محمد خلیل الرحمٰن
محفلین
س بیچارے وکیل کی تو پہلے ہی چھترول کردی گئی ہوگی، تبھی تو اس نے تائب ہو کر درخواست واپس لی۔سب سے پہلے اس وکیل کو پکڑا جائے گا جس نے جنرل باجوہ کی ایکسٹینشن کے خلاف عدالت میں درخواست دے کر واپس لی۔
س بیچارے وکیل کی تو پہلے ہی چھترول کردی گئی ہوگی، تبھی تو اس نے تائب ہو کر درخواست واپس لی۔سب سے پہلے اس وکیل کو پکڑا جائے گا جس نے جنرل باجوہ کی ایکسٹینشن کے خلاف عدالت میں درخواست دے کر واپس لی۔
متفق۔ یہاں الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے والا معاملہ چل رہا ہے۔ابھی تک جسٹس کھوسہ صاحب ناکام ہیں کہ مناب وجہ ٓبتائیں کہ ان کے وہ کون سے اختیارات اور حقوق ہیں ، جس کی بنیاد پر جناب نے انتظامیہ کے آیینی اختیارات معطل کئے ہیں؟
ابھی اور چھترول ہو گی اور معلوم کیا جائے گا کہ کس کے کہنے پر درخواست لے کر عدالت گیا۔س بیچارے وکیل کی تو پہلے ہی چھترول کردی گئی ہوگی، تبھی تو اس نے تائب ہو کر درخواست واپس لی۔
یہ پہلے ممکن تھا؛ اب یہ سب کچھ قریب قریب ناممکن ہے۔ عسکری شہزادوں نے پل بھر میں اس قدر سبکی اٹھا لی کہ اب ایکسٹینن مل بھی جائے تو کیا ہے! دراصل، ایک ڈیڑھ سال بعد پاکستان میں حکومت غیر مقبول ہونے لگ جاتی ہے اور تبدیلی کی ہوائیں چلنے لگ جاتی ہیں۔ باجوہ صاحب کو بھی دیکھ دیکھ کر قوم بور ہونے لگ گئی ہے۔ یہ ہمارا قومی مزاج ہے کہ ہم ہر دو تین سال بعد جوہری تبدیلی چاہتے ہیں۔اب بات مستعفی ہونےسے بہت آگے چلی گئی ہے۔ سب سے پہلے اس وکیل کو پکڑا جائے گا جس نے جنرل باجوہ کی ایکسٹینشن کے خلاف عدالت میں درخواست دے کر واپس لی۔ پھر جسٹس کھوسہ کو جس نے جان بوجھ کر اس کیس پر سو موٹو ایکشن لیا تاکہ حکومت اور فوج کو میڈیا میں متنازعہ بنایا جا سکے۔ اس کھیل میں شامل تمام کرداروں کو کیفر کردار تک پہنچا جائے گا۔
Big brother is watching youابھی اور چھترول ہو گی اور معلوم کیا جائے گا کہ کس کے کہنے پر درخواست لے کر عدالت گیا۔
سابق چیف جسٹس ثاقب نثار نے ایک جدید کڈنی ہسپتال کے ڈائیریکٹر کو اسی طرح خلاف قانون معطل کیا تھا۔ جسے حالیہ چیف جسٹس کھوسہ نے کالعدم قرار دیتے ہوئے اپنی پوسٹ پر بحال کر دیا ۔ مگر تب تک وہ ڈائیریکٹر ذلت برداشت کر کے واپس امریکہ جا چکے تھے۔ہم اس کو اس طرح سمجھ سکتے ہیں کہ جسٹس کھوسہ صاحب ، انار کلی لاہور تھانے ٓکو فون کرکے کہیں کہ اس چھوٹے والے سپاہی کو ملازمت سے فارغ کردو۔ یہ اختیار چیف جسٹس صاحب کے پاس بلاوجہ نہیں۔
اس وقت مناسب کام یہی ہے۔سو۔۔۔دیکھتے ہیں!
