سکول کیسا ہو؟

یوسف-2

محفلین
تفصیلی جواب کے لیے شکرگزار ہوں یوسف بھائی ۔
دلچسپ ترتیب سامنے لائے ہیں آپ۔
یہ ڈاکٹر ذاکر صاحب والے ادارہ والی بات بھی دل کو لگی ہے، کیونکہ ان کے ادارے کے طلبا ء و طالبات کافی پراعتماد اور مطلوب خصوصیات کے حامل دکھائی دیے ہیں مجھے ۔ لیکن یہ کہیے، کہ آپ نے اس ضمن میں ابتدائی کام کا کوئی خاکہ ترتیب دیا ہے ابھی تک؟
یا اوپر والے خاکہ میں کہیں تھوڑے بہت رنگ بھرے ہوئے آپ نے دیکھے ہوں؟
شبید ہے کہ کراچی اور لاہور میں کسی نے ڈاکٹر ذاکر صاحب کے اسکول جیسے اسکولز کھولے ہیں۔ ایک کام آپ یہ بھی کرسکتے ہیں کہ ”اسلامی اسکول“ کے نام سے جتنے بھی اسکول لاہور یا دیگر شہروں میں قائم ہیں، ان کو اسٹڈی ہی کرلیں تو بہت آسانی سے آپ اپنے ”ٹارگٹ“ تک پہنچ سکتے ہیں۔
جی نہیں۔ میں عملی طور پر تو کچھ کر نہیں سکا۔ ابھی تک صرف اپنے بچوں ہی کی تعلیم میں لگا ہوا ہوں۔ اگر اللہ نے زندگی اور موقع دیا تو پھر کچھ کروں گا۔ ان شاء اللہ
 
آپ نے زمینی حقائق کی بات کی۔
تعلیم کا اولین منصب کردار سازی ہے جیسا کبھی تھا! مگر اب؟ یہ عنصر سکول، کالج، یونیورسٹی ہر سطح پر نکال باہر کیا گیا۔ دنیا کی "بہترین" جامعات ممکن ہے "عالی دماغ" پیدا کر رہی ہوں؛ "اعلیٰ انسان" اگر کوئی بنتا ہے تو اپنے اندر کی قوت سے، جامعات کا اس میں کوئی کردار نہیں۔
 
  • حسابیات
  • سائنس(فزکس، کمسٹری، بیالوجی وغیرہ)
  • تاریخ (دنیاوی اقوام کی تاریخ)
  • معاشرتی علوم (جغرافیہ، سیاسیات وغیرہ)
  • میڈیکل
  • انجینئرنگ
  • فنِ حرب
اور ایسے تمام علوم جن سے انسان یا انسانیت کی فلاح و بہبود سیکھا یا سکھایا جاتا ہو عین اسلامی علوم ہیں بالکل اسی طرح جس طرح قرآن و حدیث کا علم ہے۔


قرآن و حدیث اور فقہ وغیرہ کا علم حاصل کرنا کیا دینی یا اسلامی علم ہو سکتا ہے اگر اس کو حاصل کر کے "ظالمان" بنا جائے۔
 

