یہ سیاسی فرقہ واریت کے مظاہر ہیں جو آج واضح نظر آ رہے ہیں اس فرقہ واریت کا آغازابتدا میں عمران خان یا ان کے نادان دوستوں یا عمران خان سے اپنے مفادات حاصل کرنے والی فارن فنڈڈ لابی نے ہی کیا تھا۔یہ کیسی سیاسی تہذیب ہے ؟الامان والحفیظ!!
یہ تو بالکل ’’جن سنگھ‘‘ اور ’’آر ایس ایس‘‘ کا کلچر ہے!!! کم از کم کسی مسلمان سے ایسی توقع تو نہیں کی جاسکتی!! سیاسی چپقلش تو ایسی نہیں ہونی چاہیے۔ افسوس!!!
فرحت عباس شاہ لکھتے ہیں:
ایک وقت تھا جب دنیا میں لیفٹ اور رائیٹ کے دو دھڑے تھے جو آپس میں نظریات کی جنگ جاری رکھے ہوے تھے ۔ وہ مطالعہ کرتے , مباحث کرتے ,اپنے اپنے حق میں اور ایک دوسرے کے خلاف دلیلیں پیش کرتے ۔
پھر کیپیٹلسٹوں نے ان دونوں کے خلاف چال چلی , پیسہ لگایا
رائٹ کو مذہب کے نام پر استعمال کرکے جہاد پر لگایا اور لیفٹ کی جگہ کرائے کے لبرلز لائے گئے ۔
این جی اوز کے ذریعے لیفٹ کو اور ایجنسیوں کے زریعیے رائٹ کے ایکٹیوسٹوں کو کراے پر لیا گیا۔
یوں مطالعہ، مباحث اور استدلال کی جگہ بلاوں کی پرورش کی گئی اور اب سوائے مجرمانہ کیپیٹلزم کے مسلسل ظلم اور استبداد کے کچھ نہیں رہ گیا۔
متفقفرحت عباس شاہ لکھتے ہیں:
ایک وقت تھا جب دنیا میں لیفٹ اور رائیٹ کے دو دھڑے تھے جو آپس میں نظریات کی جنگ جاری رکھے ہوے تھے ۔ وہ مطالعہ کرتے , مباحث کرتے ,اپنے اپنے حق میں اور ایک دوسرے کے خلاف دلیلیں پیش کرتے ۔
پھر کیپیٹلسٹوں نے ان دونوں کے خلاف چال چلی , پیسہ لگایا
رائٹ کو مذہب کے نام پر استعمال کرکے جہاد پر لگایا اور لیفٹ کی جگہ کرائے کے لبرلز لائے گئے ۔
این جی اوز کے ذریعے لیفٹ کو اور ایجنسیوں کے زریعیے رائٹ کے ایکٹیوسٹوں کو کراے پر لیا گیا۔
یوں مطالعہ، مباحث اور استدلال کی جگہ بلاوں کی پرورش کی گئی اور اب سوائے مجرمانہ کیپیٹلزم کے مسلسل ظلم اور استبداد کے کچھ نہیں رہ گیا۔
سب سے پہلے نیم کالنگ پروپگنڈا ٹیکنیک کا استعمال پی ٹی آئی سوشل میڈیا ونگ نے کیا اور انہوں نے مخالفین کو پٹواری ، فضلو ، فضلانڈو ، ڈیزل کا نام دیا اور ان میں سب سے نیچ کردار بابا کوڈا نامی گروپ کا تھا جن کی ہر پوسٹ میں مخالفین کو کھوتی کے پتر سے مخاطب کیا جاتا تھا۔ اس کے جواب میں یہودی ایجنٹ ، یو ٹرن ، یوتھیا ، پنکی پیرنی جیسی اصطلاحات متعارف کروائی گئی۔اس کے بعد پاکستان میں عمران خان نے اینڑی دی جنہوں نے فارن فنڈنگ لابی کی مدد سے پاکستان میں سوشل میڈیا بکواسیات و ٹرولنگ کی مدد سے مخالفین کی کردار کشی کی جس کا ردعمل میں دوسری جماعتوں نے بھی سوشل میڈیا ٹرولنگ پر انویسٹمنٹ کی اور ایک انتہا پسندی کے رد عمل میں ایک اور انتہا پسندی نے جنم لیا اور آج پاکستان میں سیاسی فرقہ واریت عروج پر ہے۔
