محمد بلال اعظم
لائبریرین
مجید امجد صاحب کا نام جدید اردو نظم کے لیئے کسی تعارف کا محتاج نہیں۔ ان کی بہت سی نظموں کی زمین کو مختلف شعراء نے استعمال کیا ہے۔ مگر جناب محترم وصی شاہ صاحب کے صدقے جاؤں کے انکی نظم کی زمین تو زمین اس پر اگی فصل بھی اپنے نام سے منسوب کروا کر داد کے مستحق ٹھہرے۔ اسی طرح چوری کے کچھ اور الزامات بھی ہیں ان پر واللہ اعلم۔ آپکے لیئے مجید امجد اور وصی شاہ دونوں کی نظم پیش کر دیتا ہوں۔
مجید امجد
کاش میں تیرے بن گوش کا بندا ہوتا
رات کو بے خبری میں جو مچل جاتامیں
تو ترے کان سے چپ چاپ نکل جاتا میں
صبح کو گرتے تری زلفوں سے جب باسی پھول
میرے کھو جانے پہ ہوتا ترا دل کتنا ملول
تو مجھے ڈھونڈتی کس شوق سے گھبراہٹ میں
اپنے مہکے ہوئے بستر کی ہر اک سلوٹ میں
جونہی کرتیں تری نرم انگلیاں محسوس مجھے
ملتا اس گوش کا پھر گوشہ مانوس مجھے
کان سے تو مجھے ہر گز نہ اتارا کرتی
تو کبھی میری جدائی نہ گوارا کرتی
یوں تری قربت رنگیں کے نشے میں مدہوش
عمر بھر رہتا مری جاں میں ترا حلقہ بگوش
کاش میں تیرے بن گوش کا بندا ہوتا
اور اب محترم وصی شاہ صاحب کی اصل نظم جسکو مجید امجد صاحب نے کوئی 40 یا 45 برس پہلے چوری کر لیا۔
کاش میں تیرے حسیں ہاتھ کا کنگن ہوتا
تو بڑے پیار سے چاؤ سے بڑے مان کے ساتھ
اپنی نازک سی کلائی میں چڑھاتی مجھ کو
اور بے تابی سے فرصت کے خزاں لمحوں میں
تو کسی سوچ میں ڈوبی جو گھماتی مجھ کو
میں تیرے ہاتھ کی خوشبو سے مہک سا جاتا
جب کبھی موڈ میں آ کر مجھے چوما کرتی
تیرے ہونٹوں کی میں حدت سے دہک سا جاتا
رات کو جب بھی نیندوں کے سفر پر جاتی
مرمریں ہاتھ کا اِک تکیہ بنایا کرتی
میں تیرے کان سے لگ کر کئی باتیں کرتا
تیری زُلفوں کو تیرے گال کو چوما کرتا
جب بھی تو بندِ قبا کھولنے لگتی جاناں
اپنی آنکھوں کو تیرے حسن سے خیرہ کرتا
مجھ کو بے تاب سا رکھتا تیری چاہت کا نشہ
میں تیری روح کے گلشن میں مہکتا رہتا
میں تیرے جسم کے آنگن میں کھنکتا رہتا
کچھ نہیں تو یہی بے نام سا بندھن ہوتا
کاش میں تیرے حسیں ہاتھ کا کنگن ہوتا
باقی آپکو انٹرنیٹ پر شاعری بہت پڑھنے کو مل جائے گی۔ یہ دھاگہ فراز سے متعلق ہے تو راہ سے نہیں ہٹتے۔ لیکن موصوف کا اک اور شعر بھی سنتے جایئے۔ جو مجھے اب چائے دیکھ کر یاد آگیا
دو کی بجائے چائے بنائی اک کپ
افسوس آج تو بھی فراموش ہو گیا
شکریہ جناب آپ نے اس قابل سمجھا۔ اب کسی زیادہ اہم موضوع پر آواز نہ دینا۔ ناقص کی معلومات ناقص ہی ہوتی ہیں۔
