سیاسی منظر نامہ

فرقان احمد

محفلین
ملک میں ایسا کوئی نظام نہیں ہے کہ نئی حکومت آتے ساتھ پرانی حکومت کے تمام بڑے کھلاڑیوں کو یکدم برطرف کر دے۔ پرانے اور نئے کھلاڑیوں کو 8 ماہ پورا موقع دیا گیا تھا کہ وہ کارکردگی دکھائیں۔ جو اس ٹیسٹ میں فیل ہوئے ان کو فارغ کر دیا گیا ہے۔
ارے بھئی، کس دنیا میں رہتے ہیں آپ ۔۔۔! اور کس کو بے وقوف بنا رہے ہیں ۔۔۔؟ :)
 

جاسم محمد

محفلین
ارے بھئی، کس دنیا میں رہتے ہیں آپ ۔۔۔! اور کس کو بے وقوف بنا رہے ہیں ۔۔۔؟ :)
تحریک انصاف کابینہ اور بیروکروسی میں اچھاڑ پچھاڑ کرے تو "کس دنیا میں رہتے ہیں اور کس کو بیوقوف بنا رہے ہیں"
نون لیگ پارٹی میں اچھاڑ پچھاڑ کرے تو "عوام کو نئے لیڈر مل گئے اور نواز نہیں جھکے گا"
دوغلی قوم :)
 

فرقان احمد

محفلین
تحریک انصاف کابینہ اور بیروکروسی میں اچھاڑ پچھاڑ کرے تو "کس دنیا میں رہتے ہیں اور کس کو بیوقوف بنا رہے ہیں"
نون لیگ پارٹی میں اچھاڑ پچھاڑ کرے تو "عوام کو نئے لیڈر مل گئے اور نواز نہیں جھکے گا"
دوغلی قوم :)
نون لیگ سے خوف زدہ نہ ہوں۔ آپ اپنی کارکردگی پر توجہ دیں۔ :) ہر سوال کا جواب نون لیگ نہیں ہے ۔۔۔! :) ارے بھئی، آپ حکومت میں ہیں اور لہجہ آپ کا اپوزیشن جماعت کے ممبران جیسا ہے ۔۔۔! وہ تو فارغ ہو گئے، اب آپ حکومت میں ہیں یعنی کہ کٹہرے میں آپ ہیں جناب ۔۔۔! :)
 

فرقان احمد

محفلین
کارکردگی بہتر کرنے کیلئے ہی اچھاڑ پچھاڑ کی گئی ہے۔ عوام کو اس پر بھی اعتراض ہے :)
تو آپ سے کس نے کہا ہے کہ ہمیں اعتراض ہے؟ :) فیس بک اور ٹویٹر پر متوالوں اور جیالوں سے لڑتے جھگڑتے آپ اس لڑی میں آ کر سب کو نون لیگ اور پیپلزپارٹی کا ورکر کیوں تصور کر لیتے ہیں ۔۔۔! :)
 

جاسم محمد

محفلین
این آر او مانگنے اور دینے والے پرلعنت ہو، شاہد خاقان عباسی
ویب ڈیسک ایک گھنٹہ پہلے
1656354-shahidkhaqan-1556965246-455-640x480.jpg

تفریق اور گالم گلوچ سے ملک ترقی نہیں کرتے، سینئر نائب صدر مسلم لیگ (ن)

نارووال: سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کا کہنا ہے کہ تفریق اور گالم گلوچ سے ملک ترقی نہیں کرتے جب کہ این آر او جو مانگ رہا اور این آر او دینے والے پرلعنت ہو۔

نارووال میں پیغام پاکستان کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے مسلم لیگ (ن) کے سینئر نائب صدر شاہد خاقان عباسی کا کہنا تھا کہ پاکستان ایٹمی طاقت ہے اور دنیا میں ایک مقام رکھتا ہے، قومی ہم آہنگی اور یکجہتی وقت کی ضرورت ہے جب کہ فوج سرحدوں پر دشمنوں کا مقابلہ کرتی ہے، ہمیں ملک کے اندر اپنی صفحوں میں دشمنوں کا مقابلہ کرنا ہے۔

بعد ازاں میڈیا سے بات کرتے ہوئے شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ (ن) لیگ میں کوئی گروپ بندی نہیں، نوازشریف، شہباز شریف اور (ن) لیگ کا بیانیہ ایک ہی ہے، شہبازشریف کی خواہش تھی کہ پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کی ذمہ داری کسی اورکو دی جائے (ن) لیگ کے لیڈر نوازشریف ہیں اور وہی پارٹی کے فیصلے کرتے ہیں لہذا (ن) لیگ میں دھڑے بندی کی قیاس آرائیاں چھوڑدیں۔

سابق وزیراعظم نے کہا کہ این آرار جو مانگ رہا اور این آر او دینے والے پرلعنت ہو، عمران خان سنبھل جاؤ اور سن لو تم ہمارا ہم تمہارا احتساب کریں گے جب کہ تفریق اور گالم گلوچ سے ملک ترقی نہیں کرتے ۔
 

جاسم محمد

محفلین
کیا شریفوں کی سیاست ختم ہوگئی؟
04/05/2019 سلیم صافی


المیہ یہ ہے کہ ایک ہوکر بھی شریفین ایک نہیں۔ میاں نواز شریف سیاست تو کرسکتے ہیں لیکن حکومت نہیں چلاسکتے اور میاں شہباز شریف حکومت چلاسکتے ہیں لیکن سیاست نہیں کرسکتے۔ میاں نواز شریف کو بہترین سیاست کاری کے نتیجے میں تین مرتبہ حکومت ملی لیکن اسے ایک مرتبہ بھی کامیابی سے نہیں چلاسکے۔ اسی طرح میاں شہباز شریف ہر مرتبہ بہترین منتظم ثابت ہوئے لیکن جب بھی سیاست کی مہار ان کے ہاتھ میں آئی وہ ناکام سیاستدان ثابت ہوتے رہے۔

اب کی بار تو حادثہ یہ ہوا کہ میاں نواز شریف نے اپنے بیانیے سے میاں شہباز شریف کی حکومت کا اور میاں شہباز شریف نے اپنے رویے سے میاں نواز شریف کی سیاست کا راستہ بند کردیا۔ میاں نواز شریف ضد سے کام لے کر اپنے بیانیے پر اصرار نہ کرتے تو میاں شہباز شریف کی حکومت ختم نہ ہوتی بلکہ آج وہ وزیراعظم ہوتے اور میاں شہباز شریف دل سے ساتھ دیتے تو میاں نواز شریف کے سیاسی بیانیے کا وہ حشر نہ ہوتا جو ہوگیا۔

