اس حوالے سے میں نے ابھی گزشتہ دنوں ہی ایک لڑی میں ایک تبصرہ کیا تھا جسے میں یہاں نقل کرنا مناسب سمجھ رہا ہوں۔
سب کا تو نہیں۔ ہاں پاکستان کی بات کرتے ہوئے میں یہ کہنا ضرور چاہوں گا کہ میری اب تک کی زندگی کا ایک بڑا حصہ درس و تدریس اور تعلیمی سلسلے سے جڑا رہا ہے اور اب تک میں اسی میں سر گرم ہوں۔
میرا تجزیہ یہ ہے کہ ہمارے یہاں جو سکول سسٹم رائج ہے وہ خصوصاً نرسری اور مونٹیسری سطح پر تو برداشت کے لائق ہے اگر ایک اوسط درجے کے نجی سکول میں ہو تو۔ اس سے آگے پرائمری سطح پر آنے والے سو میں سے ننانوے بچے اپنے وقت کو صرف ضائع کرتے ہیں۔ مجھے اپنے چھوٹے تین بھائیوں (ایک بھائی اور دو کزنز) کا ذاتی تجربہ رہا ہے اور اس کے علاوہ میرے پاس ٹیوشن پڑھنے والے دسیوں بچوں کا بھی۔ پرائمری لیول پر بچوں کو جو کتابیں پڑھانے کا ذمہ اسکول لیتا ہے، وہ اسے کبھی احسن طریقے سے پورا نہیں کرتا۔ ابھی گزشتہ ہفتے ہی جب میرے چھوٹے کزن (جو کراچی کے ایک مشہور اور نامور ادارے میں زیرِ تعلیم ہیں) رزلٹ آیا تو انگریزی میں اس کے 80 فیصد نمبر تھے۔ اب میں جب انہیں انکی کتاب سمیت انکے ٹیچر کے پاس لے کر گیا اور کہا کہ آپ انہیں کتاب کا کوئی بھی صفحہ اپنی مرضی سے پڑھوائیں، تو حال یہ تھا کہ ایک لائن بھی وہ پڑھنے کے قابل نہیں تھا، نہ ڈکٹیشن میں کامیاب ہوسکا۔ نمبرات اسی فیصد ضرور آگئے۔ اور یہی ہوتا رہا ہے ہمارے یہاں نجی تعلیمی اداروں میں۔ صرف پیسہ اور وقت برباد کرکے صرف اسی اور نوے فیصد مارکس بغیر کسی قابلیت کے، والدین کو خوش کرنے کے لیے ٹیچرز دیتے ہیں۔
اپنے چھوٹے بھائی پر میرا یہ تجربہ ہے کہ اسے تیسری جماعت تک اوسط درجے کے نجی سکول میں پڑھایا۔ پھر اسکول والوں سے انہیں چوتھی کی جگہ پانچوی میں ایڈمیشن کروایا۔ اور پانچویں سے پھر ساتویں میں۔ ساتویں سے میں نے انہیں سکول کے ساتھ ساتھ گیارھویں اور بارہویں جماعت کی کیمیا اور طبیعات کو بنیاد سے سمجھاتے ہوئے پڑھانا شروع کرکے دو سالوں میں اس کا کانسیپٹ بنا دیا۔ ساتھ ہی ٹیوشن میں صرف ریاضی کی مسلسل پڑھائی کا کرنا یہ ہوا کہ دسویں جماعت تک آتے آتے انہیں کیلکیولس کے بنیادی سوالات، ڈیرویٹوز اور اینٹی ڈیریویٹوز، انٹیگرز وغیرہ کی آگہی مل گئی۔ اب وہ بارھویں جماعت میں ہے۔ اور الحمد للہ اپنی کلاس میں سب سے آگے اور بہتر ہے۔ اور حال یہ ہے کہ ٹیچر انکو کم اور وہ ٹیچر کو زیادہ پڑھا رہے ہوتے ہیں۔ جب کہ اس کے ساتھ پڑھنے والے کراچی کے مایہ ناز سکولوں سے فارغ التحصیل طلباء ہیں۔
چند مزید نکات خصوصاً پاکستان کے حوالے سے عرض کرنا چاہتا ہوں۔ تاہم یہاں مذہبی یا غیر مذہبی نصاب کی بحث چھوڑ کر صرف کُلّیات پر بات کروں گا۔
