فرقان احمد
محفلین
یہ تو بس ایسے نیشنلائز ہوئے کہ قوم کے ساتھ بھوت بن کر چمڑ گئے!بھٹو کو یہ فوجی فاؤنڈیشن نیشنلائز کرنی تھی۔ غلطی سے 22 امیر ترین صنعتی و تجارتی خاندانوں کی املاک نیشلائز کرکے ملک کی معیشت تباہ کر دی
یہ تو بس ایسے نیشنلائز ہوئے کہ قوم کے ساتھ بھوت بن کر چمڑ گئے!بھٹو کو یہ فوجی فاؤنڈیشن نیشنلائز کرنی تھی۔ غلطی سے 22 امیر ترین صنعتی و تجارتی خاندانوں کی املاک نیشلائز کرکے ملک کی معیشت تباہ کر دی
"اتفاق فاؤنڈری"یہ تو بس ایسے نیشنلائز ہوئے کہ قوم کے ساتھ بھوت بن کر چمڑ گئے!
اتفاق فاؤنڈری براستہ فوجی نرسری، رائے ونڈ روڈ، لاہور!"اتفاق فاؤنڈری"
یہ گندے انڈے آپ کی جماعت کو کہہ رہا ہے؟
سفیروں کی کانفرنس میں اگر یہ سب کچھ کہا گیا ہے تو اس سے آپ وزیراعظم سمیت وزراء اور مشیران کی ذہنی حالت اور وژن کا اندازہ لگا لیجیے۔ یقینی طور پر، یہ ایک نااہل حکومت ثابت ہوئی۔ شاید کچھ ایسا ہو جائے کہ ہم اپنی رائے پر پھر سے غور فرما لیں۔ مگر، امکانی طور پر، یہ اک حسرت ہی رہے گی!‘بھارت کی سوچ تھی کہ پاکستان میں ادارے لڑ جائیں لیکن خواہش پوری نہیں ہوگی‘
وزیراعظم عمران خان کا کہنا ہے کہ پچھلے دنوں ملک کو غیر مستحکم کرنے کی کوشش کی گئی، پہلے دھرنے کے ذریعے اور اب عدالت میں کیس کے ذریعے، یہ امید لگا کر بیٹھے تھے کہ پاکستان کسی طرح غیر مستحکم ہوجائے۔
سفراء کانفرنس برائے افریقا سے خطاب میں وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ ملک کو غیر مستحکم کرنے کی کوشش کرنے والوں نے سوچا تھا کہ ادارے آپس میں لڑ پڑيں گے، ادارے ایک دوسرے سے کبھی تصادم نہيں کريں گے، سب اداروں نے اپنے دائرے میں رہنا شروع کردیا ہے۔
وزیراعظم نے کہا کہ ’پچھلے دنوں میں ملک کو غیر مستحکم کرنے کی کوشش کی گئی، پہلے دھرنے کے ذریعے اور اب جو عدالت میں کیس تھا اسے جس طرح اٹھایا گيا، یہ امید لگا کر بیٹھے تھے کہ پاکستان کسی طرح غیر مستحکم ہوجائے‘۔
عمران خان نے کہا کہ ’ انہوں نے سوچا تھا کہ ادارے آپس میں لڑ پڑيں گے، ادارے ایک دوسرے سے کبھی بھی تصادم نہيں کريں گے، سب اداروں نے اپنے دائرے میں رہنا شروع کردیا ، ایک دوسرے کا احترام کرتے ہيں‘۔
وزیراعظم نے کہا کہ ’ان سب کو شکست ہوئی اور آگے بھی شکست ہوگی، پاکستان مشکل سے نکل کر تیزی سے آگے بڑھ رہا ہے‘۔
دھرنے کو بھارت نے جشن کی طرح استعمال کیا، وزیراعظم
عمران خان نے کہا کہ ’بھارت میں میڈیا نے دھرنے کو جشن کی طرح استعمال کیا کیوں کہ دھرنے کی وجہ سے کشمیر کا معاملہ پس پشت چلا گیا‘۔