آوازِ دوست

محفلین
جاپانی لوگ دُنیا کی جدید ترین ریسرچ کوبھی جاپانی میں ٹرانسلیٹ کر کے اپنی یونیورسٹیز میں پڑھاتے ہیں۔ ایک ریسرچ کے مطابق اگر تعلیم مادری زبان میں دی جائے تو سیکھنے کا عمل آسان اور تیز ہو جاتا ہے۔ آئیڈیلی تعلیم قومی زبان میں ہو یکساں نظام و نصاب کے تحت اور طلبہ کو مختلف صلاحیتوں کے حصول کی عملی تربیت کا بھی برابر اہتمام ہو۔ اُنہیں ٹریفک قوانین سے آگاہی سے لے کر ڈرائیونگ تک، گلوب دیکھنے سے لے کے نقشے بنانے تک، حفظانِ صحت کے اُصولوں سے لے کر فرسٹ ایڈ تک، ٹیبل مینرز سے لے کر بنیادی کُکنگ تک، مختلف طرح کی آفات اور ہنگامی صورتِ حال میں اپنے بچاؤ کی تدابیر سے لے کر دوسروں کو ریسکیو کرنے تک، اپنے وطن کے آزاد شہری کی حثیت سے اپنے قانونی حقوق سے آگاہی اور اُن کے حصول کے راست اقدامات تک ، سنیئرز کو فالو کرنے سے جونیئرز کو لیڈ کرنے تک ہرضروری چیز سمجھائی اور سکھائی جائے تب ہی ہمارے بچے حقیقتا" مفید شہری اور مفید انسان بن سکیں گے۔ یہ سب ریاست کی مدد اور شمولیت کے بغیر ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہے۔ متبادل آپشن کے طور پر معاشرے کے با صلاحیت لوگ اپنی اپنی کمیونیٹیز میں پیرلل سکول لرننگ کے پلیٹ فارم قائم کرسکتے ہیں۔ باقی ہم دُنیا کے شائد کسی بھی روائیتی سکول میں یہ ساری چیزیں اپنے بچوں کو نہ دے سکیں۔ یہ میرا خواب ہے۔
 

arifkarim

معطل
اُنہیں ٹریفک قوانین سے آگاہی سے لے کر ڈرائیونگ تک، گلوب دیکھنے سے لے کے نقشے بنانے تک، حفظانِ صحت کے اُصولوں سے لے کر فرسٹ ایڈ تک، ٹیبل مینرز سے لے کر بنیادی کُکنگ تک، مختلف طرح کی آفات اور ہنگامی صورتِ حال میں اپنے بچاؤ کی تدابیر سے لے کر دوسروں کو ریسکیو کرنے تک، اپنے وطن کے آزاد شہری کی حثیت سے اپنے قانونی حقوق سے آگاہی اور اُن کے حصول کے راست اقدامات تک ، سنیئرز کو فالو کرنے سے جونیئرز کو لیڈ کرنے تک ہرضروری چیز سمجھائی اور سکھائی جائے تب ہی ہمارے بچے حقیقتا" مفید شہری اور مفید انسان بن سکیں گے۔
یہ سب یہاں مغرب میں اسٹیٹ فنڈڈ ہوتاہے۔اسی لئے تو مغربی اقوام آگے نکل گئی ہیں :)
 
میرا استفسار یہ تھا کہ موجودہ تعلیمی فضا (نظام المدارس سے سسٹم آف سکولز تک) میں تعمیرِ آدم تو کہیں مقصود نہیں ہے۔ علم اور معلومات میں کوئی فرق نہیں سمجھا جا رہا؛ صرف پاکستان نہیں پوری دنیا پھر کر دیکھ لیجئے؛ کردار سازی کہیں بھی نہیں ہو رہی (بہت جگہ شائبہ ضرور ہوتا ہے)۔ ایسے میں آپ کے ذہن میں کون سا نقشہ ہے؛ وہ سامنے آئے تو شاید کچھ بات ہو سکے۔
 

arifkarim

معطل
آہ ! بے شک یہ اُن کی کامیابی اور ہماری ناکامی کی بڑی وجہ ہے۔
1960 سے پہلے یعنی تیل نکلنے سے قبل تک ناروے ایک انتہائی غریب ملک تھا۔ اسکا شمار یورپ کے غریب ترین علاقوں میں ہوتا تھا۔ لیکن اسکے باوجود یہاں دسویں تک تعلیم مفت تھی۔ مطلب یہ ملک اپنے انتہائی قلیل سے بجٹ میں سے بھی اتنا زیادہ تعلیم پر خرچ کر رہاتھا بجائے اسکو دفاع یا دیگر مقامات پر اڑانے کے۔ اب تیل کی فراوانی کے بعد یہ ملک بچوں کی تعلیم اور صحت پر فی بچہ سب سے زیادہ خرچ کرتا ہے۔
 

