سیاسی منظر نامہ

جاسم محمد

محفلین
اہلِ مصلحت کے نام
01/06/2019 سہیل وڑائچ



مقتدر ترین حلقوں میں یہ مانا جاتا ہے کہ پانامہ اسکینڈل کسی ملکی یا غیر ملکی طاقت کا کام نہیں تھا بلکہ یہ ایک طرح سے قدرتی آفت تھی، جس نے شریفوں کو اپنی گرفت میں لے لیا اور اُنہیں جیلوں میں بند کروا کے چھوڑا۔ بالکل اسی طرح نیب کے حوالے سے بھی عذاب اوپر سے اترا ہے اور عذابِ الٰہی اتنی جلدی ٹلا نہیں کرتے۔ اہلِ مصلحت جتنا مرضی زور لگا لیں، جو مرضی تاویلیں پیش کر لیں، قدرتی آفات خونی بھینٹ لے کر ہی ٹھنڈی پڑتی ہیں۔

دنیا کی مہذب قومیں اور آئیڈیل معاشرے سچ پر چلتے ہیں جبکہ دنیا کی غیر مہذب قومیں جھوٹ اور دھوکے سے کام لیتی ہیں۔ سچ اور جھوٹ کے درمیان بھی ایک پردہ ہوتا ہے جسے مصلحت کا نام دیا جاتا ہے۔ اکثر حکومتیں سچ اور جھوٹ کے سخت معیار سے بچ کر مصلحت کی پناہ لیتی ہیں۔ گو مصلحت اور اصولوں کی پابندی میں بڑا فرق ہوتا ہے مگر پھر بھی حکومتوں کی چھوٹی موٹی مصلحتیں اُنہیں وقتی کامیابی دلاتی رہتی ہیں لیکن مصلحت اصولوں پر ہی حاوی ہو جائے، سچ کو جھوٹ بنا کر پیش کیا جائے تو پھر زوال آتا ہے، عذاب آتے ہیں اور سب کچھ بدل جاتا ہے۔

نیب اسکینڈل نے کئی شعبوں اور شخصیتوں کو ننگا کر دیا۔ کئی ایک ’’سچوں‘‘ کے چہرے سے پردے سرکائے اور وہ اصل میں اہلِ مصلحت نکلے۔ نونی ہوں یا جیالے، اکثر کی لیڈر شپ نے اصول کے بجائے مصلحت میں پناہ ڈھونڈی۔ کسی نے بھی اصول کی بنا پر اس اسکینڈل کو نہیں دیکھا بلکہ یہ دیکھا کہ اس سے اسے کتنا فائدہ اور حکومت کو کتنا نقصان ہے؟ اور تو اور انصافی حکومت نے بھی اصولوں کو پسِ پشت ڈال کر مصلحت کو اپنا لیا۔ نونی، جیالے، انصافی اور مقتدرہ سارے کے سارے ہی اہلِ مصلحت نکلے۔ اتنے بڑے واقعے کی سنگینی کو ڈھانپنے اور چھپانے میں سب شریک ملزم ہیں مگر تاریخ کا سبق کچھ اور ہے وہ یہ کہ بالآخر سچ غالب ہو کر رہے گا اور اہلِ مصلحت ناکام ہوں گے۔ سچ 2+2چار ہوتا ہے اور جھوٹ 2+2پانچ ہوتا ہے۔ مصلحت سوا چار یا ساڑھے چار تک چل جاتی ہے مگر جب سیاہ کو سفید کہا جائے تو معاملہ حل نہیں ہو پاتا، یہ نیب اسکینڈل بھی کچھ ایسا ہی ہے۔

حقیقت تو یہ ہے کہ احتساب کا چابی والا گھوڑا مر چکا۔ یہ ایک اسکینڈل کا دبائو نہیں سہہ سکا۔ اس مردہ گھوڑے کو اب جتنے مرضی چابک ماریں، یہ اب دوڑ نہیں سکتا۔ جو مقدمات عدالتوں میں جا چکے یا جن کا فیصلہ ہو چکا وہ تو چلیں گے مگر اب نئے مقدمات بنانا ناممکن ہو گیا۔ گھوڑے کے مرنے سے اپوزیشن کی سختیاں پھر بھی ختم نہیں ہوں گی، عدالتوں کے اندر پہلے سے موجود مقدمات بھی انہیں کئی سال تک الجھائے رکھیں گے۔

مقتدرہ کی ’’اُسے‘‘ برقرار رکھنے کی مصلحت سمجھ آتی ہے، برا ہے یا بھلا ہے جیسا بھی ہے کام چلا رہا ہے اسے نکال دیا تو احتساب رک جائے گا۔ جیالے خوف زدہ تھے کہ الزام ان پر نہ لگ جائے کہ اسکینڈل انہوں نے بنایا ہے، چند انصافی سازش میں ضرور شریک تھے مگر پھر مصلحت غالب آگئی۔ حیران البتہ نون نے کیا۔ پہلے کہا استعفیٰ دو پھر کہا حکومت کی سازش ہے اور وعدہ کیا کہ معاملے کی تفتیش کے لئے پارلیمانی کمیٹی بنوائی جائے گی مگر آخر میں خواجہ آصف نے پارلیمان میں زور ہی نہ لگایا اور یوں معاملہ ٹائیں ٹائیں فش پر ختم ہوا۔

نون، نواز شریف کی میڈیکل ضمانت کی منسوخی کے بعد سے ایک نئے مرحلے میں داخل ہو چکی ہے، امید کے دروازے بند ہو چکے، مستقبل قریب میں بہتری کے دعوے غلط ہو چکے۔ یوں شہباز شریف کے مصالحتی بیانیے کی گنجائش نہیں رہی۔ مسلم لیگ(ن) کی تنظیم نو اس طرح سے کی گئی ہے کہ نواز شریف اور مریم کا بیانیہ غالب آگیا ہے۔ شہباز شریف نے تمام نامزدگیاں کھلے دل سے قبول کر لیں حالانکہ ان کے تحفظات تو ہوں گے۔ تنظیم نو کے بعد سے بقول شخصے شہباز شریف اپنی پارٹی کے صدر تو ہیں مگر ان کے اختیارات مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر جتنے رہ گئے ہیں۔

نون کی تنظیمِ نو کے بعد پہلا امتحان نیب اسکینڈل تھا، توقع تھی کہ نون کا مزاحمتی بیانیہ استعفیٰ کا مطالبہ کرے گا مگر اہل مصلحت چھا گئے۔ کیا شاہد خاقان عباسی اور کیا خواجہ آصف، سبھی نیب زدگان ہیں سو سبھی نے استعفیٰ کا مطالبہ کرنے والے ملک احمد کو رگڑا اور مریم اورنگ زیب نے بھی اہلِ مصلحت کے موقف کو ہی پارٹی پالیسی قرار دیا حالانکہ نواز شریف کا موقف مختلف ہے، ایک پراپرٹی ٹائیکون نے نواز شریف کو صلح کا مشورہ دیا تو اس نے شرط رکھی کہ ٹی وی پر آ کر میرے ساتھ کی گئی زیادتیوں پر معافی مانگی جائے۔ ظاہر ہے اس کڑی شرط کے بعد سے مذاکرات کیا ہوں گے، صلح کیسے ہو گی؟

ابھی چند روز کی بات ہے نون کی قیادت نے جیل میں نواز شریف سے کہا یہ حکومت خود ہی اپنے بوجھ سے گرے گی، 2020 میں نئے الیکشن ہوں گے جس پر نواز شریف نے ہنستے ہنستے تبصرہ کیا کہ اچھا تو مجھے ایک سال آپ نے جیل میں ہی رکھنا ہے۔ اہلِ مصلحت یہ سمجھتے ہیں کہ نواز شریف زیادہ سے زیادہ دو سے 3سال جیل میں رہیں گے مگر آئندہ الیکشن سے پہلے باہر ہوں گے اور یوں اگلے الیکشن میں سب سے بڑی ’’کشش‘‘ پھر وہی ہوں گے۔

مجھے اہلِ مصلحت سے اختلاف ہے، میری ذاتی رائے یہ ہے کہ 600ارب روپے کے نئے ٹیکس ہضم نہیں ہوں گے اور پھر ستمبر اکتوبر کا بڑا عسکری فیصلہ اہم ترین کردار ادا کرے گا، کمان یہی رہی تو اور حالات ہوں گے، کمان بدلی تو اور حالات ہوں گے، چیف بدلتا ہے تو اسٹرٹیجی بدلتی ہے، ترجیحات بدلتی ہیں، چیف بدلتا ہے تو آرمی بھی بدل جاتی ہے۔ اس لئے تحریک انصاف کی حکومت کا مستقبل بہرحال معاشی اشاریوں اور عسکری فیصلہ سے طے ہو گا۔

یاد رہے کہ کل کے اہلِ مصلحت آج کے اہلِ مزاحمت بھی بن جاتے ہیں جیسے زرداری صاحب پہلے اہلِ مصلحت تھے مگر آج کل مزاحمت کے دور سے گزر رہے ہیں اور بالکل اسی طرح کل کے اہلِ مزاحمت شاہد خاقان و خواجہ آصف کو اہلِ مصلحت بننے میں ذرا دیر نہیں لگتی۔ اس سارے عمل میں قتل بیچارے اصول ہی ہوتے ہیں۔ رانا ثناءاللہ البتہ اس ریت روایت سے ماورا ہیں، وہ ہمیشہ سے اہلِ مزاحمت رہے ہیں اور اہلِ مزاحمت بھی اس قدر دبنگ کہ شہباز شریف کا قریبی ترین ساتھی ہوتے ہوئے بھی مزاحمت میں پیش پیش رہے۔

مریم نواز شریف نونی مزاحمت کا نیا چہرہ بن رہی ہیں۔ حمزہ کا ہاتھ پکڑ کر انہیں بھی اپنے بیانیے پر لانے کی کوشش میں ہیں۔ حمزہ کے پاس بھی آپشن نہیں بچا۔ دوسری طرف نیب مقدمات اور جیل کا ڈراوا ہے سو وہ بھی مزاحمتی بیانیے پر چلنے پر مجبور ہوں گے۔ نونی مزاحمت کا نیا بیانیہ البتہ تھوڑا سا تبدیل ہوا ہے، اب سارا فوکس مقتدر اداروں کی طرف نہیں بلکہ عمران حکومت اور اس کی معاشی پالیسیوں پر ہے۔ ویسے تو نونی بیانیے اور نئی تنظیمِ نو سے یوں لگتا تھا کہ اب مصلحت نہیں جدوجہد کی طرف توجہ ہو گی مگر تنظیمِ نو میں عطاء تارڑ کو لائل پور کا گھنٹہ گھر بنا کر یہی پیغام دیا گیا کہ اب بھی اصل فیصلے خاندانی بیورو کریسی ہی کرے گی۔ شہباز شریف کے ترجمان احمد ملک کو کونے لگایا گیا اور عظمیٰ بخاری کو پنجاب کے سیکرٹری اطلاعات کے عہدے پر سرفراز کیا گیا، یقیناً اس میں کوئی نہ کوئی مصلحت ہو گی۔ یہ سارے سیاسی کارکن ہیں، ان کے اوپر نیچے ہونے پر کسی کو کیا اعتراض ہو سکتا ہے البتہ دیکھنا یہ ہو گا کہ ان میں سے مصلحت کیش کون ہے اور مزاحمتی سیاست کا وارث کون؟
 

جاسم محمد

محفلین
جمہوری آوازوں کو کچلنے پر آمادہ حکومت اپنے انجام پر بھی غور کر لے
31/05/2019 سید مجاہد علی



پاکستان کے ایوان بالا سینیٹ نے کثرت رائے سے منظور کی گئی ایک قرارداد میں سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کے ججوں کے خلاف حکومتی ریفرنس کی مذمت کی ہے۔ قرار داد میں کہا گیا ہے کہ یہ ریفرنس جس خفیہ انداز میں بھیجے گئے ہیں، اس سے اس شبہ کو تقویت ملتی ہے کہ اس اقدام کاتعلق ججوں کے حالیہ فیصلوں سے ہے۔

واضح رہے کہ سپریم کورٹ کے سینئر جج قاضی فائز عیسیٰ نے اس سال فروری میں فیض آباد دھرنا کیس کا فیصلہ لکھا تھا اور اس میں فوج کے کردار پر نکتہ چینی کی گئی تھی۔ اس کے علاوہ اس فیصلہ میں قرار دیا گیا تھا کہ 2014 کے دھرنے میں ریاست کی رٹ کو چیلنج کیا گیا تھا، اسی لئے لبیک تحریک کو بھی نومبر 2017 میں فیض آباد پر دھرنا دینے کا حوصلہ ملا تھا۔ اس فیصلہ کی وجہ سے فوج اور تحریک انصاف کی حکومت، دونوں ہی جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف ہیں اور انہیں اپنی سیاست اور سیاسی معاملات میں مداخلت کی حکمت عملی کے لئے خطرہ سمجھتے ہیں۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اگر اس ریفرنس کے نتیجہ میں برطرف نہ کئے گئے تو وہ اگست 2023 میں ملک کے چیف جسٹس بن سکیں گے۔ قیاس کیاجارہا ہے کہ اس اندیشے سے نمٹنے کے لئے ابھی سے قاضی فائز عیسی ٰ سے نجات حاصل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

اس معاملہ پر قومی اسمبلی کے اجلاس میں بھی اپوزیشن کی طرف سے قرارداد پیش کی گئی تھی۔ لیکن حکومت اور اپوزیشن کے اراکین کے درمیان ججوں کے خلاف ریفرنس بھیجنے اور پشتون تحفظ موومنٹ کے ارکان محسن داوڑ اور علی وزیر کے بارے میں وزیر مملکت برائے پارلیمانی امور علی محمد خان کی بدکلامی کے پر ہونے والی ہنگامہ آرائی میں اس قرارداد پر رائے دہی نہیں ہوسکی۔ یوں بھی حکومتی اتحاد کو قومی اسمبلی میں اکثریت حاصل ہے اور وہ اپوزیشن کی قرارداد کو مسترد کرنے کی پوزیشن میں تھا۔ جبکہ سینیٹ میں حکمران تحریک انصاف اقلیت میں ہے۔

قومی اسمبلی کے اجلاس کے بعد بلاول بھٹو زرداری کی قیادت میں اپوزیشن جماعتوں کے اراکین نے میڈیا سے باتیں کرتے ہوئے حکومتی طرزعمل اور طریقہ کار کی شدید مذمت کی اور اسے پرویز مشرف کے آمرانہ ہتھکنڈوں کے مماثل قرار دیا۔ مسلم لیگ (ن) کے سینئر نائب صدر اور سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے ججوں کے خلاف حکومتی ریفرنس کو ججوں کی ’ٹارگٹ کلنگ‘ کے مترادف بتایا۔

ایوان میں پشتون تحفظ موومنٹ کے دو ارکان اسمبلی علی وزیر اور محسن داوڑ کا معاملہ بھی زیر بحث آیا۔ پیپلز پارٹی کے چئیرمین بلاول بھٹو زرداری نے ان دونوں زیر حراست ارکان کے پروڈکشن آرڈر کے لئے اسپیکر کو خط لکھا تھا لیکن اسپیکر کی طرف سے بتایا گیا کہ انہیں یہ خط موصول ہی نہیں ہؤا۔ اپوزیشن اسپیکر کے اس جواب کو جھوٹ سمجھتے ہوئے ابھی اسی پر نالاں تھی کہ وزیر مملکت برائے پارلیمانی امور علی محمد خان نے انتہائی غیر پارلیمانی انداز میں قومی اسمبلی کے اراکین علی وزیر اور محسن داوڑ کی حب الوطنی پر شبہ کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ایسے لوگوں کو اسمبلی کا رکن رہنے کا کوئی حق نہیں ہے۔ ان کی رکنیت ختم ہونی چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ’ پی ٹی ایم کے یہ ارکان پاکستان دشمن جذبات کی پرداخت کرتے ہیں اور افغان انٹیلی جنس ایجنسی کے ٹاؤٹ ہیں‘۔ علی محمد خان کی اس غیر پارلیمانی اور اشتعال انگیز تقریر پر بلاول بھٹو زرداری سمیت پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے اراکین نے شدید احتجاج کیا اور اسی ہنگامہ آرائی میں اجلاس غیر معینہ مدت کے لئے ملتوی کردیا گیا۔

بعد میں اپوزیشن کے دیگر لیڈروں کے ساتھ میڈیا سے باتیں کرتے ہوئے بلاول بھٹو زرداری نے کہا یہ حکومت آمرانہ ہتھکنڈوں پر عمل کررہی ہے اور خود مختار عدلیہ کو زیر نگین رکھنے کے طریقے اختیار کئے جارہے ہیں۔ مسلم لیگ (ن) کے شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ ’حکومت نے ججوں کے خلاف ریفرنس بھیج کر عدلیہ کو تباہ کرنے کے منصوبے کا آغاز کیا ہے۔ ان ریفرنسز کو واپس لیا جائے‘۔ انہوں نے کہا کہ اپوزیشن حکومت کے غیر جمہوری اقدامت کی سخت مزاحمت کرے گی۔

اس موقع پر بات کرتے ہوئے بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ سردار اختر مینگل نے موجودہ حکومت کو ڈھونگ قرار دیتے ہوئے کہا کہ ’اس وقت پاکستان میں صرف نام کی جمہوریت ہے۔ یہ حالات اور تحریک انصاف کی حکومت کا طریقہ کار ماضی کی آمرانہ حکومتوں جیسا ہے۔ ان ججوں کو ٹارگٹ کیا جا رہا ہے جنہوں نے ملک کی ان طاقتوں کو چیلنج کیا تھا جنہیں چھؤا بھی نہیں جا سکتا۔ ان حالات میں ہم سب کا فرض ہے کہ جمہوریت کی حفاظت کے لئے ہر ممکن قدم اٹھائیں۔ تاکہ جمہوریت کے لئے پاکستانی عوام کی قربانیاں رائیگاں نہ جائیں‘۔