نوٹ: مجھے بھی شاعری کی الف بے نہیں آتی۔
چھوٹا غالب سے معذرت کے ساتھ کہ اُن کے دھاگے کا رخ مشرق سے مغرب کی طرف ہو گیا ہے۔
اسی سلسلے میں یہ لنکس بھی دیکھیں
کاش میں تیرے بن گوش کا بندا ہوتا
وصی شاہ اور مجید امجد
@محمد وارث صاحب کا یہ لنک بھی دیکھیں۔
محمد وارث صاحب
اور ان کا ایک کمنٹ، یہاں بھی پڑھ لیجیے
قاضی صاحب آپ نے ‘کمر باندھ لی ہے’ کا محاورہ استعمال کر کے ساری بحث کی کمر ہی توڑ دی وگرنہ میں آپ سے ضرور پوچھتا کہ کسی کے خیال اور الفاظ کو ہو بہو اپنے تصرف میں لے آنا چربہ سازی و سرقہ نہیں کہلواتا تو کیا اسے ‘فن کی خدمت’ کہیں گے، اور وصی صاحب جب مرزا غالب کی تخلص تبدیل کرنے سے پہلے والی تمام غزلیات میں اسد کی جگہ وصی ڈال کر، جو اسد کا ہم وزن ہے، غزلیں اپنے نام لگوائیں گے تو دنیا کی آنکھیں تب کھلیں گی۔ اور مبتدی شعراء اساتذہ کی زمین استعمال کرتے ہوئے اسکی وضاحت کیوں کرتے ہیں اور کیوں فیض سا شاعر سودا کی زمین استعمال کرتے ہوئے اپنی غزل کو ‘نذرِ سودا’ کر دیتا ہے اور کیوں اقبال سا شاعر بھرتری ہری کے فقط خیال کو استعمال کرتے ہوئے اپنے مشہور و معروف شعر ‘پھول کی پتی سے کٹ سکتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔’ کو اپنی کتاب میں بھرتری ہری کا شعر لکھتا ہے حالانکہ بھرتری ہری کو اردو فارسی سے دور کا بھی واسطہ نہیں۔ اور یہ بھی کہ ‘اخلاقیات’ کس چڑیا کا نام ہے اور ‘ادبی روایات’ کس کو کہتے ہیں!
عنوان کے شعر کے متعلق آپ نے بالکل بجا کہا کہ ٹائپنگ کی غلطی کی وجہ سے پہلا مصرع بے وزن ہو رہا ہے، دوسرا مصرع بحر مجتث میں ہے (مکمل نام بحر مجتث مثمن مخبون محذوف مقطوع ہے)۔ اور اس بحر میں یہ چار اوزان اکھٹے ہو سکتے ہیں۔
مفاعِلن فَعِلاتن مفاعلن فعلن
مفاعلن فعلاتن مفاعلن فعلان
مفاعلن فعلاتن مفاعلن فَعِلن
مفاعلن فعلاتن مفاعلن فَعِلان
دوسرا مصرع ان میں سے پہلے وزن پر ہے
وُ کچ نَ کہہ – مفاعلن
تِ مگر ہو – فعلاتن
ٹ تو ہلا – مفاعلن
دے تے – فعلن
پہلا مصرع اس طرح وزن میں آ سکتا ہے
تمام عمر سماعت کو کوستا میں وصی
لیکن میں نہیں جانتا کہ شاعر نے اس کسطرح باندھا اور نہ میرے پاس وصی کی کوئی کتاب ہے کہ دیکھ سکوں کہ آپ کی طرح میں نے بھی نہ کبھی ان کی تصویر دیکھی نہ کوئی کتاب پڑھی اور نہ کوئی ڈرامہ دیکھا سوائے ‘کنگن’ والے ڈرامے کے!
والسلام مع الاحترام
ساہیوال کو ہمیشہ فخر رہے گا کہ مجید امجد جیسا نظم گو شاعر اس شہر میں رہا اور یہیں آخری سانس لی۔