غلیظ سے غلیظ تر ہوتی سیاست
27/04/2019 یوسف رشید
کار زارِ سیاست سے اگرچہ کچھ زیادہ خوش فہمیاں وابستہ نہیں، لیکن حالیہ چند سالوں میں دشنام طرازی، بہتان تراشی، فحش و لغو گفتگو اور بد اخلاقی کے جس معیار پر ہماری سیاست پہنچ چکی ہے، اس کے بعد کسی شریف خاندانی آدمی کے لئے سیاست میں قدم رکھنا خاصا دشوار ہو چکا ہے۔ یہ موضوع ایک بار پھر زیربحث اس لئے ہے کہ دو روز قبل وزیر اعظم عمران خان نے جلسے سے خطاب کرتے ہوئے بلاول بھٹو کو بلاول صاحبہ کہا، واضح طور پر دیکھا جا سکتا تھا کہ چہرے پر مخصوص تمسخرانہ تاثرات کے ساتھ کپتان عوام کے ردِ عمل سے خوب محظوظ ہوئے۔ چنانچہ یہ کہنا کہ غلطی سے کہہ دیا، دروغ گوئی ہے۔
سیاست کے ادنیٰ طالب علم کی حیثیت سے یاد نہیں پڑتا کہ ذوالفقار علی بھٹو سے پہلے پاکستانی سیاست میں مخالفین کے لئے اخلاق سے عاری القابات اور فحش الفاظ کا استعمال کیا گیا ہو۔ ایوب خان کی فاطمہ جناح سے دشمنی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ قائد اعظم کی ہم شِیر واضح طور پر فیلڈ مارشل کے اقتدار کے لئے خطرہ تھیں۔ ایوب خان نے انہیں امریکی اور انڈین ایجنٹ تک کہا لیکن کبھی بد زبانی کے مرتکب نہیں ہوئے۔ اور تو اور جب سڑکوں پر ایوب کتا ہائے ہائے کے نعرے لگے تو برداشت نہ کر سکے اور استعفیٰ دے کے چلتے بنے۔
اسی کی دہائی تک سیاست مجموعی طور شایستگی کے لبادے میں رہی۔ اس عرصے میں واحد استثنیٰ ذوالفقار علی بھٹو ہیں، جنہوں نے اپنے مخالفین کو گالیوں اور بد تمیزی پر مبنی القابات سے پکارا۔ بھٹو کو اپنی مقبولیت کا زعم بہت تھا۔ اس زعم میں وہ مخالفین کے لئے نا مناسب الفاظ استعمال کر بیٹھتے تھے۔ مثلاً بھٹو، ائیر مارشل اصغر خان کو آلو کہا کرتے تھے، مولانا مودودی کو اچھرے کا پوپ کہا کرتے تھے، خان عبدالقیوم خان کو ڈبل بیرل خان کہتے تھے، اور تو اور اپنے ساتھیوں کو بھی نہیں بخشتے تھے۔ مولانا کوثر نیازی کو مولانا وہسکی کہہ کر پکارتے، ایک بار ایک رپورٹر نے احمد سعید کرمانی کے بارے میں سوال کیا تو ’ہو از شی‘ کہہ کر استفسار کیا۔ اس کے علاوہ ایک طویل فہرست ان الفاظ کی ہے جو بھٹو نے پاکستانی سیاست میں متعارف کروائے۔
پاکستان مسلم لیگ نون نے بد گوئی کے اس سلسلے کو نئے رجحانات سے متعارف کروایا۔ اگر چہ میاں نواز شریف خود شایستگی کے لبادے میں رہتے، لیکن سب کچھ انہی کے ایما پر ہو رہا ہوتا تھا۔ شیخ رشید ان دنوں نواز شریف کی گڈ بکس میں رہنے کے لئے ایک سے ایک اوچھی حرکت کرتے۔ محترمہ بے نظیر بھٹو اور نصرت بھٹو کی جعلی فحش تصاویر کے پمفلٹ ہیلی کاپٹر سے پھینکوائے جاتے، شیخ رشید نے ایک سے زیادہ مرتبہ بے نظیر بھٹو کو ییلو کیب کہا۔
اس کے معنی ظاہر ہے انتہائی گھٹیا تھے۔ محترمہ عموماً شایستگی اپناتیں اور اس طرح کی باتوں کا جواب نہیں دیتی تھیں۔ ایک موقع پر اگر چہ احتیاط کا دامن چھوڑ بیٹھیں، اور میاں نواز شریف کے شیر کہلانے پر تبصرہ کیا کہ امی جنگل گئی تھیں یا شیر گھر آیا تھا۔ ظاہر ہے کہ یہ بھی بد اخلاقی کا مظاہرہ تھا۔ حالیہ سالوں میں شیخ رشید کی خدمات سے محروم ہونے کے بعد مسلم لیگ نون نے طلال چودھری، دانیال عزیز اور رانا ثنا اللہ جیسے چہروں کو استعال کیا۔ شنید ہے کہ میاں صاحب اپنے ان حواریوں کی کارکردگی سے خوب محظوظ ہوتے تھے۔ اگرچہ خود انہوں نے اپنے بد ترین مخالفین جیسے جنرل پرویز مشرف اور عمران خان کے لئے بھی مشرف صاحب اور عمران خان صاحب کے الفاظ اسعتمال کیے۔
