سہ ماہی اردو محفل ۔۔۔ اکتوبر تا دسمبر 2019

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

فائضہ خان

محفلین
کسی کی تسبیح سے گری ہوں میں مثلِ موتی بکھر گئی ہوں
کسی کے دل میں اُتر گئی ہوں، کسی کے دل سے اُتر گئی ہوں

ہیں زائرینِ حرم ہراساں، صنم کدوں میں صنم پریشاں
ترے جہاں سے مرے خدایا، شناسا ہوتے ہی ڈر گئی ہوں

بڑا قلق تھا بڑی خلش تھی، سنور رہی تھی میں دھیرے دھیرے
بڑا مزہ ہے بڑی عطا ہے، بڑے سکوں سے بکھر گئی ہوں

مرے شناسا تری شناسائی کیا تماشا یہ کر گئی ہے
تھی اجنبیت سی اجنبیت، کبھی جو اپنے میں گھر گئی ہوں

وہ چشمِ حیرت، لبِ تبسم، عجیب جادو سا کر گئے ہیں
کسی کی صورت میں ڈھل گئی ہوں، بدل گئی ہوں، نکھر گئی ہوں

میں ایک اُجڑے محل کے کھنڈر بڑی ہی حیرت سے تک رہی تھی
وہ میرے مانند لگ رہا تھا، میں اس کے مانند اُجڑ گئی ہوں

از قلم فائضہ خان
 
کسی کی تسبیح سے گری ہوں میں مثلِ موتی بکھر گئی ہوں
کسی کے دل میں اُتر گئی ہوں، کسی کے دل سے اُتر گئی ہوں

ہیں زائرینِ حرم ہراساں، صنم کدوں میں صنم پریشاں
ترے جہاں سے مرے خدایا، شناسا ہوتے ہی ڈر گئی ہوں

بڑا قلق تھا بڑی خلش تھی، سنور رہی تھی میں دھیرے دھیرے
بڑا مزہ ہے بڑی عطا ہے، بڑے سکوں سے بکھر گئی ہوں

مرے شناسا تری شناسائی کیا تماشا یہ کر گئی ہے
تھی اجنبیت سی اجنبیت، کبھی جو اپنے میں گھر گئی ہوں

وہ چشمِ حیرت، لبِ تبسم، عجیب جادو سا کر گئے ہیں
کسی کی صورت میں ڈھل گئی ہوں، بدل گئی ہوں، نکھر گئی ہوں

میں ایک اُجڑے محل کے کھنڈر بڑی ہی حیرت سے تک رہی تھی
وہ میرے مانند لگ رہا تھا، میں اس کے مانند اُجڑ گئی ہوں

از قلم فائضہ خان
کھنڈر کے تلفظ پر ایک نظر ڈالنے کی ضرورت ہے باقی غزل لاجواب ہے۔
 
آخری تدوین:
ایک نثری تحریر پیشِ خدمت ہے، چند ماہ پہلے ایک آن لائن میگزین "ہم سب" میں شامل ہو چکی ہے، محترم محمد خلیل الرحمن صاحب کی حوصلہ افزائی پر پیش کرنے کی جسارت کر رہا ہوں

ریسٹ اِن پیس بیوی
از محمد شکیل خورشید


" مجھے جانے دیں خدا حافظ، ٹھیک ہے"

پانچ جنوری 2019 کی شام سی ایم ایچ لاہور کے آئی سی یو میں تاروں، ٹیوبوں، پٹیوں، نالیوں، پائپوں اور بوتلوں میں جکڑی ہوئی، نیم غنودگی یا بیہوشی کے بین بین کسی کیفیت میں یہ اس کے آخری الفاظ تھے جو میری سماعت نے سنے۔ اتنی نحیف آواز کہ سننے کے لیئے کان آکسیجن ماسک کے ساتھ لگانا پڑے۔

اگلے دن علی الصبح وہ چلی گئی چھبیس سال کی رفاقت، اکیس سال کی جانکاہ بیماری اور انچاس سال کی زندگی سے بھرپور زندگی ۔ ایک سانس کے بعد اگلی سانس کی عدم دستیابی سے تمام ہوئی۔

1989 کی ایک شام گھر فون کیا تو امی نے پوچھا " کہیں کوئی چَکر وَکر تو نہیں چل رہا، تمہارے رشتے کا سوچ رہے ہیں۔" زمانہ قبل از موبائل و انٹرنیٹ کی بات ہے، ہفتے میں تین چار بار آپریٹر کی مہربانی سے "لانگ ڈسٹینس" کال مِل جاتی تو غنیمت ہوتی تھی۔ اگلی کال میں پتہ چلا ماموں کے ہاں بات چل رہی ہے۔ اس سے اگلی کال پر ہاں کی خبر اور اس سے اگلی پر منگنی کی۔ "ہم رسم کر آئے ہیں، اگلے ہفتے عید کے لیئے آرہے ہو تو وہ بھی آ کر رسم کر لیں گے۔"

1992 میں ویلنٹائن ڈے کے غلغلے سے تعارف ہونے سے کہیں پہلے 14 فروری کو وہ میرے عقد میں آئی اور اسی سال 27 نومبر کو رخصتی ہوئی۔

وہ کیا تھی؟ سیماب صفت؟ الھہڑ؟ نٹ کھٹ؟ چلبلی؟ شائد یہ سب کچھ، اور اس سے بہت زیادہ۔ 1997-98 کی سردیوں میں جان لیوا مرض تشخیص ہوا۔ حالت یہ تھی کہ انگلی میں گینگرین کا خطرہ تھا اور تکلیف کی شدت اتنی کہ آنکھ لگتی تو درد سے جاگ جاتی۔ مگر زندہ دلی کا وہ عالم کہ میری بہن عیادت کے لیے گھر آئیں تو وہ اپنی کھنک دار آواز میں کسی بحث مین مگن تھی۔ میری بہن کہنے لگیں " لو مریض کی آواز تو باہر گلی تک آرہی ہے"۔ اس زندہ دلی کے سہارے ہی ساری زندگی گذر گئی۔ لوگ حیران بھی ہوتے تھے، غلط فہمی کا شکار بھی ہوتے تھے اور شک بھی کرتے تھے۔ یہ بہتان بھی لگا کہ "انیلا کا تو جب دل چاہتا ہے بیمار پڑ جاتی ہے" شائد یہ بات اتنی غلط نہیں، صرف تھوڑی الٹ تھی۔ بیماری کے باوجود جب وہ اٹھنے کی ٹھان لیتی تو کسی کو پتہ ہی نہ چلتا کہ اس ہنس مکھ، تازہ دم چہرے کے پیچھے کرب، تکلیف اور کمزوری کی کتنی پرتیں دفن ہیں۔

