ہیں اور اپنے رنگ کی تبدیلی سے جراثیمی مادے کی موجودگی کا پتا دیتے ہیں۔
تحقیقات کاروں کے مطابق یہ ذرات اور بھی کئی مقاصد کے لیئے استعمال کیئے جاسکتے ہیں مثلاً ان سے معلوم کیاجاسکتا ہے کہ پینے کے پانی میں کتنی کثافت موجود ہے اور آیا یہ پینے کے قابل ہے یا نہیں۔
مستقبل کی تحقیق سے ان ذرات کے استعمال کے ساتھ ایسا جدید سراغ رسانی کا نظام بنانا ممکن ہوسکے گا جو ایک چھوٹے آلے کی شکل میں ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جانا ممکن ہوگا۔
اس ٹیکنالوجی سے جرائم کو زیادہ موثر طریقے سے کنٹرول کیا جاسکے گا
ایک نئی تحقیق کے مطابق سونے کے نہایت باریک ذرات ایسے اجزا کا سراغ لگانے میں مددگار ہوتے ہیں جو دہشتگرد ممکنہ طور پر جراثیمی حملے میں استعمال کرسکتے ہیں۔
برطانیہ کے ماہرین کے مطابق ان ذرات سے زہریلے مادے کی موجودگی کا پتا لگانا ممکن ہے۔ اور یہ عمل پہلے سے مروجہ طریقوں سے کہیں زیادہ تیز رفتار ہے۔
اس تحقیق کا مقصد یہ ہے کہ سونے کے باریک ذرات کو جدید ٹیکنالوجی میں استعمال کرکے جرائم پر زیادہ موثر طریقے سے قابو پایا جاسکے۔
یونیورسٹی آف ایسٹ انجیلیا کے پروفیسر ڈیوڈ رسل اسی منصوبے پر کام کررہے ہیں۔ اس تحقیق میں استعمال کیئے جانے والے سونے کے ذرات اتنے باریک ہیں کہ وہ ایک انسانی بال کی موٹائی کا پانچ ہزارواں حصہ ہیں۔
ان ذرات کو چینی کے ساتھ استعمال کیا جاتا ہے جو بہت تیزی سے حیاتیاتی مادوں کو اپنی طرف کھینچ لیتے ہیں اور اپنے رنگ کی تبدیلی سے جراثیمی مادے کی موجودگی کا پتا دیتے ہیں۔
تحقیقات کاروں کے مطابق یہ ذرات اور بھی کئی مقاصد کے لیئے استعمال کیئے جاسکتے ہیں مثلاً ان سے معلوم کیاجاسکتا ہے کہ پینے کے پانی میں کتنی کثافت موجود ہے اور آیا یہ پینے کے قابل ہے یا نہیں۔
مستقبل کی تحقیق سے ان ذرات کے استعمال کے ساتھ ایسا جدید سراغ رسانی کا نظام بنانا ممکن ہوسکے گا جو ایک چھوٹے آلے کی شکل میں ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جانا ممکن ہوگا۔