سہ ماہی اردو محفل ۔۔۔ اکتوبر تا دسمبر 2019

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
دسمبر کے اختتام پر ادارہ ان تمام نظم و نثر تخلیقات کا جائزہ لے گا جو اس دھاگے میں یا محفل پر عموماً پیش کی جاچکی ہیں اور 2020 کے پہلے سہہ ماہی کا مواد ترتیب دے گا۔
 
غزل (1)

تمہیں کیسے بتائیں ، سب امیدیں ٹوٹ جاتی ہیں
کہ جب تم روٹھتے ہو ، چاہتیں بھی روٹھ جاتی ہیں

برہنہ پاؤں چلنا پڑ گیا پُر خار صحرا میں
محبت کے سفر میں جوتیاں تک ٹوٹ جاتی ہیں

ترے بدلے ہوئے تیور مجھے جب یاد آتے ہیں
نہ جانے کیوں مرے ہاتھوں سے چیزیں چھوٹ جاتی ہیں

کہیں اس کے چلے آنے سے گل کھلتے ہیں صحرا میں
کہیں سوکھے ہوئے پیڑوں سے شاخیں پھوٹ جاتی ہیں

مجھے مایوس ہونے پر کہیں ، تُو لوٹ آئے گا
تری یادیں ہمیشہ بول کر یہ جھوٹ جاتی ہیں

نہیں ممکن ، مقدر ساتھ دے ہر بار الفت میں
یہاں لوگوں کی اچھی قسمتیں تک پھوٹ جاتی ہیں

کبھی رہتا نہیں رشتہ کوئی مضبوط دنیا میں
یہاں برسوں پرانی یاریاں بھی ٹوٹ جاتی ہیں

ہمیشہ دیر سے گھر سے نکلتا ہوں جو میں عمران
مری منزل کو جاتی گاڑیاں سب چھوٹ جاتی ہیں

عمران سرگانی
 
غزل (2)