یہ سیاسی فرقہ واریت کے مظاہر ہیں جو آج واضح نظر آ رہے ہیں اس فرقہ واریت کا آغازابتدا میں عمران خان یا ان کے نادان دوستوں یا عمران خان سے اپنے مفادات حاصل کرنے والی فارن فنڈڈ لابی نے ہی کیا تھا۔
اس سے قبل سیاست میں رواداری کا کلچر کا رواج تھا اور مخالف سیاست دان سے نکتہ نظر کا اختلاف ، تنگ نظر مخالفت میں تبدیل نہیں ہوا تھا۔
اس کے بعد پاکستان میں عمران خان نے اینڑی دی جنہوں نے فارن فنڈنگ لابی کی مدد سے پاکستان میں سوشل میڈیا بکواسیات و ٹرولنگ کی مدد سے مخالفین کی کردار کشی کی جس کا ردعمل میں دوسری جماعتوں نے بھی سوشل میڈیا ٹرولنگ پر انویسٹمنٹ کی اور ایک انتہا پسندی کے رد عمل میں ایک اور انتہا پسندی نے جنم لیا اور آج پاکستان میں سیاسی فرقہ واریت عروج پر ہے۔
سب سے پہلے نیم کالنگ پروپگنڈا ٹیکنیک کا استعمال پی ٹی آئی سوشل میڈیا ونگ نے کیا اور انہوں نے مخالفین کو پٹواری ، فضلو ، فضلانڈو ، ڈیزل کا نام دیا اور ان میں سب سے نیچ کردار بابا کوڈا نامی گروپ کا تھا جن کی ہر پوسٹ میں مخالفین کو کھوتی کے پتر سے مخاطب کیا جاتا تھا۔ اس کے جواب میں یہودی ایجنٹ ، یو ٹرن ، یوتھیا ، پنکی پیرنی جیسی اصطلاحات متعارف کروائی گئی۔
غلام دستگیر خان نے جب ایک کتیا کے گلے میں لال ٹین ڈال کر اسے مادر ملت فاطمہ جناح سے تشبیہ دی اس وقت عمران خان ایک کم سن بچہ تھا۔
اور ہاں، واحد کپتان ہے جس کی زبانِ مُبارک سے پُھول جھڑتے ہیں۔غلام دستگیر خان نے جب ایک کتیا کے گلے میں لال ٹین ڈال کر اسے مادر ملت فاطمہ جناح سے تشبیہ دی اس وقت عمران خان ایک کم سن بچہ تھا۔
بھٹو نے جب بھرے جلسہ میں بنگالیوں کو سور کے بچے کہا اس وقت عمران خان لندن میں زیر تعلیم تھا۔
نواز شریف نے جب بینظیر کی ایڈیٹ شدہ برہنہ تصاویر ہیلی کاپٹر سے گرائیں اس وقت عمران خان کرکٹر تھا۔
مولانا فضل الرحمان کو جب پہلی بار کسی سیاست دان نے ڈیزل کہا، اس وقت عمران خان شوکت خانم کینسر ہسپتال تعمیر کر رہا تھا۔
نواز شریف نے جب بھرے جلسے میں بینظیر کو ٹیکسی، آوارہ عورت، انگریز کے کتے نہلانے والی کہا، اس وقت عمران خان اپنی زندگی کا پہلا الیکشن لڑ رہا تھا۔
بعض پاکستانی بغض عمران میں اس ڈھٹائی سے جھوٹ بول کر اس پر یقین کر لیتے ہیں کہ بندہ حیران رہ جاتا ہے۔