آوازِ دوست

محفلین
1960 سے پہلے یعنی تیل نکلنے سے قبل تک ناروے ایک انتہائی غریب ملک تھا۔ اسکا شمار یورپ کے غریب ترین علاقوں میں ہوتا تھا۔ لیکن اسکے باوجود یہاں دسویں تک تعلیم مفت تھی۔ مطلب یہ ملک اپنے انتہائی قلیل سے بجٹ میں سے بھی اتنا زیادہ تعلیم پر خرچ کر رہاتھا بجائے اسکو دفاع یا دیگر مقامات پر اڑانے کے۔ اب تیل کی فراوانی کے بعد یہ ملک بچوں کی تعلیم اور صحت پر فی بچہ سب سے زیادہ خرچ کرتا ہے۔
یہی تو فرق ہے ایک فلاحی ریاست کا اور ایک نام نہاد سیکیورٹی ریاست کا جہاں نا فلاح ہے نا سیکیورٹی۔ اللہ کریم ہمارے حال پر رحم کرے
 

آوازِ دوست

محفلین
میرا استفسار یہ تھا کہ موجودہ تعلیمی فضا (نظام المدارس سے سسٹم آف سکولز تک) میں تعمیرِ آدم تو کہیں مقصود نہیں ہے۔ علم اور معلومات میں کوئی فرق نہیں سمجھا جا رہا؛ صرف پاکستان نہیں پوری دنیا پھر کر دیکھ لیجئے؛ کردار سازی کہیں بھی نہیں ہو رہی (بہت جگہ شائبہ ضرور ہوتا ہے)۔ ایسے میں آپ کے ذہن میں کون سا نقشہ ہے؛ وہ سامنے آئے تو شاید کچھ بات ہو سکے۔
سرمیرے خیال میں تو کردار سازی کا بنیادی مرکز بچے کا گھر ہوتا ہے اور ماں باپ معلم اَب آپ خود دیکھ لیں کرپشن لوگوں کی ترغیب سے ضرورت بنی اور اَب لوگ کہتے ہیں کہ یہ سب نا کریں تو گزارا کیسے ہو یعنی یہ مجبوری قرار پائی اور ہماری تباہی کا سفر ہمیں پاتال کی اگلی گہرائی کی طرف لے جا رہا ہے جہاں اَب یہ ایک فیشن اور شہرت کی سیڑھی بن چکی ہے۔ دیکھئے ایان علی ماڈل کا شرمناک معاملہ کوئی زندہ ضمیر دور ہوتا تو شاید یہ ماڈل اور اس کی فیملی اوراِس کے متعلقین اپنی بدنام زندگی پر اجتماعی خود کُشی کی خبربننے کو ترجیح دیتے مگرآج کیا ہو رہا ہے آپ کے سامنے ہے۔ میرے خیال میں اِس مثال کے کردار میں ہمارے معاشرے کے کردار کی اجتماعی جھلک موجود ہے۔ یہ کردار کے اعتبار سے غلاظت میں لپٹی ہماری ریاست کا بھی چہرہ ہے جس میں وکیل کی فیس یا زرِضمانت نہ ہونے پر بے گُناہ جیلوں میں سڑتے ہیں اوراپنی گندی سیاست کے ذریعےغریب عوام کے نیم مردہ لاشے سے بوٹیاں توڑنے والےگِدھوں کی داشتائیں جیلوں سے سج دھج کر نکلتی ہیں۔ ہمارے معاشرے کے یہ ناسور اپنی حرام خوریوں اورحرام کاریوں کی نئی داستانیں رقم کر رہے ہیں اور تمام اخلاقی اقدار کا تمسخر اُڑا رہے ہیں۔ کردار سازی کہاں ہو گی اُس سکول میں جو کثیر منافع کمانے کے مرکزی خیال پر چل رہا ہے یا اُس سکول میں جِس میں کام کرنے والی معلمات کی تنخواہ سے زیادہ پیسے پہلے سکول کے بچے کسی پارٹی میں اُڑادیتےہیں۔ کیا ہمارے آج کے معاشرے کا پٹواری، پولیس مین، واپڈا اہلکار، کلرک بادشاہ ،۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اپنے بچوں کی کردار سازی کر سکتا ہے۔ ہم شائد بودی اور گھٹیا بنیادوں پر شاندار عمارتیں کھڑی کرنے کے خواب دیکھتے ہیں۔ ایک چینی کہاوت ہے کہ مچھلی ہمیشہ سر سے سڑتی ہے سواگر ہمیں اپنے بچوں کا کردار مطلوب ہے تو پہلے ہمیں اُن کے بڑوں میں کردار نام کی چیز ڈھوندنی پڑے گی اور اگر یہ ممکن نا ہو تو ایسے لوگوں کو فیصلہ سازمقام پر بٹھانا ہو گا جو کردار پر یقین رکھتے ہوں اور اتنا علم ضرور رکھتے ہوں کہ کردار کامیابی سے زیادہ اہم ہوتا ہے۔
 

