سفر نامہ
سفرِ زندگی :-
بچپن سے ایک خواب میرا ہمسفر رہا ۔۔۔ میں اکثر فجر کی نماز سے پہلے دیکھتا کہ میں ہوا میں پرواز کر رہا ہوں۔ اس خواب میں عجیب لطف اور مزہ ہوتا۔ میں بے انتہاء نشاط و سرور کے عالم میں مزے سے فضا میں تیرتا۔ ایک بار تو اڑتے ہوئے میں نے خواب میں ہی یہ سوچا کہ مجھے زیادہ اونچا نہیں اڑنا چاہیے ۔ ایسا نہ ہو کہ کوئی مجھے شکار کرلے ۔ زندگی کے سفر میں اس خواب نے مجھے ہمیشہ پہلے سے خبردار کردیا کہ پھر سے سفر درپیش ہے ۔ اصل میں تو زندگی خود اک سفر مسلسل ہے ۔ اگرچہ اس سفر کے تجربات و مشاہدات ہر ایک کے لیے مختلف ہوتے ہیں جن میں بعد میں آنے والوں کے لیے بہت سے اسرار و پیغام چھپے ہوتے ہیں ۔
میرا تعلق ایک متوسط گھرانے سے تھا ہم پانچ بہن بھائی حیات تھے ۔ ایک بہن اور بھائی میرے ہوش سنبھالنے سے پہلے ہی سفر آخرت پر روانہ ہو چکے تھے ۔ بچپن بے فکری سے کھیلتے کودتے گزرا ۔ سکول جانے کی عمر میں مجھے سکول داخل کروا دیا گیا ۔ تعلیم کے معاملے میں گھر والوں نے پرائمری تک کافی مدد دی ۔ میری والدہ کی تعلیم کچھ خاص نہ تھی البتہ والد صاحب پڑھے لکھے تھے اور گورنمنٹ کالج لاہور میں لیب اسسٹنٹ تھے ۔ ہم تینوں بھائیوں میں سے بڑے بھائی عبد الرشید باٹا پاکستان میں ملازمت کرتے تھے ۔ ان سے چھوٹے بھائی عبد المجید جانوروں میں دلچسپی رکھتے تھے ۔ تعلیم کے معاملہ میں بھائی مجید کے ساتھ کچھ ایسا حادثہ پیش آیا کہ میٹرک کے امتحان سے پہلے ان کا سکول کسی وجہ سے بند ہوگیا ۔ پڑھائی سے ان کا تعلق ٹوٹ گیا اور وہ مزید تعلیم حاصل نہ کرسکے ۔ تعلیم چھوڑ کر جانور ( گائے بھنس وغیرہ پالنے میں مصروف ہوگئے ۔ مجھے بھی تعلیم میں سپورٹ کرنا چھوڑ دیا ۔ بلکہ جانوروں کی دیکھ بھال کرنے کے لیے ان کا چارہ لانے اور دودھ نکالنے کی ذمہ داری بانٹنے پر مجبور کرتے ۔ تاکہ گھر کا خرچ چلایا جا سکے ۔ میں نے تعلیم کا ساتھ نہ چھوڑا لیکن پڑھائی میں کمزور ہونے کی وجہ سے میٹرک میں فیل ہوگیا ۔ اس دوران والد صاحب بھی ریٹائر ہوگئے ۔ گورنمنٹ کالج کے نیچرل ہسٹری میوزیم یا کلیکش سنٹر میں ان کا ایک ہندو دوست کام کرتا تھا وہ جانوروں کے ڈھانچے بناتا اور پرندے حنوط کرتا تھا ۔ والد صاحب نےکچھ ہی مدت میں ان سے یہ سارا کام سیکھ لیا۔ پاکستان بننے کے بعد وہ ہندو بھارت چلا گیا ۔
