مرتد کی سزا قرآن وسنت اور اجماع کی روشنی میں
الحمدللہ وسلام علی عبادہ الذین اصطفی!
خیرالقرون یعنی اسلام کے صدر اوّل میں جہاں دوسرے اسلامی قوانین کی بالا دستی تھی‘ وہاں سزائے ارتداد کا قانون بھی نافذ رہا۔ اس کے بعد بھی جب تک دنیا میں اسلامی آئین و دستور کی بالادستی رہی‘ تمام اسلامی حکومتوں میں یہ قانون نافذ العمل رہا۔ اسی کی برکت تھی کہ کوئی طالع آزما‘ مسلمانوں کے جذبات سے کھیلنے‘ دین و مذہب کو بازیچہٴ اطفال بنانے‘ آئے دن مذاہب بدلنے اور اسلام سے بغاوت کرنے کی جرأت نہیں کرسکتا تھا۔
بلکہ اگر کسی شقی ازلی نے اس قسم کی جرأت کی تو اسے اس کا خمیازہ بھگتنا پڑا۔ اسود عنسی‘ مسیلمہ کذاب‘ وغیرہ جیسے بدقماشوں کا انجام اور حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کی ملی غیرت کے کارناموں سے اسلامی تاریخ مزین ہے۔
لیکن جوں جوں اس معمورئہ ارضی پر اسلامی اقتدار‘ خلافت اسلامیہ اور مسلمانوں کی گرفت ڈھیلی ہوتی گئی‘ لادین حکمرانوں کا تسلط بڑھتا گیا اور جبر و استبداد کے پنجے مضبوط اور گہرے ہوتے گئے‘ تو اس کی نحوست سے جہاں دوسرے اسلامی اصول و قوانین پامال کئے جانے لگے‘ وہاں سزائے ارتداد کے بے مثال قانون کو بھی حرفِ غلط کی طرح مٹادیا گیا۔
یہ اسی کی ”سبز قدمی“ تھی کہ انگریزی اقتدار کے دور میں‘ ہندوستان میں جہاں دوسرے بے شمار فتنوں نے سر اٹھایا‘ وہاں اسلام اور پیغمبر ِ اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے باغی غلام احمد قادیانی نے دعویٰ نبوت کرکے نہ صرف ارتداد کا ارتکاب کیا‘ بلکہ اس نے بھولے بھالے مسلمانوں کو مرتد بنانے کی باقاعدہ تحریک شروع کردی۔ چونکہ اس وقت ہندوستان میں انگریزی اقتدار تھا اور غلام احمد قادیانی انگریزی اقتدار کی چھتری کے نیچے یہ سب کچھ کررہا تھا‘ اس لئے مسلمان اُسے ارتداد کی سزا کا مزہ نہ چکھا سکے‘ لیکن جوں ہی مسلمانانِ ہندوستان کی قربانیوں اور مطالبہ پر مملکتِ خداداد پاکستان وجود میں آئی تو مسلمانوں کا پہلا مطالبہ یہ تھا کہ اسلام کے نام پر وجود میں آنے والی اس مملکت میں اسلامی آئین و قوانین نافذ کئے جائیں۔
شومی ٴ قسمت کہ مسلمانوں کے اس مطالبہ پر توجہ نہیں دی گئی‘ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ پاکستان میں بھی اسلام دشمنوں اور خصوصاً قادیانیوں کا اثرو نفوذ بڑھنے لگا‘ تب مسلمانوں نے اربابِ اقتدار سے مطالبہ کیا کہ کم از کم ان کو ملت اسلامیہ سے الگ کاسٹ تصور کیا جائے ‘ چنانچہ قریب قریب نوے سال کی محنت و جدوجہد کے بعد مسلمانوں کی یہ کوشش بار آور ہوئی اور اسلام سے برگشتہ ہوجانے والے قادیانیوں کو آئینی طور پر غیر مسلم اقلیت قرار دے دیا گیا۔ مگر بایں ہمہ پھر بھی قادیانی ارتداد کا منہ زور گھوڑا سرپٹ دوڑتا رہا‘ اور قادیانی اپنی ارتدادی سرگرمیوں سے باز نہ آئے‘ تو اس کے سدِّباب کے لئے ایک بار پھر تحریک چلی اور ۱۹۸۴ء میں امتناعِ قادیانیت آرڈی نینس جاری ہوا۔
لیکن قادیانی اپنے بیرونی آقاؤں کی شہ پر ارتدادی سرگرمیوں سے باز نہ آئے‘ تو مسلمانوں نے استدعا کی کہ پاکستان میں ارتداد کی شرعی سزا کا قانون نافذ کیا جائے۔ بلاشبہ اگر روزِ اوّل سے یہ قانون نافذ کردیا جاتا تو اسلام دشمن قوتوں کو مسلمانوں کے دین و ایمان سے کھیلنے کی قطعاً جرأت نہ ہوتی اور نہ ہی مسلمانوں کی وحدت پارہ پارہ ہوتی۔
گویا مسلمانوں کا روزِ اول سے یہ مطالبہ رہا کہ پاکستان جب اسلام کے نام پر حاصل کیا گیا ہے‘ اور یہ اسلامی جمہوریہ کہلاتا ہے تو اس میں قانون بھی قرآن و سنت کا ہی ہونا چاہئے‘ لیکن چونکہ اس قانون کے نفاذ سے اسلام دشمنوں کی تمام تر سازشیں دم توڑ جاتیں‘ اور ان کے منصوبوں پر اوس پڑ جاتی‘ اس لئے انہوں نے اپنے اثر و نفوذ سے اس کی راہ میں ایسی رکاوٹیں کھڑی کیں اور ایسے روڑے اٹکائے کہ مسلمان حکمران اس کے نفاذ کی جرأت ہی نہ کرسکے۔ یوں تو مسلمانوں کا یہ قدیم ترین مطالبہ تھا اور ہے‘ مگر گزشتہ دنوں افغانستان میں مرتد ہوکر عیسائیت قبول کرنے والے عبدالرحمن کے معاملہ نے مرتد کی سزا کے اس قانون کی اہمیت و ضرورت کو مزید دو چند کردیا ہے‘ کیونکہ بین الاقوامی سازش کے تحت اس معمولی واقعہ کو اخبارات اور میڈیا پر لاکر جہاں مسلمانوں کو تنگ نظر‘ تشدد پسند کہہ کر اسلامی آئین‘ خصوصاً سزائے ارتداد کے قانون کو بُری طرح نشانہ بنایا گیا‘ اور اس کو ظالمانہ قانون کے رنگ میں پیش کیا گیا‘ ضرورت تھی کہ اس سلسلہ کی غلط فہمیوں کے ازالہ کے لئے قارئین کی خدمت میں کچھ حقائق پیش کردیئے جائیں۔