میں کبھی کبھی سوچتا تھا کہ مجھ جیسا سہل پسند، سست الوجود شخص، اگر یہ اپنی بیماری کے ہاتھوں مجبور نہ ہوتی تو کیسے اس کی افتادئ طبع کا ساتھ دے پاتا۔ اسے خود بھی احساس تھا، کبھی مسکراتی اٹھلاتی ہوئی ترنگ میں آ کر کہتی، خدا نے بھی مجھے باندھ کر آپ کے حوالے کیا ہے کہ پر نہ مار سکوں۔ لیکن ایسا نہیں تھا۔ اس نے زندگی سے ہار نہیں مانی۔ ہاں ایک طرزِ زندگی عام لوگوں سے مختلف اختیار کرنا پڑا، مگر اس نے کبھی بیماری کو خود پر حاوی نہیں ہونے دیا۔ اسی لئے بہت قریبی ملنے جلنے والوں کو بھی اس کی گرتی صحت کا درست اندازا نہیں تھا۔

بیماری کی تشخیص کے بعد ابتداَ صحت سنبھلنے پر ٹھانی کہ جاب کرنی ہے۔ پنجاب یونیورسٹی میں پروفیسر حسن عسکری اور پروفیسر قزلباش جیسے اساتذہ کی شاگرد رہی تھی۔ راولپنڈی میں فضائیہ کے کالج میں سوکس کی لیکچررشپ کے لیئے انٹرویو ہوا۔ پوچھا پڑھانا کیوں چاہتی ہیں، جواب دیا، سوکس اور پاکستان سٹڈیز ہمیشہ بور مضامین سمجھے جاتے ہیں، میں انہیں دلچسپ بنا کر پڑھانا چاہتی ہوں۔ اور پھر اس نے ایسے ہی کیا، چکلالہ میں فضائیہ سکول ہو، اسلام آباد کا پنجاب گروپ آف کالجز کا کیمپس یا لاہور میں فضائیہ کالج آف ایجوکیشن فار ویمن۔ سب جگہ اس کا ماٹو یہی رہا۔ اس کی موت کی خبر سن کر اس کے ایک سٹوڈنٹ برہان نے میسیج کیا (ترجمہ) " -----وہ ایک آئیڈیل استاد تھیں، ایک ماں کا دل اور صوفی کی روح لیئے۔ میں نے ان سے بہت کچھ سیکھا، درحقیقت جو سبق انہوں نے مجھے سکھائے وہ نہ کتابوں میں مل سکتے ہیں نہ ہی لفظوں میں سمجھائے جا سکتے ہیں"

وہ کوئی فرشتہ نہیں تھی۔ بھر پور انسان تھی، انسانیت کی تمام کجیوں، کوتاہیوں، کمزوریوں کے ساتھ، لڑتی تھی، جھگڑتی تھی، غصہ کرتی تھی، پریشان ہوجاتی تھی، ناراض ہوجاتی تھی، دکھی ہوجاتی تھی۔ لیکن پھر اُٹھ کھڑی ہوتی تھی۔ کسی ٹیڑھے رشتہ دار سے، دنیا سے، معاشرے سے، اپنی بیماری سے نبردآزما ہونے کے لئیے۔ 2010 میں کوما میں چلی گئی، میں نے اس کے ڈاکٹر ونگ کمانڈر فواد احمد سے پوچھا، واپس آپائے گی؟ کہنے لگے فائیٹر ہیں، یقیناَ آئیں گی، شائد کچھ دن لگ جائیں۔ اور وہ عظیم فائیٹر دس گھنٹوں میں آنکھیں کھولے شام کو بیٹے کی سکول میں ایوارڈ تقریب میں شمولیت کے لیئے مجھے ہدایات دے رہی تھی۔ پھر لوگ کیوں نہ سمجھتے کہ وہ اپنی من مرضی سے بیمار ہوتی ہے۔

2006 میں جگر کا عارضہ تشخیص ہوا۔ پرانی بیماری بدستور لاحق تھی۔ سی ایم ایچ کے آفیسرز وارڈ میں نرس کچھ ٹیسٹ کے لیئے خون کا نمونہ لینا چاہ رہی تھی اور وہ حسبِ عادت چٹکلے چھوڑ رہی تھی اور اٹھکیلیاں کر رہی تھی۔ نرس نے سٹپٹا کر پوچھا " آپ کو پتہ بھی ہے آپ کتنی سیریس بیمار ہیں؟"، اس نے پٹ سے جواب دیا "ابھی مری تو نہیں ناں"

ڈاکٹرز ہمیں مسلسل قصداَ یا غیر ارادی طور پر اس امکان سے آگاہ کرتے رہے۔ غالباَ 2008 یا 2009 کی بات ہے، ایک نئے میڈیکل سپیشلسٹ کے پاس معائنے کے لیئے گئے تو بیماری کا سن کر پوچھا کب تشخیص ہوئی؟ بتایا تقریباَ دس گیارہ سال ہو گئے ہیں۔ بے ساختہ بولے بڑا ٹائم نکال گئی ہیں آپ تو۔ پھر فوراَ سنبھل کر کہنے لگے میرا مطلب ہے بڑی ویل مینیجڈ ہے آپ کی بیماری۔ وقتاَ فوقتاَ ایسی باتیں سن سن کر اور بارہا اسے موت کے منہ میں جاتے اور پھر واپس آتے دیکھ کر میں اور بچے بیک وقت دو متضاد ذہنی کیفیتوں کا شکار تھے۔ ایک سطح پر ہم ہمہ وقت اس سانحے کے لئے ذہنی ظور پر تیار رہتے تھے جبکہ دوسری طرف یہ امید بھی بندھی رہتی تھی کہ ہسپتال جائے گی، بیماری سے دو دو ہاتھ کرے گی اور ہنستی مسکراتی واپس آجائے گی۔