آوازِ دوست

محفلین
سکول وہ مکتب ہو جہاں خوش رہنے کی تربیت ری جاتی ہو نہ کہ دولت۔ کمانے کی
ہمارے سکول میں ایسے ہی تھا وہاں ہمیں تربیت دی جاتی اور جِس طرح دی جاتی تھی اُس کے نتیجے میں باہر نکلتے ہی خوشیوں کے فوارے چل پڑتے تھے :)
 
سرمیرے خیال میں تو کردار سازی کا بنیادی مرکز بچے کا گھر ہوتا ہے اور ماں باپ معلم اَب آپ خود دیکھ لیں کرپشن لوگوں کی ترغیب سے ضرورت بنی اور اَب لوگ کہتے ہیں کہ یہ سب نا کریں تو گزارا کیسے ہو یعنی یہ مجبوری قرار پائی اور ہماری تباہی کا سفر ہمیں پاتال کی اگلی گہرائی کی طرف لے جا رہا ہے جہاں اَب یہ ایک فیشن اور شہرت کی سیڑھی بن چکی ہے۔ دیکھئے ایان علی ماڈل کا شرمناک معاملہ کوئی زندہ ضمیر دور ہوتا تو شاید یہ ماڈل اور اس کی فیملی اوراِس کے متعلقین اپنی بدنام زندگی پر اجتماعی خود کُشی کی خبربننے کو ترجیح دیتے مگرآج کیا ہو رہا ہے آپ کے سامنے ہے۔ میرے خیال میں اِس مثال کے کردار میں ہمارے معاشرے کے کردار کی اجتماعی جھلک موجود ہے۔ یہ کردار کے اعتبار سے غلاظت میں لپٹی ہماری ریاست کا بھی چہرہ ہے جس میں وکیل کی فیس یا زرِضمانت نہ ہونے پر بے گُناہ جیلوں میں سڑتے ہیں اوراپنی گندی سیاست کے ذریعےغریب عوام کے نیم مردہ لاشے سے بوٹیاں توڑنے والےگِدھوں کی داشتائیں جیلوں سے سج دھج کر نکلتی ہیں۔ ہمارے معاشرے کے یہ ناسور اپنی حرام خوریوں اورحرام کاریوں کی نئی داستانیں رقم کر رہے ہیں اور تمام اخلاقی اقدار کا تمسخر اُڑا رہے ہیں۔ کردار سازی کہاں ہو گی اُس سکول میں جو کثیر منافع کمانے کے مرکزی خیال پر چل رہا ہے یا اُس سکول میں جِس میں کام کرنے والی معلمات کی تنخواہ سے زیادہ پیسے پہلے سکول کے بچے کسی پارٹی میں اُڑادیتےہیں۔ کیا ہمارے آج کے معاشرے کا پٹواری، پولیس مین، واپڈا اہلکار، کلرک بادشاہ ،۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اپنے بچوں کی کردار سازی کر سکتا ہے۔ ہم شائد بودی اور گھٹیا بنیادوں پر شاندار عمارتیں کھڑی کرنے کے خواب دیکھتے ہیں۔ ایک چینی کہاوت ہے کہ مچھلی ہمیشہ سر سے سڑتی ہے سواگر ہمیں اپنے بچوں کا کردار مطلوب ہے تو پہلے ہمیں اُن کے بڑوں میں کردار نام کی چیز ڈھوندنی پڑے گی اور اگر یہ ممکن نا ہو تو ایسے لوگوں کو فیصلہ سازمقام پر بٹھانا ہو گا جو کردار پر یقین رکھتے ہوں اور اتنا علم ضرور رکھتے ہوں کہ کردار کامیابی سے زیادہ اہم ہوتا ہے۔

