سکول کیسا ہو؟

فلک شیر

محفلین
ذریعۂ تعلیم
جب کوئی زبان آتی ہے،اپنے ساتھ اپنی ثقافت ضرور لاتی ہے۔ہم سب موجودہ صورتحال سے بخوبی واقف ہیں ۔ ہم آدھے تیتر آدھے بٹیر بن گئے ہیں۔ اِس صورتحال میں اگر ہم ایک ایسا سکول بناتے ہیں جہاں ذریعۂ تعلیم اردو ہو اور انگریزی سکھانے کا انتظام نہ ہو تو ۔۔۔۔پُورے ملک میں مختلف صورتحال کی وجہ سے بے پناہ مسائل کا سامنا کرنا پڑا کرے گا،کرنا پڑتا رہے گا۔اِس سکول سے فارغ ا لتحصیل بچے زندگی کے جس میدان میں جائیں گے،ان کا سامنا "ؐدوسرے" گروہ سے ہو گا اور یقیناََ اُنہیں کم تر سمجھا جائے گا۔
اِس لئے ذریعۂ تعلیم اردو ہی ہو لیکن انگریزی زبان سکھانے کا جامع نظام ہو۔
ثانوی مراحل میں ذریعہ تعلیم اردو ہونا ۔۔۔کیا زمینی حقائق اس نظریہ کے ساتھ ہیں؟
بصد ادب۔
 

فلک شیر

محفلین
آپ اسکول کیوں کھولنا چاہ رہے ہیں؟ (1) پیسہ کمانے کے لئے؟ (2) قومی اور ملی زندگی میں مؤثر انسان پیدا کرنے کے لئے؟ (3) اور وہ مؤثر انسان جو آپ کے ذہن میں ہے، اس کا ناک نقشہ کیا ہے؟
اگر پیسہ کمانا ہے تو یہ واقعی ایک اچھا کاروبار ہے، ہینگ پھٹکڑی لگتی ہے پر بہت زیادہ نہیں۔
قومی اور ملی زندگی میں مؤثر کردار ادا کر سکنے والے بھی جب موجودہ جمہوری جلیبی کا مزہ چکھ لیتے ہیں تو قوم کا معنیٰ بدل کر "میری ذات" اور ملت کا معنیٰ بدل کر "میرا مفاد" بن جاتا ہے۔ اپنا تجربہ تو یہی کہتا ہے کہ عام آدمی بے چارہ ہمیشہ "پرچی" رہا ہے، وہ بھی بے قیمت۔
ناک نقشہ سے میری مراد ہے کہ اس کا رخ کس طرف ہو؟ کعبہ کی طرف یا جینیوا کی طرف؟ اور وہ مسلمان ہو یا دیوبندی بریلوی وہابی شیعہ وغیرہ؟ یا کسی نام نہاد "دینی سیاسی جماعت" کا پرجوش کارکن؟ (ہوش کی شرط نہیں ہے)
میری خواہش ہے، کہ آپ ان نظریاتی سوالات کے جوابات کھول کر عنایت فرمائیں ۔ میں آپ کی سوچی سمجھی رائے جاننے کا خواہشمند ہوں ۔۔
 

فلک شیر

محفلین
آپ کے سوال کا رخ تربیت کی طرف ہے، ایسا ہی ہے نا؟

تربیت کے دو اہم عنصر: (1) زبان یا جیسے میڈیم کہتے ہیں۔ اور (2) نصاب، کہ پڑھانا کیا ہے۔
یہ دیکھ لیجئے کہ ان دونوں کے بیچ میں سرکار بہر طور موجود ہے۔ آج اسکول بنائیں گے تو کل اس کو رجسٹر بھی کرائیں گے۔ سرکار تو اپنا نظام چاہے گی (جو بھی سرکار ہو، مجھے نون قاف پی کیو آر سے کچھ نہیں لینا)؛ تو پھر آپ کی ترجیحات کا کیا ہو گا؟
عموماََ سرکار نصاب سے متعلق رہتی ہے، زبان کا انتخاب آپ کا اپنا ہے ۔۔
رجسٹر کروائے بغیر معاملات چلانا مشکل ہو جاتاہے نا سر۔۔
 

