سیاسی بیانات پر فوج میں ہر سطح پر سخت غم وغصہ پایا جاتا ہے، ترجمان پاک فوج

جاسم محمد

محفلین
سیاسی بیانات پر فوج میں ہر سطح پر سخت غم وغصہ پایا جاتا ہے، ترجمان پاک فوج
ویب ڈیسک جمعرات 29 اکتوبر 2020

2099178-dgispriftikharbabar-1603971093-354-640x480.jpg

پلوامہ واقعے کے بعد بھارت کو منہ کی کھانی پڑی، ڈی جی آئی ایس پی آر۔ فوٹو:فائل


راولپنڈی: ترجمان پاک فوج بابر افتخار کا کہنا ہے کہ سیاسی بیانات پر فوج میں ہر سطح پر سخت غم وغصہ پایا جاتا ہے جب کہ کل ایسا بیان دیا گیا جس میں قومی سلامتی کی تاریخ مسخ کرنے کی کوشش کی گئی۔

راولپنڈی میں پریس کانفرنس کے دوران ترجمان پاک فوج میجر جنرل بابر افتخار کا کہنا تھا کہ آج کی پریس کانفرنس کا ایک نکاتی ایجنڈا ہے اور ریکارڈکی درستگی کے لیے بات کرنا چاہتا ہوں، پلوامہ واقعے کے بعد بھارت کو منہ کی کھانی پڑی، دشمن کے جہاز جو بارود پاکستان کے عوام پر گرانے آئے تھے۔

ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ ہمارے شاہینوں کو دیکھتے ہی بد حواسی میں خالی پہاڑوں پر پھینک کر بھاگ گئے، اس کے جواب میں افواجِ پاکستان نے قوم کے عزم و حمیت کے عین مطابق دشمن کو سبق سیکھانے کا فیصلہ کیا، اس فیصلے میں پاکستان کی تمام سول ملٹری قیادت یکجا تھی، دشمن اتنا خوفزدہ ہوا کہ بد حواسی میں اپنے ہی ہیلی کاپٹر اور جوانوں کو مار گرایا، اِس کامیابی سے نہ صرف ہندوستان کی کھوکھلی قوت کی قلعی دنیا کے سامنے کھلی بلکہ پوری پاکستان قوم کا سر فخر سے بْلند ہوا اور مسلح افواج سرخرو ہوئیں۔

ابھی نندن کی رہائی کے فیصلے کو پوری دنیا نے سراہا؛

ترجمان پاک فوج نے کہا کہ پاکستان نے اعلانیہ دن کی روشنی میں بھارت کو جواب دیا، پاک فوج نے 2 بھارتی طیارے مار گرائے اور پائلٹ ابھی نندن کو گرفتار کیا، حکومت پاکستان نے ذمہ دار ریاست ہوتے ہوئے امن کو ایک اور موقع دیا، ابھی نندن کو جنیوا کنونشن کے تحت رہا کرنے کا فیصلہ کیا گیا اور اس فیصلے کو پوری دنیا نے سراہا۔

ابھی نندن کی رہائی کو کسی اور چیز سے جوڑنا افسوسناک ہے؛

ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ ابھی نندن کی رہائی کو کسی اور چیز سے جوڑنا افسوسناک ہے، یہ چیز کسی بھی پاکستانی کیلئے قابل قبول نہیں، کل ایسا بیان دیا گیا جس میں قومی سلامتی کی تاریخ مسخ کرنے کی کوشش کی گئی، ایسے منفی بیانیے کے قومی سلامتی پر براہ راست اثرات ہوتے ہیں، یہ بیانیہ بھارت کی ہزیمت کو کم کرنے کے لئے استعمال کیا جارہا ہے، جس کا دشمن بھرپور فائدہ اٹھا رہاہے اور اس کی جھلک آج بھارتی میڈیا پر دیکھی جا سکتی ہے، ان حالات میں جب دشمن قوتیں پاکستان پر ہائبرڈ وار مسلط کر چکی ہیں۔

