گوروں کے دیس میں رہنے والے ہمارے اپنے دیسی لوگ یہ بات بخوبی جانتے ہیں کہ ہمارے دیس پاکستان کا کلچر،روایات،کہانیاں پوری دنیا سے زیادہ خوبصورت ہیں۔اور ظاہری خوبصورتی کا تو کوئی جواب ہی نہیں۔پچھلے دنوں ہمارے ہاں لاہور میں ایک اسکول میں میوزیکل ڈرامہ پیش کیا گیا۔ذیل میں بی بی سی سے اس کا مکمل متن پیش کیا جا رہا ہے۔
سوہنی کا میوزیکل ڈرامہ
پنجاب میں طالبات کے موقّر ادارے لاہور گرامر سکول میں ذریعہء تعلیم انگریزی ہے اور کئی برس سے وہاں سالانہ انگریزی کھیل سٹیج کرنے کی روایت موجود ہے لیکن گذشتہ برس سے وہاں کی طالبات نے مقامی کلچر زبان اور ادب میں جو گہری دلچسپی لینی شروع کی ہے اسکا اظہار دو سٹیج ڈراموں کی شکل میں منظرِ عام پر آچکا ہے۔
پچھلے سال سسّی کی کہانی کو سٹیج کی زینت بنانے کے بعد اب ایل۔ جی۔ ایس کی طالبات نے ’سوہنی‘ کی داستان کو ایک میوزیکل ڈرامے کی صورت میں پیش کیا ہے اور حاضرین سے بے پناہ داد وصول کی ہے۔
انگریزی میڈیم بچّوں کو اپنی مادری زبان اور کلچر سے روشناس کرانے کا بیڑا چند برس پہلے اسی سکول کی ایک معلّمہ ہما صفدر نے اٹھایا تھا۔ اس غرض سے انہوں نے پہلے خود پنجابی زبان و ادب کا گہرا مطالعہ کیا اور پھراس ادب کے اُن حصّوں کی نشان دہی کی جو آج کے معاشرے میں بہت اہمیت رکھتے ہیں۔
سکول میں بچّوں کو پنجابی سکھانے کے لئے اُستاد بھی فراہم کیا گیا۔ اگرچہ پنجابی سیکھنا ایک رضا کارانہ عمل ہے اور اس کے کوئی نمبر نہیں ملتے لیکن پھر بھی طالبات بڑی دلچسپی سے اس زبان کو سیکھ رہی ہیں جو اب اُن کے ماں باپ بھی گھر میں استعمال نہیں کرتے۔
بچّوں کو مادری زبان و ادب اور ثقافت سے جوڑے رکھنے کے لیے ڈرامہ ایک شاندار ذریعہ ثابت ہوا اور گرامر سکول کی طالبات نے پورے جوش و خروش سے اس میں حصّہ لیا۔
کھیل کی نائب ہدایت کارہ گیارھویں جماعت کی طالبہ نمرہ وقاص نے بتایا کہ شروع شروع میں پنجابی کھیل سٹیج کرنے کا تصوّر بہت عجیب لگا کیونکہ یہ ہماری مادری زبان ہونے کے باوجود ہمارے لئے ایک اجنبی زبان تھی۔ ہمارے والدین تو ملازموں کے ساتھ بھی پنجابی میں بات کرنا پسند نہیں کرتے ہم تو دور کی بات ہیں۔
نمرہ کی طرح کھیل میں حصّہ لینے والی دیگر طالبات بھی اپنی مادری زبان کی دریافتِ نو کے تجربے سے گذری ہیں اور پنجابی مکالمے یاد کرنے کے دوران انھیں اپنی زبان سے ایک نئی شناسائی حاصل ہوئی ہے۔
کھیل کی نگران ہما صفدر نے پروڈکشن کی تفصیل پر باریک بینی سے کام لیا اور لباس سے لے کر سیٹ، روشنی اور موسیقی تک ہر عنصر کو بیانیے کے عین مطابق تیار کیا ہے۔
روایتی انداز میں کھیل کا آغاز ایک کورس سے ہوتا ہے جسے گانے والی لڑکیاں اور سازندے بذاتِ خود سٹیج پر موجود ہیں۔
سوہنی کی کہانی شروع کرنے سے پہلے پنجابی کی دیگر رومانی داستانوں سے ’محبت‘ کے موضوع پر کچھ اقتباسات پیش کئے جاتے ہیں ۔۔ اور جب ماحول پوری طرح محبت کے رنگ میں بھیگ جاتا ہے تو سوہنی کی داستان شروع ہوتی ہے۔
کھیل کا انجام تو وہی ہے جِس سے ہم سب واقف ہیں لیکن الحمرا کے اوپن ائر سٹیج پر طوفانی رات میں کچّے گھڑے کے سہارے دریا پار کرنے کا منظر دیدنی تھا۔ اتنی بڑی تعداد میں طالبات کو اس کھیل کے لئے منظم کرنا اتنا مشکل انتظامی فریضہ تھا کہ سٹیج کے عشق میں دیوانگی اور وارفتگی کی منزلوں کو پہنچا ہوا کوئی اُستاد ہی اِس بھاری پتھر کو اُٹھانے کی ہمت کر سکتا تھا۔