کسی اور کو الزام دینا مناسب نہیں بلکہ اس گھر کو گھر کے چراغ سے ہی آگ لگی۔ میاں نواز شریف نے میاں شہباز شریف اور میاں شہباز شریف نے میاں نواز شریف کو اس انجام سے دوچار کیا۔ نوازنے شہباز کی حکمت عملی کو کامیاب نہیں ہونے دیا تو شہباز نے نواز شریف کے بیانیے کو ناکام بنایا۔ وہ گڈکاپ (Good Cop) اور بیڈ کاپ (Bad Cop) کھیل کر پورے ملک سے کھیلنا چاہ رہے تھے لیکن اس کھیل کھیل میں اپنے آپ کو خراب کر بیٹھے۔

دوران حکومت تو پھر بھی گڈ کاپ اور بیڈ کاپ کسی حد تک فائدہ مند ہوسکتا تھا لیکن انہوں نے دوران الیکشن بھی اپنے بیانیے کو ایک نہیں کیا۔ آخروہ فوج کوئی جنگ کیسے جیت سکتی ہے جس کا چیف دشمن کو للکاررہا ہو لیکن اس کا چیف آف جنرل اسٹاف لڑائی کے نقصانات بیان کرکے دن رات دشمن کی قدم بوسی میں لگا ہوا ہو۔ نواز شریف اور شہباز شریف نے یہ غلط طریقہ اختیار کیا اور جنگ ہار گئے۔

گزشتہ پانچ سالوں کے دوران میاں نواز شریف اور میاں شہباز شریف کی پالیسیوں کا یہ تضاد اپنی جگہ موجود تھابلکہ بچوں تک بھی منتقل ہوگیا تھا۔ دونوں کے مشیر اور خوشامدی بھی الگ الگ تھے۔ میاں نواز شریف کو خواجہ آصف، اسحاق ڈار، احسن اقبال اورعرفان صدیقی نے گھیرے میں لے رکھا تھا جبکہ شہباز شریف چوہدری نثار علی خان کے یار غار بنے ہوئے تھے۔ میاں نواز شریف کو اپنے مشیروں کا گروپ باور کرارہا تھا کہ وہ پاکستان کے طیب اردوان ہیں جنہیں سویلین بالادستی کے لئے جارحانہ رویہ اپنانا چاہیے جبکہ میاں شہباز شریف اور چوہدری نثار علی خان زمینی حقائق کو مدنظر رکھ کر مفاہمت کی تلقین کررہے تھے۔

بدقسمتی سے عرفان صدیقی صاحب جیسے لوگوں نے مریم نوازصاحبہ کو بھی اپنا ہم نوا بنالیا تھا۔ چوہدری نثار علی خان تو کھل کر سامنے آگئے اور نتائج بھی بھگت لئے لیکن شہباز شریف بوجوہ ایسا نہ کرسکے بلکہ انہوں نے چوہدری نثار کو بھی تنہا چھوڑ کر خود کو پارٹی میں مزید تنہا کردیا۔ شہباز شریف اگر انتخابات سے قبل سختی کے ساتھ اپنے بھائی کو مذکورہ گروپ کے نرغے سے نکال کر پوری طرح اپنا ہمنوا بنالیتے تو آج وہ ملک کے وزیراعظم ہوتے لیکن انہوں نے تو بھائی کو سختی سے روکا اور نہ خود صدق دل سے ان کے ہمنوا بنے۔

اور تواور جب ان کے بھائی اور بھتیجی انقلابی بیانیے کے ساتھ گرفتاری دینے پاکستان آئے تو شہباز شریف گڈکاپ بننے کے چکر میں ان کے استقبال کے لئے ایئرپورٹ تک بھی نہیں پہنچ سکے۔ دوسری طرف نواز شریف کے بیانیے کی وجہ سے وزارت عظمیٰ تو کیا شہباز شریف پنجاب کی وزارت اعلیٰ سے بھی محروم ہوگئے۔ ادھر شہباز شریف کا بیانیہ نواز شریف کے کسی کام نہ آسکا۔ نواز شریف تو کیا بلکہ مریم نواز کو بھی جیل جانا پڑگیابلکہ انتخابات کے بعد قیدو بند کا سلسلہ خود شہباز شریف تک بھی دراز ہوگیا۔

چنانچہ میاں شہباز شریف نے ایک بار پھر اپنے بھائی کو بیانیہ بدلنے کے لئے آمادہ کرنا شروع کیا اور اتنی کامیابی ضرورحاصل کرلی کہ انہیں بیٹی سمیت زبان بندی پر آمادہ کرلیا۔ یہاں سے ڈیل کے سلسلے کا آغاز ہوگیا اور فریقین ایک دوسرے کو ڈھیل دینے لگے۔ اسی ڈھیل کے تحت نواز شریف اور مریم نواز نے چپ کا روزہ رکھ لیا اور اسی کے تحت شہباز شریف کے ساتھ ساتھ میاں نواز شریف کو بھی رعایتیں ملنے لگیں لیکن دوسری طرف مسئلہ یہ درپیش تھا کہ ڈھیل دینے والوں سے عمران خان صاحب بدظن ہونے لگے۔

اگرچہ شریفوں کو ڈھیل دینے والے عمران خان کی بہتری کے لئے ڈیل کی طرف بڑھ رہے تھے لیکن خود ان کو یہ ڈیل اپنی سیاست کی موت نظر آرہی تھی جس کی وجہ سے انہوں نے ایسے اقدامات شروع کروائے جس کی وجہ سے ڈیل ناکام ہوتی نظر آنے لگی۔ دوسری طرف شہباز شریف اپنے بھائی اور بھتیجی کو خاموشی پر تو آمادہ کرچکے تھے لیکن ڈیل کی مزید شرائط ان سے نہ منوا سکے۔ چنانچہ نہ صرف ڈھیل ڈیل میں نہیں بدل سکی بلکہ ڈھیل دینے والے شہباز شریف سے بھی ناراض ہوگئے اور ان کے گرد بھی گھیرا تنگ ہوگیا۔ دوسری طرف پراسرار خاموشی کے نتیجے میں وہ انقلابی حلقے بھی مایوس ہوگئے جو نواز شریف کو پاکستان کا طیب اردوان سمجھ بیٹھے تھے اور اب لگتا ہے کہ شہباز شریف کا بیانیہ بھی نتیجہ خیز ثابت نہیں ہورہا۔ یوں بظاہر مسلم لیگ (ن)

نہ ادھر کے رہے اور نہ ادھر کے رہے
نہ خدا ہی ملا نہ وصالِ صنم

والی کیفیت سے دوچار ہے۔ لیکن میرا عاجزانہ تجزیہ یہ ہے کہ ڈھیل اور ڈیل کا سلسلہ اب بھی ختم نہیں ہوگا بلکہ شاید فریقین کی طرف سے کوششیں مزید زور پکڑ جائیں۔ یہ پاکستان ہے، جہاں سیاست کے سینے میں دل بھی نہیں اور اس کی آنکھ شرم سے بھی عاری ہے۔ یہاں سب کچھ مجبوری اور ضرورت کے تحت ہوتا ہے۔ شریف برادران اپنی سیاست ہار چکے ہیں لیکن عمران خان ان کو ضرورت بنا کر ہی چھوڑیں گے۔ بعینہٖ اس طرح جس طرح شریفوں کے رویے نے عمران خان کو ضرورت بنا دیا تھا۔
بشکریہ جنگ۔
 