پاکستان نیا نیا بنا تھا ۔ ہر ضلع میں نئے تعلیمی ادارے قائم ہو رہے تھے اور ہر میدان میں کام کرنے والوں کی ضرورت تھی۔ کالجز میں سائنس لیب کے لیے پریکٹیکل میٹریکل زولوجی ، بیالوجی وغیرہ کے لیے جس مواد کی سائنس لیبارٹی میں ضرورت تھی وہ میرے والد تیار کرتے تھے۔ میں ، میری بڑی بہن رشیدہ اور سب سے چھوٹی مجیدہ ہم نے والد صاحب کے ساتھ مل کر یہ کام کرنا شروع کردیا ۔ جس سے گھر کے اخراجات اچھے طریقے سے پورے ہونے لگے ۔ اپنی لیب کا نام ہم نے بائیولوجیکل سنٹر رکھ لیا ۔ مغربی پاکستان سے لے کر مشرقی پاکستان تک کالجوں اور یونیورسٹیز میں سائنس لیبارٹی میں استعمال ہونے والے بیالوجیکل سپیسیمن ہم تیار کرکے پہنچا دیا کرتے ۔ اگرچہ تعلیم کے ادھورا رہ جانے کا مجھے بہت افسوس تھا لیکن مجھے یہ کام بہت پسند تھا چنانچہ میں اس کام میں اپنے والد کی مدد کرنے لگا۔ لاہور چڑیا گھر کے جو جانور یا پرندے مرجاتے ۔ مثلا چکور ، فیزنٹ phasent ۔ ، آبی پرندے ، جانوروں میں بندر شیر ریچھ وغیرہ وہ ہمیں بھیج دئیے جاتے اور ہم ان کو حنوط کرتے ۔ گبن یعنی بغیر دم کا بندر نیو کیمپس پنجاب یونیورسٹی زولوجیکل میوزیم میں اب بھی موجود ہے ۔ اس کے علاوہ اپنے ہاتھ کا تیار کردہ حنوط زدہ دیسی مرغ بھی چند سال پہلے میں نے وہاں دیکھا تھا۔
ساٹھ کی دہائی کے شروع کا واقعہ ہے ان دنوں چڑیا گھر کا ڈاریکٹر ایک روسی تھا۔ جب بھی چڑیا گھر کا کوئی جانور یا پرندہ مرجاتا وہ مجھ سے حنوط کروا لیتا۔تمام معاملات زبانی طے ہوتے تھے۔ میں مردہ جانور یا پرندہ اپنی لیب میں لے جاتا اور تیار کرکے اسے دے دیتا وہ اس کی طے شدہ ادائیگی کردیتا ۔ انہی دنوں چڑیا گھر کا ایک شیر مر گیا۔ اس نے شیر حنوط کرنے کے لیے ہمیں بلوایا معاملات طے ہوئے اور میں بھاری بھرکم مردہ شیر گدھا گاڑی پر لاد کر اپنی لیب میں لے آیا۔ ہم تینوں بہن بھائیوں نے اسے بہت محنت سے حنوط کیا ۔ جب میں نے کام مکمل کر لیا اور وصولی کے لیے وہاں پہنچا تو پتہ چلا کہ اس شخص کا ہارٹ اٹیک سے انتقال ہوچکا ہے۔ چڑیا گھر کے ذمہ داران نے ادائیگی میں ٹال مٹول شروع کر دی اور الٹا مجھ پر الزام لگا دیا کہ تم لوگ جان بوجھ کر چڑیا گھر کے جانور مار دیتے ہو ۔ اور نہ جانے اب تک کتنا مال اسکے ساتھ مل کر کھا چکے ہو ۔
میں نے ایسا کچھ نہیں کیا تھا۔ اس لیے میں مطمئن تھا۔ کیونکہ اس کے ساتھ سارا معاملہ زبانی تھا وہ کام دیتا اور میں جانور تیار کر کے نقد پیسے وصول کر لیتا۔ درحقیقت وہ روسی مجھ پر مہربان تھا اور کم سن اور ضرورتمند سمجھ کر میری مدد کے لیے کام دیتا تھا۔ میرا کام بھی بہت خوبصورت اور نفیس ہوتا اس لیے وہ میرے ہنر کو قدر کی نگاہ سے دیکھتا تھا۔