افغانستان اور افغان قوم کا شروع سے ہی اسلام سے گہرا رشتہ رہا ہے‘ اور افغانستان نے کبھی بھی کسی جبر و تشدد اور بیرونی دباؤ کو قبول نہیں کیا‘ اسی طرح افغانستان میں کبھی کسی اسلام دشمن تحریک یا نظر یہ کو پنپنے کا موقع نہیں مل سکا‘ حتی کہ امیر حبیب اللہ کے دور میں جب غلام احمد قادیانی نے افغانستان میں اپنے دو نمائندے بھیجے تو امیر مرحوم نے بالفعل ان پر سزائے ارتداد جاری فرماکر ارتدادی تحریک کا راستہ روک دیا۔
لیکن افغانستان میں جوں جوں دین و مذہب سے دوری ہوتی گئی‘ سازشی قوتوں اور اربابِ کفر نے اپنے آلہ کاروں کے ذریعہ افغانستان کو اندرونی سازشوں اور طوائف الملوکی سے دوچار کیا‘ تو سب سے پہلے روس نے اس کو ہڑپ کرنے کی خواہش و کوشش کی‘ مگر اسے منہ کی کھانا پڑی‘ جب روس جیسی سپر طاقت شکست و ریخت سے دوچار ہوگئی‘ تو امریکا بہادر کے منہ میں پانی آگیا اور اس نے افغانستان پر قبضہ کرکے اس پر عیسائیت کا جھنڈا لہرانے کا منصوبہ بنا لیا۔ افغانستان میں امریکی تسلط کے بعد بے شمار عیسائی این جی اوز متحرک ہوگئیں‘ افغانستان بلاشبہ بدترین مالی بدحالی کا شکار تھا اور ہے‘ مگر بایں ہمہ امریکا اور اس کی عیسائی این جی اوز اپنے مذموم مقاصد میں خاطر خواہ کامیاب نہ ہوسکیں‘ کیونکہ مسلمانانِ افغانستان جانتے تھے کہ ارتداد کی سزا موت ہے اور مرتد ہونا موت کو گلے لگانے کے مترادف ہے۔ اس لئے آج سے پندرہ سال پہلے مرتد ہوکر جرمنی چلے جانے والے عبدالرحمن کو دوبارہ افغانستان لاکر اس سے مرتد ہونے اور عیسائیت قبول کرنے کا اعلان کرایا گیا‘ جس کے پس پردہ درج ذیل مقاصد کارفرما تھے‘ مثلاً:
الف:… یہ باور کرایا جائے کہ افغانستان میں عیسائی این جی اوز کی تحریک اور کوششوں کے خاطر خواہ نتائج نکل رہے ہیں۔
ب:… مسلمانوں کو ذ ہنی اور اعصابی تناؤ میں مبتلا کرکے عیسائیت کی بالادستی کا احساس اجاگر کیا جائے۔
ج:…اسلام کے مقابلہ میں عیسائیت کو ترجیح دینے اور مسلمانوں میں قبولِ عیسائیت کے رجحان کا تصور پیش کیا جائے۔
د:… قانونِ ارتداد اور مرتد کی اسلامی سزا کے نفاذ کو اپنے اثر و نفوذ اور بین الاقوامی دباؤ کے ذریعہ معطل کرایا جائے۔
ھ :… مرتد کو تحفظ دے کر دوسرے بے دینوں کو ذہناً اس پر آمادہ کیا جائے کہ تبدیلی ٴ مذہب کی صورت میں ان کو بے یارو مددگار نہیں چھوڑا جائے گا‘ بلکہ امریکا‘ برطانیہ‘ روس‘ جرمنی ‘ فرانس‘ اٹلی‘ ڈنمارک‘ ہالینڈ وغیرہ پوری عیسائی دنیا تمہاری پشت پر ہے اور تبدیلی ٴ مذہب کی صورت میں تمہیں نہ صرف تحفظ فراہم کیا جائے گا‘ بلکہ ہر طرح کے ساز و سامان کے ساتھ ساتھ اعلیٰ سے اعلیٰ ملک کی شہریت بھی دی جائے گی۔
و:… یہ باور کرایا جائے کہ افغانستان میں بالفعل امریکا اور عیسائیت کی بالادستی اور حکمرانی قائم ہے‘ جس کی علامت یہ ہے کہ مسلمان ملک کا مسلمان حکمران اور اس کی مسلمان عدلیہ بھی ایک اسلامی سزا کے نفاذ میں بے بس ہے‘ چنانچہ مرتد عبدالرحمن کے اس اعتراف کے باوجود کہ: ”میں نے عیسائیت قبول کرلی ہے اور میں اس کے لئے اپنی جان قربان کرنے کو تیار ہوں“ افغان عدالت کے جج انصار اللہ مولوی زادہ کا یہ کہنا کہ :”ناکافی ثبوت کی بنا پر اسے رہا کیا جاتا ہے۔“ افغان عدالت اور افغان حکومت کی بے بسی کی واضح دلیل ہے۔
ز:… سزائے ارتداد کے اسلامی قانون اور فطرت پر مبنی دستور کو متنازعہ بنایا جائے‘ دنیائے عیسائیت‘ انسانی حقوق کی تنظیموں کو اس کے خلاف بولنے کا موقع دے کر غیر متعصب دنیا کے علاوہ خود مسلمانوں کے دلوں میں بھی اس کے بارے میں شکوک و شبہات پیدا کئے جائیں‘ اسے انسانی حقوق کی خلاف ورزی اور اس کے نفاذ کو انسانیت کی توہین باور کرایا جائے۔
چنانچہ اس واقعہ کے اخبارات میں شائع ہونے پر جہاں ملحدین و بے دینوں کو اس کے خلاف زبان کھولنے کی جرأت ہوئی‘ وہاں نام نہاد مسلمان اسکالروں کو بھی اس قانون میں کیڑے نکالنے کا موقع میسر آگیا۔
اس لئے اس بات کی ضرورت تھی کہ قرآن و سنت‘ اجماع امت‘ قیاس‘ فقہ و فتویٰ اور عقل و شعور کی روشنی میں اس سلسلہ کی تصریحات نقل کردی جائیں۔ مگر سب سے پہلے اس کی وضاحت ہونی چاہئے کہ مرتد کس کو کہتے ہیں؟ اور سزائے ارتداد کی کیا کیا شرائط ہیں؟بلاشبہ دنیا میں بسنے والے انسان دین و مذہب کے اعتبار سے دو قسم ہیں: ایک مسلمان اور دوسرے غیرمسلم۔
