سیاسی منظر نامہ

یہاں بھی بہت سی پارٹیاں ہوتی ہیں۔ تاہم مباحثے میں شرکت کے لئے شرائط ہوتی ہیں کہ سروے میں پارٹی کی کسی مخصوص عدد تک مقبولیت ہو ، پارلیمنٹ میں کوئی نشست ہو۔۔ وغیرہ۔ ایسی کچھ شرائط ہوں تو مباحثے کا انتظام کچھ مشکل نہیں۔
یہاں اسمبلیز ٹوٹ چکی ہوتی ہیں، اس لیے عددی حیثیت باقی نہیں رہتی۔
اور ہو سکتا ہے کہ سابقہ اسمبلی کی جو عددی حیثیت ہو، وہ لوٹا بن کر اس الیکشن میں دوسری یا تیسری طرف پہنچ چکی ہو۔
 

زیک

مسافر
ہونا تو چاہئے، پر ہو گا نہیں۔

ایک دفعہ پہلے آپ کے ایک کمنٹ پر یہ جواب دیا تھا کہ آپ کافی زیادہ میچورٹی کی توقع رکھ رہے ہیں۔ :)
اسے ازراہِ تفنن سے زیادہ سنجیدہ جواب ہی سمجھا جائے۔ :)
تقدیر کسے کہتے ہیں پاکستانیوں سے ہی سیکھا
 

زیک

مسافر
یہاں اسمبلیز ٹوٹ چکی ہوتی ہیں، اس لیے عددی حیثیت باقی نہیں رہتی۔
اور ہو سکتا ہے کہ سابقہ اسمبلی کی جو عددی حیثیت ہو، وہ لوٹا بن کر اس الیکشن میں دوسری یا تیسری طرف پہنچ چکی ہو۔
تمام پارلیمانی سسٹمز میں یہی ہوتا ہے
 

عثمان

محفلین
یہاں اسمبلیز ٹوٹ چکی ہوتی ہیں، اس لیے عددی حیثیت باقی نہیں رہتی۔
اور ہو سکتا ہے کہ سابقہ اسمبلی کی جو عددی حیثیت ہو، وہ لوٹا بن کر اس الیکشن میں دوسری یا تیسری طرف پہنچ چکی ہو۔
اسمبلی کی معیاد پوری ہونے تک جس پارٹی کی جتنی نشستیں ہیں وہی عدد کافی ہے۔
 

فرقان احمد

محفلین
2002ء کے عام انتخابات میں عوامی دلچسپی نہ ہونے کے برابر تھی۔ 2008ء میں کسی حد تک ہلچل تھی۔ 2013ء میں خوب ہنگامہ ہوا۔ 2018ء میں بے رونقی اور عدم دلچسپی کا رنگ غالب ہے۔ امر واقعہ یہ ہے کہ جب عام انتخابات میں تمام پارٹیوں کو لیول پلیئنگ فیلڈ نہیں دی جاتی تو یہ صورت حال عام دیکھنے کو ملتی ہے۔ اے این پی، ایم کیو ایم اور کسی حد تک مسلم لیگ نون کا گلا گھونٹ دیا گیا ہے۔ اس صورت حال میں عوام یہ تصور کر لیتے ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ اپنے من پسند نتائج حاصل کرنے کے لیے کسی حد تک بھی جائے گی اس لیے عوام کی اکثریت چپ سادھ لیتی ہے ؛ یہ ہمارے ہاں عام رویہ ہے۔ تاہم، جب گرد ذرا بیٹھے گی تو آنے والی حکومت کو شدید نوعیت کی مزاحمت کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اسٹیبلشمنٹ موقع محل دیکھ کر نئی حکومت کی سرپرستی ترک کے اپوزیشن کے سر پر دستِ شفقت بھی رکھ سکتی ہے۔ یوں کھیل جاری رہے گا اور ہم دائرہ یا دائروں کا سفر کمال مہارت سے طے کرتے چلے جائیں گے۔ فی الحال اس سے باہر نکلنے کا کوئی سین آن نہیں ہے۔
 
اسمبلی کی معیاد پوری ہونے تک جس پارٹی کی جتنی نشستیں ہیں وہی عدد کافی ہے۔
درست۔
مگر اثر پذیر کیسے بنایا جائے؟
لوگ نیوٹرل ہو کر کمپین نہیں دیکھ رہے ہوتے، ووٹر جانتے بوجھتے اپنی پسند کی پارٹی کے جھوٹ پر نہ صرف آنکھیں بند کر رہا ہوتا ہے، بلکہ اسے ہی پھیلا بھی رہا ہوتا ہے۔ دوسرے کی اچھائیوں کو بھی جانتے بوجھتے نظر انداز کر رہا ہوتا ہے۔
ایسے میں یہ مباحث بھی سوائے "انٹرٹینمنٹ" میں اضافہ کے، کیا فرق ڈال سکیں گے؟
 

زیک

مسافر
درست۔
مگر اثر پذیر کیسے بنایا جائے؟
لوگ نیوٹرل ہو کر کمپین نہیں دیکھ رہے ہوتے، ووٹر جانتے بوجھتے اپنی پسند کی پارٹی کے جھوٹ پر نہ صرف آنکھیں بند کر رہا ہوتا ہے، بلکہ اسے ہی پھیلا بھی رہا ہوتا ہے۔ دوسرے کی اچھائیوں کو بھی جانتے بوجھتے نظر انداز کر رہا ہوتا ہے۔
ایسے میں یہ مباحث بھی سوائے "انٹرٹینمنٹ" میں اضافہ کے، کیا فرق ڈال سکیں گے؟
کیا آپ کے خیال میں ایسا باقی دنیا میں نہیں ہوتا؟
 