اس بار بھی ہم اسی ذہنی کیفیت کا شکار تھے۔ جبکہ بظاہر تکلیف بھی اتنی شدید نہیں تھی۔ یہی وجہ ہے کہ جب میں نے اسے کہتے سنا کہ " مجھے جانے دیں خدا حافظ، ٹھیک ہے" تو بیک وقت میں دونوں ہی کیفیتوں کا شکار تھا۔ یہ فیصلہ ہی نہ کر پایا کہ یہ کتنا سچ اور کتنا وہم ہے۔ کبھی سوچتا ہوں اس فائیٹر کو اگر میں جواب میں کہہ دیتا کہ نہیں یہ ٹھیک نہیں ہے تو کیا معلوم وہ اس بار میری خاطر ہی رک جاتی۔

چھ جنوری کی اوس میں بھیگی سرد صبح کو آئی سی یو میں ڈیوٹی نرس اپنے پروٹوکول کے حساب سے مجھے سمجھا رہی تھی

"سر مانیٹر پر یہ پلس دل کی دھڑکن ظاہر کرتی ہے۔ یہ لایئن سیدھی ہوجائے تو اس کا مطلب ہے اب زندگی کی کوئی رمق نہیں ہے۔ ہم نے تمام پروسیجر کر کے دیکھ لئے ہیں، آئی ایم سوری"

لائین سیدھی ہو جانے کا مطلب یعنی اب زندگی نہیں رہی۔ تو کیا لائین کا ٹیڑھ ہی زندگی ہے؟ اگر سیدھی لائین موت ہے تو کیا ہر دھڑکن کے بعد اگلی دھڑکن تک کی سیدھی لائین بھی اُس لحظہ کی موت ہے؟ کیا ہر دھڑکن کے بعد انسان موت چکھ کر اگلی دھڑکن میں دوبارہ جی اُٹھتا ہے؟

دعاؤں، سسکیوں، تسلیوں، رسموں، دلاسوں اور مہیب سناٹے کے بعد آج میں تصور کرنا چاہوں تو وہی چلبلی، سیماب صفت تصویر ابھرتی ہے جو برزخ میں مجلس سجائے بیٹھی ہو گی اور منکر نکیر پوچھ رہے ہوں گے " آپ کو پتہ بھی ہے آخر کار آپ مر چکی ہیں؟"

ریسٹ اِن پیس بیوی
 
میں ایک اُجڑے محل کے کھنڈر بڑی ہی حیرت سے تک رہی تھی
وہ میرے مانند لگ رہا تھا، میں اس کے مانند اُجڑ گئی ہوں



ماشاءاللہ ،
بہت لاجواب ، زبردست شعر
شاندار غزل ہے بہنا ۔

جس شعر پر ہم نے اعتراض کی جسارت کی تھی اسے استاد صاحب نے پاس کردیا ہے ورنہ ہم نے تو کھنڈر کو اس طرح استعمال کیا ہے۔

شکستہ تھے درو دیوار، گویا اِک کھنڈر تھا یہ
اور اب عرصے سے اِن شیطاں صفت روحوں کا گھر تھا یہ
 

محمداحمد

لائبریرین
بلی، شیر اور انسان (بچوں کی کہانی)

ایک پالتو بلی بھولی بھٹکی قریبی جنگل میں آ نکلتی ہے۔ کچھ دیر اِدھر اُدھر گھومنے پھرنے کے بعد اس کا سامنا شیر سے ہو جاتا ہے جو اس جنگل کا سردار ہوتا ہے۔ بلی قدرے خوف سے مگر محتاط ہو کر شیر کے سامنے کھڑی ہو جاتی ہے تا کہ جان بچانے کے لیے کوئی پینترا اختیار کر سکے۔

شیر نے اس سے قبل کسی بلی کو نہیں دیکھا تھا چناچہ وہ دیکھ کر بہت حیران ہوتا ہے اور اس چھوٹے جانور کا بغور مشاہدہ کرتا ہے اور سوچتا ہے کہ یہ بظاہر تو میرے جیسا جانور ہی ہے مگر جسامت میں اتنا چھوٹا کیوں ہے؟ جب اسے کچھ سمجھ نہیں آتی تو بالآخر وہ بلی سے مخاطب ہوتا ہے۔ کون ہو تم؟ دیکھنے میں تو مجھ جیسے ہی ہو مگر اتنے چھوٹے کیوں ہو؟

بلی سوچتی ہے کہ اگر اس کو حقیقت بتا دی اور یہ بھوکا بھی ہوا تو کہیں مجھے کھا ہی نہ جائے سو وہ اپنے شاطر دماغ کا استمعال کرتی ہے اور کچھ ہی دیر بعد شیر سے مخاطب ہوتی ہے کہ ہاں باشاہ سلامت! ہوں تو میں آپ ہی کی نسل سے اور پہلے تھی بھی آپ ہی کی جسامت میں مگر کیا بتاؤں، قریبی شہر میں ایک بہت ہی خطرناک جانور رہتا ہے اس نے مجھ پر اتنے ظلم کیئے ہیں کہ میں اتنی سی رہ گئی ہوں۔

کیا نام ہے اس بدذات کا؟ اور کیا وہ مجھ سے زیادہ خونخوار ہے؟ شیر غصّہ سے پاگل ہوتے ہوئے گرجا۔ بلی نے مظلومانہ انداز میں بتایا کہ اس وحشی درندے کو "انسان" کہتے ہیں۔ شیر نے چونکہ ابھی جوانی میں قدم رکھا ہی تھا اور تجربہ زیادہ نہ ہونے کے باعث وہ تاحال انسان سے بھی ناآشنا تھا۔

اپنی طاقت اور جوانی کے نشے میں شرابور شیر بلی کو حکم دیتا ہے کہ جاؤ اور کسی طریقہ سے اس جانور کو جنگل تک لے آؤ پھر دیکھتا ہو کہ وہ کیا بَلا ہے۔ بلی اپنی جان بچاتے ہوئے حکم کی تعمیل کے لیے وہاں سے چل دیتی ہے اور جس گھر کے باورچی خانے پر اس کی گذر بسر ہوتی ہے اس گھر کے مالک کا انتظار کرنے لگتی ہے۔ جیسے وہ گھر لوٹتا ہے بلی اسے ورغلا کر جنگل کی اور لے نکلتی ہے اور حیلے بہانے سے یکایک شیر کے سامنے لا کھڑا کرتی ہے اور باآوازِ بلند کہتی ہے حضور! یہ ہے وہ درندہ صفت جس نے آپ کی نسل پر بے تحاشا ظلم کئے ہیں۔

