اس بات کی اگر کچھ وضاحت ہوجائے تو مجھ جیسوں کا بھلا ہوجائے گا۔ اس سے پہلے بھی کچھ لوگوں سے وصی شاہ کے بارے میں اسطرح کے کمنٹس سنے ہیں۔ لیکن سمجھ نہیں آیا کہ اسے ایسا کیوں کہاجاتا ہے۔ مجھے کیونکہ شاعری کی الف بے سے بھی واقفیت نہیں اس لئے پوچھ رہا ہوں۔ ورنہ ان باتوں سے صرف اتنا ہی اندازہ ہوپایا ہے کہ شائد اس کی شاعری میں کچھ ٹیکنیکل فالٹ ہے۔
لیکن وہ کیا فالٹ ہے اس کے بارے میں تجسس ہے۔ پلیز وضاحت ضرور کریں ورنہ مجھے موسٹ سینئرز کو ٹیگ کرکے تنگ کرنا پڑے گا۔
کیا کوئی عروضی فالٹ ہے یا بحری یا معنوی یا کوئی لوفرانہ اندازہے یا کچھ اور؟آخر ہے کیا؟ (کتنا زبردست قسم کا ٹیکنیکل سوال کیا ہے نا
)۔
مذاق برطرف لیکن جواب کا بے تابی سے انتظار ہے تاکہ آخر یہ تجسس تو دور ہو۔
مجید امجد صاحب کا نام جدید اردو نظم کے لیئے کسی تعارف کا محتاج نہیں۔ ان کی بہت سی نظموں کی زمین کو مختلف شعراء نے استعمال کیا ہے۔ مگر جناب محترم وصی شاہ صاحب کے صدقے جاؤں کے انکی نظم کی زمین تو زمین اس پر اگی فصل بھی اپنے نام سے منسوب کروا کر داد کے مستحق ٹھہرے۔ اسی طرح چوری کے کچھ اور الزامات بھی ہیں ان پر واللہ اعلم۔ آپکے لیئے مجید امجد اور وصی شاہ دونوں کی نظم پیش کر دیتا ہوں۔
مجید امجد
کاش میں تیرے بن گوش کا بندا ہوتا
رات کو بے خبری میں جو مچل جاتامیں
تو ترے کان سے چپ چاپ نکل جاتا میں
صبح کو گرتے تری زلفوں سے جب باسی پھول
میرے کھو جانے پہ ہوتا ترا دل کتنا ملول
تو مجھے ڈھونڈتی کس شوق سے گھبراہٹ میں
اپنے مہکے ہوئے بستر کی ہر اک سلوٹ میں
جونہی کرتیں تری نرم انگلیاں محسوس مجھے
ملتا اس گوش کا پھر گوشہ مانوس مجھے
کان سے تو مجھے ہر گز نہ اتارا کرتی
تو کبھی میری جدائی نہ گوارا کرتی
یوں تری قربت رنگیں کے نشے میں مدہوش
عمر بھر رہتا مری جاں میں ترا حلقہ بگوش
کاش میں تیرے بن گوش کا بندا ہوتا
اور اب محترم وصی شاہ صاحب کی اصل نظم جسکو مجید امجد صاحب نے کوئی 40 یا 45 برس پہلے چوری کر لیا۔
کاش میں تیرے حسیں ہاتھ کا کنگن ہوتا
تو بڑے پیار سے چاؤ سے بڑے مان کے ساتھ
اپنی نازک سی کلائی میں چڑھاتی مجھ کو
اور بے تابی سے فرصت کے خزاں لمحوں میں
تو کسی سوچ میں ڈوبی جو گھماتی مجھ کو
میں تیرے ہاتھ کی خوشبو سے مہک سا جاتا
جب کبھی موڈ میں آ کر مجھے چوما کرتی
تیرے ہونٹوں کی میں حدت سے دہک سا جاتا
رات کو جب بھی نیندوں کے سفر پر جاتی
مرمریں ہاتھ کا اِک تکیہ بنایا کرتی
میں تیرے کان سے لگ کر کئی باتیں کرتا
تیری زُلفوں کو تیرے گال کو چوما کرتا
جب بھی تو بندِ قبا کھولنے لگتی جاناں
اپنی آنکھوں کو تیرے حسن سے خیرہ کرتا
مجھ کو بے تاب سا رکھتا تیری چاہت کا نشہ
میں تیری روح کے گلشن میں مہکتا رہتا
میں تیرے جسم کے آنگن میں کھنکتا رہتا
کچھ نہیں تو یہی بے نام سا بندھن ہوتا
کاش میں تیرے حسیں ہاتھ کا کنگن ہوتا
باقی آپکو انٹرنیٹ پر شاعری بہت پڑھنے کو مل جائے گی۔ یہ دھاگہ فراز سے متعلق ہے تو راہ سے نہیں ہٹتے۔ لیکن موصوف کا اک اور شعر بھی سنتے جایئے۔ جو مجھے اب چائے دیکھ کر یاد آگیا
دو کی بجائے چائے بنائی اک کپ
افسوس آج تو بھی فراموش ہو گیا
قسم لے لو جو مجھے شاعری کی الف بے بھی آتی ہو تو
دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ میں نے اسے واقعی آج تک نہیں پڑھا
میرا ایسا لکھنے کا مطلب تو واضح ہے
کہ جو بندہ چاچے غالب کے دیوان سے بریانی اڑاتا ہو، اسے یہ پھیکا پھیکا گونگلو کا سالن کہاں اچھا لگتا ہے
نیرنگ خیال وضاحت کر دے گا
نین یار اپنے رانا جی کو وضاحت سے جواب دے دو
شکریہ جناب آپ نے اس قابل سمجھا۔ اب کسی زیادہ اہم موضوع پر آواز نہ دینا۔ ناقص کی معلومات ناقص ہی ہوتی ہیں۔
نوٹ: مجھے بھی شاعری کی الف بے نہیں آتی۔