فلک شیر

محفلین
ماحول انسان کی شخصیت پہ بہت زیادہ اثر کرتا ہے۔اور ماحول میں مادی چیزیں بھی شامل ہیں جن میں سرِ فہرست عمارت ہے۔ اس لئے سکول سکول ہی لگے یعنی سکول کے لئے ایک اچھی عمارت ہو۔ ہمارا اپنا بہت اچھا طرزِ تعمیر ہے۔ کھلُلے،کھُلے کشادہ کمرے،بڑے بڑے برآمدے اور صحن،بڑے بڑے میدان ہوں۔
وسائل ہوں ، تو بالیقین ایسا ہی ہونا چاہیے ۔۔
 

فلک شیر

محفلین
جیسا آپ نے افتتاحی پیراگراف میں لکھا:

اس کے لئے عصرِ رواں میں رائج سب نظاموں کو چھوڑ کر اپنا راستہ بنانا پڑے گا۔ یہ دیکھ لیجئے کہ آپ کو "سر پھرے لوگ" میسر بھی ہیں کیا؟ اور کیا آپ کے پاس اتنی قوت ہے کہ نظاموں کی ان "اقطار" سے نفوذ کر سکیں؟ جو لوگ آپ کے لئے کام کریں گے، ان کی ضروریات والی بات تو ہے ہی، ان کا "دفاع" بھی آپ کو کرنا ہو گا۔
ہے تو یہ الگ راستہ اور مشکل بھی ہے ۔
لیکن سچ جانیے، تو میں راہنمائی چاہتا ہوں، کہ پہلا قدم اٹھانے سے پہلے کیا کیا جانا چاہیے اور اس کے بعد کن چیزوں کے لیے تیار رہنا ہوگا۔۔۔
وسائل کو کتنی اہمیت دی جائے اور نظریات کو کتنی؟
مارکیٹ میں موجود مختلف ماڈلز میں کون سا کس قدر قریب ترین ہے مطلوبہ مثالیہ کے؟
 

فلک شیر

محفلین
اسکول یواے ای میں ہے، اسطرح ہونا چاہیے
اسلام کا دروازہ دنیا و آخرت کی کامیابی کے لئے ہے اس لئے یہاں
دنیاوی معاملات کے ساتھ ساتھ دینیات جس کا تعلق روز مرہ سے ہے سکھایا اور پڑھایا جاتا ہے بارہویں کے بعد طالب علم اپنی منزل بدل کسی ایک جانب حصوصی کرسکتا ہے
اس سکول کے حوالے سے کچھ مزید تفصیل عنایت کیجیے ۔
 
اس حوالے سے میں نے ابھی گزشتہ دنوں ہی ایک لڑی میں ایک تبصرہ کیا تھا جسے میں یہاں نقل کرنا مناسب سمجھ رہا ہوں۔