جاسم محمد

محفلین
لیڈر اور متوالا ورکر: اکیلے نہ جانا!
04/05/2019 سہیل وڑائچ



متوالا ورکر: (بے تکلفی اور منہ پھٹ انداز میں گاتے ہوئے ) اکیلے نہ جانا، ہمیں چھوڑ کر تم، اس بار ڈیل کرنی ہے تو پہلے سے بتا دیں۔
لیڈر : (سنجیدہ اور دھیمے لہجے میں ) ایسی کوئی بات نہیں، ڈیل ہو رہی ہوتی تو ہم پر سختیاں کم نہ ہو جاتیں، ابھی تک نئے نئے مقدمات بن رہے ہیں، علاج کے لئے ضمانت نہیں ہو رہی، باہر جانے کی اجازت نہیں دی جا رہی۔

متوالا:بیس سال پہلے بھی آپ نے ایسے ہی ڈیل کر لی تھی اور ہم اکیلے رہ گئے تھے اور آپ جدہ کے سرور محل میں جابسے تھے۔
لیڈر:وہ فیصلہ بھی درست تھا وگرنہ مشرف تو ہمیں صفحہ ہستی سے ہی مٹا دیتا، نہ رہتا بانس نہ بجتی بانسری (مسکراتے ہوئے ) نہ پارٹی باقی رہنا تھی نہ ہم۔ ہماری حکمت عملی درست نکلی۔

متوالا:کل سے مجھے جیالے اور انصافی دونوں طعنے دے رہے ہیں کہ تمہارے لیڈر فرار ہونے والے ہیں، این آر او ہو رہا ہے وغیرہ وغیرہ۔
لیڈر:ایسا کچھ بھی نہیں ہو رہا۔ مقدمات عدالتوں میں ہیں، اِس میں ڈیل یا ڈھیل والی کوئی بات سرے سے ہی نہیں ہے۔

متوالا:رانا تنویر کو چیئرمین پبلک اکاؤنٹس کمیٹی اور خواجہ آصف کو پارلیمانی لیڈر نامزد کرنا اِس بات کی صاف نشانی ہے کہ ہماری قیادت نظروں سے پیچھے ہٹنا چاہتی ہے اور اپنے ذاتی معاملات ٹھیک کرنا چاہتی ہے۔ یہ کوئی اچھی سیاست نہیں، اِس کا ہماری جماعت پر برا سیاسی اثر پڑے گا۔

لیڈر:رانا تنویر اور خواجہ آصف دونوں با اعتماد ساتھی ہیں، اُن کو عہدے دینے کا مقصد اختیارات کی تقسیم ہے۔ اب بھی پارٹی صدارت شہباز شریف کے پاس ہے، ہر بات پر میرا مشورہ بھی شامل ہوتا ہے۔

متوالا:کچھ تو ہے کہ جس کی پردہ داری ہے، نہ آپ بولتے ہیں نہ مریم بی بی کے ٹویٹر سے کچھ سامنے آتا ہے اور نہ ہی شہباز شریف کوئی واضح موقف لے رہے ہیں، پارٹی کنفیوژ ہے۔

لیڈر:ایسا کچھ بھی نہیں ہے جو چھپایا جائے، یہ حکمت عملی کا حصہ ہے۔ اِس وقت نہ الیکشن ہو رہے ہیں، نہ جلسے اور نہ ہی کوئی تحریک چلنے کا امکان ہے۔ تحریک انصاف خود اپنے بوجھ سے ناکام ہورہی ہے، ہماری پالیسی فی الحال ”دیکھو اور انتظار کرو“ کی ہے۔

متوالا:پارٹی مردہ ہو رہی ہے، نہ کوئی جلسہ، نہ جلوس اور نہ ہی کوئی تنظیمی اجلاس، اِس طرح تو لوگ ہماری جماعت سے مایوس ہو جائیں گے۔ آپ بیرون ملک چلے گئے تو پارٹی تتربتر ہو جائے گی۔ فارورڈ بلاکس بھی بن سکتے ہیں۔

لیڈر:دیکھو ہمارا ووٹ بینک پارٹی کے ساتھ وفادار ہے، یہ بزنس مڈل کلاس سے تعلق رکھتا ہے، تحریک انصاف بجٹ میں اُن پر ٹیکس لگائے گی اور یہ ہمیں پہلے سے زیادہ یاد کریں گے۔

متوالا:اگر تحریک انصاف نے بازاری طبقے کو ریلیف دے دیا تو یہ ہمیں چھوڑ کر تحریک انصاف کی بینڈ ویگن میں بیٹھ جائیں گے۔

لیڈر:آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدہ ہونے جارہا ہے، 600 ارب روپے کے نئے ٹیکس لگنا ہیں اور یہ سارے کے سارے بزنس مڈل کلاس پر لگنا ہیں، اِس لئے ہمارے منظر سے ہٹنے کے باوجود ہمارا ووٹر ہمارے ساتھ ہی رہے گا۔ جدہ جلاوطنی کے دوران بھی ہمارے ووٹر نے ہمیں نہیں چھوڑا تھا اور اب بھی ہم اگر علاج کے لئے باہر گئے تو کوئی ہمیں نہیں چھوڑے گا۔

متوالا:آپ بادشاہ لوگ ہیں، گلیوں بازاروں میں لوگوں کے طعنے تو ہم سنتے ہیں۔ پچھلی دفعہ آپ جلاوطن ہوئے تو (ق) لیگ بن گئی تھی، ہماری آدھی قیادت ہمیں چھوڑ گئی تھی۔ لوگ پچھلی دفعہ بھی ناراض ہوئے تھے، دوبارہ یہی کام ہوا تو زیادہ ناراض ہوں گے۔

لیڈر: ( جذباتی انداز میں ) اصل میں کوئی اندازہ ہی نہیں کر سکتا کہ ہم پر کتنی سختیوں کے پہاڑ توڑے گئے ہیں۔ میری بیگم مجھ سے بسترِ مرگ سے بات کرنا چاہتی تھی، وہ نہیں کرنے دی گئی۔ میری بے قصور بیٹی مریم سالوں عدالتوں میں دھکے کھاتی رہی، اب شہباز شریف کے خاندان کی عورتوں تک کو مقدمات میں ڈال دیا گیا ہے، ایسا تو پاکستانی تاریخ میں کبھی نہیں ہوا۔ ہم نے اپنے حصے سے کہیں زیادہ لڑائی لڑ لی، قربانیاں دے دیں، اب باقی قوم بھی اپنا حصہ ڈالے۔ کدھر ہیں صحافی؟ کدھر ہیں وکلاء اور کدھر ہیں تاجر اور سیاستدان؟ کیا ساری لڑائی اکیلے شریف خاندان نے ہی لڑنی ہے۔