انسان یک دم یہ ماجرہ دیکھ کر گھبرا جاتا ہے اور دم سادھ کر کھڑا جان بچانے کا سوچنے لگتا ہے۔ شیر انسان کے گرد چکر کاٹتے ہوئے اس کا جائزہ لیتا ہے اور سوچتا ہے کہ نہ اس کے دانت بڑے ہیں نہ اس کا ناخنوں والا پنجہ ہے اور نہ ہی اس کی کھال بال دار اور سخت ہے تو یہ کیسے ظلم کرتا ہے۔؟ یہ سب دیکھنے کے بعد ایک دم شیر انسان کے سامنے رکتا ہے اور گرجدار آواز میں پوچھتا ہے کہ میری نسل کے جانوروں پر اس قدر ظلم کیونکر کیئے کہ وہ اتنے سے رہ گئے؟ اب اس پاداش کی سزا میں مجھ سے لڑنے اور میرے ہاتھوں مرنے کے لیے تیار ہو جاؤ۔

انسان یہ سب دیکھنے اور سننے کے بعد اندازہ لگاتا ہے کہ بلی نے اپنی جان بچانے کے لیے اسے کوئی من گھڑت کہانی سنائی ہوگی لہٰذا انسان شیر سے اپنی جان بچانے کے لیے اپنا دماغ لڑاتا ہے اور تھوڑی ہی دیر میں ایک تدبیر سوچنے کے بعد شیر کو جواباً للکارتا ہے اور بلی کی طرف اشارہ کہتا ہے کہ جب یہ تمہارے جتنی تھی تو اس نے بھی ایک دن اپنی نسل کا بدلا لینے کی ٹھانی تھی تم بھی اگر اس کی غلطی دہرانا چاہتے ہو تو مجھے کوئی اعتراض نہیں اور میں تم جیسے کو سبق سیکھانے کے لیے ہر وقت تیار رہتا ہوں۔ بلی موقع دیکھتے ہی قریبی درخت پر چڑھ جاتی ہے اور یہ سب مزے سے دیکھنے لگتی ہے۔

اس سے پہلے کہ شیر حملہ کرتا انسان پھر شیر کو مخاطب کرتا ہے اور کہتا ہے کہ اس سے پہلے کہ لڑائی شروع ہو، میں ایک بہت ضروری کام کرآؤں پھر تسلی سے تمہاری مرمت کروں گا۔ شیر اپنی دھلائی کی باتوں کو مضحکہ خیز سمجھتے ہوئے سوچتا ہے کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک انسان میرا مقابلہ کر سکے اور الٹا میری دھلائی کرسکے؟ ساتھ ہی ساتھ اسے شیر ( یعنی بلی) کو چھوٹا کرنے والے تشدد کی قسم کو جاننے کا بھی تجسس تھا لہٰذا شیر کہتا ہے جتنا وقت چاہیے لے لو مگر تم لڑائی میں مجھ سے جیت نہیں سکتے۔

انسان ضروری کام چند منٹوں میں کر کے واپس آنے کا کہتا ہے اور شیر کو پابند کرتا ہے کہ وہ یہیں اس کا انتظار کرے اور اس کے آنے تک کہیں بھاگ نہ جائے۔ شیر یہ سب باتیں سن کر قہقھہ لگاتا ہے اور کہتا ہے تم بھاگ سکتے ہو میں نہیں۔ انسان بھی یہ سن کر لازمی آنے کا وعدہ کرتا ہے اور چلنے لگتا ہے۔

شیر کی نظروں سے اوجھل ہونے سے پہلے ہی انسان واپس پلٹتا ہے اور شیر سے کہتا ہے کہ مجھے یقین ہے کہ میرے واپس آنے تک تم یہاں سے بھاگ جاؤ گے لہٰذا میں تسلی چاہتا ہوں۔ شیر ہنستا ہے اور کہتا ہے کہ میں جنگل کا بادشاہ ہوں میں بھلا کیوں بھاگوں گا؟ خیر! انسان کہتا ہے کہ مجھے پھر بھی یقین نہیں ہے لہذا میں تمہیں درخت کے ساتھ باندھ کر جاؤں گا۔ شیر اپنی طاقت کے نشے میں انسان کو اجازت دیتا ہے کہ تم اپنی تسلی کرلو۔ انسان ادھر ادھر سے رسی ڈھونڈتا ہے اور شیر کو درخت سے باندھ دیتا ہے اور جانے کے لیے مڑتا ہے کہ پھر رک جاتا ہے۔ اب کیا ہے؟ شیر پوچھتا ہے۔

یہ ایک رسی تو تم بندر یا کسی جانور سے کھلوا لو گے لہٰذا میں تمہارے ہاتھ پاؤں بھی باندھ کر جاؤں گا تا کہ تم بھاگ نہ سکو۔ شیر کہتا ہے اچھا یہ شوق بھی پورا کر لو۔ انسان اس کے ہاتھ پاؤں بھی باندھ دیتا ہے اور کہتا ہے کہ اب انتظار کرو میں ضروری کام کر کے ابھی آیا۔ یہ کہہ کر انسان چلتا ہے اور کچھ ہی دور سے ایک موٹا سا ڈنڈہ پکڑتا ہے اور پھر واپس لوٹتا ہے اور مار مار کر شیر کی ہڈی پسلی ایک کر دیتا ہے۔ پھر ہاتھ جھاڑتے ہوئے شیر سے کہتا ہے کہ اب یہیں انتظار کرو میں ضروری کام کر کے آتا ہوں اور تم سے دو ہاتھ کرتا ہوں۔

شیر پہلی مار سے ہی ادھ موا ہو چکا ہوتا ہے اور درد سے کراہتا ہوا سوچتا ہے کہ ابھی اس نے میرا یہ حال کر دیا ہے تو ضروری کام کے بعد واپس آکر میرے ساتھ کیا کرے گا۔ انسان جب اس کی نظروں سے اوجھل ہو جاتا ہے تو درد سے نڈھال شیر قریبی درخت پر بیٹھی بلی سے پوچھتا ہے:-