گزشتہ چند ماہ سے شیخ رشید احمد مسلسل بلاول بھٹو کے بارے میں اشاروں کنایوں میں فحش گفتگو کر رہے تھے، ان کے تبصرے ہمیشہ ذُو معنی رہے۔ بلاول کو بلو رانی کہہ کر پکارتے رہے، لال حویلی آنے کی دعوت دیتے رہے اور جانے کیا کچھ۔ یہ سب کچھ بھی غلط تھا۔ لیکن بلاول نے کبھی ان باتوں کا جواب نہیں دیا۔ اگر چہ پیپلز پارٹی سندھ تک محدود ہو چکی ہے، لیکن بہر حال بلاول پیپلز پارٹی کے چئیرمین ہیں۔ ان کے شیخ رشید کی باتوں کو اگنور کرنے سے اس موضوع نے زیادہ اڑان نہیں پکڑی، وگرنہ بلاول شیخ رشید کی سطح پر آ جاتے تو شیخ جی کو زیادہ اہمیت ملتی۔
مجھے یاد ہے کہ نوے کی دہائی میں قاضی حسین احمد مسلم لیگ کی حکومت پر شدید تنقید کیا کرتے۔ ظالمو قاضی آ رہا ہے جیسے نعروں کے ساتھ اسلام آباد کی طرف یلغار کی جاتی تو لاہور میں جماعت کے خلاف آپریشن ہوتے۔ اس پورے قضیے میں کبھی میاں صاحب نے قاضی صاحب کی بات کا جواب نہیں دیا۔ اگر ایسا کرتے تو ایک قومی رہنما اور وزیر اعظم کے منصب سے ایک چھوٹی جماعت کی سطح پر آ جاتے۔ بلاول نے بھی ایسا ہی کیا اور شیخ رشید کی کسی بات کا جواب نہیں دیا۔
وزیر اعظم عمران خان کے ریمارکس اگر چہ اس نوعیت کے نہیں جیسے ذوالفقار علی بھٹو، شیخ رشید، رانا ثنا اور طلال چودھری استعمال کرتے رہے ہیں۔ تاہم ایک قومی رہنما اور وزیر اعظم کی حیثیت سے ان کا بلاول کو صاحبہ کہنا بھی ناگوار گزرا۔ اس پورے معاملے میں ایک پہلو جس پر زیادہ بات نہیں ہوئی اور خاکسار کو معاشرتی بے حسی پر خاصا ملال ہوا، وہ یہ کہ آج بھی یہ معاشرہ عورت کو کم تر سمجھتا ہے، کسی کو گالی دینی ہو تو اسے عورت کہہ کر مخاطب کرتا ہے اور سننے والے محظوظ ہوتے ہیں۔
یہ عورت کا مقام ہرگز نہ تھا۔ خیر وزیر اعظم کے الفاظ پر خوب لے دے ہوئی۔ خاکسار نے بھی تنقید کی، بس اس کے بعد سوشل میڈیا پر اس عاجز پر اتنی تنقید ہوئی کہ اللٰہ دے اور بندہ لے۔ بار ہا عرض کیا کہ ایک قومی رہنما کے طور پر عمران خان کو یہ ہرگز زیب نہیں دیتا۔ ان کی کنٹینر کی بہت سی تقریریں ایسی ہیں جن کا کوئی جواز نہیں دیا جا سکتا نہ کوئی بھی ذی شعور شخص ان کا دفاع کر سکتا ہے۔ اب تو بہر حال وہ وزیر اعظم ہیں اور کسی ایک جماعت کے نہیں، پورے ملک کے وزیر اعظم ہیں۔ تو اب ایسی اوچھی حرکتیں انہیں زیب نہیں دیتیں۔
اگلے روز بلاول بھٹو نے جوابی حملہ کر کے کسر پوری کر دی۔ اب اس کی اس بد اخلاقی کے بعد خاکسار کو مزید تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔ اگر چہ کھل کر بلاول کے الفاظ پر بھی تنقید کی۔ بد کلامی اور فحش گوئی کسی بھی صورت میں برداشت نہیں کی جا سکتی۔ خاص طور پر اس وقت جب یہ سب ایک وزیر اعظم اور ایک بڑی پارٹی کے چئیرمین کے درمیان ہو رہا ہے۔ ہاں یہ ضرور ہوا کہ اس پورے تماشے سے بلاول عمران خان کو اپنی سطح پر لانے میں کام یاب ہو گئے، جو بہر طور وزیر اعظم کے شایانِ شان نہیں۔