اس کی اچانک موت نے سب معاملہ گڑ بڑ کر دیا ۔ میرے خلاف قانونی کاروائی بھی کی گئی ۔ لیکن کچھ ثابت نہ ہوسکا ۔ چڑیا گھر کے نئے ڈاریکٹر نے مجھے شیر کو حنوط کرنے کا معاوضہ نہیں دیا تو میں نے بھی شیر اسے نہیں دیا بلکہ اپنے پاس رکھ لیا ۔
غالبا 1962,63 . کا زمانہ ہے میں بہت پریشان تھا کیونکہ کام تقریبا نہ ہونے کے برابر تھا ۔ ان دنوں ویلے اور بے روزگار لڑکے عموما نائی کی دکان پر بیٹھ کر گپ شپ لگاتے اور وقت گزارتے تھے ۔ غم روزگار میں مبتلا شام کے وقت میں بھی وہیں جا بیٹھتا ، وہاں کوہستان اخبار آیا کرتا تھا ۔ ایک دن میں کسی کام کی تلاش میں اخبار کا مطالعہ کر رہا تھا کہ دلچسپ وعجیب خبروں کے کالم میں ایک خبر نظر سے گزری ۔ خبریہ تھی کہ بغداد یونیورسٹی کو ایک ٹیکسی ڈرمسٹ (محنّط) کی ضرورت تھی ۔ محکمہ روزگار میں جب اس اسامی کا اشتہار چھپا بے شمار ٹیکسی ڈرائیور اپنی درخواست لے کرمحکمہ روزگار پہنچ گئے ۔وہ یہ سمجھ کر کہ اشتہار کی چھپائی میں غلطی ہے نوکری کے لیے آگئے۔ بغداد یونیورسٹی کا یہ دفتر چوبرجی لاہور کے سامنے تھا ۔ ڈائرکٹر اس ہجوم کو دیکھ کر پریشان ہوگیا اس نے بتایا کہ اشتہار میں کوئی غلطی نہیں اسے ٹیکسی ڈرمسٹ کی ہی ضرورت ہے ۔ اب تک اس اسامی کے لیے کوئی امیدواریہاں نہیں پہنچا ۔ تم میں سے اگر کوئی ٹیکسی ڈرمسٹ ہے تو رکے ہمیں ٹیکسی ڈرائیور کی ضرورت نہیں ۔ یہ ایک خاص اسامی ہے ۔ جس میں جانوروں کو حنوط کیا جاتا ہے ۔ اور ان کی ہڈیوں کے ڈھانچے وغیرہ تیار کیے جاتے ہیں ۔ چنانچہ تمام ٹیکسی ڈرائیور مایوس ہو کر وہاں سے چلے گئے ۔
جب میں نے وہ خبر پڑھی تو اخبار لے کر اپنے جگری دوست سجاد حیدر کے پاس پہنچ گیا ۔ جو مجھے ملازمت کی درخواست لکھ دیا کرتا تھا اس وقت میں اٹھارہ انیس سال کا جوان تھا ۔ ہم نے سائیکلیں لیں اور وہاں پہنچ گئے ۔ ڈاریکٹر سے ملاقات ہوئی ۔ اس وقت تک اس اسامی کے لیے مزید دو امیدواراپنی درخواستیں جمع کروا چکے تھے جو تعلیم اور تجربے میں مجھ سے بڑھ کر تھے ۔ ایک کا نام شوکت اور دوسرا شخص مرزا زاہد بیگ تھا ۔ میرے پاس نہ تو سکول کالج کی کوئی سند تھی نہ تہنیط ( ٹیکسی ڈرمسٹ ) کا کوئی ثبوت یا سرٹیفکیٹ تھا ۔ اور نہ ہی اس کام کے تجربے کا کوئی سرٹیفکیٹ ۔ صرف ایک سادہ درخواست تھی اور ستم یہ کہ درخواست جمع کروانے کا بھی وہ آخری دن تھا ۔ انٹرویو شروع ہوا تو میرے دوست سجاد نے کہا کہ میں بی ایس سی کررہا ہوں لیکن کام میرے دوست کو آتا ہے ۔ یہ سن کر ڈائریکٹر نے ہنس کہا کہ: میں تمہیں اتنی سہولت دے سکتا ہوں کہ ایک ہفتہ کی مہلت دے دوں تم درخواست مکمل کرکے جمع کروا دو۔
باقی آئندہ