گزشتہ دو ہفتے کے دوران یکے بعد دیگرے رونما ہونے والے واقعات نے ایک طرف حکومت کے جمہوری مزاج کے بارے میں سنگین سوالات اٹھائے ہیں تو دوسری طرف یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ کیا عمران خان کی حکومت کے پاس کسی قسم کا کوئی اختیار ہے بھی یا اس کی حیثیت محض کٹھ پتلی کی ہے۔ یوں تو جولائی 2018 کے انتخابات میں دھاندلی کا الزام عائد کرتے ہوئے عمران خان کو ’سیلکٹڈ‘ وزیر اعظم قرار دیا جاتا رہا ہے۔ اپوزیشن کے اس سخت گیر طرزعمل کو سیاسی ہتھکنڈا سمجھتے ہوئے ملک کے عوام بہر حال یہ محسوس کرتے رہے ہیں کہ سیاست میں تحریک انصاف نے پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کا متبادل فراہم کیا ہے۔ عمران خان اچھی شہرت کے نئے لیڈر ہیں۔ اس لئے امید کی جا رہی تھی کہ ماضی کی حکومتوں کے برعکس تحریک انصاف زیادہ عوام دوست منصوبوں کا آغاز کرے گی۔

حکومت کی معاشی نااہلی اور سیاسی شدت پسندانہ نعرے بازی کی وجہ سے عوام میں تبدیلی کی اس حکومت کے بارے میں قائم ہونے والی خوش فہمیاں تیزی سے ختم ہورہی ہیں۔ ملک کے اقتصادی معاملات کو سنبھالنے اور ان کے بارے میں کوئی مثبت منصوبہ بندی کرنے کی بجائے وزیر اعظم اور ان کے ساتھیوں نے سابقہ حکومتوں اور خاص طور سے نواز شریف اور آصف زرداری کی کردار کشی کا طرز عمل اختیار کیا۔ حالانکہ اقتدار میں آنے کے بعد ان سے گالم گلوچ کی بجائے سیاسی تدبر اور اہم قومی معاملات میں تمام پارلیمانی پارٹیوں کو ساتھ لے کر چلنے کی امید کی جا رہی تھی۔ تاہم عمران خان اپنے تبدیل شدہ کردار کی ضرورت اور نزاکت کو سمجھنے سے قاصر رہے ہیں۔

آج قومی اسمبلی میں وزیر مملکت علی محمد خان نے دو منتخب ارکان کے بارے میں جو زبان استعمال کی اور جس طرح انہیں پاکستان کا غدار قرار دینے کی کوشش کی ہے، اس سے تحریک انصاف کی کم ظرفی اور نااہلی کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔ علی محمد خان نے مقدس سمجھے جانے والے ایوان میں علی وزیر اور محسن داوڑ پر جوالزامات عائد کئے ہیں، وہ انہیں کسی عدالت میں ثابت کرنے کے اہل نہیں ہیں۔ کیوں کہ اگر حکومت یا اس کے سرپرستوں کے پاس پی ٹی ایم کے لیڈروں کی ’غداری‘ کے کوئی ثبوت ہوتے تو انہیں ایک فوجی چیک پوسٹ پر حملہ کے مشتبہ مقدمہ میں گرفتار کرنے کا اقدام نہ کیا جاتا۔

ملک میں انتہا پسندی کے خاتمہ اور سیاسی و مذہبی رائے کی بنیاد پر تقسیم کو ختم کرنے کے لئے افہام و تفہیم پیدا کرنے اور اختلاف رائے برداشت کرنے کے حوصلے کی ضرورت ہے۔ عمران خان اور ان کے ساتھی بار بار یہ ثابت کر رہے ہیں کہ وہ اختلاف برداشت کرنے کا حوصلہ نہیں رکھتے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اپنا اقتدار قائم رکھنے کے لئے مخالف سیاسی قائدین کی کردار کشی کو سب سے مؤثر ہتھیار سمجھتے ہیں۔ آج علی محمد خان نے یہ ہتھیار قومی اسمبلی کے فلور سے استعمال کیا ہے۔ حکومت سے ملک میں الزام تراشی اور فتوی فروشی کا طریقہ کار ختم کرنے کی امید کی جاتی ہے۔ وزیر مملکت پارلیمانی امور کی تقریر سے پتہ چلتا ہے کہ حکومت اس طریقہ کار کو سرکاری حکمت عملی کے طور پر اختیار کر رہی ہے۔ یہ رویہ نہ صرف جمہوریت بلکہ معاشرہ میں صحت مند سماجی اور سیاسی مزاج کی تشکیل کے لئے نہایت مہلک ثابت ہوگا۔

گزشتہ اتوار کو خڑ کمر چیک پوسٹ پر ہونے والے حملہ کے تناظر میں منتخب حکومت پر اس کی ذمہ داری قبول کرنے اور واقعہ کی غیر جانبدارانہ تحقیقات کروانے کا فرض عائد ہوتا تھا۔ اس کے برعکس حکومت الزام تراشی اور غداری کے طعنوں سے کام چلانے کی کوشش کررہی ہے۔ اسی طرح عدالتوں پر اعتبار کرنے، ان کے فیصلوں کا احترام کرنے اور ان پر عمل درآمد کروانے کی صحت مند روایت قائم کرنے کی بجائے سپریم کورٹ کے ایک ایسے جج سے نجات حاصل کرنے کی کوشش کی جارہی ہے جو فیض آباد دھرنا کے بارے میں بعض ایسے حقائق کو سامنے لائے تھے جن کی بنیاد پر ملک میں ہمہ وقت افواہ سازی کا ماحول گرم رہتا ہے لیکن اس معاملہ پر کھل کر بات کرنے کی اجازت نہیں دی جاتی۔

یہ حکومت صرف ایسے احتساب بیورو، ایسے ججوں اور صرف ان فیصلوں کو مانتی ہے جن سے اس کے اپنے سیاسی مقاصد پورے ہوتے ہوں۔ یا درپردہ قوتوں کی بالادستی کو تسلیم کرنے کا اصول چیلنج نہ ہوتا ہو۔ سپریم کورٹ کے فیصلوں پر عمل کروانا اگر حکومت کا کام ہے تو عمران خان کی حکومت کو جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنس بھیجنے سے پہلے اس بات کا جواب دینا چاہئے کہ فیض آباد دھرنا کیس پر دیے گئے حکم پر کس حد تک عمل کروایا گیا ہے؟

یہ قرین قیاس ہے کہ اس وقت تحریک انصاف اور اسٹبلشمنٹ اس لحاظ سے ایک پیج پر رہنے پر مجبور ہیں کہ وہ ایک دوسرے کی مجبوری اور ضرورت بنے ہوئے ہیں۔ اداروں اور منتخب حکومت کے اس اشتراک سے جمہوری اقدار کو پامال کیا جارہا ہے اور بنیادی حقوق متاثر ہورہے ہیں۔ انہی حقوق کے لئے آواز بلند کرنے پر پی ٹی ایم کا گلا گھونٹنے کی کوشش ہورہی ہے۔

عمران خان کو باور کرنا چاہئے کہ ان ہتھکنڈوں سے وہ تاحیات وزیر اعظم تو نہیں رہ سکیں گے لیکن جن طاقتوں کے بل بوتے پر وہ جمہوی روایت کو کچل رہے ہیں، کل ضرورت پڑنے پر وہی قوتیں ان کی قربانی بھی چاہیں گی۔ تب کوئی جمہوریت پسند ان کی حفاظت کے لئے سامنے نہیں آئے گا۔ کیوں کہ علی محمد خان جیسے عاقبت نااندیش انہی آوازوں کو دبانے کے درپے ہیں۔
 

آصف اثر

معطل
حکومت نے اخراجات میں ایک ہزار ارب روپے کااضافہ کردیا، مسلم لیگ (ن) - Pakistan - Dawn News

پاکستان مسلم لیگ (ن) نے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی حکومت کی کارکردگی کے حوالے سے حقائق نامہ جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ گزشتہ 9 ماہ کے دوران حکومت کی آمدنی میں کمی آئی ہے اور اخراجات میں ایک ہزار ارب روہے کا اضافہ ہوگیا ہے۔

سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے سابق وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل اور مریم اورنگ زیب کے ہمراہ اسلام آباد میں نیشنل پریس کلب میں نیشنل پریس کلب میں 31 مئی 2018کو حکومت چھوڑنے اور یکم جون 2019 تک ایک سال کے عرصے کے دوران پی ٹی آئی حکومت کا تقابلی جائزہ پیش کیا اور حقائق نامہ جاری کرتے ہوئے حکومت کی پالیسیوں کو خطرناک قرار دے دیا۔

پاکستان مسلم لیگ (ن) کے رہنماؤں کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی حکومت کے 9 ماہ میں حکومت کی آمدن کم اور اخراجات میں ایک ہزار ارب روپے (18 فیصد) اضافہ ہوچکا ہے اور ملک کی مجموعی قومی ترقی 5.8 فیصد سے نصف کم ہوکر تین فیصد پر آچکی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ایک سال میں افراط زر 4.2 فیصد سے 127 فیصد اضافے کے ساتھ 9.5 فیصد کی شرح پر پہنچ چکا ہے۔

تحریر جاری ہے‎


سابق وزیراعظم کا کہنا تھا کہ قومی ترقی میں تنزلی اور سست روی جس کے ساتھ ساتھ افراط زر کی انتہائی بلند شرح سے ملک ’معاشی جمود‘ کے دور میں داخل ہوگیا ہے جس سے ہماری قومی سلامتی، خودمختاری اور خارجہ پالیسی متاثر ہونے کے خدشات لاحق ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ قرضوں کا حجم صرف 9ماہ میں 25 ہزار ارب سے 28.6 ہزارارب روپے پر پہنچ چکا ہے اور اگر رفتار یہی رہی تو پانچ سال بعد یہ قرض ملکی تاریخ میں سب سے بلند ترین 50 ہزار ارب تک پہنچ جائے گا۔

سابق وزیراعظم اور مسلم لیگ (ن) کے سینئر نائب صدر شاہد خاقان عباسی کے مطابق ایک سال میں مجموعی قومی قرض میں 15 فیصد، قرض اور ادائیگیوں میں 17 فیصد، حکومتی بجٹ خسارے میں 28 فیصداضافہ ہوا ہے جبکہ سرکاری شعبے کے وفاقی ترقیاتی پروگرام ( پی ایس ڈی پی) میں منفی 30 فیصد کمی ہوئی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ٹیکس ریونیو میں ایک فیصد اضافہ ہوا جبکہ شرح سود میں 88 فیصد، افراط زرمیں 92 فیصد اور مئی سے مئی تک ایک سال میں افراط زر میں 127 فیصد اضافہ ہوا ہے۔

شاہد خاقان عباسی نے کہاکہ یہ تمام اعدادوشمار مسلم لیگ (ن) کے بنائے ہوئے نہیں ہیں بلکہ حکومت اور بینک ذرائع کی جانب سے ترتیب دیے گئے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم قوم کے سامنے ایک واضح تصویر اور موازنہ رکھنا چاہتے ہیں تاکہ انہیں معلوم ہوں کہ 9ماہ میں حکومت نے اپنی نالائقی اور نااہلی سے ابھرتی ہوئی معیشت کو ڈوبتی ہوئی معیشت میں تبدیل کردیا ہے اور انتہائی تشویش ناک صورت حال درپیش ہے۔

یہ بھی پڑھیں:حکومت نے پیٹرول کی قیمت میں تیسری مرتبہ اضافہ کردیا

انہوں نے کہاکہ 2018ءمیں ختم ہونے والے مالی سال میں ریونیو 4 ہزار ارب تھا اور اس مالی سال میں بھی حکومتی ریونیو چار ہزار ارب ہوگا جو بہت تشویش کا باعث ہے کیونکہ یہ ہدف سے کم ہیں۔

سابق وزیراعظم نے کہا کہ خسارے کے اثرات ملک وقوم پر مرتب ہوتے ہیں، حکومت کی آمدن میں ایک روپے کا اضافہ نہیں ہوا اور حکومت یہ بتانے سے قاصر ہے کہ اس کی کیا وجوہات کیا ہیں۔

حکومتی اخراجات کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ حکومتی اخراجات جنہیں اخراجات جاریہ کہاجاتا ہے، اس مالی سال میں بڑھ کر سات ہزار ارب روپے تک جاپہنچے ہیں جبکہ 2018 میں ختم ہونے والے مالی سال میں حکومتی اخراجات پانچ ہزار سات سو ارب تھے اور یوں حکومتی اخراجات میں ایک ہزار ارب روپے کا اضافہ ہوا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ اخراجات ان لوگوں کے دور میں ہوئے ہیں جو کفایت شعاری اور اخراجات میں کمی کے دعوے کیا کرتے تھے یعنی یہ تمام دعوے جھوٹ ثابت ہوئے ہیں۔

انہوں نے گزشتہ برس کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ 2018 میں 576ارب روپے کی ترقی ہوئی اور رواں سال اس مد میں 175 ارب روپے کی کمی ہوئی ہے اور مجموعی طور پر اس سال 403 ارب کی ترقی ہوئی ہے اور اگر 2017 سے اب تک موازنہ کریں تو ملک میں ترقیاتی کاموں کے شعبے میں 320 ارب کی کمی ہوئی ہے۔

مزید پڑھیں:آئندہ مالی سال میں مہنگائی 12 فیصد ہو جائے گی، شاہد خاقان عباسی

شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ موجودہ حکومت نے نوماہ میں غیرملکی قرض میں پانچ ارب ڈالر کا اضافہ کیا ہے، یہ دنیا میں رائج ایک ماڈل ہے جس میں قرض لے کر تعمیرات کی جاتی ہیں، موٹرویز، انفراسٹرکچر بنایاجاتا ہے، نوکریاں پیدا کی جاتی ہیں، کاروبار چلایا جاتا ہے اور اس طرح قرض واپس کیے جاتے ہیں اور ملک کو ترقی دی جاتی ہے۔

انہوں نے کہاکہ ڈالر کے لحاظ سے ہماراجی ڈی پی میں 313 ارب ڈالر تھا، آج 280 ارب پر آچکا ہے، اس سے کیسے نکلا جائے، حکومت کے پاس کوئی سمت یا حکمت عملی نہیں۔

مسلم لیگ (ن) کے سینئر نائب صدر نے کہا کہ پالیسی ریٹ یا شرح سود 6 فیصد سے سوا 12 فیصد پر پہنچ چکا ہےجس کے اثرات ملک وقوم پر انتہائی منفی ہوں گے، جب شرح سود اتنی زیادہ ہوگی تو کون قرض لے گا اور کون کاروبار کرے گا کیونکہ حکومت خود سب سے زیادہ قرض لینے والی ہوتی ہے اور اس صورت میں حکومت کو قرض کی قسط ادا کرنے کے لیے زیادہ آمدن درکار ہوگی، جو ہے نہیں اور اس سے بینکوں کا دیوالیہ پن بڑھ جائے گا۔

شاہد خاقان عباسی نے کہاکہ ملکی مجموعی قرض اور ادائگیوں میں 3600ارب اضافہ ہوا جس میں نجی شعبے کا قرض بھی شامل ہے، یہ قرض 30 سے 35 ارب پر جاپہنچا ہے اور حکومت کا بجٹ خسارہ 2260ارب سے 2894 ارب پر جاپہنچا ہے جو 28 فیصد اضافہ ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ایک سال کا تقابلی جائزہ قوم کے سامنے رکھا ہے کہ مسلم لیگ (ن) نے ملک کو کہاں چھوڑا تھا اور آج خارجہ اور قومی سلامتی پالیسی معیشت کے تابع ہوچکی ہیں، یا معیشت بچائیں گے یا فارن پالیسی بچائیں گے۔۔

سابق وزیر اعظم نے کہا کہ ہماری خودمختاری بھی آج خطرے میں ہے، آج پاکستان کی خودمختاری کی بات ہے۔

پیٹرول کی عالمی منڈی میں قیمتوں کے حوالے سے ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ پٹرولیم کی یہی سطح ہمارے دور میں تھی، اس وقت بھی 65 سے 70 کا برنٹ تھا، آج بھی وہی ہے۔

شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ ہماری معیشت کمزور ہوئی تو عسکری لحاظ سے بھی کمزور ہوں گے، آپ کی خارجہ پالیسی اور سلامتی پالیسی بھی کمزور ہوگی، آپ کی خودمختاری پر بھی اثر پڑے گا۔
 

جاسم محمد

محفلین
شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ ہماری معیشت کمزور ہوئی تو عسکری لحاظ سے بھی کمزور ہوں گے، آپ کی خارجہ پالیسی اور سلامتی پالیسی بھی کمزور ہوگی، آپ کی خودمختاری پر بھی اثر پڑے گا۔
اب عسکری اسحاق ڈالر کو تو واپس بلانے سے رہے۔۔۔
 

جاسم محمد

محفلین
شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ موجودہ حکومت نے نوماہ میں غیرملکی قرض میں پانچ ارب ڈالر کا اضافہ کیا ہے، یہ دنیا میں رائج ایک ماڈل ہے جس میں قرض لے کر تعمیرات کی جاتی ہیں، موٹرویز، انفراسٹرکچر بنایاجاتا ہے، نوکریاں پیدا کی جاتی ہیں، کاروبار چلایا جاتا ہے اور اس طرح قرض واپس کیے جاتے ہیں اور ملک کو ترقی دی جاتی ہے۔
ن لیگی وزیر خزانہ نے جس تیزی سے ریکارڈ بیرونی قرضے لے کر قومی خزانہ بھرا۔ اسی تیزی سے اسے خالی کر کے بھاگ کھڑے ہوئے۔
Capture.jpg

ویسے کیا سڑکیں، پل اور انفراسٹرکچر بنانے سے آمدنی ڈالر میں ہوتی ہے جو بیرونی قرضہ واپس کرنے میں مدد ملتی ہے؟ :sneaky:
 