سب کا تو نہیں۔ ہاں پاکستان کی بات کرتے ہوئے میں یہ کہنا ضرور چاہوں گا کہ میری اب تک کی زندگی کا ایک بڑا حصہ درس و تدریس اور تعلیمی سلسلے سے جڑا رہا ہے اور اب تک میں اسی میں سر گرم ہوں۔
میرا تجزیہ یہ ہے کہ ہمارے یہاں جو سکول سسٹم رائج ہے وہ خصوصاً نرسری اور مونٹیسری سطح پر تو برداشت کے لائق ہے اگر ایک اوسط درجے کے نجی سکول میں ہو تو۔ اس سے آگے پرائمری سطح پر آنے والے سو میں سے ننانوے بچے اپنے وقت کو صرف ضائع کرتے ہیں۔ مجھے اپنے چھوٹے تین بھائیوں (ایک بھائی اور دو کزنز) کا ذاتی تجربہ رہا ہے اور اس کے علاوہ میرے پاس ٹیوشن پڑھنے والے دسیوں بچوں کا بھی۔ پرائمری لیول پر بچوں کو جو کتابیں پڑھانے کا ذمہ اسکول لیتا ہے، وہ اسے کبھی احسن طریقے سے پورا نہیں کرتا۔ ابھی گزشتہ ہفتے ہی جب میرے چھوٹے کزن (جو کراچی کے ایک مشہور اور نامور ادارے میں زیرِ تعلیم ہیں) رزلٹ آیا تو انگریزی میں اس کے 80 فیصد نمبر تھے۔ اب میں جب انہیں انکی کتاب سمیت انکے ٹیچر کے پاس لے کر گیا اور کہا کہ آپ انہیں کتاب کا کوئی بھی صفحہ اپنی مرضی سے پڑھوائیں، تو حال یہ تھا کہ ایک لائن بھی وہ پڑھنے کے قابل نہیں تھا، نہ ڈکٹیشن میں کامیاب ہوسکا۔ نمبرات اسی فیصد ضرور آگئے۔ اور یہی ہوتا رہا ہے ہمارے یہاں نجی تعلیمی اداروں میں۔ صرف پیسہ اور وقت برباد کرکے صرف اسی اور نوے فیصد مارکس بغیر کسی قابلیت کے، والدین کو خوش کرنے کے لیے ٹیچرز دیتے ہیں۔
اپنے چھوٹے بھائی پر میرا یہ تجربہ ہے کہ اسے تیسری جماعت تک اوسط درجے کے نجی سکول میں پڑھایا۔ پھر اسکول والوں سے انہیں چوتھی کی جگہ پانچوی میں ایڈمیشن کروایا۔ اور پانچویں سے پھر ساتویں میں۔ ساتویں سے میں نے انہیں سکول کے ساتھ ساتھ گیارھویں اور بارہویں جماعت کی کیمیا اور طبیعات کو بنیاد سے سمجھاتے ہوئے پڑھانا شروع کرکے دو سالوں میں اس کا کانسیپٹ بنا دیا۔ ساتھ ہی ٹیوشن میں صرف ریاضی کی مسلسل پڑھائی کا کرنا یہ ہوا کہ دسویں جماعت تک آتے آتے انہیں کیلکیولس کے بنیادی سوالات، ڈیرویٹوز اور اینٹی ڈیریویٹوز، انٹیگرز وغیرہ کی آگہی مل گئی۔ اب وہ بارھویں جماعت میں ہے۔ اور الحمد للہ اپنی کلاس میں سب سے آگے اور بہتر ہے۔ اور حال یہ ہے کہ ٹیچر انکو کم اور وہ ٹیچر کو زیادہ پڑھا رہے ہوتے ہیں۔ جب کہ اس کے ساتھ پڑھنے والے کراچی کے مایہ ناز سکولوں سے فارغ التحصیل طلباء ہیں۔