مسلم:… وہ ہیں جو اللہ تعالیٰ‘ اس کے ملائکہ‘ اس کی کتابوں‘ اس کے رسولوں‘ آخرت‘ بعث بعدالموت اور اس بات پر ایمان رکھتے ہوں کہ اچھی اور بری تقدیر اللہ ہی کی جانب سے ہے اور وہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ کا سچا اور آخری نبی اور آپ کے لائے ہوئے دین و شریعت کو حضرات صحابہ کرام‘ تابعین‘ تبع تابعین اور اسلافِ امت کی تشریحات کی روشنی میں مانتے ہوں۔
غیر مسلم:… وہ ہیں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت‘ دین و شریعت‘ مذکورہ بالا تمام عقائد یا ان میں سے کسی ایک کے منکرہوں‘ یا ضروریاتِ دین میں سے کسی ایک کا انکار کرتے ہوں‘ خواہ وہ اپنے آپ کو ہندو‘ سکھ‘ پارسی‘ زرتشتی‘ یہودی‘ عیسائی‘ بدھ‘ قادیانی‘ مرزائی (جو اپنے آپ کو احمدی بھی کہتے ہیں)‘ ذکری اور آغا خانی کہتے ہوں‘ یا اس کے علاوہ اپنے آپ کو کسی دوسرے نام سے موسوم کرتے ہوں‘ وہ سب کے سب غیر مسلم ہیں۔ پھر غیر مسلموں کی متعدد اقسام ہیں‘ چونکہ غیر مسلم اپنے بعض مخصوص عقائد و نظریات اور رہائش و سکونت کے اعتبار سے ایک دوسرے سے مختلف ہیں اور ان میں سے ہر ایک کے احکام بھی جدا جدا ہیں‘ اس لئے ان کی اقسام‘ تعریف اور حکم بھی معلوم ہونا چاہئے۔
اوّل:… غیر مسلم باعتبار عقائد و نظریات کے سات قسم ہیں:
۱:…کھلا کافر‘ ۲:…مشرک‘ ۳:…دہریہ‘ ۴:…معطل‘ ۵:…منافق‘
۶:…زندیق‘ جو ملحد اور باطنی بھی کہلاتے ہیں‘ ۷:… مرتد۔
دوم:… پھر ان سب کا باعتبار جنگ و امن اور رہائش و سکونت کے جُدا جُدا حکم ہے‘ اس لئے غیر مسلموں کی اقسام‘ تعریف اور حکم ملاحظہ ہو:
کھ لا کافر:… جسے کافر مطلق بھی کہا جاتا ہے‘ وہ ہے جو علی الاعلان اسلامی اعتقادات کا منکر ہو اور اپنے آپ کو مسلمان برادری سے الگ تصور کرتا ہو‘ جیسے ہندو‘ سکھ‘ یہودی اور عیسائی وغیرہ۔
مشرک:… مشرک وہ ہے‘ جو چند معبودوں کا قائل ہو‘ یا اللہ تعالیٰ کی ذات کے علاوہ کسی حجر و شجر یا مورتی وغیرہ کو بھی نفع و نقصان کا مالک سمجھتا ہو۔
دہریہ:… دہریہ وہ ہے جو حوادثِ عالم کو زمانہ کی طرف منسوب کرتا ہو اور زمانہ کو قدیم مانتا ہو‘ یعنی زمانہ کو ہی خالقِ عالم اور ازلی و ابدی مانتا ہو۔
معطل:… معطل وہ ہے جو خالقِ عالم کا سرے سے منکر ہو۔
منافق:… منافق وہ ہے جو ظاہراً‘ زبانی کلامی اور جھوٹ موٹ اپنے آپ کو مسلمان باور کرائے‘ مگر اندر سے کافر ہو۔
زندیق:… زندیق وہ ہے جو اپنے کفریہ عقائد پر اسلام کا ملمع کرے اور اپنے فاسد و کفریہ عقائد کو ایسی صورت میں پیش کرے کہ سرسری نظر میں وہ صحیح معلوم ہوتے ہوں‘ ایسے شخص کو عربی میں ملحد اور باطنی بھی کہتے ہیں۔
مرتد:… مرتد وہ ہے جو اسلام کو چھوڑ کر کسی بھی دوسرے دین کو اختیار کرلے۔
ان تفصیلات کے بعد مذکورہ بالا غیر مسلموں میں سے ہر ایک کا حکم ملاحظہ ہو:
کھ لا کافر:… اگر ایسا شخص کسی غیر مسلم ملک میں رہتا ہو‘ اور وہ ملک اسلامی مملکت سے برسرپیکار ہو‘ تو یہ شخص حربی کافر کہلائے گا اور مسلمانوں پر ایسے شخص کی جان و مال‘ عزت و آبرو کی کسی قسم کی حفاظت کی کوئی ذمہ داری نہیں ہے‘ لیکن اگر ایسا شخص (کھلا کافر) کسی ایسے غیر مسلم ملک میں رہتا ہو‘ جس کا اسلامی مملکت سے دوستی کا معاہدہ ہو تو یہ شخص مسلمانوں کا حلیف کہلائے گا‘ اگر یہ شخص کسی دوسری مجرمانہ سرگرمیوں میں ملوث نہ ہو تو مسلمان اس کی جان و مال سے تعرض نہیں کریں گے‘ چنانچہ ایسا شخص اگر مسلمان ملک میں ویزہ لے کر آئے تو یہ مستأمن کہلائے گا‘ اور مسلمانوں پر اس کی جان و مال اور عزت و آبرو کا تحفظ لازم ہوگا۔
اسی طرح اگر ایسا کھلا کافر کسی مسلمان ملک کا پرامن شہری ہو اور شہری واجبات یعنی جزیہ وغیرہ ادا کرتا ہو اور کسی ملک و ملت دشمنی کا مرتکب نہ ہو‘ تو یہ ذمی کہلائے گا اور اس کی جان و مال اور عزت و آبرو کی حفاظت و صیانت اسلامی مملکت اور مسلمانوں پر واجب ہوگی۔
مشرک:… مشرک کا حکم بھی کھلے کافر کی طرح ہے۔
اس کے علاوہ دہریہ‘ معطل‘ منافق‘ زندیق اور مرتد بھی اگر کسی ایسی غیر مسلم مملکت میں رہتے ہوں جن سے مسلمانوں کا کسی دوستی کا کوئی معاہدہ نہ ہو‘ تو وہ بھی کھلے کافر کی طرح ہیں اور ان پر کسی قسم کے کوئی احکام جاری نہیں ہوں گے‘ لیکن اگر کسی علاقہ اور قبیلہ کے لوگ اجتماعی طور پر مرتد ہوکر قوت پکڑنے لگیں تو مسلمان حکمران کو حربی کافروں سے بھی پہلے ان کے خلاف کارروائی کرکے ان کا قلع قمع کرنا ہوگا۔