یہ اس بات کا بھی مظہر ہے کہ بلاول نے اسمبلی میں جو حالیہ تقریریں کی ہیں، انہوں نے عمران خان کو کافی مضطرب کیا ہے۔ وگرنہ ایسے کاموں کے لئے فیاض چوہان، اور واڈا جیسے کئی چہرے پی ٹی آئی میں بھی موجود ہیں۔ پی ٹی آٗی کو یہ بھی سمجھنا چاہیے کہ وہ حکومت میں ہے۔ اپوزیشن کا کام تنقید کرنا ہے۔ جب تحریک انصاف اپوزیشن میں تھی تو کیا کیا ہتھکنڈے نہیں آزمائے؟ کنٹیر پر کی گئی اخلاق سے عاری تقاریر، دکھاوے کے استعفے، سول نا فرمانی، دھرنے وغیرہ وغیرہ۔ اب جب حکومت میں آئے ہیں تو یہ سب برداشت کرنے کے لئے تیار رہنا ہو گا۔ حکومت کو جب نعروں کی ضرور پڑ جائے تو اس کا مطلب ہوتا کہ کہیں نہ کہیں کچھ گڑ بڑ ہے۔
جب سے پی ٹی آئی مقبول جماعتوں کی صف میں شامل ہوئی ہے تو سوشل میڈیا پر فدائین کا ایک نیا طبقہ معرض وجود میں آیا ہے۔ جو کسی کے پیچھے پڑیں تو گھر پہنچا کر ہی دم لیتے ہیں۔ مخالفین تو ٹھہرے مخالفین، شیریں مزاری نے پارٹی چھوڑی تو انہیں اور ان کی دختر کے کردار پر کیچڑ اچھالا گیا۔ مریم نواز کو قطری خط کے حوالے سے رگیدا گیا اور جانے کیا کچھ۔ اہم قلم کار عتاب کے خصوصی حقدار ٹھہرے۔ مخالف نقطہ نظر کے صحافیوں کی تو با قاعدہ زندگی مشکل کر دی گئی۔ اپنے حامی صحافیوں نے بھی کبھی کسی بات پر جائز تنقید کی تو گالیوں کی بوچھاڑ سے نوازا گیا۔ پھر وہ بھلے ہارون الرشید جیسے سینئیر صحافی ہی کیوں نہ ہوں، جنہوں نے بیس سال تن تنہا کپتان کے لئے لکھا۔
اب سوال یہ ہے کہ سیاست کس طرف جا رہی ہے۔ کئی دفعہ دیکھا گیا ہے کہ کسی رہنما نے خواتین رہنماؤں کی موجودگی میں ذو معنی گفتگو کی۔ یہ ہماری معاشرتی اقدار سے بالکل متصادم ہے۔ آج جب بلاول بھٹو نے امپائر کی انگلی کا ذکر کیا تو شیری رحمان سمیت متعدد خواتین رہنما موجود تھیں۔ یہ سب دیکھنے کے بعد کس شریف آدمی کا جی چاہے گا کہ میدانِ سیاست میں قدم رکھے؟ یہ ہمارے قومی رہنما نئی نسل کو کیا پیغام دے رہے ہیں؟ اور یہ طوفانِ بد تمیزی جو چلا ہے، یہ سلسلہ کہاں جا کر رکے گا؟ اغلب گمان ہے کہ بد کلامی کا یہ سونامی یہاں رکے گا نہیں۔ کپتان بائیس سالہ جدوجہد کا ذکر بڑے فخر سے کرتے ہیں۔ کاش ان بائیس سالوں میں انہوں نے اپنے ورکرز کی تربیت پر توجہ دی ہوتی تو آج پاکستان کی سیاست کم از کم ایک درجہ بہتر ہوتی۔
ہمارے سیاسی کارکن خواہ وہ کسی بھی جماعت سے ہوں، اپنی جماعت اور لیڈر کی غلطی کا جواز دوسری جماعت کی غلطی سے دیتے ہیں۔ مسلم لیگ والوں سے لندن فلیٹس کا پوچھو تو جواب آتا ہے کہ پیپلز پارٹی کے سرے محل کا پہلے پتا کریں۔ پی ٹی آئی کی کارکردگی، بد اخلاقی یا کسی اور چیز پر تنقید کرو تو جواب میں مسلم لیگ یا پیپلز پارٹی کا کوئی مماثلت رکھتا کارنامہ سننے کو ملتا ہے۔ خاکسار یہ سمجھنے سے عاجز ہے کہ ایک غلطی دوسری غلطی کا جواز کیسے ہو سکتی ہے؟ ایک جرم دوسرے جرم کی تاویل کیسے ہو سکتا ہے؟ ہمارے سیاسی کارکنوں اور سوشل میڈیا استعمال کرنے والے سپورٹرز کو بھی چاہیے کہ اپنے لیڈر کی غلط بات کی حمایت کر کے ذہنی غلامی کا ثبوت دینے کی بجائے اپنے لیڈر کی غلط بات پر تنقید کر کے لیڈر کو درست راستہ اپنانے کے لئے مجبور کریں۔