۔۔ عسکری شہزادوں نے پل بھر میں اس قدر سبکی اٹھا لی کہ اب ایکسٹینن مل بھی جائے تو کیا ہے! د۔۔
بالکل درست۔ میں بھی یہی کہہ رہا ہوں کہ آئینی حق انتظامیہ کا ہے۔آئین صاف طور پر انتظامیہ کو حکومت کرنے کے اختیارات دیتا ہے، انتظامیہ کٓی طرف سے تعیناتی اور توسیع، اس آئینی حق کا استعمال ہے۔
ہم اس کو اس طرح سمجھ سکتے ہیں کہ جسٹس کھوسہ صاحب ، انار کلی لاہور تھانے ٓکو فون کرکے کہیں کہ اس چھوٹے والے سپاہی کو ملازمت سے فارغ کردو۔ یہ اختیار چیف جسٹس صاحب کے پاس بناء کسی معقول وجہ کے نہیں ہے۔۔ ابھی تک جسٹس کھوسہ صاحب ناکام ہیں کہ مناب وجہ ٓبتائیں کہ ان کے وہ کون سے اختیارات اور حقوق ہیں ، جس کی بنیاد پر جناب نے انتظامیہ کے آیینی اختیارات معطل کئے ہیں؟
انتظامیہ ، مقننہ اور عدلیٓہ ، آزاد ادارے ہیں، یہ پاکستان کے آئین اور قانون کے پابند ہیں۔ انتظامیہ کے پاس اختیارات ہیں کہ وہ عدلیہ سے ثابت شدہ مجرم کی جاں بخشی کرکے ، عدلیہ کے احکامات معطل قرار دے دیں ۔ لیکن ایسا کوئی آئینی اختیار ، مفاد عامہ کی آڑ میں ، عدلیہ کے پاس نہیں ہے۔ یہ صاف صاف انتظامی کے آئینی اختیار میں مداخلت ، حکومت کے احکامات کی معطلی یعنی آئینی اختیارات سے تجاوز کرجانے کا معاملہ ہے۔
دنیا کے سب سے عظیم فیلڈ مارشل، امیر المومنین اور ابو کمال اتا پاکستان کو تو آئین توڑنے پر ہیرو بنایا گیا۔اگر پاکستان کا سب سے بڑا جنرل، ملٹری کا چیف، اتنا ہی جذباتی ہے تو پھر اس کو اس عہدے پر ہونا ہی نہیں چاہئے ؟؟؟ یہ سبکی نہیں بلکہ اختیارات میں مداخلت کا معاملہ ہے، جسٹس کھوسہ کو ایوان میں طلب کرکے ان سے وضاحت طلب ٓکی جائے۔ ووٹ دے کر معطل کیا جائے اور آرٹیکل 6 لگا کر سزا دی جائے۔
وہ تو نظریہ ضرورت کا کمال تھا۔دنیا کے سب سے عظیم فیلڈ مارشل، امیر المومنین اور ابو کمال اتا پاکستان کو تو آئین توڑنے پر ہیرو بنایا گیا۔
کیا معلوم یہ بحران جان بوجھ کر پیدا کیا گیا ہو تاکہ آرمی چیف کو ترسا ترسا کر ملی ہوئی ایکسٹینشن کی قدر معلوم ہو سکے۔
ریاض راہی جلد ہی قوم کی تاریخ میں سلطان راہی بن کر ابھرے گاراہی نامی ایڈوکیٹ habitual پیٹشنر ہے۔ البتہ اسے 'یہ دھکا کسں نے دیا' کے کھرے حکومت، کابینہ اور شاید فوج کے اندر ہی نکلیں۔
حبیب وہاب الخیری مرحوم نے یہ روایت شروع کی تھی، بعد ازاں، مسٹر شاہد اورکزئی نے اسے آگے بڑھایا اور اب یہ صاحب اسے نئی انتہاؤں تک لے کر جا رہے ہیں۔راہی نامی ایڈوکیٹ habitual پیٹشنر ہے۔ البتہ اسے 'یہ دھکا کسں نے دیا' کے کھرے حکومت، کابینہ اور شاید فوج کے اندر ہی نکلیں۔
بات یہ ہے کہ ایک بائیس درجے کے آفیسر کی مدت ملازمت میں توسیع ، میں موجودہ قواعد و ضوابط کے مطابق حکومت نے مروجٓہ طریقے سے ، کیا۔ اس طریقے میں اور کیانی صاحب کی مدت ملازمت کی توسیع میں کوئی فرق نہیں ۔
1977 سے اب تک، نصرت بھٹو کی طرف سے چیف آف آرمی اسٹاف کے معاملے سے لے کر باجوہ صآحب کی توسیع تک ایک ہی طریقہ اختیار کیا گیا۔
یہ دیکھئے Article: 184 Original jurisdiction of Supreme Court
اگر عدلیہ بلکہ جسٹس آصف کھوسہ کو اس طریقے پر اعتراض ہے تو پھر کیا وجہ ہے کہ وہ اس طریقے میں تبدیلی کے لئے ، مناسب قانون سازی کرٓنے کے لئے اپنی سفارشات، مقننہ کو پیش کیوں نہیں کرتے؟
انتظامیہ کے آئینی اختیارات اور فیصلوں کو معطل کرنے کا حق آئین کی کٓس شق سے جسٹس آصف کھوسہ کو حاصل ہے ؟