منافق:… اگر کوئی منافق‘ مسلمان ملک میں رہتا ہو اور کسی قسم کی ملک و ملت دشمنی میں ملوث نہ ہو تو مسلمان اس سے بھی تعرض نہیں کریں گے‘ لیکن اگر کوئی زندیق‘ دہریہ‘ معطل اور مرتد اسلامی مملکت میں رہتے ہوئے اس جرم کا ارتکاب کرے‘ تو چاہے وہ بظاہر کتنا ہی امن پسند کیوں نہ ہو‘ مسلمان حکمران‘ اسلامی قانون کی روشنی میں اس کو‘ اس کے اس بدترین کردار اور گھناؤنے جرم کی سزا دے گا‘ کیونکہ کسی مملکت کے سربراہ پر اپنے شہریوں کے دین و ایمان کی حفاظت لازم ہے‘ اور جو لوگ مسلمانوں کے دین و ایمان سے کھیلنا چاہیں‘ ان کا مواخذہ کرنا مسلمان حکمران کا فرض اور بنیادی حق ہے‘ اس لئے کہ ارشاد نبوی:
”کلکم راع وکلکم مسئول عن رعیتہ۔“ (مشکوٰة ص:۳۲۰)
(تم میں سے ہر ایک راعی ہے اور ہر ایک سے اس کی رعیت کے بارہ میں پوچھا جائے گا) کے مصداق مسلمان حکمران کو اپنے شہریوں کی اصلاح کا مکمل اختیار ہے‘ لہٰذا مسلمان حکمران کو چاہئے کہ وہ ایسے لادین افراد کی ملت دشمن سرگرمیوں پر کڑی نگاہ رکھے اور ان کی خفیہ شرارتوں‘ سازشوں اور شر و فساد سے اپنی رعایا کے دین و ایمان کی حفاظت کرے۔
زندیق:… چنانچہ اگر اسلامی مملکت کا کوئی شہری زندقہ اختیار کرلے اور گرفتاری سے قبل از خود اس جرم سے توبہ کرلے تو اس کی توبہ قبول کی جائے گی‘ لیکن اگر گرفتاری کے بعد توبہ کا اظہار کرے تو اس کی توبہ قبول نہ کی جائے گی‘ چنانچہ حضرت امام مالک وغیرہ ایسے شخص کی توبہ قبول نہیں کرتے‘ حضرت امام ابو حنیفہ کا بھی یہی مسلک ہے‘ علامہ شامی نے بھی اسی کو ترجیح دی ہے۔
مرتد:… اگر اسلامی مملکت کا کوئی شہری خدانخواستہ مرتد ہوجائے تو اس کے احکام ان سب سے جدا ہیں‘ مثلاً:
اگر مرتد ہونے والی خاتون ہو تو اس کو گرفتار کرکے جیل میں ڈالا جائے‘ اگر اس کے کوئی شبہات ہوں تو دور کئے جائیں‘ اس سے توبہ کا مطالبہ کیا جائے‘ اگر توبہ کرلے تو فبہا‘ ورنہ اسے زندگی بھر کے لئے جیل میں قید رکھا جائے تاآنکہ وہ مر جائے یا توبہ کرلے۔
اگر کوئی نابالغ بچہ مرتد ہوجائے تو یہ دیکھا جائے گا کہ اگر وہ دین و مذہب کو سمجھتا ہے اور عقل و شعور کے سن کو پہنچ چکا ہے تو اس کا حکم بھی مرتد ہونے والے مرد کا ہے‘ اور اگر بالکل چھوٹا اور ناسمجھ ہے تو اس پر ارتداد کے احکام جاری نہیں ہوں گے۔ اسی طرح اگر کوئی مجنون یا پاگل ارتداد کا ارتکاب کرے تو اس پر بھی ارتداد کے احکام جاری نہیں ہوں گے۔
اگر کوئی عاقل‘ بالغ مرد‘ ارتداد کا ارتکاب کرے تو اس کو گرفتار کرکے تین دن تک اس کو مہلت دی جائے گی‘ اس کے شبہات دور کئے جائیں گے‘ اگر مسلمان ہوجائے تو فبہا‘ ورنہ اسے قتل کردیا جائے گا۔
قرآن و سنت‘ اجماع امت اور فقہائے امت کا یہی فیصلہ ہے اور عقل و دیانت کا بھی یہی تقاضا ہے۔
جیسا کہ قرآن کریم میں ہے:
”انما جزاء الذین یحاربون اللہ ورسولہ ویسعون فی الارض فساداً ان یقتلوا اویصلبوا اوتقطع ایدیہم وارجلہم من خلاف او ینفوا من الارض‘ ذلک لہم خزی فی الدنیا ولہم فی الآخرة عذاب عظیم‘ الا الذین تابوا من قبل ان تقدروا علیہم فاعلموا ان اللہ غفور رحیم۔“ (المائدہ: ۳۳‘۳۴)
ترجمہ:… ”یہی سزا ہے ان کی جو لڑائی کرتے ہیں اللہ سے اور اس کے رسول سے اور دوڑتے ہیں ملک میں فساد کرنے کو‘ کہ ان کو قتل کیا جائے یا سولی چڑھائے جائیں یا کاٹے جائیں ان کے ہاتھ اور پاؤں مخالف جانب سے یا دور کردیئے جائیں اس جگہ سے ‘ یہ ان کی رسوائی ہے دنیا میں اور ان کے لئے آخرت میں بڑا عذاب ہے‘ مگر جنہوں نے توبہ کی تمہارے قابو پانے سے پہلے تو جان لو کہ اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔“
اس آیت کے ذیل میں تمام مفسرین و محدثین نے عکل و عرینہ کے ان لوگوں کا واقعہ لکھا ہے جو اسلام لائے تھے‘ مگر مدینہ منورہ کی آب و ہوا ان کوراس نہ آئی تو ان کی شکایت پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو صدقہ کے اونٹوں کے ساتھ بھیج دیا‘ جہاں وہ ان کا دودھ وغیرہ پیتے رہے‘ جب وہ ٹھیک ہوگئے تو مرتد ہوگئے اور اونٹوں کے چرواہے کو قتل کرکے صدقہ کے اونٹ بھگا لے گئے‘ جب مسلمانوں نے ان کو گرفتار کرلیا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں لائے گئے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے سیدھے ہاتھ اور اُلٹے پاؤں کاٹ دیئے اور وہ حرہ میں ڈال دیئے گئے‘ پانی مانگتے رہے‘ مگر ان کو پانی تک نہ دیا‘ یہاں تک کہ وہ تڑپ تڑپ کر مرگئے۔