چند مزید نکات خصوصاً پاکستان کے حوالے سے عرض کرنا چاہتا ہوں۔ تاہم یہاں مذہبی یا غیر مذہبی نصاب کی بحث چھوڑ کر صرف کُلّیات پر بات کروں گا۔
  • پانچویں یعنی پرائمری اسکولوں میں رائج موجودہ نصاب میں کسی خاص ترمیم کی میں ضرورت نہیں سمجھتا۔
  • ابتدائی جماعتوں میں استاد کا آزمودہ کار ہونا انتہائی ضروری ہے۔ خصوصاً انگریزی اور اردو کی بدیہی طور پر لیکن جامع تربیت کا ایک لائحہ عمل طے کیا جانا چاہیے۔ اور ساتھ ہی ابتدائی جماعتوں سے مطالعے کی مشق ہونی چاہیے۔ تفہیم پر مہارت زیادہ سے زیادہ پانچویں جماعت تک حاصل ہوجانی چاہیے۔
  • ہمارے درمیانہ طبقے میں اسکولوں کی سب سے بڑی خامی یہ ہے کہ وہاں اساتذہ نا اہل ہیں۔ اور یہ نا اہلی چاہے کتنی ہی خلوص کی آمیزش سے پر ہو، رہتی ہمیشہ بانجھ ہی ہے۔ استادی کا منصب اس کا متحمل نہیں ہے۔ اگر یہ اوسط درجے کے سکول والے میٹرک اور نوی جماعت میں فیل ہوئی لڑکیوں کو پندرہ سو روپے تنخواہ پر رکھ کر ان سے استانی کا کام لینا چھوڑ دیں تو ہماری آگے کی نسلیں کافی زرخیز ہوسکتی ہیں۔
  • چھٹی، ساتویں اور آٹھویں جماعتوں میں طلباء کے لیے بین المدارس امتحان کا ایک سلسلہ ہونا چاہیے جس میں ششماہی اور سالانہ امتحانات اپنے سکول کی بجائے یا تو دوسرے سکول میں ہوں یا پھر وہاں سے اساتذہ بطور ممتحن کے آئیں۔ یا پھر حکومتی سطح پر اسی طرح امتحانات ہوں جیسے نوی اور دسویں، گیارھویں اور بارھویں کے بورڈ کے ہوتے ہیں۔
  • چھٹی سے آٹھوی جماعت تک کے لیے نصاب کا اجمالی طور پر اقتباس میں تذکرہ کیا ہے۔ جس میں خصوصاً ریاضی اور جنرل سائنس پر توجہ ہونی چاہیے۔
  • لٹریچر اور آرٹس کے مضامین کی تعلیم کو بدیہی طور پر طلبا میں اجاگر کیا جانا چاہیے، اور اس کے لیے مختلف مواقع پر ایسی تقاریب کا انعقاد ہونا چاہیے جہاں مقابلوں میں شرکت کرکے طلبا آپس میں اپنی قابلیت کا موازنہ کر سکیں۔
اس کے علاوہ چند چیزیں ایسی ہیں جن کا تعلق اسکولوں سے تو براہِ راست نہیں ہے البتہ عوامی نفسیات سے ہے۔ ہمارے یہاں آج کل کاروباری طبقوں میں یہ مرض بڑھتا جا رہا ہے کہ بچے کو مہنگے سے مہنگے سکول میں داخل کروایا جائے۔ چونکہ میں خود کاروباری خاندان کا حصہ ہوں اس لیے بہت قریب سے ایسے لوگوں کو دیکھا ہے جو بے تحاشہ فضول خرچ اپنے بچے کے سکول پر کرتے ہیں اور اس بات سے بھی بے خبر ہیں کہ ان کے بچے کو پڑھایا کیا جارہا ہے۔ اب چونکے ماں باپ کا کوئی تعلیمی بیک گراؤنڈ نہیں اور سکول والے مخلص نہیں۔ پھر یہی ہوتا ہے کہ بچہ چھ آٹھ سال کی عمر تک گڈ مارننگ اور سویٹ ڈریمز کہنا سیکھ لیتا ہے۔ اور باقی سب کچھ ویسا کا ویسا ہی رہتا ہے۔ کاروباری طبقہ تعلیم صرف انگریزی بولنے کو سمجھتا ہے اس لیے وہ بے چارے کبھی سکول جا کر خبر لینے کی کوشش نہیں کرتے۔
میرے خیال میں انفرادی طور پر والدین کی ذہن سازی کی بھی ضرورت ہے کہ وہ سمجھ سکیں کہ اصل تعلیم اپنی ماہیت میں کیا ہے اور اس کے اغراض و مقاصد کیا ہیں۔
 