جاسم محمد

محفلین
انہوں نے کہاکہ ڈالر کے لحاظ سے ہماراجی ڈی پی میں 313 ارب ڈالر تھا، آج 280 ارب پر آچکا ہے، اس سے کیسے نکلا جائے، حکومت کے پاس کوئی سمت یا حکمت عملی نہیں۔
کیونکہ سابقہ مفرور وزیر خزانہ نے ڈالر مصنوعی سطح پر رکھا ہوا تھا۔ اگر وہ اسے فری فلوٹ کر دیتے تو مہنگائی کا بم نئی حکومت کے دور میں نہ گرتا۔
 

جاسم محمد

محفلین
ان کا کہنا تھا کہ قرضوں کا حجم صرف 9ماہ میں 25 ہزار ارب سے 28.6 ہزارارب روپے پر پہنچ چکا ہے اور اگر رفتار یہی رہی تو پانچ سال بعد یہ قرض ملکی تاریخ میں سب سے بلند ترین 50 ہزار ارب تک پہنچ جائے گا۔
پاکستان پچھلے 10 سالوں سے قرضوں کے دلدل میں دھنسا ہوا ہے۔ اپوزیشن نے ملک و قوم پر اتنا زیادہ قرضہ چڑھا دیا کہ نئی حکومت کے پاس اس کا سود تک ادا کرنے کے پیسے نہیں ہیں۔
Capture.jpg

Capture.jpg

ان حالات میں نئے قرضے صرف پرانے قرضے ایڈجسٹ کرنے کیلئے لئے جا رہے ہیں۔ بیرونی قرضے لے کر عوام کو ریلیف فراہم کرنے والی کھڑکی پوری دنیا نے پاکستانیوں پر بند کر دی ہے۔ مبارک ہو بہت بہت۔
 

جاسم محمد

محفلین
تاریخ کا عدل
02/06/2019 سہیل وڑائچ



وہ برطانیہ کی ٹاپ یونیورسٹی سے پڑھ کر پاکستان آیا تو اس کا مقصد تاریخ بنانا تھا۔ وہ کچھ کرکے دکھانا چاہتا تھا، اس نے اپنے دامن پر جانب داری اور کرپشن کا کوئی داغ نہ لگنے دیا۔ وہ بہت محنت سے اپنا مقام بناتا گیا، اس کی ساکھ بھی اچھی تھی مگر پھر وہی ہوا جو ہر بڑے آدمی کے ساتھ ہوتا ہے۔ تاریخ امتحان لیتی ہے، دیکھتی ہے کہ آپ اصول پر کھڑے ہیں یا بڑے آدمی ہوکر مصلحت کا شکار ہو گئے ہیں۔ وہ تاریخ کا بڑا شائق ہے اور ہر باضمیر کی طرح تاریخ میں زندہ رہنا چاہتا ہے مگر اب ایک ساتھی کے احتساب کا دباؤ آگیا۔ اس کے جانے میں چند ماہ باقی ہیں، تاریخ اس کے عدل کا فیصلہ اس امتحان کی بنیاد پر ہی کرے گی، فریق دو ہیں، ایک ساتھی اور دوسرے طاقتور حلقے اور حکومت۔ تاریخ منتظر ہے کہ تاریخ کا طالب علم کیا فیصلہ کرے گا؟

ساتھی بھی کوئی عام نہیں، وہ ملک بنانے والوں کا فرزند ہے۔ اس کے مخالف بھی اس کی مالی دیانت کی گواہی دیتے ہیں۔ وہ بے خوف ہے بلکہ کچھ زیادہ ہی بے خوف ہے۔ سرعام ایسی باتیں کر جاتا ہے جو طاقتوروں کو نالاں کر دیتی ہیں۔ اس نے ایسے فیصلے لکھے ہیں جس میں مقتدرہ کی سیاسی اور انتظامی مداخلت پر شدید تنقید کی گئی ہے۔ اس کے خلاف ریفرنس میں بھی کرپشن کا الزام نہیں لگایا گیا، بلکہ کہا گیا ہے کہ اس کی اہلیہ کے غیر ملکی اثاثوں کو ظاہر نہیں کیا گیا۔ یوں اس نے ملکی قوانین کے مطابق جرم کیا ہے۔ معاملہ تاریخ کی عدالت میں ہے اور اہم ترین کردار تاریخ کے اس طالب علم کا ہوگا جو تاریخ بنانا چاہتا ہے۔

اور وہ جس نے ریفرنس بنوایا اور بھجوایا، بہت عقلمند ہے، فروغِ عقل پر یقین رکھتا ہے، بادِ نسیم کی طرح مشکل راہوں پر چل کر بھی اپنا مقصد حاصل کرتا آیا ہے، متحدہ کی چیر پھاڑ کا کامیاب آپریشن ایسے طریقے سے کیا ہے کہ ”دامن پہ کوئی چھینٹ نہ خنجر پہ کوئی داغ“ دیکھنا یہ ہوگا کہ یہ شریف الدین پیرزادہ جیسا عقلمند نکلے گا یا عاصمہ جہانگیر جیسا۔ شریف الدین پیرزادہ نے اپنی ساری عقل آمروں کے حق میں اور عوام کے خلاف استعمال کی، آج ان کی برسی منانے والا بھی کوئی نہیں۔

دوسری طرف عاصمہ جہانگیر نے غریبوں اور مظلوموں کی حمایت کی۔ وہ مر گئی مگر اس کا نام اب بھی گونجتا ہے۔ عقلمند وہ نہیں جو اپنے زمانے میں اپنی عقل سے فوائد سمیٹتا ہے اور اس کے بدلے میں اپنی عقل عوامی مفاد کے خلاف استعمال کرتا ہے۔ یاد رکھیں تاریخ میں زندہ وہ رہتا ہے جو اپنی صلاحیتیں اور عقل و دانش عوام کے حق میں استعمال کرتا ہے۔ دیکھنا ہوگا کہ وہ فروغِ عقل کا ہمراہی ہے، بادِ نسیم کا جھونکا ہے یا پھر تاریخ کا ایک ناگوار لمحہ۔

فیصلہ تو انسان نے بہرحال خود ہی کرنا ہوتا ہے۔ تاریخ میں انسان زندہ کیسے رہتا ہے، کوئی لشکر یزید کا سربراہ ہو بھی تو اسے مذمت ملتی ہے اور کوئی قافلہ حسینؓ کا گمنام سپاہی بھی ہو تو اسے سرفرازی ملتی ہے۔ طوفان پورے زور پر ہو، آندھیاں اور جھکڑ چل رہے ہوں تو ایسے میں بڑے آدمی خطرات، تحفظات اور مفادات سے بے پروا ہوکر کمزوروں اور مظلوموں کا ساتھ دیتے ہیں۔ منصف کا فیصلہ عارضی ہوتا ہے، اس کا اثر جسموں پر ہوتا ہے مگر تاریخ کا فیصلہ دائمی اور اٹل ہوتا ہے۔

اس فیصلے کا اثر روحوں پر ہوتا ہے۔ سقراط کو منصفوں نے انصاف نہ دیا، اسے زہر کا پیالہ پلا دیا گیا مگر تاریخ کے عدل میں سقراط آج بھی زندہ ہے۔ گلیلیو اور ابنِ رشد کے خلاف بھی منصفوں اور قاضیوں نے مذہبی عقائد سے پھرنے کے الزامات عائدکیے مگر تاریخ کی عدالت میں آج گلیلیو جدید سائنس کا بانی اور ابنِ رشد عالم اسلام کا عظیم ترین سائنس دان کہلاتا ہے۔ آج گیند جس کورٹ میں بھیجی گئی ہے اسی نے فیصلہ کرنا ہے کہ وہ تاریخ میں زندہ رہے گا، بہادری اور جرأتمندی سے مظلوموں کا ساتھ دے گا یا پھر دنیاوی وقار کے نشے میں عوامی آدرشوں کو تاراج کرکے طاقتوروں کی داد حاصل کرے گا؟

اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا، کہنا مشکل ہے۔ برصغیر کی روایت البتہ یہی ہے کہ پانی نشیبی علاقوں کی طرف ہی بہتا ہے، کمزور ہی پستے رہے ہیں اور طاقتور ہمیشہ سے ہی راج کرتے رہے ہیں لیکن منطقی طور پر دو ہی فیصلے ممکن ہیں ؛ ایک یہ کہ الزام کو درست مان کر بانیانِ پاکستان کے فرزند کو فارغ کر دیا جائے اور دوسرا یہ کہ الزام کو مسترد کرکے ریفرنس بھیجنے والوں کو شرمندہ کر دیا جائے۔ الزام درست قرار دیا جاتا ہے تو وہ اپنے گھر چلا جائے گا، یوں عظمیٰ کے گھر میں واحد اختلافی آواز بھی ختم ہو جائے گی۔

دھرنے اور دوسری شرارتوں پر کوئی اعتراض کرنے والا نہیں رہے گا۔ سقراط کو بھی اسی لئے مارا گیا تھا کہ معاشرے میں کوئی اختلاف نہ کر سکے۔ گلیلیو اور ابن رشد بھی اسی جذبے کا شکار ہوئے تھے، ایک اور قربانی سہی۔ وہ قاضی القضاۃ نہیں بن سکے گا اور کوئی دوسرا اعجاز دکھا کر ایک کی بجائے دو سال احسن طریقے سے نظام چلائے گا، نہ مقتدرہ کو فکر ہوگی اور نہ حکومت کو۔ نہ سقراط ہوگا اور نہ اختلاف۔ وہ گیا تو عظمیٰ کے گھر سے اختلاف کی برکت بھی جاتی رہے گی پھر سب ایک ہی آواز اور ایک ہی سُر میں راگ الاپیں گے۔ ایک پرندہ اڑ بھی گیا تو کیا؟ ایک عقاب مر بھی گیا تو کیا؟

کسی کو فرق پڑے نہ پڑے، اہلِ ضمیر کو تو فرق پڑتا ہے، باضمیر کا خون کھول اٹھتا ہے۔ شیر کا بیٹا بھی شیر ہی نکلا۔ فخر الدین عرف فخرو بھائی ہر اصولی اختلاف پر ا ستعفیٰ دے مارتے تھے، ان کا بیٹا زاہد بھی باپ پر ہی گیا۔ ادھر ریفرنس آیا، ادھر اس نے جھٹ ڈپٹی اٹارنی جنرل کے عہدے سے استعفیٰ دے دیا۔ چاہے اس سے ذرہ برابر بھی فرق نہ پڑے لیکن ایک بات تو طے ہے کہ زاہد فخرو کا شمار باضمیروں میں ہوگا۔

اس سارے معاملے میں دلچسپ بات یہ ہے کہ اس ریفرنس کو کابینہ سے بالا بالا ہی رکھا گیا۔ نہ کسی وزیر سے مشورہ کیا گیا اور نہ ہی اس معاملے کے سیاسی فال آؤٹ پر رائے لی گئی۔ اصل میں حکومت کو نہ حزب مخالف کا خوف ہے اور نہ ہی وکلاء کے ردعمل کا۔ کیونکہ اسے یقین ہے کہ مقتدر ادارے مکمل طور پر اس کی پشت پر ہیں۔ اس وجہ سے ہٹائے جانے کا خوف تک نہیں۔ اس حد تک تو یہ معاملہ صحیح ہے لیکن اگر ردعمل بڑھ گیا تو پھر منصف برادران ہوں یا مقتدرہ کے افسران، سب ساتھ چھوڑ جائیں گے۔

حکومت کا خیال ہے کہ اس معاملے پر تحریک نہیں چل سکتی۔ وہ کہتے ہیں اگر ریفرنس ناکام بھی ہوگیا تو شریف منصف باعزت بری ہوکر بھی استعفیٰ دیدے گا، یوں ریفرنس کی کامیابی یا ناکامی دونوں صورتوں میں نڈر منصف کو گھر بھیجنے کی منصوبہ بندی کی جا رہی ہے۔ اگر تو فیصلہ حکومتوں نے کرنا ہے تو اسے کئی عوامل اور حالات کا سامنا کرنا ہوگا، وہ عظمیٰ کے گھر میں رہے یا نہ رہے، تاریخ کے عدل میں ضرور سرخرو ہوگا لیکن وہ منصف یاد رکھے کہ مسئلہ کا حل استعفیٰ نہیں بلکہ ڈٹ جانا ہے۔
 

جاسم محمد

محفلین
پی ٹی آئی نے ملک بھر کے تمام پارٹی عہدے تحلیل کردیے
ویب ڈیسک 4 گھنٹے پہلے
1689963-pti-1559476722-822-640x480.jpg

تحریک انصاف نے نئے پارٹی انتخابات کے پیش نظر ملک بھر کے عہدے تحلیل کیے، ذرائع۔ فوٹو: فائل


اسلام آباد: پاکستان تحریک انصاف نے ملک بھر کے تمام پارٹی عہدے تحلیل کردیے۔

پی ٹی آئی نے ملک بھر کے تمام پارٹی عہدے تحلیل کردیے جس کے بعد چاروں صوبوں، گلگت بلتستان اور اسلام آباد میں پارٹی کے موجودہ ڈھانچے اور ونگز ختم کردیے گئے ہیں، ذرائع کا کہنا ہے کہ تحریک انصاف نے نئے پارٹی انتخابات کے پیش نظر ملک بھر کے عہدے تحلیل کیے۔

تحریک انصاف کی جانب سے جاری نوٹیفکیشن کے مطابق چیئرمین، چیف آرگنائزر، وائس چیئرمین اور سیکرٹری جنرل سمیت پارٹی کے سیکرٹری خزانہ، سیکرٹری اطلاعات اپنے عہدوں پر کام جاری رکھیں گے۔
 

جاسم محمد

محفلین
یا اللہ یا رسول خان صاحب بے قصور
02/06/2019 وسعت اللہ خان

انگریزی کا محاورہ ہے ” بارکنگ اپ دی رانگ ٹری “۔یعنی غلط درخت پر بھونکنا۔اس کا پس منظر یہ ہے کہ کتا کسی شکار کا تعاقب کرتا ہے اور شکار تیزی سے ایک درخت پر چڑھ کر دوسرے پر چھلانگ مارتے ہوئے یہ جا وہ جا۔ مگر کتا پہلے درخت کے نیچے ہی کھڑا بھونکتا رہتا ہے ۔بہت دیر بعد احساس ہوتا ہے کہ شکار تو کب کا کہیں سے کہیں نکل لیا اور درخت بے قصور ہے۔

اب ذرا غور فرمائیے کہ ہم سب روزانہ کتنی بار یہ حرکت بذاتِ خود فرماتے ہیں۔ پھل یا سبزی مہنگے ملیں تو گالیاں ٹھیلے والے کو پڑتی ہیں حالانکہ وہ غریب تو خود اپنا سامان منڈی کے کسی ذخیرہ اندوز آڑھتی سے مہنگے داموں خرید کر لایا ہے اور اپنا منافع رکھ کے آپ کو فروخت کر رہا ہے۔

پٹرول کی قیمت میں آٹھ روپے لیٹر کا اضافہ ہو جائے تو موٹر سائیکل سوار پٹرول پمپ والے لڑکے پر غصہ نکالتا ہے۔ جب کہ اضافہ تو اوگرا کی سفارش پر حکومت کرتی ہے۔اس غریب لڑکے کا اس پورے معاملے سے نہ لینا ایک نہ دینا دو۔

میں نے تو کئی معصوم صارفین کو بجلی اور گیس کے بل میں اضافے کی شکایت بھی اس مسکین بینک کیشئر سے کرتے دیکھا ہے جس کا کام بس اتنا ہے کہ آپ سے بل لے کر پیسے گنے اور جمع کر کے مہر لگا کے بل واپس کر دے۔

بینکوں نے کریڈٹ کارڈ کی شکایات کے لیے کال سنٹرز کے مخصوص نمبر دے رکھے ہیں۔ میں نے کئی پڑھے لکھے کریڈٹ کارڈ ہولڈرز کو ان نمبروں پر فون کر کے کال اٹینڈ کرنے والے آپریٹرز کو گالیاں دیتے سنا ہے ۔گویا کریڈٹ کارڈ سٹیٹمنٹ میں غلطی کے ذمہ دار دراصل یہی دیہاڑی دار آپریٹرز ہیں۔حالانکہ ان کا کام تو بس آپ کی بات یا شکایت سن کر کارروائی کے لیے آگے بڑھانا ہے۔آگے بینک جانے اور آپ ۔

عید کے موقع پر من مانے کرائے ٹرانسپورٹ کمپنی کے سیٹھ کی تجوری میں جا رہے ہیں مگر مشتعل مسافروں کے ہاتھ بس ڈرائیور اور کلینر کے گریبان پر ہیں۔ ہر بازار میں مفت پارکنگ کی جگہوں پر بھی پیسے بدمعاشیہ وصول کر رہی ہے مگر گاڑی والے پارکنگ کی پرچی تھمانے والے اس لمڈے کی ماں بہن ایک کر رہے کہ جو خود دو ڈھائی سو روپے کی دہاڑی پر یہ گالیاں سننے پر مجبور ہے۔ اس بچارے کو تو اصلی بدمعاش کا نام تک نہیں معلوم ۔

اور یہی سب حرکتیں کرنے والے ہم اور آپ اب پی ٹی آئی حکومت کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں۔ حالانکہ ان بچاروں کا بس اتنا قصور ہے کہ انہیں بچپن سے حکومت سنبھالنے کا شوق تھا۔ بادشاہ گروں نے ان کا شوق پورا کر دیا اور ظالم مجمع کے سامنے لے جا کر کھڑا کر دیا۔ بالکل ایسے ہی جیسے چھوٹا بچہ جب گاڑی چلانے کی مسلسل ضد کرتا ہے تو بڑا بھائی یا باپ اسے گود میں بٹھا لیتا ہے اور بچہ سٹیرنگ گھماتے ہوئے سمجھتا ہے کہ وہی ڈرائیو کر رہا ہے۔

اب کہیں آٹھ نو ماہ بعد احساس ہو رہا ہے کہ یہ حکومت نہیں چاکری ہے اور کام بس اتنا ہے کہ روزانہ داتا صاحب جانا ہے ، لنگر سے خود بھی پیٹ بھرنا ہے اور شاپر ڈبل کروا کے مالک کے لئے بھی کھانا لانا ہے۔