اسی لئے امام بخاری نے اس آیت کے تحت عنوان بھی اسی انداز کا قائم فرمایا ہے‘ جس سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ لوگ چونکہ مرتد اور محارب تھے‘ اس لئے ان کو قتل کیا گیا‘ چنانچہ امام بخاری کے الفاظ ہیں:
”باب لم یسق المرتدون المحاربون حتی ماتوا۔“ (ص:۱۰۰۵‘ ج:۲)
اگرچہ امام بخاری کے علاوہ دوسرے ائمہ کرام اس کے قائل ہیں کہ محارب جیسے کفار ہوسکتے ہیں‘ ویسے مسلمان بھی ہوسکتے ہیں‘ لیکن اتنی بات واضح ہے کہ اس آیت کی روشنی میں ایسے لوگ جو مرتد ہوجائیں‘ اور اللہ ورسول سے محاربہ کریں‘ وہ واجب القتل ہیں۔
سزائے مرتد کے سلسلہ میں صحاح ستہ اور حدیث کی دوسری کتب میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے متعدد ارشادات اور حضرات صحابہ کرام کا عمل بھی منقول ہے‘ ذیل میں اس سلسلہ کی چند تصریحات ملاحظہ ہوں:
۱:… ”عن عکرمة قال: اتی علی رضی اللّٰہ عنہ بزنادقة فاحرقہم‘ فبلغ ذالک ابن عباس‘ فقال: لو کنت انا لم احرقہم لنہی رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم‘ قال: لا تعذبوا بعذاب اللّٰہ‘ ولقتلتہم لقول رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: من بدل دینہ فاقتلوہ۔“
(بخاری‘ ص ۱۰۲۳‘ ج۲‘ ص:۴۲۳‘ ج:۱‘ ابوداؤد ص:۲۴۲‘ ج:۲‘ نسائی ص:۱۶۹‘ ج:۲‘ ترمذی ص:۱۷۶‘ ج:۱‘ مسند احمد ص:۲۱۷‘ ج:۱‘ ص:۲۸۲‘۲۸۳‘ ج:۱‘ سنن کبریٰ بیہقی ص:۱۹۵‘ج:۸‘ مستدرک حاکم ص:۵۳۸ ج:۳‘ مشکوٰة ص:۳۰۷)
ترجمہ:… ”حضرت عکرمہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے پاس چند زندیق لائے گئے تو انہوں نے ان کو آگ میں جلادیا‘ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کو جب یہ قصہ معلوم ہوا تو فرمایا: میں ہوتا تو ان کو نہ جلاتا‘ اس لئے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ ایسا عذاب نہ دو جو اللہ تعالیٰ (جہنم میں) دیں گے‘ میں ان کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد: ”جو شخص دین تبدیل کرے‘ اس کو قتل کردو“ کے تحت قتل کردیتا۔“
۲:… ”عن عکرمة قال قال ابن عباس قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: من بدل دینہ فاقتلوہ۔“ (نسائی ص:۱۴۹‘ ج:۲‘ سنن ابن ماجہ ص:۱۸۲)
ترجمہ:… ”حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص دین تبدیل کرکے مرتد ہوجائے‘ اس کو قتل کردو۔“
۳:… ”عن ابن عباس رضی اللّٰہ عنہ قال: کان عبداللّٰہ بن سعد بن ابی سرح یکتب لرسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم‘ فازلہ الشیطن‘ فلحق بالکفار فامر بہ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ان یقتل یوم الفتح‘ فاستجارلہ عثمان بن عفان فاجارہ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم…“ (ابوداؤد ص۲۵۱‘ ج:۲‘ نسائی ۱۶۹‘ ج:۲)
ترجمہ:… ”حضرت عبداللہ بن عباس سے مروی ہے کہ عبداللہ بن ابی سرح‘ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا کاتب وحی تھا‘ اسے شیطان نے بہکایا تو وہ مرتد ہوکر کفار سے مل گیا‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ کے دن اس کے قتل کا حکم فرمایا‘ (جس سے معلوم ہوا کہ مرتد کی سزا قتل ہے‘ ناقل) مگر حضرت عثمان نے اس کے لئے پناہ طلب کی‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو پناہ دے دی (چنانچہ وہ بعد میں دوبارہ مسلمان ہوگیا)۔“
۴:… ”عن انس ان علیا اتی بناس من الزط یعبدون وثناً فاحرقہم‘ قال ابن عباس انما قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: من بدل دینہ فاقتلوہ۔“ (سنن نسائی ص:۱۶۹‘ ج:۲‘ مسند احمد ص:۳۲۳‘ ج:۱)
ترجمہ:… ”حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے پاس زط (سوڈان) کے کچھ لوگ لائے گئے جو اسلام لانے کے بعد مرتد ہوگئے تھے اور وہ بتوں کی پوجا کرتے تھے‘ آپ نے ان کو آگ میں جلا دیا‘ اس پر حضرت ابن عباس نے فرمایا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ: ”جو شخص اسلام چھوڑ کر مرتد ہوجائے‘ اس کو قتل کردو۔“
۵:… ”عن ابی موسیٰ قال اقبلت الی النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم… فقال:… و لکن اذہب انت یا ابا موسیٰ او یا عبداللّٰہ بن قیس الی الیمن‘ ثم اتبعہ معاذ بن جبل‘ فلما قدم علیہ القی لہ وسادة قال: انزل و اذا رجل عندہ موثق قال: ما ہذا؟ قال: کان یہودیاً فاسلم ثم تہود‘ قال: اجلس! قال: لا اجلس حتی یقتل‘ قضاء اللّٰہ و رسولہ ثلٰث مرات فامر بہ فقتل…الخ“ (بخاری ص:۱۰۲۳‘ ج:۲‘ مسلم ص:۱۲۱‘ ج:۲‘ ابوداؤد ص:۲۴۲‘ ج:۲‘ نسائی ص:۱۶۹‘ ج:۲‘ سنن کبریٰ بیہقی ص:۱۹۵ ج:۸)