پاکستان کے خلاف کسی بھی جارحیت کا بھرپور جواب دیا جائے گا؛

ترجمان پاک فوج کا کہنا تھا کہ ہم سب کو ذمہ داری سے آگے بڑھنا ہوگا، قوم کی مدد سے پاکستان کے خلاف ہر سازش کو ناکام بنائیں گے، افواج پاکستان خطے کی سیکیورٹی صورتحال پر مکمل نظر رکھے ہوئے ہیں اور تمام چیلنجز کا مقابلہ کرنے کے لئے تیار ہیں جب کہ پاکستان کے خلاف کسی بھی جارحیت کا بھرپور جواب دیا جائے گا۔

جب کسی ادارے کے سربراہ کو نشانہ بنایا جاتا ہے تو اس کا مطلب پوری فوج کو نشانہ بناناہے؛

ڈی جی آئی ایس پی آر نے صحافیوں سے گفتگو میں کہا کہ فوج میں ہر سطح پر سیاسی بیانات پر سخت غم وغصہ پایا جاتا ہے، ادارے کا سربراہ اور تمام رینکس ایک ہی چیز ہے، جب کسی ادارے کے سربراہ کو نشانہ بنایا جاتا ہے تو اس کا مطلب پوری فوج کو نشانہ بناناہے۔

سابق گورنر محمد زبیر کا دعویٰ غلط ہے؛

ترجمان پاک فوج نے محمد زبیر کے بیان پر کہا کہ سچ صرف ایک مرتبہ بولا جاتا ہے، سچ بار بار نہیں بولاجاتا اور جو ہم نے بولا ہے وہ آن ریکارڈ ہے، سابق گورنر محمد زبیر کا دعویٰ غلط ہے، آدھا سچ نہیں بطور ترجمان پاک فوج پورا سچ بتایا ہے۔
 

جاسم محمد

محفلین
فوج کے حالیہ سربراہ کو لگانے والا اور ایکسٹینشن دینے والا خود جمہوری انقلابی تین بار کا وزیر اعظم ہے۔ یہ جتنی بار جنرل باجوہ کے خلاف بولتا ہے ہر بار اپنے ہی کئے گئے جمہوری انقلابی فیصلوں پر لعنت بھیجتا ہے۔
 
فوج کے حالیہ سربراہ کو لگانے والا اور ایکسٹینشن دینے والا خود جمہوری انقلابی تین بار کا وزیر اعظم ہے۔ یہ جتنی بار جنرل باجوہ کے خلاف بولتا ہے ہر بار اپنے ہی کئے گئے جمہوری انقلابی فیصلوں پر لعنت بھیجتا ہے۔
اس تین بار کے وزیرِ اعظم نے چھ سات جنرلوں کو گھر بھیجا، آٹھویں نے اسے گھر بھیج دیا۔ طاقت کے فیصلوں پر کمزور کو الزام دینا اور لاڈلے کی تعریف ہی آپ کی سیاست ہے۔
 

سیما علی

لائبریرین
d4HQKDf_d.jpg
فوج کے حالیہ سربراہ کو لگانے والا اور ایکسٹینشن دینے والا خود جمہوری انقلابی تین بار کا وزیر اعظم ہے۔ یہ جتنی بار جنرل باجوہ کے خلاف بولتا ہے ہر بار اپنے ہی کئے گئے جمہوری انقلابی فیصلوں پر لعنت بھیجتا ہے۔
تمام مخالفت کے باوجود کسی کو حق نہیں کہ وہ دشمن کو خوش ہونے کا موقع دے۔
 