سنو! جب میں تمہارے جتنا رہ جاؤں گا تو یہ مجھے چھوڑ تو دے گا نا؟

دلچسپ ہے۔

اور آخری جملہ بڑا مزے دار ہے۔ :)
 

فائضہ خان

محفلین
ایک بار کوئی نثر یا غزل لکھ لوں اسکے بعد لاکھ کوشش کے بھی ردو بدل ہو بھی جائے تو میرے خود کے دل سے ہی اتر جاتی ہے ۔۔۔۔ :(
ایک نثر پیش خدمت ہے ۔۔۔ امید ہے شاید آپ سب کو۔پسند آئے ۔۔۔۔
سب کا بہت شکریہ جنہوں نے میری حوصلہ افزائی کی اور میری غزل میں خامیوں کی نشاندہی کی ۔۔۔۔ بے حد مشکور ہوں ۔۔۔ :)
 

فائضہ خان

محفلین
《 مات 》

کھل جا سم سم۔۔۔۔۔ کھل جا سم سم ۔۔۔ کھل جا سم سم ۔۔۔ عمر بھر کے اصولوں کی چٹان کے سرکنے کی گڑگڑاہٹ سنائی دیتی گئی ۔۔۔۔ سوچ کے گھوڑوں کے ٹاپوں کی بازگشت اسقدر قریب سنائی دینے لگی گویا کنپٹیوں کی رگیں پھول کر پھٹ جائیں گی ۔۔۔۔ اس کے بعد مکمل خاموشی ۔۔۔۔۔ گہرا سکوت ۔۔۔۔۔ ایسا جمود کہ صبر نے بھی مرثیے پڑھ ڈالے کہ یہ ظلم ہے ظلم در ظلم ۔۔۔ کہ اس مغاک خاک کو مزید اذیت نہ دی جاوے ۔۔۔۔ میرے لب خاموش ہوچکے ہیں کہ گنجفہ کے چھیانوے پتوں کی چال چلی جاچکی کہ آٹھ رنگوں میں روز و شب یوں رنگا گیا کہ تین میں تقسیم ہوتی رہی ۔۔۔۔ تلخیِ ایام کو گھونٹ گھونٹ پی کر ہر بار یہی گمان رہا کہ مسافت ختم ہونے کو ہے پر ۔۔۔۔۔ اپنی اپنی حسرتوں کے جام تھامے۔۔۔۔ سبھی مےخوار دائرے میں پاسے پھینکتے گئے ۔۔۔
میں چھیانوے بار تمہاری ہار جیت میں تقسیم کردی گئی ۔۔۔ہر پتا تم بڑے مان سے پٹختے تھے اور میں اسی مان سے ہوا میں لہراتے ہوئے خود کو زمین کی سختی پر چور چور ہوتا محسوس کرتی رہی کہ وقت آخر جیت میری ہے۔۔۔۔
بس اب تو جیت میرا مقدر ہوئی تو اب ہوئی لیکن ۔۔۔۔ آخری حد پر بھی پاسے کے پلٹتے پلٹتے پھر تین میں بٹ گئی ۔۔۔۔
شطرنج کی کھلاڑی۔۔۔۔ کالے سفید رنگ میں دنیا کھوجنے والی۔۔۔۔ اپنی ذات میں بتیس مہروں جیسی میں "شاہ زادی" ۔۔۔۔ مجھے میرا شہ بچانا تھا ۔۔۔ اس شہ کو سبھی خانوں میں آزاد رکھ کر خود کالے خانوں میں مقید رہی کیونکہ مجھے جذب کرنا تھا ۔۔۔۔ کہ ۔۔۔
سفید رنگ سے سب رنگ پهوٹتے ہیں اور کالے رنگ میں سب جذب ہو جاتے ہیں۔۔۔۔ عشق سفید ہے ۔۔۔۔ عشق کالا ہے۔۔۔۔۔