ممکن ہے میں مبالغہ کر رہا ہوں اور صورتِ حال ایسی نہ ہو۔چلئے اس کو یوں سمجھ لیتے ہیں کہ گورنمنٹ لمیٹڈ کمپنی میں پی ٹی آئی کو اکیاون فیصد شئیرز دئیے گئے اور انچاس فیصد دیگر اداروں نے اپنے ہاتھ میں رکھے۔خان صاحب کو کمپنی کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کا چیرمین بنا دیا گیا۔

مگر سٹاک کے حالات بہتر ہونے کے بجائے کچھ اتنی تیزی سے بگڑے کہ پی ٹی آئی کو اپنے تیس فیصد حصص دیگر شئیرز ہولڈرز کو فروخت کرنے پڑ گئے تاکہ کمپنی دیوالیہ نہ ہو جائے۔اب پی ٹی آئی کے پاس اکیس فیصد اور دیگر کے پاس اناسی فیصد شئیرز آ گئے ہیں۔پالیسی اکثریتی شیئر ہولڈرز کی چل رہی ہے مگر خان صاحب بدستور اعزازی چیرمین ہیں ۔تاکہ جس کو جو بھی اچھا برا کہنا ہے وہ ان کی تصویر سے کہہ لے اور توجہ پسِ تصویر نہ جائے۔

بہت عرصے پہلے اخبارات میں خبریں آتی تھیں کہ سادہ لوح افراد کو ریکروٹنگ ایجنٹ نے دوبئی کا جھانسہ دیا اور دو دن کے سفر کے بعد لانچ کو گوادر کے قریب ویرانے میں لنگر انداز کر کے مسافروں سے کہا لو بھئی ، تمہارے پیسے پورے۔ دوبئی آ گیا۔

مجھے لگتا ہے موجودہ حکومت کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہاتھ ہوا ہے۔اسے کچھ کہنا بارکنگ اپ دی رانگ ٹری ہے۔
 

جاسم محمد

محفلین
کیا وقت آگیا!
03/06/2019 ارشاد بھٹی


کیا وقت آگیا، ہوا کیا، ہو کیا رہا، عمل کیا، ردِعمل کیا، دو جج صاحبان کیخلاف شکایات، صدر مملکت نے ریفرنسز سپریم جوڈیشل کونسل بھجوائے، اس پر ایسا شور، ہال دہائیاں، دھمکیاں، ڈرامے بازیاں، درفنطنیاں، خدا کی پناہ، بندہ پوچھے، کیا ججز کا احتساب نہیں ہو سکتا، کیا جج صاحبان کے خلاف ریفرنسز بھیجنا صدرِ مملکت کا غیر آئینی قدم، کیا سپریم جوڈیشل کونسل میں جسٹس کھوسہ، جسٹس گلزار جیسے جج صاحبان پر دباؤ ڈال کر کوئی خلاف قانون کام کروا سکتا ہے؟ یقیناً نہیں، پھر کیوں۔

اِدھر ریفرنسز کی خبریں منظر عام پر آئیں، اُدھر ایڈیشنل اٹارنی جنرل استعفیٰ لکھ ماریں، مریم سے بلاول تک، (ن) لیگ سے پی پی تک، سب ایسے تڑپیں جیسے دشمن ملک نے ہماری عدلیہ پر حملہ کردیا، بلاول کی سنیں ’’حکومت جمہوریت پسند ججوں کو فارغ کرنا چاہ رہی‘‘ ماشاءاللہ، بلاول صاحب اب یہ بھی بتا دیں کون کون سے جج جمہوریت پسند، کون کون سے آمریت پسند، مریم نواز نے اوپر نیچے 5ٹویٹس جڑ دیئے، جب والد نواز شریف عدالتوں پر گولہ باری کر رہے تھے، تب مریم نواز کے 50 ٹویٹس ایسے، ہر ٹویٹ کے انگ انگ سے عدلیہ کی ’ عزت افزائی‘ چھلکے۔

پھر مریم نواز کا وہ راولپنڈی جلسے کے دوران اسٹیج پر ترازو منگوا کر ذومعنی گفتگو کرنا، ان کے عوامی جلسوں میں لگی عوامی عدالتیں، وہ سپریم کورٹ کو پی سی او بتوں سے پاک کرنے کی للکاریں، وہ احتساب کرنے والوں کیلئے عرصہ حیات تنگ کرنے کی بڑھکیں، وہ نواز شریف کا فرمانا ’’ہم کوئی بھیڑ بکریاں ہیں جو یہ فیصلے مانیں، ججز تو بغض و عناد سے بھرے بیٹھے، ملک میں ثاقب نثار کی بدترین ڈکٹیٹر شپ، ہم 5ججوں کو ووٹ کی عزت نیلام کرنے نہیں دیں گے‘‘، یہ، اس طرح کے بیسیوں بیانات، کیا بتانے، کیا دہرانے۔

کیا وقت آگیا، مسلم لیگ کے چیئرمین راجہ ظفر الحق سینیٹ میں ججز سے اظہار یکجہتی کی قرارداد پیش کر چکے، سجان اللہ، ضیاءالحق کے اس اوپننگ بیٹسمین کو تب ججز اظہار یکجہتی قرارداد پیش کرنے کی توفیق نہ ہوئی جب سابق صدر رفیق تارڑ نوٹوں بھرا بریف کیس لے کر کوئٹہ پہنچے تھے، جب سیف الرحمان جسٹس قیوم سے بے نظیر بھٹو کو من چاہی سزائیں دلوا رہے تھے، جب نواز شریف، لغاری لڑائی میں سپریم کورٹ ججز کو لڑایا جارہا تھا۔

جب قیمے والے نان کھلا کر سپریم کورٹ پر حملہ کروایا جا رہا تھا، جب نوا زشریف، مریم نواز سمیت 80فیصد لیگی رہنما ہر روز سپریم کورٹ پر چڑھائیاں کیا کرتے، جب شاہد خاقان عباسی نے الیکشن ٹربیونل کا فیصلہ خلاف آنے پر کہا ’’جج ذہنی طور پر ڈسٹرب، میں سب کے سامنے اس پر حملہ کروں گا‘‘ اور جب بحیثیت وزیراعظم شاہد خاقان عباسی سپریم کورٹ کے فیصلے کو ردی کی ٹوکری میں پھینک رہے تھے، باقی زرداری صاحب، بلاول، پیپلز پارٹی نے اپنے وقتوں میں عدلیہ کا جو احترام کیا، وہ بھی سب کے سامنے، وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کو نااہل کروانا پسند فرما لیا مگر سپریم کورٹ کا حکم نہ مانا۔

کیا وقت آگیا، کل تک نواز شریف سے آصف زرداری تک، بلاول سے مریم تک، رضاربانی سے شاہد خاقان عباسی تک، مولانا فضل الرحمٰن سے محمود اچکزئی تک، ہر جماعت، ہر رہنما یہ فرمایا کرتا، احتساب سیاستدانوں کا ہی کیوں، کچھ ادارے ’مقدس‘، احتساب سے بالاتر کیوں، جب فوج، عدلیہ کا احتساب ہوا تب مانیں گے، آج فوج خود بتا رہی، گزرے دو سالوں میں دو سو افسروں کو سزائیں دی جاچکیں۔

آج فوج یوں بلاامتیاز احتساب کی حامی کہ اسکا ایک سابق چیف پرویز مشرف آخری عدالتی مہلت پر، دوسرا سابق چیف اسلم بیگ سپریم کورٹ کی پیشیاں بھگت رہا، ایک سابق ڈی جی آئی ایس آئی جنرل پاشا اسلام آباد ہائی کورٹ میں پیش ہو چکا، دوسرا سابق ڈی جی آئی ایس آئی جنر ل جاوید اشرف قاضی، جنرل سعید الظفر، جنرل بٹ کے ہمراہ نیب کی پیشیاں بھگت رہا، جاسوسی پر فوج اپنے سابق کور کمانڈر جنرل جاوید اقبال کو عمر قید اور بریگیڈیئر رضوان، ڈاکٹر وسیم کو موت کی سزائیں سنا چکی، ہونا تو یہ چاہئے تھا جو فوج، عدلیہ کا احتساب چاہتے تھے، وہ اس کڑے فوجی احتساب پر تعریف کرتے۔

ججز ریفرنسز پر کہتے اگر الزامات لگے ہیں تو تحقیق ہونی چاہئے مگر مکاریاں، عیاریاں ایسی کہ فوجی احتساب کی تعریف، ججز ریفرنسز کی حمایت کیا، الٹا سب ایکا کرکے احتساب کی راہ میں ہی رکاوٹ بن گئے۔ یہاں یہ نکتہ بھی اہم، فوج نے تو صرف گزرے دو سالوں میں 2سو افسروں کو سزائیں دیں۔

سپریم جوڈیشل کونسل نے کتنے ججز کو سزائیں دیں، اب تک غالباً دو ججز کو گھر بھیجا، چار یا پانچ ججز مستعفی ہوئے، پارلیمنٹ نے 70سالوں میں کتنے سیاستدانوں کا احتساب کیا، صفر بٹا صفر، میری پارلیمنٹ تو ایسی، سپریم کورٹ یہ کہہ کر نواز شریف کو نااہل کرے ’’نواز شریف نے عدلیہ، عوام کے ساتھ ساتھ پارلیمنٹ کو بھی بے وقوف بنایا‘‘، میری پارلیمنٹ نااہلی کے اگلے ہی دن نواز شریف کی اہلیت کے حق میں قرار داد منظور کر لے۔

کیا وقت آگیا، سوال سیاستدان سے ہو، سب راگ الاپیں، جمہوریت خطرے میں، معاملہ جج صاحب کا ہو، سب کہیں، یہ تو عدلیہ پر حملہ، بات ٹیکس کی ہو، تاجر سٹرکوں پر آجائیں، مطلب سب بڑے، تمام بااختیار قانون سے بالاتر، انہیں کچھ نہ کہا جائے، ملک جائے بھاڑ میں، قوانین غریبوں کیلئے ہی، کیا وقت آگیا، کہا جارہا، ریفرنسز کی ٹائمنگ، نیت ٹھیک نہیں، معاملہ سیاسی لگ رہا، کوئی یہ نہ سوچے، ریفرنسز کا فیصلہ کس کو کرنا، جسٹس کھوسہ، جسٹس گلزار جیسے ایماندار، جرأت مند ججز نے، آ ج کی آزاد، خودمختار سپریم کورٹ نے، لہٰذا نیت ٹھیک نہ بھی ہو، معاملہ سیاسی بھی ہو، ریفرنس کی ٹائمنگ جیسی بھی ہو، معاملہ تو جسٹس کھوسہ، جسٹس گلزار کے پاس۔

کیا ہمیں اپنی سپریم کورٹ پر اعتبار نہیں، کیا کوئی تحریک، احتجاج، یکجہتی سے پہلے سپریم جوڈیشل کی کارروائی، فیصلے کا انتظار نہیں کر لینا چاہئے۔ کیا وقت آگیا، ہر کوئی اپنی بندوق دوسرے کے کندھے پر رکھ کر چلائے جارہا، اندر اندر کھال بچاؤ، آل بچاؤ، مال بچاؤ پروگرام، اوپر اوپر جمہوریت، پارلیمنٹ، سویلین بالادستی، عدلیہ کے نعرے، کیا وقت آگیا، لوگ ملک سے بڑے ہوئے، ذاتی مفادات ملکی مفادات سے مقدم ٹھہرے، کیا وقت آگیا، زاہد فخر الدین جی ابراہیم اپنے استعفے میں لکھیں ’’عدلیہ کی ساکھ ناقابل مواخذہ ہے‘‘ ان جیسا قانون دان بھی یہ بھول جائے کہ عدلیہ کی ساکھ تو ناقابل مواخذہ مگر ’عدلیہ قابلِ مواخذہ ہے‘۔

بشکریہ روزنامہ جنگ
 

جاسم محمد

محفلین
کیا وقت آگیا، مسلم لیگ کے چیئرمین راجہ ظفر الحق سینیٹ میں ججز سے اظہار یکجہتی کی قرارداد پیش کر چکے، سجان اللہ، ضیاءالحق کے اس اوپننگ بیٹسمین کو تب ججز اظہار یکجہتی قرارداد پیش کرنے کی توفیق نہ ہوئی جب سابق صدر رفیق تارڑ نوٹوں بھرا بریف کیس لے کر کوئٹہ پہنچے تھے، جب سیف الرحمان جسٹس قیوم سے بے نظیر بھٹو کو من چاہی سزائیں دلوا رہے تھے، جب نواز شریف، لغاری لڑائی میں سپریم کورٹ ججز کو لڑایا جارہا تھا۔
جب قیمے والے نان کھلا کر سپریم کورٹ پر حملہ کروایا جا رہا تھا، جب نوا زشریف، مریم نواز سمیت 80فیصد لیگی رہنما ہر روز سپریم کورٹ پر چڑھائیاں کیا کرتے، جب شاہد خاقان عباسی نے الیکشن ٹربیونل کا فیصلہ خلاف آنے پر کہا ’’جج ذہنی طور پر ڈسٹرب، میں سب کے سامنے اس پر حملہ کروں گا‘‘ اور جب بحیثیت وزیراعظم شاہد خاقان عباسی سپریم کورٹ کے فیصلے کو ردی کی ٹوکری میں پھینک رہے تھے، باقی زرداری صاحب، بلاول، پیپلز پارٹی نے اپنے وقتوں میں عدلیہ کا جو احترام کیا، وہ بھی سب کے سامنے، وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کو نااہل کروانا پسند فرما لیا مگر سپریم کورٹ کا حکم نہ مانا۔
فوج جو ہے وہ ہے۔ سب کو پتا ہے۔ ان منافقوں اور مفاد پسندوں سے تو کوئی قوم کی جان چھڑائے۔۔۔۔
 

