فاتح
لائبریرین
ظفر اقبال جو لسانی تجربات بلکہ زبان کی اٹھا پٹخ کے ماہر مانے جاتے ہیں، روایتی شاعری کرنے والے شعرا پر یوں طنز سرا ہیں:
ڈفر اقبال کے فرضی نام سے شایع ہونے والے تحریفی غزل کے ایک مجموعہ "سہ روزہ ہذیان" سے ایک انتخاب پیش خدمت ہے۔ طارق ہاشمی "اردو غزل ۔ نئی تشکیل" میں اس مجموعہ کے متعلق لکھتے ہیں:
"یہ مجموعہ اس حوالہ سے دلچسپ و عجیب ہے کہ اس میں شامل تمام غزلیں ظفر اقبال کے شعری لہجے کی پیروڈی ہیں۔ اس کی اشاعت کا مقصد، جیسا کہ عنوان سے ظاہر ہے، یہ ثابت کرنا تھا کہ ظفر اقبال جس نوع کی غزل کہہ رہے ہیں وہ سوائے ہذیان گوئی کے اور کچھ نہیں۔"
اسی "سہ روزہ ہذیان" کے دیباچہ نگار یوں لکھتے ہیں:
"ڈفر اقبال (یعنی ظفر اقبال) نے یہ جنگ لڑتے ہوئے اپنے انتہائی خوبصورت شعر بھی ضائع کر دیے ہیں۔"
سخن سرائی تماشا ہے، شعر بندر ہے
خدا کی مار ہے شاعر نہیں مچھندر ہے
اور
شاعر وہی شاعروں میں اچھا
کھا جائے جو شاعری کو کچا
خدا کی مار ہے شاعر نہیں مچھندر ہے
اور
شاعر وہی شاعروں میں اچھا
کھا جائے جو شاعری کو کچا
ڈفر اقبال کے فرضی نام سے شایع ہونے والے تحریفی غزل کے ایک مجموعہ "سہ روزہ ہذیان" سے ایک انتخاب پیش خدمت ہے۔ طارق ہاشمی "اردو غزل ۔ نئی تشکیل" میں اس مجموعہ کے متعلق لکھتے ہیں:
"یہ مجموعہ اس حوالہ سے دلچسپ و عجیب ہے کہ اس میں شامل تمام غزلیں ظفر اقبال کے شعری لہجے کی پیروڈی ہیں۔ اس کی اشاعت کا مقصد، جیسا کہ عنوان سے ظاہر ہے، یہ ثابت کرنا تھا کہ ظفر اقبال جس نوع کی غزل کہہ رہے ہیں وہ سوائے ہذیان گوئی کے اور کچھ نہیں۔"
جس کے پیچھے لاکھ حیلے کر لیے
اس نے آگے سے وسیلے کر لیے
اس سے پہلے کہ کتر جاتا کوئی
ہم نے اپنے کان ڈھیلے کر لیے
سادہ پانی ہی پلایا ہے تمہیں
نین کیوں تم نے نشیلے کر لیے
دیگ میں تو ایک دانہ بھی نہیں
ہم نے کیوںآگے پتیلے کر لیے
اس طرح روئے ہیں دریا کے خلاف
آنسوؤں سے ہونٹ گیلے کر لیے
شاعری کی ناک میں دم کر دیا
جب گلے ہم نے سریلے کر لیے
زر ہے اک نیلی سیاہی کی دوات
خواہشوں سے ہاتھ نیلے کر لیے
جو طبیعت صاف کرتا ہے مری
جمع اس جھاڑو کے تیلے کر لیے
رکھ دیا سوجی کا حلوہ سامنے
دانت جب ہم نے نکیلے کر لیے
بات تو تھی دو دلوں کے درمیاں
کیوں اکٹھے دو قبیلے کر لیے
منہ نہیں کالا کیا ہم سے ڈفر
اس نے اپنے ہاتھ پیلے کر لیے
اس نے آگے سے وسیلے کر لیے
اس سے پہلے کہ کتر جاتا کوئی
ہم نے اپنے کان ڈھیلے کر لیے
سادہ پانی ہی پلایا ہے تمہیں
نین کیوں تم نے نشیلے کر لیے
دیگ میں تو ایک دانہ بھی نہیں
ہم نے کیوںآگے پتیلے کر لیے
اس طرح روئے ہیں دریا کے خلاف
آنسوؤں سے ہونٹ گیلے کر لیے
شاعری کی ناک میں دم کر دیا
جب گلے ہم نے سریلے کر لیے
زر ہے اک نیلی سیاہی کی دوات
خواہشوں سے ہاتھ نیلے کر لیے
جو طبیعت صاف کرتا ہے مری
جمع اس جھاڑو کے تیلے کر لیے
رکھ دیا سوجی کا حلوہ سامنے
دانت جب ہم نے نکیلے کر لیے
بات تو تھی دو دلوں کے درمیاں
کیوں اکٹھے دو قبیلے کر لیے
منہ نہیں کالا کیا ہم سے ڈفر
اس نے اپنے ہاتھ پیلے کر لیے
اسی "سہ روزہ ہذیان" کے دیباچہ نگار یوں لکھتے ہیں:
"ڈفر اقبال (یعنی ظفر اقبال) نے یہ جنگ لڑتے ہوئے اپنے انتہائی خوبصورت شعر بھی ضائع کر دیے ہیں۔"