یہی وعظ دیتے دیتے میرا گلا بیٹھ چکا ہے ۔۔مگر۔۔۔۔ میری ہمت کسی مرد مجاہد کی طرح چند لمحہ قبل تک جوان تھی کہ گنجفہ کے تیسرے شہ کو مات دیکر میں نے اپنا شہ بچا لیا۔۔۔۔پر ۔۔ مجھے مات ہوئی ۔۔۔۔ کہ عدم کی مٹی سے اپنا نصیب لکھوا بیٹھی ۔۔۔ اپنی بساط سے بڑھ کر تمہاری ہوتی گئی ۔۔۔۔ اب مجھ پر موت کی اذیت گراں نہ گزرے گی۔۔۔۔ کہ مجھے مات ہوئی ۔۔۔۔
آؤ سوختہ جگر ۔۔۔۔۔ آؤ مرض عشق کے اسیرو۔۔۔۔ سنو ۔۔۔ جاں نثاری کے شدید جذبے میں پوشیدہ "جبر" کی دلکشی عین اس وقت بے نقاب ہوئی جب کشتیوں کی راکھ بھی ناجائز بچے کی مانند کوڑے کے ڈھیر پر پھینک دی گئی ۔۔۔۔
مجھے رشک آتا تھا پروانے کی قسمت پر کہ
کتنی مدت سے وہ اس دن کا منتظر رہتا ہے جب شمع کی لو اُسے جلائے گی ۔۔۔۔ عجیب کیفیت سے دوچار۔۔۔۔۔ ایک عجیب طمانیت کے ساتھ اپنے پروں کو جلتا دیکھے گا ۔۔۔۔طواف کرتے کرتے آخر کو جاں نچاور کر دیگا ۔۔۔۔ اور شمع اپنی مدھم ہوتی لو میں سب منظر دھندلا کر اسکی خاک کو بھی بے وقعت کردے گی کہ جلنا تو پروانے کا فرض تھا۔۔۔ اب اس میں کیسی قبولیت کیسا مان؟ ۔۔۔
اسطرح تو نہ داستاں گو کا قصہ ختم ہووے ہے نہ ہی شب کی درمیانی پہر کا کسیلا پن ۔۔۔۔۔
تم عروج ٹھہرے اور میں زوال ۔۔۔۔
میں "شاہ زادی" اپنا زوال قبول کرتی ہوں کہ اس کائنات کی کوئی شے تمہیں مطمئن نہ کرسکی سوائے میرے۔۔۔۔ مگر دیکھو مجھے مات ہوئی ۔۔۔
میں قبول کرتی ہوں کہ محبت کی بنیاد کی پختگی میں جو جذبوں کا گارا استعمال ہوا وہ میرے لیے تو تھا ہی نہیں مگر محبت کے محل کی عمارت کی پختگی دیکھو اس کو بڑے بڑے طوفاں بھی نہ ہلا سکے ۔۔۔۔ مگر مجھے مات ہوئی ۔۔۔
لو قبول کیا کہ محبت سے عشق کے کٹھن زینے کو چڑھنے کے لیے مجھے آنکھوں کے بل آنا پڑا ۔۔۔۔ اور جب میں نے آخری سیڑھی پر قدم رکھا تو عشق کی کرن تمہارے دل میں ابھری یعنی لمبی مسافت تک میں تنہا تھی؟ ۔۔۔۔ تم عروج ہو میرا زوال ہوا کہ ۔۔۔۔ مجھے مات ہوئی ۔۔۔۔
یہ محبت میری کوکھ سے پھوٹی تھی اسکو اپنی انا کی خاتمے کا اناج کھلا کر عشق میں نے بنایا آج تم اس کے سرپرست بننا چاہتے ہو ؟ ۔۔۔۔
جبکہ تمہیں تب تو محبت ہی نہ تھی جب تم بھی اسکی تخلیق کے مراحل میں میرے ساتھ کھڑے تھے ۔۔۔ وہ تو محض تمہارا گمان تھا وہ سایہ تھا ۔۔۔۔ میں تو تنہا تھی روتی بلکتی اجڑتی بکھرتی ۔۔۔۔ آج تم فاتح ٹھہرے ۔۔۔ اور ۔۔۔۔ مجھے مات ہوئی ۔۔۔
سنو ۔۔۔
تمہیں جیت دے کر میں نے مات قبول کی ۔۔۔۔۔ کہ یہ عشق میں تمہیں " اپنے ہوش و حواس میں سونپتی ہوں کہ تم تنہا اس کے سرپرست ٹھہرے "۔۔۔