جاسم محمد

محفلین
اس تین بار کے وزیرِ اعظم نے چھ سات جنرلوں کو گھر بھیجا، آٹھویں نے اسے گھر بھیج دیا۔
اس کا بس چلتا تو پوری فوج کو اپنی ذاتی پنجاب پولیس میں تبدیل کر دیتا۔ ملک کے ہر ادارہ اور محکمہ میں شریف خاندان کے وفادار بٹھانے کے بعد فوج کو بھی اسی روش پر چلانا چاہتا تھا مگر جرنیلوں نے اس بھگوڑے کی یہ سازش ناکام بنا دی۔
 
اس کا بس چلتا تو پوری فوج کو اپنی ذاتی پنجاب پولیس میں تبدیل کر دیتا۔ ملک کے ہر ادارہ اور محکمہ میں شریف خاندان کے وفادار بٹھانے کے بعد فوج کو بھی اسی روش پر چلانا چاہتا تھا مگر جرنیلوں نے اس بھگوڑے کی یہ سازش ناکام بنا دی۔
کوئی انہیں بتادے کہ ’’منتخب وزیرِ اعظم‘‘ کو اپنی اسمبلی سے ووٹ ملتا ہے۔ ہر وہ کام جسے وہ درست سمجھے کرتا ہے۔
 

جاسم محمد

محفلین
d4HQKDf_d.jpg

تمام مخالفت کے باوجود کسی کو حق نہیں کہ وہ دشمن کو خوش ہونے کا موقع دے۔
اپوزیشن خصوصا ن لیگ ریاست سے کرپشن کیسز میں این آر او لینے کیلئے کسی حد تک بھی جا سکتی ہے۔ الحمدللّٰہ اب ان کا مقابلہ جنرل مشرف سے نہیں بلکہ جنرل باجوہ اور وزیر اعظم عمران خان سے ہے۔ جنہوں نے تہیہ کر لیا ہے کہ دنیا ادھر سے ادھر ہو جائے۔ ان قومی چوروں کو اب مزید کوئی این آر او نہیں ملے گا۔
 

جاسم محمد

محفلین
کوئی انہیں بتادے کہ ’’منتخب وزیرِ اعظم‘‘ کو اپنی اسمبلی سے ووٹ ملتا ہے۔ ہر وہ کام جسے وہ درست سمجھے کرتا ہے۔
جمہوریت میں وزیر اعظم پر بھی چیکس اینڈ بیلنس ہوتے ہیں۔ اگر وزیر اعظم اقتدار میں آکر دشمن ملک کے سربراہ کو بغیر ویزہ گھر شادیوں پر بلا رہا ہے، اپنے ہی ملک کی فوج اور ایجنسیوں سے چھپ کر اس سے خفیہ ملاقاتیں کر رہا ہے، اپنے اقتدار کو ذاتی بزنس بڑھانے کیلئے استعمال کر رہا ہے تو ایسے میں اس کا احتساب کرنا ریاست پر لازم ہے۔
 

جاسم محمد

محفلین
نہ جنرل صاحب کو سیاست کرنے کا حق ہے اور نہ ہی سیلیکٹڈ کو!
بالکل۔ سیاست کرنے کا حق صرف شدید بیماریوں کا بہانہ بنا کر ملک سے بھاگنے والوں کو ہے۔ یا ان اپوزیشن جماعتوں کا ہے جن کے لیڈران پر کرپشن مقدمات ہیں اور وہ ان کا عدالتوں میں سامنا کرنے کی بجائے جلسوں میں فوج اور ایجسنیوں پر حملے کر رہے ہیں۔
 
جمہوریت میں وزیر اعظم پر بھی چیکس اینڈ بیلنس ہوتے ہیں۔ اگر وزیر اعظم اقتدار میں آکر دشمن ملک کے سربراہ کو بغیر ویزہ گھر شادیوں پر بلا رہا ہے، اپنے ہی ملک کی فوج اور ایجنسیوں سے چھپ کر اس سے خفیہ ملاقاتیں کر رہا ہے، اپنے اقتدار کو ذاتی بزنس بڑھانے کیلئے استعمال کر رہا ہے تو ایسے میں اس کا احتساب کرنا ریاست پر لازم ہے۔
ریاست اور حکمرانی منتخب نمائیندوں کا کام ہے۔ فوج اور سیلیکٹڈ کا نہیں ہے۔
 