آصف اثر

معطل
جسٹس فائز عیسٰی کا دوسرا خط ۔ مکمل اردو متن

جناب صدر صاحب،
مورخہ ۲۸ مئی ۲۰۱۹ کو میں نے آپ کو (ایک خط) لکھا جس میں اپنے خلاف کسی ریفرینس کی بابت استفسار کیا گیا اور (درخواست کی گئی کہ) اگر ایسا ہے تو براہ مہربانی مجھے اس کی ایک نقل فراہم کی جائے۔ (تاہم) نہ آپ نے اور نہ ہی محترم وزیراعظم نے جنہیں اس خط کی نقل فراہم کی گئی تھی مجھے جواب دینے کی مہربانی (زحمت پڑھیے)کی، نہ ہی مجھے اس خط کی نقل مہیا کی گئی۔
صدارتی ریفرینس
اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین کی دفعہ ۲۰۹ (۵) کے تحت اگر صدر یہ رائے رکھتے ہیں کہ عدالت عظمی کا کوئی جج، ا۔ کسی جسمانی یا ذہنی معذوری کے باعث اپنی خدمات سرانجام دینے سے قاصر ہو، یا، ب۔ کسی نامناسب رویے کا مرتکب پایا جائے، تو وہ (صدر) سپریم جوڈیشل کونسل سے رابطہ کر سکتا ہے تاکہ (کونسل) معاملے کی تحقیقات کرے اور اپنی تحقیقات مکمل کرنے کے بعد صدر کو اپنی رپورٹ پیش کرے (آئین کی دفعہ ۲۰۹ شق ۶)۔ چونکہ میں کسی جسمانی یا ذہنی معذوری سے دوچار نہیں لہذا میرا گمان ہے کہ (مجھ پر) آئین کی دفعہ ۲۰۹ شق ۵-ب کا اطلاق کیا گیا ہے۔
جناب صدر، آئین کی دفعہ ۲۰۹ شق ۵ کا مذکورہ خلاصہ اس بات پر واضح اصرار کرتا ہے کہ تمام متعلقہ حقائق (سب سے) پہلے آپ کی خدمت میں پیش کیے جائیں تاکہ آپ کے پاس دلائل پر مبنی رائے استوار ہو سکے کہ میں مبینہ طور پر نامناسب رویے کا مرتکب پایا گیا۔ میں یہ بات واضح کرنا چاہتا ہوں کہ اگر یہ تمام شرائط پوری ہوچکی ہیں تو میں آپ کی جانب سے ریفرینس دائر کیے جانے کے حق پر ہرگز سوال نہیں اٹھاتا۔ (تاہم) جو سوال میں اٹھا رہا ہوں، جناب صدر، وہ یہ ہے کہ آیا آپ کو وہ تمام متعلقہ حقائق مہیا کیے گئے ہیں جن کی بنیاد پر آپ نامناسب رویے کے الزام کی بابت راسخ رائے قائم کرنے کے قابل ہو سکیں؟
معزز حکومتی اراکین کی جانب سے ایک جج نشانے پر
جناب صدر، (جوڈیشل) کونسل کی جانب سے نوٹس بھیجے جانے سے پہلے، یہاں تک کہ میرا جواب داخل ہونے سے پہلے ہی میرے خلاف ایک کیمپین کا آغاز کیا جا چکا ہے جس کا مقصد کونسل کی رائے کو تبدیل کرتے ہوئے غیر متعلقہ (تبدیل) کرنا تھا۔ شروعات میں اندرونی طور پر ریفرینس لیک کیا گیا تاہم جب یہ (کوششیں) مطلوبہ نتائج حاصل نہ کر سکیں تو معزز حکومتی اراکین نے اپنے فرائض کو یکسر نظرانداز کرتے ہوئے ریفرینس کے ساتھ منسلک دستاویزات ظاہر کرنی شروع کر دیں، وہ دستاویزات جو کونسل کی خصوصی تحویل میں ہونے چاہیے تھیں۔ جناب صدر، کیا یہ حقائق ایک واضح مقصد کی نشاندہی نہیں کرتے؟
جناب صدر، معزز وزیر قانون، وزارت اطلاعات کے سینیر ترین معزز ممبران، اور دیگر محترم حکومتی اراکین نے طے شدہ ریفرینس کے مخصوص حصے اور دستاویزات بانٹے اور ان کے بارے میں میڈیا سے گفتگو بھی فرمائی جس میں پریس کانفرنس کے دوران مذکورہ ریفرینس کو میرے خلاف احتساب کا شکنجہ کہنا بھی شامل رہا۔ کیا یہ مناسب رویہ ہے؟ کیا ایسا رویہ آئین سے مطابقت رکھتا ہے؟
سرکاری عہدے کا حلف نامہ
کسی بھی عہدے پر فائز ہونے سے پہلے صدر، وزیراعظم، وفاقی وزراء، ججوں اور دیگر (افراد) کے لیے آئین کے تیسرے شیڈول کے مطابق حلف اٹھانا ضروری ہوتا ہے، جن میں یہ (بات) شامل (ہوتی) ہے:
“کہ میں اپنے ذاتی مفاد کو دفتری معاملات یا دفتری فیصلوں پر اثرانداز نہیں ہونے دوں گا، کہ میں آئینِ اسلامی جمہوریہ پاکستان کی محفوظ رکھوں کا، اس کی حفاظت کروں گا اور اس کا دفاع کروں گا”۔
ججوں کو چھوڑ کر باقی صدر، وزیراعظم، وفاقی وزراء اور دیگر (افراد) کے حلف میں یہ بھی شامل ہوتا ہے کہ:
“اور یہ کہ میں کوئی ایسا معاملہ جو میرے علم میں لایا جائے گا یا جو مجھے بحیثیت صدر پاکستان (وزیراعظم/وفاقی وزیر) بتایا جائے گا، بالواسطہ یا بلاواسطہ کسی شخص سے رابطے پر یا اس کے علاوہ ظاہر نہیں کروں گا ماسوائے بحیثیت صدر پاکستان (وزیراعظم/وفاقی وزیر) میرے فرائض کے لیے درکار ہو”۔
جناب صدر، کیا معزز حکومتی اراکین جنہوں نے ریفرنس کو (عوامی سطح پر) ظاہر کیا یا اس کے بارے میں بات کی، نے اپنے عہدے کے سنجیدہ حلف کی خلاف ورزی نہیں کی؟
میرے خلاف دائرہ کردہ ریفرینس
جناب صدر، مجھے اطلاع دی گئی ہے کہ آپ نے وزیراعظم کے ایما پر میرے خلاف کونسل کو ریفرنس بھیجا ہے۔ چونکہ مجھے ریفرنس کی نقل نہیں بھجوائی گئی لہذا میں محض فرض کر سکتا ہوں کہ اس میں وہ الزامات شامل ہیں جو لندن میں واقع میری اہلیہ اور اولاد کے نام جائداد سے متعلق ہیں۔ اس سے یہ نتیجہ کیسے نکالا جا سکتا ہے کہ میں کسی نامناسب عمل کا مرتکب ہوا ہوں؟ درحقیقت اگر یہ الزام ہے تو میں اس الزام کا جواب (کونسل کا نوٹس ملنے کے بعد، اگر ملا تو)، کونسل کو داخل کروں گا۔
اطلاعات میں یہ الزام بھی لگایا گیا ہے کہ مذکورہ جائداد کو میں نے اپنے ان گوشواروں میں ظاہر نہیں کیا جو اِنکم ٹیکس آرڈینینس ۲۰۰۱ کی دفعہ ۱۱۶-۱-ب کے تحت داخل کروانے تھے۔ آرڈینینس کی دفعہ ۱۱۶-۱ کا آغاز ان سطور سے ہوتا ہے کہ:
“کمشنر اگر چاہے تو تحریری نوٹس کے ذریعے کسی بھی شخص کو انفرادی حیثیت میں نوٹس کی مذکورہ تاریخ پر طے شدہ و تصدیق شدہ شکل میں اپنی دولت کے گوشوارے بشمول ب۔ فرد، اہل خانہ، نابالغ اولاد اور دیگر منحصر افراد کے کسی بھی تاریخ یا نوٹس میں تحریر شدہ تاریخ تک کل اثاثہ جات اور واجب الادا ادائیگیاں شامل ہوں، مانگ سکتا ہے”۔
اولاً، مجھے کمیشنر کی جانب سے نوٹس موصول نہیں ہوا، دوم، میری اولاد نابالغ نہیں، اور یہ صورتحال کافی عرصے سے ایسی ہی ہے۔ سوم، نہ ہی میری اہلیہ اور نہ ہی میری اولاد مجھ پر منحصر ہیں۔ چہارم، دفعہ ۱۱۶-ا ہرگز پینل قانون نہیں کیونکہ دفعہ ۱۱۶-۳ کسی قسم کی ایسی تحذیف قابل تصحیح ہے۔
رضاکارانہ (معلوماتی) اظہار
جناب صدر، مجھے اور میرے خاندان کو معزز حکومتی اراکین کی جانب سے بدنیتی کے ساتھ نامکمل حقائق اور اشاروں کے ذریعے بدنام کیا جا رہا ہے جو میرے اور میرے خاندان کے لیے تکلیف دہ ہے۔ اگر مقصد ہماری نجی زندگی پر حملہ آور ہونا، وجود نہ رکھنے والی سازش تخلیق کرنا، اور بار بار ہماری پرائیویسی کی خلاف ورزی کرنا ہی تھا تو مکمل حقائق کیوں پوشیدہ رکھے گئے؟ لہذا میں مجبور ہوں کہ جھوٹی اطلاعات کے خاتمے کے لیے تمام حقائق ظاہر کروں۔
میری اہلیہ عبدالحق کھوسو اور مرحومہ فلیسا کریرا، ایک ہسپانوی شہری کی دختر ہیں۔ مجھے اس بات پر فخر ہے کہ میری اہلیہ اور بچے اعلی تعلیم یافتہ اور خود انحصار ہیں۔ میری اہلیہ کی دیگر کئی اہلیتوں میں برونیل یونیورسٹی سے ڈگری اور ایسٹن یونیورسٹی سے سپیشلائزیشن شامل ہیں۔ میری ۳۱ سالہ بیٹی شادی شدہ اور ۳ بچوں کی ماں ہے۔ اس نے اپنا ایل ایل بی آنرز ایس او اے ایس سے مکمل کیا، بار پروفیشنل ٹریننگ کورس بی پی پی یونیورسٹی سے اور ایل ایل ایم یونیورسٹی کالج لندن سے مکمل کیا جس کے بعد اسے مڈل ٹیمپل بار کی دعوت دی گئی، جس کے بعد وہ میرے خاندان میں بیرسٹرز کی تیسری نسل بن گئی، میرے والد بلوچستان سے بیرسٹر بننے والے پہلے شخص تھے اور میری بیٹی صوبے (کی تاریخ) کی پہلی خاتون بیرسٹر ہے۔ میرے ۲۸ سالہ بیٹے نے سٹیفرڈشائر یونیورسٹی سے بی اے مکمل کیا اور پھر برک بیک، لندن یونیورسٹی سے ایم اے مکمل کیا۔
لندن جائیدادیں
حکومتی کھوجی یقیناً اس حقیقت سے واقف ہیں کہ تعلیم مکمل کرنے کے بعد میرے بچے قانونی طور پر لندن میں کام کرتے رہے۔ معزز حکومتی اراکین کی جانب سے پھیلائی گئیں تفصیلات ان جائدادوں کی ہیں جن میں وہ (میرے بچے) اپنے اہل خانہ کے ساتھ رہتے تھے۔ یہ جائدادیں انہی کی ملکیت ہیں جن کے نام پر یہ قائم ہیں۔ ان (جائدادوں) کی ملکیت چھپانے کی کوئی کوشش نہیں کی گئی، نہ انہیں کسی ٹرسٹ کے ذریعے خریدا گیا، نہ کسی مخصوص آلۂ کار کو استعمال کیا گیا اور نہ ہی کسی آفشور کمپنی کے ذریعے حاصل کی گئیں۔
میرے مالی معاملات
اپنے مالی گوشوارے ظاہر کرنا مجھ پر کسی طور فرض (یا ذمہ داری) نہیں، مگر میں ایسا رضاکارانہ طور پر کر رہا ہوں کیونکہ میری دیانتداری پر شکوک و شبہات اٹھائے جاچکے ہیں۔ میں پاکستان کے ٹیکس نظام سے مکمل طور پر مطابقت رکھتا ہوں۔ مجھے آج تک نہ تو مذکورہ جائداد کے متعلق کوئی نوٹس موصول ہوا اور نہ ہی میرے بیوی بچوں سے متعلق۔ جب سے میں نے قانونی پیشہ اختیار کیا، میں تواتر کے ساتھ اپنے ٹیکس ریٹرن اور خود پر لاگو ٹیکس بھر رہا ہوں۔ میرے خلاف اِنکم ٹیکس محکمے کا کوئی واجب الادا مطالبہ موجود نہیں، اور نہ ہی میرے خلاف اِنکم ٹیکس سے متعلق کاروائی جاری ہے۔ میں پراعتماد ہوں کہ جس کسی نے بھی ریفرنس دائر کیا ہے، میرے مالی معاملات کا باریک بینی سے جائزہ لیا ہوگا، مگر لگائے گئے متنازعہ الزامات کے مطابق کسی قسم کی خورد برد حاصل کرنے میں ناکامی سے دوچار ہونا پڑا ہوگا۔ تاہم مکمل جانکاری نہ دینے کے الزام سے بچنے کے لیے شاید مجھے یہ بتانا پڑے کہ واجب الادا رقم کی ادائیگی کا مطالبہ موجود ہے جو محکمے نے مجھے ادا کرنا ہے اور وہ ابھی بھی ادا نہیں ہوا۔
اگست ۵، ۲۰۰۹ کو چیف جسٹس بلوچستان ہائی کورٹ بننے سے پہلے میں پاکستان کی اولین قانونی فرمز میں سے ایک کا پارٹنر تھا، اور جو ملک میں سب سے زیادہ اِنکم ٹیکس دینے کی وجہ سے مشہور تھی۔ میری آمدن فرم سے جاری ہوتی تھی، فرم میں مجھ سے زیادہ حصہ رکھنے والے ایک سابق پارٹنر کو ۲۰۰۴ میں صدر پاکستان کی جانب سے سب سے زیادہ انفرادی ٹیکس دہندہ ہونے کے باعث ستارہ امتیاز جیسے عظیم اعزاز سے نوازا گیا۔ جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے، چیف جسٹس کے عہدے پر ترقی کے وقت میری سالانہ آمدن پچھلے سال جب میں فرم پارٹنر تھا، میری جانب سے ادا کیے گئے اِنکم ٹیکس سے کم تھی۔ جناب صدر، کیا یہ ستم ظریفی نہیں کہ بھاری ترین اِنکم ٹیکس ادا کرنے والوں کو کٹہرے میں لایا جا رہا ہے اور وہ جن کا ٹیکس میں حصہ مایوس کن ہے، ان سے کوئی پوچھ گچھ نہیں؟
قابل احترام وزیراعظم
جناب صدر، اطلاعات یہ ہیں کہ کونسل کو پیش کیے جانے والا ریفرینس معزز وزیراعظم کی تاکید پر بھیجا گیا۔ اس کا مطلب یہ بنتا ہے کہ وزیراعظم اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ کسی شخص کے بیوی بچوں کی ملکیت میں ہونے والی جائداد اِنکم ٹیکس محکمے کی معلومات میں لانا ضروری ہیں۔
بادی النظر میں ریفرینس کی بنیاد میری جانب سے ارادتاً اپنی اہلیہ اور خودمختار اولاد کی جائداد ظاہر نہ کرنا ہے۔ قانون کے مطابق یہ (جائدادیں) ظاہر کرنا ضروری نہیں لیکن وزیراعظم اس کے برعکس سوچتے ہیں۔ اس بنیاد پر، جناب صدر، میں یہ سمجھتا ہوں کہ معزز وزیراعظم نے اپنے تمام اِنکم ٹیکس ریٹرنز میں اپنی بیگمات اور بچوں کی ملکیت میں تمام جائدادیں ظاہر کی ہوں گی۔ اگر محترم وزیراعظم نے ایسا نہ کیا ہوتا تو یقیناً وہ آپ کو ریفرنس دائر کرنے کی تاکید نہ کرتے۔ جناب صدر، کیا اس بات کی یقین دہانی کی گئی تھی کہ آیا معزز وزیراعظم نے خود اپنی بیگمات اور بچوں کے نام جائدادیں اپنے ٹیکس ریٹرنز میں ظاہر کی تھیں تاکہ یہ بات پختہ ہوسکے کہ ان کی تاکید ان کی اپنے علم اور عمل کے مطابق تھی؟ جناب صدر، کیا آپ معزز وزیراعظم سے استفسار فرمائیں گے کہ وہ مہربانی فرما کر اپنے تمام ٹیکس ریٹرنز کی نقول مجھے مہیا کریں جن میں انکو انہوں نے اپنی بیگمات اور بچوں کی بیرون ملک جائدادیں ظاہر کی ہیں؟
دباؤ ڈالنے کے ہتھکنڈے
جناب صدر، میرے منصفانہ مقدمے اور قانونی طریقہ کار کے قانونی حق کو کونسل کی جانب سے مجھے نوٹس ملنے اور میرے جواب داخل کروانے سے پہلے ہی پامال کیا جاچکا ہے۔ وہ معزز اراکین حکومت اپنے ارادوں سے باز رہیں جن کا خیال ہے کہ وہ مجھ پر دباؤ ڈال کر مجھ سے میرے اس حلف کی خلاف ورزی کروا لیں گے، جو مجھے “ہر طبقے کے شخص سے، قانون کے مطابق، بلا خوف و خطر، بغیر کسی مفاد، جانبداری یا عناد راست سلوک” کی تلقین کرتا ہے۔ غیر متوقع طور پر میرے والد قازی محمد عیسٰی آل انڈیا مسلم لیگ کے دیگر ممبران کے ساتھ قائداعظم کی رہنمائی میں آزادی اور پاکستان کے حصول کے لیے انتھک محنت کرتے رہے۔ میں ان کے نصب العین کو اس وقت بھ معنی نہیں کرسکتا جب مجھ سے کہیں بڑھ کر قیمتی شے داؤ پر لگی ہو۔
جناب صدر، میں اپنی ذات اور اپنے خاندان کے خلاف یہ اوچھے ہتھکنڈے برداشت کر بھی لیتا مگر کیا ان معاملات سے ایک غیر معمولی خطرے کے اشارے نہیں ملتے؟ کیا عدلیہ کی آزادی کو نظرانداز نہیں کیا جا رہا؟ اس بات کا یقین رکھیے، جناب صدر، کہ میں ایسا نہیں ہونے دوں گا اور اپنے آئینی حلف کے مطابق “آئین کو محفوظ رکھوں گا، اس کی حفاظت کروں گا اور اس کا دفاع کروں گا”۔ اگر عدلیہ کی آزادی تباہ ہوئی تو آئین کے تحت عوام کو حاصل بنیادی حقوق کاغذ پر لکھے الفاظ سے بڑھ کر کچھ خاص نہیں رہیں گے۔ آئین کا تقدس میری اہم ترین تشویش ہے۔ آئین کی دفعہ ۵ کے مطابق “آئین اور قانون کی اطاعت ہر شہری کا ناقابل خلاف ورزی فرض ہے”، تاہم اس(عام شہری) سے کہیں بڑھ کر ان پر عائد ہوتی ہے جو سرکاری عہدوں پر فائز ہیں۔ جب آئینی طریقہ کار کی بارہا خلف ورزی کی جائے تو جمہوریت بادشاہت میں تبدیل ہوجاتی ہے، اور جمہور کی حکمرانی آمرانہ حکومت میں بدل جاتی ہے۔
مجھے یقین ہے کہ آپ اپنی استعداد کے مطابق وہ سب کچھ کریں گے جس سے یہ بات یقینی بنائی جائے کہ اس عظیم قوم کا آئین سب پر نافذ ہو۔ آخر میں ایک بار پھر میں ریفرنس کی ایک نقل مہیا کی جانے کی درخواست کروں گا۔
آپ کا مخلص
قاضی فائز عیسٰی
جج، سپریم کورٹ آف پاکستان
 