جانتے ہو روشنی گدلے پانی سے نہیں چھنتی۔۔۔۔۔ وہ خود گدلی ہو جاتی ہے ۔۔۔۔ میں نے گھوڑے کی ڈھائی گھر کی چال چل کر ۔۔۔۔ تمہیں گدلا ہونے سے بچا لیا۔۔

از قلم فائضہ خان
 

La Alma

لائبریرین
《 مات 》

کھل جا سم سم۔۔۔۔۔ کھل جا سم سم ۔۔۔ کھل جا سم سم ۔۔۔ عمر بھر کے اصولوں کی چٹان کے سرکنے کی گڑگڑاہٹ سنائی دیتی گئی ۔۔۔۔ سوچ کے گھوڑوں کے ٹاپوں کی بازگشت اسقدر قریب سنائی دینے لگی گویا کنپٹیوں کی رگیں پھول کر پھٹ جائیں گی ۔۔۔۔ اس کے بعد مکمل خاموشی ۔۔۔۔۔ گہرا سکوت ۔۔۔۔۔ ایسا جمود کہ صبر نے بھی مرثیے پڑھ ڈالے کہ یہ ظلم ہے ظلم در ظلم ۔۔۔ کہ اس مغاک خاک کو مزید اذیت نہ دی جاوے ۔۔۔۔ میرے لب خاموش ہوچکے ہیں کہ گنجفہ کے چھیانوے پتوں کی چال چلی جاچکی کہ آٹھ رنگوں میں روز و شب یوں رنگا گیا کہ تین میں تقسیم ہوتی رہی ۔۔۔۔ تلخیِ ایام کو گھونٹ گھونٹ پی کر ہر بار یہی گمان رہا کہ مسافت ختم ہونے کو ہے پر ۔۔۔۔۔ اپنی اپنی حسرتوں کے جام تھامے۔۔۔۔ سبھی مےخوار دائرے میں پاسے پھینکتے گئے ۔۔۔
میں چھیانوے بار تمہاری ہار جیت میں تقسیم کردی گئی ۔۔۔ہر پتا تم بڑے مان سے پٹختے تھے اور میں اسی مان سے ہوا میں لہراتے ہوئے خود کو زمین کی سختی پر چور چور ہوتا محسوس کرتی رہی کہ وقت آخر جیت میری ہے۔۔۔۔
بس اب تو جیت میرا مقدر ہوئی تو اب ہوئی لیکن ۔۔۔۔ آخری حد پر بھی پاسے کے پلٹتے پلٹتے پھر تین میں بٹ گئی ۔۔۔۔
شطرنج کی کھلاڑی۔۔۔۔ کالے سفید رنگ میں دنیا کھوجنے والی۔۔۔۔ اپنی ذات میں بتیس مہروں جیسی میں "شاہ زادی" ۔۔۔۔ مجھے میرا شہ بچانا تھا ۔۔۔ اس شہ کو سبھی خانوں میں آزاد رکھ کر خود کالے خانوں میں مقید رہی کیونکہ مجھے جذب کرنا تھا ۔۔۔۔ کہ ۔۔۔
سفید رنگ سے سب رنگ پهوٹتے ہیں اور کالے رنگ میں سب جذب ہو جاتے ہیں۔۔۔۔ عشق سفید ہے ۔۔۔۔ عشق کالا ہے۔۔۔۔۔
یہی وعظ دیتے دیتے میرا گلا بیٹھ چکا ہے ۔۔مگر۔۔۔۔ میری ہمت کسی مرد مجاہد کی طرح چند لمحہ قبل تک جوان تھی کہ گنجفہ کے تیسرے شہ کو مات دیکر میں نے اپنا شہ بچا لیا۔۔۔۔پر ۔۔ مجھے مات ہوئی ۔۔۔۔ کہ عدم کی مٹی سے اپنا نصیب لکھوا بیٹھی ۔۔۔ اپنی بساط سے بڑھ کر تمہاری ہوتی گئی ۔۔۔۔ اب مجھ پر موت کی اذیت گراں نہ گزرے گی۔۔۔۔ کہ مجھے مات ہوئی ۔۔۔۔
آؤ سوختہ جگر ۔۔۔۔۔ آؤ مرض عشق کے اسیرو۔۔۔۔ سنو ۔۔۔ جاں نثاری کے شدید جذبے میں پوشیدہ "جبر" کی دلکشی عین اس وقت بے نقاب ہوئی جب کشتیوں کی راکھ بھی ناجائز بچے کی مانند کوڑے کے ڈھیر پر پھینک دی گئی ۔۔۔۔
مجھے رشک آتا تھا پروانے کی قسمت پر کہ
کتنی مدت سے وہ اس دن کا منتظر رہتا ہے جب شمع کی لو اُسے جلائے گی ۔۔۔۔ عجیب کیفیت سے دوچار۔۔۔۔۔ ایک عجیب طمانیت کے ساتھ اپنے پروں کو جلتا دیکھے گا ۔۔۔۔طواف کرتے کرتے آخر کو جاں نچاور کر دیگا ۔۔۔۔ اور شمع اپنی مدھم ہوتی لو میں سب منظر دھندلا کر اسکی خاک کو بھی بے وقعت کردے گی کہ جلنا تو پروانے کا فرض تھا۔۔۔ اب اس میں کیسی قبولیت کیسا مان؟ ۔۔۔
اسطرح تو نہ داستاں گو کا قصہ ختم ہووے ہے نہ ہی شب کی درمیانی پہر کا کسیلا پن ۔۔۔۔۔
تم عروج ٹھہرے اور میں زوال ۔۔۔۔
میں "شاہ زادی" اپنا زوال قبول کرتی ہوں کہ اس کائنات کی کوئی شے تمہیں مطمئن نہ کرسکی سوائے میرے۔۔۔۔ مگر دیکھو مجھے مات ہوئی ۔۔۔
میں قبول کرتی ہوں کہ محبت کی بنیاد کی پختگی میں جو جذبوں کا گارا استعمال ہوا وہ میرے لیے تو تھا ہی نہیں مگر محبت کے محل کی عمارت کی پختگی دیکھو اس کو بڑے بڑے طوفاں بھی نہ ہلا سکے ۔۔۔۔ مگر مجھے مات ہوئی ۔۔۔
لو قبول کیا کہ محبت سے عشق کے کٹھن زینے کو چڑھنے کے لیے مجھے آنکھوں کے بل آنا پڑا ۔۔۔۔ اور جب میں نے آخری سیڑھی پر قدم رکھا تو عشق کی کرن تمہارے دل میں ابھری یعنی لمبی مسافت تک میں تنہا تھی؟ ۔۔۔۔ تم عروج ہو میرا زوال ہوا کہ ۔۔۔۔ مجھے مات ہوئی ۔۔۔۔
یہ محبت میری کوکھ سے پھوٹی تھی اسکو اپنی انا کی خاتمے کا اناج کھلا کر عشق میں نے بنایا آج تم اس کے سرپرست بننا چاہتے ہو ؟ ۔۔۔۔
جبکہ تمہیں تب تو محبت ہی نہ تھی جب تم بھی اسکی تخلیق کے مراحل میں میرے ساتھ کھڑے تھے ۔۔۔ وہ تو محض تمہارا گمان تھا وہ سایہ تھا ۔۔۔۔ میں تو تنہا تھی روتی بلکتی اجڑتی بکھرتی ۔۔۔۔ آج تم فاتح ٹھہرے ۔۔۔ اور ۔۔۔۔ مجھے مات ہوئی ۔۔۔
سنو ۔۔۔
تمہیں جیت دے کر میں نے مات قبول کی ۔۔۔۔۔ کہ یہ عشق میں تمہیں " اپنے ہوش و حواس میں سونپتی ہوں کہ تم تنہا اس کے سرپرست ٹھہرے "۔۔۔

جانتے ہو روشنی گدلے پانی سے نہیں چھنتی۔۔۔۔۔ وہ خود گدلی ہو جاتی ہے ۔۔۔۔ میں نے گھوڑے کی ڈھائی گھر کی چال چل کر ۔۔۔۔ تمہیں گدلا ہونے سے بچا لیا۔۔

از قلم فائضہ خان
لاجواب!!
 