جمہوریت میں وزیر اعظم پر بھی چیکس اینڈ بیلنس ہوتے ہیں۔ اگر وزیر اعظم اقتدار میں آکر دشمن ملک کے سربراہ کو بغیر ویزہ گھر شادیوں پر بلا رہا ہے، اپنے ہی ملک کی فوج اور ایجنسیوں سے چھپ کر اس سے خفیہ ملاقاتیں کر رہا ہے، اپنے اقتدار کو ذاتی بزنس بڑھانے کیلئے استعمال کر رہا ہے تو ایسے میں اس کا احتساب کرنا ریاست پر لازم ہے۔
جس ملک میں رہ رہے ہیں وہیں سے جمہوریت سیکھ لیں۔ پاکستانی موجودہ ماڈل جمہوریت ہرگز نہیں۔
 

جاسم محمد

محفلین
ریاست اور حکمرانی منتخب نمائیندوں کا کام ہے۔ فوج اور سیلیکٹڈ کا نہیں ہے۔
بھٹو، نواز شریف، عمران خان وغیرہ سب سلیکٹڈ ہیں اور ایک عرصہ دراز سے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ مل کر پاکستان پر حکمرانی کرتے چلے آئے ہیں۔ اس فرسودہ نظام کو وہی لوگ بدل سکتے ہیں جو ماضی و حال میں سلیکٹڈ نہ رہے ہوں۔
 

جاسم محمد

محفلین
جس ملک میں رہ رہے ہیں وہیں سے جمہوریت سیکھ لیں۔ پاکستانی موجودہ ماڈل جمہوریت ہرگز نہیں۔
عین جمہوری ممالک میں بھی سربراہان عدالت سے جرم ثابت ہونے پر سزا پاتے ہیں۔ پاکستان انوکھا ملک ہے جہاں عدالت سے سزا پانے والے جمہوری لیڈران سیاسی شہید بن جاتے ہیں:

جنوبی کوریا
South Korean ex-president Lee ordered back to prison for 17 years
بنگلہ دیش
Khaleda Zia jailed for five years in corruption case
اسرائیل
Israeli court convicts ex-PM Olmert in bribery case - Alghad
ملائشیا
Former Malaysian prime minister jailed in connection with looting of multibillion dollar state fund

کیا ان جمہوری ممالک میں بھی بد عنوانی کرنے والے عین جمہوری و انقلابی لیڈران کو ان کی اسٹیبلشمنٹ جیل میں سیاسی انتقام کیلئے ڈلواتی ہے؟ یا واقعتا وہ عدالت سے جرم ثابت ہو جانے کے بعد عام شہریوں کی طرح جیل جاتے ہیں اور پھر مجھے کیوں نکالا یا بیماریوں کا ڈرامہ کر کے ملک سے فرار نہیں ہوتے۔
 

جاسم محمد

محفلین
کوئی انہیں بتادے کہ ’’منتخب وزیرِ اعظم‘‘ کو اپنی اسمبلی سے ووٹ ملتا ہے۔ ہر وہ کام جسے وہ درست سمجھے کرتا ہے۔
یعنی نواز شریف اگر ڈالر کو مصنوعی طور پر ۴ سال لگاتار روک کے رکھنے کو اچھا سمجھتا ہے تو اسے یہ کام کرنے کی کھلی اجازت ہونی چاہئے۔ بیشک یہ پالیسی ماہرین معیشت کے مطابق ملکی معیشت کے لئے سخت نقصان دہ ہے۔
ایکسچینج ریٹ، آخر کہانی کیا ہے