وزیراعظم نے کہا کہ بھارت نے سپریم کورٹ کا معاملہ بھی اپنے فائدے کیلئے استعمال کیا تاہم پاکستان میں ہم آہنگی سے مخالفین کو شکست ہوئی ہے، دشمن نے سوچا تھا ادارے آپس میں لڑ پڑیں گے، خوشی ہے ہم نے ملک کو غیر مستحکم کرنے کی سازش ناکام بنائی‘۔
عمران خان نے مزید کہا کہ ’بھارتیہ جنتا پارٹی کی سوچ تھی کہ پاکستان میں ادارے آپس میں لڑ جائیں گے، مارچ اور دھرنے کی وجہ سے بھارت میں خوشیاں منائی گئیں، بی جے پی حکومت مارچ ، دھرنے اور حالیہ صورتحال سے خوش تھی، لیکن دشمنوں کی کوئی خواہش پوری نہیں ہوگی، پاکستان ترقی کرے گا۔
’اس وقت ملک کو میری زیادہ ضرورت ہے، صدر علوی کو افریقا بھیجیں گے‘
اپنے خطاب میں وزیراعظم نے کہا کہ ’ماضی میں میرٹ کو نظر انداز کیا گيا ، اہم پوزيشنز پر ان لوگوں کو بٹھایا گیا جو حق نہيں رکھتے تھے ، چین میں میرٹ کو اوپر لانے کا سسٹم دیکھیں تو سمجھیں گے کہ وہ اتنی ترقی کیسے کر گئے ، جمہوریت کی خوبی ہی یہ ہے کہ اس میں میرٹ ہوتا ہے ‘۔
وزیراعظم نے کہا کہ کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ بڑھنےسے ملک غریب ہوتا چلا جاتاہے ، بیرون ملک پاکستانی ہمارا سب سے بڑا اثاثہ ہیں ، اس وقت ملک کو میری زيادہ ضرورت ہے ، ہم صدر عارف علوی کو افریقا بھجوائيں گے ، جو خارجہ پالیسی اب ہے وہ بہت پہلے ہوجانی چاہیے تھی ‘۔
انہوں نے کہا کہ ہماری آزادانہ خارجہ پالیسی ہونی چاہیے تھی ، جو ملکی مفاد کا دفاع کرتی ، بہت بڑی کامیابی کے کہ ہم نے ایران سے تعلقات بہترکیے ۔
وزیراعظم نے کہا کہ افغان جنگ میں جانی و مالی نقصان تو ایک طرف ، جو ذلت ملی وہ الگ ، الزام لگا کہ پاکستان ڈبل گیم کھیل رہا ہے ، مستقل طور پر ڈو مور کا مطالبہ کیا جاتارہا جس سے پاکستانیوں کو نقصان ہوا ۔
’چینی سفیر کی تعریف کے بعد منیر اکرم کو اقوام متحدہ میں تعینات کیا‘
وزارت خارجہ میں سفیروں کی کانفرنس سے خطاب میں وزیراعظم عمران خان کا مزید کہنا تھا کہ ’چین کے ایک سینیئر سفارتکار نے مجھ سے کہا کہ منیر اکرم کی شاندار کارکردگی رہی ہے، چین کے سفیر کے ریمارکس کے بعد منیر اکرم کی اقوام متحدہ میں تقرری کی‘۔
انہوں نے کہا کہ ہمارے ادارے میرٹ پر نہ چلنے کی وجہ سے تباہ ہوئے، سیاسی بنیادیوں پر تعیناتی کی وجہ سے ادارے تباہ ہوئے، ہمارا سب سے بڑا مسئلہ کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ ہے، خسارہ بڑھنے سے کرنسی گرے گی، مہنگائی ہوگی۔
اب افریقا پر توجہ دینی ہوگی، وزیراعظم عمران خان
اپنے خطاب میں عمران خان نے کہا کہ ’اس کانفرنس کا پیغام ہے کہ اب افریقا پر توجہ دینی ہوگی، چین اور ترکی افریقا میں کام کر رہے ہیں۔
وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ ’پاکستان کو دوسروں کیلئے استعمال نہیں ہونا چاہیے تھا، نئی خارجہ پالیسی کیلئے ایران سے تعلقات بہتر کیے، تنازع میں فریق بننے کے بجائے ثالث بننا چاہیے‘۔
مجھے تو لگتا ہے پوری تحریک انصاف کا سافٹوئیر ہی خراب ہےیار اے انصافی چمپئین آپے ای کردے نیں یا ایناں کولوں انج دیاں حرکتاں سرزد ہو جاندیاں نیں؟؟
خان کی ذہنی حالت کا کچھ نہیں کہہ سکتا البتہ نواز شریف کی ذہنی حالت سب کو معلوم ہے۔ اپنی طاقت کے نشے میں انہوں نے ہر دور اقتدار میں اداروں کے ساتھ محاذ آرائی کی تھی۔ لیکن وہ قوم کو برداشت ہے۔ خان برداشت نہیں ہو رہا جو سب اداروں کو ساتھ لے کر چل رہا ہے۔سفیروں کی کانفرنس میں اگر یہ سب کچھ کہا گیا ہے تو اس سے آپ وزیراعظم سمیت وزراء اور مشیران کی ذہنی حالت اور وژن کا اندازہ لگا لیجیے۔ یقینی طور پر، یہ ایک نااہل حکومت ثابت ہوئی۔ شاید کچھ ایسا ہو جائے کہ ہم اپنی رائے پر پھر سے غور فرما لیں۔ مگر، امکانی طور پر، یہ اک حسرت ہی رہے گی!
مولانا کو دھرنے کے بدلے کیا ملا سوائے عوام کی گالیوں کے؟
اب گالیاں کون لوگ دیتے رہے یا دے رہے ہیں ان کی اصلیت بھی سب کو پتا ہے۔۔۔۔۔۔۔ مولانا کے خلاف ان لوگوں کے پاس گالیوں کے علاوہ ہے بھی کچھ نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔ دھرنے سے کیا ملا ۔۔۔ کچھ کچھ پتا تو اپ کو بھی
چل گیا ہوگا۔۔۔ کچھ کچھ عرصے میں چل جائیگا۔۔۔
اس وقت ملک کے حکمران آپ ہیں، نواز شریف صاحب نہیں۔ یعنی کہ، آج تک آپ کے اعصاب پر وہ سوار ہیں، تو یوں معلوم ہوا، کہ وہ اب بھی آپ کی سیاست کا مرکز و محور ہیں۔ آپ بار بار اپنے اقوال ہائے زریں سے یہی ثابت کرتے رہتے ہیں کہ ملکی سیاست نواز شریف صاحب کے گرد گھوم رہی ہے اور ہم 'عہدِ نواز' میں زندہ ہیں۔ ارے بھئی، وہ تو قصہء پارینہ ہوئے، آپ اپنی بات کیجیے۔خان کی ذہنی حالت کا کچھ نہیں کہہ سکتا البتہ نواز شریف کی ذہنی حالت سب کو معلوم ہے۔ اپنی طاقت کے نشے میں انہوں نے ہر دور اقتدار میں اداروں کے ساتھ محاذ آرائی کی تھی۔ لیکن وہ قوم کو برداشت ہے۔ خان برداشت نہیں ہو رہا جو سب اداروں کو ساتھ لے کر چل رہا ہے۔
یعنی مسئلہ عوام میں ہے حکمران میں نہیں۔
میں نے صرف موازنہ پیش کیا تھا۔ کیونکہ وزیر اعظم اور آرمی چیف اپنا جاری کردہ ایکسٹینشن معطل ہونے کے بعد باقاعدہ سیاسی تحریک بھی چلا سکتے تھے۔ لیکن انہوں نے اپنا کیس حزیمت اٹھانے کے باوجود عدالت میں ہی لڑا۔ اور یوں فتح یاب ہوئے۔ شریف خاندان کی طرح ملک سے بھاگے نہیں۔اس وقت ملک کے حکمران آپ ہیں، نواز شریف صاحب نہیں۔ یعنی کہ، آج تک آپ کے اعصاب پر وہ سوار ہیں، تو یوں معلوم ہوا، کہ وہ اب بھی آپ کی سیاست کا مرکز و محور ہیں۔ آپ بار بار اپنے اقوال ہائے زریں سے یہی ثابت کرتے رہتے ہیں کہ ملکی سیاست نواز شریف صاحب کے گرد گھوم رہی ہے اور ہم 'عہدِ نواز' میں زندہ ہیں۔ ارے بھئی، وہ تو قصہء پارینہ ہوئے، آپ اپنی بات کیجیے۔