جاسم محمد

محفلین
جسٹس فائز عیسٰی کا دوسرا خط ۔ مکمل اردو متن

جناب صدر صاحب،
مورخہ ۲۸ مئی ۲۰۱۹ کو میں نے آپ کو (ایک خط) لکھا جس میں اپنے خلاف کسی ریفرینس کی بابت استفسار کیا گیا اور (درخواست کی گئی کہ) اگر ایسا ہے تو براہ مہربانی مجھے اس کی ایک نقل فراہم کی جائے۔ (تاہم) نہ آپ نے اور نہ ہی محترم وزیراعظم نے جنہیں اس خط کی نقل فراہم کی گئی تھی مجھے جواب دینے کی مہربانی (زحمت پڑھیے)کی، نہ ہی مجھے اس خط کی نقل مہیا کی گئی۔
صدارتی ریفرینس
اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین کی دفعہ ۲۰۹ (۵) کے تحت اگر صدر یہ رائے رکھتے ہیں کہ عدالت عظمی کا کوئی جج، ا۔ کسی جسمانی یا ذہنی معذوری کے باعث اپنی خدمات سرانجام دینے سے قاصر ہو، یا، ب۔ کسی نامناسب رویے کا مرتکب پایا جائے، تو وہ (صدر) سپریم جوڈیشل کونسل سے رابطہ کر سکتا ہے تاکہ (کونسل) معاملے کی تحقیقات کرے اور اپنی تحقیقات مکمل کرنے کے بعد صدر کو اپنی رپورٹ پیش کرے (آئین کی دفعہ ۲۰۹ شق ۶)۔ چونکہ میں کسی جسمانی یا ذہنی معذوری سے دوچار نہیں لہذا میرا گمان ہے کہ (مجھ پر) آئین کی دفعہ ۲۰۹ شق ۵-ب کا اطلاق کیا گیا ہے۔
جناب صدر، آئین کی دفعہ ۲۰۹ شق ۵ کا مذکورہ خلاصہ اس بات پر واضح اصرار کرتا ہے کہ تمام متعلقہ حقائق (سب سے) پہلے آپ کی خدمت میں پیش کیے جائیں تاکہ آپ کے پاس دلائل پر مبنی رائے استوار ہو سکے کہ میں مبینہ طور پر نامناسب رویے کا مرتکب پایا گیا۔ میں یہ بات واضح کرنا چاہتا ہوں کہ اگر یہ تمام شرائط پوری ہوچکی ہیں تو میں آپ کی جانب سے ریفرینس دائر کیے جانے کے حق پر ہرگز سوال نہیں اٹھاتا۔ (تاہم) جو سوال میں اٹھا رہا ہوں، جناب صدر، وہ یہ ہے کہ آیا آپ کو وہ تمام متعلقہ حقائق مہیا کیے گئے ہیں جن کی بنیاد پر آپ نامناسب رویے کے الزام کی بابت راسخ رائے قائم کرنے کے قابل ہو سکیں؟
معزز حکومتی اراکین کی جانب سے ایک جج نشانے پر
جناب صدر، (جوڈیشل) کونسل کی جانب سے نوٹس بھیجے جانے سے پہلے، یہاں تک کہ میرا جواب داخل ہونے سے پہلے ہی میرے خلاف ایک کیمپین کا آغاز کیا جا چکا ہے جس کا مقصد کونسل کی رائے کو تبدیل کرتے ہوئے غیر متعلقہ (تبدیل) کرنا تھا۔ شروعات میں اندرونی طور پر ریفرینس لیک کیا گیا تاہم جب یہ (کوششیں) مطلوبہ نتائج حاصل نہ کر سکیں تو معزز حکومتی اراکین نے اپنے فرائض کو یکسر نظرانداز کرتے ہوئے ریفرینس کے ساتھ منسلک دستاویزات ظاہر کرنی شروع کر دیں، وہ دستاویزات جو کونسل کی خصوصی تحویل میں ہونے چاہیے تھیں۔ جناب صدر، کیا یہ حقائق ایک واضح مقصد کی نشاندہی نہیں کرتے؟
جناب صدر، معزز وزیر قانون، وزارت اطلاعات کے سینیر ترین معزز ممبران، اور دیگر محترم حکومتی اراکین نے طے شدہ ریفرینس کے مخصوص حصے اور دستاویزات بانٹے اور ان کے بارے میں میڈیا سے گفتگو بھی فرمائی جس میں پریس کانفرنس کے دوران مذکورہ ریفرینس کو میرے خلاف احتساب کا شکنجہ کہنا بھی شامل رہا۔ کیا یہ مناسب رویہ ہے؟ کیا ایسا رویہ آئین سے مطابقت رکھتا ہے؟
سرکاری عہدے کا حلف نامہ
کسی بھی عہدے پر فائز ہونے سے پہلے صدر، وزیراعظم، وفاقی وزراء، ججوں اور دیگر (افراد) کے لیے آئین کے تیسرے شیڈول کے مطابق حلف اٹھانا ضروری ہوتا ہے، جن میں یہ (بات) شامل (ہوتی) ہے:
“کہ میں اپنے ذاتی مفاد کو دفتری معاملات یا دفتری فیصلوں پر اثرانداز نہیں ہونے دوں گا، کہ میں آئینِ اسلامی جمہوریہ پاکستان کی محفوظ رکھوں کا، اس کی حفاظت کروں گا اور اس کا دفاع کروں گا”۔
ججوں کو چھوڑ کر باقی صدر، وزیراعظم، وفاقی وزراء اور دیگر (افراد) کے حلف میں یہ بھی شامل ہوتا ہے کہ:
“اور یہ کہ میں کوئی ایسا معاملہ جو میرے علم میں لایا جائے گا یا جو مجھے بحیثیت صدر پاکستان (وزیراعظم/وفاقی وزیر) بتایا جائے گا، بالواسطہ یا بلاواسطہ کسی شخص سے رابطے پر یا اس کے علاوہ ظاہر نہیں کروں گا ماسوائے بحیثیت صدر پاکستان (وزیراعظم/وفاقی وزیر) میرے فرائض کے لیے درکار ہو”۔
جناب صدر، کیا معزز حکومتی اراکین جنہوں نے ریفرنس کو (عوامی سطح پر) ظاہر کیا یا اس کے بارے میں بات کی، نے اپنے عہدے کے سنجیدہ حلف کی خلاف ورزی نہیں کی؟
میرے خلاف دائرہ کردہ ریفرینس
جناب صدر، مجھے اطلاع دی گئی ہے کہ آپ نے وزیراعظم کے ایما پر میرے خلاف کونسل کو ریفرنس بھیجا ہے۔ چونکہ مجھے ریفرنس کی نقل نہیں بھجوائی گئی لہذا میں محض فرض کر سکتا ہوں کہ اس میں وہ الزامات شامل ہیں جو لندن میں واقع میری اہلیہ اور اولاد کے نام جائداد سے متعلق ہیں۔ اس سے یہ نتیجہ کیسے نکالا جا سکتا ہے کہ میں کسی نامناسب عمل کا مرتکب ہوا ہوں؟ درحقیقت اگر یہ الزام ہے تو میں اس الزام کا جواب (کونسل کا نوٹس ملنے کے بعد، اگر ملا تو)، کونسل کو داخل کروں گا۔
اطلاعات میں یہ الزام بھی لگایا گیا ہے کہ مذکورہ جائداد کو میں نے اپنے ان گوشواروں میں ظاہر نہیں کیا جو اِنکم ٹیکس آرڈینینس ۲۰۰۱ کی دفعہ ۱۱۶-۱-ب کے تحت داخل کروانے تھے۔ آرڈینینس کی دفعہ ۱۱۶-۱ کا آغاز ان سطور سے ہوتا ہے کہ:
“کمشنر اگر چاہے تو تحریری نوٹس کے ذریعے کسی بھی شخص کو انفرادی حیثیت میں نوٹس کی مذکورہ تاریخ پر طے شدہ و تصدیق شدہ شکل میں اپنی دولت کے گوشوارے بشمول ب۔ فرد، اہل خانہ، نابالغ اولاد اور دیگر منحصر افراد کے کسی بھی تاریخ یا نوٹس میں تحریر شدہ تاریخ تک کل اثاثہ جات اور واجب الادا ادائیگیاں شامل ہوں، مانگ سکتا ہے”۔
اولاً، مجھے کمیشنر کی جانب سے نوٹس موصول نہیں ہوا، دوم، میری اولاد نابالغ نہیں، اور یہ صورتحال کافی عرصے سے ایسی ہی ہے۔ سوم، نہ ہی میری اہلیہ اور نہ ہی میری اولاد مجھ پر منحصر ہیں۔ چہارم، دفعہ ۱۱۶-ا ہرگز پینل قانون نہیں کیونکہ دفعہ ۱۱۶-۳ کسی قسم کی ایسی تحذیف قابل تصحیح ہے۔
رضاکارانہ (معلوماتی) اظہار
جناب صدر، مجھے اور میرے خاندان کو معزز حکومتی اراکین کی جانب سے بدنیتی کے ساتھ نامکمل حقائق اور اشاروں کے ذریعے بدنام کیا جا رہا ہے جو میرے اور میرے خاندان کے لیے تکلیف دہ ہے۔ اگر مقصد ہماری نجی زندگی پر حملہ آور ہونا، وجود نہ رکھنے والی سازش تخلیق کرنا، اور بار بار ہماری پرائیویسی کی خلاف ورزی کرنا ہی تھا تو مکمل حقائق کیوں پوشیدہ رکھے گئے؟ لہذا میں مجبور ہوں کہ جھوٹی اطلاعات کے خاتمے کے لیے تمام حقائق ظاہر کروں۔
میری اہلیہ عبدالحق کھوسو اور مرحومہ فلیسا کریرا، ایک ہسپانوی شہری کی دختر ہیں۔ مجھے اس بات پر فخر ہے کہ میری اہلیہ اور بچے اعلی تعلیم یافتہ اور خود انحصار ہیں۔ میری اہلیہ کی دیگر کئی اہلیتوں میں برونیل یونیورسٹی سے ڈگری اور ایسٹن یونیورسٹی سے سپیشلائزیشن شامل ہیں۔ میری ۳۱ سالہ بیٹی شادی شدہ اور ۳ بچوں کی ماں ہے۔ اس نے اپنا ایل ایل بی آنرز ایس او اے ایس سے مکمل کیا، بار پروفیشنل ٹریننگ کورس بی پی پی یونیورسٹی سے اور ایل ایل ایم یونیورسٹی کالج لندن سے مکمل کیا جس کے بعد اسے مڈل ٹیمپل بار کی دعوت دی گئی، جس کے بعد وہ میرے خاندان میں بیرسٹرز کی تیسری نسل بن گئی، میرے والد بلوچستان سے بیرسٹر بننے والے پہلے شخص تھے اور میری بیٹی صوبے (کی تاریخ) کی پہلی خاتون بیرسٹر ہے۔ میرے ۲۸ سالہ بیٹے نے سٹیفرڈشائر یونیورسٹی سے بی اے مکمل کیا اور پھر برک بیک، لندن یونیورسٹی سے ایم اے مکمل کیا۔
لندن جائیدادیں
حکومتی کھوجی یقیناً اس حقیقت سے واقف ہیں کہ تعلیم مکمل کرنے کے بعد میرے بچے قانونی طور پر لندن میں کام کرتے رہے۔ معزز حکومتی اراکین کی جانب سے پھیلائی گئیں تفصیلات ان جائدادوں کی ہیں جن میں وہ (میرے بچے) اپنے اہل خانہ کے ساتھ رہتے تھے۔ یہ جائدادیں انہی کی ملکیت ہیں جن کے نام پر یہ قائم ہیں۔ ان (جائدادوں) کی ملکیت چھپانے کی کوئی کوشش نہیں کی گئی، نہ انہیں کسی ٹرسٹ کے ذریعے خریدا گیا، نہ کسی مخصوص آلۂ کار کو استعمال کیا گیا اور نہ ہی کسی آفشور کمپنی کے ذریعے حاصل کی گئیں۔
میرے مالی معاملات
اپنے مالی گوشوارے ظاہر کرنا مجھ پر کسی طور فرض (یا ذمہ داری) نہیں، مگر میں ایسا رضاکارانہ طور پر کر رہا ہوں کیونکہ میری دیانتداری پر شکوک و شبہات اٹھائے جاچکے ہیں۔ میں پاکستان کے ٹیکس نظام سے مکمل طور پر مطابقت رکھتا ہوں۔ مجھے آج تک نہ تو مذکورہ جائداد کے متعلق کوئی نوٹس موصول ہوا اور نہ ہی میرے بیوی بچوں سے متعلق۔ جب سے میں نے قانونی پیشہ اختیار کیا، میں تواتر کے ساتھ اپنے ٹیکس ریٹرن اور خود پر لاگو ٹیکس بھر رہا ہوں۔ میرے خلاف اِنکم ٹیکس محکمے کا کوئی واجب الادا مطالبہ موجود نہیں، اور نہ ہی میرے خلاف اِنکم ٹیکس سے متعلق کاروائی جاری ہے۔ میں پراعتماد ہوں کہ جس کسی نے بھی ریفرنس دائر کیا ہے، میرے مالی معاملات کا باریک بینی سے جائزہ لیا ہوگا، مگر لگائے گئے متنازعہ الزامات کے مطابق کسی قسم کی خورد برد حاصل کرنے میں ناکامی سے دوچار ہونا پڑا ہوگا۔ تاہم مکمل جانکاری نہ دینے کے الزام سے بچنے کے لیے شاید مجھے یہ بتانا پڑے کہ واجب الادا رقم کی ادائیگی کا مطالبہ موجود ہے جو محکمے نے مجھے ادا کرنا ہے اور وہ ابھی بھی ادا نہیں ہوا۔
اگست ۵، ۲۰۰۹ کو چیف جسٹس بلوچستان ہائی کورٹ بننے سے پہلے میں پاکستان کی اولین قانونی فرمز میں سے ایک کا پارٹنر تھا، اور جو ملک میں سب سے زیادہ اِنکم ٹیکس دینے کی وجہ سے مشہور تھی۔ میری آمدن فرم سے جاری ہوتی تھی، فرم میں مجھ سے زیادہ حصہ رکھنے والے ایک سابق پارٹنر کو ۲۰۰۴ میں صدر پاکستان کی جانب سے سب سے زیادہ انفرادی ٹیکس دہندہ ہونے کے باعث ستارہ امتیاز جیسے عظیم اعزاز سے نوازا گیا۔ جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے، چیف جسٹس کے عہدے پر ترقی کے وقت میری سالانہ آمدن پچھلے سال جب میں فرم پارٹنر تھا، میری جانب سے ادا کیے گئے اِنکم ٹیکس سے کم تھی۔ جناب صدر، کیا یہ ستم ظریفی نہیں کہ بھاری ترین اِنکم ٹیکس ادا کرنے والوں کو کٹہرے میں لایا جا رہا ہے اور وہ جن کا ٹیکس میں حصہ مایوس کن ہے، ان سے کوئی پوچھ گچھ نہیں؟
قابل احترام وزیراعظم
جناب صدر، اطلاعات یہ ہیں کہ کونسل کو پیش کیے جانے والا ریفرینس معزز وزیراعظم کی تاکید پر بھیجا گیا۔ اس کا مطلب یہ بنتا ہے کہ وزیراعظم اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ کسی شخص کے بیوی بچوں کی ملکیت میں ہونے والی جائداد اِنکم ٹیکس محکمے کی معلومات میں لانا ضروری ہیں۔
بادی النظر میں ریفرینس کی بنیاد میری جانب سے ارادتاً اپنی اہلیہ اور خودمختار اولاد کی جائداد ظاہر نہ کرنا ہے۔ قانون کے مطابق یہ (جائدادیں) ظاہر کرنا ضروری نہیں لیکن وزیراعظم اس کے برعکس سوچتے ہیں۔ اس بنیاد پر، جناب صدر، میں یہ سمجھتا ہوں کہ معزز وزیراعظم نے اپنے تمام اِنکم ٹیکس ریٹرنز میں اپنی بیگمات اور بچوں کی ملکیت میں تمام جائدادیں ظاہر کی ہوں گی۔ اگر محترم وزیراعظم نے ایسا نہ کیا ہوتا تو یقیناً وہ آپ کو ریفرنس دائر کرنے کی تاکید نہ کرتے۔ جناب صدر، کیا اس بات کی یقین دہانی کی گئی تھی کہ آیا معزز وزیراعظم نے خود اپنی بیگمات اور بچوں کے نام جائدادیں اپنے ٹیکس ریٹرنز میں ظاہر کی تھیں تاکہ یہ بات پختہ ہوسکے کہ ان کی تاکید ان کی اپنے علم اور عمل کے مطابق تھی؟ جناب صدر، کیا آپ معزز وزیراعظم سے استفسار فرمائیں گے کہ وہ مہربانی فرما کر اپنے تمام ٹیکس ریٹرنز کی نقول مجھے مہیا کریں جن میں انکو انہوں نے اپنی بیگمات اور بچوں کی بیرون ملک جائدادیں ظاہر کی ہیں؟
دباؤ ڈالنے کے ہتھکنڈے
جناب صدر، میرے منصفانہ مقدمے اور قانونی طریقہ کار کے قانونی حق کو کونسل کی جانب سے مجھے نوٹس ملنے اور میرے جواب داخل کروانے سے پہلے ہی پامال کیا جاچکا ہے۔ وہ معزز اراکین حکومت اپنے ارادوں سے باز رہیں جن کا خیال ہے کہ وہ مجھ پر دباؤ ڈال کر مجھ سے میرے اس حلف کی خلاف ورزی کروا لیں گے، جو مجھے “ہر طبقے کے شخص سے، قانون کے مطابق، بلا خوف و خطر، بغیر کسی مفاد، جانبداری یا عناد راست سلوک” کی تلقین کرتا ہے۔ غیر متوقع طور پر میرے والد قازی محمد عیسٰی آل انڈیا مسلم لیگ کے دیگر ممبران کے ساتھ قائداعظم کی رہنمائی میں آزادی اور پاکستان کے حصول کے لیے انتھک محنت کرتے رہے۔ میں ان کے نصب العین کو اس وقت بھ معنی نہیں کرسکتا جب مجھ سے کہیں بڑھ کر قیمتی شے داؤ پر لگی ہو۔
جناب صدر، میں اپنی ذات اور اپنے خاندان کے خلاف یہ اوچھے ہتھکنڈے برداشت کر بھی لیتا مگر کیا ان معاملات سے ایک غیر معمولی خطرے کے اشارے نہیں ملتے؟ کیا عدلیہ کی آزادی کو نظرانداز نہیں کیا جا رہا؟ اس بات کا یقین رکھیے، جناب صدر، کہ میں ایسا نہیں ہونے دوں گا اور اپنے آئینی حلف کے مطابق “آئین کو محفوظ رکھوں گا، اس کی حفاظت کروں گا اور اس کا دفاع کروں گا”۔ اگر عدلیہ کی آزادی تباہ ہوئی تو آئین کے تحت عوام کو حاصل بنیادی حقوق کاغذ پر لکھے الفاظ سے بڑھ کر کچھ خاص نہیں رہیں گے۔ آئین کا تقدس میری اہم ترین تشویش ہے۔ آئین کی دفعہ ۵ کے مطابق “آئین اور قانون کی اطاعت ہر شہری کا ناقابل خلاف ورزی فرض ہے”، تاہم اس(عام شہری) سے کہیں بڑھ کر ان پر عائد ہوتی ہے جو سرکاری عہدوں پر فائز ہیں۔ جب آئینی طریقہ کار کی بارہا خلف ورزی کی جائے تو جمہوریت بادشاہت میں تبدیل ہوجاتی ہے، اور جمہور کی حکمرانی آمرانہ حکومت میں بدل جاتی ہے۔
مجھے یقین ہے کہ آپ اپنی استعداد کے مطابق وہ سب کچھ کریں گے جس سے یہ بات یقینی بنائی جائے کہ اس عظیم قوم کا آئین سب پر نافذ ہو۔ آخر میں ایک بار پھر میں ریفرنس کی ایک نقل مہیا کی جانے کی درخواست کروں گا۔
آپ کا مخلص
قاضی فائز عیسٰی
جج، سپریم کورٹ آف پاکستان
قطری خط پارٹ 2
 

