آج اسلام آباد ہائی کورٹ کے سینئر جج عزت مآب شوکت عزیز صدیقی کے راولپنڈی بار ایسوسی ایشن سے خطاب نے ملک بھر میں ایک ہلچل سی مچا دی ہے۔ سچ کہیں تو ہمیں ذاتی طور پر جج صاحب کے بیان پر یقین نہیں آیا ہے۔ انہوں نے فرمایا ہے کہ خفیہ اور غیر خفیہ طاقتور ادارے عدالت کے کام میں دخل اندازی کر رہے ہیں۔ وہ اپنی مرضی کے بینچ بنواتے ہیں اور کیسوں کی مارکنگ کرتے ہیں۔ یہ فیصلہ بھی کیا جاتا ہے کہ کون سا بینچ کون سا کیس سنے گا اور مختلف اعلی عدالتوں میں پیغام آتے جاتے ہیں۔ وہ تو اس حد تک اثر و رسوخ بتا رہے تھے کہ کہنے لگے کہ انہیں آفر کی گئی کہ ’ہماری مرضی کے فیصلے دو تو تمہیں نہ صرف وقت سے پہلے چیف جسٹس بنا دیں گے بلکہ ریفرنس بھی ختم کروا دیں گے۔ ‘
جسٹس شوکت عزیز صدیقی کا کہنا تھا کہ آئی ایس آئی کے اہلکاروں نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس سے کہا تھا کہ وہ چاہتے ہیں کہ 25 جولائی کو ملک میں ہونے والے انتخابات سے پہلے نواز شریف اور ان کی بیٹی مریم نواز جیل سے باہر نہ آئیں۔ جسٹس صدیقی کے مطابق اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس نے آئی ایس آئی کے نمائندوں سے کہا کہ ’جس بینچ سے آپ ایزی ہیں ہم وہ بینچ بنا دیتے ہیں۔ ‘
آپ نے جسٹس صدیقی کے الزامات پڑھے اور امید ہے کہ آپ کو بھی ہماری طرح ان کی بات پر یقین نہیں آیا ہو گا۔ ہماری عدلیہ کی ایک شاندار تاریخ ہے۔ وہ کسی بھی طاقت کے سامنے جھکنے سے ہمیشہ انکاری رہی ہے اور ہمیشہ قانون کے مطابق فیصلے کرتی رہی ہے۔ اس سلسلے میں پہلا بڑا معرکہ مولوی تمیز الدین کا کیس تھا۔
گورنر جنرل غلام محمد نے اسمبلی توڑ دی تو اس کے سپیکر مولوی تمیز الدین نے سندھ کے چیف (ہائی) کورٹ میں مقدمہ کر دیا۔ چیف کورٹ نے قانون کے مطابق یہ فیصلہ دیا کہ گورنر جنرل کو اسمبلی توڑنے کا اختیار نہیں تھا۔ گورنر جنرل نے فیصلہ فیڈرل (سپریم) کورٹ میں چیلنج کر دیا۔ چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس منیر پر اب پوری آئین ساز اسمبلی کے سینکڑوں ارکان کا بہت زیادہ دباؤ آ گیا تھا۔ لیکن اس دباؤ کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے انہوں نے انصاف کا پرچم نہایت بلند لٹکا دیا اور حق کے مطابق فیصلہ کیا کہ گورنر جنرل درست ہیں اور حسب ضرورت جو چاہے توڑ سکتے ہیں۔
اس سے اگلا اہم کیس وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کا تھا۔ چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ مولوی مشتاق نے کسی قسم کے دباؤ اور ثبوت کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے بھٹو کو سزائے موت دے دی۔ اگلی باری چیف جسٹس آف پاکستان انوار الحق کی تھی۔ وہ بھی کسی قسم کے دباؤ کو خاطر میں نہ لائے اور انصاف کا پرچم نہایت بلند لٹکا دیا۔ حالانکہ چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر ضیا الحق نے عدلیہ پر کرنل قذافی اور شاہ خالد کے کہنے پر بہت دباؤ ڈالا تھا کہ بھٹو کو چھوڑ دیں مگر عدالت ثابت قدم رہی۔ کئی برس بعد اس بینچ کے ایک رکن نسیم حسن شاہ نے ذکر بھی کیا تھا کہ ان پر اس کیس میں شدید دباؤ تھا۔
جب جنرل مشرف نے 12 اکتوبر 1999 کو مارشل لا لگایا تو ظفر علی شاہ نے سپریم کورٹ میں مقدمہ کر دیا۔ خوش قسمتی سے اس وقت سپریم کورٹ کے بینچ میں چیف جسٹس ارشاد حسن خان اور ان سے بھی بڑھ کر دلیر اور بعد میں چیف جسٹس بننے والے افتخار محمد چوہدری تھے۔ سپریم کورٹ نے نہایت دلیری سے کام لیتے ہوئے نہ صرف ظفر علی شاہ کے خلاف فیصلہ دیا بلکہ ملکی ضروریات کے پیش نظر جنرل مشرف کو بن مانگے ہی یہ اجازت بھی دے دی کہ وہ تین برس تک آئین میں جو چاہے تبدیلی کر لیں۔ اس وقت عدالت پر عوام اور وکلا کا بے تحاشا دباؤ تھا مگر اس دباؤ کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے انصاف کا پرچم نہایت بلند لٹکا دیا گیا۔
ان دلیر ججوں نے ہمیشہ بہادری سے کام لیا۔ عام دنوں کی تو بات ہی کیا ہے، جب بھی ملک میں مارشل لا لگا تو جو جج ڈر گئے انہوں نے استعفی دے کر اپنے گھروں کا رخ کیا مگر جو جی دار تھے انہوں نے ڈکٹیٹر کے پی سی او کے تحت حلف اٹھا کر بھی انصاف کی آبپاشی جاری رکھی۔ یہ تحریر لکھتے ہوئے نہ جانے کیوں محترم الطاف حسن قریشی کے 1966ء میں مشرقی پاکستان کے بارے میں لکھے ہوئے کالم ”محبت کا زمزم بہ رہا ہے“ یاد آ رہے ہیں۔ اسی زمزم کی رو میں اپنے کالم کا بھی ایسا عنوان رکھ دیا۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے سینئر جج عزت مآب شوکت عزیز صدیقی کی ہم تصدیق یا تردید نہیں کریں گے، مگر یہ ضرور کہیں گے کہ ہمیں اور ہمارے اندازے کے مطابق اکیس کروڑ دیگر پاکستانیوں کو ان کی بات پر یقین نہیں آ رہا ہے۔ ہماری رائے میں تو عدالتیں آزاد ہیں اور قانون کے مطابق انصاف کے تقاضے پورے کرتے ہوئے شیر اور بکری کو ایک گھاٹ پر پانی پلا رہی ہیں۔
ربط