عام لوگ جو اس غلط معاشی پالیسی کی وجہ سے بہت خوش تھے اور پس پردہ پورا پاکستان قرضوں اور خساروں میں ڈوب رہا تھا۔ اس کا احتساب کس نے کرنا تھا؟ اگر یہ عام عوام پر چھوڑا جاتا تو انہوں نے نواز شریف کی اس جعلی معاشی شرح نمو کو حقیقی سمجھ کر دوبارہ اقتدار دے دینا تھا جس کے بعد بیشک ملک کا دیوالیہ نکل جاتا۔ جس کے نتیجہ میں ڈالر یکدم ۱۰۰ روپے سے چھلانگ لگا کر ۲۰۰ روپے یا شاید اس سے بھی زیادہ کا ہو جاتا۔ تب عوام نے جاگنا تھا جب عارضی معاشی ریلیف نے مستقل عذاب کا روپ دھارنا تھا۔ جیسا کہ دیوالیہ ہونے کے بعد ارجنٹائن اور لبنان وغیرہ کی کرنسیوں کا حال ہوا ہے۔ وہی کچھ پاکستانی روپے کے ساتھ ہونا تھا۔
اس وقت پاکستانی روپے کی افراط زر ۱۰ فیصد سے کم ہے تو قوم کی چیخیں نکل رہی ہیں۔ ذرا سوچیں جب نواز شریف کی سویلین بالادست معاشی پالیسیوں کے تحت ملک کا دیوالیہ نکلنے کے بعد یہی افراط زر ۵۰ فیصد سے زائد ہوتی تو پھر قوم کا پیٹ کونسی انقلابی بالادستی نے پالنا تھا؟

 

جاسم محمد

محفلین
اب سوال یہ ہے کہ اس کا الٹ بھی درست ہے کہ نہیں؟ جب ادارے کا سربراہ کوئی غیر قانونی کام کرتا ہے تو پوری فوج مجرم ہوتی ہے؟ :unsure:
مغربی عسکری قانون میں تو یہ واضح ہے کہ اگر فوجیوں کو افسران غیر قانونی آرڈر دیں تو ان پر لازم ہے کہ وہ اُس کو نہ مانیں۔ کیونکہ بعد میں دوران مقدمہ وہ یہ کہہ کر بری از زمہ نہیں ہو سکتے کہ وہ صرف اپنے سینئرز کا حکم مان رہے تھے۔
Are "Superior Orders" a Legitimate Defense? | AHA
 
اب سوال یہ ہے کہ اس کا الٹ بھی درست ہے کہ نہیں؟ جب ادارے کا سربراہ کوئی غیر قانونی کام کرتا ہے تو پوری فوج مجرم ہوتی ہے؟ :unsure:
سوال تو بنتا ہے!!

سیدھا سادہ اصول ہے کہ سر براہ کی بونگیوں پر پورے ادارے کو مجرم نہیں ٹھہرایا جاسکتا، لہٰذا سربراہ کی غلطیوں کی نشاندگی کو ادارے پر الزام نہیں گردان سکتے۔ ایوب خان، ضیا الحق، اور پرویز مشرف نے آئین کو توڑا اور پامال کیا، پاک فوج نے نہیں۔ پاک فوج نے ملک کے لیے عظیم قربانیاں دی ہیں۔
 
آخری تدوین:
سوال تو بنتا ہے!!

سیدھا سادہ اصول ہے کہ سر براہ کی بونگیوں پر پورے ادارے کو مجرم نہیں ٹھہرایا جاسکتا، لہٰذا سربراہ کی غلطیوں کی نشاندگی کو ادارے پر الزام نہیں گردان سکتے۔ ایوب خان، ضیا الحق، اور پرویز مشرف نے آئین کو توڑا اور پامال کیا، پاک فوج نے نہیں۔ پاک فوج نے ملک کے لیے عظیم قربانیاں دی ہیں۔
مزید یہ کہ فوج بحیثیت ادارہ سربراہ کے غلط فیصلے پر سربراہ کے شانہ بشانہ نہیں کھڑی ہوسکتی۔
 
Top