لیکن کیا ان بچوں کو کرنے کے لیے ہوم ورک بھی ملتا ہے، جیسا کہ پاکستانی اسکولوں میں ڈھیر سارا ہوم بھی کرنے کو دے دیتے ہیں۔
مضامین میں موجود مواد میں فرق ہے ۔۔
مثلا قائد (رح) کے 14 نکات دسویں سے چوہدویں تک موجود ہیں ۔۔
مذہب کے نام پر جو کچھ کتب میں موجود ہے وہ ناکافی بھی ہے اور کئی ایک چیزیں غیر ضروری بھی ۔۔
بنیادی اخلاقیات کا درس نہ ہونے کے برابر ہے ۔۔
بنیادی قوانین کا کہیں کوئی ذکر نہیں ۔۔
جدید سائنسی نظریات کا علم نہ ہونے کے برابر ۔۔
ایسی بے شمار چیزیں ہیں جن کو درست کرنے کی ضرورت ہے ۔۔ حالت یہ ہے کہ دو چار صفحوں کا اضافہ کر کے اسے "نئے ایڈیشن" کا نام دے دیا جاتا ہے ۔۔
وسلام
یہ وہی تعلیمی نظام ہے جو انگریزوں نے دیا تھا۔ اور انگریزوں نے دو الگ الگ تعلیمی نظام بنائے ہوئے تھے، ایک اپنے لیے اور ایک متحدہ ہندوستان کے لیے۔ اپنے نظام کے آخر میں تو وہ افسر بن جاتے تھے اور دوسرے نظام والے کو چودہ سال پڑھنے کے بعد بھی معلوم نہیں ہوتا تھا کہ اس نے بننا کیا ہے۔ اور وہی نظام تعلیم ابھی تک چلا آ رہا ہے۔ ہمارے ہاں اس کو تبدیل کرنے کی ضرورت اس لیے بھی نہیں کہ اگر کسی صاحب کمال نے جرات کی بھی تھی تو دفتری امور اور اپنے بڑوں سے منظوری کرانے میں ہی اس کی ہمت جواب دے گئ۔ اور فائلیں سرخ فیتے کا شکار ہو گئیں۔
یہ نظام "لارڈ میکالے" صاحب کی مرہون منت ہے ۔۔
خانہ جنگی کو آپ خونی انقلاب کہیں تو زیادہ بہتر لگے ۔۔ ڈنڈے بھی کھائے جا سکتے اور خون لیا اور دیا جا سکتا ہے مگر کمی قیادت کی ہے اور جو کچھ میسر ہے وہ جم جانے والی قیادت نہیں ۔۔
وسلام
طالوت ، کیا یاد کروا دیا ۔ ہمیں بھی ہمارے زمانہ طالبعلمی میں اردو زبان میں مختلف اقسام کی قانونی و سرکاری تحریروں کی مشق کروائی جاتی تھی۔شاید امریکہ میں بچوں کو پڑھائ جانے والی ایک کتاب دیکھی تھی ، جس میں ٹریفک کے قوانین ، منی آرڈر فارم بھرنا وغیرہ وغیرہ درج تھے ۔۔ یعنی مکمل "پریکٹیکل"
وسلام