جاسم محمد

محفلین
شاہ محمود نہیں اب شاہد خاقان وزیراعظم کے امیدوار بن چکے ہیں
03/06/2019 وسی بابا



قریشی صاحب کی آج کل ویسے ہی سختی آئی ہوئی ہے۔ ان کے پارٹی قائد انہیں اگلا وزیر اعظم سمجھ کر ان پر خصوصی شفقت فرما رہے ہیں۔ یہ خبر پرانی ہو چکی۔ اب وزیراعظم کا اک اور امیدوار سامنے ہے۔ آزمایا ہوا بھی، دیکھا بھالا بھی اور اپنا اپنا سا بھی۔

چوھدری شجاعت حسین کی نواز شریف سے ملاقات کا آج کل چرچا ہے۔ کچھ لوگوں کے خیال میں یہ ملاقاتیں ایک سے زیادہ بار ہوئی ہیں۔ ملک ریاض بھی جا کر ایک ملاقات کر آئے ہیں۔ انہوں نے سیاسی اندھیرے ہٹانے کو بہت فوری شمسی قمری نسخے بھی پیش کیے ہیں۔
پہلے کہا جا رہا تھا کہ اگر میاں صاحب کچھ باتیں مان جائیں تو اسی اسمبلی سے شاہد خاقان عباسی اگلے وزیراعظم ہو سکتے ہیں۔

اک جھوٹے سے نے بتایا ہے کہ ملک صاحب نے کہا کہ میاں صاحب کچھ نرمی کریں۔ الیکشن چاہئیں تو وہ بھی مل جائیں گے۔ پھر میاں صاحب نے کچھ کہا جو ٹھیک سے سنائی نہیں دیا۔ اس لیے رہنے ہی دیتے ہیں۔ ویسے میں کون سا پاس بیٹھا سن رہا تھا۔

چوھدری شجاعت آج کل سیاست پر جس طرح گجراتی مٹی ڈالتے پھر رہے ہیں۔ اس کی رسید انہیں پتہ نہیں پہنچی کے نہیں۔ میڈیا مالکان سے ملاقات میں کسی نے کہا آپشن کیا ہے۔ مشرف آیا تھا نہ کیا ہوا، ہمیں چوھدری ٹکر گئے تھے۔

مسلم لیگ نون اچانک اتنی اہم کیوں ہو گئی ہے؟ یہ سب باتیں ہو کیوں رہی ہیں؟ اس کی وجہ پہلے تو اکانومی ہی تھی اب اور بھی ہیں۔ پی ٹی آئی اپنی معاشی جبلوتیوں سے معیشت کا چلتا پہیہ روک بیٹھی ہے۔ جو اب کسی طور دوبارہ کک سٹارٹ ہونے میں نہیں آ رہا۔

کپتان کی آمد جیسے بھی ہوئی ایک حوالے سے خوشگوار تھی کہ اس نے پاکستان کے تقریبا ہر کونے میں اپنی مقبولیت ثابت کی۔ فاٹا میں بھی اس کے لوگ جیت کر آئے کراچی سے بھی اور ڈپٹی سپیکر بلوچستان سے جیتے۔

ہوا یہ کے اس نئی حکومت کو پی ٹی ایم جڑ گئی۔ جس طرح سیدھی ٹکریں پی ٹی ایم والوں نے مارنی شروع کر رکھی ہیں۔ اتنی ٹکریں صبر سے کھا کھا کر اگلے پھاوے ہو گئے ہیں، عاجز آ چکے۔ یہ سب ہوتا رہا پی ٹی آئی کی حکومت کہیں بھی نہ تو پی ٹی ایم کے مطالبات حل کرنے کو سامنے آئی۔ نہ اس نے ان کا سیاسی مقابلہ کرنے کی کوشش کی۔

جب ڈھیلی ماٹھی منمناتی جوابی تقریریں شروع کیں تب تک بہت دیر ہو چکی تھی۔

پی ٹی ایم کو پاکستانی اداروں کے لیے اک مستقل کھجلی میں ڈھلتے دیکھ کر اصولا تو ہمارے شریکوں کو تو خوش ہونا چاہیے۔ مثال کے طور ہم یہودی سازشوں پر یقین رکھتے ہوئے سمجھ سکتے ہیں کہ امریکی اس سب پر بہت خوش ہوں گے ۔

پر ایسا ہے نہیں امریکی کہتے ہیں کہ جب بھی فاٹا میں مسائل بڑھتے ہیں پاکستانیوں کی توجہ ہمارے معاملات سے بالکل ہٹ جاتی ہے۔ اگر یہ بات صحیح ہے تو پھر بلاول بھٹو جس طرح کھل کر پی ٹی ایم کی حمایت میں سامنے آئے ہیں۔ اس کا انہیں کوئی سیاسی فائدہ ہرگز نہیں ہونے جا رہا۔

مسلم لیگ نون میں اک سنجیدہ بحث جاری ہے۔ فاٹا کے ایشو پر کیا موقف اختیار کیا جائے۔ نون لیگ کے سوچنے سمجھنے والے اکثریتی لوگوں کا یہ ماننا ہے کہ ہم نے پہلے ہی بہت پھڈے ڈال رکھے ہیں۔ نیا پنگا نہ لیا جائے۔ ہماری سیاسی طاقت پنجاب ہے۔ خاموشی اختیار کی جائے تاکہ فاٹا کے حوالے سے ریاستی پالیسی پر ہمیں مخالف نہ سمجھا جائے۔

مسلم لیگ نون میں اب اک فیلنگ ہے کہ بھارت یا مودی کی طرف غیر ضروری جھکاؤ ظاہر کیا گیا۔ جس کا ہمیں کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ نہ بھارت راضی ہوا نہ کوئی سہولت ملی الٹا ہمارے ریاستی اداروں سے فاصلے بڑھ گئے۔

نون لیگ جو سیاسی پوزیشن اختیار کرنے جا رہی ہے۔ اس میں بہت ساری گنجائش نکل رہی ہے۔ ان کے لیے پنجاب کی سیاست کی طرف حقیقی واپسی سے کئی راستے کھل جائیں گے۔ سندھ میں کے پی میں بلوچستان میں سیاسی ایڈجسٹمنٹ کی گنجائش نکل آئے گی۔

بلوچستان کی سیاست میں الیکشن سے پہلے ڈنڈے اور ٹھنڈے کے زور پر باپ (سیاسی جماعت) متعارف کرایا گیا تھا۔ اب اس ابا جی کو دیکھ دیکھ کر سب کو رونے آ رہے ہیں۔ پچھلی بلوچستان حکومت کو ایک وسیع سیاسی حمایت حاصل تھی۔

تب بلوچستان میں مسلم لیگ نون کی حمایتی دونوں جماعتیں پشتون خواہ ملی عوامی پارٹی اور نیشنل پارٹی بلوچ پشتون علاقوں میں موثر تھیں۔ یہ دونوں پارٹیاں آج بھی نواز شریف کے ساتھ کھڑی ہیں۔ جبکہ ان کی اپنی پارٹی بلوچستان میں تحلیل ہو چکی ہے۔

اب اگر کوئی نیا انتظام ہوتا ہے تو بلوچستان اور کے پی میں جے یو آئی، اختر مینگل، اسفندیار ولی خان اہم ہو جائیں گے۔ جو سیاسی سکوت طاری ہے اس کا بھی خاتمہ ہو جائے گا۔

یہ سب ہو گا کیسے کر کون رہا ہے۔ چلیں اک نام تو بتانا بنتا ہے۔ اس وقت شاہد خاقان عباسی اہم ترین ہیں۔ جو ہونے جا رہا اس سب سے بہت آگاہ بھی ہیں۔ سرگرم بھی ہیں، مشکل وقت دیکھ کر جو کمزور دل سیٹھ پارٹیوں سے بھاگ جایا کرتے ہیں انہوں نے ان کے گھر پھیرے شروع کر دیے ہیں۔
 

جاسم محمد

محفلین
جسٹس فائز عیسیٰ ریفرنس اور سول ملٹری مفاہمت میں پڑتی دراڑ
04/06/2019 سید مجاہد علی



موجودہ حکومت کا مستقبل ایک بار پھر پوری قوت سے قومی مباحث کا حصہ بنا ہؤا ہے۔ اب یہ بات بھی پوشیدہ نہیں ہے کہ حکومت کے اراکین اور پارٹی لیڈروں میں اختلافات صحتمند جمہوری روایت سے کہیں زیادہ سنگین اور تشویشناک ہیں۔ پارٹی کے مختلف دھڑے کابینہ کی کارکردگی اور وزیر اعظم کی رائے کو متاثر کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔ عمران خان بطور وزیر اعظم ابھی تک یہ واضح کرنے میں کامیاب نہیں ہوئے کہ وہ حالات کا ادراک کررہے ہیں۔ ان پیچیدہ اور مشکل معاملات کو حل کرنا تو بعد کا مرحلہ ہے۔

وزیر اعظم کو اطمینان ہے کہ انہیں فوج کی مکمل حمایت حاصل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بھارت کے ساتھ تعلقات کا معاملہ ہو، طالبان کے ساتھ مذاکرات کے لئے امریکہ کی تابعداری کا سوال ہو یا پشتون تحفظ موومنٹ کے بارے میں فوج کی حکمت عملی اور ان سے نمٹنے کے ہتھکنڈے ہوں، ملک کی منتخب حکومت کسی قسم کی متبادل رائے کا اظہار کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کرتی۔ اختلاف کرنا یا عسکری اداروں کو سول اداروں اور منتخب حکومت کے زیر اختیار لانے کا سوال تو بہت دور کی بات ہے۔ عمران خان نے یہ سبق بہت اچھی طرح یاد کیا ہے کہ اس ملک پر حکومت کرنے کے لئے پارلیمنٹ سے پہلے جی ایچ کیو کی مکمل اعانت اور سرپرستی درکار ہوتی ہے۔

عمران خان سمجھتے ہیں کہ چونکہ وہ مکمل تابعداری کا مظاہرہ کررہے ہیں، اس لئے سیاسی دشمن یا پارٹی میں اختلاف رائے رکھنے والوں کی سازشیں ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتیں۔ تاہم یہ سبق ازبر کرتے ہوئے وہ یہ جاننا بھول رہے ہیں کہ فوج کو ہر منتخب حکومت سے کچھ توقعات وابستہ کرتی ہے۔ اور ان توقعات (جن میں فوجی بجٹ بنیادی اہمیت رکھتا ہے) کو پورا کئے بغیر کسی بھی لیڈر کی تابعداری بہت دیر تک اس کے اقتدار کی ضامن نہیں ہو سکتی۔

موجودہ سیاسی منظر نامہ اور حکومت اور اداروں کے تعلقات میں فی الوقت کوئی دراڑ دکھائی نہیں دیتی اور نہ ہی عمران خان ایسا کوئی موقع فراہم کرنا چاہتے ہیں کہ ان کے سرپرست ان سے مایوس ہونے لگیں۔ لیکن تحریک انصاف کی حکومت ملکی معیشت سے نمٹنے میں جس بری طرح ناکام ہوئی ہے، وہ ایک پیج والی خیر سگالی کو بھسم کرنے کی چنگاری اپنے دامن میں چھپائے ہوئے ہے۔ آئی ایم ایف کے ساتھ معاملہ طے کرنے میں الجھنوں کو دور کرنے کے لئے اپریل میں وزیر خزانہ اسد عمر سے استعفی لینے کے علاوہ ایف بی آر اوراسٹیٹ بنک کے سربراہان کو تبدیل کیا جاچکا ہے۔ لیکن ان تبدیلیوں کے بعد بھی قومی معیشت میں بہتری کے کوئی آثار دکھائی نہیں دیے۔

عالمی مالیاتی فنڈ کے ساتھ ہونے والے معاہدہ کے مضمرات چند روز بعد پیش کئے جانے والے بجٹ میں پوری طرح عیاں ہوں گے جس کے بعد مہنگائی میں اضافہ پر عوام کا رد عمل سیاسی خطرے کی گھنٹی بن سکتا ہے۔ قرائن یہی بتاتے ہیں کہ اس ردعمل کا اندیشہ عمران خان کے لئے پریشانی کا سبب نہیں ہے۔ اور نہ ہی انہیں اس بات کی تشویش ہے کہ ملک کی متحدہ اپوزیشن عیدالفطر کے بعد احتجاجی تحریک شروع کرنے کا ارادہ رکھتی ہے اور عام گھروں کی معیشت پر بجٹ کےمنفی اثرات اس تحریک کو مہمیز دینے کا سبب بن سکتے ہیں۔ انہیں تو صرف یہ یقین ہے کہ اگر فوج ان کی پشت پر ہے تو ان کی حکومت کو کوئی خطرہ لاحق نہیں ہوسکتا۔

عمران خان کا یہ اندازہ شاید کسی حد تک درست بھی ہو۔ اسی لئے اپوزیشن بھی براہ راست احتجاج کرنے کا کوئی واضح اشارہ دینے سے گریز کر رہی ہے۔ فوری طور سے بجٹ اور اس پر سامنے آنے والے عوامی ردعمل کا جائزہ لیا جائے گا اور اس حوالے سے عوامی غم و غصہ کو مہمیز دینے کی کوششیں بھی ضرور ہوں گی۔ بجٹ کے نتیجہ میں ہونے والی مہنگائی اور نئے محاصل شاید عوام کو حکومت کے خلاف اٹھ کھڑے ہونے پر مجبور نہ کر سکیں۔ تاہم اگر حکومت کوئی ایسا بجٹ پیش کرنے میں ناکام رہی جس کے نتیجے میں معیشت کا جمود توڑا جا سکے اور کاروباری سرگرمیوں میں اضافہ ہو سکے تو عوام کے علاوہ خواص کی پیشانی بھی شکن آلود ہوسکتی ہے۔

کابینہ میں بعض عناصر اخراجات میں کمی کی بات کرتے ہوئے غیرپیداواری اخراجات کم کرنے کی بات کرتے ہیں۔ ان میں ترقیاتی منصوبوں پر سرمایہ کاری میں کمی کے علاوہ حکومت کے دیگر اخراجات کو محدود کرنا ضروری ہوگا۔ اسی حوالے سے دفاعی بجٹ میں کمی کی بات بھی دبے لفظوں سے زبان پر لائی گئی ہے۔ اس قسم کا کوئی بھی عملی اقدام عمران خان کے خوابوں کو چکنا چور کرسکتا ہے۔

اخراجات کا بوجھ اٹھانے کے لئے قومی پیداوار اور حکومت کی آمدنی میں اضافہ بے حد ضروری ہے۔ ملک کی وزارت خزانہ اور دیگر مالیاتی اداروں کو چلانے کے لئے ’پیشہ ور ماہر ین‘ کی خدمات بھی حاصل کی گئی ہیں۔ مشیر برائے مالیات حفیظ شیخ اور گورنر ڈاکٹر رضا باقر کا تعلق بالترتیب ورلڈ بنک اور آئی ایم ایف سے رہا ہے۔ اس لئے امید کی جارہی ہے کہ وہ عالمی مالیاتی اداروں سے معاملات طے کروانے اور مراعات لے کر دینے میں مثبت کردار ادا کرسکیں گے۔ جبکہ فیڈرل بیورو آف ریوینو کے سربراہ شبر زیدی کا تعلق براہ راست ملک کے صنعتکاروں اور بڑے سرمایہ کاروں سے رہا ہے۔ البتہ اس نئی ٹیم نے ابھی تک کوئی ایسا معاشی پروگرام پیش نہیں کیا ہے جس کی بنیاد پر کہا جاسکے کہ بجٹ میں معیشت کے حوالے سے کوئی نئی روشنی دکھائی جاسکے گی۔

عالمی اداروں کی حکمت عملی کو نافذ کرنے والے ٹیکنوکریٹ عام طور سے ترقی پذیر معیشت کی حساسیات کو سمجھنے سے قاصر ہوتے ہیں۔ حفیظ شیخ پیپلز پارٹی کے سابقہ دور حکومت میں تین برس تک وزیر خزانہ رہ چکے ہیں لیکن کوئی خاص کارنامہ سرانجام نہیں دے سکے تھے۔ اسی لئے ماہرین اقتصادیات کو ان سے اب بھی کوئی امید نہیں۔ ڈاکٹر باقر رضا مصر میں آئی یم ایف کے نمائیندے کے عہدے پر کام کررہے تھے کہ اسٹیٹ بنک آف پاکستان کے گورنر بنائے گئے۔ مصر میں ان کی پالیسیوں کا مطالعہ کرنے والے بتاتے ہیں کہ وہ جو طریقے مسلط کریں گے، وہ عام شہریوں کی مشکلات میں اضافہ کریں گی۔ شبر زیدی کو حکومت کی آمدنی بڑھانے کے کام پر مامور کیا گیا ہے لیکن انہوں نے یہ واضح کردیا ہے کہ پورا ٹیکس نظام تبدیل کئے بغیر حکومتی آمدنی میں اضافہ ممکن نہیں ہوگا۔ گویا نہ نو من تیل ہوگا نہ رادھا ناچے گی۔