ترجمہ:… ”حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا‘ آپ نے فرمایا: ابو موسیٰ یا عبداللہ بن قیس! یمن جاؤ‘ اس کے بعد آپ نے معاذ بن جبل کو بھی میرے پیچھے یمن بھیج دیا‘ حضرت معاذ یمن پہنچے اور ان کے بیٹھنے کے لئے مسند لگائی گئی تو انہوں نے دیکھا کہ (حضرت ابو موسیٰ کے پاس) ایک آدمی بندھا ہوا ہے‘ حضرت معاذ نے پوچھا: اس کا کیا قصہ ہے؟ فرمایا: یہ شخص پہلے یہودی تھا‘ پھر اسلام لایا اور اب مرتد ہوگیا ہے‘ آپ نے فرمایا: جب تک اس کو اللہ اور اس کے رسول کے فیصلے کے مطابق قتل نہیں کردیا جاتا‘ میں نہیں بیٹھوں گا‘ انہوں نے تین بار یہ جملہ ارشاد فرمایا‘ چنانچہ حضرت ابو موسیٰ نے اس کے قتل کا حکم دیا‘ جب وہ قتل ہوگیا تو حضرت معاذ تشریف فرما ہوئے۔ “
۶:… ”عن عبداللّٰہ قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم… لایحل دم رجل مسلم یشہد ان لا الٰہ الا اللّٰہ و انی رسول اللّٰہ الا باحدی ثلاث: الثیب الزانی‘ والنفس بالنفس‘ والتارک لدینہ المفارق للجماعة۔“
(ابوداؤد ص: ۲۴۲‘ ج:۲‘ نسائی ۱۶۵‘ ج:۲‘ ابن ماجہ ص:۱۸۲‘ سنن کبریٰ بیہقی ۱۹۴‘ ج:۸‘ ترمذی ص:۲۵۹‘ ج:۱‘ مسلم ص:۵۹ ج:۲)
ترجمہ:… ”حضرت ابن مسعود سے روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو مسلمان کلمہ لا الٰہ الا اللہ کی شہادت دے‘ اس کا خون بہانا جائز نہیں‘ سوائے ان تین آدمیوں کے: ایک وہ جو شادی شدہ ہوکر زنا کرے‘ دوسرا وہ جو کسی کو ناحق قتل کردے اور تیسرا وہ جو اسلام کو چھوڑ کر مرتد ہوجائے۔“
۷:… ”عن حارثة بن مضرب انہ اتی عبداللّٰہ فقال: ما بینی و بین احد من العرب حنة‘ وانی مررت بمسجد لبنی حنیفة‘ فاذا ہم یومنون بمسیلمة‘ فارسل الیہم عبداللّٰہ فجیٴ بہم فاستتابہم‘ غیر ابن النواحة‘ قال لہ: سمعت رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم یقول : لو لا انک رسول لضربت عنقک‘ فانت الیوم لست برسول‘ فامر قرظة بن کعب۔ فضرب عنقہ فی السوق‘ ثم قال: من اراد ان ینظر الی ابن النواحة قتیلا بالسوق۔“ (ابوداؤد ص:۲۴‘ ج:۲)
ترجمہ:… ”حارثہ بن مضرب سے مروی ہے کہ میں حضرت عبداللہ بن مسعود کی خدمت میں حاضر ہوا‘ (اور آپ نے فرمایا کہ) میرے اور عرب کے درمیان کوئی عداوت نہیں ہے‘ پھر فرمایا: میں مسجد بنوحنیفہ کے پاس سے گزرا‘ وہ لوگ مسیلمہ کذاب کے ماننے والے تھے‘ حضرت عبداللہ نے ان کی طرف قاصد بھیجا‘ تاکہ ان سے توبہ کا مطالبہ کرے‘ پس سب سے توبہ کا مطالبہ کیا گیا‘ سوائے ابن نواحہ کے‘ آپ نے اس سے فرمایا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تم سے یہ فرماتے ہوئے سنا تھا کہ اگر تو قاصد نہ ہوتا تو میں تمہیں قتل کردیتا‘ (اس لئے کہ وہ مرتد ہونے کے علاوہ مرتد مسیلمہ کا قاصد تھا‘ ناقل) پس آج تم قاصد نہیں ہو‘ اس کے بعد آپ نے (حاکمِ کوفہ) قرظہ بن کعب کو حکم دیا کہ اس کو قتل کردیا جائے‘ چنانچہ بازار ہی میں اس کو قتل کردیا گیا‘ اور فرمایا: جو ابن نواحہ کو دیکھنا چاہے‘ وہ بازار میں قتل شدہ موجود ہے۔“
۸:… ”عن بہز بن حکیم عن ابیہ عن جدہ معاویة بن حیدہ قال: قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: من بدل دینہ فاقتلوہ‘ ان اللہ لا یقبل توبة عبدکفر بعد اسلامہ۔“ (مجمع الزوائد: ص:۲۶۱‘ج:۶)
ترجمہ: …”حضرت معاویہ بن حیدہ سے روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص اپنا دین تبدیل کرے‘ اس کو قتل کردو‘ بے شک اللہ تعالیٰ اس بندے کی توبہ قبول نہیں کرتے‘ جو اسلام قبول کرنے کے بعد مرتد ہوجائے۔“
۹:… ”عن معاذ بن جبل ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قال لہ حین بعثہ الی الیمن: ایما رجل ارتد عن الاسلام فادعہ‘ فان تاب‘ فاقبل منہ‘ وان لم یتب‘ فاضرب عنقہ‘ وایما امرأة ارتدت عن الاسلام فادعہا‘ فان تابت‘ فاقبل منہا‘ وان ابت فاستتبہا۔“ (مجمع الزوائد: ۲۶۳‘ ج:۶)
ترجمہ:… ”حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو یمن بھیجا تو فرمایا: جو شخص اسلام لانے کے بعد مرتد ہوجائے‘ اسے اسلام کی دعوت دو‘ اگر توبہ کرلے تو اس کی توبہ قبول کرلو‘ اور اگر توبہ نہ کرے تو اس کی گردن اڑا دو‘ اور جونسی عورت اسلام کو چھوڑ کر مرتد ہوجائے‘ اسے بھی دعوت دو‘ اگر توبہ کرلے تو اس کی توبہ قبول کرلو‘ اگر توبہ سے انکار کرے تو برابر توبہ کا مطالبہ کرتے رہو (یعنی اس کو قتل نہ کرو)۔“