زیک

مسافر
اتنی زبانوں (اردو،عربی، فارسی،انگریزی۔۔۔اور بعض کے بقو ل چینی بھی ) کو کیسے ایڈجسٹ کیا جائے مختلف مراحل میں؟
اس پہ کچھ رہنمائی فرمائیں آسی صاحب ۔۔۔براہ کرم
ایک زبان کو لازم قرار دیں اور بچوں اور ان کے والدین کو منتخب کرنے دیں کہ وہ کونسی زبان سیکھنا چاہتے ہیں۔ جو زبان وہ سیکھنا چاہیں وہ تین چار سال تک وہی سیکھیں۔ اس کے بعد چاہیں تو اسی زبان کو اعلی سطح پر سیکھتے رہیں یا نئی زبان اگلے مرحلے میں۔
 
اتنی زبانوں (اردو،عربی، فارسی،انگریزی۔۔۔اور بعض کے بقو ل چینی بھی ) کو کیسے ایڈجسٹ کیا جائے مختلف مراحل میں؟
اس پہ کچھ رہنمائی فرمائیں آسی صاحب ۔۔۔براہ کرم
جی ۔۔ مرحلہ وار! پنجاب کی بات کریں تو پنجابی ابتدا میں ذریعہ (میڈیم) ہو، دوسری جماعت سے اردو زبان کی حیثیت سے، پھر مرحلہ وار چلتے رہیں۔
مسئلہ تعداد کا نہیں بنیادی اہمیت کا ہے۔ مگر جیسا آپ نے بعد میں ایک جگہ لکھا ہے کہ نصاب سرکار کا چلے گا تو پھر ان ساری تجاویز کا کیا حاصل!
 
عموماََ سرکار نصاب سے متعلق رہتی ہے، زبان کا انتخاب آپ کا اپنا ہے ۔۔
رجسٹر کروائے بغیر معاملات چلانا مشکل ہو جاتاہے نا سر۔۔
ذریعہء تعلیم کا تعین نصاب کا ایک جزو ہے۔ آپ تو خود تعلیم سے وابستہ ہیں۔ جب سرکار نصاب دے گی تو زبان (میڈیم) بھی اس کے مطابق ہو گی۔
 
ہے تو یہ الگ راستہ اور مشکل بھی ہے ۔
لیکن سچ جانیے، تو میں راہنمائی چاہتا ہوں، کہ پہلا قدم اٹھانے سے پہلے کیا کیا جانا چاہیے اور اس کے بعد کن چیزوں کے لیے تیار رہنا ہوگا۔۔۔
وسائل کو کتنی اہمیت دی جائے اور نظریات کو کتنی؟
مارکیٹ میں موجود مختلف ماڈلز میں کون سا کس قدر قریب ترین ہے مطلوبہ مثالیہ کے؟
اسلام نظریہ سے کہیں آگے ایمان کی حیثیت رکھتا ہے۔ اگر مسلمان پیدا کرنے ہیں تو نظریہ بنیاد ہو گا۔ وسائل نہیں ہوں گے تو سکول، مدرسہ، اکادمی؛ آپ جو بھی نام دیں؛ چلائیں گے کیسے؟ راستہ الگ ہے، مشکل ہے؛ سرکار کی چھترچھاؤں سے نکلنا ہو گا۔ پھر وہی مسئلہ رجسٹریشن کا۔ یونیورسٹی کسی حد تک خود مختار ہوتی ہے، اس سے کم تر سطح کا ہر ادارہ سرکاری احکام اور پالیسی کا پابند ہوتا ہے۔ تعلیمی بورڈ ہوتے ہی اس لئے ہیں کہ تعلیمی پالیسی (جو بھی ہو) اس کو نافذ کریں۔
اب میں کیا عرض کروں؟!
 
بقیہ سارے معاملات پلاننگ کے ہیں (نظریے کے نہیں) اور اس میں جو بھی راستہ اختیار کر لیں، سب کا حاصل موجود سانچے میں ڈھلا ہوا ایک "ماڈریٹ مسلم" ہے
جو تصور ہی غلط ہے۔
 
Top