متوالا: (ٹھنڈے لہجے میں ) آپ جو کہہ رہے ہیں درست کہہ رہے ہیں مگر لیڈر سب کے لئے مثال بنتے ہیں۔ بھٹو اور بے نظیر نے جان قربان کردی مگر ڈیل نہیں کی۔ جیالے ہمیں ڈیل کے طعنے دے رہے ہیں۔ (تلخی سے ) اگر تحریک کو منزل تک نہیں لے جانا تھا تو یہ جمہوری موقف لیا کیوں تھا؟ اُس وقت ہی ڈیل کر لیتے۔

لیڈر: (متوالے کو تھپکی دیتے ہوئے ) ایک اکیلے لیڈر یا ایک خاندان کی قربانیوں سے ملک میں مکمل جمہوریت نہیں آسکتی، پوری قوم کو قربانیاں دینا پڑتی ہیں۔ ہمارے ساتھ سراسر زیادتی ہوتی رہی اور پوری قوم سوتی رہی، کسی بھی منصف، وکیل، صحافی اور ہمارے دوست نے آواز تک بلند نہ کی۔ جدوجہد خلا میں نہیں ہوتی، اُس کے لئے اتحاد کی ضرورت ہوتی ہے۔ عوامی امداد اور تعاون حاصل نہ ہو تو قربانی بھی رنگ نہیں لاتی۔

متوالا:ناراض نہ ہوں تو عرض کروں، نیلسن منڈیلا اور بھٹو کی طرح پہلے خود قربانی دینا پڑتی ہے، آخری حد تک یعنی سولی تک چڑھنے کے لئے تیاری کرنا پڑتی ہے پھر کہیں جاکر لوگ باہر نکلتے ہیں اور آپ کے ہم آواز بنتے ہیں۔ ہماری کمزوری یہی ہے کہ ہم جمہوری تحریک کو درمیان میں چھوڑ کر جان بچانے کے لئے ڈیل کرتے رہے ہیں۔

لیڈر: (قہقہہ لگاتے ہوئے ) جان ہے تو جہان ہے جب جدوجہد کا وقت تھا تو ہم اُس وقت نہیں جھکے، اب جدوجہد کا نہیں مصلحت اور حکمت عملی بنانے کا وقت ہے، ہر کام اور ہر فیصلہ وقت پر کرنا ہی اصل سیاست ہے۔

متوالا:تو کیا یہ سمجھا جائے کہ اِس حکمت عملی کا مطلب کوئی ڈیل ہے، انڈراسٹینڈنگ ہے یا صرف کوئی سیاسی داؤ؟
لیڈر:جو مرضی سمجھو یہ اعتماد بحال کرنے، وقفہ لینے اور نئے سرے سے دوبارہ آنے کی کوشش ہے۔

متوالا:اچھا تو یہ سی بی ایم (Confidence Building Measures) ہیں۔
لیڈر: ( قہقہہ)
بشکریہ جنگ۔
 

جاسم محمد

محفلین
سیانے شریفوں کی سیانی باتیں
04/05/2019 ایاز امیر



نون لیگ بیوقوفیوں سے مبرّا نہیں لیکن بے وقوفیاں کرتی ہے تو اقتدار میں۔ گردن میں سریا تب اتنا مضبوط ہو جاتا ہے کہ ہوش سنبھالے نہیں سنبھلتی۔ میاں نواز شریف کے بارے میں یہ کہاوت تو پرانی ہے کہ تیر اُوپر سے جا رہا ہو تو اِن کا جی تلملاتا ہے کہ چھلانگ لگا کے اُسے پکڑ لیں اور پیٹھ میں گھونپ دیں۔ لیکن یہ سب باتیں اقتدار کی ہوتی ہیں۔

حالات خراب ہوں تو سریا یکسر پگھل جاتا ہے اور پھر اِن سے سیانا اور حالات کا ادراک رکھنے والا کوئی نہیں ہوتا۔ یہ لوگ جنرل مشرف کو جُل دے گئے تھے۔ پتہ نہیں عرب دنیا میں کہاں کہاں سے اِن کے ہمدرد نمودار ہوئے جنہوں نے مشرف پہ دباؤ ڈالا کہ نواز شریف کو جانے دیں۔ اسلام آباد میں نوابزادہ نصراللہ خان کے توسط سے اپوزیشن جماعتوں کے مذاکرات ہو رہے تھے اور یہ جماعتیں ایک مشرف مخالف اتحاد بنانے کے تاؤ میں تھیں۔ یہ کوششیں جاری تھیں کہ نوابزادہ نصراللہ خان کو اطلاع ملی کہ شریف فیملی تو ایک سعودی جہاز میں سوار ہو رہی ہے اور اُن کا لمباچوڑا سامان بھی جہاز پر لَد چکا ہے۔ نوابزادہ صاحب آزمودہ سیاست کار تھے، بہت کچھ اپنی زندگی میں دیکھ چکے تھے لیکن شریفوں کی اِس واردات پر ہکا بکا رہ گئے۔

تو بھونچال اتنا کیوں مچا ہے کہ میاں شہباز شریف نے پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کی چیئرمینی چھوڑ دی ہے اور اُن کا لندن میں قیام شاید تھوڑا سا طویل ہو جائے۔ شہباز شریف کا ہونہار داماد پہلے ہی مفرور ہو کر باہر بیٹھا ہوا ہے۔ سمجھدار بیٹا سلمان بھی باہر جا چکا ہے۔ میاں نواز شریف کے دونوں فرزندان لندن بیٹھے ہیں۔ شہباز شریف بھی ضمانت پہ رہا ہو کے باہر جا چکے ہیں۔ پی ایس سی کی چیئرمینی میں کیا پڑا ہے؟ وہ تو ویسے ہی ایک فضول قسم کی سر دَردِی ہے۔

اصل بات ہے جان بچانا اور قدرے خوشگوار موسم میں جانا۔ وہ یہ کر چکے ہیں۔ قوم بے وقوف ہو گی، شریف برادران بے وقوف نہیں۔ یہاں پہ حالات اور موسم اُن کے لئے خوشگوار نہیں۔ یہ تو سادہ اور بے وقوف لوگوں کی باتیں ہوتی ہیں کہ جماعت کو متحرک کیا جائے، تنظیم سازی کی جائے، حکومت کے خلاف تحریک چلائی جائے وغیرہ وغیرہ۔ ساری عمر شریف زادے ایسی فضول باتوں میں نہیں آئے۔ عمر کے اِس حصے میں اُنہوں نے کیا پاگل پَنے کو گلے لگانا ہے؟