۱۰:… ”عن جریر قال سمعت النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم یقول: اذا ابق العبد الی الشرک فقد حل دمہ۔“ (ابوداؤد‘ ص: ۲۴۳‘ ج:۲‘ مشکوٰة‘ ص:۳۰۷)
ترجمہ:… ”حضرت جریر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا‘ آپ نے فرمایا کہ جب کوئی بندہ اسلام سے کفر کی طرف واپس لوٹ جائے‘ اس کا قتل کرنا حلال ہوجاتا ہے۔“
۱۱:… ”عن الحسن رضی اللّٰہ عنہ قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: من بدل دینہ فاقتلوہ۔“ (نسائی ص:۱۶۹‘ ج:۲)
ترجمہ:… ”حضرت حسن رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص اسلام چھوڑ کر دوسرا دین اختیار کرلے‘ اس کو قتل کردو۔“
۱۲:… ”عن زید بن اسلم ان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: من غیَّر دینہ فاضربوا عنقہ۔“ (موطا امام مالک ص:۶۴۰‘ جامع الاصول ص:۴۷۹‘ ج:۳)
ترجمہ:… ”حضرت زید بن اسلم رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص اسلام چھوڑ کر دوسرا دین اپنائے‘ اس کی گردن کاٹ دو۔“
امام مالک اس حدیث کی تشریح میں فرماتے ہیں:
”قال مالک و معنی قول النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم فیما نری واللّٰہ اعلم من غیّر دینہ فاضربوا عنقہ‘ وانہ من خرج من الاسلام الی غیرہ‘ مثل الزنادقة واشباہہم‘ فان اولئک اذا ظہر علیہم قتلوا‘ ولم یستتابوا‘ لانہ لا یعرف توبتہم‘وانہم کانوایسرون الکفر ویعلنون الاسلام فلااری یستتاب ہؤلاء ولایقبل منہم قولہم‘ واما من خرج من الاسلام الی غیرہ واظہر ذلک فانہ یستتاب‘ فان تاب، والا قتل ، ذلک لو ان قوما کانوا علی ذلک رایت ان یدعوا الی الاسلام ویستتابوا‘ فان تابوا قبل ذلک منہم‘ وان لم یتوبوا قتلوا‘ ولم یعن بذلک فیما نری‘ واللّٰہ اعلم‘ من خرج من الیہودیة الی النصرانیة ولا من النصرانیة الی الیہودیة‘ ولا من یغیّر دینہ من اہل الادیان کلہا الا الاسلام فمن خرج من الاسلام الی غیرہ واظہر ذلک فذلک الذی عنی بہ۔“ (موطا امام مالک ص:۶۴۰میر محمد کتب خانہ‘ کراچی)
یعنی امام مالک سے ارتداد کی تعریف میں منقول ہے کہ کوئی شخص اسلام سے نکل کر کسی دوسرے مذہب میں داخل ہوجائے تو اس کی گردن کاٹ دی جائے‘ جیسے کوئی زندیق ہوجائے‘ ایسے لوگوں کے بارہ میں اصول یہ ہے کہ جب زندیق پر غلبہ و تسلط حاصل ہوجائے تو اس سے توبہ کا مطالبہ نہ کیا جائے‘ کیونکہ ان لوگوں کی سچی توبہ کا اندازہ نہیں ہوسکتا‘ اس لئے کہ یہ لوگ کفر کو چھپاتے ہیں اور اسلام کا اظہار کرتے ہیں‘ پس میرا (امام مالک) خیال یہ ہے کہ ان کے کفر کی بنا پر ان کو قتل کردیا جائے‘ ہاں اگر کوئی اسلام سے نکل کر مرتد ہوجائے تو اس سے توبہ کرائی جائے‘ توبہ کرلے تو فبہا‘ ورنہ اسے قتل کردیا جائے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد: ”من بدل دینہ فاقتلوہ“ کا معنی یہ ہے کہ جو شخص اسلام کو چھوڑ کر کسی دوسرے مذہب کو اختیار کرلے وہ مرتد ہے‘ لہٰذا وہ شخص مرتد نہیں کہلائے گا جو اسلام کے علاوہ کسی دوسرے دین پر تھا‘ اور اس نے اپنا وہ مذہب چھوڑ کر کوئی دوسرا دین و مذہب اختیار کرلیا‘ لہٰذا نہ تو اس سے توبہ کرائی جائے گی اور نہ ہی اس کو قتل کیا جائے گا‘ مثلاً: اگر کوئی یہودی‘ نصرانی بن جائے یا کوئی نصرانی‘ مجوسی بن جائے‘ خواہ وہ ذمی ہی کیوں نہ ہو‘ نہ تو اس سے توبہ کرائی جائے گی اور نہ ہی اس کو قتل کیا جائے گا۔
۱۳:… ”عن عبدالرحمن بن محمد بن عبداللّٰہ بن عبدالقاری رحمہ اللّٰہ‘ عن ابیہ انہ قال: قدم علی عمر بن الخطاب رضی اللّٰہ عنہ‘ رجل من قبل ابی موسی الاشعری‘ فسالہ عن الناس فاخبرہ؟ ثم قال لہ عمر بن الخطاب : ہل کان فیکم من مُغربة خبر؟ فقال نعم‘ رجل کفر بعد اسلامہ‘ قال: فما فعلتم بہ؟ قال: قربناہ فضربنا عنقہ‘ فقال عمر: افلا حبستموہ ثلاثا‘ واطعمتموہ کل یوم رغیفا‘ واستبتتموہ لعلہ یتوب و یراجع امر اللّٰہ؟ ثم قال عمر اللّٰہم انی لم احضر‘ ولم آمر‘ ولم ارض اذ بلغنی۔“ (موطا امام مالک ص:۶۴۰‘ میر محمد کتب خانہ ‘ جامع الاصول ص:۴۷۹‘ ج:۳)