تو سوچتا ہے یہ لوگ رانجھے کو ہیر دیں گے ؟
یہ بھیڑیے نوچ کر بدن اسکا چیر دیں گے

تمہارا دشمن نشانہ باندھے گا تب ہی تم پر
جو دوست جا کر کمان میں اسکی تیر دیں گے

تری بصارت سے رنگ چھینیں گے زندگی کے
نہ دیکھ ، رنگین خواب آنکھوں کو نیر دیں گے

تمہارے آگے جو چاند بھی ماند پڑ گیا ہے
تو ہم تمہارے جمال کی کیا نظیر دیں گے؟

جو اہلِ ثروت سے چاہتے ہو، نہیں ملےگا
اگر ضرورت ہو جان کی، بس فقیر دیں گے

نبی ﷺ کی مدحت بیان کرنے سے روزِ محشر
بصد مسرت وہ تجھ کو اجرِ کثیر دیں گے

ہماری دنیا کے بیچ عمران ہو گی سرحد
کہ لوگ قسمت میں کھینچ ایسی لکیر دیں گے

عمران سرگانی
 

ام اویس

محفلین
سفر نامہ
سفرِ زندگی :-
بچپن سے ایک خواب میرا ہمسفر رہا ۔۔۔ میں اکثر فجر کی نماز سے پہلے دیکھتا کہ میں ہوا میں پرواز کر رہا ہوں۔ اس خواب میں عجیب لطف اور مزہ ہوتا۔ میں بے انتہاء نشاط و سرور کے عالم میں مزے سے فضا میں تیرتا۔ ایک بار تو اڑتے ہوئے میں نے خواب میں ہی یہ سوچا کہ مجھے زیادہ اونچا نہیں اڑنا چاہیے ۔ ایسا نہ ہو کہ کوئی مجھے شکار کرلے ۔ زندگی کے سفر میں اس خواب نے مجھے ہمیشہ پہلے سے خبردار کردیا کہ پھر سے سفر درپیش ہے ۔ اصل میں تو زندگی خود اک سفر مسلسل ہے ۔ اگرچہ اس سفر کے تجربات و مشاہدات ہر ایک کے لیے مختلف ہوتے ہیں جن میں بعد میں آنے والوں کے لیے بہت سے اسرار و پیغام چھپے ہوتے ہیں ۔
میرا تعلق ایک متوسط گھرانے سے تھا ہم پانچ بہن بھائی حیات تھے ۔ ایک بہن اور بھائی میرے ہوش سنبھالنے سے پہلے ہی سفر آخرت پر روانہ ہو چکے تھے ۔ بچپن بے فکری سے کھیلتے کودتے گزرا ۔ سکول جانے کی عمر میں مجھے سکول داخل کروا دیا گیا ۔ تعلیم کے معاملے میں گھر والوں نے پرائمری تک کافی مدد دی ۔ میری والدہ کی تعلیم کچھ خاص نہ تھی البتہ والد صاحب پڑھے لکھے تھے اور گورنمنٹ کالج لاہور میں لیب اسسٹنٹ تھے ۔ ہم تینوں بھائیوں میں سے بڑے بھائی عبد الرشید باٹا پاکستان میں ملازمت کرتے تھے ۔ ان سے چھوٹے بھائی عبد المجید جانوروں میں دلچسپی رکھتے تھے ۔ تعلیم کے معاملہ میں بھائی مجید کے ساتھ کچھ ایسا حادثہ پیش آیا کہ میٹرک کے امتحان سے پہلے ان کا سکول کسی وجہ سے بند ہوگیا ۔ پڑھائی سے ان کا تعلق ٹوٹ گیا اور وہ مزید تعلیم حاصل نہ کرسکے ۔ تعلیم چھوڑ کر جانور ( گائے بھنس وغیرہ پالنے میں مصروف ہوگئے ۔ مجھے بھی تعلیم میں سپورٹ کرنا چھوڑ دیا ۔ بلکہ جانوروں کی دیکھ بھال کرنے کے لیے ان کا چارہ لانے اور دودھ نکالنے کی ذمہ داری بانٹنے پر مجبور کرتے ۔ تاکہ گھر کا خرچ چلایا جا سکے ۔ میں نے تعلیم کا ساتھ نہ چھوڑا لیکن پڑھائی میں کمزور ہونے کی وجہ سے میٹرک میں فیل ہوگیا ۔ اس دوران والد صاحب بھی ریٹائر ہوگئے ۔ گورنمنٹ کالج کے نیچرل ہسٹری میوزیم یا کلیکش سنٹر میں ان کا ایک ہندو دوست کام کرتا تھا وہ جانوروں کے ڈھانچے بناتا اور پرندے حنوط کرتا تھا ۔ والد صاحب نےکچھ ہی مدت میں ان سے یہ سارا کام سیکھ لیا۔ پاکستان بننے کے بعد وہ ہندو بھارت چلا گیا ۔
پاکستان نیا نیا بنا تھا ۔ ہر ضلع میں نئے تعلیمی ادارے قائم ہو رہے تھے اور ہر میدان میں کام کرنے والوں کی ضرورت تھی۔ کالجز میں سائنس لیب کے لیے پریکٹیکل میٹریکل زولوجی ، بیالوجی وغیرہ کے لیے جس مواد کی سائنس لیبارٹی میں ضرورت تھی وہ میرے والد تیار کرتے تھے۔ میں ، میری بڑی بہن رشیدہ اور سب سے چھوٹی مجیدہ ہم نے والد صاحب کے ساتھ مل کر یہ کام کرنا شروع کردیا ۔ جس سے گھر کے اخراجات اچھے طریقے سے پورے ہونے لگے ۔ اپنی لیب کا نام ہم نے بائیولوجیکل سنٹر رکھ لیا ۔ مغربی پاکستان سے لے کر مشرقی پاکستان تک کالجوں اور یونیورسٹیز میں سائنس لیبارٹی میں استعمال ہونے والے بیالوجیکل سپیسیمن ہم تیار کرکے پہنچا دیا کرتے ۔ اگرچہ تعلیم کے ادھورا رہ جانے کا مجھے بہت افسوس تھا لیکن مجھے یہ کام بہت پسند تھا چنانچہ میں اس کام میں اپنے والد کی مدد کرنے لگا۔ لاہور چڑیا گھر کے جو جانور یا پرندے مرجاتے ۔ مثلا چکور ، فیزنٹ phasent ۔ ، آبی پرندے ، جانوروں میں بندر شیر ریچھ وغیرہ وہ ہمیں بھیج دئیے جاتے اور ہم ان کو حنوط کرتے ۔ گبن یعنی بغیر دم کا بندر نیو کیمپس پنجاب یونیورسٹی زولوجیکل میوزیم میں اب بھی موجود ہے ۔ اس کے علاوہ اپنے ہاتھ کا تیار کردہ حنوط زدہ دیسی مرغ بھی چند سال پہلے میں نے وہاں دیکھا تھا۔