حقائق کی تلخیاں اپنی جگہ؛ ان کے اسباب اپنی جگہ، دیگر گھمبیر سچائیاں بھی بجا ۔۔ ۔۔ مگر ادھر چل پڑے تو ۔۔ ہم موضوع سے بہت دور چلے جائیں گے۔
مختصر سی گزارش کروں گا کہ اللہ کے نظام میں ہر ادارہ تربیت گاہ ہے اور ہر ادارہ امتحان گاہ ہے اور گھر؟ گھر وہ ادارہ ہے جس میں تمام ادارے جمع ہیں۔
مسجد جیسی بھولی بسری جگہ کو سپریم کورٹ بنا لیجئے پھر اللہ کریم کی برکات کی بہار دیکھئے!
 
ہمارے سکول میں ایسے ہی تھا وہاں ہمیں تربیت دی جاتی اور جِس طرح دی جاتی تھی اُس کے نتیجے میں باہر نکلتے ہی خوشیوں کے فوارے چل پڑتے تھے :)
تربیت میں سختی لازم ہے اور لازم تھی۔ وہ جو ارشاد ہوا کہ بچہ اتنے برس کا ہوجائے اور نماز نہ پڑھے تو اس کو مارو (مصدر ضرب استعمال ہوا ہے)؛ وہ بچے کا مسجد یعنی سپریم کورٹ سے مضبوط تعلق قائم کرنا ہے۔
 
محترمی جناب فلک شیر چیمہ صاحب! اپنی بات ختم کرتا ہوں؛ اس گزارش کے ساتھ کہ ۔۔

تمام ادارے گھر سے پنپتے اور پھیلتے ہیں، اور سمٹ کر گھر میں سما جاتے ہیں؛ ان کا پھیلنا اور سمٹنا اللہ کے گھر کی نگرانی میں ہوتا ہے۔
ہم نے اس نگران کو فراموش کر دیا تو ادارے پھیلنے کی بجائے بکھر گئے۔
 
محترمی فلک شیر چیمہ صاحب!
میں نے آپ کے ان باکس میں ایک مختصر سا مراسلہ بھیجا تھا۔ مناسب جانئے تو اُس کا جواب عنایت فرما دیجئے۔ نہیں تو مجھے خاموش رہنے کی اجازت مرحمت فرمائیے۔
 