وہ جو کہا جاتا ہے کہ جان ہے تو جہان ہے، اوروں سے زیادہ شریفوں نے اِس عقل مندی پہ یقین رکھا ہے۔ جب مشرف برسر اقتدار آئے تو پورے شریف خاندان کی یہی سوچ تھی کہ جان ہے تو جہان ہے۔ اسی لیے کسی طعنے کو خاطر میں لائے بغیر اُنہوں نے عافیت اِسی میں سمجھی کہ ہر قیمت پہ ملک سے فرار ہوا جائے۔ جنرل مشرف نے بڑا عقل مند ہونے کی کوشش کی۔ شرط رکھی گئی کہ شریف برادران دس سال کے لئے سیاست سے دستبردار ہو جائیں گے۔

باقاعدہ دستاویزات تیار کی گئیں جن پہ شریفوں کے دستخط مطلوب تھے۔ بغیر کسی تامل کے شریفوں نے صرف نیچے نہیں بلکہ ہر صفحے پہ اوپر نیچے دستخط کر دیے۔ اپنے خلاف نیب کی کارروائیاں بھی رُکوا لیں اور سعودی جہاز پہ بیٹھے سرزمینِ مقدسہ پہنچ گئے۔ بہتوں نے طعنے دیے کہ فرار ہو گئے ہیں لیکن شریفوں نے کوئی پروا نہ کی۔ اُن کے سامنے وہی سچ تھا کہ جان ہے تو جہان ہے۔

اِ ن کے پاسپورٹ لے لئے گئے تھے اور سعودی عرب میں پاکستانی سفارت خانے کی تحویل میں تھے۔ جب وقت گزرا اور اُکتاہٹ گھیرنے لگی تو سعودی عرب سے فرار کی خواہش پیدا ہوئی۔ چکوال کے بریگیڈیئر نیاز احمد ’جو اسلحے کا کاروبار کرتے تھے اور جن کا قیام لندن میں تھا‘ کا قریبی تعلق جنرل مشرف سے تھا۔ بریگیڈیئر نیاز کی طرف راستہ بنایا گیا اور شریفوں نے اُنہیں استعمال کیا۔ اُن کی وجہ سے اِن کے پاسپورٹ واپس ہوئے۔ پہلے سعودی عرب سے نکلنے میں کامیاب شہباز شریف ہوئے۔

عذر وہی پرانا تھا کہ ریڑھ کی ہڈی میں درد رہتا ہے اور نیو یارک کے علاوہ کہیں کوئی علاج ممکن نہیں۔ کئی لحاظ سے جنرل مشرف سادہ انسان تھے۔ اِن باتوں میں آ گئے اور شہباز شریف کو نیو یارک جانے کی اجازت مل گئی۔ اِن سے اقرار نامہ لیا گیا کہ وہ واپس آئیں گے۔ اقرار نامے کے ہر صفحے پہ اوپر نیچے شہباز شریف نے دستخط کیے لیکن ایک بار سعودی عر ب کے سنہری پنجرے سے فرار ہوئے تو کس بد بخت نے واپس آنا تھا۔ نیو یارک سے لندن آئے اور ہیتھرو ائیر پورٹ پہ اِن کی کمر کو پھر سے شدید درد لاحق ہو گیا۔ ایک دوست قسم کا ڈاکٹر ائیر پورٹ آیا جس نے رپورٹ لکھی کہ یہ تو جہاز پہ سفر کے قطعاً قابل نہیں۔ ائیر پورٹ سے واپس لندن چلے گئے اور پھر وہیں کے ہو گئے۔ حکومتی اہلکار شہباز شریف کے دستخط شدہ اقرار نامے کو تَکتے رہ گئے۔

قوم کو وہ منظر بھی یاد ہو گا جب نواز شریف نے 2007 ء میں وطن واپسی کی کوشش کی تھی۔ اُن کا واپس آنا سعودیوں سے طے شدہ معاہدے کی خلاف ورزی تھی۔ لیکن شریفوں نے اس وقت کہا کہ معاہدہ سرے سے کوئی ہوا ہی نہیں۔ جب مشرف حکومت نے سعودیوں سے شکایت کی کہ دیکھ لیں ’جن کی آپ ضمانت دے رہے تھے وہ کیا کر رہے ہیں تو تب کے سعودی انٹیلی جنس ایجنسی کے سربراہ پرنس مقرن کو اسلام آباد آنا پڑا اور ایک پریس کانفرنس سے مخاطب ہوتے ہوئے انہوں نے ایک کاغذ کا ٹکڑا لہرایا اور کہا یہ وہ معاہدہ ہے جس پہ شریفوں نے دستخط کیے تھے۔ اس پر شریف بالکل معصوم بن گے اور کہا کہ ہاں ایک معاہدہ تھا لیکن پانچ سال کے لئے دس سال کے لئے نہیں۔

جنرل مشرف کے تجربے سے ہمارے بڑے (بڑے سے آپ مطلب سمجھ گئے ہوں گے ) کچھ سبق سیکھ چکے ہیں۔ ڈھیل تو شریفوں کو مل رہی ہے لیکن چھوٹ نہیں۔ شہباز شریف کا باہر جانے کا راستہ نہیں روکا گیا لیکن عدالت عظمیٰ نے نواز شریف کی وہ اپیل نہیں مانی کہ چھ ہفتے کی ضمانت دائمی ہو جائے۔ ہر قسم کا علاج نواز شریف کے لئے حاضر ہے۔ پاکستان کے تمام ہسپتال اُن کے لئے کھلے ہیں۔ صرف اُنہیں جیل سے فرار ہو کر باہر جانے کی اجازت نہیں دی جا رہی۔ یہ اِسے انتہا کا ظلم سمجھیں تو اُن کی مرضی لیکن پاکستان کی عدالتی تاریخ میں کبھی ایسا بھی ہوا ہے کہ بیماری کی بنیاد پہ کسی کو رہائی مل جائے؟ ایسا کرنا ہے تو پاکستان کی ساری جیلیں خالی ہو جائیں اور ہر قیدی بیماری کو عذر بنا کے رہائی کی درخواست دے دے۔

بہرحال اتنا تو واضح ہے کہ اقتدار سے معزولی کے بعد نون لیگی قیادت بہت کچھ سیکھ چکی ہے۔ وہ جی ٹی روڈ مارچ کے وقت کے لگائے گئے نعرے محض وَقتی جذبے کا مظہر تھے۔ ساری جھاگ بیٹھ چکی ہے۔ نہ غزنی میں تڑپ رہی نہ خم ہے زُلفِ ایاز میں۔ جاتی امرا سے تو چُوں بھی نہیں نکل رہی۔ گمان ہی نہیں ہوتا کہ وہاں کوئی رہ رہا ہے۔ بس اِتنی ہی فکر ہے کہ یہ ناگوار موسم جیسے تیسے بھی ہو گزر جائے۔