یہی عدالتیں اگر آج ایکسٹینشن کینسل کر دیتی تو آپ اس کے حق میں قصیدے پڑھ رہے ہوتے۔ اب فیصلہ خلاف آگیا ہے تو عدالتیں ڈمی ہیں۔آئین و قانون میں گنجائش تو نہیں مگر پھر بھی اپنے کو ایکسٹینشن دیتےہیں رہا قانون تو وہ بعد میں بنا لیں گے البتہ سیاستدانوں کےلئے پاناما سےکچھ نہ ملے تو اقامہ پر ٹھکانے لگائیں گے ہمیں کہتےہیں کہ سڑکوں پر آنےکی بجائے عدالتوں سےرجوع کرے کونسی عدالتیں؟ جو تمہاری کٹھ پتلی اور ڈمی ہیں؟
خیر، یہ تو آپ نے کہاں کی بات کہاں جوڑ دی؟ یہ تو نکالنے والوں میں سے ہیں، نہ کہ تحریکیں چلانے والوں میں شامل ہیں۔ باجوہ صاحب ایک آدھ جلسہ بھی کر کے دیکھیں نا کہیں تو مقبولیت کا نشہ ہرن ہو جائے گا۔ دراصل، ان کی وردی ہی اصل طاقت ہے وگرنہ باجوہ جی میں کیا دھرا ہے! شاید ان سے بڑے جری جرنیل ماضی میں ہو گزرے اور اب بھی فوج کی صفوں میں دبنگ جرنیلوں کی کمی نہیں۔میں نے صرف موازنہ پیش کیا تھا۔ کیونکہ وزیر اعظم اور آرمی چیف اپنا جاری کردہ ایکسٹینشن معطل ہونے کے بعد باقاعدہ سیاسی تحریک بھی چلا سکتے تھے۔ لیکن انہوں نے اپنا کیس حزیمت اٹھانے کے باوجود عدالت میں ہی لڑا۔ اور یوں فتح یاب ہوئے۔ شریف خاندان کی طرح ملک سے بھاگے نہیں۔
میں عمران خان اور عارف علوی کی بات کر رہا تھا جن کے حکم پر ایکسٹینشن ملی تھی۔ وہ چاہتے تو ایکسٹینشن کینسل کرنے پر عدلیہ کے ساتھ محاذ آرائی کر سکتے تھے۔ لیکن انہوں آرمی چیف کو آن بورڈ لے کر سارا معاملہ افہام و تفہیم سے حل کر لیا۔خیر، یہ تو آپ نے کہاں کی بات کہاں جوڑ دی؟ یہ تو نکالنے والوں میں سے ہیں، نہ کہ تحریکیں چلانے والوں میں شامل ہیں۔ باجوہ صاحب ایک آدھ جلسہ بھی کر کے دیکھیں نا کہیں تو مقبولیت کا نشہ ہرن ہو جائے گا۔ دراصل، ان کی وردی ہی اصل طاقت ہے وگرنہ باجوہ جی میں کیا دھرا ہے! شاید ان سے بڑے جری جرنیل ماضی میں ہو گزرے اور اب بھی فوج کی صفوں میں دبنگ جرنیلوں کی کمی نہیں۔
صاحب! بھیک بھی دھمکا کے لیتے ہیں، کیا کیا جائے!چھ ماہ کی بھیک!
ان دنوں خان صاحب بھی اچھے خاصے غیر مقبول ہیں۔ ناروے سے ذرا ادھر بھی تو آئیے نا!میں عمران خان کی بات کر رہا تھا جن کے حکم پر ایکسٹینشن ملی تھی۔ وہ چاہتے تو ایکسٹینشن کینسل پر عدلیہ سے محاذ آرائی کر سکتے تھے۔ لیکن آرمی چیف کو آن بورڈ لے کر سارا معاملہ افہام و تفہیم سے حل کر لیا۔