ترجمہ:… ”حضرت محمد بن عبداللہ بن عبدالقاری سے مروی ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی خلافت کے دور میں حضرت ابو موسیٰ کی جانب سے یمن کا ایک شخص آپ کی خدمت میں آیا‘ آپ نے پہلے تو وہاں کے لوگوں کے حالات معلوم کئے‘ پھر اس سے پوچھا کہ وہاں کی کوئی نئی یا انوکھی خبر؟ اس نے کہا: جی ہاں! ایک آدمی اسلام لایا تھا‘ مگر بعد میں وہ مرتد ہوگیا‘ آپ نے فرمایا: پھر تم لوگوں نے اس کے ساتھ کیا کیا؟ انہوں نے عرض کیا: ہم نے اس کو پکڑ کر اس کی گردن اڑا دی‘ آپ نے فرمایا: تم نے پہلے اسے تین دن تک قید کرکے اس سے توبہ کا مطالبہ کیوں نہ کیا؟ ممکن ہے وہ توبہ کرلیتا؟ پھر فرمایا: اے اللہ! نہ میں وہاں حاضر تھا‘ نہ میں نے اس کے قتل کا حکم دیا اور جب مجھے اس کی اطلاع ملی تو میں ان کے اس فعل پر راضی بھی نہیں ہوں۔“
گویا مرتد کے قتل سے پہلے استحباباً اس کو توبہ کا ایک موقع ملنا چاہئے تھا‘ چونکہ مرتد کو وہ موقع نہیں د یا گیا‘ تو حضرت عمر نے ترک مستحب کی اس بے احتیاطی کو بھی برداشت نہیں کیا اور اس سے برأت کا اظہار فرمایا۔
امام ترمذی مرتد کی سزا کے بارہ میں فقہائے امت کا مذہب بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
”و العمل علی ہذا عند اہل العلم فی المرتد‘ واختلفوا فی المرأة اذا ارتدت عن الاسلام‘ فقالت طائفة من اہل العلم تقتل‘ وھو قول الاوزاعی واحمد و اسحق‘ و قالت طائفة منہم تحبس ولا تقتل‘ و ھو قول سفیان الثوری وغیرہ من اہل الکوفة۔“ (ترمذی ابواب الحدود باب ما جاء فی المرتد ص: ۱۷۰‘ ج:۱)
ترجمہ:… ”مرتد مرد کے بارہ میں اہل علم کا یہی موقف ہے کہ اسے قتل کردیا جائے‘ ہاں اگر کوئی خاتون مرتد ہوجائے تو امام اوزاعی‘ احمد اور اسحق کا موقف یہ ہے کہ اسے بھی قتل کیا جائے‘ لیکن ایک جماعت کا خیال ہے کہ اسے قتل نہ کیا جائے‘ بلکہ قید کردیا جائے‘ اگر توبہ کرلے تو فبہا‘ ورنہ زندگی بھر اسے جیل میں رکھا جائے۔ سفیان ثوری اور اہل کوفہ کا بھی یہی مسلک ہے۔“
چنانچہ ائمہ اربعہ: امام ابو حنیفہ، امام مالک، امام شافعی اور امام احمد بن حنبل بالاتفاق اس کے قائل ہیں کہ اگر کوئی شخص مرتد ہوجائے تو مستحب یہ ہے کہ اس کو تین دن کی مہلت دی جائے‘ اس کے شبہات دور کئے جائیں‘ اس کو توبہ کی تلقین کی جائے اور دوبارہ اسلام کی دعوت دی جائے‘ اگر اسلام لے آئے تو فبہا‘ ورنہ اسے قتل کردیا جائے‘ ملاحظہ ہو ائمہ اربعہ کی تصریحات:
فقہ حنفی:… چنانچہ فقہ حنفی کی مشہور کتاب ہدایہ میں ہے:
”واذا ارتد المسلم عن الاسلام والعیاذ باللہ۔ عرض علیہ الاسلام فان کانت لہ شبہة کشفت عنہ ویحبس ثلاثة ایام فان اسلم والاقتل۔“
(ہدایة اولین ص:۵۸۰‘ ج:۱)
ترجمہ: … ”اور جب کوئی مسلمان نعوذباللہ! اسلام سے پھر جائے تو اس پر اسلام پیش کیا جائے‘ اس کو کوئی شبہ ہو تو دور کیا جائے‘ اس کو تین دن تک قید رکھا جائے‘ اگر اسلام کی طرف لوٹ آئے تو ٹھیک‘ ورنہ اسے قتل کردیا جائے۔“
فقہ شافعی:… فقہ شافعی کی شہرئہ آفاق کتاب المجموع شرح المہذب میں ہے:
”اذا ارتد الرجل وجب قتلہ‘ سواء کان حرا اوعبدا… وقد انعقد الاجماع علی قتل المرتد۔“ (المجموع شرح المہذب: ص:۲۲۸‘ج:۱۹)
ترجمہ:… ”اور جب آدمی مرتد ہوجائے تو اس کا قتل واجب ہے‘ خواہ وہ آزاد ہو یا غلام‘ اور قتلِ مرتد پر اجماع منعقد ہوچکا ہے۔“
فقہ حنبلی:… فقہ حنبلی کی معرکة الآرأ کتاب المغنی اور الشرح الکبیر میں ہے:
”واجمع اہل العلم علی وجوب قتل المرتد‘ وروی ذلک عن ابی بکر و عمر و عثمان و علی و معاذ وابی موسیٰ وابن عباس وخالد (رضی اللہ عنہم) وغیرہم‘ ولم ینکر ذلک فکان اجماعا۔“ (المغنی مع الشرح الکبیر ص:۷۴‘ ج:۱۰)
ترجمہ:… ”قتل مرتد کے واجب ہونے پر اہل علم کا اجماع ہے‘ یہ حکم حضرت ابوبکر‘ عمر‘ عثمان‘ علی‘ معاذ‘ ابو موسیٰ‘ ابن عباس‘ خالد اور دیگر حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے مروی ہے اور اس کا کسی صحابی نے انکار نہیں کیا‘ اس لئے یہ اجماع ہے۔“
فقہ مالکی:… فقہ مالکی کے عظیم محقق ابن رشد مالکی کی مشہور زمانہ کتاب ”بدایة المجتہد“ میں ہے:
”والمرتد اذا ظفر بہ قبل ان یحارب فاتفقوا علی انہ یقتل الرجل لقولہ علیہ الصلوٰة والسلام: ”من بدل دینہ فاقتلوہ۔“ (بدایة المجتہد ص:۳۴۳‘ ج:۲)
ترجمہ:…”اور مرتد جب لڑائی سے قبل پکڑا جائے تو تمام علمائے امت اس پر متفق ہیں کہ مرتد کو قتل کیا جائے گا‘ کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:
”جو شخص اپنا مذہب بدل کر مرتد ہوجائے ‘ اس کو قتل کردو۔“
اللہ اکبرکبیرا