- پانچویں یعنی پرائمری اسکولوں میں رائج موجودہ نصاب میں کسی خاص ترمیم کی میں ضرورت نہیں سمجھتا۔
- ابتدائی جماعتوں میں استاد کا آزمودہ کار ہونا انتہائی ضروری ہے۔ خصوصاً انگریزی اور اردو کی بدیہی طور پر لیکن جامع تربیت کا ایک لائحہ عمل طے کیا جانا چاہیے۔ اور ساتھ ہی ابتدائی جماعتوں سے مطالعے کی مشق ہونی چاہیے۔ تفہیم پر مہارت زیادہ سے زیادہ پانچویں جماعت تک حاصل ہوجانی چاہیے۔
- ہمارے درمیانہ طبقے میں اسکولوں کی سب سے بڑی خامی یہ ہے کہ وہاں اساتذہ نا اہل ہیں۔ اور یہ نا اہلی چاہے کتنی ہی خلوص کی آمیزش سے پر ہو، رہتی ہمیشہ بانجھ ہی ہے۔ استادی کا منصب اس کا متحمل نہیں ہے۔ اگر یہ اوسط درجے کے سکول والے میٹرک اور نوی جماعت میں فیل ہوئی لڑکیوں کو پندرہ سو روپے تنخواہ پر رکھ کر ان سے استانی کا کام لینا چھوڑ دیں تو ہماری آگے کی نسلیں کافی زرخیز ہوسکتی ہیں۔
- چھٹی، ساتویں اور آٹھویں جماعتوں میں طلباء کے لیے بین المدارس امتحان کا ایک سلسلہ ہونا چاہیے جس میں ششماہی اور سالانہ امتحانات اپنے سکول کی بجائے یا تو دوسرے سکول میں ہوں یا پھر وہاں سے اساتذہ بطور ممتحن کے آئیں۔ یا پھر حکومتی سطح پر اسی طرح امتحانات ہوں جیسے نوی اور دسویں، گیارھویں اور بارھویں کے بورڈ کے ہوتے ہیں۔
- چھٹی سے آٹھوی جماعت تک کے لیے نصاب کا اجمالی طور پر اقتباس میں تذکرہ کیا ہے۔ جس میں خصوصاً ریاضی اور جنرل سائنس پر توجہ ہونی چاہیے۔
- لٹریچر اور آرٹس کے مضامین کی تعلیم کو بدیہی طور پر طلبا میں اجاگر کیا جانا چاہیے، اور اس کے لیے مختلف مواقع پر ایسی تقاریب کا انعقاد ہونا چاہیے جہاں مقابلوں میں شرکت کرکے طلبا آپس میں اپنی قابلیت کا موازنہ کر سکیں۔
اس کے علاوہ چند چیزیں ایسی ہیں جن کا تعلق اسکولوں سے تو براہِ راست نہیں ہے البتہ عوامی نفسیات سے ہے۔ ہمارے یہاں آج کل کاروباری طبقوں میں یہ مرض بڑھتا جا رہا ہے کہ بچے کو مہنگے سے مہنگے سکول میں داخل کروایا جائے۔ چونکہ میں خود کاروباری خاندان کا حصہ ہوں اس لیے بہت قریب سے ایسے لوگوں کو دیکھا ہے جو بے تحاشہ فضول خرچ اپنے بچے کے سکول پر کرتے ہیں اور اس بات سے بھی بے خبر ہیں کہ ان کے بچے کو پڑھایا کیا جارہا ہے۔ اب چونکے ماں باپ کا کوئی تعلیمی بیک گراؤنڈ نہیں اور سکول والے مخلص نہیں۔ پھر یہی ہوتا ہے کہ بچہ چھ آٹھ سال کی عمر تک گڈ مارننگ اور سویٹ ڈریمز کہنا سیکھ لیتا ہے۔ اور باقی سب کچھ ویسا کا ویسا ہی رہتا ہے۔ کاروباری طبقہ تعلیم صرف انگریزی بولنے کو سمجھتا ہے اس لیے وہ بے چارے کبھی سکول جا کر خبر لینے کی کوشش نہیں کرتے۔
میرے خیال میں انفرادی طور پر والدین کی ذہن سازی کی بھی ضرورت ہے کہ وہ سمجھ سکیں کہ اصل تعلیم اپنی ماہیت میں کیا ہے اور اس کے اغراض و مقاصد کیا ہیں۔