ساٹھ کی دہائی کے شروع کا واقعہ ہے ان دنوں چڑیا گھر کا ڈاریکٹر ایک روسی تھا۔ جب بھی چڑیا گھر کا کوئی جانور یا پرندہ مرجاتا وہ مجھ سے حنوط کروا لیتا۔تمام معاملات زبانی طے ہوتے تھے۔ میں مردہ جانور یا پرندہ اپنی لیب میں لے جاتا اور تیار کرکے اسے دے دیتا وہ اس کی طے شدہ ادائیگی کردیتا ۔ انہی دنوں چڑیا گھر کا ایک شیر مر گیا۔ اس نے شیر حنوط کرنے کے لیے ہمیں بلوایا معاملات طے ہوئے اور میں بھاری بھرکم مردہ شیر گدھا گاڑی پر لاد کر اپنی لیب میں لے آیا۔ ہم تینوں بہن بھائیوں نے اسے بہت محنت سے حنوط کیا ۔ جب میں نے کام مکمل کر لیا اور وصولی کے لیے وہاں پہنچا تو پتہ چلا کہ اس شخص کا ہارٹ اٹیک سے انتقال ہوچکا ہے۔ چڑیا گھر کے ذمہ داران نے ادائیگی میں ٹال مٹول شروع کر دی اور الٹا مجھ پر الزام لگا دیا کہ تم لوگ جان بوجھ کر چڑیا گھر کے جانور مار دیتے ہو ۔ اور نہ جانے اب تک کتنا مال اسکے ساتھ مل کر کھا چکے ہو ۔
میں نے ایسا کچھ نہیں کیا تھا۔ اس لیے میں مطمئن تھا۔ کیونکہ اس کے ساتھ سارا معاملہ زبانی تھا وہ کام دیتا اور میں جانور تیار کر کے نقد پیسے وصول کر لیتا۔ درحقیقت وہ روسی مجھ پر مہربان تھا اور کم سن اور ضرورتمند سمجھ کر میری مدد کے لیے کام دیتا تھا۔ میرا کام بھی بہت خوبصورت اور نفیس ہوتا اس لیے وہ میرے ہنر کو قدر کی نگاہ سے دیکھتا تھا۔
اس کی اچانک موت نے سب معاملہ گڑ بڑ کر دیا ۔ میرے خلاف قانونی کاروائی بھی کی گئی ۔ لیکن کچھ ثابت نہ ہوسکا ۔ چڑیا گھر کے نئے ڈاریکٹر نے مجھے شیر کو حنوط کرنے کا معاوضہ نہیں دیا تو میں نے بھی شیر اسے نہیں دیا بلکہ اپنے پاس رکھ لیا ۔
غالبا 1962,63 . کا زمانہ ہے میں بہت پریشان تھا کیونکہ کام تقریبا نہ ہونے کے برابر تھا ۔ ان دنوں ویلے اور بے روزگار لڑکے عموما نائی کی دکان پر بیٹھ کر گپ شپ لگاتے اور وقت گزارتے تھے ۔ غم روزگار میں مبتلا شام کے وقت میں بھی وہیں جا بیٹھتا ، وہاں کوہستان اخبار آیا کرتا تھا ۔ ایک دن میں کسی کام کی تلاش میں اخبار کا مطالعہ کر رہا تھا کہ دلچسپ وعجیب خبروں کے کالم میں ایک خبر نظر سے گزری ۔ خبریہ تھی کہ بغداد یونیورسٹی کو ایک ٹیکسی ڈرمسٹ (محنّط) کی ضرورت تھی ۔ محکمہ روزگار میں جب اس اسامی کا اشتہار چھپا بے شمار ٹیکسی ڈرائیور اپنی درخواست لے کرمحکمہ روزگار پہنچ گئے ۔وہ یہ سمجھ کر کہ اشتہار کی چھپائی میں غلطی ہے نوکری کے لیے آگئے۔ بغداد یونیورسٹی کا یہ دفتر چوبرجی لاہور کے سامنے تھا ۔ ڈائرکٹر اس ہجوم کو دیکھ کر پریشان ہوگیا اس نے بتایا کہ اشتہار میں کوئی غلطی نہیں اسے ٹیکسی ڈرمسٹ کی ہی ضرورت ہے ۔ اب تک اس اسامی کے لیے کوئی امیدواریہاں نہیں پہنچا ۔ تم میں سے اگر کوئی ٹیکسی ڈرمسٹ ہے تو رکے ہمیں ٹیکسی ڈرائیور کی ضرورت نہیں ۔ یہ ایک خاص اسامی ہے ۔ جس میں جانوروں کو حنوط کیا جاتا ہے ۔ اور ان کی ہڈیوں کے ڈھانچے وغیرہ تیار کیے جاتے ہیں ۔ چنانچہ تمام ٹیکسی ڈرائیور مایوس ہو کر وہاں سے چلے گئے ۔
جب میں نے وہ خبر پڑھی تو اخبار لے کر اپنے جگری دوست سجاد حیدر کے پاس پہنچ گیا ۔ جو مجھے ملازمت کی درخواست لکھ دیا کرتا تھا اس وقت میں اٹھارہ انیس سال کا جوان تھا ۔ ہم نے سائیکلیں لیں اور وہاں پہنچ گئے ۔ ڈاریکٹر سے ملاقات ہوئی ۔ اس وقت تک اس اسامی کے لیے مزید دو امیدواراپنی درخواستیں جمع کروا چکے تھے جو تعلیم اور تجربے میں مجھ سے بڑھ کر تھے ۔ ایک کا نام شوکت اور دوسرا شخص مرزا زاہد بیگ تھا ۔ میرے پاس نہ تو سکول کالج کی کوئی سند تھی نہ تہنیط ( ٹیکسی ڈرمسٹ ) کا کوئی ثبوت یا سرٹیفکیٹ تھا ۔ اور نہ ہی اس کام کے تجربے کا کوئی سرٹیفکیٹ ۔ صرف ایک سادہ درخواست تھی اور ستم یہ کہ درخواست جمع کروانے کا بھی وہ آخری دن تھا ۔ انٹرویو شروع ہوا تو میرے دوست سجاد نے کہا کہ میں بی ایس سی کررہا ہوں لیکن کام میرے دوست کو آتا ہے ۔ یہ سن کر ڈائریکٹر نے ہنس کہا کہ: میں تمہیں اتنی سہولت دے سکتا ہوں کہ ایک ہفتہ کی مہلت دے دوں تم درخواست مکمل کرکے جمع کروا دو۔
باقی آئندہ
 