عثمان

محفلین
درست۔
مگر اثر پذیر کیسے بنایا جائے؟
لوگ نیوٹرل ہو کر کمپین نہیں دیکھ رہے ہوتے، ووٹر جانتے بوجھتے اپنی پسند کی پارٹی کے جھوٹ پر نہ صرف آنکھیں بند کر رہا ہوتا ہے، بلکہ اسے ہی پھیلا بھی رہا ہوتا ہے۔ دوسرے کی اچھائیوں کو بھی جانتے بوجھتے نظر انداز کر رہا ہوتا ہے۔
ایسے میں یہ مباحث بھی سوائے "انٹرٹینمنٹ" میں اضافہ کے، کیا فرق ڈال سکیں گے؟
ایسے رویے تمام دنیا میں پائے جاتے ہیں۔ ایسے لوگ عام ملیں گے جو پہلے سے طے شدہ نظریات اور مسائل کی بنیاد پر سیاسی رائے قائم کرتے ہیں۔ ایسے بھی عام ہیں جو حالات اور استدلال کو دیکھ کر رائے بدلتے ہیں۔ دنیا کے مختلف خطوں کے انسان اپنے رویوں میں کوئی بہت زیادہ مختلف نہیں ہوتے۔ ہاں بہتر روایات کا تسلسل قائم ہونے میں وقت لگتا ہے۔
اگر پاکستان میں بھی نمایاں لوگوں کے مابین مباحثہ ہوتا ہے۔ منظم طریقے سے پالیسی سے متعلق سوالات ان کے سامنے رکھے جاتے ہیں تو شرکائے گفتگو موضوع سے صرف نظر نہیں کر پائیں گے۔ پورا وقت نہ سہی لیکن مباحثے کا کچھ نا کچھ حصہ اہم ہوگا۔مباحثے کے صدر، شرکائے گفتگو اور ناظرین سب کے لئے ایک نیا تجربہ ہوگا۔ لوگوں کی سوچ کو چیلنج کیا جائے تو اس کا نتیجہ نکلتا ہے بھلے آپ کی توقعات کے مطابق نہ نکلے۔ یہ عمل جاری رہے تو رفتہ رفتہ کافی تبدیلی آ جاتی ہے۔
 
تبھی تو ہم کہتے ہیں کہ "ووٹ کو عزت دو" - وغیرہ وغیرہ

ایسے رویے تمام دنیا میں پائے جاتے ہیں۔ ایسے لوگ عام ملیں گے جو پہلے سے طے شدہ نظریات اور مسائل کی بنیاد پر سیاسی رائے قائم کرتے ہیں۔ ایسے بھی عام ہیں جو حالات اور استدلال کو دیکھ کر رائے بدلتے ہیں۔ دنیا کے مختلف خطوں کے انسان اپنے رویوں میں کوئی بہت زیادہ مختلف نہیں ہوتے۔ ہاں بہتر روایات کا تسلسل قائم ہونے میں وقت لگتا ہے۔
اگر پاکستان میں بھی نمایاں لوگوں کے مابین مباحثہ ہوتا ہے۔ منظم طریقے سے پالیسی سے متعلق سوالات ان کے سامنے رکھے جاتے ہیں تو شرکائے گفتگو موضوع سے صرف نظر نہیں کر پائیں گے۔ پورا وقت نہ سہی لیکن مباحثے کا کچھ نا کچھ حصہ اہم ہوگا۔مباحثے کے صدر، شرکائے گفتگو اور ناظرین سب کے لئے ایک نیا تجربہ ہوگا۔ لوگوں کی سوچ کو چیلنج کیا جائے تو اس کا نتیجہ نکلتا ہے بھلے آپ کی توقعات کے مطابق نہ نکلے۔ یہ عمل جاری رہے تو رفتہ رفتہ کافی تبدیلی آ جاتی ہے۔
 

فرقان احمد

محفلین
اسد عمر صاحب جب میدانِ سیاست میں اُترے تو ان پر ایک لیبل تھا کہ انہیں اسٹیبلشمنٹ نے میدان میں اُتارا ہے۔ بعدازاں، اپنی متوازن شخصیت کے باعث مقبول ہوتے چلے گئے۔ تاہم، ایک بار پھر ثابت ہو گیا کہ اسد عمر وہی کریں گے جو اُن کے آقا انہیں حکم دیں گے۔ بات بس اتنی سی ہے۔ 'شاید' انہیں اُوپر سے احکامات نہ ملتے تو موصوف یہ قدم نہ اٹھاتے اور اب انہیں الٹی سیدھی وضاحتیں پیش نہ کرنا پڑتیں۔ دراصل اسد عمر صاحب کو اسلام آباد سے نشست نکالنے کے لیے مولانا فضل الرحمٰن خلیل کی ضرورت نہیں ہے۔ یہ ملاقات ثابت کرتی ہے کہ تحریکِ انصاف کو بات بنائے رکھنے کے لیے ہر اس قوت، الیکٹبیل اور اچھے برے بندے سے ہاتھ ملانا پڑے گا جس کے متعلق انہیں آرڈرز وصول ہوا کریں گے۔ بہرصورت، تحریک انصاف کو اب سمجھوتے پر سمجھوتا کرنا پڑے گا اور شاید ہاتھ پھر بھی ستر یا اسی نشستیں ہی آئیں گی۔ خان صاحب بانکپن تو یوں بھی لُٹا چکے، اب سمجھوتے کر کے 'جو بچا تھا، وہ بھی لٹانے کے لیے آئے ہیں'یعنی کہ غالباََ آخری گیت سنانے کے لیے آئے ہیں۔ :)
 
آخری تدوین:
Top