یہ جو باتیں ہیں کہ نون لیگی حلقے مضطرب ہیں کہ ہمیں واضح لائن نہیں دی جا رہی اور ہمیں پتہ نہیں کیا ہو رہا ہے ’یہ سب بیکار کی ہیں۔ نون لیگ کئی دفعہ ایسے ادوار سے گزر چکی ہے۔ مشرف کے دور میں بھی ایسی باتیں ہوتی تھیں لیکن جب ملکی سیاست نے کروٹ بدلی اور شریف واپس وطن آ گئے تو ایسی سب باتیں دَم توڑ گئیں اور نون لیگ اپنے اصل مزاج کی طرف لوٹ آئی۔ یہ تو عوام یا اُس کا کچھ حصہ سادگی کا شکار ہو کے جذباتی باتوں میں آ جاتے ہیں کہ مزاحمت ہونی چاہیے اور تحریک چلنی چاہیے۔ سیاست کی موٹی گردنیں ایسی فضول کی باتوں میں نہیں آتیں۔ اُن کا مطمح نظر اور اولین ترجیح اپنے اثاثوں اور دولت کو بچانا ہوتا ہے۔ مزاحمت اور تحریکوں کے خیالی پلاؤ عام لوگوں کے لئے ہوتے ہیں۔ عوام کی دنیا ہمیشہ سے اور رہی ہے اور شریفوں اور زرداریوں کی دنیا یکسر الگ ہے۔
 

جاسم محمد

محفلین
مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی نے قرضے لے کر قوم کے ساتھ ظلم ہی نہیں، جرم کیا: چوہدری نثار کا انکشاف
05/05/2019 نیوز ڈیسک


سابق وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے کہا ہے کہ ن لیگ اور پی پی نے جو قرضے لئے وہ قوم کے ساتھ ظلم ہی نہیں جرم بھی ہیں۔ منافقت ہو گی اگر صوبائی اسمبلی کا حلف اٹھا وں۔

واہ کینٹ میں پریس کانفرنس سے خطاب میں چوہدری نثار علی خان نے کہا کہ میں مسلم لیگ ن کا حصہ نہیں ہوں۔ عزت کی خاطر سیاست کرتا ہوں، اقتدار کے لیے نہیں۔ انہوں نے کہا کہ میں کیسے صوبائی اسمبلی کا حلف اٹھا لوں، یہ منافقت ہو گی۔ آج کل پاکستان میں سیاست مصر کی منڈی کا منظر پیش کر رہی ہے۔

سابق وفاقی وزیر داخلہ نے مزید کہا کہ تاثر ہے کہ آئی ایم ایف، ورلڈ بینک سمیت دیگر مالیاتی ادارے پاکستان کی معاشی پالیسی کو کنٹرول کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ پچھلے چند سال میں ملکی قرضے بڑھے ہیں۔ پیپلز پارٹی اور ن لیگ نے قرضے لیے جو قوم کے ساتھ ظلم ہی نہیں، جرم ہے۔ چوہدری نثار علی خان نے یہ بھی کہا کہ ظاہر ہے جو قرضے دیتے ہیں ان کی ڈکٹیشن پرتو چلنا پڑتا ہے، پاکستان کے ارد گرد گھیرا تنگ ہو رہا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ معیشت سمیت دیگر حوالوں سے پاکستان پر گرفت کی جا رہی ہے۔ روپے کی قدر میں کمی اور پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ عام آدمی کی کمر توڑ دے گا۔ سابق وفاقی وزیر داخلہ کا کہنا تھا کہ ہر ایک کو چور اور ڈاکو کہنے سے کام نہیں چلتا۔ مہنگائی کا اکتوبر میں پوچھوں گا، اس قدر مہنگائی آئے گی کہ قوم چیخ آٹھے گی۔
 

جاسم محمد

محفلین
اٹھارہویں ترمیم کی وجہ سے وفاق دیوالیہ ہوگیا، وزیراعظم
ویب ڈیسک 2 گھنٹے پہلے
1658604-imrankhane-1557143822-117-640x480.jpg

پنجاب میں پنچایت اور شہروں میں میئر کا الیکشن براہ راست ہوگا، وزیراعظم

اسلام آباد: وزیراعظم عمران خان کا کہنا ہے کہ اٹھارہویں ترمیم کی وجہ سے وفاق دیوالیہ ہوگیا اور اس ترمیم کے تحت صوبے بھی ٹیکس جمع کرنے میں ناکام رہے۔

اسلام آباد میں سینئر صحافیوں سے بات کرتے ہوئے وزیراعظم عمران خان کا کہنا تھا کہ نئے بلدیاتی نظام سے نئی لیڈرشپ سامنے آئے گی، اس نظام کے تحت فنڈز براہ راست گاؤں تک جاتے ہیں، 22 ہزاردیہات میں براہ راست پیسہ جائے گا، پرانے نظام کے تحت مقامی سطح پرزیادہ کرپشن ہوتی تھی۔

وزیراعظم نے کہا کہ خیبرپختونخوا میں ویلیج کونسل کے براہ راست انتخابات ہوتے ہیں اور اب پنجاب میں پنچایت کے براہ راست انتخابات ہوں گے، پنجاب میں 22 ہزار پنچایت کو40 ارب روپے کے فنڈز دیں گے جب کہ شہروں میں میئر کا الیکشن بھی براہ راست ہوں گے، ہمارے شہر کھنڈر بنتے جارہے ہیں، وہاں سہولتیں ختم ہوتی جارہی ہیں کراچی کی حالت دیکھیں، وہ ٹھیک ہوہی نہیں سکتا، جب تک شہراپنا پیسا اکٹھا نہیں کریں گے، ٹھیک نہیں ہوسکتے ہیں۔
 

جاسم محمد

محفلین
غلیل باز ضدی بچے کی کہانی: ناقابل اشاعت کالم
06/05/2019 محمد بلال غوری


ہمیں قصے کہانیاں بہت پسند ہیں۔ بچپن دادی اور دادا سے جنوں اور پریوں کی کہانیاں سنتے گزرتا ہے، لڑکپن ٹارزن، عمروعیار اور عمران سیریز میں گم ہوجاتا ہے اور پھر نوجوانی کی دہلیز پر قدم رکھنے سے پہلے ہر کوئی نسیم حجازی کے ناولوں میں کھو جاتا ہے۔ سوچا کیوں نہ آج ایک دلچسپ کہانی کو کالم کا حصہ بنایاجائے۔ یہ کہانی ہے ایک ایسے ملک کی جہاں بادشاہ گروں کو نت نئے تجربات کرنے کا شوق تھا۔ بادشاہ گروں کا محبوب مشغلہ یہ تھا کہ وہ کم سنی میں کسی بچے کو گود لیتے، اس کی پرورش کرتے اور پھر تاج وتخت اس کے سپرد کر دیتے۔