آوازِ دوست

محفلین
تربیت میں سختی لازم ہے اور لازم تھی۔ وہ جو ارشاد ہوا کہ بچہ اتنے برس کا ہوجائے اور نماز نہ پڑھے تو اس کو مارو (مصدر ضرب استعمال ہوا ہے)؛ وہ بچے کا مسجد یعنی سپریم کورٹ سے مضبوط تعلق قائم کرنا ہے۔
حضور گمان غالب ہے کہ تادیب کا یہ حکم بچے کی دس برس عمر کا متقاضی ہے۔ سرکاری سکولوں میں گُربہ کُشتن روزِ اول کے اصول پرچار ، پانچ سالہ معصوم بچوں کو مار مار کر دُنبا بنا دیا جاتا تھا اور وہ درسگاہ کو جیل سمجھتے ہوئے تعلیمی عمل سے ہی متنفر ہو جاتے تھے۔ میں نے کئی بچوں کو اِس آزار سے بچنے کے لیے گھر سے بھاگنے کے رجحان کا مرتکب پایا۔ سرکاری تعلیمی اداروں میں تعلیم دینے والوں کی اکثریت اپنے بچوں کو اپنے پڑھانے کے فیوض وبرکات سے محروم رکھتی ہے تاکہ وہ آئندہ زندگی میں کامیاب انسان بن سکیں۔ آج ہمارا ہر ادارہ تباہی وبربادی کی داستان ہے مساجد میں معلم وہ ہے جسے عہدِ نو کی تعلیمی ضروریات کا ادراک ہی نہیں ہے اور جس کی اپنی شخصیت بحثیت معلم ایک بڑا سوالیہ نشان ہے۔ استثنائی مثالوں کو چھوڑ کر اکثریت چندہ مانگنے اور اِسے حسبِ منشاء ٹھکانے لگانے پر معمور ہےاور اُن کی طرح طرح کی اخلاقی گراوٹیں آئے روزاخبارات سیاہ کرتی رہتی ہیں۔ جو باپ خود نماز نہیں پڑھتا وہ بچے کو نماز کے لیے کیسے مار سکتا ہے جس گھر میں بڑوں کو نماز کی پرواہ ہو وہاں بچے عموما" خود ہی نماز کو اہمیت دیتے ہیں۔ باقی ہمارا مسجد کو سپریم کورٹ کہنا دِل کے بہلانے کو غالب یہ خیال اچھا ہے کا ترجمان ہے ورنہ آپ اِس سپریم کورٹ کی موجودہ حیثیت سے بخوبی آگاہ ہیں۔ ہر طرف لوٹ مار کے شورو غُل میں گھری ہوئی اِس مصیبت زدہ قوم کی نجات کا اہک ہی راستہ ہے کہ یہ انصاف اورقانون کی حکمرانی کو یقینی بنائےاِس سے ہٹ کر کی جانے والی ہر کوشش کا انجام دلدل سے نکلنے کے لیے ہاتھ پاؤں مارنے والے بدقسمت انسان کی بے سود کاوشوں جیسا ہو گاجوباہر نکلنے کے لیے جتنا زور لگاتا ہے اُتنا ہی مزید دھنستاچلا جاتا ہے۔
 
