بالکل درست کہا آپ نے کہ یہ عادت عموماً سکول کے آخری سالوں یا کالج کے ابتدائی سالوں میں لگتی ہے اور وجہ وہی ہے جو آپ نے بیان کی۔
چند برس قبل دبئی میں دکانوں پر سگریٹ بیچنا ممنوع قرار دے دیا گیا تھا اور صرف بڑے شاپنگ سینٹرز اور گیس سٹیشنز کے مارٹس میں سگریٹ بیچنے کی اجازت تھی اور اٹھارہ سال سے کم عمر کے افراد کو بالکل نہیں بیچی جا سکتی تھی۔ مجھے ان کا یہ اقدام پسند آیا کہ مجھ جیسے عادی افراد جنھوں نے پینی ہے وہ تو دوسرے شہر سے بھی جا کر لائیں گے سگریٹ لیکن کم از کم وہ نوجوان یا افراد جو اس کے عادی نہیں وہ اس جھنجٹ یا تکلیف میں نہیں پڑیں گے اور یوں شوقیہ سگریٹ نوشی کی عادت میں مبتلا ہونے کی شرح کم ہو گی اور شاید آیندہ آنے والے سالوں میں نئے سگریٹ نوش کم پیدا ہوں۔
میں نے خود بھی سگریٹ اس لیے پینا شروع کر دی کہ ہر جگہ با سہولت میسر تھی لیکن اگر یہ نہ ہوتا تو شاید میں بھی اس موذی عادت سے بچ جاتا۔
اگر یہی ٹرائیاں مارنی جاری رکھیں تو یقین کیجیے جب آپ بھی ہماری طرح اس لت کا شکار ہو چکے ہوں گے۔ یہ لت اسی ٹرائی مارنے سے ہی لگتی ہے۔ پہلے دن ہی کوئی عادی نہیں بن جاتا۔ اور جتنے عادی سگریٹ نوش ہیں دنیا میں ان تمام کا خیال یہی تھا کہ میں تو بس ٹرائی کر رہا ہوں، یہ نشہ نہیں بن سکتی میرے لیے۔ میرا برادرانہ مشورہ ہے کہ خدارا ان ٹرائیوں سے گریز کیجیے۔پہلے میں سگریٹ سے بہت چڑتا تھا لیکن اب کبھی کبھی دوستوں سے لیکر "ٹرائی" کرتا ہوں پر یہ کمبخت مجھے لفٹ ہی نہیں کراتی۔ ہمیشہ بے مزہ ہو کر واپس کردیتا ہوں۔
اگر یہی ٹرائیاں مارنی جاری رکھیں تو یقین کیجیے جب آپ بھی ہماری طرح اس لت کا شکار ہو چکے ہوں گے۔ یہ لت اسی ٹرائی مارنے سے ہی لگتی ہے۔ پہلے دن ہی کوئی عادی نہیں بن جاتا۔ اور جتنے عادی سگریٹ نوش ہیں دنیا میں ان تمام کا خیال یہی تھا کہ میں تو بس ٹرائی کر رہا ہوں، یہ نشہ نہیں بن سکتی میرے لیے۔ میرا برادرانہ مشورہ ہے کہ خدارا ان ٹرائیوں سے گریز کیجیے۔