اس بندوبست کے پیچھے شاید یہ سوچ کارفرما تھی کہ بظاہر حکمران کوئی بھی ہو، اقتدار و اختیار ان کے پاس ہی رہے۔ لیکن یہ بچے باشعور ہوتے ہی اس کھیل کو سمجھ جاتے اور اپنے سرپرستوں کے اشاروں پر ناچنے سے انکار کردیتے۔ پہلے تو ان گستاخ بچوں کو سمجھانے کی کوشش کی جاتی، پھر ڈرانے اوردھمکانے کی نوبت آتی لیکن جب کوئی ضدی اور نافرمان بچہ اپنی بات پر اڑ جاتا تو اسے نشان ِ عبرت بنا دیا جاتا تاکہ آئندہ کسی بچے کو حکم عدولی کی جرات نہ ہو۔

ایسے ہی ایک بچے کو نشان ِعبرت بنانے کے لئے پھانسی دیدی گئی۔ مگر یہ بچے بھی جانے کس مٹی سے بنے تھے، بغاوت سے باز ہی نہ آتے۔ ایسے ہی ایک ہٹ دھرم بچے نے یہ کہہ کر ہاتھ میں غلیل تھام لی کہ ڈکٹیشن نہیں لوں گا۔ اس نافرمان بچے سے تاج و تخت چھین لیا گیا۔ بادشاہ گروں نے نئے حکمران کا انتخاب کرنے کے لئے ایک عجیب و غریب فیصلہ کیا۔ انہوں نے منادی کروادی کہ اگلی صبح جو بچہ سب سے پہلے شہر میں داخل ہوگا، اسے بادشاہ بنا دیا جائے گا۔ سب سے پہلے شہر میں داخل ہونے کی اجازت دینا بھی انہی بادشاہ گروں کا استحقاق تھا اس لئے سب منتظر تھے کہ اس بار قرعہ فال کس کے نام نکلتا ہے۔ اسے محض اتفاق کہیں یا پھر حسن اتفاق کہ اگلی صبح ایک غریب سا بچہ درویشوں کا فقیرانہ چولا پہنے سب سے پہلے شہر میں داخل ہوا تو اسے بادشاہ بنا دیا گیا۔ بچے نے رسماً کہا تو کہ “ہم درویشوں کی شان تو فقر و فاقہ ہے، ہمیں تخت و تاج سے کیا واسطہ، ہم تو فقیری میں خوش رہتے ہیں”، لیکن تاج پہننے میں دیر نہ لگائی۔

فقیر بچے نے بادشاہت کا تاج سجانے کے بعد دربار لگایا تو وزیروں اور مشیروں نے پوچھا، ظل سبحانی! ریاست کی پالیسی کیا ہوگی؟ معیشت کا پہیہ کیسے چلے گا؟ بادشاہ نے ایک کشکول اُٹھایا اور بتایا کہ ملک کے ہر مسئلے کا حل اس کے کاسہ گدائی میں ہے۔ درباریوں کی حیرت بھانپتے ہوئے بادشاہ نے وضاحت کی کہ مانگنا اس کی خداداد صلاحیت ہے اور درویش تو اس گھر سے بھی نذرانہ لا سکتا ہے جس میں میت رکھی ہو۔ اپنے اس ہنر کو بروئے کار لاتے ہوئے، بادشاہ سلامت اپنے درباریوں کے ہمراہ نگر نگر گھومتے ہوئے صدائیں دیں گے، پیسہ جمع کریں گے، ملک چلائیں گے اور حلوہ کھائیں گے۔

یہ پالیسی بیان جاری کرتے ہی بادشاہ نے مجلس برخاست کرنے کا حکم دیتے ہوئے شاہی مطبخ کے وزیر کو حلوہ پیش کرنے کا حکم دیدیا۔ چند روزبعد ہی چندہ مہم شروع ہوگئی، لوگوں نے حسب استطاعت اس کارخیر میں حصہ تو ڈالا مگر وہ حیران تھے کہ چندے کے پیسے سے کوئی ملک کیسے چلایا جا سکتا ہے؟ فقیرانہ شان رکھنے والا بادشاہ اور بادشاہ گربہت مطمئن تھے، ان کا خیال تھا کہ وہ تبدیلی لائیں گے اور یونہی ملک چلا کر دکھائیں گے۔ اس دوران ملکی معیشت کی سانس اُکھڑنے لگی، لوگ بے روزگار ہونے لگے، کاروبار میں مندے کی کیفیت اُمڈآئی، مہنگائی میں اضافہ ہونے لگا اور لوگ پریشان ہونے لگے۔

کسی درباری نے ہمت مجتمع کرتے ہوئے بادشاہ سلامت کے سامنے لب کشائی کی جرات کی اور بتایا کہ معیشت تباہ و برباد ہو رہی ہے اور لوگوں کی چیخیں نکل رہی ہیں۔ بادشاہ سلامت نے کہا، فوری طور پر میری رعایا کے نام پیغام جاری کرو کہ گھبرانا نہیں، بہت جلد ملک کی تقدیر بدلنے والی ہے اور اس کے ساتھ ہی ایک بار پھر حلوہ پکانے کا فرمان جاری کردیا۔

جب چندہ مہم سے خاطر خواہ نتائج حاصل نہ ہوئے تو قرض لے کر معاملات سدھارنے کی کوشش کی گئی۔ قرض دینے والے سنگدل ساہو کاروں نے کڑی شرائط عائد کردیں اورکہا کہ موتمن الدولہ (وزیر خزانہ) اور اس کی ساری ٹیم فارغ کرکے ہمارے لوگ تعینات کیے جائیں، ٹیکس لگانے اور محصولات جمع کرنے کا اختیار ہمیں دیا جائے، تب آپ کو قرض ملے گا۔ بادشاہ سلامت نے سوچے سمجھے بغیر یہ مطالبات مان لئے اور حکم صادر کیا کہ ان کی سب شرائط فوری طور پر پوری کرکے ہماری خدمت میں شاہی حلوہ پیش کیا جائے۔ ملک کے حالات بتدریج خراب ہوتے چلے گئے مگر فقیرانہ شان والا درویش بادشاہ چپ چاپ شاہی محل میں بیٹھ کر حلوہ کھاتا رہا۔

آپ یقینا سوچ رہے ہوں گے کہ وہ ضدی بچہ جسے بادشاہ گروں نے محض اپنی انا کی خاطر تاج و تخت سے محروم کیا تھا، اس کا انجام کیا ہوا؟ اس بچے کو جیل میں ڈال دیا گیا، سمجھانے بجھانے اور راہ راست پر لا نے کی بہت کوشش کی گئی مگر وہ اپنی ضد پہ اڑا رہا۔ اس کا چھوٹا بھائی بہت سمجھدار تھا، اس نے بھی بھائی صاحب کو حالات کی نزاکت کے پیش نظر لچک دکھانے کی درخواست کی۔ بھائی صاحب نے بادل نخواستہ رضامندی بھی ظاہر کردی۔