حضور گمان غالب ہے کہ تادیب کا یہ حکم بچے کی دس برس عمر کا متقاضی ہے۔ سرکاری سکولوں میں گُربہ کُشتن روزِ اول کے اصول پرچار ، پانچ سالہ معصوم بچوں کو مار مار کر دُنبا بنا دیا جاتا تھا اور وہ درسگاہ کو جیل سمجھتے ہوئے تعلیمی عمل سے ہی متنفر ہو جاتے تھے۔ میں نے کئی بچوں کو اِس آزار سے بچنے کے لیے گھر سے بھاگنے کے رجحان کا مرتکب پایا۔ سرکاری تعلیمی اداروں میں تعلیم دینے والوں کی اکثریت اپنے بچوں کو اپنے پڑھانے کے فیوض وبرکات سے محروم رکھتی ہے تاکہ وہ آئندہ زندگی میں کامیاب انسان بن سکیں۔ آج ہمارا ہر ادارہ تباہی وبربادی کی داستان ہے مساجد میں معلم وہ ہے جسے عہدِ نو کی تعلیمی ضروریات کا ادراک ہی نہیں ہے اور جس کی اپنی شخصیت بحثیت معلم ایک بڑا سوالیہ نشان ہے۔ استثنائی مثالوں کو چھوڑ کر اکثریت چندہ مانگنے اور اِسے حسبِ منشاء ٹھکانے لگانے پر معمور ہےاور اُن کی طرح طرح کی اخلاقی گراوٹیں آئے روزاخبارات سیاہ کرتی رہتی ہیں۔ جو باپ خود نماز نہیں پڑھتا وہ بچے کو نماز کے لیے کیسے مار سکتا ہے جس گھر میں بڑوں کو نماز کی پرواہ ہو وہاں بچے عموما" خود ہی نماز کو اہمیت دیتے ہیں۔ باقی ہمارا مسجد کو سپریم کورٹ کہنا دِل کے بہلانے کو غالب یہ خیال اچھا ہے کا ترجمان ہے ورنہ آپ اِس سپریم کورٹ کی موجودہ حیثیت سے بخوبی آگاہ ہیں۔ ہر طرف لوٹ مار کے شورو غُل میں گھری ہوئی اِس مصیبت زدہ قوم کی نجات کا اہک ہی راستہ ہے کہ یہ انصاف اورقانون کی حکمرانی کو یقینی بنائےاِس سے ہٹ کر کی جانے والی ہر کوشش کا انجام دلدل سے نکلنے کے لیے ہاتھ پاؤں مارنے والے بدقسمت انسان کی بے سود کاوشوں جیسا ہو گاجوباہر نکلنے کے لیے جتنا زور لگاتا ہے اُتنا ہی مزید دھنستاچلا جاتا ہے۔
اگر موجود کو درست اور روا ماننا ہے تو ساری بحث بے کار ہے۔ جب آپ گھر کی بات کرتے ہیں تو راعی باپ ہے۔ موجود تو سارا فساد ہے۔ انصاف اور قانون کی حکم رانی آپ کو جمہوریت کے راستے سے ملے گی؟ ناممکن! قطعی ناممکن! اللہ کے نظام کو نافذ کرنا ہو گا۔ نہیں تو پھر تباہی ہے، یہاں بھی وہاں بھی۔ مسجد کے بارے میں میرے جملے پر پھر توجہ فرمائیے: "مسجد جیسی بھولی بسری جگہ"، اور میری مراد جامعہ فلانیہ جامعہ ڈحمکانیہ ہر گز نہیں۔ عام مساجد میں جہاں "وعظ میں کیا کہنا ہے" کا فیصلہ دس بارہ ایسے اشخاص کی کمیٹی کرے جنہوں نے قرآن شریف کو رسماً چھونے اور چومنے سے زیادہ کچھ نہ کیا ہو؛ اور مولوی ان سب کا ذاتی ملازم ہو، مسجد کیا کرے گی! مسجد کو مسجد ہونا چاہئے اور فیصلے اس کے چلنے چاہئیں جس کو سجدہ روا ہے، یعنی اللہ کریم۔
 
آخری تدوین:

آوازِ دوست

محفلین
سر بجا فرمایا آپ نے اللہ کا نظام نافذ ہو تو ساری اُلجھنیں سُلجھ سکتی ہیں مگر میں اور آپ تو یہ نظام نافذ نہیں کر سکتے طالبان بھی تشدد اور انتہا پسندی کی راہوں کے مُسافر ہو گئے حکومت ایمان بچائیں یا جان بچائیں کے مخمصے میں دونوں سے انصاف نہیں کر پا رہی۔ عام آدمی ہر طرح کی نام نہاد قیادت سے نالاں ہے۔ لوگ کس سے اُمید کریں کس پر اعتماد کریں۔ حضرت علی کرم اللہ وجھہ کا فرمان ہے کہ کُفر پر مبنی معاشرہ قائم رہ سکتا ہے مگر ظُلم پر مبنی نہیں تو کیا ہم نہیں دیکھتے کہ ترقی یافتہ" کافر قومیں" اپنے معاشروں میں بے لاگ انصاف کی بناء پر بہتری کی راہ پر گامزن ہیں۔ وہاں مائیں اپنے بھوک سے بلکتے بچوں کو چُپ کرانے کے لیے اُنہیں لے کر نہروں اور دریاؤں میں نہیں کودتیں۔ اگر وہ قومیں امیگریشن کی رکاوٹیں ہٹا دیں تو بہت سی اسلامی جمہوریاؤں میں پرندے بھی نظر نہ آئیں۔ میں اُمید کے کم ترین درجے پریہ سمجھتا ہوں کہ اگر ہم ناتوانوں سے خُدا کے نظام کے نفاذ کا بھاری پتھر نہیں اُٹھایا جاتا تو نہ اُٹھائیں اپنے وطن کے لیے بنائے گئے انسانوں کے نظام کا ہی صحیح نفاذ کر لیں تو چند روزہ زندگی میں بندگی کی صورت شائد نکل آئے ورنہ ہم نہ یہ جہاں نہ وہ جہاں کے تعفن میں ہی سڑتے رہیں گے۔
 