ہُما صفدر کا یہ کارنامہ سراہے جانے کے قابل ہے اور گیارھویں جماعت کی طالبات بھی داد و تحسین کی مستحق ہیں۔
سوہنی کا میوزیکل ڈرامہ
پنجاب میں طالبات کے موقّر ادارے لاہور گرامر سکول میں ذریعہء تعلیم انگریزی ہے اور کئی برس سے وہاں سالانہ انگریزی کھیل سٹیج کرنے کی روایت موجود ہے لیکن گذشتہ برس سے وہاں کی طالبات نے مقامی کلچر زبان اور ادب میں جو گہری دلچسپی لینی شروع کی ہے اسکا اظہار دو سٹیج ڈراموں کی شکل میں منظرِ عام پر آچکا ہے۔
پچھلے سال سسّی کی کہانی کو سٹیج کی زینت بنانے کے بعد اب ایل۔ جی۔ ایس کی طالبات نے ’سوہنی‘ کی داستان کو ایک میوزیکل ڈرامے کی صورت میں پیش کیا ہے اور حاضرین سے بے پناہ داد وصول کی ہے۔
انگریزی میڈیم بچّوں کو اپنی مادری زبان اور کلچر سے روشناس کرانے کا بیڑا چند برس پہلے اسی سکول کی ایک معلّمہ ہما صفدر نے اٹھایا تھا۔ اس غرض سے انہوں نے پہلے خود پنجابی زبان و ادب کا گہرا مطالعہ کیا اور پھراس ادب کے اُن حصّوں کی نشان دہی کی جو آج کے معاشرے میں بہت اہمیت رکھتے ہیں۔
سکول میں بچّوں کو پنجابی سکھانے کے لئے اُستاد بھی فراہم کیا گیا۔ اگرچہ پنجابی سیکھنا ایک رضا کارانہ عمل ہے اور اس کے کوئی نمبر نہیں ملتے لیکن پھر بھی طالبات بڑی دلچسپی سے اس زبان کو سیکھ رہی ہیں جو اب اُن کے ماں باپ بھی گھر میں استعمال نہیں کرتے۔
بچّوں کو مادری زبان و ادب اور ثقافت سے جوڑے رکھنے کے لیے ڈرامہ ایک شاندار ذریعہ ثابت ہوا اور گرامر سکول کی طالبات نے پورے جوش و خروش سے اس میں حصّہ لیا۔
کھیل کی نائب ہدایت کارہ گیارھویں جماعت کی طالبہ نمرہ وقاص نے بتایا کہ شروع شروع میں پنجابی کھیل سٹیج کرنے کا تصوّر بہت عجیب لگا کیونکہ یہ ہماری مادری زبان ہونے کے باوجود ہمارے لئے ایک اجنبی زبان تھی۔ ہمارے والدین تو ملازموں کے ساتھ بھی پنجابی میں بات کرنا پسند نہیں کرتے ہم تو دور کی بات ہیں۔
نمرہ کی طرح کھیل میں حصّہ لینے والی دیگر طالبات بھی اپنی مادری زبان کی دریافتِ نو کے تجربے سے گذری ہیں اور پنجابی مکالمے یاد کرنے کے دوران انھیں اپنی زبان سے ایک نئی شناسائی حاصل ہوئی ہے۔
کھیل کی نگران ہما صفدر نے پروڈکشن کی تفصیل پر باریک بینی سے کام لیا اور لباس سے لے کر سیٹ، روشنی اور موسیقی تک ہر عنصر کو بیانیے کے عین مطابق تیار کیا ہے۔
روایتی انداز میں کھیل کا آغاز ایک کورس سے ہوتا ہے جسے گانے والی لڑکیاں اور سازندے بذاتِ خود سٹیج پر موجود ہیں۔
سوہنی کی کہانی شروع کرنے سے پہلے پنجابی کی دیگر رومانی داستانوں سے ’محبت‘ کے موضوع پر کچھ اقتباسات پیش کئے جاتے ہیں ۔۔ اور جب ماحول پوری طرح محبت کے رنگ میں بھیگ جاتا ہے تو سوہنی کی داستان شروع ہوتی ہے۔
کھیل کا انجام تو وہی ہے جِس سے ہم سب واقف ہیں لیکن الحمرا کے اوپن ائر سٹیج پر طوفانی رات میں کچّے گھڑے کے سہارے دریا پار کرنے کا منظر دیدنی تھا۔ اتنی بڑی تعداد میں طالبات کو اس کھیل کے لئے منظم کرنا اتنا مشکل انتظامی فریضہ تھا کہ سٹیج کے عشق میں دیوانگی اور وارفتگی کی منزلوں کو پہنچا ہوا کوئی اُستاد ہی اِس بھاری پتھر کو اُٹھانے کی ہمت کر سکتا تھا۔
ہُما صفدر کا یہ کارنامہ سراہے جانے کے قابل ہے اور گیارھویں جماعت کی طالبات بھی داد و تحسین کی مستحق ہیں۔