چھوٹے نے بادشاہ گروں کو بتایا کہ بھائی صاحب کو منا لیا گیا ہے اور اب وہ بغاوت کے بجائے مفاہمت کے راستے پر چلنے کو تیار ہیں۔ صورتحال کا جائزہ لینے کے لئے ماہرین نفسیات کا ایک پینل تشکیل دیا گیا جس نے اس ضدی بچے کا انٹریو لینے کا فیصلہ کیا۔ اس سے پوچھا گیا کہ تمہیں رہا کردیا جائے تو کیا کرو گے؟ اس نے کہا، میں بیرون ملک جاکر زمین خریدوں گا، وہاں درخت لگاؤں گا اور جنگل اگاؤں گا۔ ماہرین نفسیات نے ایک دوسرے کی طرف دیکھ کر اثبات میں سرہلایا اور سوچا کہ اس کی سوچ تو واقعی بدل گئی ہے۔

مگر مزید تصدیق کے لئے انہوں نے ایک اور سوال کیا کہ اس جنگل کا کیا کرو گے؟ سفاری بناؤ گے؟ اس ضدی بچے نے کہا، نہیں جب یہ جنگل پورے جوبن پر ہوگا تو اس کے درخت کاٹ ڈالوں گا۔ انٹرویو لینے والے پینل میں شامل ایک شخص نے پوچھا، درخت کاٹ کر کیا کرو گے؟ کیا اس لکڑی سے فرنیچر بناؤ گے؟ ضدی بچہ طنزیہ انداز میں مسکرایا اور پھر بتایا، میں ان درختوں کو کاٹ کر ان کی غلیلیں بناؤں گا۔ یہ جواب سن کر پینل نے سفارش کی کہ غلیل باز بچے کے سدھرنے کا کوئی امکان نہیں، اسے پھر سے جیل میں ڈال دیا جائے۔

چھوٹا بیرون ملک بھاگ گیا، بھائی صاحب المعروف غلیل باز ضدی بچے کو جیل میں ڈال دیا گیا۔ عوام کو تو گھبرانے کی اجازت نہیں مگر اب بادشاہ گر وں پر گھبراہٹ طاری ہے کیونکہ فقیرانہ شان والے درویش بادشاہ کا یہ دور ملک پر بہت بھاری ہے۔ ایک بار اس فقیرانہ شان والے بچے کو یاد دلانے کی کوشش کی گئی کہ اس کے نازک کندھوں پر بہت بھاری ذمہ داری عائد کی گئی ہے، اس نے ملکی معیشت کو سنوارنا ہے، ملک کو ترقی و خوشحالی کی راہ پر گامزن کرنا ہے۔ فقیرانہ شان والے بچے نے کہا، میں تو یہاں حلوہ کھانے آیا تھا، اگر تم نے میرے بارے میں خوش فہمیاں پال رکھی ہیں تو اس میں میرا کیا قصور ہے؟ اور پھر میں خود تو یہاں نہیں آیا، مجھے لایا گیا ہے۔ کیا اس تلخ تجربے کے بعد بادشاہ گروں نے مزید تجربے کرنے سے توبہ کرلی؟ اس بارے میں راوی خاموش ہے کیونکہ غلیل باز ضدی بچے کی کہانی ابھی باقی ہے دوست۔
 

جاسم محمد

محفلین
تحریک انصاف ملک کی امیر ترین سیاسی جماعت بن گئی
ویب ڈیسک 4 گھنٹے پہلے
1659624-pti-1557226274-357-640x480.jpg

شیخ رشید کی عوامی مسلم لیگ غریب ترین سیاسی جماعتوں میں شامل فوٹو:فائل

اسلام آباد: الیکشن کمیشن آف پاکستان نے 81 سیاسی جماعتوں کے اثاثوں کی تفصیلات جاری کردیں جن کے مطابق حکمران جماعت تحریک انصاف امیر ترین سیاسی جماعت بن کر سامنے آگئی۔

دستاویزات کے مطابق تحریک انصاف 31 کروڑ 66 لاکھ روپے مالیت کے اثاثوں کی مالک نکلی، ایک سال کے اندر اس کے اثاثوں میں 22 کروڑ روپے کا اضافہ ہوا، تحریک انصاف نے سمندرپارپاکستانیوں سے 6 کروڑ 58 لاکھ روپے سے زائد کے فنڈز لیے، جن میں سے امریکہ میں مقیم سمندرپارپاکستانیوں سے 1 کروڑ 26 لاکھ وصول کیے، برطانیہ میں مقیم پاکستانیوں سے 4 کروڑ 92 لاکھ روپے سے زائد کا فنڈ وصول کیا۔

تحریک انصاف نے پارٹی کے 6 اکاؤنٹس الیکشن کمیشن میں ظاہر کیے ہیں اور عمران خان نے اثاثوں کی تفصیلات کے ساتھ سرٹیفکیٹ بھی جمع کرایا جس کے مطابق تحریک انصاف نے ممنوعہ فنڈنگ وصول نہیں کی۔

مسلم لیگ ن کے اثاثوں کی مالیت 25 کروڑ 33 لاکھ 77 ہزار 955 روپے نکلی اور ایک سال میں اس کے اثاثوں میں 2 کروڑ سے زائد کا اضافہ ہوا، جبکہ اس نے پارٹی ٹکٹس 11 کروڑ 97 لاکھ میں دیے۔

پاکستان پیپلزپارٹی پارلیمنٹرین کے پاس 16 کروڑ 70 لاکھ روپے سے زائد کا بینک بیلنس ہے اور اس نے 9 کروڑ 37 لاکھ سے زائد ٹکٹوں کی مد میں وصول کیے۔

دستاویزات کے مطابق شیخ رشید کی عوامی مسلم لیگ غریب ترین سیاسی جماعتوں میں شامل ہے جو صرف 1 لاکھ 38 ہزار روپے اثاثوں کی مالک ہے، تحریک لبیک پاکستان کو چندے کی مد میں 50 لاکھ روپے ملے، ایم کیو ایم پاکستان کو 1 کروڑ 75 لاکھ روپے کا چندہ ملا ہے جبکہ جماعت اسلامی 10 کروڑ 63 لاکھ روپے کے اثاثوں کی مالک ہے۔
 

جاسم محمد

محفلین
دستاویزات کے مطابق تحریک انصاف 31 کروڑ 66 لاکھ روپے مالیت کے اثاثوں کی مالک نکلی، ایک سال کے اندر اس کے اثاثوں میں 22 کروڑ روپے کا اضافہ ہوا، تحریک انصاف نے سمندرپارپاکستانیوں سے 6 کروڑ 58 لاکھ روپے سے زائد کے فنڈز لیے، جن میں سے امریکہ میں مقیم سمندرپارپاکستانیوں سے 1 کروڑ 26 لاکھ وصول کیے، برطانیہ میں مقیم پاکستانیوں سے 4 کروڑ 92 لاکھ روپے سے زائد کا فنڈ وصول کیا۔
یا حیرت۔ ملک سے باہر مقیم پاکستانیوں نے تحریک انصاف کا ساتھ نہیں چھوڑا۔ میڈیا پراپگنڈہ کا کوئی اثر نہیں ہوا۔
 
Top