اس دوران ’کلا مضبوط ہونے‘ کے زعم میں عمران خان کی حکومت نت نیا سیاسی محاذ کھولنے پر آمادہ دکھائی دیتی ہے۔ ان میں تازہ ترین سپریم کورٹ اور سندھ ہائی کورٹ کے ججوں کے خلاف ریفرنس دائر کرنے کا معاملہ ہے جس کے بارے میں کابینہ کے اجلاس کے بعد مشیر اطلاعات فردوس فردوس عاشق اعوان نے کہا ہے کہ حکومت ملک میں سب کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کے اصول پر گامزن ہے، اس لئے ججوں کے خلاف دائر کئے گئے ریفرنس واپس لینے کا کوئی امکان نہیں ہے۔ تاہم جسٹس قاضی فائز عیسیٰ جیسی شہرت اور صلاحیت کے حامل جج کے خلاف ریفرنس (جو تین برس بعد ملک کا چیف جسٹس بھی بن سکتا ہے) حکومت کے گلے کی ہڈی بن سکتی ہے۔ عمران خان اس مشکل کو سمجھنے سے قاصر دکھائی دیتے ہیں۔ لہذا وہ کسی متبادل طرز عمل پر غور بھی نہیں کر رہے۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کوئٹہ دہشت گردی کی رپورٹ اور فیض آباد دھرنا کیس میں ایسے ریمارکس اور تجاویز دی تھیں جنہیں براہ راست عسکری اداروں کی ’ریڈ لائن ‘ عبور کرنے کے مترادف سمجھا جا رہا ہے۔ اس لئے عام تاثر بھی یہی ہے کہ حکومت نے یہ اقدام دراصل فوج کو خوش کرنے کے لئے ہی کیا ہے تاکہ یہ تاثر قوی کیا جا سکے کہ حکومت فوج کو راضی رکھنے کے لئے ہر حد سے گزرنے کے لئے تیار ہے۔ اس فیصلے سے چونکہ فوج کی شہرت براہ راست متاثر ہوتی ہے اور وکلا کی طرف سے فوج کے کردار پر تنقید بھی سامنے آنے لگی ہے لہذا یہ بات خارج از امکان نہیں کہ فوجی حلقے بھی اس حکومتی اقدام سے نالاں و پریشان ہوں۔

ججوں کے خلاف ریفرنس کا فیصلہ اگر عمران خان کا ذاتی فیصلہ ہے اور انہوں کابینہ اور پارٹی کی طرح فوج کو بھی اس سوال پر اعتماد میں لینے کی ضرورت محسوس نہیں کی کیوں کہ وہ بزعم خویش اس ’انقلابی اقدام‘ سے فوجی قیادت کو خوشگوار حیرت سے دوچار کرنا چاہتے تھے تو اسے تحریک انصاف کی حکومت اور ملٹری اسٹبلشمنٹ کے تعلقات میں پہلی دراڑ سمجھنا چاہئے۔ تعلقات میں دراڑ پڑ جائے تو شبہات اور غلط فہمیوں کے انبار جمع ہونا شروع ہوجاتے ہیں۔

اس پس منظر میں عمران خان کی قسمت کا فیصلہ بجٹ پر عوامی ردعمل سے زیادہ اس بات سے بھی جڑا رہے گا کہ سپریم جوڈیشل کونسل حکومتی ریفرنس پر کیا فیصلہ صادر کرتی ہے۔ اس کے علاوہ ستمبر اکتوبر کے دوران عمران خان کو نئے فوجی سربراہ کی تقرری یا جنرل قمر جاوید باجوہ کو توسیع دینے کا فیصلہ بھی کرنا ہوگا۔ وہ جو بھی فیصلہ کریں، اس امکان کو مسترد نہیں کیا جا سکتا کہ حکومت کے مستقبل پر، اس کے اثرات مرتب ہوں گے۔
 

جاسم محمد

محفلین
پاکستان میں عمران خان کی حکومت: انٹرٹینمنٹ انٹرٹینمنٹ اور صرف انٹرٹینمنٹ!
05/06/2019 محمد حنیف n/b Views

محمد حنیف - صحافی و تجزیہ کار


پرانے زمانے کے بادشاہوں کے دربار میں سپہ سالار ہوتے تھے۔ خزانے کا حساب کرنے والے، ہمسایہ ریاستوں کی سرکوبی کے لیے سفارتکار۔ نئی بستیاں بسانے کے ماہر، بادشاہ کے حرم کی آبادی کا حساب کرنے والے، شکار کا بندوبست کرنے والے، ہر طرح کے ماہرین ہوتے تھے۔

لیکن ہر کامیاب بادشاہ کے دربار میں ایک درباری ایسا بھی ہوتا تھا جس کا کام بادشاہ کو ہنسانا ہوتا تھا۔ انگریزی میں اسے فول کہتے تھے، آپ اسے مسخرا کہہ لیں، مذاقیا کہہ لیں۔

دربار میں اس کی ضرورت اس لیے ہوتی تھی کہ جب سلطنت کے معاملات گمبھیر ہو جائیں تو کوئی شگفتہ بات کہہ کر ماحول کے تناؤ کو بھول جائیں۔ دشمن کی طرف سے ہونے والی یلغار کو کچھ عرصے کے لیے بھول جائیں، حرم میں جاری خانہ جنگی سے کچھ عرصے کے لیے توجہ ہٹ جائے۔

عمران خان نے حکومت کے اس دقیانوسی ماڈل کو اپ ڈیٹ کر دیا ہے۔ عمران خان نے جدید حکمرانی کا راز پا لیا ہے۔

عوام حکومت سے کیا چاہتے ہیں، انٹرٹینمنٹ انٹرٹینمنٹ اور صرف انٹرٹینمنٹ!

اس کی وجہ بھی ہے کہ آٹے، دال، پیٹرول کا بھاؤ فری مارکیٹ طے کرے گی۔ معیشت آئی ایم ایف سنبھالے گی۔ خارجہ پالیسی پہلے سے ہی باجوہ صاحب کے حوالے ہے۔ باغیوں کی سرکوبی سر غفور سارا دن ٹوئٹر پر کرتے ہیں اور کرواتے ہیں۔ تو باقی حکومت کے پاس بچا کیا کرنے کو؟ تو حکومت نے وہ کام ڈھونڈ لیا ہے اور عوام کو صبح شام انٹرٹینمنٹ فراہم کی جارہی ہے۔


ہر کامیاب بادشاہ کے دربار میں ایک درباری ایسا بھی ہوتا تھا جس کا کام بادشاہ کو ہنسانا ہوتا تھا
اور جیسا کہ عمران خان خود کہا کرتے تھے کہ میرے سے بہتر ٹیم کوئی نہیں بنا سکتا۔ تو اپنی ٹیم میں انھوں نے ایسا ایسا ہیرا ڈالا ہے اور جو اپنی جماعت میں نہیں ملا تو دشمنوں کی صفوں سے اچک لیا اور یہ ٹیم صبح دوپہر شام ٹی وی پر، ٹوئٹر پر اور واٹس ایپ گروپوں میں ہمیں انٹرٹین کرنے میں مصروف ہے۔

ٹیم میں ٹیلنٹ کی فراوانی دیکھ کر لاہور کے تھیٹر کے وہ ڈرامے یاد آ جاتے ہیں جب ایک ہی سین میں اتنے اداکار ہوتے تھے کہ جگت لگانے کی باری نہیں آتی تھی اور کبھی کبھی ہاتھا پائی ہو جاتی تھی۔

ٹیم کے سردار فواد چوہدری ہیں جنھوں نے کچھ مہینے پہلے ہی عاطف میاں کی اپائنٹمنٹ پر بڑے دبنگ لہجے میں کہا تھا کہ ‘کیا ہم پاکستان کی ساری اقلیتوں کو دریا میں پھینک دیں؟’ اگلے ہی دن خیال آیا کہ دریا میں پھینکنے والا آئیڈیا کوئی اتنا برا بھی نہیں ہے۔

بعد میں انھیں ان کی وزارت سے نکال کر کسی لیبارٹری میں پھینک دیا گیا جہاں پر چاند ڈھونڈنے کی سائنس نے ہم گناہ گاروں کے روزے کٹوا دیے۔ پھر فرمانے لگے کہ کچھ کام فوج کے کرنے کے نہیں ہیں۔ اس جگت پر کوئی نہیں ہنسا بلکہ بڑے بڑے اینکر اپنے سیٹ پر لگی رنگین میزوں کے نیچے چھپ گئے۔

پھر فواد چوہدری صاحب نے کہا کہ حکومت میں غیر منتخب اور منتخب لوگوں میں کوئی تناؤ ہے۔ اس پر لندن سے آئے زلفی بخاری صاحب بولے کہ یہ لوگ تو کونسلر منتخب نہیں ہو سکتے۔ زلفی بخاری صاحب شاید لندن کے کسی کلب کے خزانچی منتخب ہوئے ہوں ورنہ مہنگے کپڑے پہننے کے علاوہ تو میں نے ان میں کوئی ہنر نہیں دیکھا۔

فردوس عاشق اعوان ہیں جو کسی صحافی کی آبرو بچانے کے لیے جذباتی ہو جاتی ہیں۔ ویسے وہ حکومت اور پارٹی میں اتنی نئی نئی آئی ہیں کہ مجھے دھڑکا لگا رہتا ہے کہ کہیں کسی دن جذبات میں آ کر وہ ‘جئے بھٹو’ کا نعرہ نہ لگا دیں۔

محمد علی صاحب ہیں جو اپنے پشتون بھائیوں کو غدار کہتے ہیں، پھر کسی سعودی شہزادے کو عرضی بھیجتے ہیں کہ محلے کی گلیوں کی مرمت کروانی ہے چندہ دے دیں۔ مراد سعید ہیں جو اتنے ارب کھرب گنواتے ہیں کہ کیلکولیٹر کے صفر ختم ہو جاتے ہیں۔

ہر ہٹ فلم میں ایک آئٹم نمبر ضروری ہوتا ہے۔ عمران خان کی حکومت وہ فلم ہے جس میں سب پرانی شرطیہ ہٹ فلموں کے آئٹم نمبر اکٹھے کر دیے گئے ہیں۔ سکرپٹ کی ضرورت ہی نہیں۔ پتا نہیں کیوں خواہ مخوا سکرپٹ لکھنے والوں کو بدنام کیا جارہا ہے۔

ہمیں دن رات انٹرٹین کرنے والے یہ سب فنکار رمضان کے آخری عشرے میں مکے مدینے میں اکٹھے ہو کر سیلفیاں بناتے ہیں اور اپنی فلم کی کامیابی کے لیے اللہ کا شکر بجا لاتے ہیں۔

ہم بھی ان کا شکر بجا لاتے ہیں۔

عید مبارک!
 

جاسم محمد

محفلین
گھونگھٹ دار بنام ’’نِکّے دے ابا‘‘
05/06/2019 سہیل وڑائچ


از اندرونِ خانہ

بروز عید سعید المعروف چھوٹی عید

ملکِ تضادستان

نِکّے دے ابّا!!

السلام علیکم! آدابِ عاجزانہ۔ خط اس لئے لکھنا پڑ رہا ہے کہ آپ کچھ عرصہ سے بندی سے ناراض ہیں، نہ ملتے ہیں اور نہ بات کرتے ہیں۔ سب اہلِ خانہ پریشان ہیں، اسی پریشانی کے عالم میں بندی یہ خط اخبار کے ذریعے بھیج رہی ہے وگرنہ یہ مکمل طور پر نجی خط ہے، اسے خفیہ سمجھ لیں۔ اس میں کوئی قومی مسئلہ ہے نہ کوئی سیاسی قصہ۔ سیاسی اور غیر متعلقہ افراد اس خط کو پڑھنے سے باز رہیں۔

میں پردہ دار، گھونگھٹ دار اور شرم و حیا رکھنے والی خاتون ہوں، اپنے خاوند کا نام لینا ہماری ریت روایت نہیں ہے اس لئے میں ’’انہیں‘‘ شروع سے ہی ’’نِکّے دے ابا‘‘ کہہ کر بلاتی ہوں۔ اب تھوڑی سی ناراضی ہے مگر اب بھی ان کا احترام، خوف اور دبدبہ اسی طرح قائم ہے۔ ان کا نام آتے ہی بندی سہم سی جاتی ہے، جسم میں جھرجھری سی چھڑ جاتی ہے اور آنکھیں شرم سے جھک جاتی ہیں۔

کچھ عرصہ پہلے بندی نے مہنگائی کا ذکر کیا تو آپ ناراض ہو گئے تھے اور مجھے جھڑک کر کہا تھا اپنے خرچ کم کرو تمہارے خرچے بہت زیادہ ہیں، اس دن سے آپ کی یہ باندی، یہ پیاری اور راج دلاری رعایا خانم رو رو کر اپنا برا حال کر چکی ہے۔ مرچ، ٹماٹر، دالیں اور سبزیاں سب کی قیمتیں آسمان کو چھو رہی ہیں مگر آپ اپنی وفادار رعایا خانم کی آنکھ کے آنسو پونچھنے تک کو تیار نہیں ہیں۔

اصل بات یہ ہے کہ آپ کو اپنی رعایا خانم پر پورا اعتبار نہیں ہے، آپ کو اب بھی شک ہے کہ اس باندی کے سیاست جانوں سے رابطے ہیں حالانکہ طلاق کے بعد سے میں نے ان سیاست جانوں کی طرف نظر تک اٹھا کر نہیں دیکھا۔ میں نے سوچ لیا ہے کہ نِکّے کے ابا ہی کے کہنے پر چلنا ہے مگر آپ بھی مہنگائی خان کی چیرہ دستیوں سے ’’رعایا خانم‘‘ کو محفوظ رکھنے کے لئے کوئی قدم ضرور اٹھائیں۔

اس بندی کو علم ہے کہ آپ مجھ ناچیز ’’رعایا خانم‘‘ کو بھولی بھالی سمجھتے ہیں، ٹھیک ہے شروع میں مجھے بہت دھوکے دیئے گئے اور میرے سیاست جان بار بار مجھے چھوڑ کر جاتے رہے لیکن اب مجھے پتہ چل چکا ہے کہ اگر سدا سہاگن رہنا ہے تو نِکے کے ابا کے ساتھ ہی یاری لگانا ہے اور اسے نبھانا ہے۔ کئی سیاست جان مجھے لبھانے، غصہ دلانے اور تحریک چلانے کے لئے آنکھیں مارتے رہتے ہیں مگر یہ بندی ’’رعایا خانم‘‘ آپ کی ہو چکی اب یہ بندی اُن کی باتوں میں آنے والی نہیں۔

آپ کو تو علم ہے کہ آپ کی یہ باندی ’’رعایا خانم‘‘ ڈپٹی نذیر احمد کے ناول مراۃ العروس (ترجمہ:دلہن کا آئینہ) سے بہت متاثر ہے اور اس باندی کی کوشش ہے کہ سگھڑ اور پڑھی لکھی خاتون کی طرح گھر بار کو اچھے انداز میں چلائوں مگر نگوڑی مہنگائی ایسا ہونے نہیں دے رہی۔ اوپر سے آپ بھی رعایا خانم کی طرف سے منہ موڑ چکے ہیں اور صرف اور صرف اپنے کرشمہ ساز کھلاڑی پر مہربان ہیں۔ اپنی پیاری راج دلاری رعایا خانم کا حرف شکایت تک سننے کے روا دار نہیں۔ پہلے یوٹیلیٹی اسٹور پر سستا سودا مل جاتا تھا اس دفعہ رمضان میں وہ بھی نہیں ملا باقی آپ بادشاہ ہیں، جو بھی کریں گے بندی کے لئے قابل قبول ہو گا۔

نِکے دے ابا!!

اس بندی کو کل ایک پرانے سیاست جان نے پیغام بھیجا کہ اپنے نِکے دے ابا کو بتا دو کہ کرشمہ ساز کھلاڑی کی ٹیم فنانشل ٹاسک فورس میں بری طرح پٹ کر آئی ہے، اس کی ٹیم کی تیاری بھی مکمل نہیں تھی، وہاں کے نوجوان پروفیشنلز نے ملزموں کے نام لے لے کر پوچھا کہ وہ ملزم کہاں ہے کونسی جیل میں ہے۔ کھلاڑی کی ٹیم کے پاس کوئی جواب نہ تھا۔ میں نے اس پیغام کے جواب میں اسے کہلا بھیجا ہے کہ جھوٹا پروپیگنڈہ بند کر دو، رعایا خانم اب نِکے دے ابا کی ہو چکی، تمہارے ہاتھ آنے والی نہیں اور نہ ہی رعایا خانم ان سیاست جانوں کے بہکاوے میں آکر کوئی تحریک چلائے گی۔

آپ کا اطلاعاتی نیٹ ورک بڑا مضبوط ہے مگر باندی کو بھی روحانی دنیا کی خبریں ملتی رہتی ہیں، فواد جہلمی کچھ بے چین ہو کر بولنے لگا تھا مگر اسے 20رکنی کور کمیٹی کا رکن بنا کر فی الحال اس کا منہ بند کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ کل ہی اس کمیٹی میں عقل کے فروغ اور کراچی سے بادنسیم کے حوالے سے بحث ہوئی اور عدالتی ریفرنس پر کئی اعتراضات کئے گئے۔ سپریم کورٹ بار اور بار کونسلز کے ردعمل پر بھی بات ہوئی مگر یہ طے نہ ہوسکا کہ کرشمہ ساز خود آکر اس ریفرنس کے بارے میں رائے عامہ ہموار کرے گا یا باد نسیم ہی پر چھوڑ دیا جائے گا کہ وہ اس معاملہ کو ہینڈل کرے۔

باندی کا مقصد صرف یہ تھا کہ آپ ان حوالوں سے کرشمہ ساز سے بات کرلیں رعایا خانم تو جیسے تیسے گزارا کرلے گی مگر فنانشل ٹاسک فورس اور عدالتی ریفرنس حالات کو خراب کرسکتے ہیں۔ آپ سمجھائیں گے تو وہ سمجھ جائے گا، بہتر ہوگا کہ بجٹ کے بعد پنجاب اور پختونخوا کے بادشاہ بھی بدلوا دیں اس سے بہتوں کا بھلا ہوگا۔

نکے دے ابا!!!

آخر میں آپ سے گزارش ہے کہ آپ ’’رعایا خانم‘‘ کو دل سے معاف کردیں۔ آئندہ بھول کر بھی آپ سے مہنگائی اور کرشمہ ساز دونوں کی برائی نہیں کروں گی۔ مجھے صرف پیڑ کھانے سے غرض ہے پیڑ گننے سے ہرگز نہیں۔

والسلام

آپ کی گھونگھٹ دار باندی

رعایا خانم

بشکریہ روزنامہ جنگ
 
Top