《 مات 》

کھل جا سم سم۔۔۔۔۔ کھل جا سم سم ۔۔۔ کھل جا سم سم ۔۔۔ عمر بھر کے اصولوں کی چٹان کے سرکنے کی گڑگڑاہٹ سنائی دیتی گئی ۔۔۔۔ سوچ کے گھوڑوں کے ٹاپوں کی بازگشت اسقدر قریب سنائی دینے لگی گویا کنپٹیوں کی رگیں پھول کر پھٹ جائیں گی ۔۔۔۔ اس کے بعد مکمل خاموشی ۔۔۔۔۔ گہرا سکوت ۔۔۔۔۔ ایسا جمود کہ صبر نے بھی مرثیے پڑھ ڈالے کہ یہ ظلم ہے ظلم در ظلم ۔۔۔ کہ اس مغاک خاک کو مزید اذیت نہ دی جاوے ۔۔۔۔ میرے لب خاموش ہوچکے ہیں کہ گنجفہ کے چھیانوے پتوں کی چال چلی جاچکی کہ آٹھ رنگوں میں روز و شب یوں رنگا گیا کہ تین میں تقسیم ہوتی رہی ۔۔۔۔ تلخیِ ایام کو گھونٹ گھونٹ پی کر ہر بار یہی گمان رہا کہ مسافت ختم ہونے کو ہے پر ۔۔۔۔۔ اپنی اپنی حسرتوں کے جام تھامے۔۔۔۔ سبھی مےخوار دائرے میں پاسے پھینکتے گئے ۔۔۔
میں چھیانوے بار تمہاری ہار جیت میں تقسیم کردی گئی ۔۔۔ہر پتا تم بڑے مان سے پٹختے تھے اور میں اسی مان سے ہوا میں لہراتے ہوئے خود کو زمین کی سختی پر چور چور ہوتا محسوس کرتی رہی کہ وقت آخر جیت میری ہے۔۔۔۔
بس اب تو جیت میرا مقدر ہوئی تو اب ہوئی لیکن ۔۔۔۔ آخری حد پر بھی پاسے کے پلٹتے پلٹتے پھر تین میں بٹ گئی ۔۔۔۔
شطرنج کی کھلاڑی۔۔۔۔ کالے سفید رنگ میں دنیا کھوجنے والی۔۔۔۔ اپنی ذات میں بتیس مہروں جیسی میں "شاہ زادی" ۔۔۔۔ مجھے میرا شہ بچانا تھا ۔۔۔ اس شہ کو سبھی خانوں میں آزاد رکھ کر خود کالے خانوں میں مقید رہی کیونکہ مجھے جذب کرنا تھا ۔۔۔۔ کہ ۔۔۔
سفید رنگ سے سب رنگ پهوٹتے ہیں اور کالے رنگ میں سب جذب ہو جاتے ہیں۔۔۔۔ عشق سفید ہے ۔۔۔۔ عشق کالا ہے۔۔۔۔۔
یہی وعظ دیتے دیتے میرا گلا بیٹھ چکا ہے ۔۔مگر۔۔۔۔ میری ہمت کسی مرد مجاہد کی طرح چند لمحہ قبل تک جوان تھی کہ گنجفہ کے تیسرے شہ کو مات دیکر میں نے اپنا شہ بچا لیا۔۔۔۔پر ۔۔ مجھے مات ہوئی ۔۔۔۔ کہ عدم کی مٹی سے اپنا نصیب لکھوا بیٹھی ۔۔۔ اپنی بساط سے بڑھ کر تمہاری ہوتی گئی ۔۔۔۔ اب مجھ پر موت کی اذیت گراں نہ گزرے گی۔۔۔۔ کہ مجھے مات ہوئی ۔۔۔۔
آؤ سوختہ جگر ۔۔۔۔۔ آؤ مرض عشق کے اسیرو۔۔۔۔ سنو ۔۔۔ جاں نثاری کے شدید جذبے میں پوشیدہ "جبر" کی دلکشی عین اس وقت بے نقاب ہوئی جب کشتیوں کی راکھ بھی ناجائز بچے کی مانند کوڑے کے ڈھیر پر پھینک دی گئی ۔۔۔۔
مجھے رشک آتا تھا پروانے کی قسمت پر کہ
کتنی مدت سے وہ اس دن کا منتظر رہتا ہے جب شمع کی لو اُسے جلائے گی ۔۔۔۔ عجیب کیفیت سے دوچار۔۔۔۔۔ ایک عجیب طمانیت کے ساتھ اپنے پروں کو جلتا دیکھے گا ۔۔۔۔طواف کرتے کرتے آخر کو جاں نچاور کر دیگا ۔۔۔۔ اور شمع اپنی مدھم ہوتی لو میں سب منظر دھندلا کر اسکی خاک کو بھی بے وقعت کردے گی کہ جلنا تو پروانے کا فرض تھا۔۔۔ اب اس میں کیسی قبولیت کیسا مان؟ ۔۔۔
اسطرح تو نہ داستاں گو کا قصہ ختم ہووے ہے نہ ہی شب کی درمیانی پہر کا کسیلا پن ۔۔۔۔۔
تم عروج ٹھہرے اور میں زوال ۔۔۔۔
میں "شاہ زادی" اپنا زوال قبول کرتی ہوں کہ اس کائنات کی کوئی شے تمہیں مطمئن نہ کرسکی سوائے میرے۔۔۔۔ مگر دیکھو مجھے مات ہوئی ۔۔۔
میں قبول کرتی ہوں کہ محبت کی بنیاد کی پختگی میں جو جذبوں کا گارا استعمال ہوا وہ میرے لیے تو تھا ہی نہیں مگر محبت کے محل کی عمارت کی پختگی دیکھو اس کو بڑے بڑے طوفاں بھی نہ ہلا سکے ۔۔۔۔ مگر مجھے مات ہوئی ۔۔۔
لو قبول کیا کہ محبت سے عشق کے کٹھن زینے کو چڑھنے کے لیے مجھے آنکھوں کے بل آنا پڑا ۔۔۔۔ اور جب میں نے آخری سیڑھی پر قدم رکھا تو عشق کی کرن تمہارے دل میں ابھری یعنی لمبی مسافت تک میں تنہا تھی؟ ۔۔۔۔ تم عروج ہو میرا زوال ہوا کہ ۔۔۔۔ مجھے مات ہوئی ۔۔۔۔
یہ محبت میری کوکھ سے پھوٹی تھی اسکو اپنی انا کی خاتمے کا اناج کھلا کر عشق میں نے بنایا آج تم اس کے سرپرست بننا چاہتے ہو ؟ ۔۔۔۔
جبکہ تمہیں تب تو محبت ہی نہ تھی جب تم بھی اسکی تخلیق کے مراحل میں میرے ساتھ کھڑے تھے ۔۔۔ وہ تو محض تمہارا گمان تھا وہ سایہ تھا ۔۔۔۔ میں تو تنہا تھی روتی بلکتی اجڑتی بکھرتی ۔۔۔۔ آج تم فاتح ٹھہرے ۔۔۔ اور ۔۔۔۔ مجھے مات ہوئی ۔۔۔
سنو ۔۔۔
تمہیں جیت دے کر میں نے مات قبول کی ۔۔۔۔۔ کہ یہ عشق میں تمہیں " اپنے ہوش و حواس میں سونپتی ہوں کہ تم تنہا اس کے سرپرست ٹھہرے "۔۔۔

جانتے ہو روشنی گدلے پانی سے نہیں چھنتی۔۔۔۔۔ وہ خود گدلی ہو جاتی ہے ۔۔۔۔ میں نے گھوڑے کی ڈھائی گھر کی چال چل کر ۔۔۔۔ تمہیں گدلا ہونے سے بچا لیا۔۔

از قلم فائضہ خان
زبردست، بہت گہرائی ہے موضوعاتی بھی اور ٹریٹمنٹ میں بھی
 
السلام علیکم تمام دوست احباب خیریت سے ہیں۔۔۔ مجھ مبتدی کو کچھ ماہ پہلے استاد محترم الف عین کی طرف سے مدعو کیا گیا تھا۔۔۔ میں دو غزلیں اشاعت کے لئے دینا چاہتا ہوں۔۔۔ امید کرتا ہوں معیار پر پوری اتریں گی۔۔۔
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top