اب جلد از جلد سہہ ماہی رسالہ شائع کیا جائے تاکہ اچھی اچھی شاعری اور تحریریں پڑھنے کو مل سکیں۔۔۔ کوشش کی جائے کہ خوبصورت اور رنگین تزئین
 

انس معین

محفلین
احباب ایک پرانی کاوش ارسال کر رہا ہوں ۔ دیر سے پیش کرنے کے لئے معضرت ۔

زخموں کو اِس ادا سے سیتا نہیں ہے کوئی
اس نام سے پیارا نغمہ نہیں ہے کوئی

خاموشیوں نے دل میں ڈالے ہیں ڈیرے جیسے
برسوں سے اس نگر میں آیا نہیں ہے کوئی

اب خود بھی خوف میں ہے جو کہہ رہا تھا کل تک
ا یسے جدائیوں میں مرتا نہیں ہے کوئی

کیسے کرے گا کوئی دیدار کی گزارش
جرات نہیں کسی میں ،موسی نہیں ہے کوئی

دیوانگی ہماری شعروں نے یوں چھپائی
ہم چیختے ہیں لیکن سنتا نہیں ہےکوئی

روکو ہوا کو یارو پتوں کو مت اڑائے
آہٹ ہو کس لیے جب آیا نہیں ہے کوئی

میں معجزے جنوں کے تم کو دکھاؤں لیکن
نہ قیس ہے کوئی اب لیلی نہیں ہے کوئی

تیری تلاش میں ہم یوں در بدر ہیں ورنہ
ایسے گلی گلی میں پھرتا نہیں ہے کوئی

تم سے رقابتوں کا الزام سر سے اترا
احمدؔ کو اب تمہارا کہتا نہیں ہے کوئی

عبداللہ احمدؔ
 
آخری تدوین:

انس معین

محفلین
2

ہم ان سے محبت کا انکار نہیں کرتے
چھپ کر بھی مگر وہ تو اقرار نہیں کرتے

یہ ایک نشانی ہے ہم اہلِ محبت کی
غم سہتے ہیں چپ رہ کر اظہار نہیں کرتے

قاصد جو ملو ان سے اک بار یہ کہہ دینا
اس طرح کسی کو بھی بیمار نہیں کرتے

اک ہم ہی تھے نامحرم کیا آپ کی نظروں میں
ہر ایک سے پردہ کیوں سرکار نہیں کرتے

سب بیٹھے ہوئے احمد اس عشق کی راہوں کے
قصے تو سناتے ہیں خبردار نہیں کرتے
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top