سر بجا فرمایا آپ نے اللہ کا نظام نافذ ہو تو ساری اُلجھنیں سُلجھ سکتی ہیں مگر میں اور آپ تو یہ نظام نافذ نہیں کر سکتے طالبان بھی تشدد اور انتہا پسندی کی راہوں کے مُسافر ہو گئے حکومت ایمان بچائیں یا جان بچائیں کے مخمصے میں دونوں سے انصاف نہیں کر پا رہی۔ عام آدمی ہر طرح کی نام نہاد قیادت سے نالاں ہے۔ لوگ کس سے اُمید کریں کس پر اعتماد کریں۔ حضرت علی کرم اللہ وجھہ کا فرمان ہے کہ کُفر پر مبنی معاشرہ قائم رہ سکتا ہے مگر ظُلم پر مبنی نہیں تو کیا ہم نہیں دیکھتے کہ ترقی یافتہ" کافر قومیں" اپنے معاشروں میں بے لاگ انصاف کی بناء پر بہتری کی راہ پر گامزن ہیں۔ وہاں مائیں اپنے بھوک سے بلکتے بچوں کو چُپ کرانے کے لیے اُنہیں لے کر نہروں اور دریاؤں میں نہیں کودتیں۔ اگر وہ قومیں امیگریشن کی رکاوٹیں ہٹا دیں تو بہت سی اسلامی جمہوریاؤں میں پرندے بھی نظر نہ آئیں۔ میں اُمید کے کم ترین درجے پریہ سمجھتا ہوں کہ اگر ہم ناتوانوں سے خُدا کے نظام کے نفاذ کا بھاری پتھر نہیں اُٹھایا جاتا تو نہ اُٹھائیں اپنے وطن کے لیے بنائے گئے انسانوں کے نظام کا ہی صحیح نفاذ کر لیں تو چند روزہ زندگی میں بندگی کی صورت شائد نکل آئے ورنہ ہم نہ یہ جہاں نہ وہ جہاں کے تعفن میں ہی سڑتے رہیں گے۔

اصل موضوع کچھ اور تھا، آپ بہت دور نکل گئے۔ انسان اور اس کے معاملات؛ ان کو جتنا پھیلاتے جائیں گے، پھیلتے جائیں گے۔ خدا کا نظام ہی واحد نظام ہے جو فطرت کے عین مطابق ہے کہ اللہ خود فاطر ہے۔ بندوں کے وضع کردہ سارے نظام کہیں زیادہ بوجھل ہیں۔ "چند روزہ زندگی" کا تصور ان لوگوں کا ہے جن کے نزدیک مر جانے کے بعد کچھ بھی نہیں، ان کو جو کچھ مل گیا، دنیا میں مل گیا۔ اور ان کے پیچھے بھاگنے والے بھی اسی چند روزہ زندگی پر قانع ہیں۔ میرا علم اور یقین جتنا بھی ہے؛ یہ کہتا ہے کہ اصل زندگی مرنے کے بعد شروع ہونی ہے۔ یہ بنیادی بات تھی، اس لئے کر دی۔

اس دھاگے کا مطمع تعلیم اور اس کا مقصد، اور اس میں سے ایک اچھے انسان کا حصول ہے۔ ہمیں نفسِ مضمون یعنی تربیت کی طرف واپس آنا چاہئے۔
 
Top